You are currently viewing جموں کشمیرمیں نسائی ادب کی علمبردار:فوزیہ نسیم مغل ضیاء

جموں کشمیرمیں نسائی ادب کی علمبردار:فوزیہ نسیم مغل ضیاء

رافیعہ مُحی الدین

 برنٹی اننت ناگ جموں کشمیر

جموں کشمیرمیں نسائی ادب کی علمبردار:فوزیہ نسیم مغل ضیاء

         جموں و کشمیر میں زمانہ قدیم سے ہی زبان وادب کے میدان میں خواتین قلم کار وں کا چرچہ رہا ہے۔ انہوں نے نہ صرف نثری ادب میں ہی اپنا لوہا منوالیا بلکہ وہ شعری ادب کے میدان میں بھی پیش پیش رہیں۔اس میدان میں وہ مرد شعراء کے شانہ بہ شانہ شاعری کے نت نئے موضوعات پر کام کرتی رہیں ۔ انہوں نے قدیم سماجی بندشوں سے نکل کر شاعری ادب میں آنے والی تبدیلیوں کو اپناتے ہوئے اپنی تخلیقات سے ایک مثال قائم کی۔ وہ اپنی شاعری میں نہ صرف آپ بیتی کا ذکر کرتی رہی بلکہ جموں کشمیر کی سماجی ،سیاسی ،اقتصادی اور قدرتی مناظر کو بھی شامل کیا ۔ شاعری کے اس افق پر فوزیہ نسیم مغل ضیاکا نام تاباں ہے۔

         فوزیہ نسیم مغل کا جنم ۱۰فروری ۱۹۶۷؁ء کو ضلع ڈوڈہ کے بھدرواہ تحصیل میں ہوا ۔ ان کے والد صاحب کا نام بشیر احمد مغل ہے۔ جو محکمہ جنگلات میں اسسٹنٹ کنزرویٹر کے عہدے سے ریٹائیڑ ہوگئے ۔ ان کی والدہ محترمہ کا نام نسیمہ بشیر مغل ہے۔ فوزیہ نسیم مغل کی شادی ۱۹۹۰؁ء میں ضلع ڈوڈہ کے بھلیسہ علاقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمود احمد بٹ سے ہوئی۔

         فوزیہ مغل نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے حاصل کرکے ۱۹۸۲؁ء میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول بھدرواہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۸۷ء ؁میں گورنمنٹ ڈگری کالج بھدرواہ سے بی۔اے پاس کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ۱۹۸۹؁ء میں سوشیولوجی میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۹۱؁ء میں بی۔ ایڈ ‘گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن’ سے پاس کیا۔ اس کے بعد ۲۰۰۱؁ء میں جموں یونیورسٹی سے ایم ۔ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔

         فوزیہ نسیم مغل کا تعلق وادئ چناب کے اس خاندان سے ہے جو کئی عرصہ سے ادب نواز رہے ہیں۔ فوزیہ مغل کی دادی مرحومہ مہتاب صمد مغل وادی چناب کی پہلی کشمیری صاحب دیوان شاعرہ مانی جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں جنی فوزیہ نسیم مغل کو شعرو ادب ورثے میں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ فوزیہ مغل نے جموں و کشمیر کے ادبی حلقوں میں اپنی ایک پہچان بنائی ہے۔ اس سلسلے میں وہ پہلے ادبی کنج جموں کے ساتھ بحثیت نائب صدر جڑ گئیں اور اسکے بعد ۲۰۲۱؁ء میں اس کو انجمن ترقی اردو جموں کے صدر کی حثیت سے منتخب کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ضیاء فونڈیشن جموں کی بانی صدر بھی بنی۔ ان کی ادبی اور انتظامی صلاحیتوں کے باعث یہ انجمن ادبی حلقوں میں مشہور ہورہی ہے۔ ان انجمنوں کے ساتھ جُڑ کرفوزیہ مغل نے جس دلیری اور حوصلہ مندی سے اردو ادب کی ترقی و ترویج کا م اپنے ذمے لیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔فوزیہ نسیم مغل کے اب تک تین شعری مجموعے‘‘ بکھرے لمحے’’،‘‘سلگھتے آنسو’’ اور ‘‘لب کشائی’’ شائع ہوچکے ہیں۔

          ‘‘بکھرے لمحے’’ فوزیہ نسیم مغل کا پہلا شاعری مجموعہ ہے جو سال ۲۰۱۸ء ؁ میں منظر عام پر آیا۔ ۱۶۵صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں غزلیات ، منظومات اور متفرق اشعار ملتے ہیں۔ مجموعے کا انتساب وادی ٔ چناب کی پہلی صاحب دیوان کشمیری شاعرہ مہتاب صمد مغل کے نام ہے۔ جو اتفاقاََ فوزیہ مغل کی دادی ہے اور جن سے فوزیہ مغل کو زبان و ادب کی محبت ورثے میں ملی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر یوں کہا جائے کہ فوزیہ مغل کے جذبات کو شاعری رنگ ان کی دادی سے ہی ملا ہے تو بے جانہ ہوگا۔

         فوزیہ مغل کی شاعری حقیقت پر مبنی ہے۔ اس میں ان کی زندگی کے تلخ مراحل بھی شامل ہے اور ان مراحل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کی قوت کا اظہار بھی ۔ ان کی شاعری کے متعلق جموں و کشمیر کے نامور شاعر اور ادیب عرش صہبائی کچھ اسطرح سے لکھتے ہیں:

‘‘‘بکھرے لمحے ’ پڑھنے کے بعد اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ اس کی خالق زندگی کے بڑے دشوار اور تلخ ترین مراحل سے گزری ہے۔ چونکہ ان کے دل میں خود اعتمادی کا جذبہ ہے۔ اس لئے وہ ان تلخ مراحل سے دل شکن نہیں ہوئیں اور وقت کا ہر ستم خندہ پیشانی سے برداشت کرتی رہیں ۔ ایک اچھی زندگی کرنے کے لیے یہ نہایت اہم ہے کہ انسان ہر مشکل سے سینہ سپر رہے۔’’(۱)

         ‘‘بکھرے لمحے ’’ میں کل۴۹ غزلیں ، ایک دعا ، چار قطعات، ۱۳نظمیں اور ۱۲۹متفرق اشعار شامل ہیں۔ ان کی شاعری پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فوزیہ نسیم مغل کو اردو زبان پر اچھی خاصی دسترس حاصل ہے۔ اور تعلیم و تدریس کے ساتھ جڑے رہنے سے ان کے اس فن میں مزید وسعت اور تقویت ملی ہے۔ فوزیہ مغل ایک مہذب شخصیت کی مالکن ہے جس کا سیدھا سیدھا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا ہے۔

         مجموعے میں شامل غزلیں فوزیہ مغل کی آپ بیتی ، جذبات اور نسوانی مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔فوزیہ سادہ اسلوب کی دلدادہ ہے اور موضوعات کی روانی ان کو پسند ہے ۔ یہی سادگی اور روانی انہوں نے اپنی غزلوں میں بروئے کار لاکر قارئین کی نبض کو قید کیا ہے۔ وہ حق بات کہنے سے گھبراتی نہیں اور حقیقت کے لباس میں ہی پیش کرتی ہے۔ اس بات کی تاکید وہ خود بھی مندرجہ ذیل اشعار میں کرتی ہے:

وہ کہتی ہوں کہ جو ہے حق پہ مبنی

کبھی جذبات میں بہتی نہیں ہوں

غلط باتوں پہ چپ رہتی نہیں ہوں

میں اپنے دل پہ یہ سہتی نہیں ہوں

جنہیں بھاتی نہیں اخلاقی قدریں

میں ایسے لوگوں میں رہتی نہیں ہوں (۲)

         فوزیہ مغل نے اپنی شاعری کے ذریعے عورت کے مزاج ، جذبات ، بہادری ، شکر گذاری اور قوت برداشت کی حسین الفاظ میں عکاسی کی ہے۔ وہ موجودہ دور کے حالات و مسائل سے پریشان ایک عورت کی رہبری کرتے ہوئے اسے راہ راست پر آنے کی تلقین کرتی ہے۔ وہ لکھتی ہے :

ناؤ کی شکل میں طوفاں میں بہاکرتی ہوں

باوجود اس کے میں شاداب رہا کرتی ہوں

سب کو تسکیں میسر ہو سکون بھی دل کا

دوسروں کے لیے ہر وقت دعا کرتی ہوں

وہ مصائب ہوں کہ آلام زمانے بھر کے

ایسی صورت میں بھی میں شکر خدا کرتا ہوں

مجھ کو اخلاص و محبت کا ملتا ہے جو صلا

اے ضیاء دیر تک میں اس پہ ہنسا کرتی ہوں (۳)

          فوزیہ مغل کی غزلوں میں آپ بیتی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اور ان میں زمانے سے دُکھی ایک عورت کی روداد شامل حال ہیں ۔ دکھوں اور مسائل کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ فوزیہ مغل پریشانیوں سے راحت ملنے کی امید وار ہے۔ ان کے مطابق زندگی ایک کشمکش کا نام ہے۔ اور اس کشمکش میں وہی انسان کامیاب و کامران ہے جو زندگی کی اصل حقیقت کو سمجھ پائے۔ وہ لکھتی ہے:

زندگی میں مشکلوں کے بعد ہے آسانیاں

راحتیں پاتا ہے دل غم سے گذرجانے کے بعد

زندگی ہو وقف جس کی دوسروں کے واسطے

زندہ رہتا ہے وہی انسان مرجانے کے بعد (۴)

         غزلوں کی طرح فوزیہ مغل نے نظموں میں بھی اپنے فن شاعری سے چار چاند لگایا ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں گردونواح کے حالات و اقعات سیاسی معاملات ، سماجی نقات اور گھر گرہستی کے معاملات کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے موجودہ دور کے رسومات کو تنقیدی نشانہ بناتے ہوئے سماج میں چلی آرہی بے راروی اور فرسودہ روایات کو منظر عام پر لانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ عورتوں کے حقوق پر قلم آزماتے ہوئے فوزیہ مغل نے ان بھائیوں کے تئیں احتجاج درج کیا ہے جو اپنی بہنوں کی حق تلفی کرکے ان کو وراثت سے بے دخل کرتے ہیں۔ انہوں نے ایسے سماجی نقطہ نظر کی کھلے عام تنقید کی ہے۔ فوزیہ مغل ایسی نہ جانے کتنی بہنوں کی اپنی شاعری کے ذریعے نمائندگی کرتی ہے۔ ان عورتوں کا درد فوزیہ کے دل اور روح کو کریدتا رہتا ہے۔اور اس درد کو انہوں نے پھر الفاظ کی صورت میں پوری دنیا کو دکھایا۔ایک نظم ‘‘بہن اپنے بھائی سے’’ میں فوزیہ مغل نے عورتوں کے مسائل کو اس طرح سے قلمبند کیا ہے:

تجھ کو ہر اک چیز حاصل تو کہ ہر لمحہ ہے شاد

کیا تیری خاطر ہے یہ مخصوص ساری جائداد

اپنے گھر میں رہ کے بھی ہیں دوریاں مجھ کو ملیں

روشنی تجھ کو ملیں تاریکیاں مجھ کو ملیں

تو نے قبضہ کر لیا ہر چیز پر میں کیا کہوں

گھر کی جائداد کی حق دار آخر میں بھی ہوں

گلستاں سارا ہے تیرا میرا اک تنکا نہیں

سخت حیرت ہے مرا اس میں کوئی حصّہ نہیں (۵)

         اس مجموعے کا باریکی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ فوزیہ نسیم ضیاء مغل ایک منفرد طبیعت کی مالکن ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ذاتی غم و اندوہے اور کرب و بلا کا جس انداز میں ذکر کیا ہے وہ قابل فکر بھی ہے اور قابل ذکر بھی۔ انہوں نے لفظ لفظ کو ذاتی تجربات سے سنگھارا ہے۔ ان کی شاعری میں استعارات کی فراوانی ملتی ہے ۔ سادہ اسلوب اور موضوعات کی روانی ان کی شاعری کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔ انہوں نے اپنے فن شاعری سے قارئین کو متاثر کیا ہے اور ادبی حلقوں میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔

         ‘‘سلگھتے آنسو’’ فوزیہ نسیم ضیاء مغل کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو ۲۰۱۸ء ؁ کو شائع ہوا۔ اس مجموعے کا انتساب فوزیہ مغل نے ‘‘ہر بیٹی کے نام جو آج بچی ہے یا جوان یا بوڑھی ہوچکی ہے ، زندہ ہے یا روزمحشر میں ہم سب سے ملنے والی ہے ’’ کیا ہے ۔ انتساب پڑھنے کے بعد ہی فوزیہ مغل کا عورتوں کے تئیں درد محسوس ہوتا ہے۔ وہ اپنے کلام کے ذریعے سماجی دلدل میں پھنسی ہر اس عورت کی روئداد سناتی ہے جس کے ہونٹوں پر سماجی تنگ نظری نے مہر ڈالی ہے۔

         سلگھتے آنسو میں غزلوں کے علاوہ متفرق اشعار بھی شامل ہیں۔ جن میں شاعرہ نے گردونواح کے مسائل کے ساتھ ساتھ عورتوں کے درپیش غم و اندوہے ، کرب و بلا ، دشواریوں ، الجھنوں کو ایک منفرد انداز میں قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مجموعے میں شامل شاعری ان عورتوں کی نمائندگی کرتی ہے جو سماجی فرسودہ روایات ، گھر گرہستی کے تلاطم میں ڈوب رہی ہیں۔وہ ایک ایسی لاچار عورت کا ذکر کرتی ہے جو ہر دم اور ہر پل ایک چارہ گھر کی تلاش میں رہتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک ایسا اثر ہے جو قارئین کے دل و دماغ پر حاوی ہوکر اپنی اور کھینچتی ہے۔ وہ لکھتی ہے:

بھول کر یہ خطا کرے گا کون

ساتھ میرے وفا کرے گا کون

لوگ اپنا بھلا نہیں کرتے

دوسروں کا بھلا کرے گا کون

کون میر اشریک غم ہوگا

اس قدر حوصلہ کرے گا کون

اے ضیاء انتظار ہے مجھ کو

اپنا وعدہ وفا کرے گا کون (۶)

         ‘‘سلگھتے آنسو’’ فوزیہ مغل کے شاعری فن کی ایک اعلیٰ مثال ہے ۔ انہوں نے سادہ اسلوب کا سہارا لے کر بحور کو جس قدر روانی بخشی ہے وہ قابل داد ہے۔ انہوں نے شعر لکھتے وقت پر اعتمادی سے کام لیا ہے۔‘‘سلگھتے آنسو’’ کی شاعری ایک عورت کے جذبات کے گرد گھومتی ہے۔ ان کی شاعری کا دل سے ایک گہرا تعلق ہوتاہے۔ اگر چہ اشعار سادہ زبان میں لکھے گئے ہیں لیکن دل کی تاروں کو چھولیتے ہیں۔ فوزیہ مغل عورتوں کی وفاداری، ہمت و استقلال اور قوت برداشت کی ترجمانی کرتی ہے۔ سماج کی فرسودہ روایات پر تنقید سادھتے ہوئے وہ عورت ذات کو خالق کی بنائی ہوئی نڈر اور بہادر مخلوق ٹھہراتی ہے۔ وہ لکھتی ہے:

ہم مصائب سے کٹ نہ پائیں گے

غم کے بادل یہ چھٹ نہ پائیں گے

میں نے مانا مشکلیں ہے ہر قدم

پھر بھی تم عزم و عمل سے کام لو (۷)

         ان کی شاعری ان تمام مسائل کی عکاسی ہے جو موجودہ دور میں ایک عورت اپنی پہچان کو مستحکم رکھنے کی خاطر جھیل رہی ہے۔ فوزیہ نسیم ضیاء مغل نیاپنی شاعری کو حقیقت سے سنگھارا ہے اور اس میں سماج کے ہر اس گوشے کا تذکرہ ہے جہاں پر ایک عورت اپنے آپ کو بے بس اور لاچار محسوس کرتی ہے۔

         فوزیہ نسیم ضیاء مغل کا تیسرے مجموعے میں خالص نثری نظمیں شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ۲۰۱۹ء ؁ میں ‘‘لب کشائی’’ کے نام سے منظر عام پر آیا ۔ اس مجموعے کا انتساب فوزیہ مغل نے ‘اپنے والدین کے نام ’کیا ہے۔نظموں میں فوزیہ مغل نے گردونواح کے حالات و واقعات ، ذاتی و سماجی معاملات ، نسوانی حقوق اور عورت کے درپیش مسائل کو قارئین تک پہنچانے کی اک حسین کوشش کی ہے۔ اس مجموعے میں فوزیہ مغل نے کہیں نہ کہیں نسوانیت کو ہی محور بنایا ہے۔ ان کی اکثر نظموں میں اس عورت کا ذکر ہے جو مردوں کی زیادتیوں اور حقوق کی پامالیوں کا سامنا کررہی ہے۔ فوزیہ مغل نے ایسی سماجی فرسودہ روایات کو حدف تنقید بناتے ہوئے سماج کی ایک تلخ حقیقت کو منظر عام پر لایا ہے۔ اپنی ایک نظم ‘‘ اے بھارتیہ مرد’’ میں اپنے سماج کی تصویر کشی کچھ اس طرح سے کی ہے:

کاش میں گائے ہوتی

تمہاری بیٹی نہ ہوتی

بہن نہ ہوتی

بیوی نہ ہوتی

ماں نہ ہوتی

کیا پایا بیٹی بن کر میں نے ؟

بس تمہاری نفرت اور پابندیاں

کیا پایا بہن بن کر ؟

بس میرے باپ کا گھر چھیننے والا

مجھے بے گھر کرنے والا

کیا پایا بیوی بن کر ؟

ایک نوکرانی اور ایک مشین جو بچے بھی پیدا کرتی ہیں (۸)

         فوزیہ نسیم ضیاء مغل نے عورت کی بے بسی اور لاچاری کو اپنی نثری نظموں میں ایک منفرد انداز میں ظاہر کیا ہے۔ وہ ایک ایسی عورت کی رہنمائی میں اشعار لکھتی ہے جو سماج کی فرسودہ روایات اور قید و بند کی کیفیات کو جھیلتی رہتی ہے ۔ وہ لکھتی ہے:

دودھ پلانے والے جانوروں میں

میں سب سے سستی ہوں

کیونکہ

میرد دام تم نے لگائے

میں دودھ پلانے والی سب سے سستی مخلوق

کبھی اپنے دودھ کے دام وصول نہیں کرسکتی

میرے وجود کی قربانی لینا کوئی تم سے سیکھیں ۔۔۔ (۹)

          فوزیہ مغل نے اپنی شاعری کے ذریعے عورتوں کی رو داد اور ان کے تئیں سماجی کیفیات کو منظر عام پر لاکر عورتوں کے حقوق کی وکالت کی ہے۔ انہوں نے نثری نظموں کا سہارا لیتے ہوئے سماج کے جن نقاد کی نشاندہی کی ہے وہ شاید کسی اور طریقے سے نہ ہو پاتی۔ انہوں نے اپنے فن اور صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے قارئین کی سوچ کو عورتوں کے درپیش مسائل کے تئیں پھیرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ‘‘لب کشائی’’ ان خاموش لبوں کو آواز بخشتا ہے جو سماج کی فرسودہ روایات اور اخلاقی پامالیوں کی کیفیات سے بند پڑے ہیں ۔

         اس کے علاوہ فوزیہ نسیم مغل کی دو اور تصنیفات ‘‘ بنات مشرق نقش پا’’ اور ‘‘بنات مشرق سرگوشیاں’’ منظر عام پر آچکی ہیں۔ یہ کتابیں صرف اور صرف نسوانی مسائل پر مبنی ہے۔ ‘‘بنات مشرق نقش پا’’ ۱۳۶ صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہے جس میں مصنفہ نے عورت کے جذبات اور ان کے درپیش مسائل کا بخوبی جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے وہ سب پیش کیا ہے جس کو وہ شاعری کے سانچے میں ڈال نہ سکی۔ کتاب کا آغاز فوزیہ مغل نے اس شعر سے کیا ہے:

میرے دل پر حکومت کرنے والے

میرے ذہن سے اپنا قبضہ ہٹا دے

جس سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ مصنفہ کے لکھنے کا مزاج کس قدر تٗند ہے۔ وہ ان عورتوں کی نمائندگی کرتی ہے جو سماجی فرسودہ روایات گھر گرہستی کے مسائل اور قید و بندی کی کیفیات سے جھونج رہی ہیں۔ مصنفہ نے شاعری کی طرح اس کتاب میں بھی مرد ذات کی فرضی برتری کو ہدف تنقید بناکر قارئین کے سامنے سماج کی تلخ حقیقت کو سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘جنم’’ میں فوزیہ مغل ان احساسات کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح سے لکھتی ہے:

‘‘اے عورت کے لباس پر انگلی اٹھانے والے آدمی اگر تیری آنکھ پاک ہوتی تو کیوںاٹھتی

تیری نظر میری چھاتی کی طرف ۔ تیری ماں نے بھی تو تجھے اسی چھاتی سے دودھ پلایا ہے اور تیری بہن اور بیٹی بھی اپنی چھاتی سے ہی دودھ پلاتی ہے۔’’ (۱۰)

         نسوانی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے فوزیہ مغل نے جس دلیری اور جرأت مندی سے کام لیا ہے وہ شائد ایک مرد قلم کار کے لیے بھی دشوار ہوتا۔ اس نے عورت ذات کے جذبات اور احساسات کی ایک غیر جانب دارانہ عکاسی کی ہے۔

         اسی طرح سے ‘‘بنات مشرق سرگوشیاں’’ میں فوزیہ مغل نے نڈر انداز میں عورتوں کی ترجمانی کی ہے۔ فوزیہ مغل نے اس کتاب میں ایک ایسی عورت کا ہاتھ تھاما ہے جس کو سماج حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے ۔ ایک ایسی عورت جو ظلم و ستم کا پیکر بن کر ہر درد خاموشی سے جھیلتی ہے۔ فوزیہ مغل کے لفظ لفظ میں درد بھرا ہوا ہے اور یہ درد نہ صرف لفظوں تک محدود ہے بلکہ قارئین کے دل میں بھی پیوست ہوتا ہے۔

          الغرض فوزیہ مغل جموں کشمیر کے ابھرتے ادبی کہکشاں کی ایک ایسی ضیاء کی مانند ہے جس کی تپش سے ادبی دنیا میں ہل چل مچ گئی ہے۔ ان کی شاعری میں جرأت مندی ، دلیری اور بے خوفی کے جذبات عیاں ہے۔ انہوں نے جس انداز سے ایک بے بس لاچار عورت کی ترجمانی کی ہے وہ قابل تحسین ہے۔

حواشی:

۱۔‘‘ بکھرے لمحے ’’ فوزیہ نسیم مغل ضیاء صفحہ نمبر ۱۰

۲۔‘‘ بکھرے لمحے ’’ فوزیہ نسیم مغل ضیاء صفحہ نمبر ۳۵۔۳۴

۳۔‘‘ بکھرے لمحے ’’ فوزیہ نسیم مغل ضیاء صفحہ نمبر ۴۷

۴۔‘‘ بکھرے لمحے ’’ فوزیہ نسیم مغل ضیاء صفحہ نمبر ۶۱

۵۔‘‘ بکھرے لمحے ’’ فوزیہ نسیم مغل ضیاء صفحہ نمبر ۱۱۳۱۰۔۱۱۲

۶۔ ‘‘سلگھتے آنسو’’ فوزیہ نسیم مغل ضیاء صفحہ نمبر ۱۲۔۱۱

۷۔ ‘‘سلگھتے آنسو’’ فوزیہ نسیم مغل ضیاء صفحہ نمبر ۱۵۲

۸۔ ‘‘لب کشائی ’’ فوزیہ نسیم مغل ضیاء صفحہ نمبر ۳۱

۹۔ ‘‘لب کشائی ’’ فوزیہ نسیم مغل ضیاء صفحہ نمبر ۴۴۔۴۲

۱۰۔ ‘‘بنات مشرق نقش پا’’ فوزیہ نسیم ضیاء مغل صفحہ نمبر ۲۳

RAFIAYA MOHI UD DIN

BRINTY ANANTNAG JAMMU KASHMIR

email: rafiayaur90@gmail.com

Leave a Reply