ڈاکٹر یوسف راجہ
لیکچرار اردو ہائیر ایجوکشن کالجز ضلع سدھنوتی
بانو قدسیہ کاناول’شہر بے مثال‘:ایک تجزیاتی مطالعہ
ناول شہر بے مثال بانو قدسیہ کی ایک منفرد اور شاہکار ادبی تخلیق ہے۔یوں تو بانو قدسیہ کی ادبی تخلیقات میں راجہ گدھ،توجہ کی طالب،چہار چمن،سدھراں،آسے پاسے،دوسرا قدم،آدھی بات، دست بستہ،حوا کے نام،سورج مکھی،پیا نام کا دیا،آتش پارے،امر بیل،باز گشت،مردابریشم،سامان وجود،ایک دن،پروا،موم کی کلیاں،فٹ پاتھ کی گھاس،دوسرا دروازہ اور چھوٹے شہر بڑے لوگ مخصوص اسلوب ،فکر وفلسفہ اور ادبی انفرادیت سے مزین ہیں لیکن ناول شہر بے مثال کا ادبی حسن منفرداور بے مثال ہے۔
ناول کی کہانی بہاول پور شہر کی رشیدہ میر کے گرد گھومتی ہے جو حصول تعلیم اور سہانے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے شہر بے مثال کا رخ کرتی ہے۔غریب والدین کی بے باک اور نڈر بیٹی لاہور اپنی خالہ فیروزہ کے ہاں سکونت اختیار کرتی ہے۔وہاں خالو جمال کی صحبت، انوری اور رمضان کی خدمت گزاری اور خالہ فیروزہ کی اولاد کے نت نئے فیشن نئی دنیا کے حسین خوابوں کا محرک بنتے ہیں۔کالج میں داخلے کے بعد ڈاکٹر اعجاز حسین،پروفیسر ضیا اور پروفیسر بیگ کے لیکچروں سے جہاںوہ شعور و آگہی کے نئے زوایوں سے لطف اٹھاتی ہے وہاں بہاول پور کی نفیس اور سادی زندگی مادیت کی اسیر ہونے لگتی ہے۔اس کے ہم جماعتوں میں ڈمپل، طیبہ، ط، ظ،ظفر، افتخار اور قاضی فکر و خیال میں ایک ہلچل پیدا کرتے ہیں۔رشیدہ میر بہاول پور کی قدیمی روایات اور دیہی زندگی کی نفاست کو اپنے اندر سمو کر شہر بے مثال کی مکین ہوئی تھی لیکن اندر کی گھٹن اور باہر کی کشش انفردیت کی راہ ہم وار کرتی ہے۔شہر بے مثال کی بدلی ثقافت اور مادی کشش اس کے فکری رویوں کو یکسر بدل دیتی ہے۔اس کا ہم جماعت ظفر اس کی حسین آنکھوں،مالکوتی کشش اور منفرد خدوخال کا اسیر ہو جاتا ہے۔
وہی دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر خطو کتابت کا سلسلہ شروع کر تا ہے جو رشیدہ میر کو ایک لذت اور ان جانے خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔آہستہ آہستہ یہ سلسلہ رشیدہ کے لیے دھمیے دھمیے سکون اور جذبات کی تسکین کا باعث بنتا ہے تو وہ ان خطوط کو ٹافیوں کے دلکش ڈبے میں ڈال کر کمرے میں موجود بستروں کی بڑی پیٹی میں محفوظ کرنا شروع کر دیتی ہے۔صفائی کے دوران وہ خطوط خالہ فیروزہ کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو وہ اس کو اپنے گھر سے نکال باہر کرتی ہے۔رشو جلد ہی اپنی ہم جماعت اور سہیلی ڈمپل کے ہاں چلی جاتی ہے۔کالج میں ڈمپل کے مہنگے ملبوسات اور امارت کا ڈھونگ جلد ہی بے نقاب ہو جاتا ہے۔وہ ان خطوط کو لے کر ظفر کے والد ملک بختاور علی کے ہاں پہنچتی ہے۔ملک صاحب اس پر حد درجہ مہربان ہو جاتے ہیں۔دونوں کی مسلسل ملاقاتیں شادی کے حسین بندھن پر اختتام پذیر ہوتی ہیں جہاں رشیدہ میر کو اپنے خواب مکمل ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔
جلد ہی ملک بختاور اور رشو کی عمروں کا فرق رشو کو مسلسل بے چینی اور اکتاہٹ میں مبتلا کر دیتا ہے۔وہ ظفر کو کھونے اور ملک صاحب کو پانے میں حد فاصل قائم کرنا شروع کردیتی ہے مگر ایک صبح ملک بختاور علی اپنے کمرے میں مردہ پائے جاتے ہیں۔
ناول کی اس روایتی کہانی میں بانو قدسیہ کا کہانی پن، تصوف کی چاشنی، تاریخی شعور، نفسیات آگہی، مذہبی مباحث، تعلیم و تدریس کا المیہ، تہذیبی خلیج، انسان کی ازلی اکتاہٹ اور سماجی فعالیت کے عناصر فنی مہارت کا بین ثبوت ہیں۔ناول کی شعریات میں متذکرہ بالا فکری گہرائیوں کے ساتھ ساتھ عورت کے سماجی مرتبے اور مردانہ سماج کی ستم گری کو نئےانداز سے ابھارا گیا ہے۔عورت کے اندر مادیت کی کشش کا پیدائشی جذبہ مردانہ ہوس ناکیوںکو بنیاد مہیا کرتا محسوس ہوتا ہے۔ناول کے مرکزی کرداروں کے علاوہ ضمنی کرداروں میں بھی اسی نوعیت کے نمونے موجود ہیں۔
انوری ناول میں ایک غریب ملازمہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔گاؤں سے شہر تک کا سفر بدلتے سماجی رویوں اور تبدیلی سوچ کا منفرد اظہار ہے۔شہر میں بجلی، فریج، برقی پنکھوں اور انواع و اقسام کے کھانوں کی کشش اندر کی دنیا کو بدل دیتی ہے۔فکر و نظر کا بدل شہر کے مستقل سکون کا بنیاد مہیا کرتا ہے۔اس کاباپ ایک غریب مزارعے کے ساتھ اس کی شادی کرنا چاہتا ہے لیکن مادیت کی کشش انوری اور اس کے والد کی سوچوں میں خلیج پیدا کر دیتی ہے۔گاؤں سے شہر تک کا بدلا داخل بانو قدسیہ کے فن میں یوں بیان ہوا ہے۔
آبا میری شادی کرنا چاہتاہے ٹھیری سانسی میں، شادی؟۔۔وہ تو خیر ہو جایا کرتی ہے
رشیدہ بولی۔وہ لڑکا مزارعہ ہے، کھیتی باڑی کرتا ہے، رہٹ پر دیسی صابن سے نہاتا ہے
گلے میں اس کے تعویز لٹکے ہیں۔سر پر مکھن لگاتا ہے،پاؤں میں نری کی جوتی پہنتا ہے
پورا گنوار ہے گنوار!میں اسے کیا کروں گی۔رشو جان نے پہلی بار مڑ کر انوری کو اصلی
روپ میں دیکھا ۔یہ لڑکی تیل کے چولہے پر روٹی پکاتی تھی۔ پنکھے تلے سوتی تھی۔فریج
میں سے برف کی ٹکڑیاں نکال کر ٹھنڈا پانی پیتی تھی، ریڈیو سنتی تھی، فلم دیکھا کرتی تھی
اس کا لباس چاہے پرانا اور مسکا ہوا تھا لیکن جسم سے لپٹا جاتا تھا۔اس کے کھونسڑے
ہیلوں والے تھے اور ان ہیلوں والے جوتوں کے اندر اس کے پیروں پر تنویر باجی
کی کیوٹکس لگی تھی۔1
انوری خالہ فیروزہ کے ہاں رہتے رہتے ملازمہ سے مالکن تک کی تمام آسائشوں پر غور وفکر کرتی رہی اور اور امارت و غربت میں موجود خلیج کو پل بھر میں ریت کے نشان کی مانند مٹانے کی لگن میں مگن رہی۔اس کے اندر جذبات کا بہاؤ مسسل شدت کی سمت بہتا رہا۔اس کے وسوسے اور مستقبل کے اندیشے اپنی ڈروانی صورت کو بتدریج مضبوط کرتے محسوس ہوتے ہیں۔پھر اچانک ایک دن اس کا والد اسے ہمیشہ کے لیے واپس لینے پہنچ جاتا ہے۔انوری مردانہ سماج کی کڑی جکڑ بندیوں کے باعث دیہات کے اسی اداس اور بے رونق پنجرے کی قیدی بن جاتی ہے لیکن اس کی رمضان سے خر مستیاں اور بہکے بہکے انداز کچھ اور ہی چاہتے تھے۔
انوری کے آنسو دیکھ دیکھ کر رشو کی آنکھوں میں آنسو آ گے اور ایک بار پھر سوچنے
لگی کہ یہ ساری دنیا مرد کی ہے یہاں عورت مرد کی ہے، یہاں عورت ڈھور ڈنگر کی
کی طرح ہے۔ذرا پھن اٹھایا تو پتھر مار کر کچل دی جائے گی۔ذرا خدمت گزرای سے
کام نہ لیا، اطاعت نہ کی، نیک پروین بن کر نہ دکھایا تو تھڑی تھڑی ہو جائے گی۔اس
میں عافیت ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر اندھیاریاں پہنے اس ڈگر
پر چکر لگاتے وقت گزر جائے گا۔2
ناول میں عورت کے استحصال کا تذکرہ غازی اور اس کی محبوبہ گلناز کی ناکام محبت سے بھی عیاں ہے۔غازی شہر بے مثال میں رشو جان کا ہم جماعت ہے۔اس کے والد جھنگ شہر کے نامی گرامی جاگیر دارہیں۔ساٹھ مربعوں کی زرعی زمین کے ساتھ وہ خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں۔انھوں نے غازی کو لاہور میں وکالت کی ڈگری کے لیے بھیجا تھا جس پر وہ بے تحاشہ دولت صرف کر رہے تھے۔غازی لاہور میں گلناز نامی طوائف پر دل وجان سے فریفتہ ہو جاتا ہے۔وہ اپنی تعلیم، دولت، معاشرتی وجاہت اور فخر کے تمام بت اس کے قدموں میں پاش پاش کرنے کا خواہش مند ہے۔گلناز کی بی بی پرانی نائیکہ تھی جو مذہبی فرائض پوری لگن سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کمال کی مہذب تھی لیکن گلناز سے پیشہ کرواتی تھی۔غازی گلناز سے بضد ہے کہ شادی کے بعد وہ اس کو مروجہ معاشرتی مقام مہیا کرئے گا۔بانو قدسیہ کے مطابق مرد کو طوائف کے اندر عورت کا وجود محسوس نہیں ہوتا۔غازی کا والد جب اس صورت حال سے اگاہ ہوتا ہے تو نہایت درشتی سے غازی کو بے گھر کر دیتا ہے۔اس کے والد کا انداز گفتگو ملاحظہ ہو۔
میں نے رات کو تجھے کہہ نہیں دیا تھا سور کے زادے کہ اس گھر میں تیرے لیے
کوئی جگہ نہیں ہے یہاں تو کیا لینے آیا ہے۔طوائف کے عاشق!میں اپنا سامان لینے
آیا ہوں۔ سامان! یہ تیرا سامان ہے کہ میری دولت کسی نواب کی اولاد،پڑھائی
کرنے گیا تھا لاہور کہ طوائفوں کی چلمیں بھرنے بول؟3
غازی کو طوائف کی بدولت گھر بار چھوڑنا پڑا جہاں دوستوں کی نوازشات، مزارات اور طوائفوں کے ڈھیرے اس کی کل کائنات بن گئی۔غازی اور گلناز کو ایک دوسرے سے سچی محبت تھی۔غازی معصوم لیکن گلناز زمانے کا گرم سرد دیکھ چکی تھی۔غازی کے برعکس گلناز کی شادی ایک تیسرے فرد سے طے ہو جاتی ہے لیکن وہ غازی سے آخری ملاقات کا وعدہ کر لیتی ہے۔ملاقات کا منظر سماجی اونچ نیچ اور عورت کی بے بسی کا منفرد اظہار ہے۔
کلا بھٹ جانے سے پہلے وہ مجھے ملنے کالج آئی تھی۔۔پہلی اور آخری بار ہم دیر تک بنچ پر
بیٹھے رہے۔ہمارا دل پتھریلی بنچ کی سطح سے بھی ٹھنڈے تھے جاتے ہوئے اس نے مجھ سے
کہا” غازی بی بی کی طرف بھی دیکھو وہ غیر کوٹلے چلی گی تھیں،شادی کر کے وہاں اس کے
ہاں تین بیٹے ہوئے اور پھر وہ تینوں بیٹے اشراف کے ہوگے اور بی بی طوائف رہ گی
چھڑی طوائف۔سات سال بیا ہتا رہ کر بازار میں لوٹ آئیں بی بی !جن سے ہم نفرت
کرتے ہیں ان کے ساتھ سونے کی ہمیں معافی نہیں ملتی۔ظفر نے لمبا سا زرد دھواں
چھوڑ دیا۔ِجب سات سال کی شادی شدہ زندگی گزارنے کے بعد ۔۔تین بیٹے
جننے کے بعد میں بازار میں آؤں گی تو کم از کم مجھے ایک سکون ضرور ہو گا غازی!
کیا سکون؟میں نے پوچھا وہ سکون یہ ہے کہ میں تمہاری بیوی نہیں تھی تم نے
مجھے گھر سے نہیں نکالا۔4
ناول کے مرکزی کردار رشیدہ میر کی زندگی بھی مردانہ سماجی کی استحصالی فطرت کہ ستم ظریفی کا عکس ہے۔بہاول پور سے لاہور کا سفر اس کے لیے ایسی دلکش دلدل ثابت ہوئی جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن ہو گیا۔ملک صاحب ایک بھر پور ازواجی زندگی کا لطف اٹھانے کے بعد اپنی اولاد کا محفوظ مستقبل بنانے کے بعد مکان کی تیسری منزل پر مجرد زندگی کا تجربہ کر رہے ہیں۔وہ عمر کے ایسے حصے میں تھےجہاں فرد مادی اشیا کے علاوہ ذات کے ساتھ جینا سیکھ لیتا ہے۔رشیدہ میر کی ان سے ملاقات ظفر کے والد اور لاشعوری سسر کے روپ میں ہوتی ہے جہاں وہ ان کے بیٹے کے خطوط لے کر آتی ہے۔رشو کی آنکھوں میں مادیت کی تلملاتی مہک کو وہ جلد محسوس کر لیتے ہیں اور دولت و آسائش کی بھرمار شروع کر دیتے ہیں۔ملک صاحب اس کی غربت اور امیر بننے کی خواہشات پر اپنی حسرت کا پل تعمیر کرتے ہیں۔اس کے اکاونٹ میں معقول رقم کے علاوہ آسائشوں سے مزین رہائش بھی قدموں میں ڈال دیتے ہیں۔وہ رشیدہ میر کا دل اپنی لچھے دار گفتگو سے جیت لیتے ہیں۔ملاحظہ ہو۔
میں زندگی میں تنہائی سے تنگ آ چکا ہوں۔میں روپیہ کمانے والی مشین بن چکا ہوں
جسے ہنسنے کا ،جسے خوش رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔میری اپنی زندگی پارے کا
وہ چھینٹا ہے جو فرش پر گرتے ہی ننھی ننھی مدر گولیوں میں بٹ جاتا ہے۔میں
کہیں موجود نہیں ، صرف میرے بچے موجود ہیں، میرا گھرانہ موجود ہے،تم مجھے
ثابت کر سکتی ہو۔۔۔ریشو۔تم ان ننھے قطروں کو جمع کر کے پھر میرا وجود تیار کر
سکتی ہو۔5
ملک صاحب اور رشو کا نکاح ایک سادہ سی تقریب میں ہوا اور شادی کے دسوٰیں روز رشو مین روڈ سے گلبرگ منتقل ہو گی۔چار کنال کی محل نما کوٹھی میں تمام آسائشوں کی فراہمی سے گویا رشو کو اپنی منزل مل گی۔زندگی کے شب وروز گزرنے لگےتو ملک صاحب جنسی قوت کی گولیوں اور مادی اشیاء سے رشو کی زندگی میں رنگ بھرنے میں ناکام کوشش کرنے لگے۔رشو کو محسوس ہوا کہ آسائش میں بس ایک ہی قباحت ہے کہ انسان اس کا متمنی ہوتا ہے، پھر اس کا عادی اور آخر اسے اپنا حق سمجھ کر نفسیاتی الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔اب ملک صاحب کے برعکس خیالوں میں اسے ظفر کا جسم اور جوانی کا جوش ستانے لگا۔وہ دولت و جنسی بےکاری اور قلاش پن میں جوان جسم و جذبات کے مابین الجھ کر رہ گی۔اس ضمن میں بانو قدسیہ لکھتی ہیں۔
گلبرگ کی پر رونق اور باوقار آبادی میں کل رات لاہور کے لکھ پتی تاجر ملک بختیار علی
اپنے کرائے کی کوٹھی میں قتل کر دیے گئے۔یہ بنگلہ سفیدے والی کوٹھی کے نام سے
مشہور ہے کیوں کہ چاروں کونوں پر سفیدے کے فلک بوس درخت ایستادہ ہیں۔مبینہ
اطلاع کے مطابق ملک بختاور نے تقریبا ایک ماہ پیشتر بہاولپور کی طالبہ سے خفیہ طور
پر شادی کی تھی۔6
کہانی کے اختتامی حصے میں قاری کے لیے ملک صاحب کا قاتل اور قتل کی وجوہات کے ان گنت سوالات کا سلسلہ موجود ہے۔ارود فکشن میں عورت کی مظلومیت اور مردانہ بالادستی پر لازوال ادب تخلیق ہوا ہے۔بانو قدسیہ کا ناول شہر بے مثال بھی ایک حد تک انہی فکریات سے عبارت ہے لیکن مصنفہ نے اپنی انفرادیت قائم رکھنے کا بھرپور اہتمام کیا ہے۔ ناول میں عورت پن میں موجود مادہ پرستی کے ازلی رجحان کو اجاگر کیا گیا ہے۔ان کے مطابق عورت سماجی مقام اور روحانی و جسمانی سکون کی خاطر مادیت کی کشش سے لبریز ہوتی ہے۔وہ مردانہ استحصال کی راہ خود ہم وار کرتی ہے جہاں سے اس کی داخلی و خارجی الجھنوں کا اصل سفر شروع ہوتا ہے۔ناول میں رشیدہ میر، انوری، ڈمپل، فیروزہ ،تنویر، گلناز اور بی بی دولت ،آسائش اور سماجی برتری کی خواہشات ہی سے مردانہ ہوس ناکی کا آسان شکار بنتی ہیں۔
حوالہ جات
1۔بانو قدسیہ،ناول شہر بے مثال،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۔ص75
2۔بانو قدسیہ، ناول شہر بے مثال ،سنگ میں پبلی کیشنز، لاہور ۔ص133
3۔بانو قدسیہ، ناول شہر بے مثال،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور۔ص133
4۔ایضا۔ص 232
5۔ایضا ص 247
6۔ایضا ص 72