You are currently viewing بچوں کے مشہورنظم گو شاعر:  اسماعیل میرٹھی

بچوں کے مشہورنظم گو شاعر:  اسماعیل میرٹھی

 امتیاز احمد

ریسرچ اسکالرمولانا آزاد نیشنل

اردو یونیورسٹی  حیدرآباد تلنگانہ۔

بچوں کے مشہورنظم گو شاعر:  اسماعیل میرٹھی

  ٹھیک سے دیکھنے پر بچہ جیسا پرانا اور کچھ نہیں ہے،،(رابندر ناتھ ٹیگور کے نبندھ ساہتیہ اکادمی دہلی ص 392 (ہندی)

         ربندر ناتھ ٹیگور کے اس قول کے تناظر میں دیکھا جائے توایسا لگتا ہے کہ امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ساری چیزوں میں تبدیلی آ جاتی ہے لیکن بچے ہزاروں سال پہلے جیسے ہوا کرتے تھےآج بھی ویسے ہی ہیںالبتہ ان کی ذہنی نشو نماں اور کردار سازی کا طریقۂ کار بدلتا رہا ہے۔عہدِ قدیم میں لوگ اپنے بچوں کو ایسی کہانیاں اور واقعات زبانی سنایا کرتے تھے جو بہادری،جوش اور اخلاقیات سے پُر ہوا کرتی تھیںاور اِن قصوں اور کہانیوں کو تربیتِ اولاد کا ایک بہترین ذریعہ تصور کیا جاتا تھا۔لیکن جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا گیااور لوگ تعلیم سے روشناس ہوتے گئےاور ماہرین نے زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو باضابطہ تحریر کرنا شروع کیااور کتابیں لکھی جانےلگیں تو کچھ ماہرین نے بچوں کی نفسیات کا مطالعہ کیا اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ایسی کتابیںلکھیں جوانھیں تفریح،ذہنی سکون،اور زبان کی پختگی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ بچوںکی معلومات اور ان کی حیرت و استعجاب کو آسودہ کرنے میںمعاون ثابت ہوں۔چنانچہ آگے چل کرانھیں کتابوںاور مواد کو خواہ وہ نثر کی صورت میں ہوں یا نظم کی ،بچوں کا ادب کہا جانے لگا۔

         اردوزبان میں ادبِ اطفال کےموضوع پر جن اوــلین قلم کاروں نے اپنی تخلیقات کا نمونہ پیش کیا  ہے ان میں ایک اہم اورمشہور نام مولوی محمد اسماعیل میرٹھی(پیدائش:12،نومبر1884ء-وفات: یکم نومبر1917ء)کا ہے۔آپ نے اردو نظم و نثر میںبہت کچھ لکھا ہےلیکن ،،ادبِ اطفال،، پر لکھی جانے والی نظمیں اور نثری تحریریں آپ کی شہرت کی باعث بنیںاور آپ کو بچوں کا ادیب کہا جانے لگا۔ زیر نظر مضمون میں صرف ان مشہورنظموں کا احاطہ کیا گیا ہے جو انہوں نےبچوںکی نفسیاتی دل چسپی کو مد نظر رکھتےہوئے تخلیق کیا ہےاو اس کی آڑ میں بچوں کو محنت،قوت عمل،اخلاقی ہمدردی اور جہد مسلسل جیسی پوشیدہ اوصاف سے مزین کرنا چاہا ہے اور کامیاب بھی رہےہیں۔

         چونکہ بچے پنگھوڑےمیں ہی ماں کی لوریاں سنتے ہیںاور ان لوریوںکےسُر اور خوش آہنگ الفاظ کی تکرارسےمحظوظ ہوتےرہتے ہیں اسی لیے جب ہوش سنبھالتے ہیںتو چھوٹی چھوٹی نظمیں ان کو بہت متاثر کرتی ہیںاور وہ بڑی آسانی کے ساتھ ان نظموں کو یاد کر لیتے ہیں ۔اسماعیل میرٹھی نے بچوں کی اسی نفسیات کو نظر میں رکھتے ہوئےاپنی طرزِ نگارش کو بہت آسان ،سادہ اور دلچسپ رکھا ہےاور بچوں کے گرد و پیش کے ماحول کو دیکھتے ہوئےاپنی نظموں کا عنوان ان جانوروں کے نام پے رکھا ہے جو گھروںمیں رہتے ہیں اور بچے ان سےمانوس ہوتے ہیں جیسے اسلم کی بلی،ہمارا کتااورہماری گائے وغیرہ۔

ان کی سب سے مشہور نظم ہماری گائے ہے جو اردو سے واقف تقریباً ہر بچے کی زبان پر ہوگی۔جس کی شروعات وہ بڑے انوکھے انداز

 میں کرتے ہیں:

رب کا شکر ادا کر بھائی                 جس نے ہماری گائے بنائی

اس مالک کو کیوں نہ پکاریں             جس نے پلائی دودھ کی دھاریں

         اس نظم میں گائے کا ذکر کرتے ہوئے ا س سےحاصل ہونے والی عظیم نعمت یعنی دودھ پر خدا کا شکر ادا کرنے کا جو انداز

ہے وہ بچوں کے اندر ایک دور رس تـاثر پیدا کرتا ہے اور ان کے دل میںگائے کی اہمیت اور اس سے انسیت کا ایک وافر جذبہ فروغ پاتا ہے۔

         اسی طرح وہ اپنی نظموں کے ذریعےفطرت کے حسین مناظرسے بچوں کو روشناس کرانا چاہتے ہیں۔کیونکہ ان کو معلوم ہےکی فطرت کے ذریعے اخلاقی اقدار اور آدابِ زندگی کی تشکیل ہوتی ہے ۔اپنی نظموں میںانہوں نے زمین کی جمالیاتی قدر اور مناظرِ فطرت کو بڑی خوبصورتی اورفنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے جو بچوں کے ذہن میں ایک نقش اجاگر کرتی ہیں جیسےخداکی صنعت کے اشعار:

سبزے سے ہرا بھرا ہے میدان                 اونچے اونچے درخت ذی شان

ننھی کلیاں چٹک رہی ہیں                        چھوٹی چڑیاں پُھدک رہی ہیں

دریا ہے رواں پہاڑ کے پاس                     بستی ہے بسی اُجاڑ کے پاس

         اسی طرح بارش کا پہلا قطرہ،قوسِ قُزح، ساون کی جھڑی اور تاروں بھری رات کا شمار مناظرِ فطرت کی بہترین عکاسی کرنے

والی نظموں میں ہوتا ہے۔جن کے اشعار ایک بار پڑھ لینے سےیادہو جاتے ہیںاور بچے ان کو گنگناتے پھرتے ہیں۔

         اسماعیل میرٹھی کی کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے ۔ اوران کو فکری اور عملی حیثیت سے ایک مقام پر لانا چاہتے تھے وہ چاہتے تھے کہ بچےصرف علم ہی نہ سیکھیںبلکہ وہ اپنی اخلاقی اور تہذیبی روایات سے بھی با خبر ہوں ۔اسی لیے انہوں نے معمولی معمولی چیزوں کو بھی بڑے قرینے سےاورنصیحت آمیز بنا کر پیش کیاتاکہ بچوں کے تخیلات میں اضافہ ہواور وہ اپنی اخلاق سازی کر سکیں جیسے یہ اشعار:

                           بد کی صحبت میں مت بیٹھوبد کا ہے انجام برا        بد نہ بنے تو بد کہلائے،بد اچھا بدنام برا

                           ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں                      ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں

                           کرے دشمنی کوئی تم سےاگر                    جہاں تک بنے تم کرو در گذر

         آسان زبان میں کچھ لفظوں کو ترتیب دے کر یہ سمجھنا کہ بچوں کی شاعری تخلیق ہو گئی یہ محض خام خیالی ہوگی کیوں کہ بچوں

کے لیےصرف آسان زبان کافی نہیں ہےبلکہ اس کے پیچھے تخلیق کارکا ایک با مقصد اورمثبت نظریہ ہونا چاہیےکہ وہ باتوں باتوں میں زندگی کے اعلیٰ مقاصد کی طرف بچوں کے ذہن کو کیسے منتقل کرتا ہےیہی اس کی فنی اور فکری خوبی کہلاتی ہے۔اس تناظر میں اسماعیل میرٹھی کی نظموںکا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب ہیں ۔وہ بچوں کے لیےجو زبان استعمال کرتے ہیںوہ سادہ اور سلیس ہونے کے ساتھ بہت عام فہم ہوتی ہے اور ہر شعر میں کوئی نا کوئی مقصد چُھپا ہوتا ہے جو بچوں کی دلچسپی اورکردار سازی میں اہم رول ادا کرتا ہےجیسے یہ اشعار :

اگر تھوڑا تھوڑا کرو صبح و شام           بڑے سے بڑا کام بھی ہو تمام

مت چھوڑیو کام کو ادھورا              بے کار ہے جو ہوا نہ پورا

ہمت کو نہ ہاریو خدارا                  مت ڈھونڈیو غیر کا سہارا

سچ کہوگے تو تم رہوگے دلیر            جیسے ڈرتا نہیں دلاور شیر

         مولوی اسماعیل میرٹھی کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ وہ بچوں کی دلچسپی کے لیے ان گھریلو چرند و پرند اور ان کی عادت و خصلت کو بڑی خوش اسلوبی اور نصیحت آمیز ی کے ساتھ بیان کرتے ہیںجن کو بچوں نے بڑے قریب سے دیکھا اورپرکھا ہوتا ہے اور

ساتھ ہی ساتھ ان سے اچھی طرح مانوس بھی ہوتے ہیںجیسے کوــا یہ روز گھر کی دیواروں پہ بیٹھتا ہے کرخت آواز نکالتا ہے اور بچوں کے

ہاتھ سے روٹیاں چھین لیتا ہےاور اچھلتا رہتا ہے ۔ ان تمام خصلتوں کو وہ اپنی نظم کا حصہ بناتے ہیں تاکہ بچے ان سب سے خوب محظوظ

 ہوں جیسے یہ اشعار:

لیکن ہے آواز بری سی                 کان میں جا لگتی ہے چھری سی

اس کو تو بس آتا ہے اچھلنا               جانے کیا دو پاؤں سے چلنا

اسی طرح چیونٹی جو انتہائی جفا کش اور جہد مسلسل کی پیکر مانی جاتی ہے اور ہمت نا ہارنا اس کی بہترین خصلت گردانا جاتا ہے۔لہٰذا انہوں

نے اس کو اپنی نظم کا حصہ بنا کربچوں کے اندر وہی جذبہ اور جہد مسلسل ودیعت کرنا چاہا ہے۔ اور اس ننھی سی مخلوق کی محنت ،

خوراک کی جمع آوری اوردور اندیشی کو یوں بیان کرتے ہیں اشعار:

بہت عاقلہ ہے بہت دور بیں ہے                 کہ فکر اپنی روزی کا تیرے تئیں ہے

اسی دھن میں پہونچی کہیں سے کہیں ہے          کبھی اپنے دھندے سے غافل نہیں ہے

کبھی کام تونے ادھورا نہ چھوڑا                   کبھی تونے تکلیف سے منہ نہ موڑا

         بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی نظمیں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ زبان سیکھنے اور بولنے میںبھی مددگار ہوتی ہیں۔ان کی نظموں میں اردو کے بہت سے ایسے خوبصورت الفاظ اور محاورے استعمال کیے گئے ہیںجو ہماری بول چال والی زبان میں مٹھاس پیدا کرتے ہیں۔ جس کے لیےانہوں نے کثرت سے ہندی اور مقامی بولیوں اور محاوروںکا استعمال کیا ہےجن میں سے اکثرآج کل متروک ہو چکے ہیں اور اب بالکل استعمال نہیں کرتے ہیںبلکہ بہت سے لوگ ان کوبھول بھی گئے ہیں اشعار:

                  کوے ہیں سب دیکھے بھالے                    چونچ بھی کالی پر بھی کالے

                  کالی کالی وردی سب کی                         اچھی خاصی ان کے ڈھب کی

                  آنکھ بچا کر جھٹ لے بھاگا                       واہ رے تیری پھرتی کاگا

مذکورہ بالا اشعار میں ایک مصرعہ بھی ہندی اور مقامی الفاظ سے خالی نہیں ہے۔جو میرٹھ اور قرب و جوار میں نہ بولا جاتا ہو۔اسی طرح کچھ نظمیں وہ ہیں جن میں انہوں نے کہانی بیان کیا ہےکیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ بچے کہانیاں پسند کرتے ہیںاور دیر تک ان کے لا شعور میں رہتی ہیں۔لہٰذا انہوں نے ان کہانیوں کے ذریعے نصیحت کا ایک پہلو نکالا ہے اور بچوںکے ذہن کو اس کی جانب مرکوز کرنے کی پوری کوشش کی ہےجیسے کچھوا اور خرگوش،ایک گدھا شیر بنا تھا،ایک کتا اور اس کی پرچھائیں،ایک گھوڑا اور اس کا سایہ اور ایسی دوسری نظمیں جن میں دلچسپ کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔ان کی نظموں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادبِ اطفال میں بچوں کےادبی ذوق کو سیراب کرنے کے لیے جو کاوشیں اسماعیل میرٹھی صاحب نے کی ہیں وہ قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید ہیں۔ اور آج اردو زبان میں ادب اطفال پر جو مواد ہمیں دستیاب ہے یہ انھیں کے کوششوں کا نتیجہ ہےاور ان کا یہ کارنامہ دائمی یادگار کا سبب بھی ہے۔

کتابیات

(1) کچھوا اور خرگوش،از محمد اسماعیل میرٹھی۔

(2) اسماعیل میرٹھی، از عادل اسیر دہلوی۔

(3) بچوں کے اسماعیل میرٹھی، از حکیم نعیم الدین زبیری۔

(4) اسماعیل میرٹھی حیات و خدمات، از ڈاکٹر سیفی پریمی( خلیل الرحمٰن)

(5) دنیا کے بچے،از عزیز رضوی۔

***

Leave a Reply