You are currently viewing  دانش اثری بحیثیت شاعر : ایک جائزہ

 دانش اثری بحیثیت شاعر : ایک جائزہ

محمد ارشد کسانہ

پی ایچ ۔ ڈی اسکالر ، دہلی یونی ورسٹی

پونچھ ، جموں و کشمیر

                 دانش اثری بحیثیت شاعر : ایک جائزہ

         ۲۰۰۰ء کے بعد بڑی تعداد میں نوجوان اردو شاعری میں طبع آزمائی کر رہے ہیں مگر ان میں سے بہت کم ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اردو دنیا میں اپنا نام بنایا ہے ۔ اکیسویں صدی کی ان دو دہائیوں میں اردو شاعری کے میدان میں داخل ہونا اور پھر قومی سطح پر اپنی شاعری کے سبب پہچان بنانا آسان کام نہیں ہے ۔ بہر حال دانش اثری ایسے ہی ایک نوجوان شاعر ہیں جنھوں نے بہت جلد ہی ادبی دنیا میں اپنا نام بنا لیا ہے ۔ ان کی مقبولیت کا سلسلہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب اکیسویں صدی کے نامور شعراء میں ان کا شمار ہوگا ۔ان کو اردو ادب کے تئیں گہرا لگائو ہے ۔ وہ شاعر کے علاوہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں اور ان کے کئی افسانے ہندستان کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں ۔ ان کے اندر اچھا خاصا تنقیدی و تحقیقی شعور بھی ہے جس کا ثبوت ان کے شائع شدہ مضامین دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’ ادبستان ‘‘ کے نام سے ان کا سہ ماہی رسالہ بھی ہے اور اسی نام سے وہ ایک انجمن بھی چلاتے ہیں ۔

         دانش اثری بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر انھوں نے کئی بہترین نظمیں بھی کہی ہیں

 ۔ کہیں کہیں ان کی نظموں کی کیفیت غزل سے آگے گذر جاتی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے موضوعات بڑے اہم اور جاندار ہوتے ہیں ۔ دانش اثری کو شاعری کے فن پر دسترس حاصل ہے ۔ علم عروض پر خاصا عبور ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کے مسائل اور حادثات کا درد ان کے اندر جمع ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میںفن اور موضوع دونوں میں توازن برقرار رکھا ہے ۔ جہاں ایک طرف فن کی پختگی مزہ دیتی ہے تو دوسری طرف موضوعات کے اثرات قارئین کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ۔

         دانش اثری کی شاعری میں ہمیں ہر طرح کے موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان موضوعات کو نظموں اور اشعار کے الفاظ میں پرونے کا ہنر وہ خوب جانتے ہیں ۔ ان کے اکثر اشعار میں مشکل الفاظ بھی آسان محسوس ہوتے ہیں اور وسیع موضوعات بھی ایک شعر میں مکمل دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں جہاں ایک طرف عشق کی رنگارنگی کے مناظر ہیں تو دوسری طرف عشق و محبت کے غم بھی بکھرے پڑے ہیں ۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔

دل کی بازی کھیل کر میرے ہی ساتھ            دل نشیں سا دل کا وہ ساکن گیا

عذاب لمحوں میں سلگا ہوا مرا ماضی               پرانے عکس ، تری یاد ، کیا مصیبت ہے

         ہم تو بن دیکھے ہوئے جاتے ہیں حوروں پہ نثار

                                    شوق ہم سا بھی کہاں شمعوں کے پروانے میں ہے

         عشق و محبت کا جذبہ اردو شاعری کا ایک بنیادی موضوع رہا ہے ۔ ہمارے تمام شعراء نے اس جذبے کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ مختصر اً یہ ہماری روایت کا ایک اہم حصہ ہے اور آج تک یہ روایت برقرار ہے ۔ دانش اثری نے بھی اس روایت کو اپنایا مگر ان کی غزلوں کے بجائے نظموں میں یہ جذبہ زیادہ گہرا دیکھنے کو ملتا ہے ۔ خاص طور پر ان کی نثری نظموں میں عشق و محبت کے جذبات زیادہ سمٹے ہوئے ہیں ۔ ان کی نظم ’’ خواہش نا تمام ‘‘ کے چند مصرعے بطور نمونہ پیش ہیں ۔

                                    یار ! چاہتا تھا میں

                                    زندگی کی ہر شب میں

                                    میں تمہارے پہلو میں آکے اک غزل لکھتا

                                    پھر تمہیں سناتا جب

                                    شرم سے گلابی رخ بھیگ بھیگ سا جاتا

                                    اور میرے شانے پر تم ٹکاکے سر اپنا ، شرم سے مچل جاتیں

                                    پھر حیا کے لہجے میں ، اور بکھری سانسوں سے مجھ سے

                                    صرف یوں کہتی

                                    زندگی کی ہر خواہش اب تمام ہوتی ہے ، رات یہ ٹھہر جائے

                                    وقت کاش تھم جائے

عشق و محبت کے علاوہ دانش اثری کی شاعری میں ہمیں جذبہ ٔ اسلام بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے ۔ اسلام کا ماضی ، حال اور مستقبل تینوں کا عکس ان کی شاعری میں دکھائی دیتا ہے ۔ یہاں وہ علامہ اقبال سے متاثر نظر آتے ہیں یا پھر یوں کہنا بھی مناسب ہوگا کہ شاعری میں جب وہ اسلام کو موضوع بناتے ہیں تو علامہ اقبال کے بنائے ہوئے راستے کو اختیار کر لیتے ہیں ۔ انھوں نے علامہ اقبال کی نظم ’’ شکوہ ‘‘ کی طرز پر ’’ شکوہ ٔ اصحاب شکیبا ‘‘ لکھی ۔ اس نظم کو دانش اثری نے اس خوبصورتی سے لکھا ہے کہ گویا یہ نظم علامہ اقبال کی ’’ شکوہ ‘‘ کا ہی دوسرا حصہ ہے ۔ وہی لَے اور کیفیت یہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور شکوہ کرنے کا بھی وہی لہجہ ہے جو علامہ اقبال کا لہجہ تھا ۔ نظم ’’ شکوہ ٔ اصحاب شکیبا‘‘ کا ایک بند ملاحظہ ہو ۔

                                    اے خدا ! ہم کبھی مسجود ملائک تھے نا

                                    اک خطا کی تھی ہمیں تونے زمیں پر پھینکا

                                    ہائے کیا خوب ہی ہوتا ، اگر ایسا ہوتا

                                    یعنی اس پہلی خطا سے تو گزر ہی جاتا

                                    عرش سے ارض تلک کیوں یہ فسانہ بنتا

                                    حسن معصوم کا کیوں کوئی دوانہ بنتا

ملت اسلامیہ کے متعلق دانش اثری کے اندر گہری فکر پائی جاتی ہے۔موجودہ دور میں قوم کی حالت ان کی توجہ کا مرکز ہے اور ان کی شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہر بدلتے پہلو کو اپنی شاعری کا موضوع بنا رہے ہیں۔ کافی تعداد میں ان کی شاعری قوم کی فکرکو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ وہ فکر نہیں ہے کہ جس میں اداسیوں اور مایوسیوں سے گھر کر دل کے ساتھ ساتھ جسم بھی کمزور ہونے لگتا ہے اور کوئی دوسرا اس فکر کے اسباب اور شدت کو سمجھ نہ پائے بلکہ یہ وہ فکر ہے جس میں انقلاب کا جذبہ اور بیداری کا سبق ہوتا ہے ۔ ہاں کہیں کہیں مایوسیوں کا بھی احساس ہوتا ہے مگر یہ مایوسیاں بھی قارئین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں ۔ خیر ہم اس فکر کی بات کر رہے تھے جس میں دانش اثری نے انقلاب اور جنون کا جذبہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کی ہے ۔ اس طرح کی شاعری بطور مثال ملاحظہ فرمائیں ۔

                           اس دنیا نے جو زخم دیے وہ زخم بھی واپس کرنے ہیں

                           القدس کے سینے پر جتنے بھی زخم ہیں ، اپنے گہنے ہیں

                           ہاں ہند سے لے کر خاک عرب تک ، سارے خطے اپنے ہیں

                           جو قابض و غاصب و ظالم ہیں اسباق کچھ ان کو دینے ہیں

                           آواز یہ ہاتف کی آئی ، اب اہل سلم کی باری ہے

                           ہم آتے ہیں بس تھوڑا رکو، تھوڑی ناقص تیاری ہے

         دانش اثری کی شاعری موجودہ مسائل کی بھی عکاسی کرتی ہے ۔ یہ سائنس اور ٹکنالوجی کا دور ہے اور اس نے پوری دنیا کو ایک گائوں میں تبدیل کردیا ہے ۔ اسی کو گلوبل ولیج یا عالمی گائوں کہا جاتا ہے ۔ آج جہاں بھر کے مسائل اور واقعات پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں ۔ دنیا کے ان مسائل اور واقعات کے اثرات ہمارے شعراء پر بھی پڑ رہے ہیں ۔ دانش اثری نئی صدی کے شاعر ہیں نئی صدی نے ہی گلوبل ولیج کو مکمل وجود دیا ہے ۔ نئی صدی کے واقعات اور رحجانات کے اثرات دانش اثری نے بھی قبول کیے ہیں ۔

                           بس اک طرز تغافل تھا کہ رنگ کہکشاں بدلا

                           نظر بدلی ، نظارے گم ہوئے ، سارا جہاں بدلا

                           نئے زمانے کی رفتار سے میں نالاں ہوں

                           پرانی روح ہوں مجھ کو بڑی اذیت ہے

ان کے علاوہ انھوں نے شاعری میں اپنے جذبات کو بڑی خوبصورتی سے اپنایا ہے ۔ ان کے خیالات اگرچہ بکھرے ہوئے ہیں مگر یہ خیالات جب کسی شعر یا نظم کا حصہ بنتے ہیں تو مکمل محسوس ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس اگرچہ الفاظ کا ذخیرہ ہے مگر ان کو خوبصورت ترتیب دینے کی صلاحت بھی رکھتے ہیں ۔ یوں خیالات اور الفاظ کا بہترین سنگم وجود میں آتا ہے ۔ دوا شعار ملاحظہ ہوں ۔

                           ابھی تو کھیل نئے مرحلے میں جائے گا

                           ابھی بساط نئی ہم کو اک بچھانا ہے

                           ہم کو تاریکی سے اب خوف نہیں آتا ہے

                           ہم تو صحرا میں کئی رات گزار ے ہوئے ہیں

 خیال کو شعری جامہ پہنانا اور اس انداز سے پہنانا ہے کہ لفظوں کی ترتیب اور خیال کی کیفیت دل کو چھو جائے،ایک نئے شاعر کے بس کی بات نہیں ۔دانش اثری نئے شاعر ضرور ہیں مگر ان کی شاعری کافی پختہ اور معیاری ہے ۔ یہ ان کی شاعری کا ابتدائی سفر ہے جو بہتر سے بہترین کی طرف رواں دواں ہے ۔ امید ہے کہ اردو شاعری میں ان کا مستقبل روشن ہوگا ۔

***

Leave a Reply