You are currently viewing تصوف،دردؔ اور تصوراتِ دردؔ  کا متصوفانہ تلمیحی جائزہ

تصوف،دردؔ اور تصوراتِ دردؔ  کا متصوفانہ تلمیحی جائزہ

محمد محسن خالد

لیکچرار،شعبہ اُردو،گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور

عظمی نورین

لیکچرار،شعبہ اُردو،گورنمنٹ ووئمن کالج یونی ورسٹی،سیالکوٹ

Muhammad Mohsin Khalid

Lecturer, Govt. Shah Hussain Associate College Lahore

Uzma Noreen

Lecturer, Govt. Women University, Sialkot

تصوف،دردؔ اور تصوراتِ دردؔ  کا متصوفانہ تلمیحی جائزہ

ABSTRACT

Mysticism is popularly known as any kind of ecstasy or altered state of consciousness refers to the attainment of insight in ultimate or hidden truths. It’s a human transformation supported by various practices and experiences. Khawaja Mir Dard was a famous poet of Urdu classic ghazl. He is a renowned mystic poet, both in Persian and in Urdu. As a Sufi poet, he was respected equally by the royalty and the nobility. He was turn an impassioned advocate for poetry and humble apologist for art. He considered poetry merely as one talent among the many talents of mankind. This reflection on language, speech, and expression underline the modes of Dard’s poetic apprehension and expression. His poetry has every kind of allusion.70% of the religious allusions in Dard poetry are taken from Quran, Hadith and Islamic History. He has used these allusions in his poetry in different aspects. This paper highlights the importance of mysticism and relation of mysticism to religion and religiously thinking ways of expression by allusion in the Dard poetry.

WORDS: Mysticism, Dard, Sufiism, Classic, Ghazl, Allusion, mysticism, Poetic,

انسان کی پیدائش کے ساتھ اس کی گِل میں تصوف کی جبلّی واردات کا عُنصر ودیعت کر دیا گیا تھا۔ انسان نے شعور سنبھالتے ہی اپنے اندر کے اَسرار و الہیات کو جاننے کی جستجو شروع کی۔ جستجو کا یہ عمل اِسے اپنی ذات کے نہاں خانوں میں چُھپے راز ہائے الوہیت تک لے گیا جہاں اِس نے واحدِ خدا کی انوار و تجلیات کا ظہور  مشاہدے کی آنکھ سے دیکھا اور قلبی نین سے تجربے سے عملی طور پر گزارنے کی سعی کی۔

تصوف انسان کی شخصیتِ روحانی کا واحد اختصاصی مظہر ہے جس کے پے در پے اَسرار و رموز ایک اجتماع کی صورت باطن کی دُنیا میں القا ہوتے ہیں اور مشاہدات کے چمن میں گل فشانیاں کرتے چہار عالم کو مہکا دیتے  ہیں۔تصوف اور انسان اور روح اور کائنات کا باہمی تعلق ایک مثلث کی طرح ہے جس میں کسی ایک چیز کو دوسری سے علاحدہ کر کے دیکھا جائے تو اکہری حقیقت اپنی تمام تر جولانیوں کے باوجود مضمحل اور ناتواں محسوس ہو تی ہے۔

تصوف انسان کی اجتماعی شخصیت کو تراش، سنوارکر اس لائق بنا دیتا ہے کہ زِیست  کے جملہ افعال کامیابی سے انجام کو پہنچانا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ تصوف ایک طریقِ عبادت نہیں بلکہ طُرق ہائے زیست ہے جو دینِ اسلام کے متوازی ایک جداگانہ دین کی حیثیت سے رائج ہونے کے باوجود دین سے اس طرح مُتصل ہے کہ اسے باہم جُدا نہیں کیا جا سکتا۔

         تصوف کی اصل معراج قُربِ خداوندی کا حصول ہے جو محبتِ محض سے شروع ہوتا ہے اور وصالِ یار پر منتج ۔ اصل کام اپنے من میں ڈوب کر سراغ ِ زندگی پانے کا ہے۔ سراغِ زندگی کا راز ایک بار ہاتھ لگ جائے تو اسَرار و رموز کے پردے کُھلتے چلے جاتے ہیں۔ معرفت کے باب وَا ہوتے ہیں اور حقیقت تک رسائل سہل ہو جاتی ہے۔ اس منزل کے حصول کی کلید اعمالِ کاملہ کی یقینت پر منحصر ہے۔

تصوف کیا ہے؟ اس کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے؟تصوف کا وجود اور اس کے اثبات و نفی کے مباحث کے متعلق قطیعت سے کیا کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اور اس کی متعین  تعریف کس طرح کی گئی ہے؟تصوف میں کس عنصرِ حیات کو خارج اور داخل کیا جا سکتا ہے؟تصوف کے مبادی و اُصول اور طریق  ہائے عبادت و مشق کیا ہیں؟ مذکورہ سوالات کے بارے میں گزشتہ سیکڑوں برسوں میں ہزاروں کُتب اور لاکھوں صفحات لکھے جا چکے ہیں ۔

تصوف کی سادہ،عام اور سہل سی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ “تصوف”  دین اسلام کی عملی شرح کا متوازی نظامِ حیات  ہے جس پر عمل پیرا ہو کر دینِ اسلام کے جملہ تقاضوں کو عملی طور پر انجام دینا نہایت آسان ہو جاتا ہے ۔اس طریق ہائے زیست سے دین اور دُنیا میں کامیابی یقینی ہے۔ اس طریق ہائے زیست سے انسان اپنے جملہ اقوال و افعال و اعمال کے بارے میں دین سے آگاہی لیتے ہوئے عملی طور پر خود کو اس کے تابع کر دیتا ہے اور نتیجہ ایک کامیاب  شخصیت کے طور پر سامنے آتا ہے”۔

لغات میں تصوف کی لغوی و اصطلاحی  تفہیم کچھ اس طرح متعین کی گئی ہے۔

فرہنگ آصفیہ :

” تصوف،خواہشاتِ نفسی سے پاک ہونا ،وہ علم جس کے وسیلے سے صفائی قلب حاصل ہونا،تزکیہ نفس کا طریقہ،اشیائے عالم کو مظاہر صفاتِ حق لامجود سمجھ کر مشغولیت کا لائق نہ ماننا یا جاننا، مذہب  صوفیا”(۱)

لغاتِ کشوری:

“تصوف، خواہشِ نفسانی سے پاک ہونا، کل شے میں ظہورِخدا تعالیٰ کے جاننا”(۲)

تصوف کے بارے میں صوفیا اکرام نے بہت کچھ لکھا ہے۔صوفیا اکرام کی جملہ تعلیمات و تصنیفات میں تصوف کے حوالے سے سیکڑوں تعریفات ملتی ہیں جو آپس میں مُتصل ہیں اور ایک ہی رُخ،زاویے اور نکتہ نظر کو مختلف الفاظ و مفاہیم میں بیان کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

حضرت عثمان علی ہجویری اپنی کتاب” کشف المحجوب” میں تصوف کی اس طرح تعریف کرتے ہیں:

“صوفی وہ  اسم عظیم ہے کہ اس کا کوئی ہم جنس نہیں کیونکہ جو کچھ ناسوتی دُنیا میں ہے ،وہ کدر ہے۔ جو صفا کی ضد ہے اور ضد سے اشتقاق نہیں کیا جا سکتا۔ پس اہل تصوف کے نزدیک اسم صوفی کا مطلب اظہر الشمس  ہے اور تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔(۳)

شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں:

” اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے”(۴)

ڈاکٹر رضا حیدر لکھتے ہیں:

” تصوف کے بارے میں مفکرین کا خیال یہ ہے کہ اِس کا مُوجد افلاطون تھا جس نے مادی دُنیا کو فریبِ تخیل قرار دیا۔۔۔روحِ حقیقی کا علم یعنی تصوف حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے صرف پہنچانا جا سکتا ہے”(۵)

ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں:

” ذاتِ احد کی یکتائی کا کامل شعور و احساس ہی تصوف کا دوسرا نام ہے”(۶)

مذکورہ تعریفات اور اس سے متعلقہ   تعریفات میں کم و بیش یہی بات کُھل کر سامنے آتی ہے کہ تصوف رب تعالیٰ کی  حقیقت معرفت یعنی اصل پہچان کا نام ہے۔ جس نے رب تعالیٰ کی اصل کو اس کے مظاہرِ قدرت سے پہچان لیا اور اس کےقدموں میں اپنا سر رکھ کر سر تسلیمِ خم کر لیا وہ در حقیقت صوفی ہو گیا یعنی تصوف کے اَسرارِ الوہیت کے گیان کا شناسا ہو گیا اور احدیت کے فلسفہ کو پوری طرح سمجھ گیا۔

         ہمارے اُدبا اور شعرا ہی نہیں بلکہ اُردو داں طبقے کی اکثریت نے تصوف کے مروجہ تصورات کے اثر کوشعوری اور لاشعوری طور پر قبول کیا ہے ۔ وہ تصوف کے نظریاتی مباحث سے پوری طرح واقف ہو ں یا نہ ہو بحرحال ان کی دلچسپی تصوف میں ضروری رہی ہے۔ بادی النظر میں جن اصحاب کا تصوف سے براہ راست کوئی تعلق نہیں وہ بھی تصوف کے جملہ تصورات و نظریا ت کے بارے میں بنیادی باتوں کا گیان رکھتے ہیں  اور”تصوف برائے شعر گفتن” کے قائل نظر آتے ہیں۔

تصوف کا ادب سے تعلق ہمیشہ سے رہا ہے ۔ مُرورِ وقت کے ساتھ  یہ تعلق مضبوط سے مضبوط  تراور گہرا تر ین ہو تا جا رہا ہے۔ ادب ایک ذریعہ اظہار ہے جو انسانی جذبات و احساسات کی جملہ کیفیات کو شاعرانہ زبان عطا کرتا ہے۔ انسان نے جب سے بولنا شروع کیا ہے؛ تب سے ادب کا انسان کی سماجی زندگی سے تعلق متصل ہو گیا ہے۔ ادب انسان کے وجود سے پُھوٹا ہے یہ کوئی علاحدہ چیز نہیں ہے۔ ادب ہی وہ ذریعہ اور وسیلہ ہے جس نے انسان کو اپنے عقائد و رسوم اور جملہ انسانی مباحث کے اطوار و اوہام کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا ۔

تصوف کا ادب سے تعلق  ہنوزاس لیے رہا کہ ادب اپنے اندر قسم قسم کے اظہار کے پہلو لیے ہوئے ہے۔ صوفیا اکرام نے جہاں تحریری انداز میں اللہ کے دین کے احکام کو توضیح سے بیان کرنے کی ضرورت محسوس کی وہیں صوفیا نے نظم و نثر کی جملہ اقسام کو اپنے استعمال میں لا تصوف کے مبادی و اصول کی شرح کے ساتھ اپنے مخصوص افکار و نظریات کا پر چار کیا۔

ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں:

” صوفیا کا ہر عمل اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ ان کی نظر میں تمام بنی نوع انسان بلکہ ہر جاندار، چرند پرند، درند تک خدا کی دامنِ ربوبیت میں پل رہے ہیں۔ صوفی سب کے لیے باعثِ رحمت بننے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کا رب رحمن و رحیم ہے ۔اس کا بنی آخر الزماں ہے ۔صوفی کی زندگی انسان دوستی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہوتی ہے”(۷)

ادب کو نظم و نثر کی کسی صورت میں تخلیق کیا جائے؛ ہر ایک میں قدرِ مشترک لفظ ہوتا ہے۔ الفاظ کی جلوہ گری جذبات و احساسات اور خیالات کو ترسیل و تفہیم کے لائق بناتی ہے۔عامی اور قاری الفاظ کے ذریعے اپنے ماضی الضمیر کا اظہار کرتے ہیں۔ الفاظ کی تفہیم اور بول چال کا انداز اعلیٰ،ادنیٰ اور سطحی ہو سکتا ہے لیکن الفاظ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ الفاظ کی اعلیٰ سطح اور سنجیدہ انتخاب ایک شاعر اور نثار کو عا می سے خاص اور خاص سے ممتاز بناتا ہے۔

ہندوستان کی زمین نے تصوف کے بیج کو اپنے باطن میں پنپنے کا خوب موقع فراہم کیا ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں کے باسی دینِ اسلام سے اس قدر دور تھے کہ انھیں احد و واحد کے تصور کا گیان تک نہ تھا۔ صوفیا ئے اکرام نے ہزاروں میل کا سفر طے کیا اور یہاں آکر دین کی اصل روح کو صوفیانہ رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی جس میں یقینی حد تک صوفیا  کامیاب ہوئے ۔ادب اور تصوف اور صوفی ازم ایک مثلث کی طرح باہم متصل ہیں انھیں ایک دوسرے سے جُدا نہیں کیا جا سکتا۔

تصوف کلاسیکی اُردو شاعری بالخصوص اُردو غزل کا مرکزی موضوع ہے۔ کوئی شاعر ایسا نہیں ہے جس نے تصوف کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہ کیا ہو اور تصوف کے نظریات کے بارے میں اپنے مشاہدات کا ذکر نہ کیا ہو۔ تصوف کو ادب کا جز ولاینفک قرار دینا اس لیے ضروری ہے کہ تصوف کے بغیر ادب کا تصور کچھ بھی نہیں رہ جا تا۔

ڈاکٹر نفیس اقبال لکھتے ہیں:

“کچھ لوگ تصوف کو ادب کا موضوع ہی نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں ادب کا تعلق جمالیات اور تخلیق سے ہے اور تصوف کا تعلق مذہب اور دین سے ہے۔ حالانکہ تصوف اخلاقیات کا حامل ہے اور اخلاقِ جمال کا ہی روپ ہے اور جمال ِ تخلیق کی بنیاد ہوتا ہے۔ مثبتِ اقدار زندگی کی خوبصورتی کی ضامن ہیں اور یہ اقدار تصوف میں تعلیم و تربیت کاحصہ ہیں۔ تصوف اسی خیر کی جانب متوجہ کرتا ہے۔”(۸)

اُردو غزل کا یہ وصف رہا ہے کہ اس نے بیان و بدیع کے جملہ فنی مباحث کو  شاعرانہ آہنگ عطا کیا ہے۔ کوئی شاعر ایسا نہیں گزرا جس نے بیان و بدیع کے ان فنی مباحث کو اپنی شاعری میں نہ برتا ہو۔ امیر خسرو سے لے کر محمد قلی قطب شاہ تک اورولی دکنی سے لے کر خواجہ میر دردؔ تک اور غالب سے لے کر اقبال تک سبھی شعرا کے ہاں فنِ تلمیح کا استعمال نظر آتا ہے۔

خواجہ میر دردؔ واحد صوفی شاعر ہیں جن کی شاعری میں تصوف کا رس سب سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ دردؔ نے اپنی غزل کو تصوف سے مُزّین کیا ہے اور تصوف کے جملہ مباحث کو تلمیح کے پس پردہ استعمال کیا ہے۔ دردؔ سے پہلے تلمیح کا تصوف کے حوالے سے فنی استعمال اس سے پہلے بہت کم شعرا نے برتا ہے اور اگر کہیں اس کا التزام نظر بھی آتا ہے تو اس میں ایک سطحیت ہے جو بہت فراواں محسوس ہوتی ہے۔

تلمیح کیا ہے؟ تلمیح کی تعریف اور اس کے بدیعی معنوی اہمیت کیا ہے؟اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔تلمیح سے مراد کسی مشہور تاریخی، دینی،اسلامی  واقعہ،کہانی،حکایت کی طرف مخصوص الفاظ میں اشارہ کرنا ہے جس سے قاری اور تخلیق کار کے درمیان بُعد کوپہلے سے گُزرے واقعے کی جزوئی اختصاص کے ساتھ پیش آمدہ کیفیت سے ملفوف کرکے بیان کیا جا تا ہے تاکہ پڑھنے والا موجود صورتحال کو ماضی کے واقعے سے متصل کر کے اچھی طرح رائے قائم کرنے اور نتیجہ نکالنےمیں کامیاب ہو جائے۔

تلمیح اگرچہ بظاہر ایک لفظ ہے؛لیکن اس کی تہ میں معنی کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے۔ تلمیح کا پس منظر ایک پوری کہانی، واقعہ اور حکایت پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کہانی،واقعہ اور حکایت کو جانے بغیر اس کے نثری متون کی غرض و غائیت کو سمجھنا مشکل ہے۔

سیدعابد علی عابد اس حوالے سے لکھتے ہیں:

”تلمیح کے استعمال سے ہمارے ذہن میں تصورات و افکار کا ایک وسیع سلسلہ پیدا ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ بَہ امتدادِ زمانہ بعض الفاظ وکلمات میں ایسی دلالتیں پیدا ہو جاتی ہیں یا ان سے ایسی کیفیات وابستہ ہو جاتی ہیں کہ تلمیح اشارے سے متعلقہ کوائف و افکار کے تمام پہلو ہماری نظروں کے سامنے اس طرح اُبھرآتے ہیں کہ رمز و ایما اور اختصار کا وصف ان میں در آتا ہے جو شعر کی اور بالخصوص غزل کی جان ہے۔ “(۹)

اُردو غزل کا یہ طُرہ امتیاز رہا ہے کہ اسے اوائل سے ہی صوفیانہ خیالات کے حامل شعرا میسر آئے ہیں جنھوں نے اُردو غزل کے کینوس پر تصوف کی خوب خوشنما گلکاریوں کے نقش آویزاں کیے اور اپنے بال و پر سے اس کو ایسی قوتِ پرواز عطا کی جس نے خیالات کی تنگ دامانی کو وسعتِ بیکرانی بخش دی۔

اُردو شاعری میں تلمیحات کا استعمال مقتدمین نے خوب کیا ہے۔ محمد قلی قطبؔ شاہ سے لے کر علامہ اقبالؔ تک کون سا ایسا شاعر ہے جس کے یہاں مذہبی،عشقیہ،اساطیری اور دیومالائی تلمیحات اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نہیں ہیں۔ شعرائے متوسطین نے بھی بزرگوں کے چراغ سے چراغ جلایا اور حسب ِ منشا تلمیحات سے اپنی شاعری میں بلاغت و ایجاز کی خوبیاں پیداکیں۔فانیؔ،حسرتؔ،جگرؔ،جوش،فراقؔ اور(خصوصاً) علامہ اقبالؔ نے سب سے زیادہ تلمیحات استعمال کا ستعمال کیا۔

شعرائے متاخرین میں تلمیحات کے استعمال کا سلسلہ رفتہ رفتہ کم سے کم تر ہوتا گیا اور عصرِ حاضر میں تو بہت موقوف ہو کر رہ گیا ہے۔اس کے باجود جدید اُردو شاعری میں جہاں جہاں تلمیحات کا استعمال ہوتا ہے وہ عصرِ ِ حاضر کے مسائل و مصائب کے پس پردہ بیان کی ایک خاص ادبی چاشنی لیے ہوئے ہے۔

خواجہ میر دردؔ نے اپنی غزل میں تلمیح کو سب سے زیادہ جاندار انداز میں برتا ہے۔ خواجہ میر دردؔ کی شاعری کا سب سے اہم وصف اور شعری اختصاص تصوف اور متصوفانہ افکار و تصورات ہیں ۔دردؔ نے اپنے مخصوص متصوفانہ نظریات اور تصورات کو تلمیح کے پس پردہ بیان کیا ہے۔ دردؔ کے ہاں فنِ تلمیح کے استعمال کی متنوع صورتیں ملتی ہیں جن سے رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ دردؔ نے متصوفانہ افکار و نظریات کو نہایت کامیابی سے تلمیح کے پیرائے میں بیان کر دیا ہے جو ان کی لسانی اُپج کا ناقابلِ فراموش نمونہ ہیں۔

خواجہ میردردؔ کو کلاسیکی شعرا میں بہت نمایاں مقام حاصل ہے۔ میر دردؔ نے اگرچہ بہت کم لکھا مگر انتخاب لکھا۔ ان کے کلام کی سخت ترین تذکرہ نگار ناقد مولانا محمد حسین آزاد نے بھی تعریف کی ہے:

“خواجہ میر دردؔ صوفی خاندان کے چشم و چراغ تھے اور ایک محترم صوفی کی حیثیت سے زندگی بسر کی۔خواجہ میر دردؔ کی غزل سات شعر کی یا نو شعر کی ہوتی ہے مگر انتخاب ہوتی ہے۔خصوصاً چھوٹی چھوٹی بحروں میں جو غزلیں کہتے ہیں گویا تلواروں کی آبداری نشتر بھی بھر دیتے ہیں۔”(۱۰)

خواجہ میر دردؔ ایک صوفی شاعر تھے۔ وہ سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے مزاج میں ایسی صوفیانہ وسیع المشرقی تھی جو ہمیں اس دور کے میں شاہ ولی اللہ اور مرزا مظہر جاناںِ جاناں کے ہاتھ دکھائی دیتی ہے۔ خواجہ میر دردؔ کے فکری رجحانات میں جس عنصر کو تقویت ملی وہ فتنہ و فساد اور لوٹ مار کے ہنگامی  نفسانفسی کے دورِ اجتماع کا تلازمہ ہے۔ دردؔ نے اپنے دور کے انحطاطی رویوں اور پست اخلاقی تقاضوں کی نفسانی بھیڑ چال کے آگے ستم رسیدہ حاذقوں کو سرنگوں ہوتے دیکھ کر تصوف کو پناہ کی آماجگاہ قرار دیا اور عمر بھر اسی کی تلقین کرتے رہے اور غزل اسی راستے کو نجات کا ذریعہ قرار دے کر تصوف کو دینی و دُنیاوی زندگی کا حاصل ٹھہرایا۔

خواجہ میر دردؔ عملاً صوفی   تھے۔ ان کے کلام میں وارداتِ قلبی کا اس قدر کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ تصوف کی روح گویا کلامِ دردؔ میں سما گئی ہے۔ دردؔ کی کلام میں تصوف کے جملہ موضوعات یعنی معرفت، توکل، فنا، بے ثباتی، جبرو قدر، وحدت الوجود،وحدت الشہود اور اخلاقِ فاضلہ کا بیان ملتا ہے۔ ڈاکٹر وحیدر اختر لکھتے ہیں:

“صوفیہ کے سلسلوں میں جو طریقہ شرع سے سب سے زیادہ، قرونِ اولیٰ کے اسلامی اُصولوں پر مبنی ہے وہ سلسلہ خواجگان ہے جسے خواجہ بہاؤ الدین نقشبند  کی نسبت سے سلسلہ نقشبندیہ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ خواجہ میر دردؔ اسی سلسلے سے نسبت رکھتے تھے اور اس تعلق پر تفاخر کابرملا اظہار بھی کرتے تھے”(۱۱)

خواجہ میردردؔ کی متصوفانہ تلمیحات میں دُنیا کے بادشاہوں کاذکر نا ہونے کے برابر ہے۔ دردؔ نے رُستم، کیاؤس،نمرود  ایسے جلیل القدر اور ذی حِکم بادشاہوں کاذکر کرنا نامناسب گردانا ہے۔ ان کے ہاں اگر کسی بادشاہ کا ذکر آیا ہے ہے تو وہ مشہور صوفی بزرگ “ابراہیم ادہم” ہیں جنھوں نے دُنیاوی بادشاہت کو رب ِ حقیقی کی معرفت و شناسائی کے آگے حقارت سے رَد کر ڈالا تھا۔

؂         نہیں مذکور شاہاں دردؔ! ہرگز اپنی مجلس میں/کبھو کچھ ذکر آیا بھی تو ابراہیم ادہم کا(۱۲)

خواجہ میر در دؔ کے ہاں “از ل،روز الست اور روزِ ازل “کی تلمیح کثرت سے استعمال ہوئی ہے۔ دردؔ روز ازل کی حقیقت سے آگاہ ہیں اور اس کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور خود کو ناتواں و نا چیزخیال کرتے ہیں ۔

؂         لے کر ازل سے تابہ ابد ایک آن ہے/گر درمیاں حساب نہ ہو سال و ماہ کا(۱۳)

؂         میں گو نہیں ازل سے،پر تاابد ہوں باقی/میرا حدوث آخر جاہی بِھڑا قدم سے(۱۴)

؂         حرفِ بلا ہمیں نے روزالست بولا/اَسرار ہیں تو ہم ہیں اظہار ہیں تو ہیں(۱۵)

صوفیا ء کا یہ عقیدہ ہے کہ رزق کے معاملے میں ذرا سی غفلت راہِ سلوک سے بھٹکا سکتی ہے۔” اکل حلال” کا تصور صوفی ازم میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایک  سالک جب تک اپنے حلق میں اکل حلال کا نوالہ نہیں انڈیلتا ؛تب تک اس کی عبادت و ریاضت میں اخلاص کا عنصر دخیل نہیں ہو سکتا۔دردؔ نے اکل حلال کے معاملے میں دوزخ و بہشت کو بھی لتاڑ ڈالا ہے اور اسے ایک “دھندے” سے تعیبر کیا ہے۔

؂         جنت میں بھی اکل و شرب سے نھیں ہے نجات/دوزخ کا، بہشت میں بھی ہوگا دھندا(۱۶)

رب تعالیٰ کی معرفت کے  حوالے سے  صوفیاء کے ہاں بالعموم دو گروہ پائے جاتے ہیں۔ ایک” وحدت الوجود” ہے اور دوسرا “وحدت الشہود “ہے۔ وحدت الوجود کے ماننے والے صوفیا ء کا عقیدہ ہے کہ رب تعالیٰ اپنے وجود کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے جبکہ وحدت الشہود کے ماننے والے صوفیا کا نکتہ نظر مختلف یوں ہے کہ رب تعالیٰ اپنی صفات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے ۔وہ وجود سے پاک ہے جبکہ اپنی صفات سے ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے جیسے درخت پھل پیدا کرتا ہے ،بادل بارش برساتے ہیں ،زمین اناج پیدا کرتی ہے ۔دردؔ نے وحدت الشہود کو آنکھ کی متصل اکائی قرار دیا ہے۔دردؔ نے خلق کے اندیشوں کو شہودِ حق سے اُٹھنے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

؂         متفق آپس میں ہیں اہلِ شہود/دردؔ! آنکھیں دیکھ، باہم ایک ہیں(۱۷)

؂         تسکین ِ شہودِ حق سے ہوتی ہے نصیب/اُٹھ جائے نظر سے خلق، تب بیٹھ سکے(۱۸)

خواجہ میر دردؔ کے ہاں صوفیا کے مختلف مکاتبِ فکر کے عہدیدارن /درجات/مراتب سے متعلق تلمیحات کا ذکربھی ملتا ہے جنھیں دردؔ نے “اہل صفا، اہل فقر،اہل فنا، اہل  نظر”قرار دیا ہے۔ یہ سبھی درجاتِ تصوف ہیں جس پر سلوک کی راہیں طے کرنے والے سالک کو جزوقتی مسند نشیں ہونا پڑتا ہے۔ اہل فقر سے مراد وہ فقیر صوفیا ء ہیں جنھوں نے اپنا تن من اور دھن معرفتِ حقیقی کی تلاش میں قربان کر دیا ۔

اہل نظر سے مراد وہ سالکین ہیں جن کی آنکھ دُنیا کے لذائذ سے ماورا ہو گئی اور لطافتِ روحی میں مدغم ہو کر ذاتِ حقیقی کے عرفان میں گُم ہو گئی۔ اہل صفا سے مراد وہ سالکین ہیں جنھوں نے اپنے قلب کو دُنیا کی جملہ نفسانی خواہشات سے دور کر لیا اور مثلِ آئینہ ذاتِ حقیقی کے روبرو خود کو سر تسلیم ِ خم کر لیا۔خواجہ میر دردؔ کے ہاں ان مراتبِ مرتبت کا خوبصورت تلمیحی ذکر ملتا ہے۔

؂         اے دردؔ! زنگِ صورت اگر اس میں جاکرے/اہلِ صفا میں آئنہ دل کو  رو  نہ ہو(۱۹)

؂         لے نہ جاوے حرص، اہل فقر کو/کوئی دم کو ہم بھی ہوتے ہیں ہوا(۲۰)

؂         اہلِ فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے/لوحِ مزار بھی مری چھاتی پہ سنگ ہے(۲۱)

؂         ممنون مرے فیض کے سب اہلِ نظر ہیں/جوں نور،ہر اک چشم کو دیدار نما ہوں(۲۲)

جبر وقدر کا نظریہ صوفیاء  کا محبوب مشغلہ سمجھ لیجیے۔ صوفیا ئے اکرام کی جملہ تصنیفات اور ملفوظات میں اس تصورِ جبرو قدر کے بارے میں مختلف آرا سامنے آتی ہیں۔ بعض صوفیا خود کو “مجبورِ محض” قرار دیتے ہوئے رب تعالیٰ کے سامنے ایک “کٹھ پُتلی” کی طرح پیش کرتے ہیں اور سبھی اختیار کا مالک  مالکِ حقیقی کو گردانتے ہیں جبکہ ایک کثیر تعداد خود کو کسی حد تک اعمال و افعال و اقوال کی انجام دہی کے لیے “صاحبِ اختیار” سمجھتی ہے۔

ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی لکھتے ہیں:

” حقیقت یہ ہے کہ فعل اختیاری  وہ ہے جو  حیات ولم ،قدرت اور ارادہ کے تابع ہے۔ انسان میں حیات،علم،قدرت اور ارادہ کی صلاحتیں ہوتی ہیں تو عمل سرزد ہوتا ہے اور ان اوصاف کی موجودگی میں عمل انسان کے اختیار میں تھا،ہوں وہ عمل اختیاری ہوا لیکن یہ صلاحیتیں یعنی حیات، قدرت،علم اور ارداہ خود انسان کے اختیار میں نہیں۔ اس لحاظ سے جبرو قدر دونوں کی آمزیش ہے ،سو ،انسان مجبور بھی ہے اور مختار بھی”(۲۳)

؂         وابستہ ہے ہمھی سے، گر جبر ہے وگر قدر/مجبور ہیں تو ہم ہیں، مختار ہیں تو ہم ہیں(۲۴)

؂         تھا عالمِ جبر کیا بتاویں/کس طور سے زیست کر گئے ہم(۲۵)

جنت اور دوزخ کے معاملے میں جملہ ادیان میں ذکر ایک سا ہی ملتا ہے۔ یہ علاحدہ بات ہے کہ کچھ مکاتب فکر ان کے مندرجات میں تخیف و تحریف کو گوارا کیے ہوئے ہیں۔ تقابل ادیان کے مطالعہ سے یہ ثابت ہے کہ رب تعالیٰ نے انسان کی فانی اور جز وقتی پیدا کیا ہے۔اس کے مستقل اور دائمی ٹھکانے یعنی پڑاؤ کی آرام گاہ اس کے اعمالِ دُنیاوی پر رکھی ہے۔ جس نے جیسے عمل کیے اُس کے موافق بدلہ دیا جائے گا۔ دین  اسلام میں بدلے کے اس انعام اور سزا کو”جنت ” اور “دوزخ” اسلامی تلمیحات سے تعیبر کیا جاتا ہے جس کے بارے میں خواجہ میر دردؔ نے متعدد اشعار میں اپنے خیالات کا اظہار متنوع انداز میں کیا ہے۔

؂         نَے یھاں ہواے آب ہے، نَے حرص ناں کی/نَے دہشتِ سقر، نہ ہوس ہے جناں کی(۲۶)

؂         تحقیق کیجے دوزخ و جنت کو غلط/جاوینگے ہم ادھر کو جدھر یار لے چلے(۲۷)

یہ دُنیا جس دن پیدا ہوئی ۔یوں سمجھ لیجیے کہ اس کائنات کی آفرینش کے وقت تمام ارواح کو رب تعالیٰ نے اپنے حضور مدعو کیا اور انھیں اپنے ربوبیت کے بارے میں اثبات کا اقرار لیا۔ اس واقعے کو خواجہ میر دردؔ نے “حرفِ بلا” تلمیح سے واضح کیا ہے۔ دردؔ کہتے ہیں کہ میں نے اُس روز” حرفِ بلا” کے اقرار میں “قالو بلیٰ” کہہ کر اپنے مخلوق اور رب کو خالق ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔

 ؂         حرفِ بلا ہمیں نے روزالست بولا/اَسرار ہیں تو ہم ہیں اظہار ہیں تو ہیں(۲۸)

رب تعالیٰ کی وحدانیت کے مقابلے میں “ثنویت” یعنی مزید خدا ؤں کا تصور مختلف مذاہب میں ملتا ہے۔ خواجہ میر دردؔ اس کے قائل نہیں ہیں۔ خواجہ صاحب “وحدانیت” کے مقابلے میں “حرفِ دوئی” کو مٹادینے کے درپئے ہیں اور اسے “ایہام” سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ دردؔ کے ہاں “حرف دوئی” کی تلمیح سے وحدانیت کی تشریح جس انداز میں کُھل کر سامنے آئی ہے اس روش سے دردؔ کی لسانی اُپج اور متصوفانہ درک کا پتہ چلتا ہے۔

؂         از بس کہ ہم نے حر ف دوئی کا اُٹھا دیا/اے دردؔ! اپنے وقت میں ایہام رہ گیا(۲۹)

؂         وحست میں تیری، حرف دوئی کا نہ  آسکے/آئینہ ،کیا مجال،تجھے منہ دکھا سکے(۳۰)

خواجہ میر دردؔ بطور انسان خود کو رب تعالیٰ کے سامنے بے بس اور بے اختیار گردانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے رب! تیرے اور میرے درمیان اگر” لاحول و قوت” موجود نہ ہو تو میں جو کچھ کر سکنے کی حالت میں ہوں ؛وہ کبھی مجھ سے ہو نہیں سکتا کہ تیری طرف رسائل تیرے کی طفیل ممکن ہے ۔

مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں:

“دردؔ کے اشعار میں کہیں سے سجادے کا رنگ یا خانقاہ کی مہک محسوس نہیں ہوتی۔ ان اشعار میں بھی نہیں جو درویشی  اور معرفت کا انداز لیے ہوئے ہیں۔”(۳۱)

؂         ہووے نہ حول و قوت اگر تیری درمیاں/جو ہم سے ہو سکے ہے،سو ہم سے کبھو نہ ہو(۳۲)

خواجہ میرد دردؔ کے ہاں راہ سلوک کے مسافران کے مختلف درجات کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ خواجہ صاحب چوں کہ خود طریقت کی منازل کو عملی طور پر طے کرنے والے درویشِ باصفا تھے اس لیے ان کے کلام میں تصوف کی تمام تر منازل کا ذکر وہی روایتی انداز میں نظر آتا ہے۔ خواجہ صاحب نے  متصوفانہ درجات یعنی ” درویش، رند، طریق زُہد،مراقبہ، دستِ غیب صفائے باطن،فنا فی اللہ” کا ذکر خاص طور سے کیا ہے۔

پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیں:

“ساقی رہبر طریقت،پیر مغاں،مرشد کامل،جام دل ، صنوبری خمارطریق،زُہد،صفائی قلب،مطرب و نغمہ، ششہ و صراحی۔یہ سب مدراجِ عرفان کے نام ہیں۔ مقامِ فنا کا نام خرابات ہے۔ سالک ،عارف، باخبر قلندر وہ عارف ہے جو مرتبۂ تکلیف سے گزر گیا۔۔۔۔زلف،رُخ،جلوہ،ناز و غمزہ،ہجر ووصال؛غرض تمام سرمایۂ اصلاحات کو عشق ِ حقیقی کے صوفیانہ تصورات میں خواجہ نے ڈھال دیا۔”(۳۳)

خواجہ میر دردؔ نے تصوف کےرہروان کو “درویش، رند، فقیر، شیخ، پیر مغاں، اہل فنا، اہل نظر، اہل صفا” ایسی متصوفانہ تلمیحات سے تعبیر کیا ہے اور ان کے درجاتِ فقر کو جداگانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے کہ داد دئیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

؂         درویش! ہر کجا کہ شب آمد، سرائے اوست/تو نے سنا نہیں ہے یہ مصرع مگر کہیں      (۳۴)

؂         دردؔ!درویش ہوں ،مری تعظیم/خلق کرتی ہے،کہ یا   اللہ(۳۵)

؂         کبھو خوش بھی کیا ہے جی کسی رندِ شرابی کا/بھڑا دے منہ سے منہ ساقی! ہمارا اور گلابی کا(۳۶)

؂         زاہد کو جتا دیجو، بے خود ہیں یہ رنداں/آتا ہے تو خودداری کو گھر میں ہی دھر آوے(۳۷)

؂         اُٹھ چلے شیخ جی تم مجلسِ رنداں سے شتاب/ہم سے کچھ خوب مدارات نہ ہونے پائی(۳۸)

؂         نہ ہم غافل ہی رہتے ہیں، نہ کچھ آگاہ ہوتے ہیں/انھی طرحوں میں پر ہر دم فنا فی اللہ ہوتے ہیں(۳۹)

؂         اے دردؔ! مراقبہ تو کرتے ہو،ولے/اپنا اپنا گریباں میں بھی منہ ڈالیے گا(۴۰)

؂         مست ہوں،پیر مغاں! کیا مجھ کو فرماتا ہے تو/پاے بوسِ خُم کروں یا دست بوسیِ سبو(۴۱)

؂         خاموش ہو، ترکِ گفتگو کر/باطن کی صفا کی جستجو کر(۴۲)

ایک فقیر کی زندگی رب تعالیٰ کے احکامات کی سر تا پا عملی شکل ہوتی ہے جس پر آویزاں منقش فنائیت کے آثار ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔ فقیر کے لیے رب تعالیٰ کی خشنودی کے سوا کوئی چیز لائقِ توجہ نہیں ہوتی۔وہ تو بس خود کو رب تعالیٰ کی ذات کے حقیقی عرفان میں ہر وقت مبتلا رکھتا ہے اور یہی خواہش کرتا ہے کہ موت و حیات کی اس کشمکش سے خود کو کسی صورت آزاد کروا کے مکان و لامکان کی وحدت کو وسعتِ بیکرانی عطا کر دے’خواہ موت اِس کے آگے رقصِ شاداں کرتی نڈھال ہو ہو گرے۔

؂         سیرِ باغ و بوستاں تو ہے میسر ہر گھڑی/آئیے گا ہے فقیروں کے بھی ویرانے کے بیچ(۴۳)

؂         کہنے لگا، مکانِ معین فقیر کو/لازم ہے کیا کہ ایک ہی جاگہ ہو ہر کہیں(۴۴)

؂         موت!کیا آگے فقیروں سے تجھے لینا ہے/مرنے سے آگے ہی،یہ لوگ تو مرجاتے ہیں(۴۵)

علاوہ ازیں خواجہ میر دردؔ نے  “دست غیب،سیر عدم،شبِ قدر، بابِ عرفان،دولت فقر، نامِ حق،ہُو” تلمیحات کا کثرت سے مختلف اور متنوع انداز میں استعمال کیا ہے جس سے ان درجات و تصورات اور ذیلی مباحثِ طریقت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

؂         اے زیور دستِ غیب! ہر جا/انگشت نما ہے جوں نگیں تو (۴۶)

؂         واقف نہ یھاں کسو سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے/یعنی کہ آگے ہیں بہکے ہوئے عدم کے(۴۷)

؂         کاہے کو ہوتی گردش تم کو نصیب طالع!/گر پانو باہر اپنا رکھتے نہ ہم عدم سے(۴۸)

تصوف کی را ہ میں غیاب و شہود کے واہمے ایک سالک کو راہِ سلوک میں پل بھر میں بھٹکا دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ سالک خود کو غیاب کی حالت میں شہود کا آئینہ قرار دیتا ہے جب کہ ذاتِ حقیقی کے عرفان کی درخشندگی اور تابانی اس کے وسواس کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ شہود و غیوب و شہادت و غیاب اور حضور  ایسے واہموں نے سیکڑوں صوفیاء کی راہ کو کھوٹا کیا ہے۔ خواجہ میر دردؔ ان معاملاتِ سِری و خفی میں راہروانِ سالکین کو فقط” ربِ ذوالجلال” کے تصور میں فنا یت کو کامیابی کا واحد وسیلہ گردانتے ہیں۔

؂         ہے جلوہ گاہ تیرا کیا غیب کیا شہادت/یھاں بھی شہور تیرا وھاں بھی حضور  تیرا(۴۹)

؂         سمجھنا،فہم گر کچھ ہے، طبیعی سے،الہٰی کو/شہادت،غیب کی خاطر تو حاضر ہے گواہی کو(۵۰)

؂         آہ! وے وے شخص جو دیتے تھے خبریں غیب کی/ڈھونڈھتے پھرتے ہیں اُن کو، لوگ وے کیا ہو گئے(۵۱)

ایک فقیر کی نظر میں دُنیا کی دولت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کے سامنے کُل جہان کی آسائشیں اور فراوانیاں ڈھیر کر دی جائیں’وہ ان پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ راہ سلوک کا مسافر اپنے ذات کے نہاں خانوں سے جبلّی لوازمات کے نفاسی عوامل کو جڑ سے اکھاڑ ڈالتا ہے اور اس کی جگہ فنائیت کی بقا کا تصور پالتا ہے جس کے لیے اسے تن من دھن قربان کرتے وقت ذرا سا احتمال لاحق نہیں ہوتا۔

؂         ہمت رفیق ہووے،تو فقر سلطنت ہے/آتا ہے ہاتھ یعنی یھاں تخت دل کے ہاتھوں(۵۲)

؂         زنہار، ادھر کُھولیو مت چشمِ حقارت/یہ فقر کی دولت ہے، کچھ افلاس نہیں ہے(۵۳)

؂         دولتِ فقر کے حضور، گرد ہے جاہِ سلطنت/کہتے ہیں یھاں جسے ہُما،اپنی نظر میں زاغ ہے(۵۴)

         ایک صوفی کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے ۔یہ مشاہدہ اس وجہ سے ہے کہ اس کے ذہن میں اُلجھن پیدا کرنے والی گُتھیوں کو سُلجھایا جا سکے۔ اس کے من کی دُنیا کو خرافاتِ ذہنی سے پاک کیا جا سکے اور اس کے دل کو قلب مطمنٔہ کی دولت سے مالا مال کیا جا سکے۔

؂         مٹ اٹکیو تو اِس میں کہ مشہود کون ہے/ہر مرتبے میں دیکھیو، موجود کون ہے(۵۵)

؂         تا حشر تری مریدی و پیری کا/جوں موج،یہ سلسلہ رہے گا جاری(۵۶)

خواجہ میر دردؔ کے یہاں یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ ایک صوفی کے دل میں کائنات و ماورائے کائنات کے متعلق بہت سے سوالات گردش کر رہے ہوتے ہیں اور وہ ان جوابات کی تلاش میں حیرت و بے تابی سے حقیقتِ حق کی جستجو میں راہ سلوک کے سفر پر گامزن ہو کر دُنیا و مافہیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور معرفت کی وادی میں قدم رکھتا ہے۔ دردؔ کی شاعری میں معرفت  سے شروع ہونے والے مشاہدے کو دریائے معرفت میں ڈوب کر حاصل کی جستجو صاف دکھائی دیتی ہے جسے طریق زُہد سے آگے کی چیز سمجھتا ہے اور زمینِ شعر میں “تخمِ تصوف” کی پیوند کاری قرار دیا ہے۔

؂         پُھولے گی اس زباں میں بھی گلزارِ معرفت/یھاں میں زمینِ شعر میں یہ تُخم بو گیا(۵۷)

؂         دریاے معرفت کے ،دیکھا تو ہیں ساحل/گروار ہیں تو ہم ہیں، اغیار ہیں تو ہم ہیں(۵۸)

؂         کی بہت طریقِ زُہد میں عمر تباہ/اب کیجے دل کو معرفت سے آگاہ!(۵۹)

ایک صوفی کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کے دل میں کئی سوالات اُبھرتے ہیں جن سے حیرت پیدا ہوتی ہے جو تلاشِ حقیقت اور جستوئے حق کی راہ کھولتی ہے ۔اس طرح راہ سلوک کا مسافر یعنی صوفی معرفت کی دُنیا میں داخل ہوتا ہے اور حیرتوں کے عجائب کدے اپنے سامنے وَا دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ۔

؂         ہووے کب وحدت میں کثرت سے خلل/جسم و جاں گو ووہیں، پر ہم ایک ہیں(۶۰)

؂         وحدت میں  تیری،حرف دوئی کا نہ آسکے/آئینہ ، یا مجال ،تجھے منہ دکھا سکے(۶۱)

؂         مٹ جائیں اک آن میں کثرتِ نمائیاں/ہم آئنے کے سامنے جب آکے ہُو کریں(۶۲)

         خواجہ میردردؔ کی شاعری تصوف سے عبارت ہے۔دردؔ کی شاعری میں متصوفانہ تلمیحات کا اس قدر دلنشیں اور پُر اثر بیان ملتا ہے کہ خواجہ صاحب کی عقیدتِ زبانِ اُردو پر تفاخر کا احساس ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:

“دردؔ کی عظمت اس بات پر منحصر نہیں کہ ان کے کلام میں صوفیانہ خیالات پائے جاتے ہیں بلکہ اِس بات میں ہے کہ ان کی شاعری ایک صوفی کی شاعری معلوم ہوتی ہے۔ ان کی شارسی شاعری کا لب و لہجہ صوفیانہ ہے۔زندگی اور کائنات کے  متعلق ان کے تصورات، عشق و محبت کے متعلق ان کا نکتہ نظر ،مجاز اور حقیقت کے سلسلے میں ان کا اندازِ خیال،غرض تقریباً ہر موضوع کے متعلق ان کا مخصوص طریقِ بحثِ اور منفرد طرزِ بیان ہے جس کی بنا پر وہ دوسرے غیر صوفی شعرا سے ممتاز اور منفرد نظر آتے ہیں”۔(۶۳)

خواجہ صاحب نے اگرچہ مختصر کہا مگر انتخاب کہا ہے۔ ان کے کلام کو تصوف کا نگار خانہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اُردو غزل میں تصوف کے روایتی مضامین کثرت سے ملتے ہیں تاہم جس شاعر نے تصوف کو اول و آخر غزل کا مرقع بنایا ہے وہ خواجہ میر دردؔ ہیں۔ خواجہ میر دردؔ کی غزل اس فنی اختصاص کے ساتھ ہمیشہ یاد کی جاتی رہے گی اور اس کی ادبی معنویت کو مُروروقت کے ساتھ قدر کی نگاہ سے دیکھنا خود اُردو غزل کی روایت کا مطمع نظر ٹھہر ے گا۔

حوالا جات:

۱۔مولوی سید احمد دین، فرہنگ ِ آصفیہ(جلد اول)،مکتبہ حسن سہیل،لاہور،سن،ندارد،ص۲۴۴

۲۔مولوی سید تصدق حسین رضوی،لغاتِ کشوری،سنگ میل پبلیکیشنز،لاہور،۱۹۹۲ء،ص۲۰۷

۳۔عثمان علی ہجویری،کشف المحجوب(مترجم:واحد بخش سیال)،الفیصل ناشران و کتبِ تاجر،لاہور،۲۰۰۶ء،ص۲۱۸

۴۔عبدالقادر جیلانی،شیخ،غنیۃ الطالبین(مترجم: شمس صدیقی)،پروگیسو بکس،لاہور،سن،ندارد،ص۲۵۱

۵۔رضا حیدر،ڈاکٹر، اُردو شاعری میں تصوف اور روحانی اقدار،غالب انسٹیٹیوٹ ،دہلی،۲۰۰۷،ص ۷۶

۶۔تحسین فراقی،ڈاکٹر،اقبال اور تصوف:چند تاثرات،مشمولہ،اقبال اور تصوف از محمد شریف،جنگ پبلشرز،لاہور،۱۹۹۱ء،ص۹

۷۔ظہیر احمد صدیقی،ڈاکٹر، تصوف اور تصوراتِ صوفیا، سیٹھی  بکس،لاہور،۲۰۱۰،ص۵۵

۸۔نفیس اقبال،ڈاکٹر،تصوف اور ادب کا باہمی رشتہ،پاکستان رائٹرز کوآپریٹو سوسائٹی،لاہور،۲۰۱۲،ص۱

۹۔ عابد علی عابد،مقالات عابد،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۸۹،ص۴۷

۱۰۔محمد حسین آزاد،مولانا،آبِ حیات، القمر پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۸،ص۵۲

۱۱۔وحید اختر،ڈاکٹر،خواجہ میر درد:تصوف اور شاعری،لیتھو کلر پرنٹرس،علی گڑھ،۱۹۷۱،ص۴۷

۱۲۔خواجہ میر درد دہلوی،دیوانِ میر،قومی کونسل برائے فروغِ اُردو، دہلی،۲۰۱۱ء،ص۱۲۶

۱۳۔ خواجہ میر درد دہلوی،دیوانِ درد،،ص۱۲۳

۱۴۔ایضاً،ص۱۸۹

۱۵۔ایضاً،ص۲۳۵

۱۶۔ایضاً،ص۲۲۷

۱۷۔ایضاً،ص۱۵۷

۱۸۔ایضاً،ص۲۳۰

۱۹۔ایضا!،۱۶۷

۲۰۔ایضاً،ص۱۲۵

۲۱۔ایضاً،ص۲۲۴

۲۲۔ایضاً،ص۱۵۲

۲۳۔ظہیر احمد صدیقی،ڈاکٹر،پروفیسر، تصوف اور تصوراتِ صوفیہ،سیٹھی بکس ،لاہور،۲۰۱۰،ص۱۲۳

۲۴۔ خواجہ میر درد دہلوی،دیوانِ درد،،ص۱۵۶

۲۵۔ایضاً،۱۴۸

۲۶۔ایضاً،ص۲۲۵

۲۷۔ایضاً،ص۲۴۱

۲۸۔ایضاً،ص۲۳۵

۲۹۔ایضاً،ص۱۱۹

۳۰۔ایضاً،ص۱۸۲

۳۱۔مجنوں گورکھپوری،نکاتِ مجنوں،کتابستان،الہ ٰ آباد، ۱۹۵۷،ص۸۱

۳۲۔ خواجہ میر درد دہلوی،دیوانِ درد،،ص۱۶۸

۳۳۔محمد حسن،پروفیسر، دہلی میں اُردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر(عہدِ میرؔ تک)،دہلی یونی ورسٹی،دہلی،۱۹۸۳،ص۲۶۸

۳۴۔ خواجہ میر درد دہلوی،دیوانِ درد،،ص۱۶۸

۳۵۔ایضاً،ص۱۷۵

۳۶۔ ایضاً،ص۱۱۸

۳۷۔ ایضاً،ص۱۸۰

۳۸۔ ایضاً،ص۱۵۲

۳۹۔ ایضاً،ص۲۲۷

۴۰۔ ایضاً،ص۱۶۸

۴۱۔ ایضاً،ص۲۲۲

۴۲۔ ایضاً،ص۱۳۹

۴۳۔ ایضاً،ص۱۵۶

۴۴۔ ایضاً،ص۱۵۷

۴۵۔ ایضاً،ص۲۱۹

۴۶۔ ایضاً،ص۱۸۹

۴۷۔ ایضاً،ص۱۹۰

۴۸۔ ایضاً،ص۱۱۷

۴۹۔ ایضاً،ص۱۶۷

۵۰۔ ایضاً،ص۱۹۹

۵۱۔ ایضاً،ص۱۵۹

۵۲۔ ایضاً،ص۱۸۳

۵۳۔ ایضاً،ص۱۹۵

۵۴۔ ایضاً،ص۲۱۳

۵۵۔ ایضاً،ص۲۳۱

۵۶۔ ایضاً،ص۱۲۷

۵۷۔ ایضاً،ص۱۵۶

۵۸۔ ایضاً،ص۲۲۹

۵۹۔ ایضاً،ص۱۵۷

۶۰۔ ایضاً،ص۱۸۲

۶۱۔ ایضاً،ص۱۵۴

۶۲۔ ایضاً،ص۱۱۸

۶۳۔سید عبداللہ،ڈاکٹر، مباحث(جلد اول)،کتب خانہ نذیریہ ،اُردو بازار جامع مسجد،دہلی،۱۹۶۸،ص۸۷

Contact

+923014463640-mohsinkhalid53@gmail.com

Leave a Reply