You are currently viewing ”خوشبو کا سفر“ (سفرنامہ پاکستان) ڈاکٹر کیول دھیر

”خوشبو کا سفر“ (سفرنامہ پاکستان) ڈاکٹر کیول دھیر

صبا زاہد، فیصل آباد،پاکستان

 

”خوشبو کا سفر“ (سفرنامہ پاکستان) ڈاکٹر کیول دھیر

         ڈاکٹر کیول دھیر کاشمار اردو ادب کے نامور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کیول دھیر 15 اکتوبر 1938ء کو گگو وہاڑی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پکواڑہ سے حاصل کی اور میڈیکل  کی ڈگری 1960ء میں پٹنہ بہار، انڈیا سے حاصل کی۔ آپ نے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں کافی عرصہ ملازمت کی اور 1996 میں ریٹائر ہوئے اردو سے ان کو محبت تھی۔ اور پنجابی ان کی مادری زبان تھی جو گندرپال’’خوشبو کا سفر‘‘ کے دیباچہ میں ڈاکٹر کیول دھیر کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر کیول دھیر پاکستان کے ضلع ساہیوال کے ایک قصبہ گگو میں پیدا ہوئے تھے۔ گگو پنجابی میں ایک موجی سی صدا بند ترکیب ہے۔‘‘(۱)

         ڈاکٹر کیول دھیر نے اردو افسانہ نگاری میں تو اپنا نام کمایا ہی ہے ان کا سب سے پہلا افسانہ 1958ء میں شائع ہوا اور 1983ء میں  ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا ہے اور ان کے افسانوں کے مختلف ہندی اور غیرملکی زبانوں میں تراجم ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ٹیلی ویژن ڈرامے اور مکالمے لکھے اور آل انڈیا ریڈیو سے ان کے انٹرویوز بھی نشر ہو چکے ہیں۔ انھوں نے بہت سے اردو ناولوں کے ہندی میں ترجمے بھی کیے۔ مخمور سعیدی ’’ڈاکٹر کیول دھیر ادبی سفر کے پچاس برس‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’کیول دھیر کی جو کتابیں مختلف زبانوں اردو، ہندی، پنجابی اور انگریزی میں چھپی ہیں ان کی تعداد ساٹھ سے زائد ہے یہ کتابیں مختلف موضوعات ادب، طب، نفسیات، جنسیات اور ادب اطفال کا احاطہ کرتی ہیں۔۔۔ اتنا نہیں کیول دھیر نے ٹی وی اور ریڈیو کے لیے ٹیلی فلمیں اور ڈرامے لکھے ہیں۔‘‘(۲)

         ان کی تصانیف کے نام کچھ اس طرح ہیں۔

         ”ارمیلا“، ”تم“،” ندی کنارے “اس کے علاوہ ’’بدچلن‘‘، ’’یادوں کے کھنڈ‘‘، ’’اپنا دامن اپنی آگ‘‘، ’’بھکاری  ہوئی زندگی‘‘، ’’دھرتی رو پڑی‘‘، ’’سانجھ کی پرچھائیاں‘‘، ’’منٹو میرا دوست‘‘ اور ’’یادوں کی دستک‘‘  اور اس کے علاوہ ’’خوشبو کا سفر‘‘ اور ’’گور ی کے دیش میں‘‘ جیسے سفرنامے جنھوں نے اردو سفرنامہ  نگاری کی روایت میں قابلِ  قدر اضافہ کیا ہے اور ان کے ڈراموں  ’’گمراہ‘‘، ’’لکیریں‘‘، ’’وجن‘‘، ’’شیشے کی دیوار‘‘ (سرئیل  پلے)، ’’وشواس جو سب ٹیلی ویژن سے شائع ہو چکے ہیں اور اپنی ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت سے انعامات اور اعزازات بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر کیول دھیر اپنے اندر کے احساسات اور قلم کاری کے حوالے سے ’’بکھری ہوئی زندگی‘‘ کے حرفِ اول میں لکھتے ہیں:

’’میرے ذہن کے دریچے کھلے بیں میرا احساس حساس سا ہو گیا لگتا ہے میرا قلم ایک تڑپ سی محسوس کر رہا ہے۔ ذہن کی سوچ اور جذبوں کا احساس نے ہی ہمیشہ میرے قلم  کو تحریک و قوت بخشی ہے اپنے من کی بات میں اگر میں نہیں کہوں گا تو یہ میرے اندر  کے قلمکار سے ناانصافی ہو گی۔ ایسا سمجھوتہ آج تک میں نے اپنے قلم کار فن سے کیا نہیں۔‘‘(۳)

         کیول دھیر کو پاکستان سے بہت محبت تھی اپنی محبت کا اظہار انھوں نے اپنے سفرنامے ’’خوشبو کا سفر‘‘ میں کیا۔ پاکستان سے محبت ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی مٹی سے انھیں خاص لگاؤ تھا۔ ان کی اسی محبت اور دلی وابستگی نے انہیں پاکستان آنے پر مجبور کیا۔ کیونکہ انسان جہاں مرضی چلا جائے وہ اپنی جڑ سے دور نہیں ہو سکتا ہے اور اس جگہ سے اس مٹی سے اُسے خاص محبت ہی ہوتی ہے اپنی اسی  محبت کا اظہار وہ پیش نظر سفرنامے میں اس الفاظ میں کرتے ہیں:

’’جنم بھومی کی مٹی کے رشتے سے انسان کبھی اپنے آپ کو الگ نہیں کر سکتا۔ یہ رشتہ بہت ہی نازک اور جذباتی ہوتا ہے۔ اُس دھرتی کی مٹی میں ایک عجیب سے کشش ایک عجیب سی خوشبو ہوتی ہے۔ جو ہمیشہ جذبوں کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔ جس دھرتی پر میں پیدا ہوا تھا اور جس دھرتی پر میرا معصوم بچپن پروان  چڑھا تھا۔ اس دھرتی کی مہک سے معطر میری خواہش برابر مچلتی رہی تھی۔‘‘(۴)

         کیول دھیر کی پاکستان سے محبت اس سفرنامے کے نام سے ہی ظاہر ہو جاتی ہے۔ کہ ایک ہندوستانی سیاح نے پڑوسی ملک کے سفر کو ’’خوشبو کا سفر‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ جنوری 1982ء میں انھوں نے پاکستان کا سفر کیا اس سفر کرنے کی دو بڑی وجوہات تھی ایک بڑی وجہ کہ اس ملک میں ان کی پیدائش ہوئی تھی  اور دوسری وجہ ادبی لگاؤ تھا کہ  اس سفرمیں انھوں نے پاکستان کی معتبر شخصیات، ادبا، شعراء اور مدیران سے ملاقاتیں کیں اور یہاں کے ادبی ماحول کا جائزہ لیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ملک و قوم کو آپس میں جوڑنے کےلیے زبان و ادب بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ دونوں ملکوں کے درمیانی رشتے  کو برقرار رکھنے میں شعر و ادب اور شاعر و ادیب کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ اپنے خوبصورت الفاظ کا اظہار وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’پاکستان جانے کی خواہش بہت برسوں سے دل میں مچل رہی تھی۔ اس کی بہت سے وجوہات  تھیں جن کا تعلق ادب اور جذبات دونوں سے تھا۔ ادب کی وجہ صرف اتنی ہے کہ میں کہانیاں لکھتاہ وں جو یہاں اور وہاں ایک اشتراک کی بنیاد ہی نہیں بلکہ ایک رشتے کو بھی جنم دیتی ہے۔ یہ رشتہ قلم کا ہے اسی رشتے سے پہچان ملتی ہے۔ اسی رشتے سے محبت اور خلوص پیدا ہوتا ہے۔ اسی رشتہ سے دوریاں سمٹ کر نزدیکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ایک  ایسا رشتہ جس میں مذہب، سیاست کا کوئی دخل نہیں۔ ادب کا یہ رشتہ بہت مضبوط اور بہت عظیم ہے اور ادب کے اس رشتے کا نام ہے اردو زبان۔‘‘(۵)

         کیول دھیر  کے نزدیک ادیب یا شاعر کسی بھی ملک یا خطے سے تعلق رکھتا ہو ایک دوسرے سے ذہنی و قلبی وابستگی ضرور رکھتے ہیں ۔ وقت و حالات اور ملک و قوم کی صورت ِ حال کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ جو کچھ دیکھتے ہیں سوچتے اور محسوس کرتے ہیں اس کو خلوص کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ وہ ذاتی احساسات ، داخلی کیفیات اور جذباتی وابستگی کو تمام رشتوں اور قانون سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اپنے احساسات کا اظہار وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’احساس کے یہ لمحے بے حد اہم ہوتے ہیں۔ ان میں تڑپ ہوتی ہے۔ درد نہیں ہوتا۔ ان میں سوچ آزاد ہوتی ہے۔ بوجھ نہیں ہوتا۔ آزادی، احترام، دوستی امن کے احساس کے انھیں لمحوں کی ضرورت آج تمام عالم کو ساری انسانیت کو ہے۔ کاش کہ احساس کے یہ لمحے اُن ذہنوں میں بھی کبھی سما پائے جو امن اور آشتی۔۔۔ محبت اور دوستی کے دشمن ہیں۔‘‘(۶)

         کیول دھیر نے جب پاکستان کے سفر کا آغاز کیا تھا تو اپنے تمام تر خلوص کے باوجود ان کے ذہن میں کہیں خدشات جنم لے رہے تھے کہ پاکستان کے اہلِ قلم  جن سے ان کا رابطہ محض علم کا رابطہ تھا۔ پتہ نہیں ان کا استقبال کیسے کریں گے۔ پاکستان میں رہ کر یہاں کے ادباء شعرا کی محفلوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ان سے بے تکلفانہ گفتگو کرنے کے بعد آپ کے ہر خدشات ختم ہو گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب وہ واپس ہندوستان آ گئے تو ان کے دل میں اہلِ قلم  کےلیے محبت اور خلوص کا رشتہ تھا اور سب سے زیادہ جو وقت آپ نے بشریٰ رحمٰن کے ساتھ گزارا۔ ان سے رخصت لیتے وقت آپ کی آنکھوں میں بھی نمی آ گئی۔ جیسے ایک بھائی اپنی بہن سے جدا ہو رہا ہے۔ اس احساس کو پیش نظر سفرنامے میں آپ خوبصورت الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں:

’’اور بشریٰ کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ جذبوں نے ان کے مکمل وجود کو جیسے باندھ لیا تھا۔ ایک بہن کی مامتا پگھل کر جیسے ساگر بن گئی تھی۔۔۔ میری آنکھوں کی نمی لکیریں بن کر بہنے لگی تھیں اور بمشکل میں اپنے جذبات کو باندھ کر اتنا ہی کہہ سکا تھا۔ اپنے بھائی کو اتنا پیار اور مان آپ نے دیا کہ اس دولت سے میں مالامال ہو گیا ہوں۔۔۔ اور انسانی رشتوں کا وہ احساس ملا ہے جو انسان سے انسان کو محبت کے بندھن میں باندھتا ہے جس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور جس کا کوئی رنگ ، نام اور مذہب نہیں ہوتا۔۔۔ آدمی اور آدمی کے درمیان صرف محبت کا رشتہ ہوتا ہے۔‘‘(۷)

         ڈاکٹر کیول دھیر کا سفرنامہ علمی، ادبی اور تاریخی معلومات کا خزینہ ہے۔ کیول دھیر بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ انہیں واقعات کے ساتھ کرداروں سے بھی دلچسپی ہے۔ اس سفرنامے میں بھی انھوں نے بہت سے ایسی شخصیات کا ذکر کیا ہے جن سے وہ ملے تھے۔  ان میں ایک شخصیات ڈاکٹر وزیرا ٓغا کی تھی جن سے ملاقات کےلیے انھوں نے سرگودھا کا ویزہ لیا تھا۔ لیکن وزیرآغا خود ہی لاہور آ گئے اور جب ان سے آپ کی ملاقات ہوئی تو دونوں ملکوں کی ادبی آب و ہوا کا چرچا ہوا۔ پیش نظر سفرنامے میں وزیر آغا کاخاکہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اس دوران  بارہا میرے ذہن میں دھیمی آواز، پست قد اور دبلے جسم کا یہ بڑا انسان مختلف روپ لے کر ابھرا۔۔۔ ایک عظیم شاعر، ایک نقاد۔۔۔ اور ایک انشائیہ نگار۔ اس  سب سے الگ ایک ایسا انسان جس سے اپنے آپ ہی عقیدت ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر وزیرآغا ان قلم کاروں میں سے ہیں جو اپنے عہد کی شناخت بن جاتے ہیں۔ جناب مشفق خواجہ نے بہت صحیح فرمایا ہے کہ لکھنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو اپنے عہد سے پہچانے جاتے ہیں اور دوسرے وہ جن کے حوالے سے اُن کے عہد کو پہچانا جاتا ہے۔۔۔ اسی لحاظ سے ڈاکٹر وزیر آغا اپنے عہد کی پہچان بن گئے ہیں۔‘‘(۸)

         کیول دھیر نے اس سفرنامے میں برطانوی حکومت کی چالبازیوں اور سیاسی داؤ پیچ کے نتیجے میں ملک کی تقسیم اور اس سے پیدا ہونے والے تباہ کن حالات اور برے اثرات کا اپنے الفاظ یوں اظہار کیا ہے جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان وقت اور حالات کے آگے کتنا بے بس ا ور مجبور ہو جاتا ہے جہاں جذباتی رشتوں کی قدر نہیں اور بہت سی آسائشوں کے باوجود ذہنی سکون میسر نہیں ہے کہ کس طرح ایک ہی زمین سے تعلق رکھنے والے دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے سیاسی حالات بھی بدتر ہیں۔ دونوں ملکوں کی زبان، رہن سہن اور کلچر ایک ہونے کے باوجود بھی دونوں ملکوں کے درمیان ناخوشگوار تعلقات ہیں۔ ان کے درمیان حائل دوری کے اسباب اور اس کے افسوسناک نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کیول دھیر لکھتے ہیں:

’’حالات کی یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ادھر اور دھر کی ساری دھرتی بھی ایک دیش تھی۔ یہاں اور وہاں کے لوگوں کی زبان، رہن سہن، رسم و رواج ، سماجی  قدریں اور کلچر مشترکہ تھا۔ تب ہم سب ایک تھے اور برطانوی سامراج ہم پر حکومت کر رہا تھا۔ لگاتار برسوں تک ہم سب مل کر انگریزی سرکار کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے کی لڑئی لڑ رہے تھے۔ 1947ء میں ہمیں آزادی ملی۔ لیکن دیش کے بٹوارے کے ساتھ۔۔۔ انگریزی حکومت نے اپنی سیاسی چالوں سے یہ بٹوارہ کچھ اس طرح کیا کہ انسان کے دلوں میں نفرت اور تعصب کے جذبات بھڑکا کر اسے فرقوں میں بانٹ دیا۔۔۔ نفرت کی آندھیاں چلنے لگیں۔۔۔ فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے اور اس خونی کھیل میں نہ جانے کتنی معصوم زندگیاں قتل ہو گئیں۔۔۔ دونوں طرف خاندانی اور سماجی رشتے قائم رہتے ہوئے بھی یہ رشتے تقسیم ہوگئے۔۔۔ لیکن ان تمام انسانی رشتوں، مشترکہ کلچر اور زبان کے باوجود دونوں دیشوں میں کبھی خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔۔۔ تعلقات تلخ بھی ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود جن جذباتی رشتوں کا ذکر نہیں کیا وہ رشتے کبھی بھی ٹوٹ نہیں سکے۔‘‘(۹)

         کیول دھیر کو پاکستانی آنے اور یہاں کے لوگوں سے ملنے کی بہت خواہش تھی تو جنوری  1986ء میں انھوں نے پاکستان کا سفر کیا تو یہاں انھوں نے پاکستان کی معتبر شخصیات ، ادباء، شعرا اور مدیران سے ملاقاتیں کیں اور انھوں نے اس چیز پرزور دیا کہ قلم کے رشتے بہت مضبوط ہوتے ہیں اور انہو نے محسوس کیا کہ دونوں ملکوں کے سیاسی حالات چاہے بہتر نہیں ہیں لیکن دونوں ملکوں کے ادیب، دانشور اپنے قلم کے زور پر بہتر تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے کچھ نام بھی شامل کیے ہیں۔ پیش نظر سفرنامے میں کیول دھیر لکھتے ہیں:

’’میں نے شدت سے محسوس کیا کہ دونوں طرف محبت اور دوستی کا جذبہ موجود ہے اور دونوں طرف کے قلم کار، دانش ور عوام دونوں بستیوں میں بہتر تعلقات اور دوستی کے خواہاں ہیں۔ بشریٰ رحمٰن، فرخندہ لودھی، سائرہ ہاشمی، میمونہ انصاری، کشور ناہید، آغا سہیل وغیرہ کی تخلیقات بھارت کے مقبول ادبی جریدوں میں اکثر شائع ہوتی رہتی ہیں اور ان کے قلم کے توسط سے دونوں دیشوں کے قارئین کے درمیان ایک ایسا جذباتی رشتہ قائم ہے جو بے حد طاقتور اور اٹوٹ ہے لیکن دونوں دیشوں میں بے شمار ایسے قلم کار ہیں جو صرف اپنے دیش کے جریدوں میں ہی چھپتے ہیں اور قلم و زبان کے رشتے سے وہ دوستی کے اس رشتے کو استوارکرنا چاہتے ہیں۔‘‘(۱۰)

         کیول دھیر کا یہ سفر ادبی نوعیت کا تھا تو انھوں نے لاہور کے مختلف ادبی اداروں کا جائزہ بھی لیا۔ کانفرنسوں، ادبی محفلوں میں بھی شرکت کی۔ لاہورکی قائداعظم، لائبریری، اس کے اصول و ضوابط ، طلباء طالبات کی سہولیات کے انتظام اورینٹل لٹریچر، اسلام سائنس، فلسفہ، ٹیکنالوجی ادب وغیرہ کے الگ الگ موضوعاتی شعبوں یہاں موجود تاریخ و ادبی ذخیروں، قدیم و خستہ نسخوں کے علاوہ اردو و زبان و ادب کے  مصنّفین ، پبلشرز و دیگراداروں کی خدمات کا بھی تذکرہ کیا اور کئی پبلشرز سے  ملاقاتیں بھی کیں اور کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے ہر چیز کا مشاہدہ کیا اور اسے اپنے سفرنامے میں شامل کیا۔ لکھتے ہیں:

’’پاکستان میں اردو کتابیں ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ شائع  ہوتی ہیں۔ ان کا اشاعتی معیار بھی عام طور پرہندوستانی کتابوں سے بہتر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں طباعت کا سارا کام جدید طرز کی آفسیٹ مشینری اور نئی تکنیک سے کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے مقابلے میں وہاں کتابت کی بہتر سہولیات میسر ہیں۔۔۔ چند باتیں مشترک ہیں یعنی  پاکستان میں بھی ہندوستانی کتابوں کی طرح قیمت کافی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘(۱۱)

         لاہور کے الحمراء آرٹ سنٹر میں پانچ ہزار سے زائد کتابوں کی نمائش لگائی گئی جو کہ بھارتی وفد  اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ کیول دھیر لاہور میں اپنے قیام کے دوسرے دن الحمرا آرٹ سنٹر گئے۔ جہاں ان کی ملاقات بہت سے ادیبوں اور قلمکاروں سے ہوئی اور اس نمائش کا افتتاح وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ صوبہ پنجاب نے کیا۔ ان کتابوں کی نمائش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کیول دھیر لکھتے ہیں:

’’میں یہاں اُس نمائش کا ذکر بطور کاص کرنا چاہوں گا۔ جس میں بھارت میں چھپی اردو کی پانچ ہزار سے زائد کتابیں رکھی گئی تھیں۔ ان سب کا معیار ہر لحاظ سے بہتر تھا۔ بعض غیر سرکاری اشاعتی اداروں کی کتابیں بھی تھیں۔ جن میں سے کچھ کا معیار تو ٹھیک تھا لیکن ان میں زیادہ تر کتابیں  ایسی تھیں جو کسی بھی لحاظ سے معیاری نہیں کہی جا سکتیں۔ چند کتابیں وہ بھی تھیں جو پاکستانی قلم کاروں کی لکھی ہوئی تھیں اور پاکستان میں نہایت اہتمام کے ساتھ ان کی اشاعت ہو چکی تھی لیکن ان کے ہندوستانی ایڈیشن طباعت کے لحاظ سے گوارہ سے بھی کم تھے۔ نمائش میں ایسی کتابوں کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے تھا کیوں کہ ان ہی کے باعث وہاں ہم مذا ق کا موضوع بنے اور بہت سے لوگوں کی زبان سے طرح طرح کے جملے نکلے۔ کتابوں کے انتخاب کے لیے ذمہ دار لوگوں کو محتاط ہونا چاہیے تھا۔‘‘(۱۲)

         کیول دھیر جب پاکستان آئے تو لاہور میں ان کا قیام بشریٰ رحمٰن کے گھر تھا۔ جہاں سے انہیں بے حد محبت اور یپار ملا۔ انھیں پاکستان میں بالکل بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ بلکہ بشریٰ رحمٰن کی صورت میں انھیں ایک بہن مل گئی۔ اپنے سفرنامے میں انھوں نے بشریٰ رحمٰن کی شخصیت، گھریلو زندگی، ان کی مشغولیات و مصروفیات، طبیعت، خوش گفتاری، وسیع قلبی ان کے نظریات و تاثرات کو بڑے اچھے الفاظ میں بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا ان کی شخصیت کے ہر پہلو سے آگاہ ہو جاتا ہے۔  کیول دھیر کے خیالات بطور مثال کچھ اس طرح ہیں:

’’مسکانوں اور مسرتوں کے ساتھ ہم اپنوں کی طرح ملے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی بیگانگی اور اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ تکلف نام کی کوئی چیز نہیں تھی یوں لگا جیسے بہت بار ملنے کے بعد آج پھر ملے ہوں۔۔۔ بشریٰ رحمٰن کے جن چند افسانوں کو میں نے پڑھا تھا ان میں واضح طور پر ان کی شخصیت کو محسوس کیا تھا۔۔۔ ایک پیار خوبصورت، بےباک اور کھلے دل و دماغ کی شخصیت ایسی ہی شخصیت حقیقت میں اس وقت میرے سامنے تھی۔‘‘(۱۳)

         کیول دھیر نے چونکہ لاہور قیام کیا تھا اور زیادہ وقت بھی لاہور میں ہی گزارا تھا تو انھوں نے لاہور کی تاریخ، تاریخی مقامات، ثقافتی و ادبی حیثیت ، تعلیمی اداروں، طباعت و صحافت ، لاہور کی رنگینیوں ہر چیز کا بغور مشاہدہ کیا اور ان کو سفرنامے میں شامل کیا۔ لاہور اور دریائے راوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’لاہور محض ایک شہر ہی نہیں ایک انجمن ہے۔ لاہور رنگوں اور رنگینیوں کا ایک زندہ دل شہر ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر ممتاز شہر کا ایک دریا ہوتا ہے۔ لندن کا ٹیمز، پیرس کا سین، نیویارک کا ہڈسن، واشنگٹن کا پونومیک، آگرے کا جمنا اور میونخ کا نار۔ سب دریا اپنے اپنے شہر کے ساتھ صدیوں سے بہہ رہے ہیں۔ لیکن لاہور کے دریا راوی کی ادا نرالی ہے روٹھ کے دور چلے جانے اور پھر جوش محبت میں پاس آ جانے کی ادا بس اسی دریا کی ہے۔۔۔ مصر کے نیل اور یورپ کے نیلے ڈینیوب کا پانی نیلا نہیں لیکن لاہور کے حسن میں اضافہ  کرنے والے راوی کا پانی گلابی رنگ کا ہے۔۔۔ گلابی گلاب جیسا۔۔۔‘‘(۱۴)

         کیول دھیر نے لاہور کے اس سفر میں بہت سے مدیران سے ملاقاتیں بھی کی جن میں نقوش کے مدیر طفیل اور ماہنامہ تخلیق کے مدیر اظہر جاوید اور بیگم صدیقہ ہے اور ماہنامہ ادبِ لطیف بھی یہیں سے شائع ہوتا ہے۔ اظہر جاوید سے بظاہر ان کی پہلی ملاقات تھی۔ لیکن مصنف ان کی محبت اور خلوص کے دلدادہ ہو گئے۔  اظہر جاویدسے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اظہر جاوید لپک کر مجھ سے یوں بغل گیر ہو گئے جیسے برسوں کی جدائی کے بعد ملن کے لمحے نصیب ہوتے ہوں۔ حالاں کہ آمنے سامنے ہماری یہ پہلی ملاقات تھی۔ آج سے پہلے تک ہماری جان پہچان اور تعلقات کا ذریعہ ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ تھا جو مجھے برابر موصول ہوتا تھا اور یا کبھی کبھار بھیجے گئے میرے افسانے تھے جو پرچے کے صفحات کی زینت بنتے تھے۔ اس طرح ہماری برسوں پرانی خاموش دوستی کو آج زبان ملی تھی۔ اظہر جاوید شاعر، صحافی، مدیر، نثرنگار اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔ ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ کے مدیر ہیں۔ ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دیتے ہیں۔‘‘(۱۵)

کیول دھیر نے 1986ء میں پاکستا ن کا سفر کیا اور جذبات و احساسات   کا بڑا ہی خوبصورت اظہار ”خوشبو کا سفر “کے عنوان سے پیش کردیا ۔ اس میں آبائی وطن کی مٹی سے محبت ، شناساؤں سے ملنے کی حسرت اور پاکستانی معاشرے کی سماجی  تہذیبی ، تمدنی اور خصوصاً ادبی صورت حال کا ذکر کیا ہے اور سب سےاہم بات کہ انھوں نے سیاسی  معاملات و مسائل سے قطع  نظر صرف اور صرف جذبات و احساسات کی ترجمانی کی گئی ہے ، لاہور پہنچ کر جب وہ اردگرد  کاجائزہ لینے میں  تو لاہور کی منظر کشی کچھ اس الفاظ میں کرتے ہیں کہ :

”لاہور کی حدود میں داخل ہوتے ہی گاڑی نہر کے کنارے  دوڑنے لگی تھی ۔ یہ نہر لاہور کے ساتھ ساتھ ہی نہیں  بلکہ وسط میں چلتی ہے ۔اسی نہر کے ساتھ لاہور شروع ہوتا ہے اور اسی کےساتھ ختم ہوتا ہے ۔ نہر کے دونوں طرف نہایت خوبصورت اور کشادہ سڑکیں ہیں۔بڑی بڑی بلڈنگیں  بھی ہیں۔ نہر کے کنارے  کنارے لمبے لمبے اونچے درخت ہیں ۔ کناروں پر ہری مخملی گھاس کے قالین بچھے دکھائی دیتےہیں ۔ جگہ جگہ بیٹھنے کے لیے سیمنٹ کے بنے پختہ بینچ ہیں۔۔۔ نہر کے کنارے کا یہ سفر مجھے  بہت اچھا لگا تھا۔“(۱۶)

         کیول دھیر نے اپنے اس سفر  نامے میں لاہور کے تاریخٰ مقامات وہاں کے گلی کوچوں ، آب و ہوا ، وہاں کی سڑکوں،بازاروں ، مسجدوں  اور بہت سے دیگر تاریخی مقامات کا مشاہدہ کیا اور واقعات و مناظر کو جانبدار سیاح کی نظر سے دیکھا اور پرکھا وہ مناظر کی خوبصورتی اور رنگینوں کو دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں کہ رام لعل پیش نظر سفر نامے ”خوشبو کا سفر“ پر رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

”ڈاکٹر کیول دھیر کے اس سفر نامے میں لاہور کے تاریخی حالات وہاں کے گلی کوچوں کے مناظر ،عام و خاص آدمی کی زندگی ، نئے لاہور کی وہ تصویر یں جو گزشتہ  چالیس سال کی تعمیر وترقی  سے عبارت ہیں ۔۔۔کہ اس کا مطالعہ کرتے وقت مجھے بار بار یہ احساس ہواکہ میں خود  دونوں ملکوں کے عوام کےمحبت کی چھلیں (ٹھاٹھیں) مارتے ہوئے دریا میں ایک بار پھر غوطے لگا رہا ہوں ۔۔۔ یہ سفر  نامہ خوشبو محض خوشبو  سے بھری ہوئی ایک فضا ہے جس میں سانس  لینے سے روح پاکیزہ اوردل و دماغ معطر ہوجاتے ہیں۔“(۱۷)

         کیول دھیر کے اس سفر نامے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے بہت سادہ اور عام سے الفاظ میں بات کی ہے جیسے ہم گھروں میں روز مرہ  کی زبان استعمال کرتے  ہیں۔ جیسے بشری رحمٰن کے  گھر خالص پنجابی کھانا  سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی کھاتے ہیں تو اس کا ذکر وہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ :

”آج انھوں نے خالص پنجابی کھانا  یعنی سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی تیار کرایا تھا اور کھانے کے لیے و ہ میری منتظر تھیں۔ سچی بات تویہ ہے کہ کھانے کی گنجائش آج بھی  نہیں تھی لیکن بشری رحمٰن کا گلہ اور بہت  ہی پیار سے بنایا گیا ،خالص پنجابی کھانا میری خاموش مجبوری تھی اور میں  کھانے کی میز پر بشریٰ کے ساتھ ہو لیا تھا ۔ کھانا  واقعی بہت لذیز تھا اورکھانے کے بعد پتہ  چلا کہ  نوکر آج چھٹی پر تھا اور کھانا بشریٰ نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا تھا ۔“(۱۸)

         کیول دھیر نے اپنے اس سفر نامے میں پاکستان کے تین بڑے روزنامہ ”جنگ“،”نوائے وقت“اور مشرق کا ذکر کیاہے اور  روز نامہ (جنگ اور امروز )کے ساتھ چند انٹرویوز بھی دیے جس میں اُردو زبان و ادب کی ہندو پاک میں موجود صورتحال اس  کی ضرورت و اہمیت  اس کے فروغ و ارتقاء میں  لوگوں کی کاوشوں  پر گفتگو بھی کی ہے اور اس  انٹرویو میں ماہرین کی ٹیم بھی شامل تھی۔ جن میں ڈاکٹر انور سدید ، حمید اختر ، ڈاکٹر آغا سہل اور اس  طرح کچھ اور بڑی شخصیات ، اہل قلم بھی شامل تھے اور اجلاس کی صدارت بشری رحمٰن نے کی تھی۔ کیول دھیر نے       اس انٹرویو  کو اپنے سفر نامے میں شامل کیا ہے ۔ مثال کے طور پر چند ایک سوال و  جواب:

”سوال: ہندوستا ن اور پاکستان کے ادیبوں میں کون سی  قدر مشترک ہے اور کون سی مختلف۔؟

جواب:دونوں طرف کا ادب اور ادیب کم و پیش ایک جیسے ہی ہیں ۔

سوال:آپ نے یہاں کیا محسوس کیا اور کیا پیغام آپ یہاں  سے اپنے وطن کے لیے لےکر  جائیں گے۔؟

جواب: یہاں سے سب لوگ بہت اچھے ہیں ۔ بے پناہ محبت کرنے والے ہیں ،یہی احساس اور پیغام لے کر اپنے وطن جاؤں گا۔“(۱۹)

         کیول دھیر نے اپنے سفر نامے میں  ضرورت کے مطابق شاعری کا استعمال کیا ہے شاعری کا مثالوں کے ذریعے استعمال  کیا ہے ۔ شاعری کا مثالوں کے ذریعے استعمال تحریر میں ایک نیا آہنگ پیدا کرتی ہے کوئی بھی ادیب جب اپنے فن پارے میں مثالوں کے لیے شاعری کا استعمال کرتا ہے تو یہ اس کے فن  پارے کی ایک خوبی سمجھی جاتی ہے ۔ کیول دھیر  جب لاہور سے واپس جارہے تھے تو پاکستان کے لوگوں سے ملی محبتیں انہیں یاد آرہی تھی۔ پھر مقبول احمد دہلوی کا وہ آخری وداع کا پیغام تو اس وقت انھیں کرشن ادیب سے شعر یاد آئے ہیں:

            ؎ سوچتا ہوں کب ملیں گے آج سے بچھڑے ہوئے
بس یہی اک سوچ جس نے اور تنہا کردیا
 

 

            ؎ دل کا دروازہ کھلا رکھنا تو میرے واسطے
تجھ سے ملنے تیرا دوست اک دن تو آئے گا
 

(۲۰)

         کیول دھیر بات کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں بیان کرنے کا فن رکھتے ہیں ۔ سفر نامے میں جزئیات نگار کو بہت اہمیت  حاصل ہے ۔مصنف نے بھی پیش نظر سفر نامے  بہت سے حالات و واقعات اور منظر نگاری کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں بیان کیا ہے ۔  مقبول احمد دہلوی کے گھر کھانا کھانے کے واقعہ کو وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ :

”کلائی کی گھڑی  پونے دو کا وقت  دے رہی تھی اور دو بجے مقبول  احمد دہلوی کے گھر پہنچنا تھا  ۔ مقبول کی  رہائش گاہ نسبت روڈ پر واقع ہے ۔ نابھ روڈ سے وہاں پہنچنے میں زیادہ  وقت نہیں  لگا ۔ میری فرمائش پر  بھابھی جان نے صرف سبزیاں اور ترکاریاں  ہی تیار کی تھی  جو تعداد میں کئی تھی۔ دہی بڑے انھوں نے خاس طور سے  بنائے تھے۔ کھانا اس قدر لذیذ تھا کہ  بھوک  نہیں ہوتے ہوئے بھی میں بہت زیادہ کھا گیا تھا ۔“(۲۱)

         کیول دھیر نے اپنے سفر نامے میں سوال و جواب کی طرز تحریر کو بھی استعمال کیا ہے ۔ لاہور  میں انھوں نے بہت سی تقریب میں بھی شمولیت کی اور بہت سے دوستوں سے ملاقاتیں بھی کی ۔ تو وہاں پر بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے بھارت کا سفر نہیں کیا تھا  اور بھارت کے بارے میں جاننے کے خواہش مند  تھے تو سوال و جواب کے ذریعے مصنف سے اُردو زبان کے حوالے سے سوال پوچھے گئے جس کی مثال دیتے ہو ۔ کیول دھیر  پیش نظر سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ:

”بھارت میں اُردو زبان  و ادب کے بارے میں مجھ سے بہت سے سوال کیے گئے کیوں کہ میرا تعلق  بھارتی پنجاب سے ہے  اور کہا جاتا ہے کہ اُردو پنجاب کی دھرتی پر جنمی اور پروان چڑھی تھی۔ ۔۔۔ میں نے تسلیم کیا کہ بھارتی پنجاب  میں اُردو دھیرے دھیرے ختم  ہو رہی ہے۔۔۔ نئی نسل کے لوگ اُردو لکھنا پڑھنا  عموماًنہیں جانتے ۔پرانے وقتوں کے  لوگوں کو اُردو سے آج بھی عشق ہے۔۔۔ نئی نسل کے نوجوان جو اُردو نہیں جانتے وہ بھی اُردو غزلوں  اور  مشاعروں میں کافی دلچسپی لیتے ہیں ۔“ (۲۲)

         عموماً عشق محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رومانوی کہا جاتا ہے ۔ زبان کو بناوٹ ، سجاوٹ  آراستگی ، محاکاتی تفصیل پسندی کو  رومانی کہا جاتا ہے ۔ کیول دھیر نے بھی اپنے سفر نامے ”خوشبو کا سفر “میں رومانوی انداز کو  اختیار کیا ہے ۔ جب وہ اپنی میزبان بشری رحمٰن سے بات کرتے ہیں ان کی شخصیت کو جاننے کے لیے اور ان خیالات سے آگاہی حاصل کرنے کے بارے میں بات  کرتے ہیں ۔ ایسے خدا کی خوبصورت مخلوق مردو عورت کے حوالے سے بات کرتے ہیں اس کے بارے  وہ کچھ اس طرح لکھتے ہیں:

”جب ہم محبت کرنے والے کرداروں کی بات کرتے ہیں تو ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت ہوتی ہے ۔ اس کے روپ مختلف ضرور ہو سکتے ہیں۔ ۔۔مرد عورتوں کی طرح کے انسان ہوتے ہیں ۔ اُن کا دل بھی  ہے  اور  دلی جذبات بھی صرف یہ ہے کہ مرد نے اپنے اوپر بہادری کا خول چڑھا رکھا ہے محبت دونوں پر ایک جیسا اثر کرتی ہے جس طرح عورت اپنی زندگی کے پہلے  مرد کو  نہیں بھول سکتی اسی طرح مرد اپنی  زندگی کی آخری عورت کو نہیں بھول سکتا ۔ یعنی آخری عورت وہی ہوتی ہے جس  سے اُسے سچ مچ محبت ہو جاتی ہے ۔“(۲۳)

ڈاکٹر کیول دھیر اُردو ادب کا  ایک بڑا نام ہے  ان کا شمار اُردو کے  نامور افسانہ نگاروں  میں ہوتاہے  لیکن  انہوں  نے سفر نامے  لکھ کر  بھی بہت شہرت  کمائی ہے انہوں نے  ”خواب  خواب سفر“اور” خوشبو کا سفر“ سفرنامے  تحریر کر کے اُردو ادب میں اپنا نام  پیدا کیا۔ ان کا سفر نامہ  ”خوشبو کا سفر“ جو کہ انہوں نے پاکستان کی یاترا پر تحریر کیا۔ اس سفر نامے کے نام سے  ہی ان کی پاکستان اور یہاں  کے لوگوں سے محبت  جھلکتی ہے ڈاکٹر کیول دھیر نے ۱۹۸۰ء میں پاکستان کا سفر کیا۔ اس سفر میں انہوں نے  لاہور  ، کراچی، میانوالی، سرگودھا، ملتان  کے علاقوں میں  گئے اور  انہوں  نے اپنے دوست و احباب  سے ملاقاتیں  بھی کیں۔ میانوالی ان کا آبائی شہرہے۔ اسی شہر میں  ان کا بچپن گزرا  اس لیے اس وطن سے ان کی  یہ  محبت انھیں  باقی قلمکاروں سے  ممتاز کرتی ہے  کیونکہ  ان کے سفر نامے  میں محبت کی چاشنی  پائی جاتی ہے  تقسیم برصغیر کے بعد ہجرت کی وجہ  سے انہیں یہ ملک چھوڑنا پرا تھا اورپھر اتنے عرصے  بعد یہاں انہیں دوبارہ  آنے  کا موقع ملا۔ جب  وہ اپنی امید بھی ختم کر چکے تھے پاکستان آنے سے پہلے انہیں کئی خدشات لا حق تھے  جو پاکستان  آنے  اور  سب سے محبت   ملنے کے بعد ختم ہوگئے۔جوگندر پال ”خوشبو کا سفر“کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ:

” جب انہوں نے اس سفر کا قصد کیا تو ان  پاس  کوئی  ایک بھی ایسا پاکستانی  پتہ نہ تھا جہاں انہیں اپنے قیام  کی   سہولتوں  کا یقین ہوتا لیکن انکے سفر نامے کے درمیانی  صفحوں پر پہنچتے پہنچے احساس ہونے لگتا  ہے کہ وہ جہاں بھی جا پہنچیں گے ان کے میزبان انہیں سرماتھے پر بٹھا لیں گے۔ اس میں انکے میزبانوں کی وسیع القلبی تو کار فرما  ہے ہی مگر اس طلسم  کی اصل کارفرمائی ان کی  محبت کی توفیق کی بھی دین ہے۔“(۲۴)

           کیول دھیر نے اس سفر نامے میں ان سب  ادیبوں  کا ذکر کیاہے  جن سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان سے ملی محبتوں کابھی  ذکر کیا ہے۔ خاص طور پر بشریٰ رحمٰن سے ملی ہوئی محبت  کا خاص طور پر ذکر کیا ہے  جوگندر پال”خوشبو کا سفر“ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:

”بشریٰ رحمٰن لاہور میں کیول دھیر کی میزبان تھیں ۔ ایک اجنبی ملک  میں کسی کو اس نیک  او رمعزز خاتون کے مانند بہن مل جائے تو  بھائی کو دنیا بھر کی نعمتیں میسر آجاتی ہیں۔ ڈاکٹر دھیر واقعی بڑے خوش نصیب  ہیں۔“(۲۵)

         ڈاکٹر کیول دھیر نے اس سفر نامے  پاکستان کے ثقافتی ، جغرافیائی حالات پر بھی روشنی ڈالی  ہے  اور انہوں نے  اپنے سفرنامے  میں  اس بات پربھی زور دیا ہے کہ قلم  کے رشتے بہت گہرے ہوتے ہیں انہوں نے قلم کے ذریعے دونوں ملکوں  کے درمیان   امن و اتحاد  کی  یکجہتی کو فروغ دیا ہے  دونوں ملکوں  میں امن کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے  ڈاکٹر کیول دھیر نے یہ سفر نامہ بہت سادہ لفظوں میں تحریر  کیا ہے ۔ڈاکٹر کیول دھیر کے سفر نامہ ”خوشبو کا سفر“ کے بارے میں رقمطراز ہیں :

” کیول دھیر کے سفرنامہ میں وہ سب کچھ  ہے  جو کسی بھی اچھے سفر نامہ میں ہونا چاہیے، یعنی  جس ملک کی سیاحت  کی گئی ہے اس کے عوام و خواص کی عادات اوران کے مشاغل ان کی معاشی اور معاشرتی حالات، جغرافیائی اور تاریخی  معلومات کے بارے میں بتلایا گیا ہے۔۔۔۔ ان کے سفر نامہ کی ایک خوبی یہ  بھی ہے کہ انہوں نے  وہاں کے اہل ِ قلم سے ملاقاتوں  کے ذریعے پاکستان کی ثقافتی روح کی گہرائیوں تک   اترنے کی سعی بھی  کی ہے۔“(۲۶)

         ڈاکٹر کیول دھیر کا یہ سفر ادبی حیثیت سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جسے پڑھنے والوں  کی طرف  سے  بہت پذیرائی  ملی ہے اور بہت  سے قلمکاروں نے اس سفر نامے کےبارے میں  اپنے خیالات  کا اظہار  کیاہے ان کی باقی تصانیف اور ڈراموں  کی طرح ان کے سفر نامے نے بھی  ان کی شہرت  کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

          ہرچرن  چاولہ اُردو  کے منجھے ہوئے  ناول نگار   اور افسانہ نگار ہیں انہوں نے دوسری اصناف میں بھی اپنا نام پیدا کیا اور بہت سے افسانے اور  ناول لکھے  ہیں اور اس کے ساتھ  انہوں نے  بہت سی انگریزی  کتب کا بھی ترجمہ  کیا ہے۔ ہرچرن چاولہ ۱۹۸۸ء میں پاکستان  آنے اور پاکستان کے شہر  لاہور،سرگودھا، میانوالی  ، راولپنڈی اسلام آباد کی سیاحت کی ۔ اور اس سفر کی روداد کو ایک کتابی شکل میں ”تم کو دیکھیں“ کے عنوان سے مرتب کیا۔

         ہرچرن چاولہ  سفر نامہ” تم  کو دیکھیں“ کے دیباچہ  میں لکھتے ہیں کہ:

” میں نے سوچا تھا کہ ساتھ آٹھ دن  کا میرا مختصر سفر چالیس پچاس مضمون میں  کور ہو جائے  گا مگر جب  اکیلا میانوالی ہی  اس سے دگنے صفحات مجھ سے لکھوا گیا تو مجھے لگا جیسے ایک ایک پڑاؤ ، ایک ایک باب بنتا مجھ  سے ایک پوری  کتاب کا طلب  گار  اور  جب ایسا ہوا تو  میں نے ہر شہر کو ایک   الگ الگ باب کے طور پر لکھنا شروع کیا اوراس طرح جب ایک  کتاب ہی لکھنے کا پلان  بن گیا تو اس کی ترتیب بھی ضروری محسوس ہوتی۔“(۲۷)

         اس سفر نامے میں ہر چرن چاولہ نے لاہور کی تاریخی مقامات کا ذکر کیا جہاں وہ اپنی بیوی  کے ساتھ  سیاحت کے لیے گئے اور سب  ادیبوں اور دوستوں سے ملاقاتوں  کے احوال  کا ذکر بھی کیا۔  میانوالی میں جن ادبی محفلوں میں شرکت   کی یا جن سے ملاقات  کی ان  سب کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا  ہے  اور خاص طور پر انہوں نے اپنے سفر نامے میں سلیم احمد کا بہت ذکر کیاہے  اور ان کی منتخب شاعری کو اپنے سفر نامے  میں شامل بھی  کیاہے۔

         ڈاکٹر انور سدید”اُردو ادب میں سفر نامے“ میں ہرچرن چاولہ کے سفر نامے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

” ہر چرن چاولہ کا سفر نامہ  پاکستان”تم کو دیکھیں“ خالصۃً ادبی سفر نامہ  ہے چنانچہ  اس میں ادیبوں  سےملاقاتوں  ، ادبی طبقوں  اور علمی  جلسوں کا احوال  زیادہ ہے چاولہ  ایک افسانہ نگار کی نظر سے  ہر شخص کو دیکھ  رہے ہیں اور کردار نگاری  کا حق ادا کر دیا ہے۔“(۲۸)

حوالہ جات

  • ڈاکٹر کیول دھیر: ’’خوشبو کا سفر (سفرنامہ پاکستان)‘‘ ماڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، 1988ء، ص 7
  • مخمور سعیدی؛ ڈاکٹر کیول دھیر:(مرتبین)”ادبی سفرکے پچاس سال‘‘ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2007ء، ص 320
  • ڈاکٹر کیول دھیر: ’’بکھری ہوئی زندگی‘‘ کلاسک انٹرنیشنل پبلی کیشنز، نئی دہلی، 1983ء، ص 9
  • ایضاً: ’’خوشبو کا سفر (سفرنامہ پاکستان)‘‘ ماڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، 1988ء، ص 12
  • ایضاً، ص11
  • ایضاً، ص19
  • ایضاً، ص157
  • ڈاکٹرکیول دھیر: ’’خوشبو کا سفر‘‘ (سفرنامہ پاکستان) ماڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، ستمبر 1988ء، ص 98
  • ایضاً، ص13۔ 12
  • ایضاً، ص84
  • ایضاً، ص73
  • ایضاً، ص27
  • ایضاً، ص24۔ 23
  • 45۔ 44
  • ایضاً، ص82۔ 81
  • جوگندر پال:(مضمون)” پاکستان کی یاترا“ مشمولہ”اوراق“ دفتر ،لاہور،۱۹۸۳ء،ص۸۱
  • انور محمود :”اُردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ“ مکتبہ جامع لمیٹڈ، نئی دہلی،۲۰۱۱ء،ص۲۹۸
  • فرید مرزا:” سفر نامہ پاکستان، سکم او رنیپال“ اعجاز پریس، حیدر آباد،۱۹۸۴ء،ص۱۹
  • ایضاً،ص۲۰
  • ڈاکٹر کیول دھیر:” خوشبو کا سفر(سفر نامہ پاکستان)“ ماڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی،۱۹۸۸ء،ص۸
  • ایضاً،ص۱۰
  • پروفیسر آزاد گلائی:”مشترکہ مٹی کی مہک“ ڈاکٹر کیول دھیر، ادبی  سفر کے پچاس  برس، مخمو ر سعدی، (مرتبین) ایجوکیشنل  پبلشنگ ہاؤس، دہلی ،۲۰۰۷ء،ص۳۵۳
  • ایضاً
  • ڈاکٹر کیول دھیر:” خوشبو کا سفر(سفر نامہ پاکستان)“ ماڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی،۱۹۸۸ء،ص۸
  • ایضاً،ص۱۰
  • پروفیسر آزاد گلائی:”مشترکہ مٹی کی مہک“ ڈاکٹر کیول دھیر، ادبی  سفر کے پچاس  برس، مخمو ر سعدی، (مرتبین) ایجوکیشنل  پبلشنگ ہاؤس، دہلی ،۲۰۰۷ء،ص۳۵۳
  • ایضاً،ص۱۰
  • ایضاً

***

Leave a Reply