You are currently viewing حسام الدین بیتابؔ فن اور شاعری

حسام الدین بیتابؔ فن اور شاعری

عرفان احمد ڈار

ریسرچ اسکالر ، گنستان سمبل ،بانڈی پورہ ، کشمیر

حسام الدین بیتابؔ فن اور شاعری

         شاعری اردو ادب کی روح ہے اور اس کے بغیر اردو ادب کا وجود نامکمل ہے۔اس کی بہت ساری اقسام ہیں۔زیادہ تر شعری اصناف اور ہیت عربی زبان سے ماخوذ ہیں۔آج کے دور میں اردو شاعری جنوب ایشیاء کی تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔اردو ادب میں شاعری ایک بہت ہی اہم روایت اور انتہائی مقبول صنف ہے۔ شاعری صرف کاغذ پر ہی نہیں لکھی جاتی بلکہ اس کو وسیع پیمانے پر پڑھا، گایا، سنا اور سنایا جاتا ہے۔ اور اس کے لیے مشاعرے منعقد کئے جاتے ہیں جس میں عوام بڑی دلچسپی سے حصہ لیتی ہے اور مشاعروں نے اردو شاعری اور خاص طور پر غزل کے فروغ  میں بہت بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔

         حسام الدین بیتابؔ ایک اعلی پائے اور معتبر مقام رکھنے والے شاعر گزرے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان و ادب کے لیے کئی اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ بچپن سے ہی شعرو ادب کے ساتھ گہری دلچسپی رکھتے تھے جو آخری ایام تک جاری و ساری رہی۔حسام الدین بیتاب کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی شاعری میں ایک عجیب سی کشش ہے۔ جب بھی کوئی ان کے کلام کو پڑھتا ہے تو ان کے اندر بار بار پڑھنے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ حسام الدین بیتاب کی پیدائش  1932 ء میں خطہ جموں کے ضلع پونچھ تحصیل سرنکوٹ میں ہوئی۔ 1949ء میں بحیثیت مدرس تعینات ہوئے۔ وہ اپنے آپ میں ایک سمندر تھے ۔کئی نوجوانوں نے اس سمندر میں آکر نہایا اور اردو ادب کی طرف راغب ہوئے۔ مدرس کے عہدے پر رہ کر انہوں نے نہایت ہی ایمانداری سے کام کیا جس کی وجہ سے انھیں Best teacher کے ایواڑ سے بھی نوازا گیا۔حق پرست تھے اور ادبی و سماجی محفلوں میں سیاسی رکاوٹوں کی وجہ سے جو دیواریں محسوس ہوئیں، ان پر قلم اٹھایا۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی اور جو دیوار یں اس آواز کو روکتی تھیں ان سب دیوار و ںکو پار کرنا ان کا مقصد تھااور پھر  1982 ء میں مدرس کے عہدے سے سبکدوش ہوئے اور پھر باقاعدگی سے ادب کی طرف متوجہ ہوئے۔حسام الدین بیتابؔ نے ادبی سفر کا آغاز ۴۰۰۲ میں صحافت کے ذریعے پندرہ روزہ’’ دامن شب ‘‘ سے کیا۔ ان کی اب تک کی 6 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں ’’دشت جنون ‘‘(شعری مجموعہ) 2007 ء ’’نقشہ راہ،ریاست کی یکجہتی اور امن کی جانب ‘‘ 2007 ء ، ’’جموں و کشمیر کی تاریخ کے آئینے میں ‘‘ 2010 ۶جنبش طور(شعری مجموعہ)2010 ء ، ’’سراب و حباب‘‘ شعری مجموعہ’’آئینہ خانہ‘‘ ان کی کتابوں کے عناوین ہیں۔2021 ء میں میں داعی اجل کو کو لبیک کہہ کر کر ہم سے جدا ہوئے۔ابھی ان کی تین کتابیں ’’رقصِ بسمل ‘‘(شعری مجموعہ) ’’مقالات بیتاب ‘‘مضامین اور’’بھارت میں انسانی ورود‘‘زیر طبع تھیں۔

         حسام الدین بیتاب بنیادی طور پر شاعر تھے۔ 1947ء سے پہلے پونچھ میں اردو ادب کا خاصہ ماحول رہا  ہے۔بیتاب اسی ماحول سے متاثر ہو کر شاعری کی طرف راغب ہوئے ۔بیتاب کو ابتدا ء سے ہی اردو ادب کے ساتھ گہرا لگاؤ تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر مشاعروں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ اپنے ذوق و شوق کی وجہ سے انہوں نے اپنے کئی شاگردوں کو اردو ادب کی ترقی کے لئے لیے تیار کیا ہے اور مقامی سطح پر اردو ادب کو عام کرنے کی ایک تحریک چلائی ۔1955ء میں مقامی شعراء نے نے بزم ادب تشکیل دی۔ 1970ء میں حسام الدین اس انجمن کے کے صدر منتخب ہوئے۔ اس انجمن کے ذریعے انہوں نے ایک بار پھر اردو ادب کی مضبوط بنیاد قائم کی۔ 1977 ء میں کرشن چندرکی وفات ہوئی تو اس بزم کا نام ’’کرشن چندر میموریل بزم ادب سرنکوٹ‘‘ہوگیا ۔ 1973 میں بیتاب نے’’ الشمس ‘‘نامی رسالے کا اجر کیا۔ یہ رسالہ ہاتھ سے لکھا جاتا تھا۔ پورے خطے میں اس رسالے نے علم بانٹنے کا کام کیا۔

         حسام الدین بیتاب کی شاعری غزل اور نظم دونوں پر پر مشتمل ہے۔ان کی شاعری میں اظہار و جذبات  میں جابجا تصوف، فلسفہ،خارج وباطن، شرق و غرب اور قدیم و جدید کے تمام عناصر پائے جاتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں ایک عجیب طرح کی کیفیت قاری کے دل سے ٹکراتی ہے جس سے قاری کے اندر ایک سرور سا جاگ جاتا ہے۔ بیتاب کی غزلوں میں ترنم اور نغمگی کا بھی احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں کے لیے بہترین بحروں کا انتخاب کیا ہے۔حسام الدین بیتاب نے اپنی نظمیں مر صع ہیئت میں کہی ہیں۔اس لیے ردیف وقافیہ کا احتمام غزل کے آہنگ سے جا ملتا ہے۔انہوں نے ہر مصرعے میں الفاظ کے موتی پروئے ہیں۔شاعر کو اپنے ذاتی ماحول سے تجربات حاصل ہوتے ہیں جن کا اظہار وہ شعر میں کرتا ہے۔ ان کے جذبات کا تعلق ان کے آس پاس کے ما حول سے تھا اس پر انھیں گہری نظر تھی اور یہی جذبات ان کی شاعری کے لیے کچھ بھی تخلیق کرنے میں وقتا فوقتا مواد فراہم کرنے کا ذریعہ تھے۔ موضوعاتی طور پر اگر بات کی جائے تو انہوں نے لگ بگ ہر موضوع پر اشعار کہے ہیں۔لیکن زیادہ توجہ اصلاح پر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔مثلاً

                           اپنوں پے کرو تم جورو ستم اور نگہ کرم بیگانوں پر

                           یہ ظلم نہیں تو اور ہے کیا،ہم شیشۂ دل دیوانوں پر

                           اے شمع ستم، اے شمع وفا، پر سوز تمازت سے تیری

                           احساس تمہیں ہوگا بھی کبھی،کیا بیتی ہے فرزانوںپر

                           عرفان انہیں کو حاصل ہے توحید کی مئے جو پیتے ہیں

                           ہے عشق ہمیشہ فرض رہا، المست طبع دیوانوں پر

                           ہو طور مبارک موسیٰ کو وہ حضرت تھے، ہم آدم ہیں

                           ہے کرم خدا کا یہ ہم پر، ہم پلتے ہیں احسانوں پر

         حسام الدین بیتاب نے اپنے شعری مجموعے کی شروعات حمد،نعت اورمنقبت سے کی ہے۔انھوں نے اعلیٰ پائے کی نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی نظموں میں جگہ جگہ بہترین تخیل کا احساس ہوتا ہے۔قدرتی مناظر،تاریخیت، اسلامیت،مغربی کلچر کا پھیلتا ہوا جال، قدروں کا زوال، لاچاری اور اپنے عہد کے حالات ان کی نظمیں کے بنیاد گزار ہیں۔ انہوں نے فن اور موضوع دونوں پر یکساں توجہ دی ہے۔ اسلوب ان کا اتنا جاندار ہے کہ انہیں بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کی نظموں میں جیسے روداد مظلوم کشمیر، اے میری کشمیر، خطہ ٔ پیر پنجال، یہ دہشت گردی، وادی گلپوش، ایک آرزو و،وادی کی صدا،آرزوئے دل ،ندائے غیب و غیرہ کافی مقبول ہو چکی ہیں۔ نظم ’’ندائے غیب‘‘ کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

                           زد میں ہوںہم گردش افلاک کی اور چپ رہیں

                           آہ سنیں جب ہم کسی غمناک کی اور چپ رہیں

                           جل رہا ہو اپنا گھر ہم دیکھ کر سوتے رہیں

                           اور کٹتے بال و پر ہم دیکھ کر سوتے رہیں

                           فکر لاحق ہے نہیں اب مجھ کو ایسے بے سبب

                           بکھرے بکھرے مسلمانوں پر ہے اللہ کا غضب

                           مصری وسوڈانی و ایرانی و افغان ہیں

                           یہ عراقی،یمنی اور کچھ اہل ترکستان ہیں

        حسام الدین بیتاب نے اس نظم میں عرب وعجم کے مسلمان حکمرانوں کا منظر نامہ بیان کیا ہے اور عرب وعجم کے مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے جگانہ چاہتے ہیں۔بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اتفاق کی راہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔وہ اصلاحی پہلو پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اپنے ہمسایوں سے امن کی تلقین کرتے ہیں جس سے اقوام علم کو امن،شانتی اور ترقی اور فائدہ مل سکتاہے ۔ مسلمان حکمران کو اللہ پر یقین کم ہوتا جارہاہے۔وہ جس کا م کے لیے آئے ہیں اس کے برعکس کرتے ہیں۔ جس انسان کو بار بار نقصان،ذلت کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔ شاعری کے حوالے سے ہم گفتگو ں کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور،ہر عہد کے شعرا ء کے یہاں ادبی کشمکش رہی ہے جیسے غالب اور ذوق کے درمیان ادبی چشمک رہی اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے شعرا ء معتبر شعرا ء کی صحبت میں رہے اور ان کی شاعری میں جابجا صحبت کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثال کے طور پر پیر پنجال کے ممتاز شاعر شہباز راجوری کے ہاں غالب،اقبال کا رجحان دیکھنے کو ملتا ہے اور ان کی شاعری پر زیادہ تر انھیں کے اثرات حاوی ہیں۔ٹھیک اسی طرح حسام الدین بیتاب کی شعری دنیا کا بغور مطالعہ کریں تو وہ مشعل درد کا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں انقلابی شاعری کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔انقلابی شاعری میں حسام الدین بیتاب جوش ملیح آبادی اور حفیظ جالندھری سے بھی کافی متا ثر تھے۔ انھوں نے جوش ملیح آبادی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک ضبط شدہ نظم سے متاثر ہو کر نظم ’’ روداد مظلوم کشمیر ‘‘ لکھی۔جس میں انھوں کشمیر کے ابتدائی دور سے لے کر ڈوگرہ سلطنت تک کاا حاطہ کیا ہے۔وہ کشمیر کے ابتدائی دور کا نقشہ اس طرح پیش کرتے ہیں۔ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

                           روزی عز ت سے ملا کرتی تھی مجھ کو ایک دن

                            ڈل، ولر میں تیرے والے ہر اک نخچیر سے

       مذکورہ بالا شعر سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیر کی ابتدائی زندگی کس قدر پر سکون اور آرام دہ تھی۔ان چیزوں کو حسام الدین بیتاب نے خوبصورت شعری پیرائے میں پیش کیا ہے۔ابتدائی دور کاا نسان آزادی کی زندگی بسر کر رہا تھا اور اسے کسی قسم کی اکتا ہٹ محسوس نا تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے ایسا وقت پلٹا اور سن سنتالیس کے فسادات برپا ہوئے اور انسان کی زندگی جہنم بن کے رہ گئی۔ظلم وجبر سے لوگ گھروں سے بے گھر ہو گئے۔ہزاروں بے گناہ جانیں چلی گئیں، عورتوں کی عصمت ریزی ہوئی، کثیر تعداد میں لوگ جیل کی سلاخوں میں ڈال دیے ۔ان ناساز حالات کو حسام الدین بیتاب نے کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

                           دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا۔ میرے خدا

                           کیوں ہوا ٹکڑے میرا تن ظلم کی شمیر سے

                           گھر جلائے، مال لوٹا ،کر دی عصمت تار تار

                           بے گناہوں کو ہے مارا کس نے ظالم تیر سے

                           کر دیا بیکار مجھ کو،ہاتھ سے فن چھین کر

                           بے جرم باندھا ہوا،کیو ں بتا زنجیر سے

         حسام الدین بیتاب نے کلچراکیڈمی جموں وکشمیر میںجشن فیض صدی کی تقریبات کے موقع پر ایک غزل پیش کی تھی وہ فیض کی ہی ایک غزل کی زمین میں تھی ۔ اس کا پہلا مصرعہ یوں ہے ۔

                            غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا فیض

اس غزل پر فیض احمد فیض کا رنگ، سروراور احساس جھلکتا ہے۔اس غزل کے چند اشعار پیش ہیں ۔

                           مجھے جان کر تو نے اجنبی بھری بزم سے ہے اٹھا دیا

                           تھا یہ دل چراغ مفلسی،سر شام ہی جو بجھا دیا

                           نہیں جھک سکامیرا سر کبھی کہیں اور پر تیرے ماسو!

                           تیرے بارگاہ کی سمت اٹھا،جو قدم کہ میں نے اٹھا دیا

                           جو تھیں قیدو بند کی صحبتیں، میرے حوصلوں کو بڑھا گئیں

                           میری موت نے میرے ساقیا! مجھے لے کے تجھ سے ملا دیا

                           تیری چاہتوں میں یوں عمر بھر رہا تڑپتا یہ بیتاب دل

                           کبھی بے خودی کے ہی دور میں مجھے آکے تو نے رولا دیا

         حسام الدین بیتاب کے کلام میں اظہار و جذبات میں تصوف،فلسفہ، خارج و باطن،قدیم و جدید، رومانیت اور حقائق بھی ان کے یہاں بڑے ہی موثر انداز میں ملتے ہیں۔ان کی شاعری میں سیاسی سماجی،معاشی اور ثقافتی ناہمواریوں کی تلخیوں کا برملا اظہار ملتا ہے۔وہ نرم طبیعت کے مالک ضرور تھے لیکن شاعری میں وطن کا جوش، جذبہ اور درد کوٹ کوٹ کے بھرا ہے۔ انھوں نے ایک ایک حرف شاعری میں اس طرح استعمال کیا ہے کہ حرف بہ حرف سنجیدہ مطالہ کا متقاضی ہے۔ان کے کلام کو پڑھنے والے اور سننے والے کو اپنی داستان معلوم ہوتی ہے۔ جموں وکشمیر میں ادبی فضا کو بر قرار رکھنے میں اور اعلیٰ سے اعلیٰ ادب تخلیق کرنے والوں میں ان کی شخصیت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

***

Leave a Reply