You are currently viewing جموں وکشمیر کے غیر مسلم تخلیق کاروںمیں عشاق ؔکشتواڑی کا ادبی مقام

جموں وکشمیر کے غیر مسلم تخلیق کاروںمیں عشاق ؔکشتواڑی کا ادبی مقام

پھلیل سنگھ

ریسرچ اسکالر ،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی۔

جموں وکشمیر کے غیر مسلم تخلیق کاروں میں عشاق ؔکشتواڑی کا ادبی مقام

اس سے پہلے کہ عشاق ؔکشتواڑی کی ادبی وتخلیقی عظمت پر روشنی ڈالی جائے ،یہ کہنا مناسب ہوگا کہ زبان کوئی بھی ہو،کہیں کی بھی ہو،اس پر کسی مخصوص قوم یا طبقے کی اجارہ داری نہیں ہوتی بلکہ یہ ہراس فرد وقوم کا اثاثہ ہوجاتی ہے جو اسے سیکھتا،سمجھتااور اپنے سینے سے لگاتاہے۔لیکن آج بدقسمتی یہ ہے کہ زبانوں کو بھی سماج میںموجود چند فرقہ پرست نہ صرف تقسیم بلکہ انھیں علاقائی،مذہبی اور نسلی رنگ میں رنگتے ہوئے کسی خاص قوم یا فرقے سے منسلک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔جس کی ایک منھ بولتی مثال ’اردو‘بھی ہے۔حالاں کہ یہ ایک زمینی سچائی ہے کہ اردو خاص ہندستان کی پیداوار ہے اور یہ یہاں کا وہ تہذیبی پودا ہے جس کی پرورش وپرداخت میں صرف مسلم کا نہیں بلکہ غیر مسلم اردو داںکابھی زمانۂ قدیم سے ایک نابغہ رول رہاہے۔جس کی مثال نہ صرف کلاسیکی تخلیق کار ولی رام ولی،ہرگوپال تفتہ،ماسٹرشری رام چندر،نول کشور،پنڈت رتن پنڈوڑی،ہرپرشاد بنسی دھر،پنڈت شیام نارائن ،لالا شری رام دہلوی،منوہر لال زتشی ،موتی لال،سوہن لال،ہری چند اختر،یچھپال سنگھ شیدا،فراق گورکھ پوری جیسی شخصیات ہیں۔بلکہ خطۂ جموں وکشمیر کے دیوان کرپا رام ،پنڈت بخشی رام،ملک راج صرافؔ،ہرگوپال خستہؔ،پنڈت جگ موہن ہکوؔ،تاراچند ترسلؔ،وشوناتھ در،دیوان شیوناتھ کول منتظرؔ،سہج رام تکوؔ،جانکی ناتھ کول ضیاءؔ،پنڈت دیاکرشن،کشن سمل پوری،پنڈت آفتابؔ،گوپی ناتھ،بشمبر ناتھ،پریم ناتھ پٹواری،رادھا کرشن بھان،دینا ناتھ نادم،ؔجیالال برقؔ،ٹھاکر روگ ناتھ سنگھ ،شری متی کرنا کول،شری متی رادھا رانی ،کماری ارون وتی کول،گنگا دھر بھٹ دیہاتیؔ،شیام طالبؔ،چمن لال بھگت اور عرش ؔصہبائی جیسے محبان اردومیں ایک معتبرنام عشاقؔکشتواڑی کا بھی آتاہے۔

عشاق ؔکشتواڑی جموں وکشمیر کے ایک پس ماندہ لیکن نہایت ہی خوب صورت علاقے پاڈر جسے نیلم گھاٹی بھی کہا جاتاہے میں 15اگست1942کو پیدا ہوئے جہاں ان کے والد ٹھاکر نانا چند رانا محکمہ جنگلات میں بطور کلرک ملازم تھے۔موصوف کا اصل نام جگدیش راج رانا ہے اور عشاقؔ تخلص کرتے ہیں۔طبیعت ومزاج کے تعلق سے موصوف ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ان کی شخصیت ،اخلاق،اخوت،انسانیت ،رواداری جیسے بلند اوصاف سے متصف ہے۔یہی نہیں عشاق ؔایک پر خلوص انسان کے ساتھ ساتھ ایک مجرب بھی ہیں ۔انھوں نے اپنی زندگی میں کئی اتارچڑھاؤ دیکھے ہیں ۔وہ ایک ایسے انسان ہیں جنھوں نے دکان داری،ٹھیکہ داری،فوج اور سیاست سے لے کر علم وادب تک سبھی میدانوںمیں اپنی قسمت آزمائی کی ہے۔ ان کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شباب للتؔکچھ یوں رقم طراز ہیں:

’’عشاقؔ ایک جہاں دیدہ اور گرم سرچشیدہ ذمے دار ہندستانی شہری ہیں ۔سیاست دان ہیں۔جنتادل متحدہ کی جموں وکشمیر صوبائی شاخ کے نائب صدر ہیں لیکن سب سے پہلے ایک اچھے انسان اور باشعور شاعر ہیں۔(عبد الرشید منہاس۔کچھ تو کہتے ہیں۔ ص:15)

عشاق ؔکشتواڑی کی تخلیق کاری وادبی تشخص کا جہاں تک معاملہ ہے  ان کی ادبی شخصیت کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ ان کے قلمی تشخص کے کئی پہلو ہیں۔وہ بیک وقت ایک شاعر،ادیب،مضمون نگار اور مکتوب نگار سب کچھ ہیں۔عشاقؔ وادی چناب کے پہلے غیر مسلم اردو نواز ہیں جواپنی علمی وادبی سرگرمیوں کے سبب اس وقت نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ اس سے بیرون بھی اپنی ایک منفرد شناخت قائم کرچکے ہیں۔ ان کا تخلیقی وشعری کلام اس وقت پورے بر صغیر میں تحسین حاصل کر چکا ہے ۔ جس کا بخوبی اندازہ اہلیان ادب کے ان مندرجہ ذیل نظریات وتاویلات سے بھی کیاجاسکتاہیمثلاً:۔

ڈاکٹر شباب للتؔ:

’’عزیزم جگدیش راج رانا عشاق ؔکشتواڑی ایک طویل مدت سے میدان ادب اردو کے شہسوار ہیں۔ان کی شاعری اور نثری کاوشیں،تبصرے ،مضامین وغیرہ برسوں سے اردو کے جرائد کی زینت بنتے رہے ہیں۔‘‘(حوالہ سابقہ۔ص:15)

ڈاکٹر جاوید اشرف قیسؔ فیض اکبر آبادی:

’’عشاق کشتواڑی کا فن اہم اور قابل ذکر ہے۔وہ برسوںسے منورفکر لیے ہوئے ہیں۔میں حضرت عشاق کے فکروفن پر برسوں سے غور وخوض کررہا ہوںاور ہرلمحے یک گناسکون محسوس کررہا ہوں۔چو ںکہ وہ شب روز تخلیق شعروفن میں منہمک ہیں اور ہمیں ہر پل ایک تازہ مصرع سنا رہے ہیں‘‘۔(حوالہ سابقہ۔ص:9)

غلام نبی خیالؔ سری نگری:

’’کشمیر جنت ثانی وادی کشتواڑ نے ایسے ایسے اہل قلم پیدا کیے جنھوں نے شاعری کے میدان میں کئی معرکے سرکیے ہیں۔ان ہی

 میں ایک ممتاز شاعرنشاط کشتواڑی کے سامنے عشاق ؔنے اپنا زانوئے تلمذتہہ کر کے اپنی شاعری میں خوب صورتی کی جلوہ آفرینیاں اور دل پذیر رنگینیاں لانے کا صحیح قدم اٹھایاہے‘‘۔(حوالہ سابقہ۔ص:32)

ڈاکٹر محبوب الٰہی،ممبئی مہاراشٹرا:

’’اردو زبان کی پیدائش ،پرورش وپرداخت اور ترویج وترقی میں ہندوؤں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا کہ مسلمانوں کا ۔ان عاشقان اردو کی ایک طویل فہرست میں اسم بامسمی عشاق کشتواڑی کا نام بھی سرفہرست جگمگاتاہے۔‘‘(حوالہ سابقہ۔ص:53-54)

مرزا خالد انورمہاراشٹراوالے:

’’عشاق صاحب صرف جموں و کشمیر کے ہی نہیں سارے ہندستان کے عاشق صادق ہیں۔‘‘(حوالہ سابقہ۔ص:118)

.ڈاکٹر سیفی ؔسرونجی:

’’عشاقؔ کشتواڑی نئی غزل کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔عشاق کشتواڑی نے اپنے استاد کی روایت کا بھرپورخیال رکھااور اپنی شاعری کو کو اوٹ پٹانگ تجربات سے جور کیاہے اور غزل کے روایتی اور فنی تقاضوں کو برقرار رکھا ہے۔‘‘(حوالہ سابقہ۔ص:64)

نشاطؔ کشتواڑی:

’’عشاقؔ صاحب کا راقم سے بہت مدت سے رابطہ قائم ہے اور جہاں تک مجھ سے ہوسکا ہے میں وقتاً فوقتاًشعروسخن اورادب کے معاملے میں رہبری کی ہے۔عشاق صاحب بہت ہوشیاراور ذہین ہیںاور ادب کے ساتھ آپ خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں۔‘‘(حوالہ سابقہ۔ص:30)

اہلیان ادب کے ان مذکورہ قیاسیات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ عشاق ؔکشتواڑی صرف جموں و کشمیر تک ہی محدود نہیں  بلکہ اردو ادب کی کئی بستیوں میں اپنی قلمی شناخت رکھتے ہیں ۔ ان کی علمی وادبی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ عشاقؔ کی تخلیقی سفر کی شروعات ان کی زبانی لڑکپن میں ہی ہوگئی تھی اور وہ اپنے طالب علمی سے ہی کچھ کچھ لکھنا شروع کردیتے تھے ۔ لیکن ان کے قلم نے باقاعدہ زور وبہاو اس وقت پکڑا جب وہ جموں وکشمیر کے استادشاعر نشاط ؔکشتواڑی کی صحبت میں آئے۔بقول عشاق:ؔ

نور و نشاطؔ کا مجھے اتنا تو بھرم ہے

یہ نورِ سخن دوستو ان کا ہی کرم ہے  ؎

 اس طرحعشاقؔ متعلقہ شاعرکی شاگردی اختیار کرنے کے بعد اس قدر رودِِخیال ہوئے کہ دریائے بھوٹ نالہ کی تندخو لہروں کی طرح اشعار کہنے لگے اور ان کا قلم اس قدر زرخیز ہوا کہ اس کے نوک سے ایک کے بعد ایک قلمی شاہ کار منصہ شہود پر آنے لگے۔جس کی منھ بولتی مثال ان کے گوناگوں تحقیقی وتواریخی مضامین اور مختلف النوع شعری مجموعے ہیں ۔عشاقؔ کے اب تک کل چھ شعری مجموعے بعنوان’’روداد کشمیر‘‘،’’متاع سوزو نشاط‘‘،’’متاع سودوگداز‘‘ ،’’نوائے شوق‘‘ ،’’ذات ِبر حق اور پیکر خاکی‘‘ اور’’ انشراح ِقلب‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ عشاق ؔکی یہ تخلیقات ان کی غزلیات ،منظومات ،قطعات ،رباعیات کے نیز مرثیہ ،مداحی اور متفرق اشعار پر مشتمل ہیں۔ یہ راناعشاقؔ کی وہ ادبی کاوشیں ہیں جو اپنے اندر نہ صرف ان کی ذاتی رودابلکہ حیات وکائنات کے گونا گوں مسائل کوسموئے ہوئی ہیں ۔  اس میں خواہ وہ معاملات ِحسن وعشق ،مناظر ِفطرت، بھگتی وتصوف ، جذبۂ حب الوطنی و بشر دوستی کی بات ہو یا سیاسی بربریت ،نسلی امتیازات ،انسانی دہشت گردی اور سائنسی و ایٹمی ہوڑ جیسے مسائل ہوں سبھی ان کے کلام میںشامل ملتے ہیں۔ اس طرح عشاق ؔ کے  اس قلمی رنگینی کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر کندن ؔدہلوی کہتے ہیںکہ:

’’عشاؔق کی شاعری میں مطالعۂ ذات ومشاہدۂ کائنات کے اچھوتے مضامین شامل ہیں۔‘‘(عبدالرشید منہاس۔ کچھ تو کہتے ہیں۔ص:37)

اور یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں بلکہ اس موضوعاتی تنوع کا ایک بخوبی اندازہ ان کی منظومات ’لمحۂ فکریہ‘،’یہاں شادماں پھر عوام ہوں‘،’اگر سمجھوتو بہتر ہے‘،’درمیاں سرحد نہ ہو‘،’نغمۂ یاس‘،’یلغار گدھوں کی‘،’مری آنکھیں‘،’بارگاہِ الٰہی میں‘،’اے کاتب تقدیر‘،’منتظر عشاق جی اب گور ہے‘،’پڑوسی کو نہ تم اغیار لکھنا‘،’سوال ساقی‘،’موتی برس رہے ہیں‘،’سبزے کی آنکھ بولی‘،’آب چناب دوست‘،’کشور وادی بانہال‘ اور’چلی آئی پر سال نو کی پیری ‘وغیرہ سے بھی ہوتا ہے۔ بہر کیف عشاقؔ کے کلام پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک  کلاسیکی اور ترقی پسند مزاج کے قلم کار ہیں۔ان کی خواہ غزل ہو یانظم یا کوئی دوسری صنف ادب ہو سبھی میں ایک روایتی رنگ اور ترقی پسند فکر جلوہ افروز ملتی ہے ۔ گوناگوں بحور کا استعمال ،زبان کا اتار چڑھاؤ ، ترکیب الفاظ ،علامتوں کی لالہ زاری ، ان کے کلام کے خاصے ہیں لیکن ا س میںمعر یٰ اورآزاد نظموں کا فقدان ہے اورجو ان کی ایک قلمی خامی بھی تسلیم کی جاتی ہے ۔بقول دیپکؔ آرسی:’’عشاقؔ صاحب پابند نظم کے حامی ہیں اور آزاد یا غیر پابند شاعری کے لیے ان کے یہاں کوئی جگہ نہیں۔‘‘(عبد الرشید منہاس۔کچھ تو کہتے ہیں۔ص:122)

بہر حال ان کے پابند شاعری میں جو موضوعاتی  تنوع پایا جاتا ہے اس کے تناظر میں چند مثالیں ملاحظہ کیجیے ٔ:

حوصلہ مندی:

سدادور خزاں گلشن رہے یہ ہوہی نہیں سکتا

نہ گھبرابلبل بے کس کبھی تو بہارآئے گی

انسان دوستی اور امن واتحاد:

عشاق اب تو امن کی کوئی سبیل ہو

اب بہہ چکا ہے خون خدائی کا بے حساب

حسن وعشق:

پاس جب تک شباب ہوتاہے

پھر نہ بس میں حساب ہوتاہے

محو رہتی ہیں  سرپھری آنکھیں

صبرحاصل نہ  تاب ہوتا ہے

وہ گل فام جلوئہ نما روبرو ہے

جمالِ خدا دیکھیے دوبدو ہے

قتل وغارت گری:

ہراک سمت غارت گری ہم نے دیکھی

لہو مثلِ آب رواںِ ہم نے دیکھا

تصوف:

مری روح میں میرے خالق کا گھر ہے

وہی ذاتِ یکتا یہاں جلوہ گرہے

تو نہ ہوتا تو کہاں ہوتا ظہورِ کائنات

عکس ہر آئینہ ہے اس آئینہ خانے کا

ظلم وبربریت:

کسی مظلوم ماں کو تم گھسیٹو عام راہوں پر

توجہ ظالمو کرلو اماں کچھ اس کی آہوں پر

ہواہے اس کا بیٹا گم سربازار دہلی میں

عیاں کرنے کو آئی ہے یہ اپنا کرب شاہوں پر

بھوک وافلاس:

آ دیکھ میرے شہر میں مفلس وخوار دیکھ

بھوکے بلکتے مردو زن یا شیر خوار دیکھ

ہے گلشن حیات کی بس تار تار دیکھ

جاتے ہیں بے قصور کتنے سوئے دار دیکھ

حب الوطنی:

رہے شاداں خدا وندہ سدا ہندوستاں اپنا

یہ اپنا جنم داتا ہے یہی نام ونشاں اپنا

یہاں ناقوس بجتے ہیں اذا ں پنچ وقت ہوتی ہے

بہت بازیب ہے اب تک یہاں مولا سماں اپنا

اردو دوستی:

عروس اردو ہے گھر میں آئی ہے فرض اس کو سلام کرلیں

چلوکہ اس کو دیں منھ دکھائی اسی بہانے کچھ کام کرلیں

وہ دیکھ برہمن نزاد چکبست علامہ سے محوِ گفتگو ہیں

یہی ہے تہذیب گنگ وجمنی اسے نہ کیوںدوام کرلیں

حسن فطرت:

گنگ وجمن سے کم ہے کیا پانی چناب کا

شیریں مزاج میں کہوں اس کا ہے آب دوست

شاعری:

سفر میں ہو شعریت تو خودنکھر جاتا ہے شعر

ورنہ بے معنی تخیل سے بکھر جاتاہے وہ

سائنسی وایٹمی مسائل:

لگی ہے ہوڑہر جا اب کہ ہو بارود کی کھیتی

نہ ہو اجناس  کی کھیتی نہ ہو امرود کی کھیتی

فضا کا یہ کسیلاپن حریف زندگی ٹھہرا

تباہی کے دہانے پر بہشت وبود کی کھیتی

 یہجیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ عشاقؔ کشتواڑی ایک شاعر کے ساتھ ساتھ ایک نثار میں بھی ہیں۔انھوں نے جہاں ایک طرف شاعری کو سینکڑوں اشعار سے نوازا ہے تو وہیں دوسری طرف نثر میں بھی انھوں نے اپنا قلم خاموش نہیں رکھا ہے ۔حالاں کہ نثر کے متعلق  عشاقؔ کی اب تک کوئی ضخیم یا بڑی کتاب نہیں ملتی لیکن تاہم اس کے انھوں نے نثر کے حوالے سے جو کارنامے انجام دیئے ہیں ان کو  تاریخ و تحقیق کے حوالے سے ایک منفرد اہمیت حاصل ہے ۔ اس طرح ان کی نثر نگاری کے متعلق جو نگارشات دستیاب ملتی ہیں ان میں شری سرتھل دیوی ماں کی بازیافتگی (کتابچہ)کے علاوہ ان کے مختلف النوع تحقیقی و تاثراتی مضامین ،پیش لفظ اور مکتوب شامل ہیں۔ان کے مضامین کی تعدادایسے تو درجنوںہے تاہم ان میںسے جو نمائندہ ہیں ان میں ’قہر ناخدا‘ ،’اردوکا ارتقائی دوراور شعروسخن کا مختصر جائزہ‘،’روداد ِدل حزیں‘،’تصویر خیال ایک مطالعہ‘ اور ’وادی چناب کی ادبی انجمنیں اور ادارے‘وغیرہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔عشاق ؔکے ان نثری کارناموں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ موصوف ایک سنجیدہ اور کثیرالمطالعہ ادیب ہیں۔ ان کی طرز تحریر رویتی لیکن مسائل و معاملات کے اعتبار سے جدیدیت کے حامل ہے ۔ اس میں انبساط و تخلیقیت بھی پائی جاتی ہے اور تحقیقی و تنقیدی بصیرت بھی ۔مثال کے طور پر یہ چندنمونے دیکھے:

’’اسیر صاحب! حقیقت تو یوں ہے کہ شعر موزوں کرنا تو دور شعر پڑھنے کاسلیقہ اس ناچیز کو نصیب نہیں ۔یعنی

سنورنے میں نہیں آتا ہے اب تک فکرو فن اپنا

دریں صورت جو دعوائے ہنر کرتے تو کیا کرتے

البتہ اتنا ضرور ہے کہ حضرت نشاطؔ کشتواڑی کے خاک پاکی صحبت کا فیض نصیب ہوا ہے۔ذوق مطالعہ شعروسخن رکھتا ہوں(اسیر کشتواڑی،ضلع ڈوڈہ کی ادبی شناخت ۔ص:817)

اس طرح  ان کی نثر ی افتاد وصلاحیت کے تناظر میں ایک اقتباس اور ملاحظہ کیجیے:

’’   راقم السطور کو اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ چناب میں شعر و ادب کا مزاج عصرحاظر میں حسن و عشق کے ایوانوں سے نکل کر ایک نئی ڈگر پہ گامزن ہے اکثر شعر و ادباء حضرات اب روز مرہ  کے حا لات خواہ وہ عصری ہوں یا پھر سماجی،بھر پور انداز میں ان کے حوالے سے خامہ صرائی ہو رہی ہے ۔ان کے ذریں افکار میں اک اچھوتا شعور ،نئی حسن آفرینی ،معنوی لب و لہجہ ،نت نئی علامات کی وافر اپہج در آئی ہے ۔جو ان کی طبع شدہ تصا نیفات کے مطالہ سے بخوبی عیاں ہوتا ہے حدود وادی چناب تک ہی ان کی ادبی نگارشات کا دائرہ محدود نہیں ہے۔۔۔ ۔۔۔ اگر مبالغہ متصور نہ ہو تو راقم السطور بطو ر حوالہ یہ راقم کرنا چاہوں گا کہ میری شعری و نثری نگارشات ملک پاکستان کے شہر کراچی سے شا ئع ہونے والے سہہ ماہی مجلہـ  ـــــشاعریـــ  اور ماہنامہ چار سو روالپنڈی کے زریں اوراق پہ بھی پڑھیں جا سکتی ہیں ۔ ( شہاب عنایت ملک، ریاست جموں و کشمیر کی وادی چناب میں اردو زبان و ادب           ص:  367

مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ عشاق ایک اچھے سخن طراز کے علاوہ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں بالخصوص ان کے خطوط کا جہاں تک معاملہ ہے ان کی طرز نگارش بہت شائستہ اور عمدہ ہے مگر افسوس یہ کہ ان کے حوالے سے اب تک کوئی تحقیقی کام نہیں ہواہے اور عشاقؔ کے سینکڑوں خطوط ہنوز بکھرے پڑے ہیں۔جبکہ یہ عشاق کا وہ قلمی سرمایہ ہے جس میں نہ صرف ان کی ذاتی وادبی زندگی پوشیدہ ہے بلکہ ان میں عشاق کے قرب وجوار کے کئی تہذیبی ،تاریخی ،سیاسی ومعاشی حالات کی داستان بھی چھپی ہوئی ہے۔لہٰذا یہ حقیقت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اہلیان ادب کوعشاق ؔکی شاعری ک

ے ساتھ ساتھ ان کی نثرکی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے۔

بالآخر ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ عشاق کشتواڑی سرزمین جموںوکشمیر کے غیر مسلم میںہی نہیںاجتماعی تخلیق کاروںمیں ایک اہم،فعال اور معتبر اردو سپاہی کی شناخت رکھتے ہیں۔انھوں نے اردو شعروادب کی خدمت گزاری میں نہ صرف اپنا ایک طویل حصہ صرف کیاہے بلکہ ا پنی ذہانت و متانت کے زیراثر اسے کئی مضامین ،خطوط اور ہزاروں اشعار سے مالا مال بھی کیاہے ۔ ان کے ذہن و قلم سے اب تک جو بھی کارنامے سامنے آے ہیں نہایت کارآمد ،فکرانگیز اورتعمیری ثابت ہوئے ہیں ۔ موصوف کا قلم ابھی جاری و ساری ہے لہذا امید کی جاتی ہے کہ ان کی یہ ادبی فعالیت آگے بھی ِاردو کے چمن کو سینچتے رہے گی۔اس طرح راقم اپنا یہ مضمون عشاقؔکے اس شعر پر ختم کرتا ہے کہ:

                                  ہے عاشقانِ ریختہ سے ملتجی عشاق ؔ

                                  بچوں کو فرض جان کر اردو پڑھایئے  ؎

***

Leave a Reply