ڈاکٹرمشتاق صدیقی
اُردو،گوجری اور پہاڑی زبانوں کالسانی و ادبی اشتراک
ایک سروے کے مطابق دنیا میں زبانوں کے کل آٹھ خاندان ہیں۔ اُردو کا تعلق زبانوں کے آٹھویں خاندان سے ہے۔ جس کا نام ہند یورپی ہے۔ ہند یورپی خاندان،ہندایرانی سے ہوتا ہوا ہند آریائی پرآپہنچتا ہے اورپھرماہرین لسانیات نے ہند آریائی کو مزید تین ادوار میں منقسم کیا ہے جو اس طرح سے ہیں۔قدیم ہندآریائی،وسطی ہندآریائی اور جدید آریائی۔قدیم ہندآریائی میں پالی،وسطی ہندآریائی پراکرت اورجدید آریائی میں اپ بھرنش کا چلن رہا۔اِن ادوار میں درجنوں بولیاں پروان چڑھتی رہی جن میں سے بعض نے ادبی روپ دھار کرباضابطہ طور پرزبان ہونے کادعویٰ پیش کیا اور بعض زبانیں کامیاب بھی ہو گی۔جنہیں حکومت وقت نے بھی تسلیم کر کے زبانوں کے آئینی شڈیول میں توقیر بخشی۔
قدیم ہند آریائی کا زمانہ 1500ق م سے لیکر 500ق م تک کاہے جبکہ وسطی ہند آریائی کا زمانہ 500ق م سے لیکر 1000ء تک کاہے اور جدید ہند آریائی کا زمانہ 1000ء تاحال کاہے۔ قدیم دور میں ویدک اور سنسکرت زبانوں کا رواج عام تھا ۔اس دور میں چار وید یعنی رگ وید، سام وید،یجر وید اور اتھرم وید بھی وجود میں آئے ۔ اس دور میں ہر قسم کے ادبی اور سائنسی مطالعے کے لیے سنسکرت کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔قدیم سنسکرت پرآریاوْں کی آمد کابڑا اثر پڑاجس کی وجہ سے سنسکرت کے تین مختلف روپ سامنے آئے۔پہلا اور قدیم روپ وہ تھاجب آریاپنجاب کے راستے سے داخل ہو کرشمال کے اکثر حصوں پر قابض ہو چکے تھے۔دوسرا روپ سنسکرت کی وسطی بولی کا ہے جب آریا مدھیہ پردیش تک پہنچ جاتے ہیں ۔تیسراا ور آخری روپ مشرقی بولی کا ہے۔ جب آریا مشرقی ہندوستان تک پہنچ جاتے ہیں۔ان علاقوں کی زبانین دیسی بولیوں سے مل کراپنا اصل لہجہ کھو رہی تھیں ۔مغربی ہندوستان کے آریا نہ صرف انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے بلکہ اسوروں کی نسل سے تعبیر کرتے تھے۔سنسکرت زبان کے سب سے بڑے قاعد نویس پاننی کا تعلق بھی اسی دور سے ہے۔ویدوں کے بعد برہمنہ اور اپنیشدبھی تخلیق کی گئی جن کا تعلق براۂ راست سنسکرت زبان سے ہی جا ملتا ہے۔
عین زمانے میں بدھ مت اور جین مت والوں نے اپنے اپنے مذہیب کا پرچار مقامی زبانوں میں کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے مقامی بولیاں چمک اٹھی اور سنسکرت کے عالموں اور وید مذہب کے علمبرداروں کو یہ اندیشہ ہونے لگاکہ کہیں سنسکرت پھر سے مقامی بولیوں کی زد میں آکر اپنا ادبی روپ نہ کھو دے اس لیے یہ اپنی زبان کی سختی سے حفاظت کرنے لگے۔نتیجہ کے طور پرسنسکرت دیو بانی تو بن گئی لیکن عوام سے اس کی مقبولیت کم ہونے لگی۔سنسکرت کے عالموں اور مذہبی کھلاڑیوں نے زبان کے لسانی پہلو پرپھر سے کام کرکے شدھ کیا اور سنسکرت نام رکھا۔
وسطی ہند آریائی کازمانہ 500ق م سے 1000ء تک کا ہے۔جسے ماہرین نے ارتقائی خصوصیات کے بناء ُپرمذید تین ادوار میں تقسیم کر دیتے ہیں جو اس طرح سے ہیں:
۱۔پہلا دور پالی ۲۔دوسرا دور پراکرت ۳۔ تیسرا دور اپ بھرنش کا ہے
۱۔یہ دور پالی کا ہے جب سنسکرت دیو بانی بن گئی تھی اور مقامی بولیاں وید زبان کی فطری رجحان پر چل پڑی اور عوام کی ایک مخلوط زبان ہوتی گئی۔پالی کے سب سے قدیم نمونے ہمیں بدھ مت اور جینوں کی مذہبی کتابوں میں ملتے ہیں۔انہوں نے اپنی زبان کو سینے سے لگاکرتحقیقی وتخلیقی کام کیے جوبھی دنیا کی لائبریریوں میں مل جاتے ہیں۔
۲۔یہ دور پراکرت کا ہے ا ور پراکرت کسی ایک زبان کا نام نہیں بلکہ کئی زبانوں کے مجموعے کا نام ہے۔پراکرت کا مطلب ہی ہوتا ہے ،ایسی زبانیں جوفطری طور پرپھل پھول رہی ہوں۔ اس عہد میں پراکرت کی پانچ واضع شکلوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔مہاراشٹری ۲۔شورسینی ۳۔ماگدھی ۴۔اردھ ماگدھی ۵۔پشاچی
۱۔مہاراشٹری: یہ جنوب کی پراکرت تھی۔مراٹھی اسی سے نکلی ہے۔
۲۔شورسینی:یہ شورسین کے علاقے کی زبان تھی جس کا مرکز متھرا تھا۔گوجری کا لسانی ،تاریخی اور اردو کا تاریخی رشتہ اسی سے جا ملتا ہے۔
۳۔ماگدھی: یہ مشرقی ہندوستان کی زبان تھی جس کا مرکز جنوبی بہار تھا۔
۴۔اردھ ماگدھی:یہ قدیم پراکرت ہے جو شاہی خاندان سے جوڑ جاتی ہے اس کا مقام مشرقی اترپردیس(بہار اور آلہ باد کے درمیانی علاقے) تھے۔
۵۔پشاچی:یہ پنجاب سے لیکر کشمیر تک بولی جاتی ہے۔پہاڑی اسی سے نکلی ہے۔
۳۔ پراکرت کاتیسرا دور اپ بھرنش کا ہے۔جو پنجاب تا راجستھان اور راجستھان تا بنگال تک پھیلی ہوئی تھی۔
جدید ہندآریائی کا زمانہ ایک عیسوی تا حال کا ہے۔یہ زمانہ ہندوستان میں مختلف لسانی،تہذیبی اور سیاسی تبدیلوں کا رہا ہے۔جس سے جدید ہند آریائی زبانوں کے ارتقاء کو کافی تقویت ملی ہے۔اس دور میں سندھی،لہندا،پنجابی،گجراتی،مغربی ہندی اور مشرقی ہندی وغیرہ زبانوں کا کافی بول بالا رہا۔مغربی ہندی کی مذید پانچ بولیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو اس طرح سے ہیں:
۱۔کھڑی بولی ۲۔ہریانی ۳۔برج بھاشا ۴۔قنوجی ۵۔بندیلی
موجودہ ہندی اور اردو کا تعلق کھڑی بولی سے ہی ہے۔ جو دہلی کے اطراف میں بولی جاتی رہی ہے۔
اس ساری بحث کا یہ ماحصل گوجری اور پہاڑی زبانوں کے خاندان اور ان کے گروکا پتہ معلوم کرنا تھا جس بنیاد پر ہم لسانی و دیگر ادبی اشتراک بھی کھوج سکیں۔
گوجری اور پہاڑی زبانیں الگ ہوتے ہوئے بھی کئی اعتبار سے باہم ہیں اور قدامت کے لحاظ سے اپنی ایک خاص اورشاندار تاریخ رکھتی ہیں۔یہ دونوں ہی زبانیں اردو سے قدیم ہیں۔پہاڑی، گوجری سے بھی قدیم زبان ہے۔پہاڑی کا شمار تیسری چوتھی صدی عیسوی کی زبانوں میں ہوتا ہے جب کہ گوجری چھٹی صدی عیسوی سے جا ملتی ہے۔ریاست کے مشہور نقاد یوسف ٹینگ نے پہاڑی کو چندر گپت موریہ کے عہد کی زبان بتائی ہے۔سرجارج گریرسن نے اپنی مشہور کتاب میں پہاڑی زبان کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔اس کے علاوہ محی الدین قادری زور،نذیر مسعودی،ڈاکٹر بین،موتی لال،فیڈرک ڈیو،کے۔ڈی مینی،مختار علی،ڈاکٹر الہیبخش سمیت کئی ماہرین نے بھی اس زبان کی خصوصیت اور تاریخ وتحریک کا ذکر کیا ہے۔
اسی طرح گوجری میں بھی رجارج گریرسن ، رام پرشاد کھٹانہ، ڈاکٹر رفیق انجم اورڈاکٹر جاوید راہی وغیرہ نے گوجری کو چھٹی صدی عیسوی کی زبان بتایاہے۔یہ لوگ گوجری زبان کا ناطہ گجری زبان سے لے جوڑتے ہیں جو گجرات اور راجستھان میں بولی جاتی تھی۔جمیل جالبی نے اُس زبان کی خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔اس لیے گوجری شناش ماہرین جمیل جالبی سمیت ست گرو،امیر خسرو،امین گجراتی، کبیرداس، نظامی، میراں اورشاہباوغیرہ کو گوجری کے قدیم شعراء میں تسلیم کرتے ہیں۔لسانیاتی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سچ مچ قدیم گجری ، موجودہ گوجری کے قریب تر ہے۔
یہ سچ ہے کہ موجودہ گوجری اور پہاڑی زبانوں کا رسم الخط سمیت، ہئیتی ڈھانچہ،شعری و نثری اصناف واسالیب کافی حد تک ایک ہیں اور مذکورہ زبانیں ایک دوسری زبانیں میں رنگی ہوئی ہیں،بہت قریب بھی۔پہاڑی بہت قدیم زبان ہے۔راجہ اشوک نے اس زبان کی ترقی وترویج کے لیے شاردہ کے مقام پرایک لرنگ پوئنٹ قائم کیا تھا جہاں اور بھی کئی مقامی زبانیں قابلِ توجہ رہیں۔پہاڑی کے لییـ یہاں‘‘شاردہ لپی’’ کا رسم الخط ایجاد کیا گیا جو طویل مدت تک روشن رہا۔خشورہ جو ایک زمانے تک پہاڑی رہی۔آج وہ نپال میں مقامی رنگ میں رنگ گئی اور اپنی اصل پہچان کھو بیٹھی۔کافی لوگوں کو تو آج اس زبان کا علم ہی نہیں۔اس کے علاوہ کومانی بھی آج گڑھوالی بن گئی اور مقامی لوگ آج اُسے گڑھوالی ہی بولتے ہیں۔پہاڑی کا شیرازہ آج بھی بکھرا ہوا ہے۔شاہ مکھی،گور مکھی اور نوری نستعلق میں لکھی جا رہی ہے۔پہاڑی کے آج بھی چار بڑے لہجے رائج ہیں۔کاغانی،ہندکو،پوٹھوہاری اور میرپوری۔اِن میں سے پہاڑی کا کاغانی اور ہندکو لہجہ پنجابی کے قریب ہے جب کہ پوٹھوہاری اور میرپوری لہجہ اردو کے قریب ہے اسی لیے زیادہ تر لوگ ان زبانوں میں فرق نہیں کر پاتے اور پہاڑی کو بھی پنجابی کے بیچ ہی روندتے رہتے ہیں۔سال ۱۹۷۸ ء کے بعد جموں و کشمیر سرکار نے مقامی زبانوں کی ترویج و ترقی کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جو آج بھی روشن ہے۔ آس کے بعد یہ زبان عربی فارسی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے اور بہت ترقی کر چکی ہے۔آج اس زبان میں بہت سارا مواد بھی موجود ہے اور بابا غلام شاہ باد شاہ یونی ورسٹی میں اس زباں میں ماسٹر کی ڈگری بھی کر وائی جا رہی ہے۔
ہندوستان میں یہ زبان جموں و کشمیر خصوصاََ پونچھ،راجوری،اوڑی،کرنا میں بولی جاتی ہے ۔لیکن آج لوگ اکثر شہروں اور دوسری من پسند جگہوں پر بھی جا بسے ہیں ۔اس لیے آج پہاڑی لوگ ریاست کے اکثر اضلاع میں آباد مل جاتے ہیں۔جس طرح سے آج زبانیں گلوبل لائزیشن کا اثر قبول کرتی جا رہی ہیں ۔پہاڑی زبان کے ساتھ بھی یہ مسائل درپیش ہیں۔نئی نسل انگریزی کی طرف مائل ہے۔پاکستانی کشمیر میں یہ زبان زیادہ بولی جاتی ہے۔ راولاکوٹ،میر پور،کاغان،ہزارہ،مری،پلندری،مظرآباد اور پنجاب تک بولی جاتی ہے۔حال ہی میں اگ کی ظرح پھیلنے والا گاناــ‘کوکا نک دا کوکا’ خالص پہاڑی زبان میں تھا۔وطن عزیز میں یہ زبان ہماچل پردیس کے بہت سارے علاقاجات میں بولی جاتی ہے۔اس کے علاوہ گڑھوال اور نپال میں بھی رائج ہے۔افغانستان کے قندار والا علاقہ ایک زمانے میں اس زبان کا مرکز رہا۔
ُ پہاڑی کی ماندگوجری بھی ایک قدیم زبان ہے ۔جو ہند آریائی کے دوسرے ادواریعنی پراکرت کی دوسری شاخ ،شورسینی سے ہے۔گوجری بھی پہلے مقامی زبانوں میں لکھی جاتی رہی جیسے کہ گجری وغیرہ۔ ریاست میں کلچرل اکیڈمی کے قیام کے بعدیہ زبان بھی عربی فارسی رسم الخط میں لکھی جانے لگی۔آج یہ زبان بھی ادبی خزانے سے مالا مال ہے۔حال ہی میں پروفیسر رفیق انجم اعوان نے قلم قافلہ نامی کتاب میں گوجری کے تقریباََ ۳۰۰ شعراء کی نشاندہی کی ہے۔اس زبان کے دو خاص اور اہم لہجے ہیں۔ایک الائی وال لہجہ اور دوسرا عام لہجہ۔جدید دور کے گوجری زبان کے ماہرین ایک اور لہجے کا ذکر کرتے ہیں جسے وہ سٹینڈر لہجہ کہتے ہیں اور اس کے علاقے پونچھ بتاتے ہیں۔جموں کشمیر میں گوجرلوگ پونچھ ،راجوری،ریاسی،کٹھوعہ،ڈوڈہ کے علاوہ کشمیر اور خاص جموں شہر میں بھی آباد ہیں۔جموں میں گوجر نگر کے نام سے خاصی اچھی آباد ی والاایک چھوٹا ساشہر آباد ہے۔اسی طرح پاکستانی قبضے والے کشمیر میں بھی گوجراں والاایک خوبصورت آباد ہے۔یہ لوگ گوجری زبان بھی بولتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ جدیدیت یہاں پر بھی غالب آرہی ہے۔
اُردو،گوجری اور پہاڑی زبانوں کا گہرا لین دین ہے۔یہ زبانیں ایک دوسرے کہ بہت قریب ہیں۔اردو کی پیدائش کے بارے میں جن لوگوں نے جو باتیں کی ہیں اور جو شواہد پیش کیے ہیں۔اُن باتوں اور شواہد کو لیکر میں بھی اگر یہ دعوی پیش کر دوں کہ اردو،گوجری یا پہاڑی سے نکلی ہے تو مجھے بھی کوئی نہیں روک سکتا چونکہ اردو کی تاریخ اور لسانی تاریخ میں یہ علاقے کافی اہم رہے ہیں۔جہاں گوجری اور پہاڑی زبانیں بولی جاتی رہی یا پھرجو ان زبانوں کی بھی تاریخ ہے۔قدیم دکنی تو آدھی گوجری اور پہاڑی ہی معلوم ہوتی ہے ۔ملا وجہی کی سب رس بہت حد تک پہاڑی معلوم ہوتی ہے ۔گوجری اور پہاڑی میں سب سے بڑا اورنمایاں فرق واحدجمع کا ہے اور یہاں گوجری زبان،پہاڑی زبان سے زیادہ کمزور دیکھائی دیتی ہے ۔ گوجری میں کئی لفظوں کا جمع ہے ہی نہیں مشلاََ کتاب
جبکہ پہاڑی میں یہی لفظ‘‘اں’’ لگانے سے باآسانی جمع ہو جاتا ہے مشلاََکتاب سے کتاباں
کئی جگہ گوجری میں ‘‘و’’جمع ہوتے وقت ‘‘الف’’ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔مشلاََ
گوجری پہاڑی اردو مطلب
سوٹو سوٹا مطلب ڈنڈا
جندرو جندرا مطلب تالا
گدرو گدرا مطلب لڑکا
کپڑو کپڑا مطلب کپڑا
جب کہ پہاڑی میں مذکورہ لفظ پہلے سے ہی واحد ہیں۔جمع بناتے وقت ‘‘الف’’ /‘‘و’’ میں تبدیل ہو جاتا ہے مشلاََ
سوٹا سے سوٹے
جندرا سے جندرے
گدرا سے گدرے
کپڑا سے کپڑے
تینوں زبانوں میں بعض لفظ ایسے بھی ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے مشلاََ
گوجری پہاڑی اردو
چٹائی / پھوڑی چٹائی /پھوڑی چٹائی
سلائی / سیڑنو سلائی /سیڑنا سلائی
نماز نماز نماز
روضہ /روضو روضہ /روضہ روضہ
حج حج حج وغیرہ
گوجری اور پہاڑی کے تذکرو تانیث میں بھی بعض جگہ فرق اور بعض جگہ دونو باہم ہیں ۔ذیل کی چند مثالوں کو غور سے دیکھیں:
گوجری پہاڑی اردو مطلب
مامو ماما ماں کا بھائی
چاچو چاچا (چچا) باپ کا بھائی
موسو ماسا ماں کی بہن کا گھر والا
تایو تایا باپ کا بھائی جو عمر میں بڑا ہو
پوپھو پوپھا وغیرہ باپ کی بہن کا گھر والا
واحد مونث میں دونوں زبانوں میں کچھ خاص تبدیل نہیں ہوتی جب کہ جمع مونث میں دونوں زبانوں میں ‘‘یاں ’’ لگانے سے جمع بن جاتا ہے۔مشلاََ
مامی سے مامیاں
موسی یا ماسی سے ماسیاں
ُ پوپھی سے پوپھیاں وغیرہ
اردو میں یہ لفظ مومیوں،موسیوں اور پوپھیوں کے نام سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔
گرائمر کے چند قاعدوں پر بھی غور فرمائیں:
اردو میں: یہ کتب بھیگ گئیں
گوجری میں: یہ کتاب پھج گئیں
پہاڑی میں: ایہہ کتاباں سجی گئیاں
تینوں جملوں میں کیفیت ایک سی ہے لیکن حالت الگ الگ ہے۔
دوسرا جملہ:
اردو میں: پونچھ اچھاشہر ہے۔
گوجری میں: پونچھ سونو شہر ہے۔
پہاڑی میں: پونچھ سونا شہر اے۔
مذکورہ جملوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔
تیسرا جملہ:
گوجری میں: بشیر اتنو کہٹیا کام نی کرتو
پہاڑی میں: بشیر اتناکہٹیا کام نی کرنا
دونوں جملوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا۔‘‘نو’’ یا‘‘ تو’’۔ ‘‘نا’’ میں تبدیل ہوا
گوجری میں تشدید کارجحاں تیز تر ہے۔جب کہ پہاڑی میں توازن کے ساتھ ہے مشلاََ کتو۔پہاڑی میں کتا۔
گوجری میں صغیۂ غائب گا،گے،گی۔پہاڑی میں سا،سے،سی میں تبدیل ہوجاتا ہے مشلاََ
گوجری پہاڑی
وہ نوکری ما نھ لگے گو اُو نوکری بچ لگ سی
گوجری اور پہاڑی میں ‘‘ڑ اورڑھ’’کی آواز ‘‘ڈ اور ڈھ’’ میں تبدیل نہیں ہوتی جیسے:
گوجری میں ایک لفظ ہے‘‘ بڈھو’’
پہاڑی میں بھی ‘‘ڈ اور ھ’’ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی جب کہ اردو میں یہی لفظ تبدیل ہو جاتا ہے مشلاََبوڑھا۔
یہاں ‘‘ڈاورھ’’
‘ڑ اور ھ’ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
ان زبانوں کے صرفی اور نحوی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں زبانیں الگ الگ اور اپنا اپنا معیار رکھتی ہیں۔زبانوں میں لفظوں کا لین دین چلتا رہتا ہے۔ان زبانوں میں بہت سارے الفاظ مشترکہ ہیں۔رسم الخط بھی ایک ہی ہے۔ تینوں زبانیں دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہیں۔ پہاڑی کی چند معکوسی آوازوں کے علاوہ تینوں زبانوں کے حروف کی تعدادں ںبھی برابرہے۔تینوں زبانوں میں حسبِ ضروریات اعراب اور رموزِاوقاف کا استعمال ہوتا ہے۔تینوں زبانیں اپنا علاقائی لہجہ رکھتی ہیں۔ پہاڑی میں چار بڑے لہجے بہت مشہور ہیں: ہندکو،پوٹھوہاری،کاغانی اور میر پوری۔ اسی طرح گوجری میں بھی ہزاروی، علائی وال ،کاغا نی اورسٹینڈر لہجہ وغیرہ بہت مشہور ہیں۔باقی تو ماہرین کا یہ قول سو فی صد درست ہے کہ زبانیں ۱۰ویں قد پر بدلتی رہتی ہیں۔گوجری اورپہاڑی زبانوں کا بھی یہی حال ہے۔منڈی میں تشریف رکھنے کو بیٹھ بولتے ہیں جب کہ یہی لفظ مہنڈری پہاڑی میں‘‘بھو’’بولا جاتا ہے۔اسی طرح پونچھی گوجری میں ساتھ یا ہمراہ کا لفظ‘‘ نال’’کے طور پر استعمال ہوتا ہے جب کہ یہی لفظ راجوری میں میں ‘‘ سنگ’’ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔پونچھی گوجری کا لفظی معنی درست ہے جب کہ راجوری میں رائج لفظ کا لفظی معنی غلط ہے۔مراد اور مفہوم دونوں زبانوں میں ایک ہی ہے اور لوگ بولی کے طور پر سمجھ لیتے ہیں۔
گوجری اور پہاڑی میں کئی ایسے لفظ ہیں جو معنی و مفہوم کی مناسبت سے باہم ہوتے ہوے بھی گرائمر کے لحاظ سے بہت دور ہیں اور ان کے صوت میں بھی نمایاں فرق آجاتا ہے مشلاََ
گوجری پہاری
اپنو اپنا
کھڑو کھڑا
جندرو جندرا
ڈیرو ڈیرا وغیرہ۔
کئی ایسے لفظ بھی ہیں جو مشترکہ ہیں مشلاََ
گوجری پہاری
کھڑکی کھڑکی
کتاب کتاب
پیشی پیشی
شام شام
نماشاں نماشاں
کفتاں کفتاں وغیرہ
گوجری اور پہاڑی میں سب سے زیادہ اور نمایاں فرق واحد جمع کا ہے اور یہاں گوجری زباں پہاڑی سے زیادہ کمزور نظر آتی ہے۔گوجری میں کئی لفظوں کے جمع ہیں ہی نہیں۔ مشلاََ کتاب
جب کہ پہاڑی میں یہی لفظ ‘‘اں’’لگانے سے با آسانی جمع بن جاتا ہے مشلاََ کتاب سے کتاباں
کئی جگہ گوجری میں ‘‘و’’ جمع ہوتے وقت ‘‘الف’’ میں تبدیل ہوجاتا ہے مشلاََ
واحد جمع
سوٹو سوٹا
جندرو جندرا
گدرو گدرا
کپڑو کپڑا وغیرہ
جب کہ پہاڑی میں مذکورہ بالا گوجری کے جمع لفظ پہاڑی میں واحد ہی ہیں۔پہاڑی میں ان لفظوں کا جمع بناتے وقت‘‘الف’’ بڑی‘‘ے’’ میں تبدیل ہو جاتا ہے مشلاََ
واحد جمع
سوٹا سوٹے
جندرا جندرے
گدرا گدرے
کپڑا کپڑے وغیرہ
گوجری میں مذکرکے لیے‘‘و’’اورپہاڑی میں‘‘الف’’ کا استعمال ہوتا ہے۔مشلاََ
مذکر مونث
مامو ماما
چاچو چچا
پھوپھو پھوپھا
موسو ماسا
تائیو تائیا وغیرہ۔
واحد مونث میں دونوں زبانوں میں تبدیلی نہیں ہوتی جب کہ جمع مونث میں دونوں زبانوں میں‘‘یاں’’کا استعمال ہوتا ہے۔
پہاڑی کی طرح گوجری بھی زبانوں کے ہند آریائی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے لیکن گوجری کی نسبت پہاڑی زبان ریاست میں اپنی قدامت کی دعویدار ہے۔ گوجر اور پہاڑی ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی زبان سے بخوبی آشنا ہیں۔ ان دونوں زبانوں کا آپس میں کئی اعتبار سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ پہاڑی کی طرح گوجری بھی ریاست جموں و کشمیر سے باہر بھی بولی جاتی ہے اور اپنے قدیم ادبی ورثے کے اعتبار سے جو قدیم اُردو کے نام سے مشہور ہے اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ پہاڑی کی طرح گوجری کا رسم الخط بھی فارسی ہے اور ہماری تحقیق کے مطابق اس کی آواز میں یعنی حروف تہجی کی تعداد پہاڑی کے حروف تہجی کے برابر یعنی ۶۶ ہے۔ لیکن چونکہ پہاڑی کی طرح اس زبان میں بھی لسانیاتی میدان میں کوئی کام نہیں ہوا ہے اس لیے آج تک اس کی اصوات کی تعداد کا تعین نہیں ہو سکا اور گوجری لکھنے والے پہاڑی لکھنے والوں کی طرح اُسی پرانے ڈگر پر چل رہے ہیں۔ یعنی لکھتے کچھ ہیں اور پڑھتے کچھ ہیں۔
ڈاکٹر صابر آفاقی نے گوجری میں ۲ 5 موجوری حروف کا ذکر کیاہے۔ پہاڑی اور اردو کی اصوات ہمیں بالکل ایک ہی اور برابر دکھائی دیتی ہیں۔ معکوسی نون اور‘ ز’ کی درمیانی آواز جسے بین الاقوامی رسم الخط میں L ظاہر کیا جاتاہے۔ دونوں زبانوں میں پائی جاتی ہیں لیکن گوجری میں مؤخر الذکر آواز L کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عبد الغفار شکیل نے اپنے مضمون ” میسور کی دکنی اردو میں اس آواز کو فارسی رسم الخط میں ذیل کی علامت سے ظاہر کیا ہے۔
International Phonetic Alphabet ہماری تحقیق کے نزدیک(IPA) کی روشنی میں ڈاکٹر موصوف کی وضع کردہ یہ علامت حقیقت کے بہت قریب ہے اور اس سے اس آواز کے صحیح تلفظ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی لیکن اس آواز کو پہاڑی میں ادا کرنے کی صورت میں اس کی شکل بالکل تبدیل ہو جاتی ہے۔ پہاڑی کے جن الفاظ میں یہ آواز موجود ہے وہ الفاظ گوجری میں بھی موجود ہیں ۔
ڈاکٹر گریرسن نے گوجری زبان کو میونز Meos/ قبیلے کی زبان میواتی Mewati/ کے قریب تر بتایا ہے۔ وہ گوجری اور میواتی کے قدیم ذخیرہ الفاظ میں مماثلت کی بنا پر یہ رائے قائم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق میونز Meos/ کے اصل وطن origin/کے بارے میں علم الانسان کے ماہرین Ethnologists/ بسیار تحقیق کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔وہ گوجری زبان کے بارے میں لکھتے ہیں:
”Putting the linguistic position of Gujri in its brodest terms, we may say that it is related to the dialects of East Central Rajputana and that its closest relative is Mewati”.
(Linguistic Survey of India)
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو، گوجری اور پہاڑی زبانیں الگ ہوتے ہوئے بھی کئی اعتبار سے باہم ہیں اور قدامت کے حوالے سے اپنی ایک خاص اورشاندار تاریخ رکھتی ہیں۔یہ دونوں ہی زبانیں اردو سے قدیم ہیں۔پہاڑی، گوجری سے قدیم زبان ہے۔پہاڑی کا شمار تیسری چوتھی صدی عیسوی کی زبانوں میں ہوتا ہے جب کہ گوجری چھٹی صدی عیسوی سے جا ملتی ہے۔ریاست کے مشہور نقاد یوسف ٹینگ نے پہاڑی کو چندر گپت موریہ کے عہد کی زبان بتائی ہے۔سرجارج گریرسن نے اپنی مشہور کتاب میں پہاڑی زبان کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔اس کے علاوہ محی الدین قادری زور،نذیر مسعودی،ڈاکٹر بین،موتی لال،فیڈرک ڈیو،کے۔ڈی مینی،مختار علی،ڈاکٹر الہیٰ بخش سمیت کئی ماہرین نے بھی اس زبان کی خصوصیت اور تاریخ وتحریک کا ذکر کیا ہے۔
اسی طرح گوجری میں بھی رجارج گریرسن ، رام پرشاد کھٹانہ، ڈاکٹر رفیق انجم اورڈاکٹر جاوید راہی ، وغیرہ نے گوجری کو چھٹی صدی عیسوی کی زبان بتائی ہے۔یہ لوگ گوجری زبان کا ناطہ گجری زبان سے لے جوڑتے ہیں جو گجرات اور راجستھان میں بولی جاتی تھی۔جمیل جالبی نے اُس زبان کی خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔گجری کے قدیم شعراء جن میں ست گرو،امیر خسرو،امین گجراتی، کبیرداس، نظامی، میراں اورشاہباجن وغیرہ کو یہ لوگ گوجری کے قدیم شعراء تسلیم کرتے ہیں۔لسانیاتی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سچ مچ قدیم گجری ، موجودہ گوجری کے قریب تر ہے۔
دونوں زبانوں کا موجودہ رسم الخط ایک ہی ہے۔دونوں کے ہیئتی ڈھانچے میں بھی کوئی زیادہ فرق نہیں۔دونوں زبانیں میں شعری و نثری قاعدے اردو والے ہی رائج ہیں۔بعض اصطلاحات ہوبہو در آتی ہیں۔دونوزبانوں کے لوک ادب میں محاورے، کہاوتیں، چٹکلے، بجھارتیں، کہانیاں،بیت،گیت اور سی حرفیاں شامل ہیں۔ راجہ اشوک کے عہد میں پہاڑی کا رسم الخط شاردہ لپی رہا ہے۔پہاڑی کئی بادشاہوں کی درباری زبان بھی رہی ہے۔اسی لیے پہاڑی زبان کو قدامت کے لحاظ سے ایک جاندار زبان مانا گیا ہے۔پہاڑی میں اس وقت گوجری سے زیادہ مواد موجود ہے لیکن اس وقت پہاڑی سے زیادہ لوگ گوجری میں لکھ جا رہا ہے۔ اور یہ لوگ اپنی ماں بولی کے زیادہ فکرمند نظر آتے ہیں۔ ان تینوں زبانوں کا لسانی و ادبی اشتراک خوب سے خوب تر اور دلچسب ہے۔
٭٭٭