You are currently viewing تحفظِ  بشراوراردوشاعری

تحفظِ  بشراوراردوشاعری

ڈاکٹر محمد شاہد زیدی

  اسسٹنٹ پروفیسر اردو گورنمنٹ پی۔جی۔کالج سوائی مادھوپور، راجستھان

Email:m.zaidishahid@gmail.com

تحفظِ  بشراوراردوشاعری

زندگی شاید اسی کا نام ہے،

                                             دوریاں، مجبوریاں،   تنہائیاں           (کیف بھوپالی )           

                 زندگی  ہمارے سامنے کئی رنگ و روپ کے ساتھ موجود ہے۔  آج کچھ ایسے حالات بنتے جارہے ہیں کہیں بھی کوئی امید کی روشنی نظر نہیں آتی۔ مستقبل کسی زرد دریچے کے اس پار کا اندھیرا لگتا ہے۔ چاروں طرف سے ایسی خبریں ہمیں گھیر رہی ہیں، جس میں صرف اور صرف مایوسی ہے، اداسی ہے،  دکھ ہے۔  اس دوران  ہم کچھ ایسے حالات میں جی رہے ہیں جہاں نا ملک کی سیاست ہی صحیح معلوم ہوتی ہے  اور نہ ہی روزی کا کوئی راستہ صاف نظر آتا ہے۔  سب کچھ دھندلکے میں ہے، ہمارے چاروں سمت مایوسی کا گھنا کہرا چھایا ہوا ہے۔  کوئی بھی ایسا شخص جس کے اندر ذرا سی بھی انسانیت موجود ہے وہ ان باتوں سے پریشان نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہ ناممکن ہے کی ہم دوسروں کا دکھ  دیکھ کر پریشان نہ ہو۔  لیکن ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے  کہ یہ سکے کا ایک ہی پہلو ہے دونوں نہیں۔

                        ہم نے تو ماضی میں دکھوں کا وہ دریا پار کیا ہے، جسکے کے کنارے تک نظر نہیں آتے تھے۔ ان شاموں اور راتوں کو امید کی سحر میں تبدیل کیا ہے جن میں ایک جگنو بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے ایسے زرد موسموں میں وہ خوبصورت پھول کھلائے ہیں جو دنیا کو آج بھی مہکا  رہے ہیں۔  بہت دور نہ جا کر صرف برٹش حکومت کی طرف ایک نظر کریں تو ایسی کتنی ہی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہونگی۔

                          کبھی کبھی انسان اپنی زندگی سے، اپنے لوگوں سے اتنا مایوس ہو جاتا ہے کہ وہ خودکشی کا راستہ بھی اختیار کرنے سے باز نہیں آتا۔جب کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے اگر زندگی ناگوار اور بری ہوتی جا رہی ہے،  تو ہم اس برائی کی مخالفت کریں نہ کی  زندگی کی۔زندگی کے خلاف جا کر سوائے موت کے کچھ ہاتھ نہیں آئیگا، اور اس طرح سینکڑوں ہزاروں  جانیں جانے کے بعد وہ برائی اس  سماج میں، اس نظام میں جس کی تس  بنی رہیگی۔ اس لیے ایسے ظلمتوں کے دور میں ہمیں ہار نہیں ماننی ہے، بلکہ اسی دور کے نغمے گاتے ہوئے روشنی کی طرف جانا ہے۔ اور ایسے کئی نغمے وقت در وقت کئی شعرا  نے گائے اور عوام کو جینے کا حوصلہ دیا ۔شاعری کا علاقہ بہت وسیع ہے وہ نہ صرف عشق و عاشقی کا بیان ہے بلکہ زندگی کی اور بہت سی صورتیں اس کے دائرے  میں آتی ہیں ۔بعض اوقات زندگی کے مشکل ترین دور میں کوئی ایک شعر ہی ایسا آجانا ہے جو جینے کا حوصلہ دے جاتا ہے اور ایک داخلی قوت عطاء کرتا ہے۔

ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں

                                                               ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں          (جگرمرادآبادی )

                        شاعری کا ہماری زندگی میں جو اہم کردار ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ عام طور پر ہم روحانی اور عشقیہ شاعری کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں اگر آپ نے اپنے دکھوں میں اسی دکھ کے اردگرد لکھی ہوئی کوئی شاعری پڑھی ہوگی تو آپ نے یہ پایا ہوگا کی کہیں نہ کہیں وہ شعر، وہ نظم ہمیں ایک  حوصلہ، ایک روشنی دے جاتی ہے۔یہی شاعری  زندگی کی مشکل گھڑیوں  میں ایک سہارے کے طور پر سامنے آتی ہے اور اسے پڑھ کر ایک حوصلہ ملتا ہے۔ یہ مشکل گھڑیاں عشق میں ہجر کی بھی ہو سکتی ہیں اور عام زندگی سے متعلق بھی۔ شاعری کتنی بھی تجریدی اور تخیلاتی ہو جائے اس کا سماجی سروکار برقرار رہتا ہے،ساتھ ہی شاعری کا ایک رخ سماج اور اس کے معاملات سے براہ راست مخاطبے کا بھی ہوتا ہے اور یہیں سے شاعری انقلاب کے راستے کی ایک توانا آواز بن کر ابھرتی  ہے۔ سماجی تاریخ کے تمام بڑے انقلابوں اور تبدیلیوں میں تخلیق کاروں  نے بنیادی رول ادا کیا ہے۔ ان کے تخلیق کئے ہوئے فن پاروں نے ظلم اور نا انصافی کے خلاف ایک داخلی بیداری کو پیدا کیا۔شاعری زندگی کے ان تمام مراحل سے گزرنے اور ایک روشنی دریافت کرلینے کی قوت پیدا کرتی ہے۔یہی شاعری کی خوبصورتی ہے۔

مثال کے طور پر جب حاکموں نے عوام پر کہر برسایا تو فیض  نے کہا۔

ہم دیکھیں گے!”

بول کے لب آزاد ہیں تیرے

                                                     بول زباں اب تک تیری ہے          (فیض احمد فیض)

فیض کی نظموں نے حکومت سے مایوس عوام میں وہ جان پھونکی کی انقلاب آگیا۔ اسی طرح جب ہم کسی ذاتی دکھ سے گزر رہے ہو اور آس پاس کوئی نہ ہو، کوئی بھی نہ ہو تو ہمیں ایک دفعہ اس شاعری کی طرف ضرور مائل ہونا چاہیے جو ہم میں واپس ایک امید بھر دے۔

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو  ہے

                                                                         لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے          (فیض احمد فیض)

دکھوں کی گھڑی میں شاعری ہمیں ٹوٹنے۔بکھرنے سے بچاتی ہے اور اگر ہم پہلے سے ٹوٹ چکے ہیں تو ہمارا سر  سہلاتے  ہوئے امید کا دامن ہمارے ہاتھ میں رکھ دیتی ہے۔ ہمیں سنبھالے رکھتی ہے۔ یہی کام کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

                                                  ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں          (علامہ اقبال)

ہمارا کام صرف سفر کرتے رہنا ہے آگے اور بھی کئی راستے ہیں کئی  منزلیں ہیں ایک دو  چھوٹ بھی  گئی، کھو  بھی گئی تو کیا ہوا! اسی طرح ساحر  لدھیانوی کہتے ہیں کہ چاہے کتنا بھی برا موسم کسی پودھ  کا سرگزشت ہوں، جو پھول کھلنے کی چاہ میں ڈٹے ہوئے ہیں جو  واقعی کھلنا چاہتے ہیں، انہیں کوئی نہیں روک سکے گا

ہزار برق گرے لاکھ آند ھیاں اٹھیں

                                                           وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں          (ساحر لدھیانوی)

اور پھر دنیا کو بہتر بنانا اور بہتر بنائے رکھنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے یہ تو کوئی ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جو کسی بھی قسم کی مصیبت کا سامنا کرنے سے ذرا بھی نہ کتراے،

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

                                              وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں          (جگرمرادآبادی)

یہ تو کچھ بھی نہیں دنیا کو بہتر بنانے میں آگے اور بھی کئی چیزوں کا کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا احساس شاعر اعجاز رحمانی صاحب اس طرح دلاتے ہیں

ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو

                                                ابھی  یارو  سفر کی ابتدا ہے          (اعجاز رحمانی)

غموں کی دھوپ ہے تو ڈھلے گی بھی بس اس کڑی دھوپ میں چلتے ہوئے ایک بار اپنے دل کی سنئے جو منزل کی طرف کتنی امید سے دیکھ رہا ہے

یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں

                                               غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں          (ماہر القادری)

مجروح سلطان پوری صاحب فرماتے ہیں

دیکھ زندہ سے پرے رنگ چمن جوش بہار

                                                                       رقص  کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ          (مجروح سلطان پوری)

یہی تو زندگی کی نشانی ہے کہ رقص کرنے والا پاؤں کی زنجیر نہ دیکھے، جینے والا بس دکھ میں ہی الجھ کر نہ رہ جائے بلکہ اس کے بعد کے بھلے دنوں کو بھی بھاپ سکے۔ آج کے مشکل وقت سے لڑتے رہیئے اور جیتے رہیئے پھر ایک دن آپ  خود کو شاعر امیر قزلباش کا شعر دوہراتے ہوے پائیں گے

 

لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں

                                             میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے          (امیر قزلباش)

                        اس طرح شاعری کا دامن تھامیں ہم مشکل سے مشکل وقت میں چاہے وہ  سماجی ہو یا ذاتی، جی سکتے ہیں اور جیتے رہیں گے۔ جینے میں مرنے سے زیادہ ہمت کی ضرورت ہوتی ہے تو جس  کام میں زیادہ ہمت کی ضرورت ہو وہ کام ہی بہتر ہے اس کام کو کرنا ہی  انسان ہونے کی علامت ہے۔شاعری بہت خاموشی سے ہمیں ایک بہترین انسان بننے کی راہ پر لگا دیتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے ہم زندگی میں ہر طرح کی منفیت کو نکارنے  لگتے ہیں۔شاعری ہم سب کے لئے بہترین انسان بننے اور اپنی انا کو ختم کرنے کا ایک سبق بھی ہے اور دنیا میں امن و شانتی قائم کرنے کی کوشش میں لگے لوگوں کے لئے ایک چھوٹی سی گائڈ  بک بھی۔

فضا یہ امن و اماں کی سدا رکھیں قائم

 سنو یہ فرض تمہارا بھی  ہے  ہمارا بھی             (نصرت مہندی)

***

Leave a Reply