مہر النساء
پی ایچ ۔ ڈی اسکالر بابا غلام شاہ بادشاہ یونی ورسٹی
اکیسویں صدی کے پس منظر میں بشیر ملیر کوٹلوی کی افسانہ نگاری
بشیر ملیر کوٹلوی کا تعلق ہندستان کی ریاست پنجاب سے ہے ۔ پنجاب میں مادری زبان یعنی پنجابی کو جس شدت سے اہمیت دی جاتی ہے اس کی مثال ہمیں کہیں نہیں ملتی ۔ کوئی بھی مذہب ہو ، ذات ہو ، سماج ہو پنجابی زبان سب کے لیے فطری ہے ۔ اب ایسی جگہ سے اٹھ کر اردو ادب میں شہرت حاصل کرنا کوئی عام بات نہیں ہے ۔ یہ کارنامہ ہے بشیر ملیر کوٹلوی کا ۔ یوں تو بشیر ملیرکوٹلوی کی پیدائش ۱۹۵۰ء میں ہوئی اور ۱۹۷۴ء سے انھوں نے باقاعدہ طور پر افسانے لکھنے شروع کر دیے تھے ۔ بیسویں صدی کے آخر میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ قدم قدم دوزخ ‘‘ بھی کافی مقبول ہوا تھا مگر ادبی دنیا میں ان کے نام نے اکیسویں صدی میں ہی شہرت حاصل کی ہے ۔
بشیر مالیر کوٹلوی نے اکیسویں صدی میں بڑی تعداد میں افسانے لکھے ہیں ۔ ۲۰۰۰ء کے بعد ان کے چار افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن کے عناوین یوں ہیں : ’’ چنگاریاں ‘‘( ۲۰۰۷ء)، ’’ کرب آگہی ‘‘ ( ۲۰۱۳ء) ، ’’زندگی زندگی ‘‘ ( ۲۰۱۵ء) ، ’’ فکرت ‘‘ ( ۲۰۱۹ء)۔ موصوف کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے کبھی روایت کو ترجیح نہیں دی ۔ وہ اپنے عہد کے نبض شناس ہیں اس لیے ان کے افسانے اپنے عہد کے ترجمان ہیں ۔ موجودہ دور کے ہر مسئلے پر انھوں نے افسانے لکھے ہیں ۔
اکیسویں صدی نے جہاں سائنس اور ٹکنالوجی کے سبب الگ پہچان بنائی ہے وہیں سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل بھی اس صدی کے منفرد ہیں ۔ سائنس اور ٹکنالوجی نے جس طرح سے عام انسانی زندگی کو متاثر کیا ہے اسی طرح سے بے شمار ایسے مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں جس نے بیسویں صدی کی روایت کو پوری طرح سے بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اب فاصلے ختم ہوچکے ہیں اور دنیا عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ ٹکنالوجی نے کمنیکیشن کا ایسا جال بچھایا ہے کہ لوگ دنیا کے کونے کونے سے جڑ چکے ہیں ۔ دوسری طرف عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کا مقابلہ دن بہ دن دنیا میں خوف کا باعث بنتا جا رہا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا دنیا اب بارود کے ڈھیر پر ناچ رہی ہے ، بس ایک چنگاری کی ضرورت ہے اور لمحوں میں دنیا راکھ بن سکتی ہے ۔
سائنس ، ٹکنالوجی اور عالمی مسائل کے علاوہ عام انسان کی زندگی کئی مقامی مسائل سے بھی متاثر ہوتی رہی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشی سطح پر بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ سیاسی منظرنامہ بدل رہا ہے ، انسان دن بہ دن انسانیت سے کنارہ کشی کر کے مشینی دنیا کا حصہ بنتا جا رہا ہے ، فرقہ پرستی اب مزید جڑ پکڑتی جا رہی ہے ، خواتین کی پریشانیاں حل ہونے کے بجائے مزید الجھتی جا رہی ہیں ، انسان نفسیات کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کا بھی شکار ہو رہا ہے اور انسانی زندگی آسان ہونے کے بجائے مزید پریشانیوں میں الجھتی جا رہی ہے ۔ یہ وہ مسائل ہیں جو اکیسویں صدی کو منفرد بنا دیتے ہیں ۔ اتنے مسائل کے رہتے ہوئے اگر کوئی ادیب ان سے متاثر نہ ہو یا روایت کا پاسدار ہو تو اسے ادیب کہنا بھی غیر مناسب ہوگا ۔ ہر ادیب کا فرض ہے کہ وہ اپنے عہد کا آئینہ دار بنے ۔بشیر ملیر کوٹلوی اس معاملے میں سب سے آگے ہیں ۔ ان کے افسانے ان کے عہد کے واقعات بیان کرتے ہیں ۔ وہ روایت اور عشق و عاشقی جیسے مسائل کو منہ نہیں لگاتے۔ اسلم جمشید پوری ان کے فن اور موضوع پر بحث کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ :
’’ بشیر مالیر کوٹلی نے اپنے افسانوں میں ہمیشہ نت نئے موضوعات کو ترجیح دی ۔ تازہ
ترین معاملات و واقعات کو وہ ہمیشہ اپنے افسانوں کا موضوع بناتے رہے ہیں ، یہ
ان کے ہمہ وقت بیدار رہنے اور خارجی دنیا سے رابطے میں رہنے کا ثبوت ہے ۔ ان
کے افسانوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ فن ِ افسانہ نگاری پر کھرے اترتے ہیں ۔ بشیر
صاحب کی نظر افسانے کے ہر پہلو پر ہوتی ہے ۔ پہلے تو وہ افسانے کے تانے بانے
، ذہنی زمین پر بنتے ہیں ، جب انہیں لگتا ہے کہ اب افسانہ ہر کھونٹ ، درست ہے تب
وہ اسے صفحات پر اتارتے ہیں ۔ ‘‘
( تجزیے ( ناول ، ناولٹ اور افسانوں کے تجزیے ) ، اسلم جمشید پوری ، ۲۰۱۸، ص ۱۹۲)
اب ہم اکیسویں صدی کے پس منظر میں ان کے چند افسانوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔
بشیر ملیر کوٹلوی کا افسانہ ’’ بامشقت ‘‘ تین طلاق کو موضوع بناتا ہے ۔ تین طلاق کو ۲۰۲۰ ء میں مرکزی حکومت نے باقاعدہ طور پر بند کردیا تھا اور اس کے خلاف سخت قانون بنائے تھے ۔ اس معاملے پر پورے ہندستان میں سیاست گرم رہی تھی ۔ بشیر ملیر کوٹلی نے تین طلاق کے حوالے سے اپنے جذبات افسانہ ’’ بامشقت ‘‘ میں پیش کیے ہیں ۔ اس افسانے کی کہانی مریم بیگم نامی ایک خاتون کے ارد گرد گھومتی ہے ۔ مریم اور اس کا شوہر وحید مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ دن کو کماتے ہیں اور رات کو کھاتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی زندگی میں سکون ہے ۔ بچوں کی پرورش میں بھی کوئی کمی نہیں ہے ۔ مریم ذہنی طور پر کافی فرینک ہوتی ہے ۔ پرویز نامی ایک لڑکا اسکول کے دنوں سے اس کا دوست ہوا کرتا تھا ۔ کافی عرصے کے بعد پرویز دوبارہ دوست کی حیثیت سے مریم کی زندگی میں داخل ہوجاتا ہے ۔ ان کی دن بہ دن بڑھتی قربتیں وحید کے لیے پریشانی کا سبب بن جاتی ہیں۔ پرویز اکثر اس کے گھر آتا اور مریم کے ساتھ کھل کر رہتا ۔ یہاں تک کہ مریم کو ڈانس بھی سکھانے کی کوشش کرتا ۔ اس کے علاوہ پرویز فون کے ذریعے بھی مریم سے رابطہ رکھتا ۔ وحید کے برداشت کی حدیں ایک دن ٹوٹ جاتی ہیں اور وہ مریم کے ساتھ مار پیٹ کرتا ہے ۔ مریم اپنی صفائیاں پیش کرتی ہے مگر اب ان کا وحید پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کچھ دنوں بعد وحید پھر مریم کے ساتھ مارپیٹ کرتا ہے۔ یہ مارپیٹ اتنی بڑھ گئی کہ وحید غصے میں مریم کو تین طلاق دے دیتا ہے ۔ اور اب تین طلاق قانوناً جرم بن چکا تھا ۔ وحید کا تین طلاق کہنا گاؤں والوں نے سن لیا تھا ۔ مریم کے بھائی وحید کے خلاف کیس کرتے ہیں اور حکومت وحید کو تین سال کے لیے قید کرلیتی ہے۔ مریم کی پریشانیاں اب عروج تک پہنچ جاتی ہیں ۔ افسانے کے اختتام پر ہمیں جہاں وحید کے کردار سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے وہیں مریم کی پریشانیاں بھی ہماری آنکھیں نم کر دیتی ہیں ۔ مصنف نے تین طلاق کے معاملے کو اس افسانے میں بڑی چبکدستی سے پیش کیا ہے ۔
اکیسویں صدی کی نوجوان نسل نفسیاتی طور پر کن مسائل سے جھوج رہی ہے اس کو سمجھنا بھی عام قارئین کے لیے نہایت ہی اہم ہے ۔ بشیر ملیر کوٹلوی نے اس مسئلے کو افسانہ ’’ آسیب ‘‘ میں پیش کیا ہے ۔ موجودہ دور میں جہاں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے انسان کے جنسی جذبات کو بھڑکانے کے لیے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں وہیں والدین بھی بچوں کے تئیں کافی لاپرواہ ہوچکے ہیں ۔ یہ اسی لاپروائی کا نتیجہ ہے کہ اب اکثر لیٹ میریج کا رواج شروع ہوچکا ہے ۔ اس پورے مسئلے کو پیش کرنے کے لیے مصنف نے ’’ رمیش ‘‘ کے کردار کو مرکز بنایا ہے ۔ رمیش ستائس سال کا ہے مگر ابھی تک اس کی شادی کے متعلق اس کے والدین بے فکر ہیں ۔ اور المیہ تو یہ ہے کہ ابھی اس کی بڑی بہن کی شادی کے حوالے سے بھی گھر میں کوئی چرچہ نہیں ہوتی ، جس کی عمر تیس سال ہے ۔ رمیش اکثر اپنے جنسی جذبات سے الجھتا رہتا ہے اور ان سے اپنے ذہن کو بھٹکانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ ایک دن انہی جذبات سے پیچھا چھوڑانے کی خاطر وہ گھر سے باہر نکل کر ایک ہوٹل میں داخل ہوتا ہے ۔ یہاں وہ اپنے آپ کوبھلانے کی کوشش تو کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ وہ جیسے ہی سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے تو اس کی نظریں اسی پوسٹ ، تصویر یا ویڈیو پر پڑتی ہیں جن سے اس کے جذبات مزید بڑھکتے ہیں ۔ فون بند کرتا ہے تو سامنے خواتین پر نظر پڑ تی ہے ۔ اس دور میں خواتین کا لباس بھی مردوں کی نفسیات کو متاثر کرتا ہے ۔ لہذا رمیش بھی ایک عام انسان ہے ۔ ایسی خواتین کو دیکھنے سے اس کے جذبات مزید بڑھکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ رمیش اتنا بے قابو ہوجاتا ہے کہ ایک چھوٹی سی بچی کو اپنے ساتھ لپیٹ لیتا ہے ۔ بچی کی چیخیں سن کراس کی ماں وہاں پہنچ جاتی ہے اور ایک بڑا گناہ ہونے سے بچ جاتا ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی افسانہ ہے مگر جس مسئلے کو مصنف نے اٹھایا ہے وہ بڑا اہم ہے۔ اور پھر اس کو پیش کرنے کا انداز بھی لاجواب ہے ۔
اکیسویں صدی میں ہمارا سماج مغربیت کا پیچھا کرتے کرتے اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ جہاں حیا اور لحاظ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ مغربی کلچر کی کچھ ایسی رسمیں ہیں کہ جن کے بارے میں سن کر ایک باشعور انسان کانپ جاتا ہے ۔ اب اس کلچر کے اثرات ہمارے ہاں بھی عام ہو رہے ہیں ۔ کچھ تو مجبوراً ان رسموں کو اپناتے ہیں اور بعض خوشی خوشی قبول کر لیتے ہیں ۔ بشیر ملیر کوٹلوی کا افسانہ ’’ اہل کتاب ‘‘ اسی مسئلے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے ۔ اس افسانے کا بنیادی موضوع انسانی غربت ، مجبوری اور لاچاری ہے اور ان حالات میں انسان اپنی اور اپنے گھروالوں کی بھلائی کے لیے جس حد تک پہنچتا ہے وہ اکیسویں صدی کے سماج کا ایک بڑا سانحہ ہے ۔ اس سانحہ کو ہم Same Sex Marriage کے نام سے جانتے ہیں ۔ اس افسانے کا کردار مظہر جب اپنے گھر کی غربت کو دور کرنے کے لیے ہالینڈ جاتا ہے تو اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ وہاں کی شہریت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ شہریت ہالینڈ ششکی کسی لڑکی سے شادی کرکے ہی حاصل ہوسکتی تھی مگر مظہر کسی لڑکی کو تلاش نہیں کر پایا ۔ آخر کار مجبوراً وہ مائیکل ڈسوزا نامی ایک مرد سے شادی کرلیتا ہے ۔ اس افسانے کا اختتام قارئین کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔
افسانہ ’’ فلاح ‘‘ ہمارے سماج میں معصوم ، غریب ، لاچار اور یتیم نابالغ بچوں پر ہورہے مظالم کو موضوع بناتا ہے ۔ اور پھر ان نا بالغ بچوں کی فلاح اور بہبودی کے حوالے سے حکومت کے رویے اور کردار کو بھی یہ افسانہ پیش کرتا ہے ۔ اس افسانے کا مرکزی کردار آٹھ سالہ دینو نامی ایک بچہ ہے ۔ اس کے والدین کے بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا ۔ ایک بکھارن نے کچرے کے ڈبے سے نکال کر اس کی پرورش کی تھی ۔ مگراب وہ بکھارن بھی گزر گئی تھی ۔ اس لیے مجبور ہوکر وہ ایک ڈھابے میں کام کرنے لگتا ہے۔ ڈھابے کا مالک مکھن سنگھ اس سے خوب کام کرواتا تھا ۔ دینو کی ایک بہت بری عادت تھی کہ وہ ہمیشہ سچ بولتا تھا ۔ ایک دن اچانک پولیس ڈھابے پر پہنچ جاتی ہے ۔ مکھن لال پولیس کے ہتھے چڑ جاتا ہے مگر جھوٹ موٹ بول کر خود کو بچانے کی کوشش تو کرتا ہے مگر دینو جھوٹ نہیں بول پاتا۔ نا بالغ بچوں کو کام پر رکھنا قانونی طور پر جرم ہے ۔ مگر آج کی حکومت رشوت اور سفارشوں کے ذریعے قانون کی پامالی کرنے کو ہر وقت تیار رہتی ہے ۔ یہی طریقہ مکھن لال نے اپنایا ۔ اس افسانے کا اختتام یوں ہوتا ہے :
’’ سوٹ والا آفیسر اور دوسرے آدمی کاروائی مکمل کرکے آہستہ آہستہ
جانے لگے ، مکھن لال جو دینو کی باتوں سے جلا بھنا بیٹھا تھا ، اٹھا اور
دینو کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا لاتوں اور گھونسوں سے مارنے لگا ۔
دینو بلبلارہا تھا اور مدد کے لیے چیخ رہا تھا ۔ بچوں کی فلاح و بہبودی
کا کام نپٹا کر سرکاری عملہ کافی دور جا چکا تھا ۔ ‘‘
( افسانہ : فلاح ، از بشیر ملیر کوٹلی )
نئے مسائل کے حوالے سے یہ ایک اہم افسانہ ہے اور اس افسانے میں بشیر ملیر کوٹلوی کا فن عروج پر نظر آتا ہے ۔
افسانہ ’’ وچن ‘‘ خواتین کا استحصال اور اس کی بے قدری کو موضوع بناتا ہے ۔ دنیا اگرچہ اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے مگر مردوں کی نظروں میں خواتین کی اہمیت آج بھی دل بہلاوے اور تفریح سے بڑھ کر نہیں ہے ۔ اکیسویں صدی کی ان دو دہائیوں میں عورت کی بے قدری اور عصمت ریزی کے متعلق ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس افسانے میں منگت رام نامی ایک بزرگ سرپنچ ،شربتی نامی ایک معصوم لڑکی کے جسم کا پیاسا بن جاتا ہے ۔ لیکن پھر بھی لڑکی اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے ۔ سرپنچ ایک سازش کے تحت اس پر حملہ کرتا ہے مگر لڑکی اپنی بہادر ی کے سبب اس کے چنگل سے بھاگ جاتی ہے ۔ پھر یہ معاملہ پنچایت میں جاتا ہے اور پنچایت سرپنچ کے حق میں ہی فیصلہ سناتی ہے ۔ یہ فیصلہ شربتی کو برداشت نہ ہوا اور اس نے پنچایت والوں کو کھری کھوٹی سنانی شروع کردی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنچایت والے شربتی پر ٹوٹ پڑے ۔ پتھروں سے اس پر بارش کر دی ۔ اور پتھروں کی اسی بارش نے اس کی سانسیں روک دیں ۔ شربتی نے اپنی عزت بچانے کا جو وچن لیا تھا وہ اس نے اپنی جان قربان کر کے پورا کیا ۔ شربتی بہت بہادر تھی مگر مرد اساس طبقے میں اس کی بہادری بھی بے کار ثابت ہوئی ۔ اس افسانے کے ذریعے بشیر ملیر کوٹلوی نے موجودہ سماج کو پوری طرح سے ننگا کردیا ہے ۔
اکیسویں صدی میں مردوں کے جنسی جذبات نے کافی شدت اختیار کی ہے ۔ ہوس نے انھیں انسان سے حیوان بنا دیا ہے ۔ اور اس ہوس کا شکار کئی چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں بھی ہوئی ہیں ۔ افسانہ ’’ ڈسچارج سلِپ‘‘ میں ایک منہ بولا ماموں ایک معصوم نا بالغ بچی کو اپنی ہوس کا شکار بنا کر بھاگ جاتا ہے ۔اور بچی کو چار دن بعد اسپتال میں ہوش آتا ہے ۔ اکیسویں صدی کی ان دو دہائیوں میں ہمیں اس طرح کے کئی واقعات سننے کو ملے ہیں۔ بشیر ملیر کوٹلوی نے اس افسانے میں نابالغ بچیوں کی حفاظت پر سوال اٹھایا ہے ۔ مصنف نے ایک بچی کے ذریعے ایک انسان کو حیوان بنتے ہوئے دکھایا ہے ۔اس افسانے کے ذریعے انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہمیں اپنی بچیوں کو ان کے پوشیدہ اعضاء کی اہمیت جتا کر ان کو خبردار کر دینا چاہئے ۔
افسانہ ’’ کون ہے یہ۔۔ ؟ ‘‘ میں شیلا راجپوت نامی ایک لڑکی کو تین لوگ مل کر پہلے اغوا کرتے ہیں اور پھر بڑی بے رحمی سے اسے اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں ۔ ریپ کرکے مجرم تو بھاگ جاتے ہیں اور لڑکی کو اسپتال میں داخل کردیا جاتا ہے جہاں وہ کوما میں چلی جاتی ہے ۔ یہاں ایک بے گناہ لڑکا اس لڑکی کے ساتھ رہتا ہے ۔ لڑکی کے والدین اور پولیس کے ساتھ ساتھ میڈیا والے بھی اسے مجرم سمجھ لیتے ہیں ۔ اس افسانے کا مکمل ماحول اکیسویں صدی کا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ مذکورہ بالا مسائل خالص اکیسویں صدی میں ابھرے ہیں مگر ان مسائل کے حوالے سے جو ماحول اور پس منظر پیش کیا گیا ہے وہ خالص اکیسویں صدی کا دین ہے ۔ اسی طرح بشیر ملیر کوٹلوی نے اپنے دوسرے افسانوں میں بھی اکیسویں صدی کے ہی ماحول کو موضوع بنایا ہے ۔ من جملہ ہمیں یہ عتراف کرنا پڑتا ہے کہ وہ اکیسویں صدی کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں ۔
***