ابراہیم نثا راعظمی
ترقی پسند افسانے سے قبل اردو افسانے میں نسوانی کردار
تاریخ شاہد ہے کہ انسان ہمیشہ سے قصے اور کہانیوں کا شوقین رہاہے ۔ہر دور ،ہر زمانے میں یہ شوق بتدریج ارتقاء ہوگیا ۔کبھی اس شوق کو داستان کے ذریعہ پورا کیا گیا ،تو کبھی ناول کی ورق گردانی کرکے پورا کیا گیا ۔۔قصے اور کہانیوں کا سب سے قدیم نام ،داستان ہے ۔یہ اس دور میں رائج الوقت مانی جاتی تھی جب لوگوں کے پاس بے شمار فرصت کے لمحات ہوا کرتے تھے ۔وہ لوگ حقیقت سے زیادہ ما فوق الفطرت عناصرپر یقین رکھتے تھے۔ان لوگوں کے پاس علم کی کمی تھی ،جہل اور توہم پرستی عام تھی ان داستانوں کا محور جن،پری،بھوت اور اسی طرح کے غیر فطری عناصر ہوا کرتے تھے ۔مگر رفتہ رفتہ وقت نے کروٹ بدلی ۔لوگ علم سے آشنا ہونے لگے ، ما فوق الفطرت عناصر سے لوگ حقیقی دنیا کی طرف سفر کرنے لگے ۔آسمانی قصوں سے زمینی قصوں کی طرف رجحان بڑھنے لگا ۔اب داستان میں الجھنے کے بجائے ایک ایسے صنف ادب کی کمی محسوس کی جانے لگی ۔جس کے نتیجے میں ناول کا وجود عمل میں آیا ۔
ناول نے بلا شبہ افسانوں کو حقیقی دنیا کا سفر کرایا۔مگر جس برق رفتاری سے ناول نے ترقی کی ،اس سے کہیں زیادہ تیز وقت اور زمانے تغیر و تبدل کا لبادہ زیب تن کیا ۔بدلتے ہوئے زمانے کی طوالت گراں گذری۔چونکہ یہ دور مشینوں او ر ٹیکنالوجی کا دور تھا ۔عوام کی زندگی مصروفیت کی نذر ہو چکی تھی اب ہر شخص وقت کی کمی پر نالاں تھا ۔
اسی وقت کی قلت نے ناول کی طوالت کا راگ بلند کیا ۔اور ایک ایسی صنف کی مانگ کرنے لگا جہاں قصے تھے ۔جس میں کہانی کا شوق بھی پورا ہو جائے اور وقت کی بچت بھی ہو جائے ۔اسی مشینی دور اور وقت کی قلت نے ’’ افسانے ‘‘ کو ادب کی کوکھ سے جنم دیا۔
افسانے کی سب سے بڑی خوبی اس کا ایجاز و اختصار ہے ۔افسانہ بے شک انسانی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے ۔اس کا خاتمہ وحدۃ تائثر پر ہوتا ہے ۔افسانے کے وجود میں آنے سے وقت کا رونا کم ہو گیا ۔اس کے لئے وقت کی کوئی قید نہیں رکھی گئی ۔ہاں البتہ افسانہ اتنامختصر ہو کہ ایک بیٹھک میں پڑھا جا سکے ۔اور اس کے مکمل ہونے کی کیا میعاد ہونی چاہئے ،اس سلسلے میں مختلف نقادوں کی کیا رائے ہے جس کی تفصیل یہ ہے ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ افسانے نے داستان اور ناول کے بعد اور دو دنیا میں قدم رکھا ہے ۔اپنی تمام تر خصوصیت کی بنیاد پر بہت تیزی سے ترقی کے منازل طئے کرتا چلا گیا ۔سب کچھ جان لینے کی جستجو انسان کے مزاج کا حصہ رہا ہے ۔انسانی زندگی میں تفریحات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ،ہاں اس کے ذریعے سے وقتی سکون ضرور حاصل ہوتا ہے۔
انسانی تاریخ کا سلسلہ انتہائی دراز ہے ۔انسانی ارتقاء جب سوچنے سمجھنے کے مرحلے پر پہونچا۔ تو فکری لذت اندوزی ،ذہنی تازگی کے لئے مختلف ذرائع کا استعمال کرنے لگا ۔ذہنی و جسمانی تھکان سے نجات ،تکلیف دہ حالات سے وقتی فرار کے لئے اس کو ذریعہ بنایا گیا ۔وقت آگے بڑھا انسان تہذیب کے دور میں داخل ہوا ۔تو تفریح کو غیر شعوری طور پر وہ رنگ ملنے لگا ۔جسے بعد میں ادب کا ایک حصہ قرار دیا گیا ۔
اردو ادب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ادب میں داستانوںکی ابتدا ء اٹھارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہوچکی تھی ۔جب پورا معاشرہ ایک عجیب بے بسی کا شکار تھا ۔تو اس نے راہ فرار میں سکون تلاش کیا ۔حساس طبیعت کے لوگ اس میدان میں عملی جوہر دیکھانے کے بجائے خیالاے کے تانے بانے بننے میں مصروف ہو گئے ۔اور اٹھارہویں صدی کے آخری دہ ِمیں داستان اپنے تمام تر ابتدائی مراحل سے گزر کر عروج کی طرف قدم بڑھا چکی تھی ۔
انیسویں صدی کے آغاز میں کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج سے اردو ادب میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔مختصرا یہ کہ تقریبا تین صدیوں میں اردوادب کے اندر نظم و نثر کے بے شمار قصے اور کہانیوں کی کتابیں وجود میں آچکی تھیں ۔اس کے بعد آہستہ آہستہ یورپی اثرات کے تحت داستان گوئی کا قدیم طرز تحریر متروک ہو گیا ۔اور انسان کی واقعاتی زندگی کو موضوع بنایا جانے لگا ۔لہذا یہ سب قصے اس زمانے تک محدود ہیں ،جب اردو زبان و ادب پر انگریزوں کا اثر پڑنا شروع نہیں ہوا تھا ۔اس کے بعد افسانوی ادب میں مختصر افسانے کا وجود ہوا ۔ یہ مختصر افسانہ اردو ادب کے افسانوی ادب کا وہ پہلو ہے جس پر ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی ہے ۔
ناول کی طرح مختصر افسانہ اردو میںمگربی تہذیب اور ادب کے توسط سے آیا ہے ۔مختصر افسانے کی شروعات اس وقت ہوئی جب ہندوستانی سماج میں سیاسی ،معاشرتی ،اور اخلاقی حیثیت سے انتشار پھیلا ہوا تھا ۔انیسویں صدی کے آخری دہوں میں مذہبی اور معاشرتی اصلاح کی تحریک اپنے شباب پر تھی ۔یہی وہ زمانہ تھا جب افسانہ میں آیا ۔ماول کی طرح مختصر افسانہ بھی اردو میں مغربی تہذیب کی راہ سے آیا ۔مختصر افسانے کی عمر بہت لمبی نہیں ۔اس کا آغازانیسویں صدی میں اس وقت ہوا جب صنعتی انقلاب نے انسان کی مصروفیات میں اضافہ کردیا تھا ۔لیکن قصے کہانی کا شوق اسے مجبور کرتا تھا ،کہ وہ وقت کی تنگی کے باوجود کسی ایسی صنف کا مطالعہ کرے جو ناول کی طرح دلچسپ ہونے کے باوجود مختصر بھی ہو ۔
پروفیسر محمد نجیب نے صحیح کہا ہے کہ’’انیسویں صدی کے وسط سے واقعیت کی تحریکیں شروع ہو ئی تو عیش کا طلسم
کچھ کم ہو ا،کمزور ہوا ،ایسا تجربہ انسان کی عام زندگی نے بتایا کہ عاشق ہوجانا محض
ریئسوں اور خوشحال لوگوں کی ایک دلچسپی ہے ۔اس احساس نے داستانوں کی وقعت
تو بہت کم کردی ،لیکن ناول افسانے پھر بھی اس بنیاد پر تعمیر ہوتے رہے ‘‘۱۔
(اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل ،ڈاکٹر صغیر افراہیم ۔ص ۲۸۔ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ ۱۹۹۱ء)
افسانہ ہو یا ناول ا س کا لکھنے والاانسانی زندگی کی ایک تصویر پیش کرتا ہے ۔اور افسانہ نگار کا مطلب عبرت اور سبق دینا مقصد ہوتا ہے ۔اسی کے ساتھ ہنسانا اور خوش کرنا،ااور افکار وخیالات میں وسعت پیدا کرنا ہوتا ہے ۔
ناول کی طرح مختصر افسانے نمونے بھی پریم چند سے بہت قبل رسالہ ’’ دلگداز‘‘ اور اودھ پنچ‘‘معارف ‘‘علی گڑھ،قانون‘‘خدنگ نظر (لکھنو)‘‘مخزن ‘‘بیسویں صدی ( لاہو)‘‘اور دوسرے اردو رسائل میں ملتے ہیں ۔اس وقت انگریزی افسانوں کے تراجم بھی سامنے آنے لگے تھے ۔پریم چند سے قبل بہت سے ادیبوں نے مغربی افسانے کے فن اور تصور سے اردو افسانے کو روشناس کرادیا تھا ۔ان میں بالخصوص
سجاد حیدر یلدرم‘‘سلطان حیدر جوش ،علامہ راشد الخیری ‘‘اور علی محمود بانکی پور کے نام قابل ذکر ہیں ۔ان افسانہ نگاروں کے یہاں وحدۃ تائثررکھنے والے حقیقت پسندانہ افسانوں کا رنگ بھی نمایاں ہے ۔اور مطالعہ کرنے سے واضح ہو تا ہے کہ یہ کہانیاں ،مختصر افسانے مغربی
افسانے کو سامنے رکھ کر لکھے گئے ہیں ۔ان میں بعض کہانیوں میں تکنیک کی دلکشی اور جدت و ندرت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔
قدیم طرز کی کی افسانہ گوئی کا دور سر شار اور ڈپٹی نظیر احمد لی طرز تحریر کی ابتدا سے ہوا تھا ۔ان کی کتابوں نے ہندوستان میں معاشرتی اور مذہبی اصلاح کی ۔اس سلسلہ میں رتن ناتھا سر شار کی مشہور کتاب ’’ فسانہ آزاد ‘‘ ’’ نظیر احمد کی توبۃ انصوح ‘‘ ’’ ابن الوقت ‘‘ بنات اؒنعش اور مراۃ العروس ‘‘اخلاقی زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ان میں سے تمام کتاب مذہب ،اخلاق اور معاشرت کی اصلاح کا آئینہ ہونے کے باوجود دہلی کے متوسط طبقے کی زندگی کا سچا اور بے لوث مرقع ہے ۔اس دور کے ادیبوں نے اس بدلتی ہوئی فضا کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ۔جس کے پیش نظر ادب کے نئے اور وسیع تقاضے مرتب ہوئے ۔
بیسویں صدی کا آغاز اردو افسانے کی ابتدا ء قرار دیا جا سکتا ہے ۔ناول کی طرح اردو افسانہ بھی انگریزی کے زیرے اثر معرض وجود میں آیا ۔اسی افسانے سے مختصر افسانے کی ابتدا ء ایک ایسے زمانے میں ہوئی جب ہندوستانی سماج میں سیاسی ،معاشرتی ،اور اقتصادی انتشار پھیلا ہوا تھا ۔قومی و سیاسی رہنما اپنی تحریکوں کے ذریعہ سے عوام کو مٹتے ہوئے تہذیب و تمدن سے آگاہ کیا ،مغربی تہذیب کی بڑھتی ہوئی اثراندازی کے خطرے سے عوام کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی تھی ۔یہ وہ دن تھے جب مختصر افسانہ وجود میں آیا ۔پریم چند اردو افسانہ نگاروں میں سب سے پہلے اس بات کو محسوس کیا ،ان ہوں نے اپنی زندگی کی باعظمت قدیم تصویروں میں نیا آب و رنگ پیداکیا ۔جن چیزوں کو لوگوں نے افسانہ سمجھ کر بھلانا شروع کردیا تھا ۔پریم چند نے انہیں نئے انداز میں لباس پہنانا شروع کردیا ۔راجپوتوں کی زندگی سے افسانوں کے پلاٹ حاصل کرکے وطن پرستی کا جذبہ پیدا ،بقو سلاحت اللہ خان :
’’تاریخی اعتبار سے ۱۹۰۰ء کے معارف میں شائع ہونے والا اردو کا پہلا افسانہ سجاد حیدر یلدرم
کا تھا ۔لیکن جدید اردو افسانہ کے موجد پریم چند ہیں اور ان کی رہنمائی میںہی اردو افسانے نے
موضوع و فن دونوں لحاظ سے حیرت انگریزترقی کی ہیں ‘‘۔
(اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل ،ڈاکٹر صغیر افراہیم ۔ص ۲۸۔ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ ۱۹۹۱ء)
پریم چند نے اردو افسانے میںصحیح انداز کی کردار نگاری کا رواج پیدا کیا ۔اسی لئے عوام پریم چند کو اردو کی مختصر افسانویسی کا موجد قرار دیتے ہیں۔
پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم دو مختلف مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔اس سلسلے میں خلیل الرحمن اعظمی ایک جگہ پر یوں لکھتے ہیں :
’’ترقی پسند تحریک سے پہلے اردو میں مختصر افسانہ نگاری کے دو واضح میلانات ملتے ہیں ایک حقیقت نگاری
اور اصلاح پسندی کا ،جس کی قیادت پریم چند کررہے تھے۔اور دوسرا رومانیت اور تخیل پرستی کا جس کی
نمائندگی سجاد حیدر یلدرم کررہے تھے ‘‘۔
(اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل از ڈاکٹر صغیر افراہیم ص ۳۱)ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ)
کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی،سعادت حسن منٹو ،عصمت چغتائی،حیات اللہ انصاری ،علی عباس حسینی وغیرہ افسانہ
نگاروں نے افسانہ نگاری کی بہترین مثالیں پیش کی ہیں ۔جیسے کرشن چندر نے ’’ زندگی کے موڑ پر ’’ ان داتا ‘‘کالو بھنگی ‘‘اور میں انتظار کروں گا وغیرہ ہیں ۔راجندر سنگھ بیدی نے ’’گرم کوٹ ‘‘’’ اور ایک چادر میلی سی ‘‘ جیسے افسانے لکھ کر قاری کو چونکا دیا ۔اسی زمانے میں سعادت حسن منٹو کی آمد جدید اردو افسانے میں ایک نیا موڑ لاتی ہے ۔منٹو کے آنے سے اردو افسانہ مصنوعی اور اخلاقی زنجیروں سے آزاد ہو گیا ۔ان کا مشہور افسانہ ’’ بانجھ ‘‘’’ٹھنڈا گوشت ‘‘کالی شلوار‘‘خالی ڈبے ‘‘اور نیا قانون وغیرہ منٹو کے اعلی درجے کے افسانے شمار کئے جاتے ہیں ۔
اسی دو ر میں حیات اللہ انصاری ،احمد ندیم قاسمی ،محمد حسن عسکری،خواجہ احمد عباس ،ممتاز مفتی ،آغابابر جیسیافسانہ نگار ابھرے ۔بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں ابھرنے والے بڑے افسانہ نگاروں کچھ خواتین افسانی نگار بھی ہیں ۔جن ہو ں نے اپنے افسانوں میں خواتین کی نمائندگی کو پیش کیا ہے ،جنسی ،رومانی ،سیاسی ،مسائل کو موضوع بنایا ہے ۔ان خواتین افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی ،ممتاز شیریں،ہاجرہ مسرور ،خدیجہ مستور ،اور قرۃ العین حیدر وغیرہ شامل ہیں ۔قرۃالعین حیدر نے ۱۹۴۴ ء کے آس پاس اپنی افسانہ نگاری کا آغاز کیا تھا ۔’’سیتا ہرن ‘‘’’ پت جھڑ کی آواز ‘‘’’اور ہاوسنگ سوسائٹی ‘‘ جیسے افسانے لکھ کر اردو افسانے کی دنیا میں نام پیدا کیا ۔جس سے اردو ادب کا دامن بھر گیا ۔
جیلانی بانو نے ’’روشنی کی مینار ‘‘ ’’ستی ساوتری‘‘ جیسی تخلیقات کو منظر عام پر لایا۔واجدہ تبسم حیدرآباد کی ہیں انہوں نے حیدرآباد کے بارے میں لکھا ہے ۔ لیکن واجدہ تبسم کی شہرت ’’ ائے رود موسی ‘‘ اور شہر ممنوعہ ‘‘جیسے افسانوں کی وجہ سے ہوئی ہے ۔مذکورہ ترقی پسند افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی کو اولیت حاصل ہے ۔ان کے کچھ ایسے افسانے ہیں جن میں ’’کلیاں ،چوٹیں ،چھوئی موئی ،دو ہاتھ ‘‘(افسانوی مجموعے) کی وجہ سے انہیں صف اول کا افسانہ نگار تسلیم کی جا چکی تھیں ۔ ’’ ہندوستان چھوڑ دو‘‘’’ لحاف ‘‘اور ’’ پیشہ ‘‘ وغیرہ افسانوں نے عصمت چغتائی کو اردو ادب میں بے مثال مقبولیت عطا کی ہے ۔پروفیسر وقار عظیم ایک جگہ پر لکھتے ہیںکہ :
’’اردو کے افسانہ نگاروں میں صرف عصمت چغتائی ہی ایسی افسانہ نگار ہیں جن ہوں نے افسانوں
کے ذکر اور تصور سے کچھ لوگوں کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔اور دوسری طرف کچھ لوگوں کی پیشانی پر بل
پڑجاتے ہیں ۔ان میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ ان کے افسانوں کے ذکر سے مسرت حاصل کرتے ہیں۔
چند ایسے ہیں بھی ہیں کی عصمت کے افسانوں کا نام سنتے ہیں ’’لاحول ‘‘ پڑھنے لگتے ہیں‘‘۔۳
(نیا فسانہ ’’ سید وقار عظیم ص ۱۲۴) ایجوکیشنلبک ہاوس علی گڑھ
اگرچہ کی اردو ادب کی اصناف نثر میں داستان ،ناول کے مقابلے میں افسانے کی مدت بہت مختصر ہے ۔لیکن ان تمام افسانوں میں عورت کے حوالے سے ایک طویل پس منظر موجود ہے ۔اس طرح سے اردو افسانوں میںعورت کا تصور یا نسوانی کردار کو بہت سے روپ بیان کئے گئے ہیں ۔نسوانی کردار ہو یا مردانہ کردار دونوں کا مقام علیحدہ متعین ہے ۔کردار کے تعلق سے جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بالکل عیاں ہوتی ہے کہ اردو افسانوی ادب میں عورت کے مختلف روپ مثلاَ :ماں ،بیوی،بہن ،محبوبہ ،اور طوائف نیز ہر پہلو پر معقول اور تفصیلی باتیں بیان کی گئی ہیں۔
کتابیات ۔
۱۔ (نیا فسانہ ’’ سید وقار عظیم ص ۱۲۴) ایجوکیشنلبک ہاوس علی گڑھ
۲۔ (اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل از ڈاکٹر صغیر افراہیم ص ۳۱)ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ)
۳۔ (اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل ،ڈاکٹر صغیر افراہیم ۔ص ۲۸۔ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ ۱۹۹۱ء)
۴۔ (اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل ،ڈاکٹر صغیر افراہیم ۔ص ۲۸۔ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ ۱۹۹۱ء)
Ibrahim Nisar Azmi
Coordinator HQP Shaheen Academy Siwan
Hifzul Quraan plus course Academic programer( HQP)
Contact No.9036744140
9611954067