محمد نوید رضا
جھیلوں کے شہر اودیپور کا سفر
سفر محض نقل و حرکت کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک تجربہ، ایک دریافت اور ایک اندرونی انقلاب کی صورت رکھتا ہے۔ بعض اوقات منزل سے زیادہ، راستے ہمیں بدل دیتے ہیں، اور راستوں میں ملنے والے لوگ، مناظر اور واقعات ہمارے شعور کی پرتیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی تجربہ ہمیں ’’جھیلوں کے شہر‘‘ اُدے پور کے سفر میں ہوا، جہاں ایک علمی و فکری جستجو ہمیں کھینچ کر لے گئی۔ مقصد تھا شرمجیوی کالج میں منعقد ہونے والے دو روزہ قومی سیمینار میں شرکت کرنے کا ،جس کا موضوع “دلت ادب” تھا۔
ہماری ٹرین کو 22 جنوری 2025 کی شام 06:25 پر حضرت نظام الدین کی بارگاہ سے فیض یاب ہوکر اودیسنگھ کے دربار کے لئے روانہ ہونا تھا۔ میں اور میرے دو ساتھی جن میں سے ایک ہمیں “الوداع” کرنے کے لئے اور دوسرے سفر کے ہمراہی کی حیثیت سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن کے لئے گاڑی سے روانہ ہوئے۔چونکہ میرے دونوں ساتھی حساس طبیعت اور متحرک ذہنیت کے مالک تھے، اس لئے ہم وقت مقررہ سے تقریباً 30 منٹ قبل ریلوے اسٹیشن پہونچ گئے۔ چنانچہ اس پیشگی آمد اور چائے کے خوشگوار موسم کی دلکش آمیزش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں ایک غیر متوقع، نہایت خوش ذائقہ چائے سے لطف اندوز ہوئے۔
رخصت کرنے والے ساتھی نے اپنی مخلصانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے توشہ سفر دیکر رخصت کیا۔ (جس میں نہ صرف غذائیت بلکہ بے لوث خلوص بھی شامل تھا۔ دورانِ سفر جب جب اس میں سے کچھ تناول کیا، ان کی محبت کا ذائقہ بھی ساتھ محسوس ہوتا رہا۔)
ہم دونوں راہی اپنی اپنی نشستوں پر جا بیٹھے، مگر شب بھر نیند کا آنا محال رہا کہ کچھ مسافروں نے خراٹے لینے کی ذمہ داری اس قدر سنجیدگی سے نبھائی کہ ایک خاموش ہوتا، تو دوسرا بیدار ہو کر اپنے فرائض کی تعمیل میں لگ جاتا ۔ مزید برآں، ایک مسافر نشے میں دھت تھا اور وقتاً فوقتاً عجیب و غریب آوازیں نکال کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہا۔ ایسے میں قرآن کی آیت کریمہ “إِنَّ أَنكَرَ ٱلْأَصْوَٰتِ لَصَوْتُ ٱلْحَمِيرِ”(سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے) ذہن میں گونجتی رہی۔
اس سفر میں پہلی بار حدیث نبوی ” السفر قطعۃ من العذاب”(سفر عذاب کا ایک حصہ ہے) کا مفہوم حقیقی معنوں میں مجسم محسوس ہوا۔ اور اس حدیث کی مختلف معنوی پرتیں بھی کھل کر سامنے آئیں۔ اگر کسی نے فی الفور اس حدیث کی تشریح کرنے کو کہا ہوتا، تو کم از کم آدھے گھنٹے تک سفر کی صعوبتوں کا تذکرہ یا اس حدیث کی تشریح کی جا سکتی تھی۔ بقول راہی معصوم رضا سفر کی حالت اس رات کچھ یوں تھی کہ
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی
ٹرین نے 30 منٹ کی تاخیر سے اودیپور سٹی ریلوے اسٹیشن چھوڑا۔ صبح سورج کی کرنوں نے ہمارے استقبال میں زمین پر سنہری چادر بچھا ئی اور جھیلوں ، پہاڑوں اور قدیم عمارتوں سے ہمیں متعارف کرایا ۔ اودے پور کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالیں تو اس بابت مؤرخین کا اختلاف ہے کہ اس شہر کو کب اور کس نے بسایا؟ لیکن عام رائے یہی ہے کہ اس کو مہارانا ادیسنگھ نے 1559 عیسوی میں آباد کیا۔مغلوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیشِ نظر، انہوں نے چتورگڑھ چھوڑ کر یہاں ایک نئی ریاست قائم کی، جو آج اودے پور کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بعد میں، یہ شہر میواڑ سلطنت کا دارالحکومت بنا ۔ یہاں کی ثقافت میں مارواڑی ، میواڑی اور راجپوتی روایات کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی مہمان نوازی، روایتی لباس اور لوک موسیقی کے لیے مشہور ہیں۔ مرد اکثر راجپوتی پگڑی اور دھوتی-کرتا پہنتے ہیں، جب کہ خواتین گھاگھرا،چولی اور رنگ برنگے زیورات زیب تن کرتی ہیں۔
ہم اپنے میزبانوں سے رات ہی سے رابطے میں تھے، چنانچہ انہوں نے اسٹیشن پر پہونچنے سے قبل ہی ہمارے استقبال کے لئے گاڑی بھیجوا دی، مگر اسٹیشن پر ٹیکسی ڈرائیورز کے بار بار “محبت بھرے استفسار” کے باعث فرستادہ گاڑی کے ڈرائیور سے اپنی شناخت کرانے میں کچھ وقت لگ گیا۔بالآخر ہم 20-25 منٹ میں اپنی قیام گاہ موسوم بہ “فتح ولا ” ہوٹل پہونچے،جو فتح ساغر جھیل کے عقب میں واقع ہے۔ ہمارے مشفق و فکر مند استاد پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین صاحب پہلے سے ہی وہاں موجود، رات کی تھکاوٹ سے چور ،ہماری آمد کے منتظر تھے۔گاہے بہ گاہے فون پر بھی ہماری خیریت دریافت فرماتے رہے۔(اللہ تمام طلبہ کو ایسے مشفق و ہمدرد اساتذہ سے نوازے آمین)
رات کی تھکاوٹ، صبح ہماری فکر میں جلدی اٹھنے کی وجہ سے ان کی طبیعت کچھ ناساز ہو گئی تھی، جس کو بار بار آپ چھپانے کی سعی فرماتے رہے لیکن آپ کی بیٹھی آواز، نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے طبیعت کی نا سازی اور تھکاوٹ کی شہادت دیتی رہی۔
ہم نے کچھ دیر “فتح ولا ہوٹل” میں آرام کیا، جس میں ہر ایک فرد کے لئے ایک خوبصورت سا روم مختص تھا،اور ہر طرح کی سہولیات میسر تھیں۔رات بھر جاگنے اور سفر کی تھکن کے باوجود ہم نے جلد ہی خود کو تازہ دم کیا۔مقالہ کی بابت کچھ استفسار اور اس کے چیدہ چیدہ مقامات دکھانے کے لئے ہم لوگ سر کی قیام گاہ پر حاضر ہوئے۔سر نے از خود چائے بنا کر ہم دونوں ساتھیوں کو بڑی شفقت و محبت سے پلائی۔ بعد ازاں سر کے ہمراہ گراؤنڈ فلور پر ناشتے کی میز پر جا بیٹھے اور سب نے ایک ساتھ ناشتہ نوش کیا۔گاڑی ہمیں منزل پر لے جانے کے لئے منتظر کھڑی تھی۔تقریباً 10 منٹ میں شرمجیوی کالج پہونچے جہاں ’’دلت ادب‘‘ پر سیمنار منعقد کیا گیا تھا۔ سیمنار کے منتظمین، خاص طور سےہماری میزبان پروفیسر ثروت خان صاحبہ نے نہایت محبت و خلوص سے ہمارا استقبال کیا اور اپنی اس ادبی ممتا کے تحت جو ان کے سینے میں تمام طلبہ کے تئیں موجزن رہتی ہے ہمیں گلے لگایا۔کالج کی دیرینہ روایت کو بر قرار رکھتے ہوئے پروفیسر صاحبہ نے مہمانوں کے لئے خصوصی ناشتہ پیش کیا، جو راجستھانی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار تھا۔ چناچہ اس طرح ہمیں دوبارہ ناشتہ کرنے کا موقع ملا۔بعدہ ہم لوگ اجلاس گاہ پہونچے جہاں افتتاحی تقریب کا آغاز پروفیسر خواجہ اکرام سر کے دست اقدس سے شمع روشن کر کے ہوا،جس کے بعد با ضابطہ افتتاحی اجلاس شروع ہوا۔اس دو روزہ قومی سیمینار میں بالخصوص ہندی اور اردو ادب کے تناظر میں دلت ادب پر بیش قیمتی مقالات پیش کئے گئے جن میں بالعموم دیگر زبانوں کے ادبی پہلو بھی زیر بحث آئے۔
اس پروگرام کا کلیدی خطبہ پروفیسر خواجہ اکرام سر نے پیش کیا جس میں تمام بنیادی نکات کا احاطہ کرتے ہوئے موضوع کا نچوڑ پیش کر دیا ۔ پہلا دن مقالہ خوانی، فکری مباحث اور تبادلہ خیالات میں بسر ہوا، جس میں خاکسار کو بھی “اردو افسانوں میں دلت مسائل کی عکاسی” پر لب کشائی کرنے کا موقع نصیب ہوا۔
رات بھر کی بیداری اور دن بھر کی مصروفیت کے باعث جسم و جاں پر بوجھ اور اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگی۔ استاد، کہ شاگرد کی حالت کو نباض کی مانند بھانپ لیتا ہے، پروفیسر خواجہ اکرام سر نے سیمینار کے بعد سیر و تفریح کا منصوبہ بنایا اور ہم سب نے مل کر ’’فتح ساغر‘‘ جھیل کا رخ کیا، جس کو تاریخی حوالوں کے مطابق، ابتدا میں مہارانا جے سنگھ نے تعمیر کرایا تھا، مگر ایک شدید سیلاب نے اسے تباہ کر دیا تھا۔ بعد میں مہارانا فتح سنگھ نے اسے ازسرِ نو تعمیر کرایا، اور آج یہ اُدے پور کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
جھیل کے درمیان واقع نہرو گارڈن، سبزے اور پانی کے حسین امتزاج کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ کشتی کے ذریعے جھیل کی سیر کرتے ہوئے نظارے اس قدر دلکش محسوس ہوئے کہ رات کی جاگی ہوئی آنکھیں اور دن بھر کی تھکن یکسر ختم ہو گئی۔ سورج کے غروب ہونے سے کچھ قبل، پہاڑوں پر بنی قدیم عمارتیں، پانی میں جھلملاتے عکس اور نرم ہوا کے جھونکوں نے ایک مسحور کن سماں باندھ دیا۔
“فتح ساغر “جھیل کی سیر کے بعد ہم سب نے چائے نوشی کی۔ بعد ازاں کہ اب مغرب کے بعد کا وقت ہوا چاہتا تھا پورا علاقہ لائٹ سے جگمگا نے لگا،ہم لوگ ’’پِچھولا جھیل‘‘ کے لئے روانہ ہوئے ۔’’ پچھولا جھیل‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اُدے پور کی سب سے قدیم جھیل ہے اور مہارانا لاکھا کے دور حکومت میں ایک بنجارے کے ذریعے تعمیر کرائی گئی تھی۔ اس میں دو جزیرے بھی ہیں، جن میں سے ایک پر “لیک پیلس ہوٹل” اور دوسرے پر “جگ مندر” موجود ہے۔پچھولا جھیل کی سیر کے دوران ہماری نگاہیں ایک خاص مقام پر جا ٹھہریں، جسے مقامی لوگ “نَٹنی کا چبوترہ” کہتے ہیں۔ یہ چبوترہ جھیل کے وسط میں واقع ایک سنگی ساخت ہے، جو نہ صرف قدرتی حسن کا حصہ ہے بلکہ ایک قدیم، دل سوز اور رومانی داستان کا امین بھی ہے۔
روایت کے مطابق، بہت زمانہ پہلے میواڑ کے ایک رانا کے دربار میں دور دور سے فنکار اور بازی گر اپنے کرتب دکھانے آیا کرتے تھے۔ انہی دنوں ایک نٹ خاندان بھی شہر آیا، جس کی ایک بیٹی “گَلکی” نہایت حسین، فن کی ماہر اور بے حد خوددار تھی۔ گَلکی رسی پر اس مہارت سے رقص کرتی تھی کہ بڑے بڑے امرا حیرت زدہ رہ جاتے۔جب اس کا چرچا رانا کے دربار تک پہنچا تو اسے بلاوا بھیج کر بلایا گیا۔ رانا نے اس کے نازک جسم کو دیکھ کر طنزاً کہا:
“اتنے نازک بدن کے ساتھ تم بھلا کیسے رقص کر سکتی ہو؟”
گَلکی نے غیرت اور فن کا بھرم رکھتے ہوئے جواب دیا:
“مائی باپ! آپ نے آج تک بند محلوں میں ناچ دیکھا ہے، کھلے آسمان تلے، پانی پر تنی رسی پر ہمارا رقص دیکھیں گے تو یقین آ جائے گا۔”
رانا نے اسے چیلنج دیا کہ اگر وہ پچھولا جھیل پر تنی ہوئی رسی پر تلوار لیے رقص کرتے ہوئے پار ہو گئی، تو اسے میواڑ کا آدھا راج دے دیا جائے گا۔رقص کا دن آیا۔ گَلکی نے سُرخ لباس پہنا، سنہری چولی زیب تن کی، تلوار دانتوں میں دبائی اور جھیل پر بندھی رسی پر چڑھ گئی۔ حاضرین دم سادھے تماشہ دیکھ رہے تھے۔جب گلکی نے آدھی جھیل عبور کر لی، تو درباریوں کو یقین ہو گیا کہ وہ یہ کارنامہ مکمل کر لے گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ راجہ کی اعلان کے مطابق، گلکی کو “آدھا میواڑ” ملے گا۔گلکی جو ایک نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھی جس کا پیشہ تماشہ دکھانا تھا۔ درباری، جو اعلیٰ ذاتوں اور اشرافیہ میں شامل تھے، یہ کسی طور گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ ایک نچلی ذات کی عورت ان کے برابر یا ان پر حاکم بن جائے۔چنانچہ جیسے ہی وہ اگلے قدم کے لیے آگے بڑھی، درباریوں میں سے کسی نے رسی کا دوسرا سرا کاٹ دیا، اور وہ نٹنی جھیل کی گہرائیوں میں ڈوب گئی۔ اس کی بہادری، فن، اور مظلومیت کی یہ داستان ہمیشہ کے لیے اس چبوترے میں محفوظ ہو گئی۔یہ چبوترہ آج بھی پچھولا جھیل کے پُراسرار اور دل نشین مناظر میں ایک خاموش گواہ کی صورت موجود ہے۔ ایک معمولی سا سنگی مقام، جو ایک غیر معمولی فنکارہ کی قربانی کی گواہی دیتا ہے۔ وہ چبوترہ نہ صرف فن، عزت اور خودداری کی علامت ہے بلکہ مظلوم عورت کے ساتھ ہوئے دھوکے اور ظلم کی خاموش داستان بھی۔جب ہم کشتی میں بیٹھ کر اس چبوترے کے قریب پہنچے تو پانی کی لہریں جیسے گَلکی کے وجود کو چُھو رہی ہوں، اور شام کی سنہری روشنی میں چبوترہ ہمیں دعوتِ فکر دے رہا تھا کہ آج بھی کئی گَلکیاں اپنے فن، حق اور خودداری کی قیمت چکا رہی ہیں صرف اس لیے کہ وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ پچھولہ جھیل کی سیر کرنے کے بعد ہم لوگوں نے “شاہی باغ” ہوٹل کا رخ کیا جہاں ہمیں عشائیہ کے لئے مدعو کیا گیا تھا، عشائیہ پر گفتگو کرنے سے قبل میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ادبی سیمینار درحقیقت پروفیسر ثروت خان 0صاحبہ کے شاگردوں نے ان کی سالگرہ کے موقع پر منعقد کیا تھا، جس سے ان طلبہ کا ادبی ذوق و شوق اور ان کی فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ میم کی تربیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔میری ان طلبہ سے بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں میم اس بات پر آمادہ نہ تھیں، مگر مسلسل دو ہفتے کے اصرار کے بعد، انہیں راضی کرنے میں ہم کامیاب ہو گئے۔
میں اس مقام پر میم کا مختصر سا تعارف کرانا مناسب سمجھتا ہوں۔ میم اردو ادب کی مایہ ناز فکشن نگار، ادبی افق کا ایک درخشاں ستارہ ہیں جن کے سینے میں اردو طلبہ کے تئیں بے پناہ محبت اور شفقت موجزن ہے۔ وہ نہ صرف اردو طلبہ کو اپنی ادبی اولاد تصور کرتی ہیں بلکہ عملی طور پر ان کے لیے مخلص، متحرک، فعال اور رہنما بھی ہیں۔آپ بالعموم پورے راجستھان اور بالخصوص اُدے پور میں اردو ادب کی شمع فروزاں کیے ہوئے ہیں، آپ نے نہ جانے کتنے راہیان علم و ادب کو علمی روشنی سے راہ یاب کیا ،اور آج بھی تشنگانِ علم و ادب کو چشمہ علم و آگہی سے سیراب کرنے کا عمل جاری و ساری ہے۔آپ کی متعدد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں ’’ کڑوے کریلے (ناول) اور ذروں کی حرارت (افسانوی مجموعہ) اردو دنیا میں غیر معمولی پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔ آپ بیک وقت فکشن نگار،تنقید نگار ،شاعرہ اور موسیقار کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتی ہیں۔آپ نے مذکورہ بالا تمام صفات کا ثبوت اس سیمنار میں عملی طور پر پیش کیا۔
سالگرہ کی تقریب”شاہی باغ” نامی ایک شاندار ہوٹل میں جو فتح ساغر جھیل کے کنارے واقع ہے ،میم کے طلبہ کی جانب سے منعقد کی گئی،جس میں باہر سے آئے تمام مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔اودے پور میں مارواڑی اور راجستھانی لوک رقص خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں “گھومر” اور “کالبیلیا” جیسے روایتی رقص عام ہیں، جو شادی بیاہ اور خوشی کے مواقع پر پیش کیے جاتے ہیں۔ اکثر ہوٹلوں اور ثقافتی مراکز میں سیاحوں کے لیے راجستھانی لوک موسیقی کے ساتھ یہ رقص پیش کیے جاتے ہیں۔چنانچہ ہمیں بھی موسیقی کے ساتھ اس رقص سے محظوظ ہونے کا موقع ملا جو راجستھانی تہذیب و ثقافت کا آئنہ دار تھا۔
ہوٹل کے بالا خانہ سے جھیل کا منظر طلسماتی معلوم ہو رہا تھا۔جس کی کئی تصاویر میرے ساتھیوں نے اپنے کیمروں میں قید کیں۔ شام کو جگمگاتی روشنیوں، خوش ذائقہ کھانوں اور اساتذہ کی عالمانہ گفتگو کے درمیان ایک حسین شام بسر ہوئی، اور یوں ہمارے سفر کا پہلا دن اختتام پزیر ہوا۔
دوسرے دن بھی حسبِ معمول سیمینار کی نشستوں میں شرکت کی۔ اس دن خاص طور پر ہندی ساہتیہ میں دلت ادب پر روشنی ڈالی گئی۔ کئی اہم اور پر مغز مقالات پیش کیے گئے، جنہوں نے ہمارے علمی افق کو مزید وسعت بخشی۔
چونکہ ہماری ٹرین 24 جنوری 2025 کی شام 6:30 پر روانہ ہونے والی تھی، لہٰذا سیمینار کے بعد تمام احباب سے وداع لے کر ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ واپسی کے سفر میں خوش قسمتی سے ہمسفر نہایت شائستہ اور مہذب ملے، جس کی وجہ سے سفر نہایت آرام دہ اور خوشگوار گزرا۔ اچھے پڑوسی کی اہمیت پر کافی باتیں ذہن میں آئیں جن کو یہاں بیان کرنا مناسب نہیں کہ ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد۔
وقتِ مقرر ہ سے 30 منٹ کی تاخیر کے بعد، ٹرین ہمیں حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن لے آئی، جہاں سے کار کے ذریعے ہم جواہر لال نہرو یونیورسٹی واپس پہنچے اور معمولاتِ زندگی پھر سے شروع ہو گئے۔یہ سفر نہ صرف علمی و ادبی تجربات سے بھرپور تھا، بلکہ اُدے پور کی قدرتی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت نے بھی اسے یادگار بنا دیا۔
***
محمد نوید رضا،جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
25 جنوری 2025
Contact No. 8755447667
Email. navedraza2991.nr@gmail.com