You are currently viewing بےگناہی

بےگناہی

 طاہر طیب

بےگناہی

 

فون کی گھنٹی  بجی۔۔۔۔جیلر نے فون اٹھایا۔۔ ہیلو۔جی سر۔۔ جی۔۔۔۔جی سر آپ فکر نہ کریں۔سب ٹھیک ہو جائے  گا۔۔۔ جیلر نے فون رکھتے ہی اپنے   ماتحتوں کو کال  کرکے بلایا۔۔ اتنے میں دو افسر حاضر ہوئے”جی سر! آپ نے یاد کیا۔۔۔۔”

ہاں بھئی! بیٹھیں۔۔۔آئی جی صاحب کا فون تھا۔۔۔      وہ، پرسوں جیل کا وزٹ ہے۔ ۔   اس میں سیشن جج سمیت کئی سئینرافسربھی  دورے پر آ رہے ہیں۔

یہ سن کر ایک آفیسر ایک ہی سانس میں بولا۔۔۔سر! پچھلی  پوسٹنگ میں ۔۔۔مجھے ان کو قریب سے  دیکھنے کا   موقع ملا۔۔۔۔۔   جج صاحب خاصے شریف  اور ایماندارہیں۔۔۔ایک سال میں   انہوں نے   سینکڑوں کیسز کا فیصلہ کر دیا۔۔۔کئی بار اپنی شرافت اور ایمانداری کی وجہ سے   ٹرانسفر ہو چکے ہیں۔۔۔ہر چیز کو  باریک بینی  سے دیکھتے ہیں۔۔۔یہان تک کہ خود بیرکوں کا وزٹ بھی  کرتے ہیں اور قیدیوں سے بھی بات چیت کرتے ہیں۔ ہاں۔۔بہرحال۔۔ جیل کے تما م انتظامات مکمل ہونے چاہئیں۔ جیلر نے یہ سن کر کہا ۔۔”قیدیوں سمیت سب  کو بتا دیں   کہ وہ اپنے حلیے اور یونیفارم نیٹ رکھیں۔۔۔پرسوں کوئی چھٹی پر نہ ہو۔۔۔۔ اور   ہاں!  جیل  کے   بدمعاشوں کے بھی نٹ کس دو۔۔۔ کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔”

یس سر!آپ فکر نہ کریں سب پرفیکٹ ہو گا۔۔۔جی سر۔۔اب آپ جا سکتے ہیں۔۔۔۔ چائے ہم پھر پیئں گے۔۔۔جیلر خدا حافظ!۔۔۔۔جی سر خدا حافظ۔۔۔کہہ کر وہ دونوں رخصت  ہوئے۔اب جیل کی انتظامیہ صفائی ستھرائی میں لگ گئے۔

یہ ہمارے سسٹم کا المیہ ہے کہ جو کام روز ہونے چاہئیں اسے صر ف حکام ِبالا کے وزٹس سے منسوب کر دیئے جاتے ہیں۔۔۔ڈی ایس پی نے انسپکٹرز اور سب  انسپکٹر  کو کہا:”سب اچھا دکھنا چاہیے۔کسی قسم کی کمی نہیں رہنی چاہیے۔”

ہم بھی کیاعجیب لوگ ہیں اچھا دکھنے کے لیے کیسے کیسے پاپڑ بیلتے ہیں۔۔۔دن رات ایک کرکے جیل کو چمکادیا گیا۔۔۔حولدارنے ہنستے ہوئے خاکروب سے پوچھا:”کیوں بھئی ! شیدے بڑی دل جمعی سے کام کر رہے ہو۔”

صاب یہ تو ہمارا فرض ہے جیسے ہمارے ہاں گھر وں میں کوئی مہمان آتا ہے تو اس کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔اسی طرح یہ بھی تو ہمارا گھر ہے۔۔۔یعنی مہمانوں کے جانے کے بعد پھر اس طرح۔۔“شیدا  مسکرایا! کہتے ہیں ناصاب۔۔۔ جیسا دیس ویسا بھیس۔۔۔

جیل میں خاصی چہل پہل دیکھنے کو مل رہی تھی۔۔۔ قیدیوں  سے کام کرایا جارہا تھا۔سب اپنے کاموں میں  مصروف۔۔۔فائلیں مکمل ہو رہی تھیں اور پوری جیل کو دھویا گیا،کانفرنس روم کو صاف کیا گیا،تمام انتظامات  مکمل ہوئے۔سب انسپکٹر نے قیدیوں کو بھی ہدایات دیں  کہ   پرسوں سب نے   طریقے سے رہنا ہے۔کسی قسم کی شکایت نہ ملے۔

انہی قیدیوں میں ایک قیدی،صابر بھی کیاری میں پودوں کی دیکھ بھال میں مصروف  تھا۔۔۔جوایک سال سے  بے گناہ   قیدکاٹ رہا تھا،مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔۔۔ بلکہ  عدالت  نے اسے دس سال  قیدِ بامشقت  کی سزا سنائی تھی۔

یار!  میرا دل کہتا ہے کہ تو جلد رہا ہو جائے گا۔بشیر نے صابر سے کہا:”کیوں اقبالے! تمھارا کیا خیال ہے؟ ہاں

 یار۔۔ صابر توویسے  بھی بے گناہ ہے۔۔۔ہم تم تو پھر بھی جرم کرکے جیل میں آئے ہیں۔۔۔یہ بیچارہ تو شریف آدمی خوامخواہ میں جیل کاٹ رہا ہے۔اللہ اس کے لیے آسانیاں  فرمائے بشیرے نے  آمین کہا۔اس کے بعد ہنستے ہوئے اقبالے نے بشیرے سے کہاکہ”یارمیرے بارے میں بھی کچھ  بتا دو کہ مجھے کب رہائی ملے گی؟“

چھڈ یار تیری قسمت میں رہائی نام کی کوئی چیز نہیں۔ جو سزا ہمیں ملی وہ تو ہمارے گناہ کی نسبت بہت کم ہے۔دونوں نے ہنستے ہوئے زور سے قہقہہ لگایا۔۔۔

  بعض اوقات  زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کیسے سچ ثابت ہوتے ہیں۔۔۔صابربڑے تجسس سے ان دونوں قیدیوں کی گفتگو سن رہا تھا۔۔اور ساری رات  وہ اسی  شش و پنج میں رہا کہ شاید  بشیر ے کے الفاظ سچ ثابت ہو جائیں۔۔ وہ ساری رات  گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔۔۔ نجانے آج اسے نیند کیوں نہیں آرہی تھی۔۔۔

اگلی صبح جیل آئینہ کی طرح صاف شفاف، ہر چیز باقاعدہ سسٹم میں  کے مطابق ٹھیک کام کر رہی  تھی۔ایسا لگ رہا تھا کہ تین دن پہلے والی جیل نہیں بلکہ یہ  کوئی ریسٹ ہاؤس ہے،جہاں ہر کام نظم و ضبط اوراچھے  انداز میں ہو رہا تھا۔

دس بجے  جیل   کے سامنے  تین گاڑیا ں رکیں۔۔۔ جیلر صاحب نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ اپنے افسروں کا استقبال کیا۔۔۔اور انہیں اپنے آفس میں لے گئے     فائلیں وغیرہ دکھائیں۔۔۔اورسنٹر جیل کے بارے میں بریفنگ دی۔۔۔۔ اس کے بعد جیل کا وزٹ کرایا گیا۔

جج  صاحب  نے بیرک نمبر 1 سے وزٹ شروع کیا۔۔۔۔ قیدیوں کو دیکھتے آگے بڑھتے جاتے کہ اتنے میں 7 نمبر بیرک سے صابر کی آواز بلند ہوئی۔

آنکھوں میں نمی  لیے ہوئے بولا:صاحب!        خدا کی قسم میں بے گناہ ہوں،میری مدد  کیجئے۔۔۔میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔۔۔جج صاحب رکے ا اسے سر تا پیر غورسے   دیکھا۔۔۔ درمیانہ قد،بالوں میں تھوڑی تھوری سفیدی، کشادہ  پیشانی، کالی کالی آنکھیں، ہلکی ہلکی داڑھی، چہرے پر  شرافت کے آثار نمایاں  تھے۔ ۔صابر پچاس برس کے  لگ بھگ، عام قیدیوں سے مختلف، شکل وصورت سے پڑھا لکھا اور مہذب دکھائی  د ے رہا تھا۔

شریف اور معصوم  شکل و صورت  بھی عطیہ  خداوندی    ہے۔۔۔کہا جاتا ہے کہ چہرے کے اثرات انسان کے اعمال کو ظاہر کردیتے  ہیں۔۔۔ بعض اوقات  یہی چہرہ آپ کی سچائی کا ترجمان بن جاتا ہے۔۔۔

جج صاحب نے آگے بڑھتے   ہوئے جیلر سے پوچھا:یہ کس جرم میں اندر  ہے؟

سر اس پر  سیکشن 21 کی دفعہ لگی ہے۔

جیل  کا وزٹ مکمل کرنے کے  بعد جج صاحب  دفتر میں چلے گئے۔۔باقی معاملات کو دیکھا اور وزٹ مکمل کرنے کے بعد وہاں سے رخصت ہوئے۔

جیلر نے اپنے سٹاف کو مبارک باد دی۔شاباش! آج کا دورہ کامیاب رہا۔

جج صاحب رات سونے کے لیے بیڈ پر لیٹے تو صابرکا حلیہ اور اس کی  باتین ذہن میں گردش کرنے لگیں۔۔۔

اس کا دوسرے قیدیوں سے مختلف ہونااور اس کا  آنسوؤں سے اپنے بے گناہی  کا اقرار کرنا۔۔۔انہیں بے چین کر رہا تھا۔۔۔ جیسے تیسے رات گزری۔

 صبح جب دفتر پہنچے توصابر کی فائل منگوائی اوراسے پڑھا توانہیں  اس کیس میں کئی سقم نظر آئے۔۔۔ انہوں نے  اس سلسلے میں اپنے سینئر جج سے بات کی  اور ان سے اجازت لے کرکیس کودوبارہ  انکوائری کے لیے بھیج دیا۔۔۔۔ تو پتا چلا کہ صابر ایک متوسط گھرانے  سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔دو بیٹیوں کا باپ ہے دو سال پہلے اپنی بڑی بیٹی کی شادی سکھر سیرحیم یار خان دھوم دھام سے کی،ضرورت کی ہر چیز بیٹی کو جہیز میں دی۔شادی کے تین ماہ بعد ایک کار حادثے میں داماد کی موت واقع ہوئی تو عدت کے بعدبیٹی گھر واپس آئی۔کچھ عرصے کے بعدبیٹی کے سسرال سے فون آیا کہ اپنا سامان بھی لے جائیں۔

 بیٹی  کا سامان  واپس لانے کے لیے ٹرک اڈے پر گیا۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے دوسرے کوآنکھوں ہی آنکھوں میں  اشارہ کر کے صابر کے پاس بھیجا۔

جی  بھائی! ٹرک چاہیے۔جی جناب!  ٹرک ڈرائیور کم پیسوں میں سامان لادنے پر راضی ہوگیا۔  معاملات طے ہونے کے بعد ڈرائیور  مقر رہ جگہ پر پہنچ گیا۔سامان لادا گیا۔ صابر بھی ڈرائیور  اور کنڈیکٹر کے ساتھ بیٹھ گیا۔

 ٹرک نے سفر شروع کیا  کہ تھوڑے فاصلے پر پولیس کا  ناکہ لگا ہوا تھا۔۔۔پولیس نے  ٹرک کی چیکنگ  کی تو اس  کے خفیہ خانوں سے سے چرس اور افیون برآمد کر لی۔ٹرک ڈرائیور کے ساتھ  صابر بھی گرفتار ہوگیا۔مقدمہ چلا تو صابر کا وکیل  عدالت میں پیش ہی نہیں ہوتااور اگر پیش ہوتا تھا تو کوئی خاص جواب بھی نہیں دیتا۔۔ ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صابر کیس ہار  گیا اور اسے  دس سال قید بامشقت  کی سزا سنا دی گئی۔

 جج صاحب  کو سارا معاملہ سمجھ آ گیا۔کیس  دوبارہ سماعت کے لیے مقررہوا تو پتا چلا کہ ان کے وکیل صاحب ہی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

ذاتی طور جج صاحب نے وکیل کو  کل عدالت پیش ہونے کے لیے کال کی  تو  وکیل صاحب نے ہنستے  ہو ئے کہا:سر! اس طرح کے  کیسوں میں کوئی پیسے نہیں ملتے،تو ہم خوامخواہ خواری کیوں بھگتیں۔۔۔۔جمیل صاحب سب کام پیسوں کے لیے نہیں کیے جاتے۔۔خیرکیسں دوبارہ سنا گیا اب کی مرتبہ کیس  کا فیصلہ صابر کے حق میں ہوااور اسے  با عزت بری کر دیا گیا۔۔۔جج صاحب  کی  دلچسپی اور توجہ سے صابر بے گناہ ثابت ہوا۔یوں دو ہفتوں بعد  اسے  رہائی مل گئی۔۔۔دراصل  عدالتی نظام میں  خرابی نہیں۔۔۔لیکن عدالتی نظام فعال نہ ہونے کی وجہ سے۔۔ بے گناہ سزا بھگتے رہتے ہیں۔۔۔ صابر خوش ہوکر سوچنے لگا اور بشیرے کی بات بھی یاد آگئی۔۔

دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا، بہت سی دعائیں کیں۔۔۔۔وہ  خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا جہاں اس کی بیوی اور بیٹیاں بے صبری سے انتظار کر رہی  تھیں۔۔۔

 آج رات  جج صاحب برسوں  بعد (یہ سوچتے ہوئے) پُر سکون  اور گہری نیند سوئے کہ کچھ نیکیاں  ایسی ہوتی ہیں جن کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے،ان کا  اظہار مشکل ہے۔۔۔۔۔

***

Leave a Reply