ڈاکٹر ثُریّا بیگم محمود خان
اسیسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اُردو
شیواجی کالج ہنگولی
جدید دور میں اُردو ادب کے مشہورکتب خانے
زمین پر جتنی بھی مخلوقات ہیں ۔ان میں انسان کو عقل و دانش اور قوت نطق کی بنا پر افضلیت حاصل ہے۔ تہذیب و تمدن کے آغاز سے ہی انسان نے اپنے ذوق تجسس کی تسکین کی ہے۔ پہلے اشارات اور آوازوں کے ذریعے بعد میں زبانوں کے ذریعے ایک دوسرے کے احساسات اور خیالات کو سمجھنے کے لیے زبان ایک ذریعہ رہی ہے۔ زبانوں کو احاطہ تحریر میں لانے کے لئے مختلف رسم الخط ایجاد ہوئے اور کتب خانے وجود میں آئیں۔کتب خانوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود علم و معلومات انسان نے جب لکھنا سیکھا تو اپنے علم و تجربات کو قلم بند بھی کرتا گیا۔کبھی مٹی کے ٹکڑوں پر کبھی لکڑی کی تختیوں پر کبھی پتھر کی سیلوں اور کبھی پوست اور چمڑوں کی تہوں پر۔ ان تمام تحریروںکوایک جگہ محفوظ بھی طریقے پر جمع بھی کرتا ہے ۔ایسے ذخیرے عام طور پر عبادت گاہوں اور بعض اوقات شاہی محلوں میں ہوا کرتے تھے۔ جب ذخیرہ پڑھا تو اس کے مناسب استعمال کے لیے اس کی آراستگی میں ایک نظم و ضبط لانا ضروری ہوگیا۔ مواد کو ایک ترتیب اور سلیقے سے رکھا جانے لگا یہ کتب خانوں کی ابتدائی شکل تھی۔ دنیا کے بیشتر کتب خانے ذاتی کتب خانوں کے طور پر ظہور میں آئے۔ ایک عرصے تک تعلیم اور حصول علم کو کچھ دانشوروں یا خاص طبقوں کے لیے محدود سمجھا جاتا رہا۔ لیکن اشتراکی تصورات کے پیش نظر یہ محسوس کیا گیا کہ تعلیم پر خاص وعام کا بنیادی اور مساوی حق ہے چنانچہ ابتدائی،ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے اداراے قائم کیے گئے۔
سب سے پہلے تو وہ سرکاری کتب خانے آتے ہیں جن میں قومی اور پبلک کتب خانے دونوں ہی شامل ہیں۔کلکتہ کا کتب خانہ ہندوستان کا قومی کتب خانہ ہے۔ تین ایسے سرکوری کتب خانے ہیں جن پر ہندوستان جتنا بھی ناز کرے کم ہے۔ ان میں اول خدابخش اورئنٹل پبلک لائبریری ہے۔اس کے بعد یو۔پی کی رام پور رضا لائبریری ہے اورتیسرا شاندار ذخیرہ راجستھان کے شہر ٹونک میں ہے اور وہ ہے عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اس کے بعد آتے ہیں تعلیمی اداروں کے کتب خانے۔
ویسے تو ہر کالج اور یونیورسٹی میںکتب خانہ منسوب ہے لیکن ہندوستان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کتب خانے بہت بڑے ہیںعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری کے بارے میں اردو کے استاد اور محقق گوپی چند نارنگ کہتے ہیں۔
علی گڑھ میں تین چار کا لکشن بہت ہی زبردست اہمیت کا ہیں سبحان اللہ کلکشن ،حبیب گنج کلکشن، سید سلیمان ندوی کلکشن اور پروفیسر مسعود حسن رضوع کی بہت سی کتابیں اور محظوطوت ہیں۔ لائبریری کے اس ذخیرے سے نہ صرف علی گڑھ کے طالب علم استفاہ کرتے ہیں بلکہ ملک کے کونے کونے سے بھی لوگ وہاں پہنچتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کے بعد وہ کتب خانے آتے ہیں جو تحقیقی اداروں سے وابستہ ہیں ہندوستان میں غالب اکیڈمی اپنے اپنے کتب خانے قائم کررہی ہیں تحریک آزادی کے موضوع پر علیحدہ تحقیقی کتب خانے کھل رہے ہیں اور ادبیات کے عنوان سے کتنے ہی کتب خانے وجود میں آئے ہیں۔
تحقیقی اداروں کے بعد آرکاٹیوز اور میوزیم آتے ہیں۔ آرکاٹیوز اصولاً دفتر خانے ہوتے ہیں اور سرکاری دستاویزیں محفوظ رکھنے کے ذمے دار ہوتے ہیں لیکن کئی آرکاٹیوز پر انی کتابوں کو بھی اپنے تحفظ میں لے رہے ہیں۔نئی دلی میں ہندوستان کا قومی آرکاٹیوز اب بھی قدیم کتابیں خرید کر محفوظ کررہا ہے۔ اور سب سے بڑا کام حیدر آباد دکن میں آندھراپردیش کے صوبائی آرکاٹیوز نے کیا ہے۔ اس نے کتب خانہ آصفیہ کی تمام قلمی کتابیں اپنی تحویل میں لے کر محفوظ کرلی ہیں ۔
جہاں تک میوزیم کا تعلق ہے دہلی کے قومی عجائب گھروں میں قلمی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔سبھی کتابوں کا ایک عظیم الشان خزانہ حیدرآباد کے سالار جنگ میوزیم میں ہے۔
بھوپال میں سب سے بڑا کتب خانہ مولانا آزاد لائبریری ہے۔ گوالیار میں حضرت محمد رضا غمگین تھے۔ ان کے پاس غالبؔ کے خطوط تھے اور سب سے قلمی نسخے تھے۔ اندورمیں ایک قدیم لائبریری ہے جو ۱۸۵۷ءمیں قائم ہوئی تھی اسکا نام وکٹوریہ لائبریری ہے۔ اسی طرح اُجین میں بھی ایک کتب خانہ ہے جو پنڈت پر بھولال اشعرؔ نے قائم کیا ہے وہاں بہت سی قلمی کتابیں رکھی ہیں۔
مدھیہ پردیش میں ایک کتب خانہ سیتا مٹو میں ہے مغل دورکے روز نامچوں اور اخباروں کا ایسا ذخیرہ ہے جس کی نظرنہیں ملتی ۔تحقیق اور مطالعہ کرنے والوں کے رہنے سہنے کا سہارا بندوست بھی کتب خانے میں ہی ہے ہندوستان کا کوئی بڑا مورخ ایسا نہیں ہے جس نے سیتا مٹو کے اس ذخیرے سے فیض حاصل نہ کیا ہو بھوپال یں گوبند پر شاد آفتاب ؔکی رہائش گاہ میں ان کا ذاتی کتب خانہ موجود ہے۔ انہوں نے خو بھی بہت سی کتابیں اردو میں لکھی تھیں جن میں ڈرامااور ناول سے لیکر معدنیات کے علم تک ہر موضوع شامل ہے۔ بھوپال کے محلہ ہوا محل میں ایک نابینا حکیم مشفق محمد خاں صاحب کی تاریخ کا وہ نسخہ موجود ہے جو خود ریاست بھوپال کے بانی نواب دوست محمد خان نے لکھا تھا۔بھوپال میں قلمی نسخوں اور پرانی کتابوںکے دو بڑے ذخیرے دینی مدرسوں میں ہیں۔ان میںسے ایک جامع اسلامیہ عربیہ ہے اور دوسرا دارالعلوم تاج المساجدہے۔تاج المساجد جو بر صغیر کی بڑی مسجدوں میں شمار ہوتی ہے۔دوکتب خانے ہیں جن میں سے ایک طالب علموں کے لیے مخصوص ہے اور دوسرا عام پڑھنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے۔سیفیہ کالج اور حمیدیہ کالج کے کتب خانوں میں اردو کی بعض بہت نادر کتابیں موجود ہیں۔
رام پور کی رضا لائبریری ہندوستان کی نہ صرف قدیم ترین لائبریری ہے بلکہ اپنے ذخیرے کے اعتبار سے زیادہ اہم لائبریری ہے یہاں شاہد نمایاں قسم کی کتابیں ملیں گی۔ مثلاً اردو کے قدیم شعر اء ، اہم تذکرے بشتر شعراء کے دیوان موجود ہیں میرتقی میں کے بعض نسخے ایسے ہیں کہ ان پر کوئی شخص کام کرنا چاہے تو بہت فائدہ مند ہے۔ مغل مصوری کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے اکبر کے زمانے کی مصوری پر کام تو اس کتب خانے جانا لازم ہے۔
ایک اہم نسخہ قرآن مجیدکا ہے جو ہزار برس سے بھی پرانا ہے ۔عربی خط کی تاریخ پو کوئی شخص کام کرنا چاہے تو اس کے لیے یہ نہایت اہم نسخہ ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کا ایک اور مخطوطہ ہے جو چمڑے پر لکھا گیا ہے۔ وہ پہلی صدی ہجری کا ہے۔ اور اس کے بارے میں قبور ہے کہ وہ حضرت علی کرم اللہ کے دست مبارک کا نقل کیا ہوا ہے۔ رام پور کے اس کتب خانے میں ایک اور قابل ذکر کتاب تاریخ محمدی ہے۔ یہ کتاب اورنگ زیب کے دور میں مرزا محمد حارث بد خشی نے مرتب کی تھی۔ اس کی ترتیب کی صورت یہ ہے کہ سن ایک ہجری سے سن گیارہ سو اکسٹھ ہجری تک سال بہ سال جو مشہور اور نامور لوگ انتقال کرتے رہے اس سال کے خانے میں ان کی زندگی کے حالات درج ہے۔ اسی طرح ایک کتاب جو قدیم ترین تفسیروں میں شمار ہوتی تھی وہ ہے امام سفیان ثوری علیہ الرحمتہ کی تفسیر اور فقہا کے شاضیعہ کا ایک تذکرہ جس کی دنیا میں ایک ہی کاپی ہے۔
رام پور رضا لائبریری سے یوں تو بے شمار ادبیوں ،شاعروں مورقص اور محققوں نے فائدہ اٹھایا ہے لیکن ان میں دو نام بہت ممتاز ہیں ایک تو مولانا شبلی نعمانی صاحب دوسرے علامہ نجم الغنی خاں رام پوری جنھوں نے تاریخ میں اپنی زیادہ تر تحقیق یہیں کی ہے۔ ان کے علاوہ مولانا عبدالماجد دریا بادی اور سید سلیمان ندوی جسے بزرگ کے نام شامل ہیں۔
پٹنہ کی خدا بخش لائبریری (اورئنل پبلک لائبریری )بھی بے مثال ہے یہ بنیادی طور پر مخطوطات کی لائبریری ہے۔ خصوصاً عربی اور فارسی کا یہاںبے مثال ذخیرہ ہے ۔اسی کتب خانے میں اردو فارسی اور عربی کے پندرہ ہزار قلمی نسخے ہیں۔لائبریری کی دوسری بڑی خصوصیت مغل عہد کی پنکنرpaitis میں خصوصاً فارسی کی وہ قلمی کتابیں ہیں جن میں مصوروں نے اپنے شاہکار بنائے ہیں۔
پٹنہ کے اس کتب خانے کی ایک اور خصوصیت اردو کے پرانے رسالے اور جریدے ہیں ۔ان کا جتنا بڑا ذخیرہ یہاں ہے۔ دوسری جگہ شاہد ہی ملے۔ گزرے وقتوں کے تقریباًایک ہزار مختلف اردورسالوں کے کئی لاکھ شمارے محفوظ ہیں۔ معبد،مغلوں کے آخری عہد کا بہت بڑا دانشور تھا وہ شاعر بھی تھا اور صاحب دیوان تھا۔ اسکے دیوان کا صرف ایک نسخہ تھا جو خدابخش لائبریری میں موجود ہے۔
قاضی عبدالعودود نے اپنی چھ ساتھ ہزار تحقیقی کتابیں اس لائبریری کو دے دیں ۔پٹنہ سے تین میل دور ایک گاؤں دسنہ ہے جہاں کے علامہ سلیمان ندوی صاحب وہاں ایک بڑا عظیم کتب خانہ تھا’’الاصلاح لائبریری‘‘اس میں بہت سے قلمی نسخے تھے۔وہ کتب خانہ خدابخش لائبریری منتقل کردیا۔
راجستھان کا ٹونک کا کتب خانہ عربک اینڈپرشین ریسرچ سینٹربہت اچھا ہے۔ اس میں تیس علوم پر تقریباًپندرہ ہزار قلمی کتابیں موجود ہیں۔جو چھ ہزار جلدوں میں بندھی ہوئی ہیں،ان علوم میں تغیر ،حدیث ، فقہ،سیرت،فلسفہ ،ادبیات ،فلکیات نجوم، طب،ریاضی،تاریخ اور تنقید کے دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔
یہاں تیس ورق کا ایک قرآن مجید قابل ذکر ہے۔اس میں ہر ورق پر ایک پارہ باریک قلم سے ہند نے اس خوبی سے لکھا گیا ہے کہ اس کے روشن حروف دور سے بھی صاف نظر آتے ہیں۔یہ قرآن مجید شاہجاں کے زمانے میں عبدالباقی نے لکھ کر بادشاہ کو پیش کیا تھا۔قرآن مجید کا ایک اور نسخہ اورنگ زیب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ جو ادھورا رہ گیا۔ تفسیر کی کتاب زادالمیر قابل ذکر ہے۔ یہ کتاب خلفاء عباسییہ کے کتب خانے کی ہے۔ اسی طرح تفسیر جلالین کا ایک نسخہ ہے جس پر مولاناجامیؒ کی اپنی تحریریں جگہ جگہ موجود ہیں پھر زیب التفسیر ہے جو اورنگ زیب کی بیٹی کے لئے کشمیر میں لکھی گئی تھی۔اسکے علاوہ فیضی کی تفسیر ’’سواطع الالہام‘‘ہے۔اس پوری تفسیر اور اس کے مقدمے کو ئی بھی نقطے والا حرف استعمال نہیں کیا گیا ہے۔شاہ دلی اللہ کی تفسیر الفوز الکبیر بھی ہے تصوف پر ایک قابل ذکر کتاب مولانا جامیؒ کی نقد النصوص ہے۔
یہاں کا ایک اور مخطوطہ تاریخ میں سنہری حرفوں میں لکھے جانے کے لائق ہے یہ دنیا کا واحد منفرد نسخہ ہے جو نسب الانساب تاریخ راجستھان کے نام سے ہے۔ دوسرا قلعہ اتنی ممبود کا ایک ایسا مخطوطہ ہے۔جو دنیا میں کہیں نہیں ملے گا اسی طرح زیب التواریخ کا نسخہ ہے جسے خظورالحسن برکاتی نے ایڈٹ کرایا اس کا ایک نسخہ برٹش میوزیم میں بھی ہے۔اسکے علاوہ یہ کتاب کہیں نہیں ہے۔اسی طرح طبقات شاہجانی ہے اس کے صرف چھ نسخے ہیں جو ایک ٹونگ کے کتب خانے میں ہے ۔
اس طرح ’’احراز السیاستہ ‘‘کا ایک نسخہ ہے ۔یہ ایران کی تاریخ ،ثقافت اور علم و ادب پر ایک نادر مخطوطہ ہے جو خود ایران کے کسی کتب خانے میں موجود ہیں ٹونک کے کتب خانے میں ایک بحد خزانہ محفوظ ہے۔ ہند ریاست ٹونک کی سرکارکے بیس ہزار کا غذات ،دستاویزیں،فائلیں اور بستے اور ٹونک کی شرعی عدالتوں کے تیس ہزار فیصلے اور مقدموں کی دوسری دستویزیں مخفوظ کرلی گئی ہیں۔ریاست ٹونک کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہاں تمام مقدموں نے فیصلے شرع کے مطابق ہواکرتے تھے شرعی عدالت کے فیصلوں کاریکاڑ ایک بہت بڑا اسلامی ثقافتی ورثہ ہے۔ فن خطاطی کے جیسے نمونے اور شاہکار ٹونک میں محفوض ہیںشاید ہی کہیں ہوں۔یہاں خط نسخ،اور خط تعلیق بھی ہے۔ پھر ان سے مل کربنے والا خط نستعلیق ہے۔ خطِ،شفیعہ اور خطِ شکتب ہے۔ خطِ گلزار ،خطِ ماہی ،خط طاؤس ،خط ہلال،خطِ گوبر، خطِ خشت ،خطِ غبار، خطِ لرزہ، خط ِزلفِ عروس ، خطِ حشر، خطِ طفرہ،خطِ ناخن ،خطِ معکوس، خط ِتوام،خطِ گنج وپیوندکی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
لکھنؤ کے کتب خانوں پر نگاہ ڈالیں تو سب سے پہلے امیرالدولہ پبلک لائبریری کا نام آتاہے۔ جہاں اردوفا رسی اور عربی کتابوں کا بہت اچھا ذخیرہ ہے۔اسکے علاوہ لکھنؤ یونیورسٹی کا کتب خانہ ہے جو ٹیگور لائبریری کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں چھی سو کی اور ہاسب سے لکھی ہوئی اردو کا اچھا ذخیرہ ہے ایک اور اچھا مخزن کتابوں کا اور دستاویزوں کا لکھنؤ کے اسٹیٹ میوزیم میں ہے لکھنؤ کا جو کتب خانہ خصوصیت سے قابل ذکر ہے وہ ندوۃ العماء کا کتب خانہ ہے جس میں اردو فارسی اور عربی کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ دینی مدرسوں نے شہر لکھنؤ کو بہت سے کتب خانہ دئے مثلاً کتب خانہ ناصر پر اس طرح مدرستہ ابواعظیم سلطان المدارس ، مدرسہ ناظیمہ ،مدرسہ فرقانیہ ان سب کے ایسے ایسے کتب خانے ہیں جو اگر چہ جتنی کتابوں کے لئے محفوص ہیں لیکن ان میں اردو اور فارسی کی اور بھی اچھی ہیں۔کلکۃ کی لائبریری ہندوستان کی قومی لائبریری ہے۔ اور ملک میں چھپنے والی ہر کتاب کی ایک جلد وہاںبھیجنا لازمی ہے۔
حیدرآباد میں بیسوں کتب خانے ہیں سب سے بڑا کتب خانہ آٖصفیہ ہے۔ اسے نواب عماد الملک اور چراغ علما نے ملکر غالباً تیرہ سو ہجری میں قائم کے۔ جو کتب خانہ آصفیہ کہلاتا ہے۔ کتب خانہ آصفیہ میں سولہ ہزار سے زیادہ قلمی نسخے ہیں جن میں قطب شاہی عادل شاہی اور آصف جاہی دور کے ادبیوں اور شاروں کی تصانیف ہیں۔غالبؔ اور میرؔ کی تحریریں بھی ہیں اور اردو ،عربی،فارسی کا کوئی موضوع ایسانہ تھا جس کی کتابیں کتب خانے آصفیہ میں نہ ہوں۔اردو عربی فارسی کی بہت پرانی اور نایاب کتابیں موجود ہیں بعض تو سو سال پرانی ہیں۔آصف جاہی دور کی یہ یاد گار اب آندھراپردیش کی اسٹیٹ سینٹرل لائبریری کہلاتی ہے۔
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں بڑی روشن ،کشادہ ،جیتی جاگتی لائبریری ہے جہاں اردو فارسی اور عربی کی کتابوں کا بہت اچھا ذخیرہ ہے۔ دائرہ المعارف حیدرآباد کا وہ شاندار اداراہ ہے جو بہت عرصے سے عربی علوم پر نہ صرف تحقیق کررہا ہے بلکہ اپنی تحقیق کی بناء پر نئی نئی کتابیں شائع کرتا ہے۔ کتب خانہ سالارجنگ (سالار جنگ میوزیم میں ہے )حیدرآباد میں ہاتھ سے لکھی ہوئی اردو ،عربی اور فارسی کی کتابیں ہیں۔ یہاں قرآن مجید کے چارسو نسخے ہیں جو دھویں صدی کے خطِ گلزار میں لکھے ہوئے ہیں۔ کتب خانہ سالار جنگ کے ذخیرے کی ایک اور دولت اس کے مصوا نسخے ہیں۔جن میں گزرے وقتوں کی مصوری کے شاہکار ہیں۔ اسی طرح محمد قلی قطب شاہ کا دیوان ہے جس کا دنیا میں صرف ایک نسخہ ہے۔ یہ دیوان سولہویں صدی کے آخر میں قلی قطب شاہ کے دور میں لکھ گیا تھا۔ پھر خمہ نظامی ہے جو جہانگر کے دور میں لکھی گئی تھی اس میں پانچ مثنویاں ہیں ۔اسکے علاوہ ایک ارو تاریخی کتاب عشیرہ السلام ہے۔
حیدر آباد میں نایاب کتابوں کا ایک اور کتب خانہ ہے یہ کتب خانہ سعیدیہ ہے۔ جو مدراس کے ایک عظیم علمی گھرانے کا ایک فرزند مفتی مولوی محمد سعید خاں کی یاد گار تھا۔ کتب خانہ سعیدیہ میں چار ہزار سے زیادہ نایاب قلمی کتابیں ہیں اسلامی تاریخ اور دکنی تمدن پر بڑا ڈخیرہ ہے۔ ٹیپو سلطان اور للاڈ گلائیو کے ذاتی خط اور کئی شاہی فرمان محفوظ ہیں۔
حیدرآباد میں کتابوں کا ایک ذخیرہ جو اردو خصوصاً دکنی ادب کی تاریخ میں جگہ پائے گا وہ ہے ادارئہ ادبیات اردو کا کتب خان- برصغیر میں جب اردو اردو کی نئی نئی طباعت شروع ہوئی اس وقت کی کتابیں ادارائہ ادبیات اردو میں موجود ہیں۔مخطوطات میں حضرت خواجہ بندہ نواز کا چکہ نامہ اور شیخ اشرف کی نوسرہاریہاں موجود ہے۔ پرانے اخباروں کے فائل ہیں۔اردو فارسی اور عربی مخطوطے اور اردو فارسی قدیم تذکرے اور دکنی ادبیات کے تمام پرانے دواویں،کلیات اور نثر کی داستانیں جمع ہیں۔
ہندوستان کی سب سے بڑی لائبریری ہے جو پہلے امیریل لائبریری تھی اور آزادی کے بعد نیشنل لائبریری ہوگئی۔اس لائبریری میں بہت سے … Sectinsجن میں خاص کر لوہار سیکشن قابل ذکر ہے۔ یہاں وہ کتابیں ہیں جو نواب بوہار نے بطور عطیہ دی تھیں۔ان میںعربی،فارسی اور اردو کے بہت سے مخطوطے ہیں۔اسکے علاوہ ایک اور قابل ذکر سیکشن امام باڑہ ہگلی ہے۔یہ کتابیں پہلے امام باڑہ ہنگلی میں تھیں۔مولانا ابوالکلام آزاد کے زمانے ہیں یہ کتابیں یہاں نیشل لائبریری میں منتقل کرکے محفوظ کی گئیں۔
اس کے علاوہ کلکتے کے باہر انز پاڑا پبلک لائبریری ہے کہا جاتا ہے کہ وہ برصغیر کی سب سے قدیم رہاشی لائبریری ہے اس کا انتظام حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ وہاں بھی اردو عربی اور فارسی کے مخطوطات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ اسکے علاوہ نہار گھرانے کا کتب خانہ بہت بڑا ہے اس میں بھی چند قدیم فارسی اور اردو مخطوطے موجود ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری بہت بڑی ہے۔ وہاں تین چار کلکشن بہت ہی زبردست اہمیت رکھتا ہے۔ سبحان اللہ کلکشن،حبب کلکشن،سید سلیمان ندوی کلکشن اور مسعود حسن رضوی کلکشن، رئیس اعظم گورکھپور،مولوی سبحان اللہ خاں کے کلشن میں خطِ گوئی میں قرآن مجید کے وہ چند اوراق جن کے بارے میں کافی وثوق سے کیا جاتا ہے۔ کہ وہ حضرت علی کے قلم کی تحریر ہیں۔
بنارس یونیورسٹی کے کتب خانے میں اردو اور فارسی کا ذخیرہ بھی خاصا اہم ہے خمخانہ جاوید کے مصنف لالہ سری رام کا کتب بنارس یونیورسٹی لائبریری کو دیا گیا تھا۔نواب صاحب بہاولپور کے ذاتی کتب خانے میں اردو کی ہر کتاب کا ایک نسخہ ہے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ خطوط کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے جن میں علاقے اقبال اور قائداعظم کے وہ خط بھی شامل ہیں جو انہوں نے نواب صاحب کو لکھے تھے۔
ایک بڑا نایاب کتابوں کا ذخیرہ پٹیالہ میں مہاراجہ پٹیالہ کتب خانہ ہے علوم شرقیہ کے محقق وہاں اکثر جانے جاں،آبروؔ اور ناجی ؔ کا نسخہ اسی ذخیرے سے ملا ہے جیسے بعد میں شائع کیا گیا۔
مدراس میں کتب خانہ محمدیہ بڑا قدیم کتب خانہ ہے۔ یہ عادل شاہوں کے دور کا ہے ۔اس کتب خانے میں اسلامیات اور تاریخ پر عربی اور فارسی کا اور فارسی کا نہایت ناددر ذخیرہ ہے اسکے علاوہ سیاسی خطوط ٹیپو اور اس سے پہلے عادل شاہوں کے اور احمد نگر کے نام شہنشاہوں کے اتنے زیادہ ہیں کہ ان جیسا ذخیرہ کہیں پر نہیں ملتا۔
اعظم گڑھ تحقیق اور تدریس کا مرکز ہے وہاں دارالمصنفین جیسا ادارہ ہے اور معارف جیسا جریدہ شائع ہوتا ہے۔ علوم اسلامیہ کے جید عالم اعظم گڑھ سے وابستہ ہورہے ہیں اور اسی مناسبت سے وہاں نہایت عظیم الشان کتب خانے قائم ہیں۔ اعظم گڑھ مبارک نور میں بھی ایک حیرت انگیز کتب خانہ موجود ہے ۔جو مورخ اسلام مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کا ذاتی کتب خانہ ہے۔ کیونکہ ان کا خاص موضوع تحقیق عرب و ہند کے تعلقات اور اسلامی ہند کی عظمت رفتہ ہے اس لئے اس موضوع پر نادر اور بنیادی ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتابوں کی تعداد زیادہ ہے۔کتب خانہ قاضی میں تاریخ ،حدیث ،فقہ۔تفسیر سیرت،سوانح،فلسفہ پر تین ہزار عربی فارسی اور اردو کتابیں ہیں۔
راتجور کرناٹک میں حضرت علاقہ مولانا سید چندر حسینی علیہ المتتہ نے ایک عظیم کتب خانہ قائم کیا جس میں استبنول ،قاہرہ اور ہندوپاک کی مطبوعہ عربی اور فارسی کتابوں کے علاوہ مخطوطات کا کافی ذخیرہ موجود ہے۔سورت گجرات کے جامعہ سیفیہ میں ایک بڑا کتب خانہ ہے جس میں اردو اور عربی کے بہت پرانے نسخے ہیں۔
بمبئی آج بھی اور پچھلی صدی سے علوم شرفیہ کا بہت بڑا مرکز رہا ہے میں انجمن حمایت اسلام کے اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کتب خانہ ہے۔ اس میں اردو کی بہت سی نادر کتابیں ہیں۔ بمبئی کی جامع مسجد میں عربی،فارسی اور اردو کی آٹھ دس ہزار کتابوں کا ایک شاندار ذخیرہ ہے۔ اس کتب خانے میں مخطوطات کے علاوہ چھپی ہوئی کتابوں ،اخباروں اور رسالوں کا بڑا ذخیرہ ہے یہاں تفسیر ،حدیث ،سیرت،تصوف کے علاوہ ادبیات پر بہت نایاب کتابیں ہیں۔
بہر حال جہاں جہاں کتابیں ہیں ان کی فہرستیں نہیں چائیں۔اور یہ کام بہت سنجیدگی ،باقدگی سے اور ضابطے کے ساتھ ہونا چاہے ۔مخطوطات کی وضاحتی فہرستیں چھاپی جائیںجو آجکل اور Digite librzکے ذریعہ مکمل ہے ۔Docuutan Sewiceکی مدد سے معلوم ہوجاتا ہے اردو کی کونسی کتابیں کہاں ہیں۔
***