نظیر احمد گنائی
ریسرچ اسکالر ، دہلی یونی ورسٹی، دہلی
تلنگانہ اردو ادب میں پروفیسر اشرف رفیع کے کارنامے
تلنگانہ اردو ادب میں خواتین کاحصہ
گزرے ہوئے زمانے میں اگرچہ خواتین کے کارناموں کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ تو اس بات سے یہ قطعی مطلب نہیں کہ ان خواتین کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا نہ ہی وہ جاہل تھیں۔ اصل میں ان کے کارنامے پوشیدہ ہیںاور ہمارے پاس جو معلومات ہیں۔ وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مثلاًاردو کے پانچویں دور کی ایک شاعرہ شرفؔ النساء بیگم سے واقف ہیں۔ ایک مرثیہ اس کا دستیاب ہوا ہے۔ مگر اس کے حالات کی خبر نہیں، ایک اور شاعرہ کا پتہ چلا جس نے ارسطو جاہ کی مدح میں قطعہ لکھا تھا۔ چنداؔ کا تذکرہ بھی پانچویں دور میں ہی ملتا ہے۔
چھٹے دور میں بھی خواتین کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے۔ ساتویں دور میں جن خواتین کے علم و فن کا تذکرہ ملتا ہے ان میں صغریٰ بیگم ہمایوں مرزا، رابعہ بیگم ، سارہ بیگم وغیرہ۔ اس دور میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی نظم و نثر میں اپنے جوہر دکھائے ہیں۔
جن خواتین حضرات نے شاعری میں اپنا کمال دکھایا۔ ان میں رحمت بیگم اسیرؔ، ا نیسہؔ بیگم شیروانی، صغریٰ بیگم حیاؔ، رابعہؔ بیگم، سارہؔ بیگم، بشیر النساؔء بیگم، بشیرؔ، منظور فاطمہؔ بیگم، قیصریؔ بیگم، احمدؔ النساء بیگم، نوشابہؔ خاتون، لطیفؔ النساء بیگم، صفیہ بیگم قمرؔ، وحیدؔ نسیم، سعیدہؔ مظہر، شیل ؔبالاصاحب، مسز
برکت ؔرائے، نذیر ناہیدؔ، رفعتؔ، راحتؔ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
پروفیسر اشرف رفیع کا تعارف
مایہ ناز نقاد، ادیبہ، محقق، شاعرہ اور اعلی پایہ کی مدرس کا جنم تلنگانہ میں ہوا۔ ۱۴/ اگست ۱۹۴۰ء کو اشرف رفیع کی ولادت سرزمین حیدرآباد میں ہوئی۔ ان کے والد محمد رفیع الدین صدیقی اردو اور فارسی کے مشہور شاعر تھے۔ اشرف رفیع کے شوہر ڈاکٹر مصطفی علی خان فاطمی جامعہ عثمانیہ میں ریفرنسس لائبریرین (Refrences Librarian) رہے۔ وہ خود بھی ایک اچھے اسکالر گزرے ہیں۔ اشرف رفیع نے ۱۹۶۵ء میں اردو میں ایم اے پاس کیا۔ پروفیسر مسعود حسین خان کی رہبری میں مقالہ ’’نظم طبا طبائی حیات اور کارناموں کا تنقیدی جائزہ‘‘ لکھا۔ لیکن ۱۹۶۹ء میں پروفیسر رفیعہ سلطانہ کی زیر نگرانی میں یہ مقالہ مکمل کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بحیثیت اردو لکچرر ’’ونیتا مہاودیالیہ‘‘ میں ۱۹۷۰ء میں تقرر ہوا۔ اس ادارے میں وہ آٹھ سال تک درس و تدریس کے کاموں میں مشغول رہیں۔
یکم نومبر ۱۹۷۷ء کو جامعہ عثمانیہ میں اشرف رفیع کا تقرر بحیثیت لکچرر ہوا۔ ۱۹۸۴ء میں ریڈر مقرر ہوئیں۔ ۱۹۸۹ء میں پروفیسر شپ ملی اور ۱۹۹۰ء میں صدر شعبہ اردو کے عہدہ پر فائز ہوئیں۔ ۱۹۹۲ء میںبورڈ آف اسٹیڈیز (B.O.S) کی چیرپرسن بنائی گئیں۔ زمانہ صدارت میں تانیثیت (Faminism) دکنی مثنویوں اور جنوبی ہند میں منظر پس منظر پر تین کل ہند سمینار کا انعقاد کیا۔ ۱۹۹۶ء میں پروفیسر اشرف رفیع دوبارہ صدر شعبہ مقرر ہوئیں۔
ادبی کارنامے
۳۱ /دسمبر ۱۹۹۷ء کو بحیثیت صدر شعبہ اردو ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ وہ بحیثیت شاعرہ
قومی سطح پر اپنی ایک پہنچان رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ دکنیات اور لسانیاتی تحقیق میں انہیں اہم مقام حاصل ہے۔ اشرف رفیع کی شخصیت پرکشش اور دلکش ہے۔ طالب علم ان سے باربار ملنے کے خواہاں رہتے ہیں۔ وہ ایک پر خلوص، ہمدرد، حرکیاتی اور وقت کی پابند خاتون ہیں۔ اپنے شاگردوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو سنوارنے اور نکھارنے میں انہیں کمال حاصل ہے۔ ان کے شاگردوں میں جو خاص اہمیت کے حامل ہیں ان کے اسم گرامی کچھ اس طرح ہیں :
۱۔ ریحانہ سلطانہ ۲۔ ڈاکٹر عتیق اقبال
۳۔ ڈاکٹر قطب سرشار ۴۔ ڈاکٹر عسکری صفدر (راقمہ)
۵۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی ۶۔ ڈاکٹر ریاض فاطمہ
۷۔ ڈاکٹر سردار گربچن سنگھ ۸۔ ڈاکٹر فریدہ وقار
۹۔ ڈاکٹر فعت سلطانہ ۱۰۔ ڈاکٹر معین الدین امر
۱۱۔ ڈاکٹر انجم سلطانہ ۱۲۔ ڈاکٹر احمد اللہ بختیاری
۱۳۔ ڈاکٹر عبدالشکور قابل ذکر ہیں۔
پروفیسر اشرف رفیع کی زیر نگرانی میں( ۱۶) طالب علموں نے ایم فل اور چودہ اسکالرز نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
اشرف رفیع ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔ عالم فاضل، دانشور قابل منتظم اور بہترین مقرر ہیں۔ اس کے علاوہ آرٹ اور موسیقی سے بھی انہیں خاصی دلچسپی ہے۔ ستار بجانے میں انہیں کمال حاصل ہے۔ ان کا شمار عصر نو کی اہم اور دانشور شاعرات میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اشرف رفیع نے سب سے پہلے نسائیحسیت جیسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ انہوں نے اپنے عمیق مشاہدے کی بنا پر نظموں میں خواتین کے مسائل کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر اشرف رفیع کے موضوعات تحقیق و تنقید، فن عروض اور لسانیات رہے ہیں۔ عموماً ان کی تصانیف کا محور انہیں موضوعات ارد گرد رہا ہے۔ سادہ سلیس زبان میں وہ اپنے خیالات کو پیش کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ ان کی تصانیف حسب ذیل ہیں:
۱۔ نظم طباطبائی شخصیت اور فن ، ۱۹۷۳ء
۲۔ تخلیص عروض و قوافی ، ۱۹۸۲ء
۳۔ مقالات طباطبائی ، ۱۹۸۴ء
۴۔ دکنی مثنویوں کا انتخاب ، ۱۹۹۰ء
۵۔ تلاش زبان و ادب ، ۱۹۹۹ء
بچوں کے ادب کے لیے تین کتابیں ء’’بھوت‘‘، ’’سوتی کی تلاش‘‘ اور ’’بی اماں‘‘ لکھیں۔ ان موضوعات سے ہٹ کر اشرف رفیع کے دو شعری مجموعے ’’عودِ غزل‘‘ (۱۹۸۳ء)، ’’پھر سے جینا ہوگا‘‘ ، (۲۰۰۴ء ) میں منظر عام پر آئے اور قارئین نے ان کو بے حد پسند کیا۔ یہ کلام اتنا مشہور ہوا کہ آل انڈیا ریڈیو سے کئی بار نشر ہوچکا ہے۔
دکنی ادب کے سلسلے میں اشرف رفیع کی نمایاں خدمات رہیں ہے کیوں کہ ان کی تصانیف ’’دکنی مثنویوں کا انتخاب‘‘ اور ’’تلاش زبان و ادب‘‘ دکنی زبان و ادب کے سلسلے میں ان کی اہم تصانیف میں ’’تلاش زبان و ادب‘‘ میں لسانیات پر چار مضامین :
۱۔ ہندوستان صوتیات
۲۔ اردو زبان کا آغاز
۳۔ مختلف نظریے
۴۔ اردو کا اثر تلگو پر اور دکنی کی لغت شامل ہیں۔
دکنی ادب کے بارے میں اردو غزل، ابتدائی نقوش، دکنی مثنویاں، دکنی قصائد اور دکنی نثر۔ آغاز وارتقاء پر سیر حاصل مقالے سپرد قلم کئے گئے ہیں۔ اس کا ایک اور اہم مقالہ ’’لطف النساء امتیاز اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ‘‘ جو ماہنامہ سب رس اور مجلہ عثمانیہ دکنی ادب نمبر میں شائع ہوچکا ہے۔
ماہنامہ سب رس حیدرآباد میں ڈاکٹر اشرف رفیع کے کئی اہم تحقیقی مضامین شائع ہوئے جن میں :
۱۔ خاورنوری ۔ شخص و شاعر ، نومبر ۱۹۹۲ء
۲۔ محمد قطب شاہ اور اس کے کارنامے ، جون ۱۹۹۶ء
۳۔ مثنوی قطب مشتری کی چند لسانی اور اسلوبی خصوصیات، جون ۲۰۰۲ء
۴۔ شاہ تراب کی غزل، نومبر ۲۰۰۲ء
۵۔ قلی کے کلام کا عروضی مطالعہ، اگست ۲۰۰۴ ء
۶۔ ادب میں تنقید کے نئے رجحانات ، نومبر ۲۰۰۵ء قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ اشرف رفیع نے بے شمار مضامین، تبصرے، انٹرویوز اور پیش لفظ قلم بند کئے ہیں۔
لطف النساء امتیازؔ کو اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ثابت کرنے میں اشرف رفیع کا اہم حصہ رہا
ہے۔ ادبی محفلوں، سمیناروں، مشاعروں میں اصرف رفیع کو صدارت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ بحیثیت صدر بھی وہ سمیناروں کے اجلاس کی صدارت کرتی ہیں۔ وہ کئی علمی و ادبی اداروں سے وابستہ رہیں اور آج بھی ان اداروں کی رہنمائی میں دن رات محنت و مشقت کرتی ہیں۔ مثلاً ادارہ ادبیات اردو ، ابوالکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ،انجمن ترقی اردو حیدرآباد، نظام اردو ٹرسٹ لائبریری، انجمن ترقی ادب اور انجمن محفل خواتین وغیرہ ۔
ڈاکٹر اشرف رفیع کو کئی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ ان کی تصانیف پر تلنگا نہ اردو اکیڈیمی کے علاوہ یو پی اردو اکیڈیمی نے بھی ایوارڈ عطا کیے ہیں۔
ان کی ادبی خدمات پر (امتیاز میر) ایوارڈ سے ۱۹۹۴ء میں نوازا گیا۔ آندھراپردیش ؍تلنگانہ اردواکیڈیمیـ نے ۲۰۰۸ء میں انہیں کارنامہ حیات پر ’’ڈاکٹر محی الدین قادری زور ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید‘‘ عطا کیا۔
پروفیسراشرف رفیع نے دورانِ درس وتدریس جن ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کام کیا ہے ان میں کچھ نام قابل ذکر ہیں:
پروفسیر زینت ساجدہ پروفیسر مغنی تبسم پروفیسر سیدہ جعفر
پروفیسر حبیب ضیاء پروفیسر یوسف سرمست ڈاکٹرافضل الدین اقبال
ڈاکٹر راحت سلطانہ پروفیسرمجید بیدار ڈاکٹر عطا اللہ خان محمد
پروفیسر محمد علی اثر پروفیسر محمد نسیم الدین فریس ڈاکٹر فاطمہ پروین
ڈاکٹر احمد علی شکیل اور پروفیسر میمونہ مسعود وغیرہ ۔
پروفیسر اشرف رفیع تلنگانہ میں قبل از وقت ایک ہمہ جہت شخصیت کے طور پر نمایاں ہے۔ جہاں کہیں بھی بڑی تقریب کاانعقادہوتاہے توپروفیسر اشرف رفیع کا مسکراتا چہرہ دیکھنے کا ملتا ہے۔انہیںکا نفرسوں، سیمناروں، مشاعروں اور بین الاقوامی سیمنار ں میں بھی صدارتِ محفل کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے، اردو ادب کے تئیں انہوں نے دل و جان سے اور بڑی محنت و مشقت کے ساتھ کارنامے انجام دیے ہیں۔ عمر درازی کے باوجود آج بھی ادبی و شعری سرگرمیوں میں حصہ لے کر اپنے فرائض بہ حسن خوبی سے انجام دیتی ہیں۔
مختصر یہ کہ تلنگانہ اردو ادب کے فروغ میں جن خواتین نے اہم رول ادا کیا ہے ان میں پروفیسر رفعیہ سلطانہ ،پروفیسر سیدہ جعفر ،پروفیسر میمونہ مسعود ، قمر جمالی، پروفیسرحبیب ضیاء، نسیمہ تراب الحسن، ڈاکٹر فاطمہ پروین وغیرہ کے علاوہ پروفیسر اشرف رفیع کا نام بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔
***