
منتخب نظمیں
(ستیہ پال آنند نے اساطیر اور مثالی حکایات کی تخلیق نو کی ہے اور انہیں اپنے شعری تجربے کے مدار میں لا کر ان کے قلبِ ماہیت پر انگلی رکھ دی ہے اور یوں اپنی نظموں میں لطیف ابعاد کا اضافہ کیا ہے۔ستیہ پال آنند نے اس عمل سے ہٹ کر اپنے باطن کے اس منطقے کو بھی مس کیا ہے جو Meta-Myth کا دیار ہے،یعنی جہاں اساطیر اور مثالی حکایات کی لانگ گرامر یا سسٹم موجود ہے۔ایسا کر کے ستیہ پال آنند نے مرتب فکشن سے استفادہ کرنے یا اس کی تخلیق نو کے تجربے سے گزرنے کے علاوہ اپنے طور پر نئی فکشن بھی تخلیق کی ہے جو امیجز کی ان کترنوں کی صورت میں ان کے شعری اسلوب میں صاف دکھائی دیتی ہے جن سے خود اساطیر اور مثالی حکایات مرتب ہوئی تھیں۔اس عمل نے ان کے شعری متن کے معیار کو بہت بلند کر دیا ہے۔۔۔ڈاکٹر وزیر آغا)
بیاض عمر
(یہ نثر نمانظم با قاعد گی سے بحر ہزج مثمن سالم یعنی ’مفاعیلن، مفاعیلن ‘کی تکرار میں تقطیع کی جاسکتی ہے )
بیاض عمر کھولی ہے !
عجب منظر دکھاتے ہیں یہ صفحے جن پہ برسوں سے، دھنک کے سارے رنگوں میں ، مرے موئے قلم نے گل فشانی سے کئی چہرے بنائے ہیں ۔ کئی گلکاریاں کی ہیں۔ لڑکپن کے ، شروع نو جوانی کے، بیاض عمر کے پہلے ورق سب خوش نمائی کے نمونے ہیں ۔ گلابی ، ارغوانی، سوسنی، مہندی کی رنگت کے یہ صفحے ، سات رنگوں کی دھنک کے جھلملاتے وہ مرقعے ہیں کہ جن میں ہمت و جرآت ،تہور منچلا پن، ہر چہ بادا باد ہر صفحے پہ لکھا ہے۔ انہی صفحوں پہ وہ گل ریزیاں بھی ہیں، حنا مالیدہ دو ہا تھوں نے جن کی پیار سے تشکیل کی تھی اور وہ رقعے بھی جن میں پیار کا اظہار شعروں میں رقم تھا، میری پہلی عمر کی کچی بلوغت میں …..
بیاض عمر کھولی ہے!
عجب منظر دکھاتے ہیں وہ صفحے بعد کے ان چند برسوں کے، کہ جن پہ میری خود آموزی و ذوقِ حصولِ علم نے مجھ کو پڑھائی میں مگن رکھ کر، ادب کے عالمی معیار کا حامل بنایا تھا۔ افادی ، نفسیاتی ، سائنسی تحقیق کی آنکھیں عطا کی تھیں۔ مجھے لکھنا سکھایا تھا۔ غلط آموز ہونے سے بچایا تھا۔ قواعد ، بحث، خطبہ، ناظرہ کی تربیت دی تھی ۔ یہ کار آموزیٔ علم وادب تِمرین و مشق ِشعر میں ایسے ڈھلی تھی ، مبتدی سے ماہر و مشاق کہلانے میں بس چھ سات برسوں کا فروعی وقت حائل تھا …..
بیاض عمر کھولی ہے !
بدلتا وقت، آندھی سا ، ورق ایسے پلٹتا جا رہا ہے ، مجھ کو لگتا ہے، کوئی اک سال تو بس اک مہینے میں گذر جاتا ہے چپکے سے۔ کئی دن ایسے آتے ہیں کہ اپنی طولعمری میں ہزاروں سال جیتے ہیں …..
مراسو یا ہو اذوق تجسس جاگ اٹھا ہے۔ ورق پلٹو تو دیکھو ، ( مجھ سے کہتا ہے ) کسی صفحے کے مخفی حاشیے میں بھی تو کچھ تحریر ہوگا یا کوئی پرزہ سٹیپل سے جڑا ہوگا۔ کوئی بک مارک شاید ہو کہ جس پر گنجلک الفاظ یا واوین میں، بین السطور ، امکانیہ معنی رقم ہوں گے۔ مراذوق تجس چاہتا ہے اب، بڑھاپے میں یہ پوتھی کھول ہی لی ہے اگر میں نے ، تو کچھ بھی رہ نہ جائے میری یادوں کی گرفتِ نا رسا سے !.. …..
بیاض عمر کھولی ہے!
یہ مخفی حاشیے ، یہ خط کشیدہ لائنیں، واوین میں پابند فقرے میرے جملہ قرض کے بارے میں لکھے ہیں۔ ادائی ہندسوں کی فربہ پرتوں میں رقم ہوتی ہوئی میزان تک ایسے پہنچتی ہے کہ ہر ’فردا ‘سے ’حاضر‘ تک، ہراک ’حاضر ‘سے ’آئندہ‘ کے دن تک سود ہی درسود ہے جو بڑھتا جاتا ہے۔ یہ قرضے وہ ہیں جو میں اپنے کندھوں پر لیے وارد ہوا تھا، ایک بچہ، بالغوں کی بے ریا دنیا کی جھولی میں۔ کہیں املاک میں، پرکھوں کے چھوڑے قرض ہیں، جن کی ادائی مجھ پہ واجب تھی ۔ یہ سب قرضے ادا کر نا ضروری تھا، مگر کچھ قرض کی رقمیں، بزعمِ خود مری شوریدہ سرطبعِ رسانے اپنے کھاتے میں لکھی تھیں اپنی مرضی سے۔ یہ راس المال جس کو پیشگی میں نے ادا کرنا تھا، حرف وصوت کا تھا۔ لفظ کی پرتوں کا تھا۔ نظموں کے بحرِ علم میں اک غوطہ زن، غواص کا سا تھا۔ یہ قرضہ عالمی انشاء کے اس سلکِ بیاں کا تھا جسے اردو میں ڈھلنا تھا مری نظموں کی صورت میں ! …..
بیاض عمر کھولی ہے …..
وہی محنت ،مشقت، کاوش و کاہش، عرق ریزی۔ اٹھا نا زیست کی بھاری صلیبیں نو جوانی سے بڑھاپے تک ۔ تھکے ماند ے، دریدہ پاؤں من من کے، تھکن سے چور گر جاناتو پھر اٹھنا ،مسلسل ماندگی سے مضمحل ، سانسوں کے سرگم پر پھٹے تلووں سے چلنا ، چلتے جانا، قریہ در قریہ۔ وطن سے دور مغرب کی زمیں تک گردش پیہم ،مسلسل ہجرتیں، خانہ بدوشی ، لا زمینی ، بحرو بر سیرو سیاحت ۔ملکوں ملکوں ، شہروں شہروں گھومنا ، شب بھر کہیں رکنا تو اگلی صبح چل پڑنا نئے ملکوں کو شہروں کو ۔ عناں برداشتہ پا در رکاب آوارگی ، عزلت ۔یہ آتش زیر ِپا ،حرکت پذیری آخرش لائی ہے مجھ کو اپنی جیتی جاگتی قبروں کی سرحد تک… یہ جیتی، جاگتی قبریں مری لامختتم ، عمر دراز و مرتفع کے میل پتھر پر دہانے کھول کر بیٹھی ہوئی مجھ کو بلاتی ہیں۔
کپل وستو کا شہزادہ، میں گوتم بدھ اپنا یہ جنم تو جی چکا ہوں اور شاید اس جنم کے بعد پھر اک اور ہے ، اک اور ہے ، اک اور ہے۔ نروان ، تو میں جانتاہوں، مجھ سے کوسوں دور ہے اب بھی …..
بیاض ِعمر کو اب تہہ کروں اور طاق پر رکھ دوں !
(ماخذ: بیاض عمر اور دوسری نظمیں،ستیہ پال آنند،صفحہ 16-20)