خدیجہ خاتون
ریسرچ اسکالر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی
خلیق انجم کی ادبی خدمات: ایک اجمالی جائزہ
ادبی تاریخ میں بہت سے نئے علوم کا خوشگوار اضافہ ہوا ہے ، تخلیقی ادب میں مختلف اصناف کے ساتھ اسالیب میں وسعت پیدا ہوئی ، اور ادبی تخلیقات کا تجزیہ ایک روایت بن کر سامنے آیا، جسے تنقید کا نام دیا گیا۔ تنقید کے ساتھ تحقیق نے بھی ادبی دنیا میں قدم رکھا، ابتدا میں تحقیق کو ادب سے الگ رکھا گیا ۔ ادب کا تعلق تبصرے کے عمل سے سمجھا جاتا تھا۔ ادب کی صحیح تعبیر و تشریح کے لیے تحقیق ضروری ہے۔ تحقیق سچ کو جھوٹ سے صحیح کو غلط سے الگ کرکے اصل حقیقت کو دریافت کرتی ہے۔ تحقیق ہی نے سیکڑوں تاریک گوشوںکے نئے حقائق سے منور کیا ہے، اور بہت سے فن پاروں کی تعبیر بدل دی تحقیق کے ذریعے عرصہ دراز سے رائج روایت غلط ثابت ہوتی ہے۔ تحقیق کی دنیا میں کل کا صحیح آج کا غلط ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ اسی کے ذریعے صحیح اور غلط کا فرق واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک مہذب سماج خود کو جاننے اور سمجھنے کی مکمل کوشش کرتا ہے، اور اپنی اس کوشش میں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے پاس نوع انسانی بالخصوص اپنے آبا و اجداد کے فکری، جذباتی اور ذہنی کارناموں کی مکمل تاریخ نہ ہو، اس تاریخ کو ترتیب دینے میں ادبی کارناموں اور ادبی تاریخ کی کھوج اور ان سے متعلق تعبیر و تشریح کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی تکمیل ایک محقق ہی کر سکتا ہے۔ حقائق کو دریافت کرنے ، اور ان کی تصدیق کرنے کا نام ہی تحقیق ہے ۔ تحقیق ہی کے ذریعے صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق ادبی علوم و فنون سماجی، سیاسی، معاشی اور سائنسی علوم وغیرہ سے متعلق ہو سکتی ہے۔ تحقیق و تنقید میں متعدد مشاہیر نے اپنی ادبی خدمات انجام دیں، ان مشاہیر میں ایک اہم نام خلیق انجم کا بھی سر فہرست ہے، جن کی شخصیت کا ذکر تحقیقی زندگی کے حوالے سے لازم ہو جاتا ہے۔
اردو دنیا کے نامور محقق ادیب اور ممتاز دانشور اور اردو زبان و ادب کی سب سے بڑی تنظیم انجمن ترقی اردو کے روح رواں، تقسیم ملک کے بعد ہندوستان میں اردو کے آئینی حقوق کی جدو جہد کے پر جوش قائد خلیق انجم تھے۔ خلیق انجم دہلی کے قدیم روہیلہ پٹھان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آبا و اجداد مغلوں کے عہد میں ہندوستان منتقل ہوئے تھے۔ کئی پشتوں تک اس خاندان کے افراد شاہی افواج میں شامل رہے۔ ایسے معزز اور علم پرور خاندان میں خلیق انجم کی پیدائش 22؍ جنوری 1935ء میں ہوئی۔ خلیق انجم کا تعلیمی سفر ان کی جدو جہد ذہانت اور دلچسپ واقعات سے بھر پور ہے۔ ایم اےکرنے کے فوراً بعد ہی ان کی مرتب کردہ کتاب ’’ معراج العاشقین‘‘’’ مرزا مظہر جان جاناں کے خطوط‘‘( فارسی سے اردو ترجمہ)، اور ’’ غالب کی نادر تحریریں‘‘ منظر عام پر آئیں۔ ایم اے کرنے کے دوران ہی انہیں کروڑی مل کالج میں ملازمت مل گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں سینئر لیکچرر ہو گئے۔ عام طور پر محقق اور دانشور تنظیمی معاملات میں کچے ہوتے ہیں، وہ تو اپنے ہی خیالوں میں غرق رہتے ہیں مگر خلیق انجم میں بلا کی تنظیمی صلاحیت تھی، اور اس بے پناہ صلاحیت کا اظہار وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر ثقافتی اداروں کی کمیٹیوں میں ان کی کار کردگی بے مثل ہوتی تھی۔ دراصل خلیق انجم ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے، اور ان کی ابتدائی زندگی کی جدوجہد نے ان میں غضب کی خود اعتمادی اور خود مختاری پیدا کر دی تھی، اور اس معاملے میں وہ خوش قسمت شخص تھے کہ مختلف سطحوں پر ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا۔ وہ ملک کے بہت سے اداروں کے رکن بھی تھے، وہ ان اداروں میں سے کسی کے صدر تھے، کسی کے سیکریٹری، کسی کے محض ممبر مجلس عاملہ تھے۔ اس لیے ہندوستان میں اردو کے فروغ کے لیے جو کام کیے جاتے تھے، ان میں بالواسطہ یا براہ راست وہ شامل ہوتے تھے۔ ان کے علمی کارناموں کا عزت و احترام کیا جاتا رہا، اور بہت سے اداروں اور اکیڈمیوں نے انہیں انعامات و اعزازات سے نوازا۔
خلیق انجم کی زندگی اور ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا نے انھیں مستقل مزاجی کا اعلیٰ ملکہ عطا کیا تھا ۔ ان کی مستقل مزاجی کے مختلف واقعات مختلف رسائل و جرائد میں بکھرے پڑے ہیں۔سینکڑوں کی تعداد میں مضامین کی اشاعت ’’ ہماری زبان‘‘ ، ہفت روزہ اخبار کی ادارت، سہ ماہی اردو ادب کی اشاعت، اردو گھر کی تعمیر، ملک کے مختلف حصوں میں انجمن کی شاخوں کا قیام، مختلف موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و تالیف، مزارِ ذوق کی تعمیر نو اور مزارِ غالب کی بازیافت، مختلف تنظیموں، اداروں اور کمیٹیوں کی سربراہی کی انجام دہی۔ یہ بے شمار نقوش ان کی مستقل مزاجی کی آئینہ دار ہیں۔سہ ماہی ’’ ایوانِ اردو‘‘ دہلی نے ’’ خلیق انجم کثیر الجہات شخصیت‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی نمبر شائع کیا ، جسے انیس دہلوی نے مرتب کیا تھا۔پاکستان راولپنڈی سے شائع ہونے والا رسالہ ’’ چہار سو‘‘ نے بھی 2008میں خلیق انجم پر ایک خصوصی نمبرشائع کیا۔
خلیق انجم نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا ، لیکن جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے، اس لیے نثر کی جانب متوجہ ہوگئے۔ انجم صاحب اردو کے مشہور و معروف ادیب، مؤلف، مترجم، مرتب اور محقق ہیں۔ انھوں نے کافی تعداد میں تحقیقی کتابوں کو ترتیب اور قلم بند کیا۔ ہندوستان اورپاکستان کے مقتدر رسالوں میں ان کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین شائع ہوتے رہے۔ انھوں نے ’’ غالب اور شاہانِ تیموریہ‘‘ اور ’’ غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ‘‘ جیسی معرکتہ الآرا کتابوں کے ساتھ ہی پانچ جلدوں میں ’’ غالب کے خطوط‘‘ مرتب کرکے محققین غالب کی صف میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ خطوط غالب کی سائنٹفک طریقے سے سے ترتیب و تدوین ان کا ایسا عدیم النظیر تحقیقی کارنامہ قرار پایا ، جس کا پوری دنیا کے ممتاز دانشوروں نے اعتراف کیا۔
خلیق انجم کے تحقیقی کاموں کی ابتدا ان کے Ph.Dکے ’’ مرزا مظہر جان جاناں‘‘ کے موضوع پر لکھے گئے تاریخ ساز مقالے سے ہوتی ہے۔ ’’ حسرت موہانی‘‘ ، ’’ مرزا محمد رفیع سودا‘‘ ، ’’ کربل کتھا کا لسانی مطالعہ‘‘، فیض احمد فیض‘‘، ’’ مرقع دہلی‘‘ ، سر سید کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ آثارالصنادید‘‘ کا تین جلدوں میں تنقیدی اڈیشن شائع کیا۔ ’’ مولانا ابولکلام آزاد‘‘، ’’ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی‘‘، ’’ پروفیسر مسعود حسین خاں‘‘ اور دیگر اہم کتابیں خلیق انجم کا شاہکار کارنامہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیق انجم کا نام اردو دنیا کے نہایت اہم تنقید نگاروں میں لیا جاتا ہے۔ ان کے 200سے زائد تنقیدی مضامین اور مقالات اردو کے رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں ۔تنقید کے میدان میں ان کی سب سے مشہور تصنیف ’’ متنی تنقید‘‘ 1967کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔ ’’ متنی تنقید‘‘ بیک وقت تنقید و تحقیق دونوں میدانوں میں شامل کی جاتی ہے، اور علم و ادب کے دونوں دائروں کا ارتقاء اسی پر مبنی ہے۔ خلیق انجم کی یہ کاوش تحقیق و تنقید کے اصل نصاب کی ادبی اور بنیادی کتاب کہی جا سکتی ہے۔
خلیق انجم اندرون ملک کے مختلف اداروں سے بھی وابستہ رہے۔ انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سیکریٹری کے علاوہ آل انڈیا اردو رائٹر اینڈ جرنلسٹ فورم،فورم فار انڈین ہیری ٹیج اینڈ کنزر ویشن، انجمن ترقی اردو شاخ دہلی، علی منزل ٹرسٹ، ذوق ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دہلی، کے بحیثیت صدر اپنی خدمات انجام دیں۔
خلیق انجم کی تحریروں میں دہلی کے آثار قدیمہ کے نقوش واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔اس طرح ان کی کتابوں کامطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس موضوع پر ان کی کتابوں کی تعداد بنیادی طور پر پانچ ہے۔ اس موضوع پر ان کی پہلی کتاب ’’ رسومِ دہلی‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ’’ مرقع دہلی‘‘،’’ دلی کے آثار قدیمہ‘‘ ، ’’ دلی کی درگاہ شاہِ مرداں‘‘، اور ’’ آثارالصنادید‘‘ ہیں۔
اپنے مقالہ میں ،میں نے خلیق انجم کی اہم کتابوں کا تعارف پیش کیا ہے، اور اس کے ذریعہ ان کی ادبی خدمات کا مکمل نمونہ پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ خلیق انجم کی پہلی کتاب ’’ تاراس بلبا‘‘کے نام سے ترجمہ کی شکل میں 1957میں شائع ہوئی، اور اسی سال انھوں نے ’’ معراج العاشقین‘‘ نامی کتاب بھی ترتیبی شکل میں شائع کی تھی۔خلیق انجم کی آخری کتاب ’’ سیرتِ فریدیہ ‘‘ ہے، جس کی اشاعت 2010میں ہوئی۔ اس مقالہ میں بنیادی طور پر ان کی کتابوں کی روشنی میں خلیق انجم کی ادبی سرگرمیوں کو پیش کیا گیا ہے۔ خلیق انجم کی ترتیب کردہ کتابیں اس بات کا ثبوت دیتی ہیں کہ ان کی مکمل زندگی علم و ادب کی تشریح و تبلیغ سے عبارت تھی، ورنہ تخلیقات کا ایسا بیش بہا خزانہ کسی عام انسان کا کام نہیں۔تحقیق کے دوران مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ان کی تصنیفات میں ان کتابوں کی تعداد زیادہ ہے، جو سیمیناروں میں پڑھے گئے مضامین کے مجموعوں سے متعلق ہیں، لیکن یہ کتابیں علمی اور ادبی نقطۂ نظر سے بہت اہم ہیں۔ان کے علاوہ تدوین و ترتیب سے متعلق کتابوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ان کی تصنیفات میں انگریزی اور فارسی زبان کی کتابوں کے تراجم بھی خاسی اہمیت رکھتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان کی تالیفات و تصنیفات کا دائرہ ترتیب و تدوین اور تراجم کی کتابوں کے علاوہ تخلیقی تصنیفات پر بھی محیط ہے، اور ان کی یہی کتابیں خلیق انجم کی علمی و ادبی زندگی کے واضح نقوش ہیں۔ خلیق انجم ایک صحافی کے طور پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسکول کے زمانے سے ہی انھوں نے اردو ادب کے رسائل سے اپنا رشتہ مضبوط کر لیا تھا۔رسالہ ’’ اعتمادیہ‘‘ سے اپنے بچپن میں وابستہ ہوئے اور علی گڑھ کے تعلیمی سفر کے دوران ماہنامہ ’’جھلک‘‘ کی ادارت کی۔ انجمن ترقی اردو ہند سے شائع ہونے والے دو رسالے ’’ ہماری زبان (ہفت روزہ)‘‘ اور ’’ اردو ادب (ماہنامہ)‘‘ کے ایڈیٹر منتخب ہوئے۔ ان رسائل میں شائع ہونے والی تحریروں کی روشنی میں خلیق انجم کی ادبی ،علمی، اور صحافتی خدمات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
خلیق انجم کی اردو زبان و ادب کی خدمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، یہ بات خصوصی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ خلیق انجم کی اہمیت اردو ادب کے خادم کے طور پر تسلیم کی جانی چاہیئے۔ غالبیات کے حوالے سے ان کی کتابوں کی اہمیت اور افادیت کو دیکھتے ہوئے، خلیق انجم کا شمار ماہرِ غالبیات کی فہرست میں نمایاں طور پر قبول کی جانی چاہیئے۔
خلیق انجم کی ادبی اور علمی خدمات اردو زبان و ادب میں ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ میری یہ خوش نصیبی ہے کہ میں نے خلیق انجم کی شخصیت اور فن پر خامہ فرسائی کی ہے، اور ان سے متعلق جتنی بھی کارکردگیاں پس پردہ تھیں، انہیں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔
حوالے
انجم ، خلیق ( مصنف ) : مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا ، نئی دہلی : انجمن ترقی اردو ( ہند ) ، 2008
انجم ، خلیق ( مصنف ) : دلّی کی درگاہ شاہ مرداں ، دہلی : اردو اکادمی ، 1988
انجم ، خلیق ( مصنف ) : متنی تنقید ، نئی دہلی : انجمن ترقی اردو ( ہند ) ، 1967
انجم ، خلیق ( مصنف ) : آصف علی اور ارونا آصف علی ، نئی دہلی : انجمن ترقی اردو ( ہند ) ، 1999
انجم ، خلیق ( مصنف ) : گجرال کمیٹی ،نئی دہلی : ثمر آفسٹ پرنٹرز ، 1998
انجم ، خلیق ( مصنف ) : غالب اور شاہان تیموریہ ، نئی دہلی : غالب انسٹی ٹیوٹ ، 2009
انجم ، خلیق ( مصنف ) : غالب اور شاہان تیموریہ ، نئی دہلی : مکتبہ جامعہ لمیٹڈ ، 1974
انجم ، خلیق ( مصنف ) : غالب کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ ، نئی دہلی : غالب انسٹی ٹیوٹ ، 2005
انجم ، خلیق ( مصنف ) : بیسویں صدی کی ممتاز شخصیت پروفیسر خواجہ احمد فاروقی ، نئی دہلی : انجمن ترقی اردو ( ہند ) ، 2000
احمد، کلیم الدین (مصنف): اردو شاعری پر ایک نظر، لکھنؤ: سرفراز قومی پریس، 1957
احمد، کلیم الدین (مصنف): ادبی تنقید کے اصول، نئی دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، 1983
احمد، کلیم الدین (مصنف): میری تنقید ایک بازدید، پٹنہ:لیتھو پریس رمنا لین پٹنہ، 1978
حسین، احتشام (مصنف): تنقیدی جائزے، لکھنؤ: تنظیم پریس وکٹوریہ اسٹریٹ، 1956
حسین، احتشام (مصنف): عکس اور آئینے، لکھنؤ: سرفراز پریس، 1962
حالی، الطاف حسین (مصنف):مقدمہ شعر و شاعری، لاہور: نواز پریس، 1984
***