You are currently viewing عدالت 

عدالت 

علی حسن اُویس

عدالت 

“نہیں نجمہ آپا، ان آنکھوں کے کٹوروں کو چھلکنے سے کوئی نہیں روک سکتا، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ انہیں ہر چیز سے عزیز اپنے اصولوں کی پاسداری ہے۔ وہ کیس بھی آپ کو یاد ہو گا جس میں ان کے چچا کا بیٹا ملزم قرار پایا تھا اور انہوں نے اس کی عمر قید کے پروانے پر دستخط کر دیے تھے۔ وہ چاہتے تو اسے رہائی دلا سکتے تھے مگر ان کے نزدیک رشتوں سے زیادہ اپنے اصولوں کی اہمیت ہے۔”

سلطان مرزا ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتا تھا جس میں قانون شخصیات کی باندی اور عدالت، دولت کی لونڈی تھی۔ اس کا خواب بھی منصف بننے کا تھا۔ جب بھی ٹیلی ویژن پر یہ خبر آتی کہ آج فلاں وزیر پر کرپشن کا مقدمہ ثابت نہ ہو سکا اور انہیں باعزت بری کر دیا گیا تو اس کے خون کی گردش تیز ہو جاتی اور وہ خیال میں خود کو جج کی کرسی پر براجمان دیکھتا اور اس وزیر کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے پاتا۔ اچانک  ٹیلی ویژن پر ایک خبر آتی کہ ایک کنجڑے کو مسجد کی بے حرمتی کرنے پر دو سال قیدِ بامشقت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا ہے تو وہ چونک کر خیال کی آغوش سے باہر آتا اور رونے لگتا کہ وہ وقت کب آئے گا جب وہ جج بن کر مظلوم کو انصاف فراہم کرے گا اور ملزموں کو سزا سنائے گا۔ مگر وہ وقت آنے میں ابھی وقت تھا کیونکہ ابھی وہ ایل ایل بی کے سال چہارم کا طالب علم تھا۔

“میں کہہ رہی ہوں نا نجمہ آپا کہ آپ مجھے رونے سے مت روکیں۔آج ہر چیز سیاہ ہو چکی ہے۔ آسمان کا رنگ سیاہ، پھول سیاہ، کالی گھٹائیں اور آج کا موسم بھی سیاہ ۔ آپ کے دلاسے ایسے ہی ہیں جیسے اندھے کے لیے رنگوں بھری دنیا۔ مجھے معلوم ہے کہ آج کے بعد میں اس کا چہرہ کبھی نہ دیکھ پاؤں گی۔ رونا میرے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔  آپ ہیں کہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ وہ اصولوں کے غلام ہیں۔”

عدالت میں جمِ غفیر تھا، کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ میڈیا چینلز کے رپورٹر لمحہ بہ لمحہ کی خبر دے رہے تھے۔ ٹیلی ویژن کے تمام چینلز پر ہنگامہ برپا تھا۔ لوگ یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ اصول پرست جج جس نے حکمرانوں کو سزائیں سنائیں ، جس نے اپنے رشتوں پر اصولوں کو ترجیح دی، جس نے خود کو قانون کا غلام سمجھا اور اسے ہر چیز سے مقدم رکھا، وہ جج اس مقدمہ کا کیا فیصلہ سنائے گا۔ مقدمہ بھی کوئی معمولی قسم کا نا تھا بلکہ ایک نابالغ لڑکی کے ریپ اور قتل کا مقدمہ تھا۔ گواہ اپنی گواہی دے چکے تھے اور وکیل اپنی بحث کا منطقی نتیجہ نکال چکے تھے۔ سامنے کٹہرے میں چوبیس پچیس سال کا لڑکا، جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھی بطور ملزم کھڑا تھا۔ جج  منصفی کی کرسی پر متفکر بیٹھا مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لیے غور و خوض کر رہا تھا۔ کمرہ عدالت میں خاموشی کا راج تھا اور ٹیلی ویژن پر بار بار یہ خبر نشر ہورہی تھی کہ ریپ اور قتل کے مقدمہ کا فیصلہ آنے میں چند منٹ باقی۔

جج فیصلہ کرنے کے بجائے خیال کی آغوش میں جا چکا تھا اور وہ وقت اس کے سامنے تھا جب وہ یہ سوچا کرتا تھا کہ کب وہ جج کے عہدے تک پہنچے اور ملزموں کو سزا سنائے۔

اچانک کمرہ عدالت میں پولیس کے اہلکار کی آواز گونجی “ایک منٹ جج صاحب، فیصلہ سنانے سے قبل یہ میڈیکل رپورٹ دیکھ لیجیے” یہ کہتے ہوئے اس نے وہ رپورٹ جج صاحب کے سامنے رکھ دی۔ جج چونک کر خیال کی آغوش سے باہر آیا اور اس کاغذ کو پڑھنے لگا جو پولیس کے اہلکار نے اس کے سامنے رکھا تھا۔ چند منٹ بعد جج نے فیصلہ سنایا۔ “ڈی این اے کی رپورٹ کے مطابق یہ شخص وہ نہیں جس نے اس لڑکی کا ریپ کیا ہے۔ اور اگر اس نے ریپ ہی نہیں کیا تو اس کے قاتل ہونے کا جواز نہیں بنتا۔ لہذا یہ عدالت ملزم کو باعزت بری کرتی ہے۔” کمرہ عدالت میں شور بلند ہوا اور جج اٹھ کر چلا گیا۔

“ہاں سلطان مرزا، لگا آئے میرے بیٹے کو پھانسی، تمہیں کیا معلوم کہ اولاد کو کھونے کا کیا درد ہوتا ہے۔ تمہیں تو اپنے اصولوں سے محبت ہے، اولاد کی محبت کو تم کیا جانو۔ میری زندگی کو سیاہ کرنے کا جرم تم نے کیا ہے اور میں کبھی تمہیں اس جرم کی معافی نہیں دوں گی۔ ایک ماں کا دل سیاہ کرنے کی سزا تمہیں بھگتنا ہو گی۔” اچانک گھر کا دروازہ کھلا اور چوبیس پچیس سال کا لڑکا اندر داخل ہوا اور “ماں” کہتے ہوئے اس عورت سے لپٹ گیا۔ جج انہیں دیکھ، مسکراتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

***

Leave a Reply