شہلا کلیم
بساطِ وجود
اک بساطِ وجود و بدن کے تحت
سالہا سال تک
ہم سے عریانیت کا عجب کھیل کھیلا گیا
ہم شکستہ رہے
تم ازل سے غلط چال چلتے رہے
ہم تمہاری ذہانت سراہا کیے
تم ہمارے سبھی فلسفے جسم کے زاویوں پر پرکھتے رہے
تم تو دستِ ہنر کا تراشیدہ فن چھوڑ کر
اسکی انگشتِ مخروط کے خال و خط سے الجھتے رہے
اور خیالات کے پوروں سے لپٹا بے بس قلم چیختا رہ گیا
ابنِ آدم کی یہ فطری مجبوریاں!
آپسی رنجشوں کے تئیں
بیچ بازار میں اپنی ماؤں کو تم نے برہنہ کیا
اپنی بہنوں کے سر سے ردا نوچ لی
اور جیون کے کمزور لمحات میں جو قبائیں تمہارے لیے آسرا تھیں وہ سب
کچھ کھنکتے ہوئے قہقہوں کے عوض
چائے خانوں کی میزوں پہ نیلام کیں
راہ چلتے غلاظت بھرے فقرے کستے رہے
معتبر بیٹھکوں میں نجاست پروسی گئی
ہم کو ناکردگی کی سزا دی گئی
اور تمہاری تلافی کو جِرگے بلائے گئے
آخرش!
تیرگی جب اجالے نگلنے لگی
طاقچوں میں سجے
پھر تمہارے ودیعت شدہ
یہ نزاکت کے سارے دئیے
اپنے سینے کی آتش سے روشن کیے
اور تمہارے تقاضوں کے مدِ نظر
ہم نے بستر کی شکنوں سے مصرعے چُنے
دیکھو! یہ کھیل کی آخری چال ہے!!!
حرف کو جسم بنتے ہوئے دیکھ لو
میری نظموں کی دوشیزگی کی قسم
ان میں موجود لفظوں کا عریاں بدن
دسترس سے پرے اور دستِ تخیل سے بھی دور ہے
سو تمہاری یہ ذلت بھری بے بسی دیکھ کر
انتقامی بدن کا ہر اک ریشہ ریشہ بڑی زور سے
قہقہے مار کے ہنس پڑا۔۔۔۔
***