You are currently viewing دست پناہ کی قبر

دست پناہ کی قبر

 سہیم الدین خلیل الدین صدیقی

اورنگ آباد، مہاراشٹر۔

دست پناہ کی قبر

         آج پھرتیس دنوں کے روزوں کے بعدعید آئی تھی۔فجر کی نماز ادا کرکے شاہدبرآمدے میں آیا جہاں اسکی نظرکونے میں رکھے ایک پرانے سے دست پناہ (چمٹا)پرپڑی جواب زنگ کے گرفت میں تھا۔اس نے فوراََ الپک کر اس دست پناہ کو اٹھالیا ۔ جیسے ہی شاہد نے وہ دست پناہ اٹھا یا وہ ماضی کے حسین خیالوں میں کھو گیا۔ اسے اچانک اپنے بابا عابد کی سنائی ہوئی وہ کہانی یاد آگئی۔ جس کو وہ کئی بار سن چکاتھا۔لیکن ہر بار اس کہانی نے اسے قوت متحرکہ عطا کی ۔

         کہانی اس کے دادا حامد کی تھی ، حامد کے باپ ہیضے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور اسکی بیوی یرقان کے بھیٹ چڑھ گئی تھی ۔اس وقت حامد کی عمر کچھ چاربرس کی ہوگی ۔بالکل شاہدکی حالیہ عمرکی ایک چوتھائی۔ اب حامد کی سرپرستی کی ذمہ داری اس کی دادی آمینہ کے بوڑھے کندھوںپر آگئی۔اسی سال گائوں میں عیدآئی ۔ گائوں والوں نے عیدکو بڑے زور شور سے منایا۔ عید گاہ پربڑا میلہ لگا ۔جس میں جھولے تھے،کھلونوں ،عطروخوشبو، برتن اور دینی و ادبی کتابوں کی دکانیں تھیں، مٹھائی، ہلو ے اورپھول فروخت کرنے والے تھے ،نیزعید گاہ پر بچوں ، بڑوں،بوڑھوںاور نمازیوں کابہت بڑا ہجوم تھا۔ لیکن آمینہ بی کے یہاں روپیہ پیسے کی کمی کے سوا کچھ نہ تھا ۔آمینہ بی نے عید سے کئی دن پہلے ایک سلائی سے پچاس پیسے کی کمائی کی تھی اس میں بنیے کی ادھاری دے کر آٹھ پیسے بچ گئے تھے۔ اس میںسے آمینہ بی نے اپنے پوتے حامد کوعیدگاہ جانے کے لیے تین پیسے دیے اورپانچ پیسے سیوئیوں کے لیئے رکھ لئے ۔حامد نے ان تین پیسوں میںدست پناہ(چمٹا) خریدلیا تاکہ اسکی دادی کے ہاتھ کھانا پکاتے ہوئے نہ جلے ۔جب وہ اپنے گھر لوٹ آیاتودادی اس سے بے حد متاثر ہوئی اور حامد کی ہزاروں بلائیں لیں اور سیکڑوں دعائیںدی ۔اس کے دن بدل گئے۔ چند سالوں میں وہ کمانے لگا۔جب وہ سن بلوغیت کو پہونچاتو اس کی شادی حمیدہ سے کروادی گئی ۔اس کے یہاں ایک لڑکا پید ا ہوا عابد نام رکھا گیا۔کچھ دنوں میں آمینہ بی انتقال کر گئی اور پیچھے چھوڑ گئی ایک لوہے کا دست پناہ۔

         حامد نے اس دست پناہ یعنی چمٹے کو ایک صندوقچہ میں بند کردیااور اسے جب بھی بوڑھی امینہ کی یاد آتی وہ صندوقچہ سے چمٹا نکالتا اوراسے دیکھنے لگتا توحمیدہ بھی اکثر اس کے ساتھ دیتی اور دونوںعیدو عیدگاہ کا واقعہ یادکرتے ہیں ۔وقت گزرتا ہے حامد دق کے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے اور مرتے ہوئے حمیدہ کے حوالے چندروپیوںکے ساتھ ایک صندوقچہ کر دیتا ہے ۔ حمیدہ اپنے بیٹے کو پڑھاتی ہے، لکھاتی ہے، قابل انسان بناتی ہے اور اسے عابدہ کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں باندھ دیتی ہے۔پھر بہت جلد وہ پوتے پوتی والی ہوجاتی۔وقت کا چکر گھومتا ہے حمیدہ کودل کا دورہ پڑھتاہے ۔ وہ اپنے آخری سانسیں لیتے ہوئے عابدکو ایک صندوقچہ دے کرموت کے آغوش میں چلی جاتی ہے۔

         عابدماں کی تدفین کے بعدگھر آکروہ صندوقچہ کھولتا ہے تو حیرت میں پڑھ جاتا ہے۔کیا دیکھتا

اس میں چند کاغذکے بے ترتیب ٹکڑے ،کچھ روپیے اور ایک دست پناہ ہے۔لہٰذاعابدتجسس اورخاموشی کے عالم میں صندوقچہ کی ایک ایک چیزکوباریکی سے تکنے لگتا ہے۔پہلے چمٹا اٹھا تا ہے ،پھر روپئے بعد ازآں حمیدہ کے ہاتھوں لکھے ہوئے کاغذات میں اپنے بیٹے کے لئے سبق آموز  پیغام کے ساتھ عابد کو باپ حامد،بوڑھی آمینہ اورچمٹے کا واقعہ بیان کر تی تحریرملتی ہے۔اس قلمی تحریر کو پڑھ کرعابد کی آنکھیں نم ہوجاتی ہے۔ پھر بہت جلد اس کاوہ دستاویزات پڑھنا ، چمٹا دیکھنا اور روپیے گن گن کر صندوقچہ میں رکھنا اس کا روزانہ کا معمول بن جاتا ہے۔اب وہ دن بھر مزدوری کرتا اور رات کوو ہ دست پناہ اپنے ہاتھوں میں لئے کئی گھنٹوں سوچتا ،آہیں بھرتا اور ان روپیوں کو دیکھ کراکثرسوچتا

 ہے کہ اس کا کیا کیاجائے ۔

         البتہ کئی ہفتوں یہ سلسلہ چلتا رہا عابدہ نے عابد کو کئی بار ٹوکااس طرح تنہاہ بیٹھے سوچناآہیں بھرنا ٹھیک نہیں لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ایک دن تنگ آکرغصہ میں کہہ دیاکہ روزانہ تم نے یہ کیا لگا رکھاہے کہ ہرشام چمٹا لئے گھنٹوںبیٹھے رہتے ہو۔ لائو !مجھے دے دواتنا کہہ کر اس دست پناہ کوعابد سے چھین لیا۔عابد نے اونچی آواز میں کہاتم اس کا کر وگی۔اسنے غصّے کے عالم میں ایک سانس میں کہا اسکریپ والے کو بیچ دوں گی، اس کے بدلے کچھ اور لے آوں گی یااسے آنگن میںکہیں دفن کردوں گی تمہیں اس سے کیا؟میں کچھ بھی کروں۔عابد نے سخت غصّے کے عالم زور سے اٹھتے ہوئے کہا کیا کہاں؟پھر ایک بار بول کردیکھا۔ عابدہ تھر تھر کانپنے لگی۔ چمٹے کو زمین پر پٹک کرخاموش اپنے کمرے کی طرف موڑ گئی ۔عابد نے غصّہ کے عالم میںچمٹا اٹھایا اورصندوقچہ لے کر گھر سے باہر نکل گیا ۔عابدہ اسکے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑی کہا جارہے ہو۔ ٹہرو۔ذرا ٹہرو اور مجھے معاف کرو۔ اس نے کوئی جواب نہ دیاگھر سے باہر نکلااوردور اندھیرے میں کہیںاوجھل ہوگیا ۔ساری رات عابدہ کی آنسو بہاتے ہوئے ، تنہائی اور بے چینی کے عالم میں گزری۔ رات سے صبح ،صبح سے دوپہر ہوگئی عابد کا کچھ پتہ نہ چلا، عابدہ کا رو رو کر برا حال ہوگیا۔شام ہوتے ہوتے پڑوسی جمع ہونے لگے۔ شام ہوتے ہی عابد ڈھیرسار ے ظروف لے آیا۔عابدہ روتے ہوئے بھاگتی آئی اورعابد کے گلے لگ گئی۔ سارے شکوہ شکایتیں دور ہوگئی ۔دیکھتے ہی دیکھتے عابد کی اپنے گاوں میں چمٹے اوربرتن کی دکان لگ گئی ۔عابد کے گھرایک چشم و چراغ پید اہوا، نام شاہد رکھا گیا۔اکیسویں صدی کا آغاز ہوا۔ شاہد عنفوان شباب کا دور میں تھا کہ ہند میںکووڈ۱۹ پینڈمیک کا آغاز ہوا ۔سالوں سے جمائی ہوئی دکان بند کرنی پڑی عابد بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے سکا ،پہلے ماں رخصت ہوئی پھر باپ اس کا شکار ہوا۔لاکھوں خرچ ہوئے ،گھر کا سارا مال و اسباب بکاپھر بھی علاج نہیں ہوااوروہ موت کے آغوش میں چلاگیا ۔شاہد کی آنکھیں بھرآئی اور وہ اپنی خیالی دنیا سے اصل دنیا میں کب داخل ہوگیا اسے کچھ پتہ بھی نہ چلا۔

         شاہد کا خیالوں کی دنیا سے کیا نکلا کہ قوت متحرکہ نے اس کے دل و دماغ میں دستک دی۔وہ آنکھوںمیں نمی ،ہاتھ میںزنگ سے لبریز دست پناہ لیے نامعلوم منزل کی طرف چلنے لگا۔ چلتے چلتے عیدگاہ کے خالی میدان میں پہونچا۔ وہ ناجانے آج کیوں عید گاہ کاوہ پہلاسا منظریاد کرنے لگا۔لیکن کرتا بھی کیالاک ڈاون چل رہاتھا، حکومت نے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔وہ کچھ دیر اسی میدان میںتنہاہ کھڑا رہاپھر کچھ سوچ کرعیدگاہ میدان کے ایک کونے میں گیااوراپنا دست پناہ وہاں دفن کر دیا ۔ لوٹتے ہوئے اپنے ساتھ کفن، کوفین اور لکڑی لے آیادیکھتے ہی دیکھتے کاروبار بدل گیا دکان تبدیل ہوئی اور بھیڑ بڑھ گئی۔

٭٭٭

Leave a Reply