
اسرار الحق جیلانی
گیسٹ فیکلٹی ڈیپارٹمنٹ آف سوشل ورک، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
تھالی
(افسانہ)
وشنو اپنے ٹوٹے ہوئے گھر کی کچی دیوار پر بیٹھا مو بائل میں آن لائن بھوجپوری فلم دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی داہنے ہاتھ میں نیم کا مسواک پکڑ رکھا تھا، جسے وہ تھوڑے تھوڑے وقفے پر دانتوں پر رگڑ لیتا۔ حالانکہ گاؤں کے شمال جانب پھیلے ہوئے کھیتوں میں کسان اور بہتی گنگا میں کشتی لے کر جاتے ہوئے ملاحوں کے انداز سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ دن کا ایک پہر گزر چکا ہے لیکن وشنو کے لیے صبح بھوجپوری فلم ختم ہونے کے بعد ہی ہو گی۔ ٹوٹی ہوئی دیوار کی دوسری جانب چھوٹا سا آنگن تھا جس کے ایک کونے میں وشنو کی اہلیہ سریتا گیس چولہے پر کھانا بنارہی تھی جبکہ آنگن کا ایک بڑا حصہ اینٹ، پتھر اور بالو سے بھرا ہوا تھا۔ گلی سے گزرتا کوئی بھی شخص اگر سر اٹھا کر دیکھے تو آنگن کا ایک ایک حصہ دکھ جائے حالانکہ جس قدر گلی تنگ تھی اسی قدر آنگن بھی تنگ تھا مگر پھر بھی چھوٹے چھوٹے دو کمروں کی بنیاد تقریباً چار مہینے قبل ڈال دی گئی تھی جسے مکمل ہونے میں شاید وقت لگے۔ وشنو کا چھ لوگوں کا پر یوار پکے گھر کی تکمیلِ خواب کو پالے فی الحال ٹوٹے ہوئے گھر کے ایک حصے کو قابل بسر بنا کر زندگی گزار رہاہے۔ کچھ ایک گھروں کو اگر چھوڑ دیا جائے تو دلتوں کے محلے میں تقریباً ستر فیصد پریوار یا تو مٹی کے گھروں میں رہتے ہوئے پکے گھر کی تعمیر کر رہاہے یا پھر چھوٹے چھوٹے نامکمل پکے گھروں کی کھڑکیوں، دروازوں پہ بورے کا ٹاٹ لگا کر زندگی بسر کر رہاہے ۔
فلم دیکھنے میں محو وشنو کو میری آمد کا احساس تب ہوا جب موبائل میں فور جی نیٹ ورک کمزور ہونے کی وجہ سے ویڈیو بفر ہونے لگا۔ نظر اٹھتے ہی نگاہ مجھ پر پڑی’’ کیسے ہیں ماسٹر صاحب؟‘‘
’’ٹھیک ہوں میں، اپنا سناؤ؟‘‘
’’ہم ہو ٹھیکے ہیں۔ سروے کیسا چل رہا ہے آپ کا؟‘‘
’’ ہاں اسی سلسلے سے تمھارے پاس آیا ہوں، کچھ جانکاری چاہیے تم سے۔‘‘
و شنونے آنگن میں پڑی ہوئی چار پائی کھینچ کر دیوار کے نزدیک بچھا دیا۔ حالانکہ اسے زحمت دینا میرے اصولوں کے خلاف تھا لیکن جس سماج میںاتیتھی دیو بھوا کی تعلیم عام ہو وہاں کسی شخص کی خواہشِ میز بانی کور و کناکسی باوقار تہذیب پر انگلی اٹھانے کے مانند ہے۔ لہٰذا اسے منع کرنے کے بجائے میں نزدیک ہی پڑی پوال کی گٹھری پہ بیٹھ گیا۔
وشنو سے میری ملاقات پانچ دن قبل سروے کے دوران ہوئی تھی، جب اس کے گھر کا سروے کرنے گیا تھا۔
اخلاق اس کاملنسار اور بردبار لیکن ضمیر کسی پہاڑوں ساتھا۔ اس نے پاس کے کئی گھروں میں جا کر میر ا تعارف کرا کر سروے کرنے میں مدد کی تھی۔ دلتوں کا محلہ ہونے کی وجہ سے جہاں میں کچھ دنوں سے قیام پذیر تھا وہاں سے اس جانب کوئی رخ نہیں کرتا تھا۔ حالانکہ مزدوری یا کوئی خاص کام ہو تو موٹر سائیکل لے کرمزدور کو گھر سے لے جانے سے گریز نہیں کرتے تھے لیکن عموماً اس طرف کوئی آنا پسند نہیں کرتا تھا۔ وشنو سے میری گفتگو چل ہی رہی تھی کہ کسی نے تھوڑی دور پر گزرتی راہ عام سے بہ آواز بلند کہا:’’ ارے و شنوا آج خالی ہے رے، مجوری کر دے۔‘‘
’’ کا کام ہو وا ہو؟‘‘
’’باری تموا بے کا ہائی‘‘
’’ٹھیک ہائی آواتار اچالا‘‘
’’ سمے نہیں لگانا جلدی آجا، پتا جی گھرے پر ہیں۔‘‘
مجھے تعجب ہوا کہ جب بات ہی کرنا تھی تو قریب آکر کر لیتا لیکن فوراً احساس ہوا کہ دلتوں کا محلہ ہونے کی وجہ سے شاید اس طرف آنا بہتر نہیں سمجھا ہو گا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ داروغہ سنگھ کا لڑکا ہے، جو گاؤں کے دولت مند لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ہر بات پر گالیاں دیتے ہیں اور وہ خود بھی اعتراف کرتے ہیں کہ گالی تو میرے لیے اسباب وقار ہے،ا گر گالی نہ دوں تو خود کو عزت دار ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ ان سے بات کرنا بہتر نہیں سمجھتے۔ نمستے یا پرنام کر کے آگے نکل لیتے اور اس امر کو وہ باعث عزت سمجھتے ہیں۔ وشنو بھی ان کی اس خصلت سے واقف تھا پھر بھی ان کے یہاں مزدوری سے گریز نہیں کرتا تھا۔ البتہ اگر اسے گنگا میں بالو نکالنے کا کام مل جائے تو داروغہ سنگھ کے یہاں کام کرنے کو ترجیح نہیں دیتا تھا۔ حالانکہ کئی بار سماجی مان مر یاداؤں کے بوجھ کو سمجھتے ہوئے وہ کام کر دیتا تھا۔ سروے کے دوران اس نے ذات پات پر بات کرنے سے پہلے میری برادری پوچھ کر اطمینان کر لیا کہ کہیں میں بھی براہمن یاراجپوت ذاتی سے تعلق تو نہیں رکھتا ہوں۔ اسے میرے مسلم ہونے کا علم بے خوف اور آزادانہ خیال رکھنے سے روک نہیں سکا، مگر شاید و شنو اس بات سے واقف نہیں تھا کہ بھارت یا اس کے قریبی ملکوں کے مسلمانوں میں بھی ذات پات کو لے کر تفرقہ ہے۔ ہاں مگر فرقہ وارانہ تعصب کے ظلم ستم و کی وجہ سے مسلمانوں میں ذات پات عیاں نہیں ہو پاتی۔ وشنو صرف گاؤں میں ذات کی بنیاد پر کیے جانے والے امتیاز کو جانتا ہی نہیں تھا بلکہ خود بھی کئی بار اس ظلم کا شکار ہوا ہے۔
وشنو کو مزدوری کے لیے روانہ ہونا تھا اور مجھے سروے کے لیے، چنانچہ ہم دونوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ وقت پگھل کر دوسرے پہر کو پہنچ چکا تھا۔ بچے ہوئے ایک اور پہر کو سوچ رہا تھا کہ داروغہ سنگھ سے انٹر ویو لینے میں گزار دیا جائے۔ چونکہ صبح مجھے پتہ چل چکا تھا کہ آج وہ گھر پر موجود رہیںگے۔ لہٰذا کچھ دیر بعد میں ان کے دروازے پر بیٹھا ان سے بات کر رہا تھا۔
داروغہ سنگھ کا گھر گاؤں کے کنارے مگر گنگا کے قریب تھا؛ دروازہ، کھیت اور ندی کے رخ، آم کے ایک بڑے سے درخت کے سائے میں تھا۔ دروازے کے سامنے ایک واٹر پلانٹ لگا ہوا تھا جس پر ہندی اور انگریزی دونوں زبانوںمیں لکھا تھا’’ آرسینک یکت پے جل ۔‘‘ اس سائن بورڈ پر جرمن اور بھار تی اداروں کے نام بھی لکھے تھے جن کی مدد سے یہ کمیونٹی واٹر پلانٹ وجود میں آیا۔ حالانکہ دو گھنٹوں کی گفتگو کے دوران کسی ضرور تمند کو اس سے پانی لیتے نہیں دیکھا۔ اس کے علاوہ دو ہنڈ پمپ گھر کے احاطے میں بھی تھے جنھیں سبزی کے کھیت کو پانی پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وشنو اس کھیت میں کدال چلا رہا تھا۔ آم کے درخت کے سائے میں دو بیل بھی بندھے تھے جو کسی تھالی کو چاٹ رہے تھے۔ شاید کوئی جڑی بوٹی کھانے کو دی گئی ہو۔ بیل کو خالی تھالی چاٹتا دیکھ کر داروغہ سنگھ نے وشنو کوآواز دے کر کہا:’’ رے وشنو! دیکھ بیل لگتا ہے دوا کھا لیا ہے۔ تھالی کو دروازے کی کھڑکی سے گھر کے اندر پھینک دے۔‘‘
وشنو اس حکم کی تعمیل کرنے کے بعد پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کچھ دیر بعد جب وشنو کو بھوک نے پریشان کیا تو کدال چھوڑ کر آم کے سائے میں بیٹھے مجھ سے بات کر رہے داروغہ سنگھ سے آکر کہا:’’ مالک کھانا کھا کے آوا تارا۔‘‘
’’کھانا کھانے کا ہے جائے گا، یہیں کھالے۔‘‘
’’ تنی دیر مے ایّے جائب ۔‘‘
’’نہیں تو دیر کر دے گا، کام بہت ہے، یہیں کھالے… ارے سنیل مزدور کو کھانا دے دو۔‘‘داروغہ سنگھ گھر کے نوکر کو آواز دے کر مجھ سے بات کرنے میں مصروف ہو گئے۔
وشنو کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ یہاں کھانے کے لیے راضی نہیں ہے۔ انسان روکھا سوکھا جو بھی کھائے مگر اپنے پر یوار اور بچوں کے ساتھ یا گھر میں وقار اور عزت سے کھائے، لیکن داروغہ سنگھ اس احساس سے ناواقف تھے۔ انھیں ڈر تھا کہ گھر آنے جانے میں وشنو وقت ضائع کرے گا جس سے کام کاحرج لازمی ہے۔ اپنے احساس اور مرضی کے خلاف وشنو دروازے پر رکھی چوکی پر بیٹھ گیا۔ بھلا ہو کچھ انسانوں کا جس نے لمبی لڑائی کے بعد کچھ لوگوں کو اتنا سمجھانے یا سمجھنے پر مجبور کیا کہ ذات کی بنیاد پر کسی انسان پر ظلم کرنا، امتیاز کر نا انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ کچھ سالوں پہلے تک جس سماج کے لوگوں کو زمین پر بیٹھنے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا، اس کے سائے سے بھی غیر دلت ذاتی جسے بڑے شوق سے لوگ اونچی ذاتی بھی کہتے ہیں، نفرت کرتے تھے، آج اسی سماج کا ایک فرد یعنی دلت ایک غیر دلت کے دروازے پر پڑے چوکی پر بیٹھ سکتا ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوا کہ نفرت کرنے والوں کے ذہن کے غبار کو مکمل طور پر ہٹانے میں کامیاب رہے۔
دروازے کے اندر سے پس پر دہ ایک عورت نے ہاتھ میں کھانے کی تھالی لیے سنیل کو آواز لگائی۔ سنیل نے کھانے کی تھالی وشنو کے سامنے رکھ دی۔ کھانے کی تھالی دیکھ کر وشنو کے چہرے پر ایک عجیب کیفیت شور مچارہی تھی۔ وہ کھانے سے پہلے کچھ دیر تک تھالی کو دیکھتار ہا پھر میری طرف دیکھا، اب چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا تھا جیسے کسی نے شرمسار کر دیا ہو۔ مجھے وجہ کا علم اب تک نہیں ہوا حالانکہ قیاس لگانے میں کچھ حد تک کامیاب ہو پایا تھا لیکن یقین آنکھوں دیکھی پر بڑھ جاتی ہے۔ میری سوالیہ نظروں کے جواب میں اس نے اپنی تھالی کو ہلکا اٹھا کر دکھانے کی کوشش کی مگر داروغہ سنگھ کی نظر اس کی سمت مڑنے سے پہلے ہی کھانا شروع کر دیا۔ مجھے پہچاننے میں دیر نہ لگی کہ یہ وہی تھالی تھی جس میں بیلوں کو دوا کھانے کو دی گئی تھی۔
دوسرے روز گاؤں کے چوراہے پر بیٹھا جب میں چائے پی رہا تھا جہاں داروغہ سنگھ بھی تشریف رکھتے تھے، وشنو کی گزر اسی ہوٹل کے قریب سے ہوئی۔ وشنو پر نظر پڑتے ہی داروغہ سنگھ نے آواز دے کرکہا:’’رے و شنو! آج بھی مجدوری کر دے۔‘‘
’’ ہمر ا پھر ست نائیکھے باہو،ککرود یکھ لا‘‘ وشنونے اپنے بے باک انداز میں منع کیا اور بے پر وا آگے بڑھ گیا اور شاید اس نے یہ عہدکیاکہ دوبارہ وہ کبھی داروغہ سنگھ کے یہاں کام نہیں کرے گا۔
داروغہ سنگھ اپنی عادت کے مطابق زبان سے کچھ گندے الفاظ ہوا میں چھوڑنے لگے جن کی بو آس پاس کے لوگوں کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔