You are currently viewing بال مکند بے صبرکی’’ گلستانِ ہند‘‘:تقی عابدی کا نیا کارنامہ

بال مکند بے صبرکی’’ گلستانِ ہند‘‘:تقی عابدی کا نیا کارنامہ

وجے کمار

 ریسرچ اسکالرشعبہ اردو جموں یونیورسٹی

بال مکند بے صبرکی’’ گلستانِ ہند‘‘:تقی عابدی کا نیا کارنامہ

          ڈاکٹر سید تقی عابدی اکیسویں صدی کے نامور ادیب نقاد ،محقق اور شاعر ہیں ۔اگر چہ وہ پیشے سے طبیب یعنی ڈاکٹر ہیں لیکن اردو شعر و ادب سے اُن کو خاص لگاؤ ہے۔اُنھوں نے اپنی تنقیدی اور تحقیقی نگارشات سے ادبی حلقوں میں بہت جلد اپنا نام کمایا۔تقی عابدی نے بیسویں صدی کی آخری دہایئوں سے لے کراکیسویں صدی کی دو دہائیوں تک مختلف موضوعات پر اپنے تحقیقی اور تنقیدی مضامین لکھنے کے علاوہ بہت سے اہم شعرا ء اور ادباء کے کلام کو نئے سرے سے مرتب کر کے شائع کرنے کا سلسلہ جاری کیاہے۔ جسے وہ پابندی سے نبھا رہے ہیں۔وہ ایک بسیار نویس ادیب ہیں ۔اُن کی اب تک ساٹھ سے زائد کتابیں منظرِ عام پر آکر دادِ تحسین حاصل کر چُکی ہیں ۔وہ خود بھی ایک اچھے شاعر ہیں اُن کے دو شعری مجموعے ’’گلشنِ رویا‘‘اور ’’جوشِ موت‘‘ بھی شائع ہوئے ہیں ۔غالبؔ ،اقبالؔ ،میرانیسؔ،مرزا دبیرؔ،الطاف حسین حالیؔ،علا نجم آفندی ،انشا اللہ خان انشا،ؔفراق ؔگورکھپوری،امجداسلام امجد،ؔروپ ؔکنوار کماری ،سمپورن سنگھ گلزاؔر،تعشق لکھنوی وغیرہ کی حیات ،شخصیت ،فن اور شاعری پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں ۔اُن کی کتابوں کو ادبی حلقوں میں نہ صرف ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے بلکہ اُن کی تحقیق کو مستند بھی مانا جاتا ہے ۔حال ہی  میںاُنھوں نے منشی بال مکند بے صبر ؔکی نثری تصنیف ’’گلستانِ ہند‘‘کو مرتب کر کے شائع کیا ۔

         منشی بال مکند بے صبر کائستھ بھٹناگر خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔۱۴ مارچ ۱۸۱۶؁ء کو سکندر آباد ضلع بُلند شہر اتر پردیش میں پیدا ہوئے اور ۱۳ فروری ۱۸۸۵؁ء کو اس فانی دنیا سے شیوراتری کے دن کوچ کیا ۔اُن کے والد کا نام رائے کانہہ سنگھ تھا جسے لوگ لالہ کانجی مل کے نام سے پکارتے تھے ۔منشی بال مکند بے صبرؔ غالبؔ کے شاگرد مرزا ہر گوپال تفتہؔکے بھانجے تھے۔ماما بھانجا کا رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ جو شاگرد اور استاد کے رشتے میں بدل گیا ۔بال مکند بے صبر ؔکو بچپن سے ہی شعر و شاعری کے علاوہ نثر نگاری کی طرف بھی لگائو تھا یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے معیاری نثری کتابیں لکھی۔اپنے کلام کی اصلاح پہلے تفتہؔ سے لیتے تھے بعد میں اُن ہی کی وساطت سے غالبؔ جیسے بُلند پایا شاعر اور اُستاد کی شاگردی اختیار کی ۔بال مکند بے صبرؔ ہمیشہ تفتہؔ اور غالبؔ کا شاگرد ہونے پر ناز کرتے تھے۔اُنھوں نے غالبؔ کی مدح میں ایک  قصیدہ بھی لکھا ہے، اسکے کے علاوہ اپنے بہت سے اشعار میں ہر گوپال تفتہؔ اور غالب ؔ کی مدح بھی کی ہے ۔

فیض تفتہؔ سے بلند آوازہ ہوں بے صبر میں

ہوں گے صحبت سے ،بم کی بول بالے زیر کے

میں اور وہ دونوں ہیں شاگردِ حضرتِ غالبؔ

یہ خواجہ تاشی کی نسبت ہے درمیاں پیدا

                  تفتہ کے سبب بہ خواہشِ دل             رتبہ  یہ ہوا مجھ کو حاصل

         بال مکند بے صبرؔ نے ایک قصیدے میں غالب ؔ کی شاگردی کا اعتراف کرتے ہوئے اُن سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے ۔

جس کا غالبؔ ہے تخلص ،اسد اللہ ہے نام

یہ تو ہے کفر کہ جو کہتے  ہیں  یزداں میرا

یہ ہے ہادی میرا ،رہبر میرا ،استاد  میرا

قبلہ ہے کعبہ ہے ،دین میرا ،ایمان میرا

         بال مکند بے صبر کے چار بیٹے تھے جن میں سے دو کا انتقال جواں عمری میں ہی ہوا جس کا دُکھ بال مکند بے صبر کو تا حیات رہا ۔ اُنھوں نے اپنے بہت سے قطعات اور اشعار میں مرگِ اولاد کے غم اور دُکھ کا اظہار کیاہے۔بال مکند بے صبرکو اردو ، فارسی کے علاوہ عربی اور سنسکرت پر بھی عبور حاصل تھا۔اُن کی تمام زندگی علمی و ادبی ماحول میں گزری ۔پہلے ہر گوپال تفتہؔ جیسے فارسی داں کے شاگرد رہے اور پھر اُردو کے معتبر شاعر مرزا اسداللہ خان غالبؔجیسے بلند پایا استاد کے حلقہِ تلامذہ میں شامل ہوگئے۔اُنھوں نے انگریزی سرکار میں لمبے عرصے تک ملازمت کی۔محکمہ مال میں داروغہ اور پھر منشی کے عہدے پر فائزرہے ۔ملازمت کی وجہ سے زیادہ عرصہ دلّی میں قیام کیا جہاں غالبؔ کی خدمت میںحاضری دینے کا بھی موقع ملا۔

         منشی بال مکند بے صبرایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ علم عروض،رموزِ شاعر

ی ،معانی و قوافی اور صنائع وبدائع پر بھی مہارت رکھتے تھے۔اُن کی علمیت کا اندازہ رسالہ ’’بدیع البدایع‘‘کے مطالعہ سے ہوتا ہے ۔علم ِعروض اور شعر کے حُسن و قبیح پر بے صبرؔ کو دسترس حاصل تھی۔رسالہ ’’بدیع البدایع ‘‘ میں بے صبر نے فن علمِ عروض اور شاعری کے رموز و نُکات کے ساتھ ساتھ فن ِ نثر نگاری پر بھی عمدہ جانکاری دی ہے۔اُنھوںنے وضاحت کے ساتھ صنایع و بدایع پر گفتگو کی ہے اور جگہ جگہ اپنے اشعار کے ذریعے مثالیں دے کر سمجھایا ہے۔اصل میں کلام دو قسم کا  ہوتا ہے نظم اور نثر۔بال مکند بے صبرؔ نے نثر کی تین قسمیں بتائی ہیں۔مرجز،مسجع اور عاری ۔

         مرجز:وہ نثر جس میںوزن ہو مگر بغیرقافیہ اور ردیف کے ہو۔

         مسجع:وہ نثر جس میں قافیہ ہومگر وزن نہ ہو۔

         عاری:وہ نثر جس میں نہ قافیہ ہو اور نہ ہی وزن ہو مطلب جو قافیہ اور وزن کے بغیرتحریر میں لایا جائے۔

         ہمارے پاس اردو نثر کے طرز تحریر کی ایک اور مثال مو جود ہے جس کا ذکر بے صبر نے نہیں کیا ہے۔وہ ہے مسجع و مقفیٰ عبارت،یعنی وہ نثر جس میں وزن بھی ہو اور ردیف و قافیہ بھی ہو ۔جیسے ملا وجہی کی ’’سب رس‘‘  رجب علی بیگ سرور کی ’’فسانہ عجائب‘‘وغیرہ۔

         بے صبرنے اپنے رسالے’’بدیع البدایع‘‘ میں نظم کی دس اقسام بتائی ہیں۔غزل،قصیدہ،تشبیب،قطعہ،رباعی ، فرد،مثنوی،ترجیع،مسمط اور مستزاد۔اُنھوںنے اِن اصناف کی تعریف کے ساتھ ساتھ مثالیں دے کر ہر صنفِ سخن کی و ضاحت بھی کی ہے۔زیرِبحث رسالہ کی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں بیشتر اشعار اور عبارتیں بال مکند بے صبر کی اپنی قوتِ متخیلہ کی پیداوار ہیں۔ بے صبرؔ کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تخلیقات میں ’’دیوان اوّل اُردو‘‘،’’دیوان ِ دوم اردو‘‘،’’دیوان ِ فارسی ‘‘،’’دیوان ِ قصائد اُردو‘‘،’’مثنوی لختِ جگر ‘‘ ،’’مثنوی اخگر عشق‘‘،’’سراپا سخن‘‘،رسالہ ’’بدیع البدایع‘‘،رسالہ ’’ادیب البنات ‘‘اور ’’گلستان ِ ہند ‘‘ شامل ہیں۔

           منشی بال مکند بے صبر کا شمار اردو فارسی کے اہم معماروں میں ہوتا ہے ۔مگر افسوس کی بات ہے کہ اردو شعر و ادب کی تاریخ لکھنے والوں نے اُن کے کلام اور تخلیقات کو بالکل نظر انداز کیا ہے اور اُن کو اُردو ادب کی تاریخ میں بالکل جگہ نہیں دی ہے ۔تقی عابدی نے پہلی بار ۲۰۲۱؁ء میں ساہیتہ اکیڈمی کی فرمائش سے مونو گراف ’’منشی بال مکند بے صبر ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ کر شائع کی۔اس کتاب میں تقی عابدی نے بال مکند بے صبر کی حیات و شخصیت کے علاوہ اُن کے رسالوں ،مثنویوں ،کلیات اور دیگر کتابوں سے اُن کے کلام کے نمونے مختصر تشریح کے ساتھ پیش کئے ہیں ۔۱۶۹ صفحات پر مشتمل یہ کتاب بال مکند بے صبر شناسی کے لیے ایک اہم دستاویز ہے ۔تقی عابدی نے اس کتاب میں بے صبر کا زندگی نامہ،استادِ غالب ؔاور بے صبرؔ،ہر گوپال تفتہؔ اور بے صبرؔ ،شاگردان ِ بے صبر ،رسالہ بدیع البدایع ،مثنوی لختِ جگر(انتخاب و تشریح) ،مثنوی اخگر عشق (انتخاب و تشریح )،گلستان ِ ہند :(انتخاب و اقتباس) اور کلیاتِ غیر مطبوعہ (انتخاب ،تدوین و تشریح )جیسے عناوین کے تحت بال مکند بے صبر سے متعلق مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے ۔ڈاکٹر تقی

 عابدی اپنی کتاب مونو گراف ’’منشی بال مکند بے صبر ‘‘ کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں :

         ’’غالب ؔ کے شاگرد تفتہؔ کے بھانجے ایک عمدہ شاعر اور تخلیقی نثار تھے جن کی تخلیقات اور تصنیفات اردو شعر و ادب کی ایوان سازی میں شامل ہیں ۔لیکن افسوس یہ ہے کہ بہت کم اردو اور ہندی پرستار اس ادب کے معمار سے واقف ہیں جس نے اپنی ساری عمر شعر و ادب کے گلستان کوسنوارنے میں صرف کر دی اور درجن بھر تخلیقات پیش کیں جن میں سے بعض زیور ِ طباعت سے آراستہ ہو کر نایاب ہو گئی اور بعض مخطوطات اورمسودوں کی شکل میں رہ کر کتب خانوں کی زینت رہی۔‘‘                            (مونو گراف منشی بال مکند بے صبر ۔ص ۔۷)

         یہاں میں منشی بال مکند بے صبر کے چند اشعار بغیر تفصیر کے بطورِنمونہ پیش کرنا چاہوں گا تا کہ قارئین حضرات کو اُن کی قادر الکلامی سے محفوظ ہونے کا موقع ملے ۔

مین سے آسماں اور آسماں سے لا مکاں پہنچے

تلاش ِ یار میں دیکھو کہاں سے ہم کہاں پہنچے

بے صبر میں زندگی سے ہوں تنگ

دے موت  خدا شتاب  مجھ کو

مدعا گر ہے تو یہ ہے  عاشق  دلگیر کا

اشک میں ہونا اثر کا ،آہ میں تاثیر کا

آدمی کی کٹتی ہے بے صبر کس سختی سے عمر

پیر ہونا طفل  کا لانا ہے جوئے شیر کا

کرکے مجھ کو قتل  وہ مغرور بولا  غیر سے

تھا بہت اُس کو بھی اپنی سخت جانی کا گُھمنڈ

         اب بال مکند بے صبرؔ کی دو مستزاد بھی ملاحظہ کیجیے:

                  ۱؎غیروں سے ہے الفت تجھے اور مجھ سے عداوت ،اے شوخ خود آرا

                  نفرت ہے تجھے مجھ سے غیروں سے محبت ،  ہے اس کا سبب  کیا

                  ۲؎  قتل بے صبر ؔ میں نا حق کی  یہ تا خیر ہے کیا ،طلب ِ تیر ہے  کیا

                       بس ہے ابرو وہی تیری ،حاجتِ شمشیر ہے کیا،کر اشارہ تو ذرا

گلستانِ ہند :منشی بال مکند بے صبرؔ (تحقیق ترتیب و تدوین ۔ڈاکٹر سید تقی عابدی )

         بال مکند بے صبر کی نثری کتاب ’’گلستان ِ ہند‘‘ کو ڈاکٹر سید تقی عابدی نے ۲۰۲۲؁ ء میں ایجوکیشینل پبلشنگ ہائوس نئی دہلی سے شائع کر کے منظرعام پر لایا ۔۳۷۶ صفحات پر مشتمل’’گلستانِ ہند‘‘ کو تقی عابدی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ایک صفحہ پر مخطوطہ کا عکس ، دوسرے صفحہ پر اُسی مخطوطہ کے قدیم اردو کو جدید اردو املا میں منتقل کیا ہے اور تیسرے صفحہ پر ہندی یعنی دیو ناگری میںاور چوتھے صفحہ پرانگریزی یعنی رومن میںہوبہو الفاظ میں لکھا ہے تاکہ بر صغیر سے تعلق رکھنے والا ہر انسان بغیر کسی دقت کے’’گلستانِ ہند‘‘ کا مطالعہ کر سکے۔کتاب نہایت ہی خوبصورت اور موٹی جلد کی ہے۔سُنہری حروف سے کتاب کا نام،مصنف کا نام اور ادارہ کا نام لکھا ہے۔’’گلستانِ ہند‘‘کا انتساب تقی عابدی نے ’’کامنا پرساد ‘‘ کے نام اِن الفاظ میں کیا ہے:

         ’’برصغیر کی گنگا جمنا تہذیب کی نگہبان اردو شاعری کی آن بان جان اور پہچان محترمہ کامنا پرساد کے نام معنون کرتا ہوں ‘‘۔

            دراصل’’ گلستان ِ ہند‘‘ کو بال مکند بے صبر نے ۱۸۷۱؁ء میں سہارن پور میں قیام کے دوران مکمل کیا تھا ۔ جس کا ایک مخطوطہ تقی عابدی کی ذاتی لائبریری ٹورنٹو میں موجود ہے ۔’’ گلستانِ ہند ‘‘ کو بال مکند بے صبرؔ نے شیخ سعدیؔ شیرازی کی ’’گلستانِ سعدی ‘‘ کی طرز پر تصنیف کیا ہے۔ بال مکند بے صبر نے ’’گلستانِ ہند ‘‘کی تصنیف کا سبب کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔:

         ؎جو دل مکاں ہے اُس کا دل ہی نہیں وہ پیدا          گویا مکاں اُس کاہے لامکاں زمیں پر

         ’’اس نظر سے مدِ نظر ٹھہر کر وہ شاہد مضامین خلوت کدہ دل کے پردہ نشین ،زیادہ اپنے آپ کو نہ چھپا ویں ۔ سینے کے خلوت سے نکل کر سفینے کے جلوت میں جلوہ فرماویں ۔اس واسطے بطورِ کتاب گلستان ِ حضرت شیخ سعدی ؔشیرازی کی عبارت سلیس اور محاورات فصیح اور نفیس اردوئے معلیٰ میں بیچ پانچ باب کے اُن کو ترتیب اور تقسیم کر کے گلستان ہند اُس کا نام رکھا ‘‘۔

 (گلستانِ ہند،ص۔۶۱)

         ؎ جب ہوا  بے صبر یہ ،نسخہ  تمام          شاد ہوئے ،سُن کے سُخن دانِ ہند

         مصرعہ چہارم کے عدد ،لے نکال        ہے  یہی  تاریخ ،  گلستانِ  ہند

         ’’گلستانِ ہند‘‘کے ابواب میں حکایات،نکات،لطائف،ابیات اور پند وغیرہ کو ترتیب وار پیش کیا ہے ۔’’گلستانِ ہند ‘‘کے پہلے چار ابواب حکایات پر مشتمل ہیں ۔پہلا باب ’’بادشاہوں اور امیروں کے ذکر میں‘‘ ہے۔اس باب میں ۲۴ حکایات ہیں۔دوسرا باب ’’فقیروں کے بیان میں‘‘ہے اس میں۱۷ حکایات ہیں۔تیسرا باب’’حکیموں اور طبیبوں کے حال پر‘‘ مرکوز ہے اس میں ۱۶ حکایات ہیں اور چوتھے باب میں’’شاعروں کے احوال ‘‘درج ہیں یہ ۱۸ حکایات پر مشتمل ہے۔اس طرح سے ’’گلستانِ ہند ‘‘ میں کُل ۷۵ حکایات شامل ہیں۔ذیل میں دو حکایات بطورِ نمونہ پیش کرتا ہوں۔

         ’’ایک مرید نے پیر سے سوال پوچھاکہ’’ دُنیا دار کو کیا واجب ہے اور فقیر کو کیا مناسب؟‘‘پیر نے جواب دیا۔’’دُنیا دار کو فقیرِ بے ارادت اور اُس کی خدمت مناسب ہے اور فقیر کو دُنیا دار سے نفرت اور اُس پر رحمت واجب‘‘۔

(گلستان ہند باب دوم حکایت نمبر ۱۴۔ص۔۲۰۱)

         ’’کسی نے سوداؔ کے سامنے میر تقی میرؔ کی بہت تعریف کی اور یہ بیت اُس کی پڑھی۔

         شعر۔

سرہانے میر کے آہستہ بو لو              ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

سوداؔ نے مُسکرا کر کہا شعر تو اچھا ہے لیکن شاید میر ؔصاحب نے بچپن میں کہا ہے۔اُس نے کہا آپ جوانی عمر کا شعر فرمائیں۔سوداؔ نے کہا۔

         شعر۔

بالیں میں یہ ،جوسوداؔ کے ہوا، شور قیامت          خُدامِ ادب بولے، ابھی آنکھ لگی ہے                                                   (گلستانِ ہند باب چہارم حکایت نمبر۔۶)

پانچویں باب میں ۶ نکات ،۸ لطائف اور ۱۶ پند ہیں ۔ذیل میںکچھ نکات،لطائف اور پند بطورِ نمونہ پیش خدمت ہیں۔

         ’’چار چیزیں ہیں وہی ہر دل عزیز ہیں۔ایک ہر دم کم ہوتی ہے۔وہ زندگی ہے۔دوسری ہمیشہ جو زیادہ ہواُس کو علم کہو،تیسری جو کم ہونہ زیادہ وہ قسمت ہے۔چوتھی جو کم بھی ہو اور زیادہ بھی ۔وہ دُنیا ہے‘‘۔                  (گلستانِ ہند باب پنجم نکتہ نمبر۲۔ص۔۳۱۷)

         ’’آٹھ چیزوں سے آٹھ چیزیں زیادہ ہوتی ہیں۔تجارت سے دولت،بحث سے علمیت،علم سے فراست،امن سے آبادی ِمملکت،شُکر سے نعمت،صحبت سے محبت،احسان سے اطاعت،زر سے عزت‘‘۔         (گلستانِ ہند باب پنجم نکتہ نمبر ۵ ،ص۔۳۲۱)

         ’’سلطان تیمورِ لنگ کے مجرے کوایک اندھی طوائف آئی۔سلطان نے نام پوچھا۔کہا کہ بندی کو دولت کہتے ہیں‘‘۔ کہا کہ دولت اندھی ہوتی ہے؟‘‘ جواب دیا کہ ’’جو اندھی نہ ہوتی تولنگڑے کے پاس کیوں آتی‘‘۔(گلستانِ ہند باب پنجم لطیفہ نمبر۔۲،ص۔۳۲۱۔۳۲۵)

         ’’ ایک عابد گائے شیردار رکھتاتھااور اُس کے پڑوس میںایک کمہار حاسد کے گھرگدھا بار برُدار تھا۔حاسد ہمیشہ دُعا مانگتاکہ یارب عابد کی گائے مر جائے۔قضارا (سے)اُس کا گدھا مر گیا۔خفا ہو کر کہنے لگاالہٰی تو نے ایک مدّت خدائی کی لیکن گائے اور گدھے کی اب تک پہچان نہ ہوئی‘‘۔                                (گلستانِ ہند باب پنجم لطیفہ نمبر ۵،ص۔۳۲۵)

         ’’بُرائی کے بدلے بھلائی کرنی درخت بار دار سے سیکھ۔جو اُس پر تیر چلاوے۔وہ اُس کے واسطے میوے گراوے‘‘۔                                   (گلستانِ ہند۔ پند نمبر ۲،ص۔۳۲۹)

         ’’جو کوئی اوروں کو نیکی سکھاوے اور آپ بدی سے باز نہ آوے ایسا ہے کہ چراغ رکھتا ہے اور آپ کچھ نہیں دیکھتا‘‘۔                   (گلستانِ ہند ۔ص۔۳۳۳)

         ’’جو تجھ کوپسند نہ آوے دوسروں کے لئے بھی پسند نہ کر‘‘۔  (گلستانِ ہند۔ص۔۳۳۳)

         سولہویں پند میں بال مکند بے صبر لکھتے ہیں ۔ ’’ علم اور اخلاق کی کتابیں مطالعہ میں رکھ یہ چند اصول اخلاق کے جو تحریر کرتا ہوں اُن پر عمل کراور اُن کے فیض سے دونوں جہاں کی سعادت حاصل کر‘‘۔

وہ نکات ہیں حیا،عفت،ہمت،عدل،عفو،حِلم ،خلق،شجاعت،تواضع،امانت،صدق،وعدہ،تامل اورصحبت ۔بال مکند بے صبر نے ان نکات کو وضاحت کے ساتھ سمجھایا ہے اور ضرورت کے لحاظ سے ابیات کو بھی شامل کیا ہے۔

         ’’گلستان ِ ہند‘‘ میں بے صبر نے جگہ جگہ حکایات کے بیچ یا آخرمیں اپنے سبق آموزاشعار بھی شامل کئے ہیں جو ان حکایات کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں یہ اشعار نہ صرف قاری کی دلچسپی بڑھانے اور اُس کو مسرت بخشنے کا کام کرتے ہیں بلکہ سخن کے مفہوم کو سمجھنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔’’گلستان ہند ‘‘ کی نثر کا انداز ِ تحریر اور اسلوب مسجع اور مرصع ہے۔کئی عمدہ اشعار ،فقرے اور دلکش نکات بھی اس کتاب کی زینت میں اضافہ کرتے ہیں ۔

         آج تک اردو نثر کی تاریخ لکھنے والوں نے تقریباً اس صحیفہ ادب کونظر انداز ہی کیا ہے ۔تقی

عابدی پہلے محقق ہیں جس نے اس کتاب کو تحقیق کے بعد مرتب کر کے شائع کیا ۔جس طرح سے مرزا سلامت علی دبیرؔکی نثری کتاب ’’ابواب المصائب ‘‘کا تذکرہ اردو کی نثری تاریخ میں نا کے برابر ہے ۔اُسی طرح منشی بال مکند بے صبر کی تصنیف ’’گلستان ِ ہند‘‘کا تذکرہ بھی اردو نثر کی تاریخ میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ تقی عابدی پہلے محقق ہیں جنھوں نے ان دونوں کو تلاش کرنے کے بعد کاٹ چھانٹ کر کے ان کو اصلی صورت میں شائع کیا اور ادبی حلقوں میں ان دو کتابوں کو متعارف کروایا۔اگر اردو نثر کی تاریخ دوبارہ سے رقم کی جائے تو تقی عابدی کی تحقیق شدہ کتابوں کا نام لئے بغیر اردو نثر کے ارتقاء کی تاریخ ادھوری سمجھی جائے گی ۔تقی عابدی کی ایماندار اور پُر خلوص تحقیق کی وجہ سے ہی اردو ادب میں دو اہم نثری کتابیں منظرِ عام پر آئی جو کہ اس سے پہلے پردہ خفا میں تھیں ۔’’ابواب المصائب ‘‘اور ’’گلستانِ ہند‘‘دونوں کتابیں اردو نثر کا اثاثہ ہیں ۔تاریخی اور لسانی اعتبار سے بھی یہ دونوں کتابیں اہمیت رکھتی ہیں۔یہ کتابیں اُنیسویں صدی میں تخلیق ہونے والے نثر کا عمدہ نمونہ ہیں ۔جو فن،ہیئت ، موضوع،اسلوب اور زبان و بیان کے لحاظ سے بھی اہم ہیں۔ ان دونوں کتابوں میں عام بول چال کے الفاظ کا استعمال ہوا ہے ۔’’گلستانِ ہند ‘‘غالب کے دور کا نثری نمونہ ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔

           ’’گلستانِ ہند‘‘ میں موجود حکایات ،واقعات ،پندو نصائع،نکات ، لطائف،اشعار ،مصرے وغیرہ مشترکہ تہذیب ،انسان دوستی اور عالمی امن کے پیغام سے لبریز ہیں ۔آج اکیسویں صدی میں بر صغیر کے ساتھ ساتھ دُنیا میں بھی جہاں نیوکلیئروار اور بایولوجیکل وار کا تصور اُبھر کر سامنے آیا ہے ۔ہر جگہ فرقہ وارانہ فسادات اور تعصبی نظریے کو فروغ دیا جا رہاہے اور سیاست ،ملکیت اور مذہب و ملک کے نام پر انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہو گیا ہے ،وہاں منشی بال مکند بے صبرؔ کے یہ قصّے اور حکایات آبِ حیات کا کام دیتی ہیں ۔’’گلستانِ ہند ‘‘ میں منشی بال مکند بے صبر نے برصغیر کی تہذیب و معاشرت ،ثقافت،تمدن ،تاریخی واقعات اور قومی یکجہتی کے پیغامات کو کئی طریقوں سے پیش کیا ہے جو آج کے انسان کے لیے سود مند ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ تقلید بھی ہیں ۔ذیل میں ایک حکایت درج ہے جس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بے صبرؔ ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارے کو قائم رکھنے کے لیے اپنی تحریروں میں کس قسم کے واقعات اور حکایات کو جگہ دیتے تھے جس سے ہندو مسلم کے بیچ میںنفاق ختم ہواور مذہبی تعصب چھوڑ کر لوگ آپس میں میل جول سے رہیں ۔

          حکایت  :

         ’’وہ کہتے ہیں جن دنوں میں دلی کی جامع مسجد تعمیر ہو رہی تھی ،بعض متعصب امیروں نے شاہ جہاں کو یہ صلاح دی کہ اکثر مندروں میں بیش قمیت سنگ اور جواہرات ِخوش رنگ نصب ہیں ۔مندر توڑ کر نکلوا ئے اور منگوائے جاویں اور مسجد میں لگوائے جاویں کہ مسجد کو آب و تاب ہواور ظل سبحانی کو ثواب ۔بادشاہ نے کہا!اوّل تو غضب کا مال لینا غضب ہے اور بادشاہوں کی ذات سے عجب اور مفت کا مال مسجدوں میں لگانا بڑا عذاب ہے نہ کہ ثواب ۔دوسرے جو زمانے کے انقلاب سے مسلمانی سلطنت کو زوال ہوا اور ہندئوں کا جو اقبال ،تو کیاعجب ہے کہ وہ مسجد کو ڈھا دیں اوراپنے اور ہمارے قمیتی پتھر نکال لے جاویں اور مندروں میں لگاویں ۔عقل کے نزدیک دور اندیشی ضروری ہے اور تھوڑے نفع کے واسطے بہت نقصان اُٹھانا عقل سے دور ۔‘‘                                                    (گلستانِ ہند ۔ص۔۱۲۹۔۱۲۵)

         مختصر یہ کہ تقی عابدی کا یہ ادبی کارنامہ اردو نثر کے ارتقاء کی تاریخ میںسنگِ میل کی اہمیت رکھتا ہے۔’’گلستانِ ہند ‘‘کو جدید تحقیقی طریقہ کار کے تحت شائع کر کے اُنھوں نے اردو نثر میں ایک اہم اضافہ کیا ہے۔ایک اچھے محقق کی یہی خاصیت ہوتی ہے کہ جس بھی ادیب یا شاعر کوپچھلے محققوں اور نقادوں نے نظر انداز کیا ہو یا اُن کی رسائی ادبی تاریخ لکھنے کے دوران اُس ادیب یا شاعر تک نہ ہوئی ہویا کسی بڑے محقق یا نقاد کی جانکاری میں وہ شاعر یا ادیب نہ رہا ہو ۔نئے ریسرچ اسکالرز کا فرض ہے کہ اُن گم نام شعراء اور ادباء کی تخلیقات کی کھوج کریںاور اُن کے کلام اور تحریروں کا معیار جانچیں ۔جانچ پڑتال کے بعد اُن ادبی فن پاروں کوادب کے پرستاروں کے سامنے پیش کریں۔

         تقی عابدی کی یہ بھی خوبی ہے کہ وہ اپنی کتابوں کا پی ڈی ایف بنا کر اپنی ویب سائٹ( wwwdrtaqiabedi.com)اور (rekhta.com) پر سافٹ کاپی کی صورت میں اپلوڈ کرتے ہیں ۔امید ہے کہ اس کتاب کو بھی وہ جلدہی اپنی ذاتی ویب سائٹ اور اردو کی مشہور ویب سائٹ ریختہ پر اپلوڈ کریں گے تا کہ مستقبل میں جس کسی کو بھی اس کتاب کی ضرورت پڑے گی تو اس کی رسائی انٹر نیٹ کے ذریعے اس کتاب تک آسانی سے ہو اور ہر طالبِ علم اس صحیفہ ادب سے مستفید ہو سکے۔

         اکتسابِ فیض   :

         ۱۔مونوگراف ’’منشی بال مکند بے صبر از ڈاکٹر سید تقی عابدی، ناشر۔ساہتیہ اکیڈمی، سن اشاعت ۔۲۰۲۱؁ء

         ۲۔گلستانِ ہند (بال مکند بے صبر) تحقیق ترتیب و تدوین۔ڈاکٹر سید تقی عابدی،ناشر۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی،سن اشاعت۔۲۰۲۲؁ء

***

Leave a Reply