نیرو سید
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو,
جموں یونیورسٹی ، جموں
تحریک آزادی میں حسرت موہانی کاکردار
مولانا فضل الحسن حسرت موہانی تحریک آزادی کے ایک سر بلندمجاہد مخلص سیاستدان ، کھرے اور بے باک صحافی، ممتاز شاعر اورمشرقی طرزِ فکر کے نقاد مختصر یہ کہ انتہائی پہلودارشخصیت کے حامل ہیں۔ مولانا حسرت موہانی کی سیاسی خدمات اور ہندوستان کی جنگ آزادی میںجانبازی ودلاوری کا اعتراف شبلی نعمانی، مہاتماگاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو ، مولاناابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر اور ڈاکٹرذکر حسین نے بھی کیاہے بقول شبلی نعمانی:
’’ تم آدی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر پالیٹیشین بنے اور اب بنیے ہوگئے۔‘‘(۱)
حصرت موہانی نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہی اپنی تقریروں اورتحریروں کے ذریعے ہندوستان کی مکمل آزاد ی کامطالبہ شروع کردیاتھا، اور آخر وقت تک مسلسل ومتواتر یہی نعرہ بلند کرتے رہے ۔ ۱۸۵۷ء کی پہلی ناکام جنگ آزادی کے بعد بال گنگا دھرتلک کے ہمراہ حسرت موہانی دوسرے ہندوستانی اور پہلے مسلمان تھے جنھیں اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انگریزوں کی قید وبند میں رہنا پڑا ۔ حسرت موہانی نے ہندوستان کی آزادی کامل کے مطالبات ۱۹۲۱ء کے کانگریس سیشن میں پیش کئے تھے۔ جس کے متعلق ڈاکٹر راجندرپرشاد لکھتے ہیں:
’’احمدآباد میں کانگریس کااجلاس بڑی شان کے ساتھ ہوا۔ دیش بندھو داس گپتا صدر منتخب ہوئے ۔ لیکن چونکہ وہ جیل میں تھے اس لئے حکیم اجمل خان نے صدارت کے فرائض انجام دیئے ۔ احمد آبادی میں سب سے پہلے کانگریس کااجلاس ہوا۔ ایک بڑے معرکے کی تجویز جس پر بڑی سرگرمی کے ساتھ بحث ہوئی ۔ مولانا حسرتؔ موہانی کی تھی، جس میںانھوںنے برٹش سامراج سے الگ ہوکر ہندوستان کے آزاد ہونے کو کانگریس کامقصد بنائے جانے پرزور دیاتھا۔ مہاتماگاندھی جی نے اس تجویز کی شدت سے مخالف کی تھی۔ ان کی مخالفت کی وجہ سے وہ تجویز نامنظور ہوگئی تھی۔‘‘(۲)
مولانا حسرت موہانیؔ ہندوستانی کی آزادی کے لئے زندگی پھر جدوجہد کرتے رہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ وہ جمعیۃ العلماء ہند، انجمن کعبہ ، انجمن خداالحرمین، خلافت کانفرنس اور آزادپارٹی جیسی متعدد سیاسی اورمذہبی جماعتوں کے بانی ممبر بھی تھے۔ اور ساتھ ہی مسلم لیگ، انڈین نیشنل کانگریس اورکمیونسٹ پارٹی وغیرہ کے نہایت سرگرم ممبر ہے۔ وہ ہرجگہ ہندومسلم اتحاد اور ہندوستان کی مکمل آزادی کانعرہ بلند کرتے رہے ۔ جنگ آزادی کی تاریخ میں حسرت موہانی ، کا یہ کارنامہ ازل سے ابد تک سنہری حرفوں میںلکھاجائے گا کہ انھوں نے اپنے زمانے کی ممتاز سیاسی جماعتوں کے بنیادی مقاصد میں ہرمناسب ومعقول ذریعے سے مکمل آزادی حاصل کرنے کی تجویز منظور کرانے کی بھرپور کوشش کی۔ مولانا حسرت موہانی اردو کے پہلے صحافی تھے جنھوں نے ہرطرح کے خوف وخطرے سے بے نیاز ہوکر انگریز حکومت کے خلاف رہے قلم کو تلوار کی طرح برتا ۔بقول ذاکٹر حسین:
’’نفس کے مطالبات کے پیچھے لوگ کیاکچھ نہیں کرڈالتے۔ حسرتؔ نے ضمیر کے مطالبات کی خاطر سب کچھ کرڈالا۔ تمام عمر مصیبت جھیلی لیکن کوئی مصیبت اُن کے ضمیر کی آواز کو دبانہ سکی۔ ہرمصیبت نے ان کی شان دوبالا کی۔‘‘(۳)
حسرت موہانی کی شخصیت وکردار کی تکمیل وتشکیل میں ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ کے واقعات وتجربات کا بڑاہاتھ رہا۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران ہی ان کی سیاسی سرگرمیوں کاآغاز ہواجس کی شروعات انگریزی دشمنی سے ہوئی۔حسرت موہانی نے بی۔ اے کاامتحان بھی نہ دیا تھا کہ علی گڑھ کی رائج الوقت پالیسی کے خلاف ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیاتھا۔ حسرت موہانی علی گڑھ تحریک کے پروردہ بھی تھے اور باغی تھی۔ ان کی شخصیت میں حاصل حق گوئی، بے باکی اور جرات پسندی کے عناصر کااولین اظہار بھی اسی زمانے کی پیداوار ہے۔ حسرت موہانی کاادبی ذوق نہایت پختہ اورشائستہ تھا۔ ان کے دل میں ملک اور قوم کی خدمت کاجذبہ صادق ومستحکم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے صحافت کے توسل سے اس عہد کے مسلمانوں کامذاق درست کرنے اور ان میںخود مختاری اور آزادی کاجذبہ پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ حسرت موہانی نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے’’اردو معلی‘‘ جاری کیا ۔ اس رسالے کے ابتدائی سماروں میں ہی ایسے مضامین کا سلسلہ شروع کردیا جن کامقصد ملکی سیاست میںمسلمانوں کے رول کوواضح کرنااور قومی تحریکوں کی حمایت کرنا تھا۔ لہٰذا اس رسالے کے ذریعہ انھوں نے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو بیدار کیااورمسلمانوں کو کانگریس میں شریک ہونے کی طرف متوجہ کیا بقول پروفیسر احمد سرور ’’اردومعلی‘‘ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ اردوادب کی تاریخ میں جن رسالوں کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ان میں دل گداز،مخزن اردو معلی اور اردو ممتاز ہیں۔ ان میں ’’اردومعلی‘‘ کئی حیثیتوں سے سرفہرست ہے۔ یہ رسالہ کئی حیثیتوں سے سرفہرست ہے۔یہ رسالہ مولاناحسرت موہانی نے اس وقت نکالا جب وہ بی۔ اے کے امتحان سے فارغ ہی ہوئے تھے اورنتیجہ تک نہ نکلا تھا۔ اس رسالے کا سب سے بڑا مقصد’’درستی مذاق ‘‘قرار دیاگیا۔صہچنی یہ محض ادبی رسالہ نہ تھاشروع سے اس میںملکی اورغیرملکی سیاسات اور حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتے تھے ۔اگرچہ اس میں اچھے اچھے ادیبوں اور شاعروںنے مضامین ،نظمیں اور غزلیں بھیجیں مگر اس کی بہار بیشتر حضرت کے خونِ جگر کی مرہونِ منت ہے۔‘‘
’’اردومعلی‘‘اس عہد کاایسا پہلا رسالہ تھا جس کاایڈیٹر پکاکانگریسی تھااور اپنی ہر تحریر وتنقید میں کانگریس کی پرجوش حمایت کرتاتھا۔ ۱۹۰۴ء میں کانگریس نے اپنا بیسویں اجلاس منعقد کیاجس میںحسرت موہانی نے بطور ڈیلی گیٹ شرکت کی۔ اور ۱۹۰۵ء میں آل انڈیا انڈسٹریل کانفرنس بمبئی میں شریک ہونے کے بعد سودیشی تحریر کے مبلغ بن گئے ۔ حسرت موہانی کانظریہ سودیشی تحریک میں دیگرکانگریسی لیڈروں کے مدمقابل حقیقت پسندانہ تھا۔ان کے خیال میں صرف چرخے کی مدد سے پورے ہندوستان کی ضرورتیں پورا نہیں کی جاسکتی۔ اسکے لئے ہندوستانی ملوں میںتیار ہونے والے کپڑوں کو بھی سودیشی سمجھنا چاہئے ۔ بدیشی مال کے بائیکاٹ کے متعلق ان کامضمون’’سودیشی تحریک اوربائیکات‘‘رسالہ’’اردومعلی‘‘ میں شائع ہوا۔ اپنے مضمون میں حسرت موہانی نے دفاعی مزاحمت ان الفاظ میں پیش کی۔
’’حاکم سے محکوم اپنے ملکی حقوق کی تین صورتوں میں لے سکتے ہیں۔ اولاد درخواست مرحمت کے ساتھ گدایانِ درست طلب دراز کرکے ، جس کا بیکار ہونا قطع ثابت ہوچکاہے ۔ دوسرے خونریزی اور فساد کے ذریعے حاکم کو مغلوب ومجہور کرکے ، جس کی بہ ظاہر حالات کوئی صورت نظر نہیں آتی پس اب ہمارے لئے سوائے اس کے اور کوئی کارروائی مناسب نہیں معلوم ہوتی کہ فی الحال نہ تو ہم گداگری کی ذلت اختیارکریں نہ جنگ وجدل کی آزمائشوں میں پڑیں بلکہ ان دونوں سے علیحدہ رہ کر دفاعی مزاحمت کے اس درمیانی طریقے پے چلنا شروع کردیں جو مفید ہونے کے بجائے مضرہوہی نہیں سکتا اور یہی وہ بات ہے جس کی بنا پر مزاحمت کی پالیسی کوطلب کی پالیسی پر صریحاً ترجیح حاصل ہے۔‘‘(۶)
’’اردو معلی‘‘ میں شائع ہونے والی جوشیلی تحریریں ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میںآزادی کاجذبہ پیداکرتی تھیں یہ بات برطانوی حکومتک و سخت ناپسند تھی۔ حسرت موہانیؔ کی حریت پسندی اورسیاسی سرگرمیاں برطانوی حکومت کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے ۔۱۹۰۸ء میں برطانوی حکومت نے حسرت موہانی کو بغاوت کے الزام میں دوبرس کی قید بامشقت اورپانچ سوروپیہ جرمانے کی سزا سنائی ۔جرمانہ کی رقم اداکردی جس کی وجہ سے سزا میں ایک سال کی کمی کردی گئی۔۱۹۰۹ء میں حسرت موہانی جیل سے باہر آئے اوراسی سال ’’اردومعلی‘‘ کے دوسرے دور کاپہلا شمار منظر عام پر آیا ۔ ایسے خطرناک سیاسی رسالے کو چھاپنے پر کوئی بھی پریس راضی نہ ہوئی لہٰذا حسرت موہانی اپنا ذاتی پریس لگا کر چھاپنے لگے حسرت موہانی نے پریس کی طرح قائم کیااس کی روداد مولانا ابوالکلام آزاد نے ان لفظوں میں کی ہے۔
’’حسرت موہانی جب قید سے رہاہوکر آیا تو کوئی چیزاس دنیامیں ایسی باقی نہ تھی جو اس کے لئے ذریعہ تقویت مال ہوتی۔ دوڈیڑھ روپے ماہوار کرایہ کاایک جھونپڑا ہے جس کے اندر ایک چھوٹی سی …… اور کوٹھری ہے اورباہر بھی اتنی ہی مکانیت ہے ۔ اندر وہ فقیر حریت مع کوہ عزم وثبات بیوی کے رہتاہے اور باہر کاٹھ کادستی پریس اور دو چار پتھر ہیں۔ بسااوقات ایسا ہوا ہے کہ خود اس نے اپنے ہاتھوں سے ’’اردومعلی‘‘ کی کاپیاں لکھی ہیں، خود ہی پتھر پر جمائی اورخود ہی پریس اور دو چار پتھر ہیں۔ بسااوقتا ایسا ہواہے کہ خود اس نے اپنے ہاتھوں سے ’’اردو معلی‘‘ کی کاپیاں لکھی ہیں،خود ہی پتھرپرجمائی ہیں اور خود ہی پریس چلاکرچھاپا ہے ۔ یہ کل کائنات اردوپریس اور اس کے مالک کی ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہیں اورنہ اس کی طبع غیور کسی کا شرمندہ احسان ہوتا پسند کرتی ہے۔‘‘(۱۰)
حسرت موہانیؔ نے حق وصداقت کے اظہارمیں کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا حسرت ہندو مسلم اتحاد کے ابتدا سے ہی حامی تھے کانگریس اورمسلم لیگ کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے اوران میں مفاہت وسمجھوتے کے خواہش مند تھے ۔انھیں کی کوششوں کانتیجہ تھاکہ ۱۹۱۶ء میںمسلم لیگ اور کانگریس نے مشترکہ اجلاس منعقد کیا جس کا اعتراف مولانا محمد علی جوہر نے ان لفظوں میں بیان کیاہے ۔
’’شمشیر بے نیام مسلمان وطن دوست مولانا حسرت موہانی کی جرأت واستقلا کی مجموعی طاقت سے آخر کا ر وہ مفاہمت ہوہی گئی جس کاثمرہ اگلے سال لکھنؤ کے تاریخی مشاق میں ملنے والاتھا۔(۸)
انگلینڈ سے واپسی کے بعد مولاناحسرت موہانی مسلم لیگ کے سالانہ جلسوں اور کونسلوں کی ہرنشست میں شریک ہونے لگے ۔ یہاں بھی انھوں نے اپنی صداقت پسندی اورحق گوئی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح سیاست میں حسرت موہانی کے بہت بعد آئے تھے ۔ اور لیگ کے سربراہ ہونے کی وجہ سے اپنی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے ۔تاہم حسرت موہانی کا مزاج بھی ایساتھاکہ سچی بات کہنے میں کسی کو بھی خاطر میںنہیں لاتے تھے۔حسرت موہانی جمہوریت کے علمبردار تھے اور تقسیم کے سخت مخالف محمد علی جناح دوقومی نظریے کے تحت ایک علیحدہ ملک اور آزاد پاکستانی حکومت قائم کرناچاہتے تھے ۔ حسرت موہانی کو اندیشہ تھاکہ کہیں محمد علی جناح ہندوستان کے لئے مکمل آزادی کی جگہ نو آبادیات کا درجہ قبول نہ کرلیں ۔ اس لئے انھوںنے مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں ہندو مسلم اتحاد کے متعلق اپنی تجویز پیش کی۔ پچاس ہزار سے زیادہ حاضرین کے شور وغل اورمخالفت کے باوجود حسرت موہانی جب تک اپنے نقطہ نظر کو واضح نہیں کرتے مائکروفون سے نہیں ہٹے ۔حسرت موہانی مسلم لیگ میں رہ کر وہ بات کہہ رہے تھے ۔ جو گاندھی جی اور راج گوپال اچاریہ جیسے ممتاز رہنماؤں نے کانگریس کے اجلاسوںمیں کہیں’’مختصراً یہ تمام رہنما تقسیم ہند کے خلاف تھے ۔ سردار جعفری لکھتے ہیں:
’’حسرت کے حال میں آزادی کی جو تڑپ تھی اس نے زندگی میں ان یک راہ متعین کردی تھی۔وہ آسانی سے سرکاری ملازمت کی طرف جاسکتے تھے ۔ یاد رس وتدریس کاپیشہ اختیارکرسکتے تھے ، لیکن انھوں نے سیاسی زندگی کا انتخاب کیااور کانگریس کے جلسوں میںشرکت شروع کردی۔ ان کی باغیانہ طبیعت کانگریس کی نرم پالیسی سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتی تھی اور وہ بال گنگا دھرتلک کے ہمنوا ہوگئے ۔‘‘(۹)
۱۹۴۳ء سے ۱۹۴۶ء تک انھوںنے اپنے نظریے کی تبلیغ جاری رکھی لیکن اب ان کے ہمنوا ورفقا نہ تو مسلم لیگ میں رہ گئے تھے اور نہ ہی کانگریس ان کی بات سے متفق تھی۔ اس عرصہ میںانھوںنے متعدد جلسوں میںتقریریں کیں۔ اور آزادی کا مل کے ساتھ ساتھ ملک کو تقسیم کے الیمے سے بچانے کے لئے بے انتہا کوشش کرتے رہے ، لیکن ان کی مسلسل کوششوں کے باوجود مسلم لیگ نے دو قومی نظریے کے تحت ایسے حالات پیداکردیئے کہ ملک کی تقسیم ناگریزہ ولاعلاج ہوگئی ۔ آزادی کامل کے ساتھ ساتھ پاکستان ایک علیحدہ ملک کی حیثیت سے وجودمیںآیا ۔تقسیم ہند کے بعد مسلم لیگ کے تقریباً سبھی لیڈر پاکستان منتقل ہوگئے لیکن مولانا کی وطن پرستی اورغیور طبیعت کوترک وطن کا تصور بھی گوارانہ تھا۔ وہ کانپور میں ہی مقیم رہے جس کا انھیںگہرا صدمہ تھا۔ بقول ابوالکلام آزاد:
’’الحمد اللہ کہ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے حسرت کومقام یوسفی کے کامل اتباع کی توفید دی اور اس فضلیت میں ان کاکوئی دوسراشریک ونظیر نہیں۔ حسرت جو کچھ کررہاہے ۔ ہندوستان اس کو پچاس برس بعدسمجھے گا۔‘‘(۱۰)
حواشی
۱۔ بحوالہ حسرت موہانی(مجموعہ مقالات، حسرت سمینار، ۱۹۸۲ء، ص۲۴
۲۔ باپو کے قدموں میں۔ ڈاکٹر راجندر پرساد/ص۲۵۲
۳۔ بحوالہ ،انتخاب مستقبل، مرتبہ محمدحامد علی/ص۱۹
۴۔ علی گڑھ منتھلی جلد۲، فروری۱۹۰۳ء/ص۱۱
۵۔ حسرت موہانی مصنف ال احمد سرور،ص۲۴
۶۔ بحوالہ حسرت موہانی (مجموعہ مقالات حسرت سمینار)/ص۳۲
۷۔ الہلال’’اداریہ‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد/ص۲۱
۸۔ خطبہ صدارت مولانامحمد علی جوہر ،بحوالہ مسلمانوں کاایثار اور آزادی کی جنگ عبدالوحید خان/۸۹
۹۔ کاروان خیال، ابوالکلام آزاد ،(مکتوب بنام بیگم حسرت موہانی )
۱۰۔ حسرت موہانی (مجموعہ مقالات ، حسرت سمینا/ لفظ سردار جعفری/ص،۷۴
***