ڈاکٹر گلزار احمد وانی
بٹن (انشائیہ)
آفتاب کی موجودگی میں ستارے ہر ایک کی آنکھ سے اوجھل ہوتے ہیں ۔اور تاروں کی طرف شاید ہی کسی ایک کا دھیان جاتا ہوگا۔مگر تاروں کی اہمیت اور ان کی ضو فشانی سے کوئی ایک منکر بھی نہیں۔یہ ایسی ہی بات ہو گئی کہ جیسے کسی نے تیز ترین رن بنائے اور مین آف دی میچ کا ایوارڈ جیت گیا۔اور کوئی ایسا بھی ہے جس نے ایک سائیڈ کے وکٹ کو بچائے رکھا مگر اس کا نام تک کوئی لیتا نہیں۔یہی مثال ایک بٹن کی ہے ۔اس کی موجودگی کسی کو جب بھاتی نہیں ہے پر اس کی غیر موجودگی سب کو کھلتی رہتی ہے۔ یہ کیا عجیب تماشا ہے کہ آدمی جب اپنے لئے کوئی بھی لباس کے کپڑے کو کئی بار دیکھ کر ہی پسند کر لیتا ہے تو اس پر سجے ہوئے اس کے بٹن کو کیوں نہیں۔ یہ سراسر نا انصافی ہے جس پر سبھی ملبوسات کو کسی جگہ سوچ وچار کرنے کی از حد ضرورت ہے۔کیونکہ اس کا علاقہ اس تمام خام مواد سے ہے جو انسان کو اپنی تن ڈھانپنے کے لئے ہی نہیں بلکہ اپنی شخصیت کی چھاپ چھوڑنے کے لئے ضروری ہے۔لہذا میں بھی اس کے حق میں ہوں کہ تمام ریڈی میڈ دکانوں کے ایوانوں میں بنارس اور وشاکھا پٹنم کے پوشاک ملوں میں اپنی آواز اٹھانے کے لئے تیار ہوں ۔
بٹن کی بے گناہی ثابت کرنے لئے اب کسی ایسے وکیل کی ضرورت آن پڑی ہے جو اس کا کیس کسی غیر جانبداری کے ساتھ لڑے۔ مگر وہیں دوسری جانب اس کے حزب اختلافی زپ نے بھی اپنے تمام تر مورچوں کو کس لیا ہے جہاں سے وہ اپنا دعوی پیش کرکے کہ کسی بھی پوشاک کو زیب تن کرنے کے لیے اس پر باہری سائیڈ پر اس کا ہی کام ہو اور ویسے بھی آج کل تو بٹن کا زمانہ نہیں رہا ہے لہذا اس کا کیس بھی اپنی جگہ بہت ہی مضبوط دکھ رہا تھا ۔ اب بٹن بیچارے کی سنے کون۔جس نے ازمنہ قدیم سے لے کر تا ایں دم انسانی پوشاک کو زیب تن کرنے کے لئے اپنی تن قربان کر دی تھی۔ اگر کسی کے کوٹ کا ایک بھی بٹن گر جاتا ہے تو کوٹ کی وقعت اور قیمت صفر بھی نہیں رہتی ہے ۔یا اب اگر موسم کروٹ بدل کر ٹھنڈ میں بدل جائے تو بٹن کی وقعت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے اس لئے بٹن کا کیس کہیں زیادہ مضبوط بھی ہے اور قوی بھی۔اس نے سرد و گرم زمانہ دیکھا ہے ۔اس نے یہ بھی قبول کیا ہے کہ جب گرمی پڑ جائے آپ بٹن کو بنا دکھائے کھلا بھی چھوڑ سکتے ہیں اور جب ٹھنڈ پڑ جائے تو بند بھی کر سکتے ہیں اس میں کسی قسم کی کوئی تخصیص نہیں ہوگی۔یہ آدمی پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کیسے اور کس طرح کا پوشاک زیب تن کرے۔اور دونوں صورتوں میں بٹن اس کے ساتھ رہتے ہیں ۔
اب بٹن کے بھی مختلف النوع اقسام ہیں۔ چھوٹے بڑے چمک والے ، بنا چمک کے ،کوٹ والے بٹن ،قمیض والے بٹن ،پیھرن کے بٹن،پینٹ کے بٹن ، دو سوراخ والے بٹن، بنا سوراخ والے بٹن اور چار سوراخ کے بٹن گول بٹن سکئیر بٹن ، بھاری بٹن ہلکے بٹن وغیرہ۔یہاں اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو زپ نے بھی اپنے مورچے پوری طرح کس لئے ہیں اس میں نرم زپ ،دندانے والی زپ، لمبی زپ، چھوٹی زپ، لوہے کی زپ، نیلان والی زپ، پھیرن کی زپ، جاکیٹ کی زپ، پینٹ کی زپ ، اپر کی زپ وغیرہ۔اس طرح سے دونوں میںاں مٹھو بننے لگے۔
بٹن کے ساتھ کئی بار آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب بھی کسی جگہ دو دوست بلا خلل کے اپنی سنانے میں مگن ہوتے ہیں ،تو کچھ کر دکھانے کی خاطر وہ ایک دوسرے کے بٹن یا تو کھول دیتے ہیں یا پھر بند کرکے پھر کھول کر ایک دوسرے کا سینہ بھی دبا کر فوجی مشق کرنے لگتے ہیں۔ اور لوگوں کی طرح انہیں بھی اپنی برادری میں رہنا سہنا پسند اور گوارا ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی کی قمیض سے کوئی بٹن کہیں گرے بھی تو دوسرے رنگ ڈھنگ کا بٹن لگانا انسان کے پوشاک کی زیب و زینت کا نقص ظاہر کرتا ہے اور اس کی وقعت گھٹاتا ہے اور تو اور لوگ اسے طعنے بھی کسنے میں تامل نہیں کرتے ہیں۔بٹن کے نام پر درزی بھی سیاست اور ٹال مٹول کرنے میں خریدار کو آج کل کرواتے ہیں ۔جب ان سے استفسارا پوچھا جاتا ہے کہ کیا کپڑے تیار ہیں، تو وہ بٹن کا بہانا بنا کر یہ جواب دینے میں ذرا بھی نہیں جھجکتے ہیں کہ کپڑے تو سلے ہوئے ہیں اب بس بٹن لگانا باقی ہے۔
بٹن کے ساتھ ایک اور نا انصافی اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب کوئی نیا شاگرد درزی کا کام کرنے کیلئے کام پہ آتا ہے تو سب سے پہلے اسے بٹن کے لئے کاج بنانے اور بٹن لگوانے کے کام میں مصروف کیا جاتا ہے اور اگر کہیں کوئی غلطی پکڑی گئی تو ڈانٹ ڈپٹ بھی یہیں سے پڑتی ہے۔ اس طرح درزی کے کیرئیر کی شروعات اسی بٹن سے ہو جاتی ہے جسے وہ تا عمر اپنی آپ بیتی بتا کر بٹن کو از بر کرتا ہے۔ اور جب کبھی گہری دوستی کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔ تو ایک بٹن دو کاج کا محاورہ بے جھجک زباں سے نکلتاہے۔
یہ شے بھی کچھ عجیب و غریب ہے کہ اس کے ساتھ زندگی کی سو بہاریں وابستہ دکھائی دیتی ہیں۔ اگر ذرا بھی بٹن قمیض یا کو ٹ سے ڈھیلا ہو جائے تو ہر کوئی اسے بند کرنے کی اصلاح دینے لگتا ہے۔ اور اکثر و بیشتر اس کا نزلہ عورتوں پر نکالا جاتا ہے کہ کپڑے دھوتے وقت آپ بٹن کو توڑتی ہیں۔ پھر ایک اور لازم و ملزوم والی بات ہے کہ دھاگا کے سنگ اس کا کافی میل ملاپ ہوتا ہے یعنی جیسا کپڑا ویسا دھاگا۔اگر دھاگا دوسرے قسم کا ہو جو بقیہ بٹنوں میں موجود نہ ہو تو کافی گڑ بڑ ہو جاتی ہے اور کبھی کبھار تو بٹن گرنے کے بعد اتنی گھن سی لگتی ہے کہ انسان وہ کپُڑا بدلنے پر آ ہی جاتا ہے وہ بھی صرف اور صرف اسی بٹن کے کارن۔
بٹن انسان کے پوشاک کی زیب و زینت نہ صرف بڑھاتا ہے بلکہ اس کے لئے لازم و ملزوم ہونے کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اور اس طرح سے بٹن اور زپ دونوں اپنی جگہ برابر اورسالم ہیں اب فرق یہ ہے کہ مذکر اور مونث کون ہے جب اسے استعمال کیا جاتا ہے تو بٹن مذکر اور زپ بطور مونث استعمال ہوتی ہے ۔اسطرح یہ مسئلہ بھی حل ہوا ہے ۔اب یہ ایک دوسرے پر اپنی اہمیت نہ جتائیں گے اور نہ بتائیں گے۔
اس جدید دور میں اب ان بٹنوں کو ان جگہوں پر لگایا جاتا ہے جہاں ان کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے بس اور بس سجاوٹ کے بطور انہیں رکھ لیا جاتا ہے۔ اور وہاں اسے فیشن کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ خیر زپ کا معاملہ بھی کچھ کم نہیں ہے جب بھی کسی ٹراؤزر میں آج کل دیکھا جاتا ہے تو کم سے کم دس پندرہ جیبیں دکھائیں دیتی ہیں اور اتنی ہی زپیں بھی جیسے کل کائنات اسی میں سمیٹنی ہو، لہذا ان دونوں کا کیس بہت ہی سالڈ ہے۔ان کے ساتھ چھیڑ خانی ہرگز بھی جائز نہیں۔
بٹن کا کھیل بچوں کے لئے ایک ایسا کھیل ہے جس کھیل سے بڑے اکثر جی چراتے ہیں۔ یوں تو بچوں کے ہر ایک کھیل کے ساتھ بڑے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جیسے گلی ڈنڈا، غبارے بازی اور کبوتر بازی وغیرہ اور بڑے تو بازیچئہ اطفال میں برابر کے شریک ہوتے ہیں مگر کم سے کم یہاں تو وہ اپنا پلو جھاڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اس بازیچہ اطفال میں انہیں معلوم ہے کہ یہاں ایسی کی تیسی ہونے والی ہے اس لیے وہ انہیں اس ڈگر پر بالکل بھی نہیں ستاتے ہیں۔ اور انہیں تنہا کھیلنے دیتے ہیں۔
سرمایہ کاروں نے اب اس میں سرمایہ کاری کرنے کی کسر بھی نہیں چھوڑی ہے اور کسی حال میں بھی چوکتے نہیں ہیں۔اب بیچارے بٹن کو یہ خود بھی معلوم نہیں کہ اس کی کیا کوئی آنکھ بھی ہوتی ہے ۔کیونکہ وہ اپنی ہئیت اور تجسیم کاری سے بالکل بے خبر ہے ۔ہم کہیں جا رہے تھے تو صادق کے ساتھ اس کا بیٹا جمیل جو تین سال کا تقریبا لگ رہا تھا وہ زارو قطار رو رہا تھا میرے پوچھنے پر کہ یہ کیوں رو رہا ہے کہنے لگا کہ مدثر نے اس کے ٹیڈی کی ایک آنکھ نکالی دی ہے۔اسلئے رو رہا ہے اتفاقا میری قمیض میں ایک کالا بٹن علاوہ ازیں تھا تو میں نے اپنی قمیض سے نکال کر اس میں لگا دیا اور بچہ باغ باغ ہو رہا تھا ۔ماجرہ یہ ہے کہ جب یہی بٹن ٹیڈی بئیر اور اس جیسے مختلف جانوروں میں آنکھ کی بطور فٹ کیا جائے تو بٹن کے جیسے دن آنے شروع ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ بچے انہیں نقلی کے بجائے اصلی سمجھتے ہیں یہاں اب زپ کی پوری طرح مات ہوئی ہے کیونکہ شاید یہ کام اس کے بس کا نہیں۔
بات بٹن کی چل رہی ہے کیوں نہ اس کے اور پہلو کی طرف رخ کرتے ہیں۔کیا بٹن کے بھی کچھ ارماں ہوتے ہیں شاید انہیں بھی اک چھوٹا سا قلب ودیعت ہوا ہے اسی لئے شاعر یہ کہنے پہ آیا ہے
بٹن بنے تو گماں تھا سجیں گے سینے پر
ہمیں کسی نے کلائی کے کف میں ٹانک لیا
بٹن صرف اب قمیض شلوار اور کوٹ تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ ان کا قافیہ بھی مثنوی کی مانند بے محیط ہے اب آپ پوچھیں گے کیونکر جناب آپ گھبرائے مت، اب موبائل فون کے بٹن بھی تو ہیں جبھی آپ بٹن دبا کر اپنے اپنوں کے ساتھ محو گفتگو ہو جاتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے ۔تمام ایٹمی طاقتوں کی نظریں حضرت اسرافیل کی طرح ایٹمی بٹنوں پر رہتی ہیں ۔اللہ خیر کرے، یہ معاملہ تو سنگین نوعیت کا ہے
کوئی ہے ، ورنہ یہ دنیا کس قدر برباد ہو پاگلوں کے ہاتھ میں ہیں سب مشینوں کے بٹن
______________________