جاوید رسول
سری نگر، کشمیر
حالی تھیوری اتنی غیر اہم کیوں؟
ظاہر ہے حالی کی تھیوری کے پیچھے سرسید کے زیر اثر پروان چڑھنے والا سماجی و سیاسی شعور کارفرما تھا، اس لیے ان کی تھیوری میں مقصدیت کو مرکزیت حاصل رہی اور شاید یہی وجہ رہی کہ حالی کی تھیوری میں ہر جدید نقاد کو قطعیت اور مقصدیت کا احساس ہوا۔لیکن اس احساس سے زیادہ تر وہی جدیدیےخائف ہوئے جنہیں ادیب کی آزادی سے پیار تھا۔ان کا ماننا تھا کہ ادب عصری مسائل کے اظہار کے لیے ہرگز ذمہ دار نہیں ہوتا اور نہ ہی ادب کا یہ تفاعل ہے کہ اس میں عصری حقائق کا بیان ہو۔چلیے مان لیتے ہیں کہ ادب ان سب چیزوں کے لیے نہیں بنا لیکن پھر ادبی مواد Content کی حیثیت کیا ہوگی؟اگر ہمارے ناولوں کی تھیم اور شعری موضوعات کا ہمارے عہد سے کوئ تعلق نہیں تو پھر کیونکر کسی نظم یا ناول میں عصری حسیت کو تلاشا جائے؟دراصل ہم لوگوں نے لفظ ذمہ داری کی تفہیم غلط طرح سے کی ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ذمہ داری سے مراد نعرہ بازی ہوتی ہے جیسے ترقی پسندوں نے کی، مگر ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اگر ہم مابعد جدید نقطئہ نظر سے دیکھیں تو ذمہ داری سے مراد وہی عصری شعور ہے جو ایک تخلیق کار کو کوئ ثقافتی مکالمہ قائم کرنے میں معاون ہوتا ہے۔حالی نے خود اسی عصری شعور کے تحت ادبی ڈسکورس کو بدلنے کی بات کی تھی۔ظاہر ہے اس عہد کا سیاسی و ثقافتی منظرنامہ جدت کا متقاضی تھا اور اگر حالی تھیوری کے ذریعے اس جدت کو پروپوگیٹ نہیں کرتے تو شاید ہمیں عصری شعور کی ضرورت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں ابھی بہت وقت لگتا۔پھر حالی نے شعر اور شاعر کے لیے جن چیزوں کا ہونا لازمی قرار دیا تھا ان میں سے کچھ کی ضرورت تو ایک ادبی معاشرے میں ہمیشہ محسوس کی جائے گی، جیسے تخیل، مطالعئہ کائنات اور تفحص الفاظ۔ان تینوں کا ہونا صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک ادیب کے لیے بھی ازحد لازمی ہے۔آپ دیکھ رہے ہونگے کہ نئ نسل کوئ موثر بیانیہ خلق کرنے میں ناکام ہورہی ہے اور شاعری بھی اب اس درجے کی نہیں ہورہی جس میں کثرت معنی کی گنجائش ہو۔یہ سب ممکن تھا اگر ہمارے نقادوں نے حالی کی تھیوری کی اہمیت اور معنویت پر زور دیا ہوتا۔
ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے کہ حالی پر ابھی تک جتنی بھی تنقید ہوئ ہے وہ متعصبانہ ذہنیت کی پیداوار ہے۔کیونکہ حالی کو اب تک جس کسی نے بھی دیکھا ایک بنی بنائ ذہنیت کے تحت دیکھا مثلاً یہ کہ ان (حالی) کی ساری باتیں مستعار ہیں اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مستعار شدہ کو ہمارے یہاں سرقے کا درجہ دیا جاتا ہے۔حامدی کشمیری نے اکتشافی نظریہ دیا تو یہ دیکھے بغیر کہ اس میں کوئ نیا وژن بھی تو ہوسکتا ہے، ہمارے نقادوں نے اسے روسی ہیت پسندی اور امریکی تنقید سے مستعار بتا کر رد کردیا۔حامدی صاحب تو پھر بھی بچ گئے کہ ان کی انگریزی پر کسی کو شک نہیں تھا لیکن حالی اس زد میں آگیے۔بعض نقادوں بالخصوص کلیم الدین احمد اور پروفیسر ممتاز حسین نے جس طرح ان کی تھیوری پر تنقید کی ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا کہ حالی انگریزی سے نابلد تھے۔مثلاً تخیل کےحوالے سے حالی کہتے ہیں؛
“وہ (تخیل) ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجربہ یا مشاہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرر تردیب دے کر ایک نئ صورت بخشتی ہے۔۔۔۔یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے”(ص 100)
اب اس پر دیکھیے پروفیسر کلیم الدین صاحب کیا لکھتے ہیں:
“پھر وہ (حالی) فینسی اور امیجینیشن میں امتیاز نہیں کرتے۔فینسی وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے،آدم اور جنت کی سرگذشت کو دیکھے ہوئے واقعات کی طرح بیان کرتی ہے،جن اور پری،عنقا اور آب حیواں کی چلتی پھرتی تصویریں بناتی ہے۔امیجینیشن وہ قوت ہے جو معلومات کے ذخیرے کو مکرر ترتیب دے کر نئ صورت بخشتی ہے۔” (کلیم الدین احمد ص 79)
عجیب بات ہے کہ کلیم الدین صاحب وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرنے کی قوت صرف فینسی میں دیکھتے ہیں تخیل میں نہیں بلکہ فینسی کے حوالے سے وہ جو مثالیں پیش کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے گویا حالی کو ان چیزوں کی خبر ہی نہ ہو۔جبکہ اصل بات یہ ہے کہ کلیم الدین صاحب نے حالی تھیوری کا سرسری مطالعہ کیا ہے ورنہ یہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ حالی نے مثنوی کے باب میں فینسی اور اس سے پیدا ہونے والے دورازکار خیالات سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے۔خیر، صنف غزل پر جس سوچ کے تحت خود کلیم الدین صاحب نے تنقید کی ہے کوئ مجھے بتائے کہ غزل پر حالی کی تنقید اس سوچ سے ہٹ کر کیسے ہے۔دوسرے یہ کہ امیجینیشن کی جو تعریف کلیم الدین صاحب اوپر کرتے ہیں وہ حالی کی تعریف سے مختلف یا متضاد کیسے ہے یہ سمجھنا بھی بہت مشکل ہے جبکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ حالی کہہ چکے ہیں کلیم الدین صاحب اسی کو دہرا رہے ہیں۔ادھر پروفیسر ممتاز حسین نے حالی پر جو تنقید کی ہے وہ دور سے ہی کلیم الدین صاحب کی بازگشت معلوم ہوتی ہے۔پروفیسر صاحب لکھتے ہیں؛
” حالی نے شعر و شاعری کے موضوع سے بحث کرتے ہوئے، اس بات کو تو نہایت مستحکم طور سے پکڑا، کہ شاعری کی تفہیم، اصول تخیل کی تفہیم ہے لیکن جب وہ تخیل کی تعریف کرتے ہیں تو اس سے فینسی کی تعریف برآمد ہوتی ہےنہ کہ تخیل کی۔”(1) آگے لکھتے ہیں” فینسی، قوت حافظہ کے ایک مخصوص طریق کار سے مختلف نہیں، وہ معلومات سابقہ کو اس کے زمانی و مکانی علاقوں سے آزاد کرکے مکرر تردیب دیتی ہے اور اس کی نئ سے نئ صورتیں پیدا کرتی رہتی ہے۔حالی نے اس فینسی کو تخیل (Imagination) کے ساتھ خلط ملط کیا، یا کہ فینسی کو تخیل تصور کیا۔”(2)
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر جو حالی نے کہا وہ فینسی ہے تو پھر تخیل کیا ہے؟ اس سوال کا کوئ توضیحی جواب پروفیسر موصوف نہ دے سکے۔ ہاں البتہ انہوں نے یہ کہہ کر اپنی بات کو جواز بخشنے کی ناکام کوشش ضرور کی ہے کہ “فینسی کی شاعری تفریح طبع کا بہت سا سامان مہیا کرتی ہے، لیکن اخلاق کو بدلنے یا مذاق سخن کے بدلنے میں کوئ کردار ادا نہیں کرتی ہے۔یہ کام تخیلی شاعری انجام دیتی ہےجو شعور اور ارداے سے متعین ہوکر شعور اور ارادے پر اثر انداز ہوتی ہے” (186)
ہمارے پروفیسر صاحب یہ نہیں سمجھ پائے کہ “شعور اور ارادے سے متعین ہونا” دراصل وہی منطقی ترتیب دینے کا عمل ہے جس کی طرف حالی اشارہ کرچکے ہیں۔لیکن جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں، ہمارے نقادوں کو تو بس کسی طرح سے حالی کی تردید کرنا تھی لہذا انہوں نے اپنے استدلال پر دوبارہ غور کرنا کوئ ضروری نہیں سمجھا۔پروفیسر ممتاز حسین صاحب بار بار یہ ذکر لے آتے ہیں کہ فینسی کے حوالے سے جو کچھ کولرج اور ورڈزورتھ کہہ چکے ہیں حالی وہی سب دہرا رہے ہیں۔مثلاً فینسی کے حوالے سے پروفیسر صاحب کو یہ بات کہیں سے پتہ چلی کہ کولرج اور ورڈزورتھ نے اسے ایسی قوت سے تعبیر کیا ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے، تو بس اسے پکڑ کر بیٹھ گئے کہ صاحب حالی نے اسے تخیل کی قوت سمجھ لیا۔ارے صاحب! کولرج ہو یا ورڈزورتھ، کسی کی بات فتوے کا حکم تو نہیں رکھتی۔آپ اس نکتہ پر غور کرتے کہ کیا تخیل بھی ایسا کرسکتا ہے۔ظاہر ہے وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرنا تخیلی قوت ہے۔دراصل کولرج تخیل کی دو مختلف صورتیں بتاتا ہے؛ بنیادی اور ثانوی۔بنیادی تخیل ایک عام تخلیقی قوت ہے جو انسانوں کو دنیا کا ادراک کرنے کے قابل بناتی ہے جبکہ ثانوی تخیل ایک شاعرانہ فیکلٹی ہے جو شاعر کو عام حقیقت سے بالاتر ہو کر فن تخلیق کرنے کی اجازت دیتی ہے۔اب حقیقت سے بالاتر ہونا یعنی ماورا (Transcend) ہونا، زمان و مکان کی قید سے آزاد ہونا نہیں تو پھر کیا ہے۔حتی کہ حالی تخیل کی اس بلندپروازی میں اعتدال پیدا کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ایسا صرف وہی شاعر کرسکتا ہے جس کے پاس “قوت ممیزہ” ہو۔آپ دیکھیے کہ مقدمہ میں “تخیل کو قوت ممیزہ کا محکوم رکھنا چاہیے” کے عنوان سے ایک الگ باب بھی ہے۔یہ اور بات ہے کہ حالی اس باب میں کوئ شعری مثال پیش نہیں کرتے جس سے یہ واضح ہوجاتا کہ وہ تخیل کو اس قوت کا محکوم کیوں رکھنا چاہتے تھے، لیکن وہ جس طرح اس قوت کی تعریف بیان کرتے ہیں اس سے حالی کا مدعا کافی حد تک سمجھ میں آجاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ:
“قوت متخیلہ کی دلیری اور بلند پروازی زیادہ تر اس وقت بڑھتی ہے جبکہ شاعر کے ذہن میں اس کو اپنی غذا یعنی حقائق و واقعات کا ذخیرہ جس میں وہ تصرف کر سکے، نہیں ملتا۔ جس طرح انسان بھوک کی شدت میں جب معمولی غذا نہیں پاتا تو مجبوراً بناسپتی سے اپنا دوزخ بھر کر صحت کو خراب کر لیتا اور اکثر ہلاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب قوت متخیلہ کو اس کی معتاد غذا نہیں ملتی تو وہ غیر معتاد غذا پر ہاتھ ڈالتی ہے۔ خیالات دور از کار جن میں اصلیت کا نام ونشان نہیں ہوتا تراش کر بے تکلف ان کو شعر کا لباس پہناتی ہے اور قوت ممیزہ کو اپنے کام میں خلل انداز سمجھ کر اس کی اطاعت سے باہر ہو جاتی ہے اور آخر کار شاعر کو مہمل گو، اور کوہ کندن دکاہ بر آوردن کا مصداق بنا دیتی ہے۔” (111-112)
ظاہر ہے اس اقتباس میں قوت ممیزہ دراصل اس معتاد غذا کی پابند ہے جو اس کے لیے انرجی کا کام کرتی ہے۔گویا قوت ممیزہ جبھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے جب شاعر کے پاس وہ معتاد غذا ہو جسے حالی حقائق و واقعات کے ذخیرہ سے تعبیر کرتے ہیں ورنہ بقول حالی شاعر کا تخیل دورازکار خیالات کو تراش کر انہی کو شعر کا لباس پہناتا ہے۔یہاں دورازکار خیالات سے حالی کی مراد تو ہماری سمجھ میں آگئ لیکن حقائق و واقعات کے ذخیرے سے حالی کی مراد کیا ہے اسے گہرائ میں جاننا ہمارے لیے بیحد ضروری ہے۔
حقائق و واقعات کے ذخیرے کے متعلق حالی نے “مطالعئہ کائنات” کے باب میں اجمالی بحث کی ہے۔حالی کے مطابق شاعری کرنا کوئ بڑی بات نہیں بلکہ شاعری میں کمال حاصل کرنا بڑی بات ہے۔حالی کے نزدیک یہ کمال حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ “نسخہ کائنات اور اس میں سے خاص کر نسخہ فطرت انسانی کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جائے۔۔۔۔کائنات میں گہری نظر سے وہ خواص اور کیفیات مشاہدہ کرنے جو عام آنکھوں سے مخفی ہوں اور فکر میں مشق و مہارت سے یہ طاقت پیدا کرنی کہ وہ مختلف چیزوں سے متحد اور متحد چیزوں سے مختلف خاصیتیں فوراً اخذ کرسکے اور اس اپنی یاد کے خزانہ میں محفوظ رکھے” (102) حالی آگے لکھتے ہیں؛
“غرض کہ یہ تمام باتیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے ایسی ضروری ہیں کہ کوئ شاعر ان سے استغنا کا دعوی نہیں کرسکتا کیونکہ ان کے بغیر قوت متخیلہ کو اپنی اصلی غذا جس سے وہ نشو نما پاتی ہے نہیں پہنچتی بلکہ اس کی طاقت آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔”(103)
ظاہر ہے نسخئہ کائنات اور اس میں سے خاص کر فطرت انسان کا مطالعہ ایک فلسفیانہ ڈسکورس کو سمجھنے کی ترغیب ہے۔آپ شاعری کیا فکشن میں بھی دیکھیے آجکل وجودی اور کلچرل (حاشیائ) مباحث کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔لیکن وہی شعر یا ناول زیادہ اثرانگیز ثابت ہورہا ہے جس میں سامنے کی حقیقتوں کو کسی نئے نقطئہ نظر سے پیش کیا گیا ہو۔عموماً یہ نقطئہ نظر رد تشکیلی (Deconstructive) نوعیت کا ہوتا ہے جس میں حقیقت کا دوسرا رخ دکھایا جاتا ہے۔شکر ہے حالی نے شاعر یا ادیب کو دانشور نہیں گردانا ورنہ آج ہمارے عہد میں بالخصوص اردو کے شاعر اور ادیب سے جو نئے Discourses تخلیق کرنے کے تقاضے کیے جارہے ہیں وہ ہر اعتبار سے دانشوارانہ نوعیت کے ہیں۔ایسا اس لیے بھی ہورہا ہے کیونکہ جدیدیوں نے ادب کی جو تعریف کی تھی وہ اب پارینہ ہوچکی ہے۔ان کے لیے ادب صرف جمالیاتی حظ بہم پہنچانے کا ذریعہ تھا لیکن ہمارے لیے ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ہم نظم و نثر میں صرف اسلوب کے قائل ہرگز نہیں بلکہ “کیا کہا گیا ہے” یعنی موضوع کے بھی برابر کے قائل ہیں۔ظاہر ہے یہ دور Vertual Reality سے بہت آگے کا ہے، یہاں اسکرین پر دکھنے والی ہر تصویر یعنی مواد کو مختلف زاویوں سے جانچا اور پرکھا جاتا ہے اور زیادہ تر اسی تصویر کو حقیقی تسلیم کیا جاتا ہے جس کا انحصار تجربے پر ہو۔مثال کے طور پر ہم جون ایلیا کے اس شعر سے:
اس کی امید ناز کا ہم سے مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئ
صرف اس لیے متاثر نہیں ہوتے کہ اس میں “امید ناز” جیسی خوبصورت ترکیب کا استعمال ہوا ہے بلکہ یہ تو ہمارے لیے ثانوے درجے کی چیز ہے جبکہ اصل چیز جو ہمیں اس شعر کی متاثر کرتی ہے اس کی تصویر ہے جسے ہم خود سے منسوب کرپاتے ہیں۔غور کیجیے تو اس میں عاشق اور محبوب کا وہ روایتی تصور نہیں ہے جو عموماً ہماری شاعری میں دیکھا جاتا ہے۔جون چاہتے تو شعر میں حسن پیدا کرنے کے لیے اسی روایتی تصور کا سہارا لے سکتے تھے لیکن نہیں۔انہوں نے اپنے عہد کے معمالات عشق کی حقیقت کو اپنے کلچرل لینڈاسکیپ کے باہر بیان کرنا معیوب سمجھا۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہ شعر عشق میں ہمارے کردار کو identify کرنے کی سب سے بہترین صورت معلوم ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ جون نے اپنے عہد کے انسانوں کی سائیکی کے پیش نظر ہی یہ شعر کہا ہو لیکن وہ ضرور اس سائیکی سے واقف رہے ہونگے کیونکہ ایسے مضامین کا غیب سے آنا کم از کم موجودہ ذہن کے لیے تو ناممکن ہے۔ظاہر ہے کوئ بھی شاعر یا فکشن نگار ہو، ضروری نہیں کہ کسی تقاضے کے تحت ہی ادب تخلیق کرے، ہاں مگر اس کے پیش نظر اپنے عہد کی علمیات Episteme کا ہونا ضروری ہے۔حالی جب “نسخہ فطرت انسانی کا مطالعہ ” لازمی گردانتے ہیں تو وہ دراصل اس کائنات میں موجود انسان کے کردار اور اس کی نفسیات کے مطالعہ کی بات کررہے ہیں۔دوسرے لفظوں میں کہیں تو حالی World View کی بات کررہے ہیں، یعنی ایک تخلیق کار کو اپنے عہد کی صورت حال اور اس سے متصادم انسان کے نفسیاتی اور فکری رویوں کا علم ہونا چاہیے، جبھی وہ کوئ نئ بات یعنی نیا ڈسکورس پیدا کرسکتا ہے۔اس سے انکار نہیں کہ معنی متن کے اندر ہوتا ہے اور تلاش معنی کے عمل میں مصنف کا کوئ رول نہیں ہوتا، لیکن غور کیجیے؛ کوئ شعر، افسانہ یا ناول یونہی تو وجود نہیں پاتا جبتکہ اسے لفظی صورت بخشنے میں لکھنے والے کی منشاء نہ شامل ہو۔ہم میں سے بہتوں کو یہ مغالطہ ہوا ہے کہ شاید متن کے اندر معنی ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے من میں جو آئے بس لکھ دیجیے، بغیر کسی نظم و نسق یا ترتیب کے، وہ معنی خود سے پیدا کرے گا، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئ بھی تحریر بغیر ارداے کے وجود پا ہی نہیں سکتی اور یہی “ارادہ” دراصل متن میں معنی کے حوالے سے بنیادی دعوے کی حیثیت رکھتا ہے۔مصنف کو تحریر سے مستثنیٰ کرنے کا عمل بھی دیکھا جائے تو اسی بنیادی دعوے کی مرکزیت کو چیلنج کرنے اور متن سے نئے معنی اخذ کرنے کا عمل ہے۔ گویا مصنف کے “ارادے” میں تشکیل پانے والے متن کا بنیادی خاکہ شامل ہوتا ہے اور اس لحاظ سے حالی کے “مطالعئہ کائنات” کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ بغیر علم و مشاہدہ کے مصنف کے ذہن میں کوئ خاکہ کیسے تیار ہوسکتا ہے؟آپ “کیا” اور “کیسے” لکھنا چاہتے ہیں ایک شعوری عمل ہی تو ہے جو آپ کے ذہن کے تہ خانے سے چیزوں کو چن کر نکالتا ہے اور ایسی منطقی ترتیب دیتا ہے کہ جو خاکہ ذہن میں تیار ہوتا ہے وہ ” متن” کی صورت میں وجود پاتا ہے۔سارتر یوں ہی تخیل کو شعور کا کُل(Whole Of Conciousness) نہیں کہتا، اس کا ماننا ہے کہ اسے اپنی حدود کا عرفان ہوتا ہے۔یعنی ایک طرح سے کہا جائے تو حالی جسے “قوت ممیزہ” کا نام دیتے ہیں وہ دراصل اسی تخیل یعنی “شعورِ کل” کا تفاعل ہے۔ضروری نہیں کہ سارتر کی رائے کو حتمی مانا جائے بلکہ یہ ایک فلسفیانہ بحث ہے کہ آیا تخیل اور شعور دو الگ الگ قوتیں ہیں یا ان کا آپس میں کوئ تعلق بھی ہے، لیکن بیشتر جدید فلسفیوں کے نزدیک یہ دونوں آپس میں بندھے ہوئے ہیں، جیسے کانٹ تخیل اور شعور کو مکمل طور پر دو الگ الگ فیکلٹیز نہیں مانتا بلکہ وہ تخیل کو شعور کے اندر ایک اہم اور فعال جزو کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے نزدیک تخیل ایسے ضروری افعال انجام دیتا ہے جو دماغ کو حسی ڈیٹا میں ترتیب دینے اور ان پر عمل آوری کے قابل بناتا ہے.صرف کانٹ ہی نہیں، جدید ماہر مظہریات ایڈمنڈ ہسرل بھی تخیل کو شعور کا تفاعل مانتا ہے۔حتی کہ اس معاملے میں اس کی توضیحات حالی کے اس قول کو صحیح ثابت کررہی ہیں کہ قوت متخیلہ شاعر کو وقت اور زمانے کی قید سے آزاد کرتی ہے۔ہسرل کے مطابق تصور اور ادراک دونوں ہی شعور کے عمل ہیں۔جبکہ ادراک فوری حقیقت سے جڑا ہواہوتا ہے، تخیل شعور کو حال سے آزاد کرتا ہے، اور اسے اس چیز پر غور کرنے کی اجازت دیتا ہے جو نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو شعور کا یہی کام اسے فوری حقیقت سے آگے بڑھنے کے قابل بناتا ہے۔بہرحال! یہ ایک لمبی بحث ہے جسے یہیں پر ختم کرتے ہیں اور مدعے کی طرف لوٹ آتے ہیں۔آپ نے اوپر تو دیکھ ہی لیا ہوگا کہ کیسے ہمارے نقادوں نے حالی کی تھیوری پر صرف اسے رد کرنے کی غرض سے تنقید کی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس قسم کی متعصبانہ روش سے نہ صرف یہ کہ حالی کی شعری تھیوری کو نقصان پہنچا بلکہ نئ نسل میں اس تھیوری کے سبب جو نئے اور روشن امکانات پیدا ہوسکتے تھے وہ بھی معدوم ہوگئے۔اوپر کی ساری بحث تو مطالعئہ کائنات اور تخیل کی اہمیت کا خلاصہ تھی اب آئیے ایک تیسری چیز تفحص الفاظ کو جانتے ہیں کہ کس قدر یہ چیز ایک شاعر یا ادیب کے لیے لازمی ہے۔حالی کے مطابق کائنات کے مطالعہ کی عادت ڈالنے کے بعد تیسری شرط تفحص ان الفاظ کی ہے۔وہ لکھتے ہیں؛
“شعر کی ترتیب کے وقت اول متناسب الفاظ کا انتخاب کرنا اور پھر ان کو ایسے طور پر ترتیب دینا کہ شعر سے معنی مقصود کے سمجھنے میں مخاطب کو کچھ تردد باقی نہ رہے ۔ اور خیال کی تصویر ہو بہو آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور باوجود اس کے اس ترتیب میں ایک جادو مخفی ہو جو مخاطب کو مسخر کرے۔ اس مرحلہ کا طے کرنا جس قدر دشوار ہے اسی قدر ضروری بھی رہے۔کیونکہ اگر شعر میں یہ بات نہیں ہے تو اس کے کہنے سے نہ کہنا بہتر ہے۔ اگر چہ شاعر کے متخیلہ کو الفاظ کی ترتیب میں بھی ویسا ہی دخل ہے جیسا کہ خیالات کی ترتیب میں۔ لیکن اگر شاعر زبان کے ضروری حصہ پر حاوی نہیں ہے اور ترتیب شعر کے وقت صبر و استقلال کے ساتھ الفاظ کا تتبع اور تفحص نہیں کرتا تو محض قوت متخیلہ کچھ کام نہیں آسکتی۔”
ظاہر ہے یہ زمانہ ساختیاتی مباحث کا ہے جہاں معنی کا سروکار متن سے ہے لہذا مصنف کی منشا چاہے کچھ بھی ہو وہ ہر لحاظ سے تفحص الفاظ کی محتاج ہوگی اور الفاظ ہی سے اس کا تعین ہوگا۔ایسے میں اگر مصنف مناسب لسانی وسائل سے محروم ہے تو سمجھ لیجیے اس کی منشا غارت ہوگئ۔ایک شعری مثال کے ذریعے سمجھیے؛
مرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سرخ پھول
تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے
شاعر کی منشا بس یہ رہی ہوگی کہ ایک پراثر طریقے سے دنیا سے اپنی بیزاری کا سبب بیان کرے۔شکیب کی جگہ اگر کوئ چوتھے درجے کا بھی شاعر ہوتا تو وہ بھی اس مضمون کو باندھنے میں کامیاب ہوتا لیکن جس چیز نے شکیب کے اظہار کو انفراد بخشا ہے وہ اس کا تفحص الفاظ ہے۔ایک عام اور استعمال شدہ مضمون کو شکیب جلالی نے لفظوں کے انتخاب و استعمال کے ذریعے نہ صرف نیا آہنگ عطا کیا ہے بلکہ مضمون میں بھی جدت اور تاثیر پیدا کی ہے، ورنہ خیال صرف اتنا سا تھا کہ انسان کی تمنا ہی اس کے دل کی روشنی کا چراغ ہوتا ہے جو اگر بجھ جائے تو یہ دنیائے چکاچوند بھی محض بنجر معلوم ہوتی ہے۔لیکن دیکھیے تو شکیب نے اس داخلی احساس کو آرجینل اظہار بخشنے کے لیے کس طرح مناسب اور impactful الفاظ کا انتخاب اور استعمال کیا ہے کہ تصویر ہوبہو آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے، یہی تفحص الفاظ ہے جسے حالی ایک شاعر کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔ہمارے نقادوں نے اس پر کبھی دھیان ہی نہیں دیا اور نہ کبھی اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی زحمت کی، نتیجتاً آج کا شاعر تفحص الفاظ کو فضول پریکٹس کا نام دے کر کہتا ہے کہ صاحب یہ زمانہ تو فوری اظہار کا ہے جو دل میں آئے فوراً کہہ دینا ہی اصل تخلیقیت ہے۔اس قماش کے کچھ پاکستانی شعرا نے تو اردو کی نئ نسل کو کو بگاڑرکھا ہے۔خیر، شاعری میں یہ چیزیں تو پھر بھی کسی حد تک قابل برداشت تھیں لیکن اب یہ وبا اردو نثر میں بھی پھیل رہی ہے۔ یقین جانیے بعض افسانوں اور ناولوں کی تھیم اس قدر سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہے کہ غیر اردو والا بھی اسے پڑھنا چاہے لیکن اندر زبان و بیان کی غلطیاں سارا مزہ کرکرا کردیتی ہیں۔اس قسم کا ایک عیب ہمارے یہاں زیادہ تر ان ناول نگاروں میں پایا جاتا ہے جنہیں نیم تاریخی اور ثقافتی ناول لکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے، وہ کیا کرتے ہیں کہ محض سرسری مطالعے کی بنا پر ناول کا فریم ورک تیار کرتے ہیں، انہیں نہ اصطلاحات کا صحیح علم ہوتا ہے اور نہ مناسب زبان برتنے کا شعور، بس ناول کو کسی طرح ختم کرنے کی جلدی ہوتی ہے اور اسی جلد بازی میں تھیم غارت ہوجاتی ہے۔بہرکیف! کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جو تعصب حالی کی شعری تھیوری کے ساتھ ہمارے نقادوں نے سالوں پہلے برتا اس کا خمیازہ ہمیں آج بھگتنا پڑ رہا ہے۔یہاں آپ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ اگر حالی کے یہ تین اصول مان لیے جائیں تو کیا مابعد جدیدیت کی دی ہوئ تخلیقی آزادی کی کوئ حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں سب سے پہلے اس بات پر غور کیجیے کہ تخلیقی آزادی سے ہماری مراد کیا ہے؟ اگر کسی تھوپے ہوئے تصور یا آئڈیولاجی کے تحت نہ لکھنا تخلیقی آزادی ہے تو یقین جانیے حالی کے یہ تینوں اصول اس تخلیقی آزادی کو یقینی بنانے میں معاون ہیں۔چونکہ یہ تینوں تخلیق کار کی ذاتی صلاحیتیں ہوتی ہیں اس لیے یہی تین صورتیں ہوتی ہیں جن سے کسی تخلیق کار کے انفراد کا تعین ہوسکتا ہے۔مثال کے طور پر دستوئیفسکی اور کافکا کو لیجیے، دونوں میں وجودی نوعیت کی فکری مماثلت پائ جاتی ہے لیکن دونوں کا نہ صرف اسلوب اور ڈکشن مختلف ہے بلکہ مطالعئہ کائنات بھی جداگانہ ہے۔چونکہ کافکا دنیا کی سیاسی و سماجی لغویت اور لایعنیت میں پھنسے ہوئے انسان کے وجودی بحران کو دکھاتا ہے اس لیے وہ زیادہ تر Bureacratic language کا استعمال کرتا ہے، اس کے برعکس دستوئیفسکی اخلاقی انحطاط کے شکار وجود کی ظاہری اور باطنی کشمکش کی منظرکشی کرتا ہے اس لیے اس کی زبان زیادہ تر فلسفیانہ نوعیت کی ہوتی ہے۔ اسلوب کی بات کی جائے تو بیانیہ تخلیق کرنے کا اسٹائل دنوں کا مختلف ہے، جہاں دستوئیفسکی مربوط و منظم پلاٹ میں اپنی بات رکھتا ہے وہیں کافکا غیر مربوط پلاٹ کے ذریعے اپنے کرداروں کے وجودی بحران کا انکشاف کرتا ہے۔اس طرح کافکا اور دستوئیفسکی کے انفراد کا تعین ان کے تخیل، مطالعئہ کائنات اور تفحص الفاظ سے ہوتا ہے۔آپ یقین جانیے مابعد جدید تھیوری کے تناظر میں بھی حالی کے یہ تینوں اصول کسی بھی فن پارے کا تجزیہ کرنے میں معاون ہوسکتے ہیں کیونکہ بالآخر ان تینوں کا علاقہ فن،موضوع اور زبان سے ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حالی کی تھیوری کی بازیافت ہو اسے مابعد جدید تنقید کے تناظر میں دوبارہ سمجھنے کی کوشش کی جائے۔