زیبا گلزار
ریسرچ اسکالر(جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ)
سی۔ٹی۔آئی فکلٹی شعبہ اردو، گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج سمبڑیال
انور سجاد کی علامتوں میں عصری رویے
علامت علوم وفنون کی ایک اصطلاح ہے۔بنیادی طور پر ”علامت“عربی زبان کا لفظ اپنے آپ میں وسیع معانی لیے ہوئے ہے۔لغوی اعتبار سے ہم اس کے معنی” نشان،پتا،سراغ،کھوج،اشارہ،کنایہ،چھاپ،مہر“لے سکتے ہیں۔انگریزی میں اس کے لیے
”کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔Symbol”
جس کے لیےاب اردو میں علامت کی اصطلاح قبول کرلی ہے۔یونانی لفظ(Symbol)”لفظ
کا مرکب ہے(Bolon) اور (sym) سےنکلا ہے۔اور خود یہ لفظ دو لفظوں(Symbolon)
پہلے لفظ کا مفہوم”ساتھ“ہے اور دوسرے کا ”پھینکا ہوا“چنانچہ پورے لفظ کا مطلب ہوا جسے
پھینکا گیا۔“(۱)
اس کا تعلق در حقیقت زندگی ہی سے ہے۔ ہمارے اردگرد کے واقعات کو ادب میں پیش کرنے کے مختلف طریقے ہیں،ان میں ایک علامت بھی شامل ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی لفظ جو اپنے اصل معنوں کی بجائے دوسرے یا مجازی معنوں میں مستعمل ہوعلامت ہے۔بقول پروفیسر انور جمال:
”لغات میں ہر لفظ کے ایک مخصوص معانی ہوتے ہیں یعنی ہر لفظ کسی خاص معنی کے لیےوضع ہوا
ہے۔اگر ہم لفظ کو اس کے مخصوص معنی کی بجائے اس سے کوئی دوسرے معانی مراد لیں تو وہ ”علا
مت“ہوجائے گی۔گویا لفظ دو صورتوں میں استعمال ہوسکتا ہے،ایک حقیقی معانی کے ساتھ اور دوسرا
غیر حقیقی (مجازی)معنوں کے ساتھ۔لفظ کا مجازی استعمال علامت ہے۔“(۲)
علامتی تحریک دراصل انیسویں صدی کے وسط میں فرانس سے شروع ہوئی ۔ اردو میں علامت کی روایت خاصی قدیم ہے جو مذہبی قصوں ، ا سا طیری کہانیوں،داستانوں اور دیومالائی کتب سے ادب میں داخل ہوئی۔ جدید اردو ادب میں علامتوں کا نیا نظام دیکھنے کو ملتا ہے،علامتی تحریک نے ہر صنف کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ افسانے پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ پاکستان میں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں علامتی افسا نے کو کافی فروغ ملایہ دور دراصل مارشل لاء کے نفاذ کا تھا ملک میں جمہوریت کشی اور آمریت کے ساتھ ساتھ زبان وبیان اور اظہار وابلاغ پر پابندی کے سبب بیشتر ادیبوں کے ہاں علامتی پیرایۂ اظہار ملتا ہے۔یوں اردو افسانے نے زندگی کو وسیع تناظر میں دیکھنے اور نئے اسلوب سے پیش کرنے کی بنا ڈالی۔ان دہائیوں میں جو افسانہ نگاراس طرف متوجہ ہوئے ان میں انتظارحسین،انور سجاد،خالد ہ حسین،منشا یاد،رشید امجدوغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
ساٹھ کی دہائی میں علامتی اور نئے افسانے کی تحریک کے بانیوں میں ڈاکٹر انور سجادکا نام اہم ہے۔ان کی بیشتر علامتیں ان کے عصری شعور یا رویوں کی ترجمان ہیں۔ ۔۱۹۸۹ء میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیااور بھی کئی انعامات اپنے نام کرچکے ہیں۔”پہلی کہانیاں “،” چو ر اہا“،”استعارے“،”آج“،”رگِ سنگ“،جنم روپ“،خوشیوں کا باغ“مشہور کتب ہیں۔ انور کے افسانے علامتوں کی بنا پر ہی قائم ہیں اور علامتیں بھی ایسی ہیں کہ جن کاسمجھنا آسان نہیں۔ان کے اکثر معیاری افسانے ایک عجیب قسم کی سریت رکھتے ہیں جن کی تہہ یا بُنت میں اترنا آسان نہیں۔لیکن غور کرنے والے پر یہ معنی کھل ہی جاتے ہیں۔اس مضمون میں انور سجاد کے علامتی افسانوں کا عصری تناظر یا حسیت میں جائزہ لے کر ان کی علامتوں میں موجود عصری و سماجی شعور اور رویے کو اجاگر کیا جائے گا۔۔۔
اس تناظر میں افسانہ ”بچھو نمانقش“ ہی میں کئی معنوی پرتیں کھلتی ہیں۔آخر بچھو کس چیز کی علامت ہے؟اگر یہ تہذیب کی علامت ہے تو کون سی تہذیب کی اور کس تہذیب نے کسے ڈنک مارنے کی کوشش کی ہے؟اوراس کا مطلب ومقصد واضح ہے کہ تہذیبیں مسلسل برسرِپیکار ہیں۔انور کی تحریرکی خاصیت یہ ہے کہ انہوں نے براہِ راست ابلاغی افسانے نہیں لکھے بلکہ ان کی کہانیوں کی تکنیک ایسی ہے جسے سمجھنے کے لیے قاری کو کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ان کے افسانوں کا موضوع وہ انسان ہےجس نے جنگوں،تشدد،بربریت،مفلسی،غربت اور ظلم وستم کے سائے میں آنکھ کھولی،اور اس کے لیےسب سے بڑاسوال یہ ہے کہ خودانسان کیا ہے؟اس انسان کی بقا کس طرح ممکن ہے؟ان ساری چیزوں سے خوف وانتشار پیدا ہوتا ہے۔یہی سب رویےانور سجاد کے ہاں موجود ہیں ۔انہوں نےروایتی افسانے کے اسلوب کو توڑ کر ماضی کاسہارا لیے بغیرعہدِجدید کی حقیقتوں کے جبرکو ڈراؤنی حقیقتوں کی صورت میں متعارف کرایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انور سجادحقیقتوں کو دیکھنے اور فنی سطح پر ان کا اظہار کرنے میں روایتی بغاوت کی مثال پیش کرتے ہیں۔ الفاظ کے استعمال میں بہت محتاط رویہ رکھتے ہیں لیکن پیکر تراشی ان کی خا صیت ہے ۔
”پہلی کہانیاں“کا آخری افسانہ’سیاہ جھنڈا’انور کے سماجی و عصری شعور کی نمائندگی کرتا ہے۔جس میں قبر پرستی اور پیری مریدی کے ڈھونگ کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔یہ ایسی آواز ہے جو خوفِ خلق اور انتشار کے اندیشے سے اکثر لوگ نہیں اُٹھا پاتے۔ انورسجاد کے علامتی افسا نے اپنے اندر کئی نکات لیے ہوئے ہیں جنہیں بغیر ذہنی مشقت کے سمجھنا مشکل ہے۔شمس الرحمان نےانہیں ”جدید افسانے کا معمارِاعظم “کہاہے۔فاروقی صاحب لکھتے ہیں:
”انورسجاد کے افسانوں میں دستاویز،تمثیل یامحض نشان بننے والا یااس طور پر استعمال کیاجانے
والاانسان(کردار)نہیں ملتا۔ان کے افسانے سماجی تاریخ نہیں بنتے بلکہ اس سے عظیم تر حقیقت
اس لیےبنتے ہیں کہ ان کے یہاں انسان یعنی کردار علامت بن جاتا ہے۔“(۳)
انور کا مشاہدہ تیزاور افسانے غیر معمولی معنویت کے حامل ہوتے ہیں جس کی بہترین مثال افسانہ ”بچھو،غارنقش“میں ملتی ہے۔ افسانہ ظاہر ی طورپر توبچھوؤں کی حیاتیات اور جبلّت کی داستاں ہے،لیکن دراصل انسانی پس منظر لیے ہوئے ہے۔بچھوؤں کےجنسی احتلا ط کی کہانی جہاں تخلیق کے پورے عمل کی نمائندگی کرتی ہےوہیں، اس سے انسانی زندگی کے مختلف حقائق کی پہچان بھی ہوتی ہے۔انور سجاد نے بچھوؤں کی حیوانی سطح پرایک گہرے تجربے کو دیکھا اور پرکھا ہے جس سے یہ محض ان کی کہانی نہیں رہی بلکہ معاشرتی علامتی کہانی کا روپ اختیار کرجاتی ہے ۔ جس میں ایک اشارہ معاشرتی و طبقاتی کشمکش کی طرف بھی ہے۔افسا نے کا منظر اور تاریکی تمام غربت،افلاس اور جبر کی علامت کےطور پر سامنے آتے ہیں۔یہاں مادہ بچھو حرص کی دلدل میں پھنس چکا ہے اور واپسی کا کوئی راستہ نہیں ۔ اسی طرح یہ عصرِ حاضر میں ایک مصنوعی وعارضی چکاچوند نظام میں تخلیق کار کی موت کی طرف بھی اشارہ ہے۔
”دوب،ہوااور لنجا“میں موضوع جنس ملتا ہے۔ خود کلامی کے گرد گھومتی اس کہانی میں ایک معلم کا کردار ہے جو اپنے ماحول کے کرب سے صورتیں بدلتا رہتا ہے۔”معلم، ڈھولچی، لنجا“ایک ہی شخص کی مختلف صورتیں ہیں۔وہ جو اپنے حالات و ماحول سے مطمئن نہیں۔۔۔ ایک معلم کا کردار اپنے وجود کی شکست خوردگی اور ذات کا کرب لنجا بن کرسامنے آتاہے، ڈولچی جو معلم ہی کا ایک رخ ہے۔ڈھولچی کی آواز (ڈم ، ڈم) میں بھوک کی آواز بھی شامل ہے جو فن سے حاصل ہونےوالی تسکین کی دشمن ہے۔اس طرح یہ معلم کے شعور کی علامت بن جاتی ہے کہ اسی میں فرد کی بقا ءمضمرہے۔مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ فرد خوداپنے آپ،وجود،آہنگ اور ہنر کی پہچان کرےورنہ ڈھول کے شور پر صرف بھو ک کا قبضہ ہوجائے گا۔افسانےکے سارے واقعات ایک علامتی اکائی کی تشکیل کرتے ہیں اور ذات کے کرب اور انتشار،ماحول کے غیر فطری عوامل،جنس کی پامالی ،فطرت سے ہم آہنگ ہونے کی نفی،محرومی،بھوک،گھٹن،علم کی خشکی،سعئ لاحاصل،گناہ۔۔۔۔۔۔۔۔غرض موجودہ معاشرےکی تمام تر پیچیدگیاں اور انتشار لیے ہوئے ہیں۔
”پتھر،لہو،کتا“علامتی برتاؤ کی ایک عمدہ مثال ہےنقاب پوش اور کتے کی صورت میں ،لوئی والا جو اصل کردار بنایا گیا ہے وہ کسی چیز کی تلاش
کے سبب سفر میں ہے اور اس کے جسم پرکانٹے اور آبلے زندگی کی سختیوں کے غماز ہیں۔کردار پتھر کو پانا چاہتا ہے جو کہ ”سیاہ پتھر“ہےاور کھنڈر میں موجود یہ پتھرزندگی یا وجود کے پھیلاؤ کی علامت ہے۔افسانے کا کردار مکمل شخصیت کا مالک ہےمگر ماحول،حالات اور تہذ یب و معاشرے کے زیرِ اثر اسے اصل ذات اور سوچ کو کھو دینے کا غم ستا رہا ہے۔کھنڈر میں جس پتھر کی اسے تلاش تھی وہ لے کرہتھیاروں سےلیس ایک نقاب پوش کودیکھتا ہے۔پھر ان دونوں میں تصادم ہوتا ہےاور وہ مرجاتے ہیں،نقاب پوش دراصل اسی شخص کے خوف کا پیکر ہے جو خوف اور اور یجنیلٹی کا قائل ہے۔لوئی والےکی ایک اور صورت کتے کے پیکرمیں ظاہر ہوتی ہے۔یہ کتا نفس ِانسانی بھی ہے جو تباہ کاری سے لطف اندوز ہوتا ہے اور انسان کے گناہ گار ضمیر کی علامت بھی جو اس سیاہ پتھر کامحافظ ہے جسے ظالم ومظلوم دونوں قربان گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ افسانہ پتھر کے تجسس اور ازلی کشش پر مرکوزہوجاتاہے۔کہانی مجموعی طور پرغیر وضاحتی انداز اور غیر قطیعت ومعنی آفرینی کے اعتبار سے ترقی پسندوں کے عام افسانے سے مختلف وبرتر بھی ہے
محسوسات کی تجسیم کاری یا ایبسٹریکٹ آرٹ انور سجاد کی نمایاں فنی خوبی ہےجو تمثیلی سطح سے اوپر اٹھ کر علامت کا احساس دلاتی ہے۔اسی سلسلےکاایک افسانہ ”سنڈریلا“ہے۔جس میں لڑکی کئی سالوں سے کمرے میں قید ہے وہ باہر نکلنے اور پیدائش کی خواہش رکھتی ہے لیکن ایسی کوئی راہ نظر نہیں آتی کہ باہر ہر وقت خونخوار کتا زبان لٹکائے دراوزے پر کھڑا ہے اس پر مستزاد یہ کہ اندر سوتیلی بہنیں اور ماں اسے مارتی پیٹتی اور سزا دیتی ہیں ۔یہ تمام کردار حقیقی نہیں بلکہ لڑکی کی زندگی کی غیر مرئی رکاوٹیں اور الجھنیں ہیں۔وہ ایک ایسی صورتِ حال میں گر فتار ہےجہاں مسکراہٹوں اورمحبتوں کی بجائے ہر جگہ سوتیلی دنیا ہی سے مڈھ بھیڑ رہتی ہےاور یہ رکاوٹیں لڑکی کو حالتِ نفی کی طرف لے جاتی ہیں ۔کہانی کی علامتی معنویت آخر پر زیادہ عمیق ہوجاتی ہے جہاں لڑکی اپنا ستر ہاتھوں میں چھپائے چاروں طرف بھاگ رہی ہے اور ہرطرف سوتیلی ماں اور بہنیں اسےپکڑنے کے لیےبازوبڑھائے کھڑی ہیں۔آخرِکار لڑکی کا کردار بھی علامت بن کر رہ جاتا ہے۔بقول مہدی جعفر ی:
”اس میں شک نہیں کہ انور سجادکے کردار شکستہ اور زخمی ہیں یا حبس کی حالت میں جی رہے
ہیں۔کرداروں میں کلاسیکی ہیروازم سے انحراف اور برات ہے۔انور سجادکی المیہ نگاری میں
اینٹی ہیرویا پسپا ہیرو کا کردار ہوتا ہے۔ “(۴)
”سنڈریلا“کی طرح ”کیکر“میں بھی مختلف اشیاء و کردار اپنی اپنی جگہ صفائی اور وحدت میں گندھےمرکزی کردار کی توسیع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کہانی میں سب لوگ ا”س“ دھرتی کو چھوڑ کرچلے جاتے ہیں جو ان کے لیے سوتیلی ماں ہےاور اس کی چھاتیوں میں دود ھ نہیں (دراصل ملک کی ناقدری کرنے والے لوگ۔۔۔۔۔۔۔“)زمین کے بنجرپن اور سفیدی سے اکتا کربنیادی کردار ایک کیکر کے سرسبزوشادا ب درخت کودیکھ کر وہاں رہنے کی ٹھان لیتا ہے۔گدھے پر پانی کی بالٹیاں بھر کرزمین کی سفیدی کو سبزے میں بدلنےکی ایک ناکام کوشش کرتا ہے۔در حقیقت گدھا وہ خود ہی ہےجو اپنے ہاتھوں اورگھٹنوں کو اسی شکل میں بنا کر کہتا ہے۔”میں تم ہوں اور تم میں ہو“۔یہ افسانہ انور سجاد کے عصری شعور یا حسیت کا عمدہ اظہار ہے۔اور اس دور میں مفادپرستوں کا اظہاریہ بھی۔۔۔
”سازشی“(نمبرایک) کے تمام کردار علامتی نوعیت کے ہیں۔جہاں نہر کھودنے والےخود کوقیدی محسوس کرتے ہیں ایک بوڑھابھی ان میں شامل ہےجوان کا محافظ ہے اور وہ موہنجوداڑو کو اپناوطن اور وہاں کی مشہور رقاصہ کو اپنی بیوی بتاتا ہے۔ایک نوجوان ہے جسے بوڑھے کی داڑھی کھینچنے پر پہرے دار لے جاتے ہیں وہ شاید اسی رقاصہ کا حرامی بچہ ہے۔۔۔۔۔۔یہ تما م کردار علامت ہیں ۔بوڑھا دراصل موہنجوداڑ وکے متعلق ماضی کی علامت ہےاور اس کے ساتھ نہرکھودنے والے گمراہی کااستعارہ بھی کیوں کہ وہ ہر چیز کے منہدم اور معدوم ہوجانے کااظہار کرتے ہیں۔نہر کی کھودائی کرنے والے ٹیلے پر سستانے بیٹھے ہیں اور ان کی خاموشی ایک سازش ہے۔”سازشی نمبر۔۲“ پہلے حصے کی توسیع ہے زبان کے مخصوص استعمال سے یہ افسانہ پہلے سے بھی زیادہ مبہم اورغیرواضح ہوجاتا ہے۔
اسی طرح افسانے ”کونپل اور نئی کونپل“کے درمیان کافرق ہے۔مؤخرالذکر میں ایک خاص طرزِ تحریرکے ذریعے تقریباًوہی موضوع پیش کیا گیا ہے۔ لیکن پہلے افسانے میں افسانہ نگارکی شخصیت نسبتاً حاوی ہوگئی ہےجس سے علامتی ماحول اور فضا اس طرح قائم نہیں ہوپاتی ۔ ” کو نپل“ میں دوواقعات رونما ہوتے ہیں جو فکری و اصولی سطح پرایک ہی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ایک تیسرا واقعہ بھی ہے جو پہلے دوکا مبہم نتیجہ معلوم ہوتاہے۔افسانے میں مرکزی کردار(سرکش)کاجرم یہ ہےکہ وہ بیک وقت کسان،مزدور،کلرک اور شاعر ہے،اس نے حیوانوں کی سی زندگی اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے جہاد کا علم بلند کیا ہےاور اسی سبب اذیت اس کا مقدر ہے۔جس کمرے میں اس پر تشدد کیا جاتا ہےوہاں ایک پورٹریٹ پر چھپکلی پتنگے کاشکار کرنے کولپکتی ہے اور پورٹریٹ گرنے کے قریب ہے۔اس کے ساتھ ہی ایک منظر ہے کہ جس میں مجرم کا بیٹا محافظ بوڑھی کو سوتا پاکرٹھنڈی تیز ہوا اور بارش کی زد سےکونپل کو اپنا لحاف اوڑھ کربچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔یہی کونپل انسانی امید کی کامرانی کی علامت ہے۔ پورٹریٹ،چھپکلی اور پتنگے کی علامتی بُنت سرکش اور نقاب پوش کی علامتی بنت کوزیادہ معنی آفریں بنادیتی ہے۔”کونپل“انور سجادکے ہمیشہ یادرکھے جانے وا لے افسانوں میں سے ایک ہےجس میں سماج پر مسلط ظلم وتشدد ،احتجاج واختلاف اور صبروضبط کی فضاکو موضوع بنایا ہے۔اگرچہ ہر عہد،ہر زمانےمیں ظلم وجور کا بازار گرم رہاہےلیکن صبروتحمل اور جدو جہد کی مثالیں بھی جابجا موجود ہیں۔یہ ایک علامتی کہانی ہے۔جس میں حکمران طبقےاور ”سرکش عوام کی نمائندگی ایک شاعر کرتا ہے“کے درمیان تصادم موضوع ہے۔یہاں ظالموں کی شناخت اور ہتھکنڈو ں کو سمجھنا آسان نہیں۔ ایک نقاب پوش جو ظالم وجابر طبقے کا نمائندہ اور دوسری طرف کسان،شاعر،مزدور،کلرک غرض نچلے ومتوسط طبقے کے تمام لوگ ہیں۔ان میں ایک کردار ایسا ہے جو با شعور اور بیدار ذہن کا مالک ہےاور اپنے طبقے کے ناکردہ گناہوں کی سزا پاتا ہے۔یہ کردار کوئی بدمعاش یاجواری نہیں بلکہ ایسا شخص ہے جو موجودہ صورتِ حال سے مطمئن نہیں وہ سماج میں پلتی برائیاں ختم کرکے انقلاب کاخواہاں ہے۔اسی مقصد کے پیشِ نظر وہ اپنی قلم کو آواز بناتا ہے۔اور ایک ہجوم کے سامنے تقریر کے الزام پر اسے گرفتار کرکےتشدد کانشانہ بنایاجاتاہے۔مگر ان سب ظالمانہ حربوں کے باوجود اس کی ذات سے پھوٹنے والی انقلاب کی نوید کو دبانے میں ناکام رہتے ہیں۔کیوں کہ وہ اپنی نسل یا بچے کو اس روایت اور کوشش کا امین بنا چکاہے۔انقلاب کا جو بیج اس نے بویا اب وہ کونپل کی شکل میں اس کے آنگن میں پھوٹ پڑا ہے۔اور اس کی حفاظت نئی نسل نے اپنے ذمے لے لی ہے۔
پھر اس شخص پر جو تشدد کیاجاتا ہے وہ اس کے گھر والوں کو بھی دکھایا جاتا ہے۔اسی وقت قدرتی طور پر بارش بھی بہت غیض وغضب سے برستی ہے۔بچہ باپ اور موسم کی طوفانیت سے بے نیاز،آندھی،برق وباراں سے نوخیز کلی کوبچالیتا ہے۔وہ اپنے باپ کو ظلم سے نہیں بچاپایا لیکن اس کی وراثت کو ضائع بھی نہیں ہونے دیتا۔یہ کلی دراصل اعلان ہے انسان کے وجود میں موجود لاوے کاجو ظلم وجبر کے ہر حربے وصورت کو بہاکر لے جاسکتا ہے۔یہ انسان کی قدرتی ہمت،عزم اور حوصلے کی علامت ہے۔ارادے اور حوصلے ہی کی کونپل انسان کو چٹانوں سےٹکراجانے کا حوصلہ دیتی ہے۔بچے کا عمل ایک کونپل کاتحفظ نہیں بلکہ پورے معاشرے کے مستقبل کاتحفظ اورانسانی امید کا استعارہ ہے۔ اس کہانی کے مرکزی کرداروں کو انور سجاد نے ان تمام آزمائشوں سے گزارنے کی کوشش کی ہےجس سے آمریت کےدور میں انسان گزرے۔بقول نصرت چودھری:
”کونپل نہ صرف خوبصورت بلکہ ہر اعتبار سے مکمل کہانی ہے۔اس میں انور سجاد کا موضوع
کچھ ایسی بصری حقیقتوں کا احاطہ کرتاہےجو زندگی سے قریب تر ہونے کے ساتھ ایک بصری
حقیقت بھی ہے“(۵)
انورسجاد کےتین افسانوں ”زنداں نامہ،رات کاسفرنامہ،اور یوسف کھوہ “میں دُھند اور سردی لپٹی رات،شہر اوراس میں ایک مکان کی کھڑکی اور مرد اور عورت۔۔۔قدرِ مشترک حیثیت سے علامتی فضاکی تشکیل کرتے ہیں۔
”زنداں نامہ“میں مرد روٹی کے ایک ایک ٹکڑےکے پیچھے اور اپنے بچوں اور بیوی کے ٹھٹھرتے جسموں کی حدت کی تلاش میں نکلتا ہےوہ تھکاوٹ سے چور ہے۔نئے شہر کی تخلیق میں مصروف مرد ہر صبح پوہ کے سرد سورج کو اپنے کاندھوں پر اٹھائےتیز تیز قدموں سے شہر کے سنڈاس خانوں کی بساند کی طرف روانہ ہونے پر مجبورہوجاتا ہے۔
”رات کا سفر( سفّر تکلیف)نامہ“میں پوری توجہ دھند میں لپٹی شہر کی سردرلت پر ہے،شہر کی فضا میں ایک حبس ہے کھڑکی کے باہر اور کمرے کے اندر بھی۔یہ شہر تعفن اور گندگی سے اَٹا پڑا ہے۔چاند زرد رنگ میں بدل گیا ہے ،خوف ،بے بسی و بے کسی سےفرار کے تمام راستے بندہیں۔ عورت اور مرد کھڑکی سے جھانک کر اس منظر کو بے بسی سے دیکھ اور محسوس کررہے ہیں،جو اندھیری رات کے خاتمے (ظلم)کے منتظرہیں ۔ انور سجا دکی علامتیت کے متعلق ڈاکٹر مجید مضمَر لکھتےہیں:
”انور سجاد کی زیادہ تر علامتیں حیاتیات اور جنسیات سے متعلق یااس سے مستعار ہیں۔جنس
انور سجاد کاموضوع نہیں بلکہ ایک ایسا موٹف ہے جس کے ذریعہ وہ جنس سے ماورا حقیقتوں
کا ادراک کرتے ہیں۔نوجوان لڑکی ان کے بیشتر افسانوں کی بنیادی علامت ہے۔ یہ لڑکی
قوتِ تعمیر کی علامت ہے،ظلم وستم اور استحصال کی قوتوں کی یلغارکے باوجود زندگی سے بھر
پورہے،اور پھر اسے جنم دیتی ہے۔“(۶)
”یوسف کھوہ“میں بھی رات کایہی منظر ہےجہاں جنسیت وشہوت کا بازار گرم ہےیہاں ایک عورت اور سیاہ رات ہے۔باہر سرد رات کاڈسا تنہائی سے زخم خوردہ شخص عورت کو پکی پکائی روٹی دکھا کر دروازہ کھولنے پرمجبور کردیتا ہے۔عورت زردچہرہ اورویرا ن آنکھیں لیےاپنے بھو کے سوئے بچوں کے لیے خوش ہوتی ہےکہ روٹی ان کے لیے”ککوکو“کی آواز ہے اور جس پر وہ عورت ”یوسف کھوہ“کے بطور دروازہ کھول دیتی ہے۔یہ عمل کوئی نیانہیں صدیوں جاری رہا ہے۔افسانے میں صورتِ حال اوراس پر افراد کاردِعمل ککوکواوریوسف کھوہ کے مصدا ق ہے ۔
”ککوکو۔۔دل کی دھڑکن ہماراپیچھاکرتی ہے۔ہم بھاگتے ہیں۔۔یوسف کھوہ۔۔ ہم بھاگ
نہیں پاتے،زمین پاؤں پڑجاتی ہے،اپنی تمام خواہشوں سمیت ،تنہا،کہاں جائیں۔۔ہم اتنے
تنہا جیسے یوسف کھوہ۔۔۔۔“(۷)
فاختہ قریہ قریہ،گاؤں گاؤں،شہرشہر کھوئےہوؤں کی تلاش میں نکلتی ہےاور اس کی ککوکو کی آواز پر خوف زدہ افراد اپنے بھاگتے دوڑتے گردوپیش سمیت ”یوسف کھوہ“کہہ کر گویااپنے ہونے کااثبات کرتے ہیں۔یوسف کھوہ ذہن کو ”چاہِ یوسف“ کی طرف بھی لے جاتاہےجو تنہائی،بےبسی اور سوتیلے پن کے سلوک کااستعارہ ہےاور ساتھ ہی یوسف کھوہ ہونے کی اثبات کی آواز کی بھی،یہ ثبات دراصل مشینی شور و غل اور گولیوں،بھوک اور پیاس،ذہنی انتشاراور اس احساس کی برف زدگی کااثبات ہے۔ ان تینوں افسانوں میں ذہنی وجنسی انتشار،صنعتی معاشرے میں فرد کی دبی ہوئی آواز،معا شی وسیاسی بدحالی خوف ودہشت،مجبوریوں اور محرومیوں کی مختلف صورتیں ملتی ہیں۔”یوسف کھوہ“اپنے آہنگ،شعر ی ڈکشن،پُراسرار فضا اورڈرامائی تاثرکے اعتبارسےانتہائی خوبصورت تخلیق ہے۔
انورسجاد نے تجربے کے لیے مختلف بیماریوں کی علامات بھی استعمال کی ہیں۔ اس ضمن میں پانچ افسانے”مرگی،کارڈیک دمہ،گینگرین،کینسر اور رےبیز“ لائقِ توجہ ہیں ،جہاں امراض معاشرے کی مختلف حقیقتو ں کی علامت بنتے ہیں اور ان کے اسباب واثرات موجودہ دورمیں دیکھے جاسکتے ہیں۔مثلاً:”کارڈیک دمہ“میں سانس اکھڑنے کے سبب ایک شخص عوام سے خطاب نہیں کر سکتااور افسوس ناکامی لیے واپس لوٹ جاتا ہے۔اس کی منظر کشی میں خیال ؛کہ جولفظوں کی ماں ہوتے ہیں،آواز کی کوکھ سے جنم لینے کی آرزو میں تڑپتے ہیں کیوں کہ سانس پر گرد،بخارات،اور دھویں کاپہرہ ہے۔اس میں کالی مٹی کے ذرے مداخلت کرتے ہیں اور آواز نہیں نکل پاتی گویا یہ ذرے بھی سازش کاحصہ ہیں۔اور گھٹن یاکارڈیک دمہ باہر سے مسلط ہے۔پرندوں کااستعارہ بھی اسی ماحول کی نقاب کشائی کرکے آزادی کا نمائندہ ہے۔ سب ایسے ماحول کے ترجمان ہیں جس میں نہ بول پانے،گھٹتے رہنےیا گھونٹ دیے جانے کی بربری اذیت کارڈیک دمہ کی تاثراتی علامت ہے جابجا طنز بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جمی ہوئی گرد جو بولنے نہیں دیتی دراصل جبر کی علامت ہے۔ بقول مہدی جعفری:
”انور سجاد پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔انہوں نے امراض کے زاویے سے انسانی کَرب
کا مطالعہ کیاہے۔ان کا اصل کارنامہ انسانی ابتلاکا افقی منظر نامہ مصور کرنا ہے جہاں سیاست
اور جبرواستحصال میں جکڑے،دبےہوئےاورزخم خوردہ ایشیائی انسان کی پسپائی ہے۔ہم
اکثر چیخ پڑتے ہیں کہ ماحول میں بڑی گھٹن ہے۔گھٹن بڑھتے بڑھتے بیماری بن جاتی ہے۔
۔۔۔کساؤ اور جکڑن میں سانس لینا دوبھر ہوجاتا ہے۔“(۸)
اسی طرح ”گینگرین“میں نومولد بچےکی آمدایسے ماحول میں ہوتی ہےجہاں گینگرین ہی گنگرین ہے اور اس کے موسم سے نجات پانے کے لیےنئے سورج کا طلوع ہوناضروری ہےاور اس سورج کا انتظار خوف،گھٹن اور گہری تاریکی میں عذاب سے کم نہیں ۔ان پانچ افسانوں کے متعلق ڈاکٹرشمیم حنفی رقم طراز ہیں:
”انور سجادکے یہ پانچ افسانےبیک وقت ایک ہولناک اور سنجیدہ بے اطمینانی کی راہ بھی( دکھا
تے ہیں) اور اس عہد کے تماشے کی دید کے لیے کچھ ایسی کھڑکیاں بھی(کھولتے)ہیں جن پر
ایک سفاک طنز کی چلمن پڑی ہوئی ہے۔“(۹)
” سنڈریلا،یوسف کھوہ،دوب ہوااورلنجا،کینسر “میں لڑکی دیکھی جاسکتی ہے جو استحصالی قوتوں کے جبر سے نجات حاصل کرنے اور یوں تخلیق کے عمل سے روشناس ہونے کی کوشش کرتی ہے۔لڑکی کا یہ علامتی کردار انور سجاد کےپانچ مختصر افسانوں میں دیکھا جاسکتا ہے جو ”آج“کے عنوان سےچھپے۔”آج“کے پہلے افسانے میں یہ لڑکی تاریک اور دل دوز سناٹے میں ساکت اس شخص کے انتظار میں ہے جو اس کے کمرےمیں آئے۔دوسرے میں لڑکی کے باطن میں صرف خلا ءہے۔کیوں کہ وہ خود پر استحصال کرنے والوں کوباری باری اپنی چھاتی دودھ چوسنے کے لیے پیش کرنے پر مجبور ہے یہاں تک کے اس جگہ سے دودھ کی بجائے لہو کے قطر رسنےلگتے ہیں۔تیسرا افسانہ دوسرے ہی کی توسیع ہےوہ سب کی ٹھکرائی تھکی ہاری لڑکی ماں بننے کے شرف سے محروم ہوجاتی ہے،چوتھےافسانےمیں لڑکی جوشہر کی سب سے حسین کنواری ہے اپنی چھلنی چھلنی کوکھ ہاتھوں میں تھامے اپنے بانجھ نہ ہونے کااظہار کرتی ہے۔اور اس کی جانب سےیہ عہد (خواہش)کہ اسے آئندہ نسلوں کوجنم دیناہے۔پانچویں اور آخری افسانے کی لڑکی ایک طاقت ور جوان سے الگ کردی گئی ہےتاکہ وہ نئے نمونے جنم نہ لیں جو جابر صدیوں کے سینے میں تلوار گھونپ سکتے ہیں۔لیکن شناختی کارڈ پر ان کے وجودایک دوسرے میں سرایت کرچکے ہیں اور نئے آدم کو جنم دینے کی خوہش میں ہیں۔اس طرح پانچوں افسانوں میں لڑکی کی علامت وحدت بخشتی ہے۔مگر ان افسانوں میں متن کم اور اشارے زیادہ ہیں جس وجہ سے یہ تفہیم میں مشکل اور شاعری کے قریب ہوجاتے ہیں۔”آج“کے افسانوں کی علامت اور استعاروں سے ڈاکٹر انوار احمد متعلق کہتے ہیں:
”آج کے بیشتر افسانے استعارے ہی کے اسلوب کا تسلسل ہیں،اس میں شک نہیں کہ ضیاءالحق
کی منافقت پرور آمریت کے سائے میں اس مجموعےکے بعض افسانے تخلیق ہوئے،اس لئے
اس میں ایسے فقرے موجود ہیں،جن سے ایک مخصوص زمانےمیں ذہنی تشدد کے شکار قارئین
نے کتھارسس کے احساس سے لطف لیا ہوگا،مگر آج وہ مبہم فقرے ہیں۔“(۱۰)
افسانہ ”گائے“ کا شمار جدیدیت کے نمائندہ افسانوں میں ہوتا ہے۔بظاہرسادہ سی کہانی اپنے اندر کئی پرتیں لئے ہوئے ہے۔ایک دبلی پتلی سی گائے جو بوڑھی ہوچکی ہے اور اہلِ خانہ اسے بوچڑخانہ بھیجنے کی سوچتے ہیں سوائے”نکّا“کے،جسے گائے سے محبت ہے۔وہ گھر والوں کواس کاعلاج کرانے کا مشورہ دیتا ہےلیکن وہ ایک نہیں سنتے۔آخر کار گائے بوچڑخانے چلی جاتی ہے۔یہ افسانہ علامتوں کا لبادہ اوڑھے وسیع تناظر میں لکھا گیا ہے۔اگر سے آزادی کے تناظر میں دیکھاجائےتوگائے پر ہونے والے ظلم وستم انگریزوں کی یاددلاتاہے۔اوراگر اسے جنگ آزادی کی مظلوم مان لیا جائےتو کہانی نیا در وا کردیتی ہے۔گھر والے ظالم انگریز افسران کا کردار ادا کرتے ہیں تو نکّا ہماری سیاسی جماعتوں کا نمائندہ نظرآتا ہے۔ اس طرح گائے کو جس بھی زاویے سے دیکھیں ایک منفرد نکتہ واضح ہوگا۔گائے نہ صرف سیاسی استعارہ ہے بلکہ ہمارے سیاسی نظام پر طنز بھی ہے۔ افسانے میں ”گائے“مظلوم عوام کی علامت ہےاور ”نکّا“ان مظلوم ومعصوم لوگوں کے رہنما کی،جو مظالم پر مزا حمت کررہاہے لیکن اس کی سننے والا کوئی نہیں۔ ایک کردار کو علامت بنانے کے لیےجس تخلیقی اور علامتی ادراک کی ضرورت ہوتی ہےوہ انور سجاد کے ہاں موجود ہے۔
اپنے افسانے”گائے“سے متعلق سوال کہ آیاانہوں نے ماں اور بیٹے کی جگہ گائے اور بچھڑےکی علامتوں کا سہاراکیوں لیاہے؟اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ
” یہ ‘سہارا’نہیں بلکہ میں نے صورتِ حال کو” انیمل کنڈیشن “میں دیکھااور حیوانی سطح پر ہی
ایکسپلور کردیاہے۔“(۱۱)
”پرندے کی کہانی“میں لڑکا ایک عجیب وغریب پرندے کو بچاتا ہے۔اس لڑکے کودیکھ کر سفید فام سیاح کو حضرت عیسیٰؑ کے کئی نقش یاد آتے ہی ۔یہ پرندہ ایک باشعور انسان اور مقصد ہے جو بکنے اور رزق کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار نہیں۔گویایہ لڑکا معصومیت کاپیکر ہے اور نئی زندگی کی امید کو بچانے کی ضمانت بھی۔ اس میں سب سےنمایاں اور طاقتور پیکرٹنڈمنڈ پرندہ ہےجو ابہام کے حوالے سے بھی شدید ہے۔اس علامت میں بھی ایک طرف تو مشرق کے تحفظ کا سوال ہے تودوسری طرف دانے دنکے کی چاہ۔وہ ایسا پرندہ ہے جو مشرق کی انسیت،بے زبانی اور مغرب کی عیاری،فریب،مکاری اور غریت کو پہچانتا ہے۔یہ کہانی دراصل مشرق کے نصف کرۂ ارض اور مغرب کے درمیان تضاداور تصادم کا منظر نامہ بن جاتاہے۔مصنف نے پرندے کی علامت کو نصف کرۂ ارض پر پھیلا دیاہے۔یہ ایک ایسا پرندہ ہے جسے
مخالف دانہ ڈال کر قابو کرنا چاہتے ہیں مگر وہ شعور رکھتا ہے اور آگے بڑھنے کا خواہاں ہے۔یہ علامت درحقیقت مشرقی انسان کے عزم کے طور پر ہے۔ ان کے افسانے مجموعہ ”استعارے“سے متعلق ڈاکٹر انوار احمد:
”استعارے کی شکل میں انور سجاد کی ان کہانیوں کاانبارسامنے آتاہے،جنہیں جان بوجھ کر
ناقابلِ فہم بنایا گیا،تاکہ ایک طرف ‘رمزیت’کا رنگ گہراہوسکےاوردوسری طرف لایعنیت
کا حق ادا ہوسکے۔“(۱۲)
انور سجاد کے اکثرافسانوں میں لہجہ و بیان نثر کی بجائے شاعری کے قریب ہوجاتا ہے جس کی ایک وجہ علامتوں کا استعمال اور دوسرالفظوں کو کفایت شعاری اور اور قوت سے استعمال کرنے کا فن ہے۔وہ اپنے افسانوں میں ظاہری صورت کی بجائےاشیاء کے پیچھے جھانک کران کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔انور سجاد کا فن موجودہ دورکی پیچیدہ حقیقتوں کااظہار ہے۔انور کے افسانوں میں کردار نہ تو فرد ہے اور نہ افراد کےمجمعے کی نمائندگی کرتاہےبلکہ فکری سطح پر سماجی اور سیاسی صورتِ حال کی تجسیم ہے۔ ان کے ہاں عموماًخوف ودہشت ، جبر و استبداد ، سر ا سیمگی وحبس اور ظلم وتشدد کی جو معاشرتی،سماجی وسیاسی فضا نظر آتی ہے اس میں بھی آزادی کا جذبہ بہر حال بیدار ہے۔یہ افسانے محض ایک فرد یا قوم کی شکست وریخت یا خواب کا تذکرہ نہیں بلکہ معاشرے کی پیچیدگیوں کے حصار سے نئی آرزؤں کے خواہش مند ہیں۔ان کی علامتوں کی خوبی یہ ہے کہ بیماری کو علامت بنا کر کئی افسانے تخلیق کیے۔ان کا افسانہ چوں کہ ماحول کی گھٹن،جبریت کے دور میں پروان چڑھا اسی لیے یہی ان کے افسانوں کا موضوع بھی ہے۔انور کے بیشتر افسانے تجریدی پیرائے میں اپنے عہد کی شکست وریخت،گھٹن،جبر واستحصال کی عکاسی کیے ہوئے ہیں۔کہانی”مرگی“ایک تجریدی افسانہ ہے۔انیس ناگی لکھتے ہیں کہ:
(چوراہے کے افسانوں کا بڑا وصف یہ ہے کہ مصنف نےبڑی سنجیدگی کے ساتھ عہدِحاضرکے مختلف تضادات کو محسوس کیاہے۔اس نے اپنے معاصر نام نہادفہم کے جدید افسانہ نگاروں کی ذہنی ریخت،لکھنؤ کے مٹتے کلچرکے ماتم اور جنسی کشتیوں کوموضوع نہیں بنایابلکہ انسانی تما شے میں انسان ہی کو مرکز بنا کراس کی بے چین اور گھبرائی ہوئی صورت کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ان کہانیوں کا کوئی مخصوص جغرافیہ نہیں۔ان کا تعلق ایک آفاقی سیاق وسباق سے ہے جس میں انسان اجتماعی صورت میں ہیں،جس میں حاکم اور محکوم ہیں،جس میں مشین اور پرزوں کی کھرکھراہٹ،ہسپتالوں کے مریض،رک رک کے چلتے ہوئے دلوں کی دھڑکن اور ذات کی گھٹن ہے۔
افسانوں میں انورسجاد نے”شعور کی رو“کو بنیادی تکنیک کے طور برتا ہےاور اس سے کئی نئی چیزیں بھی تخلیق کی ہیں۔بات کرتے کرتے یا کہانی کے دوران حقیقت و فینٹسی کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے اور اس طرح وہ ”کافکا“سے متاثر نظر آتے ہیں۔لیکن انفرادیت بہر حال موجود ہے۔مثلاً:”سب سے پرانی کہانی“ افسانے کا پلاٹ بڑی حد تک حقیقت پر مبنی ہے۔لیکن آخر میں جا کر ایک ہی جملے سے سارے افسانے کا تا ثر حقیقت سے فینٹسی میں بدل جاتا ہےاس مجموعے سے متعلق انیس ناگی کہتے ہیں:
”۔۔انفرادی گھٹن،سیاسی جبراور شخصیت کا انتشار چوراہا کے افسانوں کے موضوعات تھے
۔ان افسانوں میں انورسجاد نے مروجہ ریلسٹ افسانے سے گریز کرکے افسانے کی مروجہ و
حدتوں کو نظرانداز کیاتھا۔شعور کی رو کو بنیادی تکنیک کے طور پر استعمال کرکے علامت سا
زی کی تھی۔۔“(۱۳)
”استعارے“میں انورسجادکے افسانےزیادہ داخلیت کے حامل رہے ہیں۔جن میں انفرادی واجتماعی تشدد موضوعِ خاص ہے۔ تاریخی حوالے سے بھی ان کےافسانے اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔انور کے افسانوں میں تجربات کا عنصر محدود ہے۔جنسی تشدد کے بیان کا اظہار اان کا بنیادی موضوع ہے جو آخرِکار سیاسی جبر سے آملتا ہے۔وہ فرانسیسی ناول نگارآلان راب گرئیےاور کافکا سے متاثر تھے۔ان کے فن پر انیس ناگی بحث کو اس طرح سمیٹتے ہیں:
”انورسجاد کے افسانوی حربوں نے ان کے بہت سے معاصرافسانہ نویسوں کو متاثر کیاجس
کے نتیجہ کے طور پراردو افسانہ کہانی سے محروم ہوگیا۔۔اردو افسانے میں انورسجادکی حیثیت
ایک تجرباتی افسانہ نگار کی ہےجنہوں نے اردو افسانے میں ایک بڑے اسلوب کی تعمیر کرتے
ہوئےلکھنے سے دستبردار ہوگئے ہیں۔“(۱۴)
”خوشیوں کا باغ “انور سجاد کا ناول ۱۹۸۱ء میں منظرِ عام پر آیاجو ایک علامتی اور جودی تناظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔ لیکن اس کا اصل محرک سیاسی و عصری آشوب اور خصوصاً پاکستان کی صورت ِ حال کی عکاسی ہے۔ جس میں ایک فرد ہے جو مسلسل گھٹن کا شکار ہےوہ علامت اور استعارے کاسہارا لے کر اپنے جذبات واحساسات کا اظہار کرتا نظرآتا ہے۔انور سجاد اس ناول میں معاشرےمیں مروج تمام برائیو ں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ایسا معاشرہ ہےجواپنی روایات اور اقدار کو پسِ پشت ڈال کرمغربیت کا غلام ہے اور اسے فروغ دے رہا ہے۔حسد،منا فقت ،سیاست،سرمایہ دارانہ نظام،رویے،غریب ومظلوم کا مسلسل استحصال معاشرے میں ایک موذی وبائی بیماری کے طور پر پھیل چکا ہےیہ کہانی کسی ایک علاقے،عہد یا قوم کے لیے مخصوص نہیں۔”میں“دراصل تیسری دنیا کا ایک ایسافرد ہے جو اپنے حقوق کاشعور رکھتا ہے۔اسے یہ بھی علم ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اورمشینی دور اور ترقی کس طرح فرد کو کچل رہے ہیں۔اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
”اور یہ بھی سنا ہے کہ سرمایہ دار خو ش حال معاشروں نے ہٹلر کے دور سے لے کر آج تک
منظم گروہی قتل میں بے پناہ مہارت حاصل کرلی ہے۔اور ان کی آخری ضرورت خام مال اور
منڈیوں پر قبضہ ہی نہیں بلکہ آدم کی اس نسل پر مکمل قبضہ ہے۔“(۱۵)
تیسری دنیا میں جمہوریت کے پودے کو باربار کاٹنا،فوجی آمریت اور مذہب کے نام پر عوام کودھوکادینا روایت میں شامل ہے،اقتداراوردولت
کی ہوس نے ایک مخصوص طبقے کو دیوانہ کردیا ہے جب کہ غریب اپنی محدود خواہشات کی تکمیل کا خواہاں ہےاور پورا ہوجانے پر اسی حال میں مطمئن ہے۔یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں ادیب ومصنف کھل کر اظہار نہیں کرسکتا اور مجبوراًعلامت اس کاواحد سہارا ہے جس کے ذریعے اپنی بات کہہ کر وہ ضمیر کو اطمینان بخشتا ہے۔جب کہ عوام بالکل بے حس ہیں اگر ایسا ہو کہ وہ متحد ہو کر اپنے حقوق کی جنگ لڑیں تو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت ان کے سا منے جھک سکتی ہے ،مگر وہ اس سوچ سے بے نیاز ہیں۔اس ناول کے متعلق ڈاکٹرممتازاحمد خان لکھتے ہیں:
”انور سجاد نے پاکستانی معاشرے کے ساتھ ساتھ پوری تیسری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔
”خوشیوں کا باغ“کا موضوع انہی ناانصافیوں اور ظلم و ستم سےترتیب پاتا ہےاور ناول کے ہیرو
چیف اکاؤنٹنٹ کے ذریعےپڑھنے والے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ اپنے کر
م خوردہ استحصالی نظام کی تبدیلی پر قادر نہیں۔اس لیے اب بیرونی جبر نے انہیں مفلوج کرکے
رکھ دیا ہےوہ کوئی ایسی پالیسی نہیں اپنا سکتے جس میں ان کے یہاں آزادی اور آسودگی کا سورج
طلوع ہوجائے۔“(۱۶)
دولت،ہوس اور اقتدار کے نشے نے غریب کو محکوم ،ظالم کو حاکم بنا دیا ہے۔صاحبِ اقتدار طبقہ ظالمانہ کاروائیوں سے غریب عوام کو دباکر رکھنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔اپنے مفاد کی خاطر قانون بھی ہمیشہ ان کی منشا کے تابع ہے۔اگر ان کے خلاف کوئی بات کرے؛ یا توجیل میں قید کردیا جاتا ہے یا اس کی کھال کھینچوا دی جاتی ہے۔انور سجادنے ایک ہی سانس میں معاشرے کی برائیوں کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ معاصر عہد کی وہ تمام سماجی برائیاں بے نقاب ہو جائیں کہ ان کے وجود سے کسی کو انکار نہیں۔انور نے ان سےآنکھ چرانے کی بجائے ناول میں برملااظہار کیا ہے۔
ناول کی زبان کسی حد تک مشکل ہے اور استعمال کردہ بوش کی پینٹنگ کو سمجھ کر ہی کہانی کا پتا لگایا جاسکتا ہے جو کافی کٹھن کام ہے۔یہ ناول حقیقت و سچائی پر مبنی اپنے عہد کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔سچ بولنے اور سہنے کے لیے بہت بڑا ظرف درکارہےجو انور سجاد کے ہاں تمام پابندیوں کے باوجو د علا متوں کی صورت میں یہ حوصلہ اور جرات موجودہے۔انہوں نےبیانیہ اور مکالمے کے روایتی اندازکو توڑکر ایک نئی صورت متعین کی۔بقول شمس الرحمان فاروقی:
”ان کے ناول ‘خوشیوں کا باغ’میں بیانیہ اور مکالمے کے روایتی انداز سے ہٹنےلیکن خود اپنے
گذشتہ انداز سے انحراف کی ایک کوشش بھی ملتی ہے۔تفصیلات کا وہ بیان جس میں روشنی کی
باریک لیکن تیز لکیر صرف انہیں پہلوؤں کو منور کرتی ہے جوواقعےاور واقعے سے متاثر ہونے
والی اشیاکی ٹھوس حیثیت کو ثابت کرے،اور گفتگوکا لہجہ خودکلامی سے لے کر ڈائری تک کے
انداز کو محیط ہو،انورسجاد کاخاصہ ہے۔“(۱۷)
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انور سجاد اپنی نوعیت کے ایک الگ افسانہ نگار ہیں جن کا بیانیہ بھی دوسروں سے مختلف ہے۔اگر ان کا موضوع جبرو استحصال ہےتو اس کے لیےان کے ہاں علامتیں واستعارے مزاج بھی نیا لیے ہوئے ہیں۔ان کے طبی پیشے نے تطہیر کےلئے سرجری کا جواندازاپنایا وہ سب سے الگ ہے۔ اوریہی ان کا سب سے بڑا وصف اورانفرادیت ہےجو پہلے افسانے سے لے کر آخرتک موجود رہتا ہے۔ان کی فکشن اور علامتوں پرمغرب سے جیمزجوائس،ڈی۔ایچ لارنس،بیکٹ اور اس جیسے کئی فنکاروں کے رنگ اور اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ بقو ل وہاب اشرفی:
”دراصل انورسجاد کا باغی ذہن مغربی ادبیات کی کروٹوں سے آگاہ ہےاسی لئےوہ استحصال کی
تمام طاقتوں کا رد اپنے علامتی انداز کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں۔ان کااحتجاجی ادب خالص ادبی
ہے۔ان کےذہن کو سمجھنےکے لئے خودان کی زندگی کے پہلو بہت اہم ہیں،انہیں دوبار جیل
جانا پڑا۔انور سجادجوبذاتِ خود ایک حسی پیکر نظر آتے ہیں،ان کی تفہیم کے لیےعلمی اور وہ
بھی بے حد وسیع فضا قائم کرنی پڑے گی۔“(۱۸)
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انورسجاد کے بیش تر افسانے تجریدی پیرائے میں لکھے گئے ہیں۔ان میں ایسے کردار بھی ہیں جن کا کوئی نام نہیں اور اپنے تشخص کے لیےسرگرداں ہیں۔وہ اپنے لیے خود بھی کہتے ہیں کہ تمام عمر ایک ہی افسانہ لکھتے رہے جس کا موضوع جبر پر احتجاج ہے ۔ خو ف ، جبر،اجنبیت،تنہائی ان کے بنیادی استعارے ہیں جن کے سہارے وہ کہانی کا تانابانا بُنتے ہیں۔انہوں نے افسانے میں دیومالا،اساطیراور داستانی عناصر سے بھی خاطر خواہ کام لیا۔جس میں انہیں کمال حاصل ہے۔بقو ل محمد غالب نشتر:
”۔۔انور سجاد نے جو امیجز،علامات اور استعارے استعمال کی ہیں وہ ایک خاص عہد سے تعلق بھی
رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ان کا افسانہ ایسے عہد کا آئینہ دار ہےجب پاکستان میں تشخص کا سوال اٹھ رہا
تھا اوربےباکی سے کوئی با ت کہنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔۔۔“(۱۹)
انورسجادکے افسانوں میں روایت سے استفادہ بھی نظر آتا ہےاور جدید لہجے کی کھنک بھی۔ان کے ہاں فرد کی داخلیت اور مسائل کو زیادہ موضوع بنایا گیا ہے۔ان کے فکری پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئےشفیق انجم کہتے ہیں کہ:
”انور سجادجھنجھلائےہوئے لہجے کا سنجیدہ اور باشعور فن کار ہے۔اس نے اپنے عہد کے
جبر اور تہذیبی ومعاشرتی کٹاؤکوگالی دینے اور اس کے خلاف نعرے لگانے کی بجائےایک
سنجید ہ فکر کےذریعے فنی پختگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔اُن کے موضوعات کا دائرہ کچھ اتنا وسیع
لیکن فنی زاویوں میں تنوع بھی ہےاور تازگی بھی۔ان کے پسند یدہ موضوعات وجودی الجھنوں
سے متعلق ہیں۔۔۔انہی میں وہ اپنے عہد کے آشوب کو بھی فوکس کرتے ہیں اور اپنے آس پاس
کے ماحول اور کرداروں کو بھی۔“(۲۰)
انور سجاد کی کہانیاں اپنے عہد کا نوحہ ہیں۔وہ فرد اور معاشرےکے زوال وانحطاط کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ان کے ہاں احتجاجی اور مزاحمتی رویہ جابجا دکھا ئی دیتا ہے۔ان کا اسلوب خاص استعاراتی و علامتی انداز لیے ہوئے ہے یہی ان کی پہچان ہے:ڈاکٹر طاہر طیب رقم طراز ہیں:
”انور سجاد کی کہانیاں فنی اعتبار سے منفرد،تجرباتی اور اسلوبیاتی اعتبارسے اہمیت رکھتی ہیں۔ان
کےشاعرانہ اور تجریدی وعلامتی اسلوب کے تجربے اُن کو افسانہ نگاری میں رحجان سازاور تجربہ
ساز افسانہ نگار کی حیثیت سے پہچان کراتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کی علامت سازی اپنے عصری
رویوں سے تعلق رکھتی ہے۔“(۲۱)
مجموعی طور پر انور سجاد کی علامتوں میں عصری ، سماجی رویوں کی بازگشت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور جو کسی حد تک کامیاب بھی ہے۔مگر علامتی ادب کی خوبی یہی ہے کہ اسے ہر کوئی اپنے فہم کے مطابق ہی سمجھ سکتا ہے۔اور بڑے فنکاروں کا عصری شعور ہر عہد اور علاقے تک پھیلا ہوتا ہے۔۔۔سو تا حدِ مقدور کام کیا گیا مگر اس میں تشنگی باقی ہے۔ ان افسانوں کو پڑھنا اور جائزہ لینا مشکل کام ہے لیکن غور کرنے پر انور سجاد کے فکرو فن کے جوہر قاری پر کھلتے ہیں کہ قاری ورطۂ حیرت میں چلا جاتا ہے اور ان کے فن کا دلدادہ ہوجاتا ہے۔ یہی ایک فن کار کی سب سے بڑی کامیابی ہے اور انور سجاد کی بھی جو انہیں دوسرے ادیبوں سے ممتاز کرتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
حواشی /حوالہ جات:
۱۔ سہیل احمد خاں،مجموعہ،سہیل احمد خاں،لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز،سن اشاعت،۲۰۰۹ء،ص۱۱۔
۲۔ انور جمال،پروفیسر،ادبی اصطلاحات،اسلام آباد:نیشنل بک فاونڈیشن،سن اشاعت،سوّم جنوری ۲۰۱۶ء،ص۱۲۹۔
۳۔ شمس الرحمان فاروقی مشمولہ: اردوافسانہ روایت اور مسائل،گوپی چند نارنگ،پروفیسر(مرتبہ)،”انورسجاد،انہدام یا تعمیرِنو“(مضمون)، دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،بار پنجم ۲۰۱۳ء،ص۵۹۶۔
۴۔ وہاب اشرفی، تاریخِ ادبِ اردو(ابتداء سے ۲۰۰۰ء تک )، ،جلد سوّم،دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،سن ندارد۔ ص۱۲۷۳۔
۵۔نصرت چودھری،نبضِ افسانہ(انتخاب اور تجزیے)،نئی دہلی:انیس آفسیٹ پرنٹرز،اشاعت اوّل۲۰۰۲ء، ص۲۷۶۔
۶۔ مجید مضمر،ڈاکٹر،اردو کاعلامتی افسانہ،دہلی:نیو لیتھو آرٹ پریس،بار اوّل۱۹۹۰ء،ص۱۶۸تا۱۶۹۔
۷۔ایضاً۔
۸۔ مہدی جعفری،افسانہ:بیسویں صدی کی روشنی میں،دہلی:معیار بپلی کیشنز،سن اشاعت۲۰۰۴ء، ص۱۲۱۔
۹۔شمیم خنفی،شعور ،افسانہ نمبر،جولائی ۱۹۷۹ء،ص۱۵۰۔
۱۰۔ انوار احمد،ڈاکٹر، اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ ، ملتان:کتاب نگر،اشاعت۲۰۱۷ء، ص۶۰۹۔
۱۱۔اردو افسانے کے مسائل (مذاکرہ)نقوش،بیسویں سالگرہ نمبر،ص۶۴۲۔
۱۲۔انوار احمد،ڈاکٹر، اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ ، ملتان:کتاب نگر،اشاعت۲۰۱۷ء، ص۶۰۹۔
۱۳۔انیس ناگی،پاکستانی اردو ادب کی تاریخ،لاہور:جمالیات،سال اشاعت۲۰۰۴ء،ص ۲۰۹ ۔
۱۴۔ اایضاً،ص۲۱۰۔
۱۵۔انور سجاد،خوشیوں کا باغ،نئی دہلی:شعور پبلی کیشنز،طبع اوّل دسمبر،۱۹۸۱ء،ص۹۹۔
۱۶۔ممتاز احمد خان ،ڈاکٹر،مضمون:”جدید اردو ناول میں موضوعاتی تنوع(پاکستان کے حوالے سے)“مشمولہ،”پاکستان میں اردو ادب کے پچاس سال“،نوازش علی،ڈاکٹر ،(مرتبٰ) گندھار اراولپنڈی: ۔۔بار دوّم۲۰۰۲،ص۳۳۷۔
۱۷۔” شمس الرحمان فاروقی،مشمولہ:اردو افسانہ روایت اور مسائل،گوپی چند نارنگ،پروفیسر(مرتبہ)مضمون ، انورسجاد-انہدام یاتعمیرِ نو“،دہلی:ایجوکیشنک پبلشنگ ہاؤس،با ر پنجم سن اشاعت ۲۰۱۳ء، ص۶۰۱۔
۱۸۔ وہاب اشرفی ،تاریخِ ادبِ اردو(ابتداء سے ۲۰۰۰ء تک ) ،جلد سوّم،دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،سن ندارد،ص۱۲۷۵۔
۱۹۔محمد غالب نشتر،اردو افسانہ:نئی جست(تنقید،تفہیم اور تعبیر)،دہلی:جے۔کے۔آفسیٹ،اشاعت،۲۰۱۶ء،۷۲،۷۱۔
۲۰۔،طاہر طیب، ڈاکٹر ،لاہور میں اردو افسانے کی روایت،فیصل آباد:مثال بپلشرز،سن اشاعت،۲۰۱۵ء، ص۲۶۲۔
۲۱۔ایضاً،ص۲۹۸۔