You are currently viewing بہار آنے تک

بہار آنے تک

   ڈاکٹر ریاض توحیدی ؔکشمیری

افسانہ’’بہار آنے تک‘‘

   کشمیر کے خوبصورت مناظرکادلکش احساس ہی اسے جنت ارضی کہلانے کے لئے کافی ہے۔کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر جب پہلی بار وارد کشمیر ہوا تو یہاں کے فطری حسن کو دیکھ کر بے ساختہ بول پڑا۔    ؎

                             اگر  فر دوس  بر  رو ے ٔ    زمیں   است

                            ہمیں است  و  ہمیں است  وہمیں است    ۱؎

    اور 1627ء میں کشمیر  سے وآپسی پر نورجہاں کی گود میں آخری سانسیں لیتے ہوئے کہہ گیا۔      ؎

                            از  شاہ  جہاں  گیر    دَ مِ  نزع    چو   جستند

                            با خواہش   دل   گفت  کہ  کشمیر  دگر  ہیچ

     کشمیر کے خوب صورت نظارے نہ صرف شائقین فطرت کے احساس جمال کو مسحور کرتے ہیں بلکہ کشمیریوں کے دلوں میں بھی پیار و محبت کا ایک گلستان آباد رکھے ہوئے ہیں۔اسی گلستان کے وہ دو پرندے دلوں میں محبت کا ایک گلشن سجائے ہوئے تھے۔ان معصوم پرندوں کے دل محبت سے آباد کیوں نہ ہوتے بھلا آب شیریں پی کر کوئی آب نمکین کی کڑوا ہٹ کیسے محسوس کرے۔وہ بچپن سے ہی زعفران زاروں میں چہچہاتے رہتے اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ زعفران زاروں کی یہ بھینی بھینی خوشبو دو ولوں میں محبت کی تاثیر پیدا کرگئی۔بچپن میںتو وہ اس میٹھے احساس سے بے خبر رہے لیکن جب بچپن کی طفلانہ سوچ سے نکل کر احساس کے کرب سے آشنا ہوئے تومحبت کے پھول خودبخود دلوں میں کھل اٹھے۔ اب زعفران زاروںکانظارہ کرنا عادت سے شوق بن گیاکیونکہ اب صرف قدم سے قدم ہی نہیں ملتے تھے بلکہ احساس سے احساس بھی ٹکراتے رہتے۔یہ احساس دن کو چین سے رہنے دیتا اور نہ رات کو آرام کرنے دیتا ‘صرف مستقبل کے خواب بننے اور ایک دوسرے کا ہونے کے سپنے دکھاتا رہتا۔

    وہ دونوں بچپن سے ایک دوسرے کے عادات واطوار اورفکرو سوچ سے مانوس تھے۔ دونوںکا ایک ہی گاؤں تھا اورہم مکتب و ہم جماعت بھی تھے۔گریجویشن بھی ایک ساتھ ہی مکمل کر ڈالی۔ گریجویشن کے بعد دونوں اب بڑی سنجید گی کے ساتھ زندگی کے ساتھی بننے کے بارے میں سوچتے رہتے لیکن یہ مسئلہ فقط ان کے سوچنے سے حل نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ یہ نہ صرف دو دلوں کے ملن کا سوال تھا بلکہ دو خاندانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کا معاملہ بھی تھا‘اور تو اور ان معاملات میں سماجی رسم ورواج اور رشتے جوڑنے کے طورطریقوں کا بھی خیال رکھنا  ضروری تھا۔ ویسے تو ان کے گھر والے بھی اب اس مسئلے کے بارے میں سوچتے رہتے تھے لیکن وہ ان دونوں کے احساسات سے باخبر نہیں تھے۔

      زعفران کی فصل تیارہو چکی تھی اور زعفرانی پھولوں کے دلکش نظار وں سے آنکھیں تازہ ہورہی تھیں ۔وہ دونوں بھی دلکش نظاروں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد گلفام نے گلشن کے گلابی چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ گلشن زعفران کے پھول کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں۔گلشن نے بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں بہت ہی خوبصورت پھول ہیں‘ اب تو یہ اپنا وقت پورا کرکے کئی جھولیوںکو خوشیوں سے بھر دینگے ۔یہ سن کرگلفام کسی اور ہی عالم میں کھو گیا۔ جب چند منٹوں تک وہ کچھ نہ بولا تو گلشن نے مزاحیہ انداز میں چھیڑتے ہوئے کہا :

        ’’ ارے فلسفی کن خیالات میں گم ہوگئے ۔۔۔!‘‘

        ’’کچھ نہیں۔۔۔۔بس آپ کی بات سے ایک خوشگوار احساس میں کھوگیاتھا۔‘‘

        ’’خوش گوار احساس۔۔۔؟ذرا مجھ کو بھی اپنے خوش گوار احساس سے نوازیں۔‘‘

        ’’ٹھیک ہے‘ اگر آپ کو یہ خوش گوار احساس پسند آئے تو واقعی یہ خوش گوار ہی ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘

         ’’پہلے بتاؤ تو سہی۔‘‘

         گلفام تھوڑی دیرتک خاموش رہنے کے بعد احساس کا اظہار کرتے ہوئے گویا ہوا کہ اب ہمارے ارمانوں کو پورا ہونے کا

وقت آگیا ہے۔ہم نے جو خواب دیکھے ہیں اب ان کی تعبیر کے بارے میںسوچنے کی ضرورت ہے۔اب ہماری عمر اور پڑھائی کی تکمیل ہمارے خوابوں کو پورا کرنے کااشارہ کررہی ہے۔اگر آپ کا بھی یہی خیال ہے تو میرا احساس خوش گوار ہی ثابت ہوسکتا ہے۔گلفام کے ان شیریں جذبات نے گلشن کے احساس میں مٹھاس سی بھر دی۔اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے زعفرانی پھولوںکی بھینی بھینی خوشبو آج پہلی بار اس کے نتھنوں سے گزر کر وجود میں حلول کرگئی۔گلفام اس کے جواب کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا۔وہ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بڑی سنجیدگی سے بول پڑی :

      ’’گلفام ان زعفرانی کھیتوں کا ایک مالک بھی ہوتا ہے جو ان کھیتوں کو اپنے خون جگر سے سینچتا ہے

        تاکہ وقت آنے پر یہ اس کے ارمانوں کو پورا کرسکیں۔اس لئے پھول توڑنے کے لئے باغبان کی

         اجازت لازمی بن جاتی ہے نہیں تو یہ چوری جیسا کام ہوگا۔‘‘

    گلشن کی رضامندی سے گلفام کی باچھیں کھل اٹھیں۔اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اسے خوشی کا پروانہ مل گیا۔وہ مستی کے عالم میں کافی دیر تک گنگناتارہا اور پھر گلشن سے کہنے لگا کہ وہ آج ہی گھر والوں سے بات کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ آپ کے گھر والوں کے ساتھ رشتے کی بات طے کریں‘لیکن آپ کے گھر والوں کی مرضی کا بھی تو پتہ چلے؟یہ سنتے ہی گلشن تھوڑی سی مسکرائی اورپھر کہنے لگی کہ ویسے وہ بھی کسی اچھے رشتے کی تلاش میں ہیں۔اس کے بعدوہ اکثرزعفرانی پھولوں کا نظارہ کرتے ہوئے کھٹی میٹھی باتیں کرتے رہے۔

    گلفام کا باپ زعفران کا اچھاکاروبار کرتا تھا ۔علاقے کا زیادہ تر زعفران وہی خریدتا تھا اور کشمیر سے باہر فروخت کرتا تھا۔جب سے گلفام بالغ ہوا وہ بھی باپ کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتا رہا اور خود بھی کاروبار کے سلسلے میں باہر جاتا رہتا تھا۔اب رہی گلشن کے والد کی بات تو وہ ایک سرکاری افسر تھا لیکن دونوں گھرانوں کے مراسم اچھے ہی تھے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد گلفام نے ماں سے دل کی بات کہہ کر باپ کی رائے جاننے کے لئے کہا ۔باپ نے جونہی یہ بات سنی تو وہ تھوڑی دیر خاموش رہا۔بیوی نے جب دوبارہ پوچھا تو وہ کہنا لگا کہ اصل میں گلفام کے رشتے کے بارے میں میں نے اپنے ایک کاروباری دوست کو زبان دی ہے۔اگر پہلے معلوم ہوتا تو میں کہیں پر بھی یہ بات نہیں چھیڑتا‘ اب میں کیسے زبان دیکر پلٹ جاؤں۔چند دنوں تک یہ مسئلہ یونہی چلتا رہا۔اس دوران گلفام اور گلشن تو ملتے رہے لیکن گلفام ذہنی طور پر سخت پریشان ہونے کے باوجود بھی گلشن کی دل شکنی کرنامناسب نہیں سمجھتا تھا۔ایک دن جب گلشن نے پوچھ ہی لیا کہ رشتے کے بارے میں گھروالوں سے بات ہوئی کہ نہیں تو گلفام تھوڑاساگھبرایالیکن کوئی بہانہ بنائے بغیر باپ کے وعدے کا اظہار بھی کرگیا۔یہ سنتے ہی گلشن کو جھٹکا سا لگا۔ دونوں بہت دیر تک گھم سم بیٹھے رہے۔

     چند دنوں کے بعد گلفام نے پھر ماں کو آمادہ کرلیاکہ وہ ابو جی سے بات کریں ۔پہلے تو وہ بات ٹالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن بیٹے کے اصرار پھر دوبارہ بات چھیڑ دی۔یہ سنتے ہی گلفام کا والد ہنسنے لگا اور پھر بول پڑا کہ اس نے آج ہی اپنے دوست کو اس بارے میں بتا دیا اور وہ بھی خوش ہی ہوگیا کہ چلو کوئی بات آگے بڑھانے سے پہلے ہی پتہ تو چلا‘اسلئے ہم جلدہی گلشن کا ہاتھ مانگنے جائینگے۔ اتنا سننا تھا کہ ماں خوشی کے عالم میں گلفام کے کمرے میں چلی گئی۔جونہی گلفام نے باپ کی رضا مندی کی خبر سنی تو وہ بھی خوشی سے پھولے نہ سمایا۔چند دنوں کے بعد دونوں گھرانوں کی رضامندی سے رشتہ طے ہوگیا۔

     وہ دونوں خوش گوار موڈ میں زعفران زار نظاروں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔احساس کا عالم محبت کی خوشبو سے معطر ہورہا تھا۔ گلشن نے راستے میں ایک گلابی پھول توڑا تھا جس کو وہ بار بار سونگھ رہی تھی۔وہ جب بھی پھول کو ناک سے سونگھتی  تو اس کے گلابی چہرے کی رنگت اور بھی نکھر جاتی اور گلاب کی نرم ونازک پتیاں ہونٹوں سے چپک جاتی تھیں ۔ اس خوبصورت نظارے کو بار باردیکھتے دیکھتے گلفام کی زبان پر میر تقی میر کا مشہور زمانہ شعر آگیا۔    ؎

                                 نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

                                 پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے

     گلشن یہ شعر سن کر کھلا کھلا کر ہنس پڑی اور اپنی ذہانت کا اظہار کرتی ہوئی بولی کہ گلفام ان ہی زعفران کے نظاروں میں سلطان کشمیر یوسف شاہ چک اور حبہ خاتون کا عشق پروان چڑھا تھا اور ہمارا عشق بھی ان ہی نظاروں کی عنایت ہے۔گلفام کا رومانٹک موڑبھی شوخی پر اتر آیا اور وہ ہائے کرتے ہوئے بول پڑا کہ پھر اکبر بادشاہ نے دونوں کو جدا کرکے ہجر کی نیند سلا دیا تھا۔دونوں ایک دم ہنسی سے لوٹ پوٹ  ہوگئے۔اب گلشن نے شادی کے بارے میں پوچھ لیا تو گلفام نے کہا کہ ابھی تو سرما میں اسے کاروبار کے سلسلے میں کشمیر سے باہر جانا ہے اس کے بعد موسم بہار میں ہی شادی کرنا ساز گار رہے گا۔ہائے یہ ہجر کا سرد خزاں کہتے کہتے گلشن گھر کی طرف قدم بڑھانے لگی اور گلفام بھی تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے چل پڑا۔

    موسم سرما میںکشمیرمیں برف پڑتی رہتی ہے۔ گلفام کو جموں جانے کاپروگرام بن گیا۔اس دن اگرچہ برف باری شروع ہوگئی تھی لیکن اس نے یہ سوچ کر اپنی گاڑی نکالی کہ وہ ان پہاڑی راستوں کو تین چار گھنٹوں تک عبور کرہی دے گا جہاں پر زیادہ برف گرنے کی وجہ سے راستہ بند ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی سخت مالی و جانی نقصان کا خطرہ بھی لاحق رہتاہے۔وہ ابھی دو گھنٹے کا ہی سفر طے کرپایا تھا کہ زوروں کی برف باری شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک گھنٹے کے اندر گاڑیوں کی آمدورفت بند ہوگئی۔سینکڑوں گاڑیاں برف میں پھنس گئیں۔گلفام کی گاڑی بھی ایک پہاڑی درے پراٹک کر رہ گئی۔ابھی تک تو موبائل سروس چالو تھی اور وہ گھر والوں کو حالات سے آگاہ کرتا رہا لیکن اس کے بعد سارا سسٹم ہی ٹھپ پڑگیا۔برف باری زوروں پر جاری تھی۔ادھر سارے لوگ پریشاں ہورہے تھے۔ اسے بھی رات کی تاریکی میں کچھ  سجھائی نہ دے رہا تھا۔ اچانک پہاڑوں سے برف کے تودے گرنے شروع ہوگئے اور کئی گاڑیاں سواریوں سمت برف تلے دب گئیں۔اس غم انگیز حادثات کی خبر جب نیوز چنلوں پر نشر ہوئی تو حادثے کے شکار دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ گلفام کے عزیز و اقارب پر بھی غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ حادثے کی جگہ وہی بتائی جاتی تھی جہاں پر گلفام بھی پھنس چکا تھا اور وہاں سے ہی اسکی آخری کال بھی آئی تھی۔ گلفام کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ گلشن کا حال بھی بے حال ہورہا تھا۔ہر طرف صف ماتم بچھ گئی۔ادھر سے وادی کا ترسیلی نظام بھی بند ہوگیا۔ اب کہیں سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔دو دن اسی پریشانی میں گزر گئے۔اب موسم قدرے صاف ہورہا تھا اور گاڑیوں کی آمد رفت بھی شروع ہوچکی تھی۔گلفام کے گھر میں مایوسی چھائی ہوئی تھی۔اب لوگ زیادہ سے زیادہ لاش حاصل کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ گلشن کادل بھی عجیب قسم کے وسوسوں سے ڈوبے ہی جارہا تھا۔اس کے سامنے صرف گلفام کا مسکراتا چہرہ باربار آرہا تھااور وہ خون کے آنسو بہاتے بہاتے حبہ خاتون کا درد بھرا گیت گائے جارہی تھی کہ میرے یوسف تو مجھے چھوڑ کرکہاں چلا گیا۔کوئی بھی دلاسہ کارگر ثابت نہیں ہورہا تھا۔شام کے دھندلے سائے پھیل چکے تھے۔وہ پریشانی کے عالم میںسڑک کنارے زعفرانی کھیتوں کی طرف چل پڑی۔وہاں چہارجانب برف ہی برف تھی۔اسے اس سفید برفیلی چادر پر زعفران کے پھول مرجھائے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔وہ سمجھ رہی تھی کہ آج کسی اکبر نے حبہ خاتون کو یوسف سے جدا  نہیں کیا ہے بلکہ اس سفید دیو نے گلفام کو گلشن سے جدا کردیا۔وہ ابھی ان ہی برے سوچوں میں گم تھی کہ بس اسٹاپ پر ایک گاڑی رک گئی۔گاڑی سے ایک آدمی نیچے اتر آیا۔دور سے کچھ صاف دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن برف کی سفید چمک میں آدمی کا چلنامحسوس ہورہا تھا۔ گلشن کو آدمی کی چال سے گلفام کے چلنے جیسی رفتار محسوس ہوئی ۔وہ ہمت باندھ کر اب سڑک کی طرف قدم بڑھانے لگی ‘جب تک وہ سڑک تک آن پہنچی اس وقت تک وہ آدمی بھی نزدیک پہنچ چکا تھا۔جونہی اس آدمی کا چہرہ نظر آیا تو گلشن کی آنکھوں سے ایک دم آنسوؤں کا سیلاب سا امنڈ آیا اور وہ دوڑکر گلفام کے گلے لگ کر رونے لگی۔گلفام کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھر گئیں لیکن اس نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بہار آنے تک۔

۱   ؎:     یہ شعر امیر خسرو کی ایک غزل کا ہے۔

Wadipora Hanswara Kashmir 193221

email.drreyaztawheedi777@yahoo.com    cellwhatsapp.9906834877

Leave a Reply