You are currently viewing بلقیس ظفیر الحسن

بلقیس ظفیر الحسن

ثنا راعین (ثنا بانو محمد خضر)

ریسرچ اسکالر

آرٹی ایم ، ناگپور یونیورسٹی، ناگپور

بلقیس ظفیر الحسن

’بجھی ہوئی کھڑکیوں میں کوئی چراغ‘ کی روشنی میں

ادب اور ادیب سماج و معاشرہ کے لئے آئینہ کے مانند ہوتے ہیں۔ معاشرہ کسی بھی مسائل دو چار ہوتا ہے تو ادب اور ادیب پر اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے ادب نہ صرف ہوتا ہے ہوتا ہے بلکہ ادب تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ ہزاروں سال قبل کی تاریخ ادب کے ذریعہ ہی مرتب کی گئی ہے۔ ادباء ہر دور میں ہوتے ہیں اور وہ اپنے زمانے کے حالات کو اپنے ادب میں پیش کرکے آئندہ کیلئے سامان تحقیق فراہم کرتے ہیں۔ اردو ادب میں بلقیس ظفیر الحسن کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھوں نے جہاں عالمی ادب کے تراجم پیش کرکے اردو کا دامن وسیع کیا ہے وہیں وہ بحیثیت شاعرہ، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بھی مقبول ہوئی ہیں۔

اردو ادب میں بلقیس ظفیر الحسن جو بلقیس آپا کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں یکم ستمبر 1938کو بہار کی راجدھانی پٹنہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصلی نام بلقیس پروین ہے۔ جبکہ وہ شادی سے قبل تک بلقیس رحمانی بانو کے نام سے لکھتی رہیں۔ ان کی کتاب ’مانگے کی آگ‘ میں درج کوائف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تعلیم اعتبار سے کوئی سند نہیں رکھتی ہیں۔ بلقیس ظفیر الحسن کی تصانیف ’گیلا ایندھن‘ دسمبر ۱۹۹۴ء ، شعری مجموعہ ’شعلوں کے درمیان‘ ۲۰۰۴ء ، افسانوی مجموعہ ’ویرانے آباد گھروں کے ‘ ۲۰۰۸ ء میں اور ’مانگے کی آگ‘ڈراموں کا مجموعہ ’تماشہ کرے کوئی‘ بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ ’دلچسپ‘ منظر عام پر آچکی ہیں۔ بلقیس ظفیر الحسن کوان کی علمی و ادبی خدمات کو دیکھتے ہوئے سماجی و ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات و انعامات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ مشرف عالم ذوقی بلقیس ظفیر الحسن کے خاکے میں لکھتے ہیں کہ:

’’……بلقیس ظفیر الحسن کی تربیت جس ماحول میں ہوئی، وہاں یہی داستانیں تھیں، ادب کے تذکرے تھے ، مطالعے کا جنوں تھا ، خود کو تراشنے کی آزادی تھی۔ اور اسی لئے جب بلقیس ظفیر الحسن نے لکھنا شروع کیا تو پزیرائی کے دروازے کھل گئے، لہجہ روایتی بھی تھا اور جدید بھی، فکر میں پختگی تھی، اس میں فنون لطیفہ ، مصوری اور موسیقی کا بھی ہاتھ تھا ، جس کا ذکر ان کے گھر ہر محفل میں ہوتا تھا، پھرخبر ملی، ظفیر الحسن صاحب انتقال کر گئے، آپا کی زندگی میں انقلاب آ گیا، ہمیشہ قہقہوں میں گم رہنے والی آپا نے اداسی سے دوستی کر لی۔ اور یہ اداسی اب بھی ان کی شاعری کا حصّہ ہے۔‘‘ ۱؂

’تماشہ کرے کوئی‘ بلقیس ظفیر الحسن کے ڈراموں کا مجموعہ ہے۔ جس میں ان کا ایک طبع زاد ڈرامہ ’بجھی ہوئی کھڑکیوں میں کوئی چراغ‘ شامل ہے، اس کے علاوہ ٹینیسی ولیم کے ڈرامے گلاس مناجری اور کے اینٹن چیخوف کے ڈرامے دی بروٹ سے متاثر ہوکرلکھے گئے ہیں، دو ڈراموں کا ترجمہ کیا گیا ہے، جس میں ڈیوڈ کیمپٹن کا ڈراما اس اینڈ دیم جو بہت ہی دلچسپ ہے، اور ششر کمار داس کا ڈرامہ باگھ شامل ہے، جو بنگلہ ڈرامہ ہے، لیکن اس کا ترجمہ انگریزی ترجمہ سے کیا گیا ہے۔ ان ڈراموں میں ہندوستانی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے، عورتوں کی زندگی کے مشکلات و مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے، بیٹیوں کے کے مناسب رشتے تلاش کرنا، اور رشتہ ازدواج سے منسلک کرنا کتنا مشکل کام ہے، اس پہلو کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے، سماج میں عورتوں کی صورت حال اور نفسیاتی کیفیت بھی ڈراموں میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔

’بجھی ہوئی کھڑکیوں میں کوئی چراغ‘ کا موضوع مسلمانوں کی تہذیبی معاشرت اور ہندوستان میں آئے دن ہونے والے فسادات ہے۔ ڈرامہ کے نوٹ میں مصنفہ نے لکھا ہے کہ : ’’میرا یہ ڈرامہ دہلی اردو اکیڈمی کے ڈرامہ فیسٹیول میں منتخب ہوکے سری رام سینٹر دہلی کے اسٹیج پر محمد وسیم کے ڈائریکشن میں پیش کیا گیا تھا۔ ‘‘ جبکہ ڈرامہ کا کرداروں چچی: (ایک پڑھی لکھی نظر آنے والی خاتون ) عذرا : (لڑکی سی لگتی ہے۔ عمر پچیس تیس کے درمیان ) دھنیا: (گھر میں جھاڑو و برتن کرنے والی ) چچا:( متین۔ باوقار۔ چہرے سے فراست ٹپکتی ہے۔ ) امجد چچا: (چالیس پینتالیس کے نظر آتے ہیں۔ چہرے پر داڑھی۔ )نوید:( نئے زمانے کا پڑھا لکھا نوجوان جینز اور شرٹ میں ملبوس )

بلقیس ظفیر الحسن ایک شاعرہ بھی ہیں۔ لہٰذا ڈرامہ کا آغاز کچھ اس طرح سے ہوتا ہے۔

’’رن پڑے گا تو میں دھرم پر ہوں کہ تم

فرق اس سے ذرا بھی نہیں پڑنے والا

کہ جب انت اس یدھ کا ہوگا تو جیتے کوئی

ہاتھ لاشوں کا انبار ہی آئے گا

درد سے تلملاتی ہوئی اپنے ہی رکت میں تربتر

جیت ۔۔۔ کس کام کی؟

اس کروکشیتر سے باہر آنے کی کوئی تو اک راہ ہوگی کہیں

آؤ مل جل کے ڈھونڈھیں

قتل ہوجائے یا قتل کرنے سے خود کو بچالیں

کہ ہر قتل انسان کے ساتھ ہوتا ہے

مجروح بھگوان بھی!۔ ‘‘۲؂

دوسرا نوٹ کے طور پر انڈر بریکٹ بلقیس ظفیر الحسن لکھتی ہیں : ’’یہ ڈرامہ مجھ سے میرے اندرے بیٹھی اس ماں نے لکھوایا ہے جو پڑوسی بچوں سے جھگڑا کرکے روتے ہوئے اپنے بچوں کو ڈانٹ کر چپ کراتی تھی کہ ’’تم نے بھی کچھ کیا ہوگا۔ ‘‘ ڈرامہ کا پلاٹ ہندوستان میں جگہ جگہ ہونے والے فسادات کے ارد گرد ہے۔ کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ عذرا نامی لڑکی جو چچی کے گھر میں ہی رہائش پذیر ہے ۔ کسی انجانے خوف میں شوہر کی راہ تک رہی ہے۔ چچی کے استفسار پر عذرا کہتی ہے: ’’ہونے کا کیا چچی۔ کچھ بھی کب ہوجائے کیا بھروسا۔ ابھی تک نہیں آئے وہ۔۔۔۔ ‘‘ اسی انجانے خوف کے ساتھ ڈرامہ کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ خوف ڈرامہ کے اختتام تک برقرار رہتا ہے۔

ہندوستان میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان انگریزوں نے جو چنگاری آزاد ی سے قبل لگائی تھی اس کی لو آج بھی موقع موقع پر مختلف صورتوں میں شعلہ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ جس میں نقصان صرف عوام کا ہوتا ہے چاہے وہ ہندو یا مسلمان۔ بلقیس ظفیر الحسن نے ایسے ہی کئی فسادات کا مشاہدہ اپنی زندگی میں کیا ہے۔ ان کا کرب اس ڈرامہ میں صاف طور پر نظر آتا ہے۔ عذرا اور چچی کے مابین یہ مکالمہ اس بات کا بین ثبوت ہے:

’’چچی: عذاب خداوندی کے آثار ہیں بیٹی۔ ہمارے اعمال کا نتیجہ !۔ ارے جب مندر مسجد کے نام پر فتنے اٹھائے جائینگے تو عذاب الٰہی نازل ہوگا کہ نہیں؟ ( عذرا آ کے کرسی پر پنکھے کے نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ جھگڑے فساد تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ جہاں چار برتن ہوں تو کھڑکیں گے تو سہی۔ مگر اب کے تو رنگ ہی نرالا ہے۔ ( رْک کر ) خوب خون خرابا ہولے گا تو آئے گی عقل ٹھکانے !۔ ایسے تھوڑا ہی سمجھتے!

عذرا: (کانپ کر ) ہائے چچی۔ خون خرابے کی مت کہیئے میرا کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے۔ پہلے دہشت گرد کچھ کم اودھم مچائے ہوئے تھے؟۔ اب یہ شروع ہو گیا ! ( گھبرا کے ) ابھی تک نہیں آئے…… چچی…… جو وہاں…… ( آواز گلے میں گھٹ جاتی ہے)

چچی: نہیں بچے ۔ یوں نہیں گھبراتے۔ اْس طرف نہیں ہوتا فساد! یہ سب تو ادھر ہی ہوتا ہے پرانی بستی میں دنیا بھر کے نکمے بھرے پڑے ہیں۔ کچھ کرنے دھرنے کو ملتا نہیں تو ایک دوسرے کے گلے میں کاٹنے لگتے ہیں۔

عذرا: چچی……چچی ۔ میرا جی بہت گھبرارہا ہے۔

چچی: ارے بیٹی یہ تو کچھ نہیں ہے۔ جب موا پاکستان بنا تھا تب دیکھنا تھا۔ تم بیچاری تو پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں تب۔ میں انہیں دونوں بیاہی گئی تھی۔ یہی کوئی چودہ پندرہ برس کی ہوں گی … ( ٹھنڈی سانس لیتی ہیں ) جوان تھی ان دنوں ایسی راکھ کا پھونک تھوڑا ہی تھی……‘‘ ۳؂

فسادات کے دوران ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ مذہب کے نام پر اپنی سیاست کو چمکانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو غریب عوام، بھوکے ننگے لوگ، مختلف مسائل سے دوچار کسانوں کی کوئی حالت زار پر کوئی افسوس نہیں۔ مصنفہ نے ڈرامہ کے ایک کردار کے ذریعہ غریبوں کی حالات زار کو اس طرح بیان کیا ہے:

’’دھنیا: ہم ہو کا بولت رہیں کی منتی جا کام پر۔ مار کے پھینک دینگے۔ ہم بولے مار دی ہیں تو ماریے دین بھکے تو مرا جات نہیں۔ اب کا بتا ویں بی بی جی۔ ہمر امر در کسا چلات رہا۔ ای کرہ مو میں اْو ہو بند بھئی گوا۔ ہم ایہاں اوہاں سے روٹی لات ہیں تو۔ دوٹھودانا پڑ جات ہے بچون کا پیٹ میں۔ بیٹھے رہیں گھر ماں تو ایہونا ملیہے۔ ( چچی کی طرف پر امید نظروں سے دیکھتی ہے) ایہاں تو ناہی ہوئیے نا؟ ای توسرکاری کلونی ہے؟۔ ‘‘۴؂

کسی بھی علاقہ میں فساد رونما ہونے پر جس طرح بے دریغ بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کرکے برسوں جیل کے سلاخوں کے پیچھے رکھا جاتا ہے وہ بھی کسی بڑے المیے سے کم نہیں۔ چچا اور امجد کے درمیان ہونے والے مکالمے اس کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے:

’’چچا: (سرگوشی کے انداز میں) ان کے محلے میں فساد ہوگیا ہے۔ کئی دوکانیں اور گھر نذرِ آتش کردئیے گئے۔ کرفیو لگ گیا ہے۔ فساد کے الزام میں گرفتار نہ کرلئے جائیں اس لئے امجد یہاں چلے آئے ہیں۔ (امجد چچا کا آخری جملہ سن کے تڑپ کے اٹھ بیٹھتے ہیں)

امجد: ہاں ہاں ! میں فسادی ہوں! میں نے پتھر بوتلیں جو بھی میرے ہاتھ میں آیا اٹھا کے ہجوم پر پھینکے ہیں۔ لوگوں کے سر پھوڑے ہیں۔ (لہجہ دھیما ہوتا جاتا ہے) مگر بھائی جان !خدارا مجھے بتائیے کہ جب ایک جم غفیر محلے میں گھس آئے گھروں اور دوکانوں کو آگ لگانے لگے تو کوئی کیا کرے؟۔ اپنے گھر میں آگ لگتی دیکھ بیٹھا رہے؟ ( سرتھام کے پھر نیم دراز ہوتے ہوئے) اس کے بعد پولیس آئے اور اس جرم میں پکڑ کے لے جائے کہ میں فساد میں شامل تھا! (تیز لہجے میں) بتائیے بھائی جان! کیا میں فسادی ہوں؟ ‘‘ ۵؂

مصنفہ نے اپنے قلم کے ذریعہ مسلمانوں کی ابتری اور مایوسی پر کھل کر کرداروں کی زبانی تبصرہ کیا ہے۔ مسلمان اپنی موجودہ پستی کی وجہ تلاش کرنے کے بجائے اپنے شاندار ماضی میں مگن ہے۔ بات بات پر یہ کہنا کہ ہم نے کئی صدیوں پر اس سرزمین پر حکومت کی ہے۔ چچا کی زبانی یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:

’’چچا:       ( چہرا غصے سے سرخ ہو جاتا ہے ) اور تم ؟ تم بھی تو بھی نہیں بھولتے۔ حالانکہ اچھی طرح جانتے ہو جنہوں نے ان پر حکومت کی تھی وہ تم نہیں تھے … پدرم سلطان بود! ہونھہ…… ارے نا معقولو ! جنہوں نے حکومت کی تھی وہ صرف بادشاہ تھے !۔ بادشاہ صرف بادشاہ ہوتے ہیں۔ وہ نہ ہندو ہوتے ہیں نہ مسلمان۔ اپنے اقتدار کی راہ میں آنے والے کسی کو بھی تہہ تیغ کر دینے والے ! چاہے وہ ہندو ہویا مسلمان یا کوئی بھی۔ ( تیز تیز قدموں سے ٹہلنے لگتے ہیں ) کیسی کیسی بکو اس سننے کو ملتی ہے!۔ باطل سے ڈرنے والے اے آسمان نہیں ہم … ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینگے! ہونھ! پتانہیں کس دنیا میں رہتے ہیں ہم لوگ !۔ کنکر تک تو پاس نہیں ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بات کرتے ہیں! کیا چاہتے ہو؟ ایک اور پاکستان؟۔ ایک بنوا کے کیا پایا؟۔ وہاں کے کیا حالات ہیں؟ …… نہیں دیکھ کے بھی آنکھیں بند کرنے والے تم ہو امجد … میں نہیں ! ( طیش کے عالم میں بیٹھ جاتے ہیں)۔ ‘‘ ۶؂

عصر حاضر میں ہم لا تعداد فرقوں میں بٹ گئے ہیں مگر تقسیم ہند کی وجہ سے لوگوں کے ذہن بھی دو حصوں میں بٹ چکے ہیں۔آج بھی کچھ شر پسند لوگوں کی وجہ سے اپنے ہی اپنوں کا خوں بہارہے ہیں۔اور اس کی عکاسی بلقیس بیگم نے اس ڈرامے میں کیا ہے۔اس ڈرامے میں جہاں فسادات کی ہولناک تصاویر کی عکاسی کی گئی ہے وہی دوسرا رخ یہ بھی بتاتا ہے کہ آج بھی ہندو مسلم بھائی چارگی کے سوچ رکھنے والے کچھ روشن خیال لوگ موجود ہیں۔ آخری مکا لمہ میں دیکھیے:

’’نوید: اپنے آپ کو سنبھالئے عذرا با جی۔ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ ان کے دوست بانکے بہاری انہیں اپنے گھر لے گئے ہیں۔ وہیں سے فون کیا ہے۔ آپ لوگوں کی فون کی لائن نہیں مل رہی تھی۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ لوگ بالکل نہ گھبرائیں۔ وہ بالکل بہ عافیت ہیں۔ رات کو آنے کے لئے نکلنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس لئے صبح آجائیں گے۔ (عذرا اپنا چہرہ ہتھیلیوں میں چھپالیتی ہے)

 ( عذرا پھپھک پھپھک کے رونے لگتی ہے۔ چچا اس کے پاس جاکے اس کا سر تھپتھپانے لگتے ہیں)

چچا:      ہاں ہاں نہیں روتے۔ بیٹی نہیں روتے۔ مت گھبراؤ، انصار صبح ہی آجائیں گے۔ میں بانکے بہاری صاحب کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ نہایت روشن خیال اور صحیح سوچ والے انسان ہیں۔ مت گھبراؤ انصار صبح آجائیں گے۔

عذرا:    ( ہچکیاں لیتے ہوئے) چاچا۔۔۔۔۔ صبح۔۔۔۔۔۔صبح۔۔۔۔۔کب ہوگی۔۔۔۔ کب ہوگی۔۔۔۔ سب خاموش ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں)۔‘‘۷؂

 ڈرامے کا اختتام عذرا کی ہچکیوں پر ہوتا مگر بلقیس بیگم نے انصار کے دوست بانکے بہاری کا ذکر چھیڑ کر ہندو مسلم اتحاد کا درس دیا۔بحیثیت مجموعہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلقیس ظفیر الحسن نے ڈرامہ ’بجھی ہوئی کھڑکیوں میں کوئی چرغ‘ کی روشنی میں‘ نہ صرف فسادات کی عکاسی کی ہے بلکہ ہندوستان کے مشترکہ معاشرہ یعنی قومی یکجہتی کی اہمیت و افادیت پر بھی بے لاگ تبصرہ کیا ہے۔ بلقیس ظفیر الحسن کی زبان پر قدرت و دسترس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سلجھی ہوئی مصنفہ ہیں۔ وہ اپنے اسلوب اور بیانیہ کے لحاظ سے منفرد مقام رکھتی ہیں۔

===

حواشی

۱۔       آدمی بیان بھی ہے (مشرف عالم ذوقی کے ادبی خاکے) مرتب : احتشام الحق آفاقی، ص: ۳۵۳

۲۔      تماشا کرے کوئی،بلقیس ظفیر الحسن صفحہ ۱۵۴۔۱۵۵

۳۔      تماشا کرے کوئی،بلقیس ظفیر الحسن صفحہ۱۵۷۔۱۵۸

۴۔      تماشا کرے کوئی،بلقیس ظفیر الحسن ص:۱۵۸

۵۔      تماشا کرے کوئی،بلقیس ظفیر الحسن ص:۱۶۰

۶۔      تماشا کرے کوئی،بلقیس ظفیر الحسن ص:۱۶۳

۷۔      تماشا کرے کوئی،بلقیس ظفیر الحسن ص:۱۷۷

Leave a Reply