You are currently viewing ’’دھنورا ‘‘  اسلم جمشید پوری کا کولاژناول

’’دھنورا ‘‘  اسلم جمشید پوری کا کولاژناول

پروفیسرقدوس جاوید (کشمیر)

 

’’دھنورا ‘‘  اسلم جمشید پوری کا کولاژناول

ادب میں ’تخلیقیت ‘دمِ اظہار اپنی ہئیت اور تکنیک خود طئے کرتی ہے البتہ ادیب کی تخلیق کو معیار اور مقام بخشنے کا فریضہ تخلیق کار کی بصیرت اور مشق و مہارت کے ہاتھوں انجام پاتا ہے ۔ آج کا دور جذبہ و احساس سے زیادہ فکرو دانش کا دور ہے ۔ ذات ،زندگی اور زمانہ کے ہمہ جہت انتشار و بحران اور صارفینی تہذیب ( Consumer Culture نے مسلمہ اقداری نظام کو تہہ و بالا کر دیا ہے ۔معاشی  دبائو کے سبب ہر انسان ایک طرف جہاں ہر شئے کو شکم کی آنکھوں سے، نفع اور نقصان کے پیمانے پر تولنے پر مجبور ہوتا جارہا ہے،وہیں دوسری جانب عصر حاضر کی نئی فکریات اور علمیات ( (Episteme نے دوسرے علوم و فنون کی طرح شعر و ادب میں بھی  زبان اور اظہارو بیان کے اعتبار سے جدت طرازی کے نئے امکانات روشن کر دئے ہیں ۔ معاصر اردو شعرو ادب میں بھی موضوع اسلوب،ہئیت اور تکنیک کی نت نئی ایجاد و اختراع کا یہی جواز ہے۔ اس منظر نامے میں اردو فکشن کی دونوں بڑی اصناف ’افسانہ اور ناول کی مروجہ صنفی (ہئیتی و تکنیکی)حدودسیال ہو کر تاریخ نگاری،رپورتاژ،اورسفرنامہ نگاری کے ساتھ ساتھ، سماجیات،  سیاست اور اقتصادیات کو بھی اپنے اندر سمیٹ رہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا افسانہ اور ناول،نئی زبان ، موضوع اور اسلوب سے مزین نِت نئی ہئیت اور تکنیک  کے ساتھ سامنے آرہا ہے ۔اردو میں اسلم جمشید پوری کا ناول ’’دھنورا‘‘ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

اسلم جمشید پوری نے پیش لفظ میں خود د ہی لکھا ہے کہ:

  ’’یہ ناول ’کولاژ تکنیک پر لکھا گیا ہے ،جو مغرب میں زیادہ رائج ہے اردو میں بہت کم رائج ہوئی ہے ۔اس پورے ناول میں کوئی مرکزی کردار نہیں ہے۔ گائوں کے مختلف لوگوں کے کردار ہیں جو چھوٹے بڑے تو ہو سکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر اس میں کوئی ہیرو ہیروئن نہیں ،بلکہ مرکزیت اگر حاصل ہے تو گائوں دھنورا کو ہے ،جو ناول کا راوی بھی ہے ،جسے ہم مرکزی کردار بھی کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘

                        ناول ۔دھنورا ۔پیش لفظ ۔اسلم جمشید پوری ۔ص۔۸۔

اسلم جمشید پوری کا یہ ناول ہئیتی و تکنیکی زاوئے سے معاصر اردو ناول کی سمت و رفتار کو ایک نیا موڑ دینے کی لائق تحسین کوشش ہے ۔جسے سراہا جانا چاہئے ۔ لیکن ۔۔۔۔ بہتر ہوتا اگر اسلم جمشید پوری قارئین کی آگہی کے لئے’ کولاژ‘ کے اصطلاحی معانی اور کولاژ ناول‘ کی تکنیک، ہئیت اور اصول و ضوابط (شعریات ) کی نوعیت او ر امتیازات کی بھی تھوڑی سی وضاحت کر دیتے ۔ پھر بھی  کولاژ کیا ہے ؟ اس کا مختصر جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ کولاژ بھی دوسرے فنون کی طرح ایک فن   ART) ( لیکن یہ ایک ایسافن/ آرٹ ہے جس کا تعلق قرات( پڑھنے پڑھانے )سے زیادہ’بصارت’(یکھنے دکھانے) سے ہوتا ہے ۔یعنی کولاژ ایکVISUAL ART ہے۔اس  میں عام ناولوں کی طرح نہ تو مربوط اور مسلسل ’بیانیہ ( (NARRATION ہوتا ہے اور نہ بیان کنندہ NARRATOR بلکہ یہ  ایک ایسی ادبی تکنیک ہے جس میں ادیب اپنے موضوع، مقصد کے مطابق مختلف فوٹو گراف ، اخباری تراشوں ، خطوط اور دیگر ادبی و علمیاور تاریخی متون کے بیانیوں( NARRATIVES (  اور’ ڈِسکورسیز‘کے اقتباسات ،عکس وغیرہ کو پوری فنکارانہ مہارت کے ساتھ ایک جگہ یکجا (چسپاں) کر کے آرٹ کا ایسا نمونہ پیش کرتا ہے ۔جسے دیکھ کر ،پڑھ کر اور جوڑے ہوئے ٹکڑوں سے آزادانہ طور پر اس کولاژ سے متعلق ایک تاثر قائم کیا جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں کولاژ ناول کے جوڑے گئے مختلف متون/مواد میں واضح ربط و تسلسل نہیں ہوتا لیکن غزل کے اشعار کی طرح ان میں ناول نگار کی بنیادی سوچ اور فکر  یا مقصد مزاج کی ایک آزاد اور سیال لہر سبھی ٹُکڑوں ، پُرزوں ( اقتباسات) میں رواں دواں رہتی ہے ۔اسی بنا پر کولاژ کے ایک حامی دانشورٹِرِسٹن زاراؔ (TristanTzara)نے ’کولاژ‘ کی اس تکنیک کوCOMPOSITION  METHOD OF  .C UT UPکہاہے۔ایک زاوئے سے ’’کولاژ‘‘ کو ’ماڈرن  ا ٓرٹ کا نگار خانہ بھی کہا جا سکتا  ہے ۔

یقین کے ساتھ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ’’کولاژ‘‘ کی اصطلاح کی ایجاد کس نے کی ، لیکن عام طور پر اس کی ایجاد اور برتائو کا سہرا فرانس کے’’سُر رئیلسٹ ‘(SUR REALIST ) ادیب میکس ارنسٹ( MAX ERNST) کے سر باندھا جاتا ہے۔ بعض ناقدین کے مطابق کولاژ کے ابتدائی نمونے  پِکاسوؔ جیسے مشہور ’مکعبی( CUBISTS) فنکاروں اور ’سُر ریئلزم ‘ اور ’ڈاڈاازم( DADAISM سے وابستہ جدت پسنددانشوروں نے ایک نئے ’زبان مرکز‘ بصارتی فن /ادب (VISUAL ART) کے نام سے پیش کئے  اور  خود میکس ارنسٹ نے فرانسیسی زبان میں کئی کولاژ ناول  پیش کئے ،مثلا ۔

  Les Malheurs des immortel (1922) 1)  (

(2) La Femme 100 Tetes (1929)

 (3) Reve dune petite fille (1930)

  (4) Une Semaine de Bonte (1933,34)

اکیسویں صدی میں ’کولاژ ناول ‘کے نظریہ سازوں میں سب سے اہم نام جوناتھن لیتھم(Jonathan Lethem ؔ)اور ڈیوِڈ شیلڈس David Shields کے لئے جاتے ہیں۔ لیتھم نے اپنے  مضمون ’’The Ecstasy of Influence (2007 ‘‘ اور شیلدسؔ نے مقالہ ’’Reality Hunger   میں بطور  افسانوی صنف ’کولاژ ناول کی حیثیت، اوریجنلیٹی، ماخذات  اور ’کاپی رائٹ وغیرہ  سے متعلق تفصیلی بحثیں کیں ۔ ان مباحث کے نتیجے میں ’کولاژ ناول‘ کو مغربی فکشن نگاری میںخاصی مقبولیت حاصل ہوئی اور کئی فکشن نگاروں نے اس نئی افسانوی صنف میں طبع آزمائی کی ۔ کولاژ ناول کے تکنیکی اور فنی امتیازات کئی ہیں ۔کولاژ ناول ’زبان مرکز (Language Based)  ہوتا ہے ۔ لیکن اس میں عام ادبی ناولوں کی طرح ، معیاری ادبی زبان(الفاظ و محاورات ہی کے استعمال کی شرط نہیں ہوتی ۔ بلکہ کولاژ ناول کا شناختی  امتیاز یہ ہوتا ہے کہ کولاژ ناولوں میں مختلف شہری اور دیہی ماحول معاشرہ کے معیاری الفاظ و تراکیب، محاورااور ضرب الامثال کے ساتھ ساتھ ٹھیٹھ دیہی بولیوں کے مخصوص دہقانی الفاظ و استعارات ، اور اصطلاحات کا بھی آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور یہی امتیازات کولاژ ناول  کے تکنیکی، فنی اور جمالیاتی محاسن(شرائط ) قرار پائے جنہیں ہم’’ کولاژ ناول‘‘ کی شعریات بھی کہہ سکتے ہیں۔اسلم جمشید پوری کے کولاژ ناول میں اس کی مثالیں بھری پڑی ہیں ۔   دھنورا کے آخری صفحات پر اسلم صاحب نے ایسے چند ایک ٹھیٹھ  مقامی الفاظ معانی کے ساتھ درج کر دئے ہیں ۔

 پروفیسر اسلم جمشید پوری کے ناول ’’دھنورا ‘‘ میں مغربی کولاژ ناول کی اکثر و بیشتر خوبیاں مل جاتی ہیں ۔ لیکن اسلم جمشید پوری کا رویہ تقلیدی نہیںہے انھوں نے اردو ناول کے مزاج اور روایت کا لحاظ رکھتے ہوئے ’دھنورا ‘ میں مغربی کولاژ ناول کی بعض شرائط سے صرفِ نظر بھی کیا ہے ۔ لیکن اظہار و بیان کا جو طریق کار اختیار کیا ہے اس کے سبب اس ناول’ دھنورا‘ میں کہیں ’’بین المتونی ناول InterTextual Novel‘‘ تو کہیں ’’نوتاریخی ناول L   NEO HISTORICAL NOVEکی خوبیاں بھی در آئی ہیں ۔ اور یہ کولاژ ناول ’’ دھنورا‘‘ کی کمزوری نہیں اضافی قوت ہے ۔یوں بھی آج کی تاریخ میںپیغام آفاقی ( پلیتہ) ترنم ریاض ( برف آشنا پرندے ) الیاس احمد گدی (فائر ایریا ) غضنفر ( کینچلی) حسین الحق (اماوس میں خواب ) عبدالصمد (جہاں تیرا ہے یا میرا ) ذکیہ مشہدی( بُلہ کیہ جاناں میں کون ) نورالحسنین(تلک الایام ) احمد صغیر   (انا کو آنے دو ) سید محمد اشرف (آخری سواریاں اور ’ہجور آما ( شبیر احمد ) جیسا کوئی بھی ناول کیوں نہ ہو ، ’خطِ مستقیم پر نہیں چلتا ۔ نہ تویک موضوعی ہوتا ہے اور نہ اطہار و بیان کا کوئی ٹھوس بندھا ٹِکا اصول ہی ہوتا ہے ۔ نئے Narratives  اور نئے ’ Discourses  کے دبائو کے سبب آج کا ناول بھی آج کے انسان کی طرح موقع محل کی مناسبت سے اپنا رویہ بدل لینے پر مجبورہے ۔ناول }}دھنورا {{کی تخلیق کے دوران ہر چند کہ اسلم جمشیدپوری  کے ذہن میں پہلی بار ’کو لا ژ‘ کی تکنیک کے تحت ناول لکھنے کا جذبہ غالب تھا ۔ دوئم وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اردو ناول کے مروجہ بیانیہ کی روایت کو یک دم اور یکسر نظر انداز کر دینا بھی قاری سے ناول کے رشتے کو منقطع کر دینے کے مترادف ہوگا اس لئے اسلم جمشید پوری نے اپنا ناول ’دھنورا ’کولاژ ‘ ٹکنیک میں لکھا تو ہے لیکن جگہ جگہ کولاز ٹکنیک کے دائرے سے باہر بھی نکل گئے ہیں تاکہ ’دھنورا‘  کا اردو ناول کی روایت سے رشتہ بھی ٹوٹنے نہ پائے ۔ حالانکہ اسلم صاحب نے دھنورا میں مختلف اور متضاد واقعات و حالات ،کردار اور کیفیات  ٹانکے تو ہیں لیکن موقع محل ہونے کے باوجود کولاژ ناول کی روایت کے مطابق   (جس کی نشاندہی اوپر کی گئی ہے ) تاریخی کُتب، افسانہ ،ناول اور اخبارات کے حوالے  تراشے بھی شامل کئے  جاتے تو اچھا ہوتا  ناول’’دھنورا‘‘ کا آغا ز ہی اس جملے سے ہوتا ہے :

  ’’میں دھنورا بول رہا ہوں ضلع بلند شہر کا ایک گائوں ۔مجھے آباد ہوئے کوئی چار ساڑھے چار سو برسوں کا زمانہ گزرہوگا ۔ ایک روایت کے مطابق کئی صدی قبل جہانگیر آباد سے دہلی لوٹتے ہوئے عالم گیر اورنگزیب کا اپنی فوج کے ساتھ یہاں

  قیام ہوا تھا ، بعد میں کافی لوگ یہاں رُک گئے‘‘ ۔

                                       دھنورا ۔ ص۔ ۱۱۔

 عہدِوسطی کے اس تاریخی واقعہ کا ذکر ہندوستان کے کئی مورخین نے کیا  ہے ، اسلم جمشید پوری کولاژ کے تقاضے کے مطابق کسی ایک تاریخی کتاب کا اقتباس نقل کر سکتے تھے ۔اسی طرح دھنورا کے ص ۲۷ پر جہاں اسلم نے گائوں کے سرمایہ دار نصیر خاں کی جانب سے کسانوں مزدوروں کے استحصال کی نشاندہی کی ہے وہاں وہ راہی معصوم رضا کے ناول ’’آدھا گائوں‘‘ حتی کہ پریم چند کے ’گئو دان‘‘ سے بھی اقتباسات نقل کر سکتے تھے ،تاکہ یہ اندازہ ہوتا کہ زمینداری اور جاگیرداری نظام میں کسان مزدور طبقہ کا کس کس طرح سے استحصال ہورہا تھا ۔دھنورا کے صٖفحہ۳۷ پر ’’تحریک آزادی ۔گاندھی جی انگریزوں اور مجاہدین کی جنگ اور ، مہاتما گاندھی کی تحریک ، اور ملک و قوم کی آزادی کے لئے ، مُنشی سکندر علی کی قیادت میں نوجوانوں کی قربانی وغیرہ کا ذکر ہے ، اس مقام پر اگر بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد اشفاق اللہ خاں وغیرہ کی تصویریں اور ان سے منسلک واقعات ، کی خبروں کے تراشے ، آزادی کے گیت اور نظمیں بھی نقل کر لی جاتیں تو ناول دھنورا کے متن میں قاری کی دلچسپی  تو بڑھتی ہی ، بحیثیت ’کولاژ ناول‘ دھنورا  کے وقار میں  مزید اضافہ بھی ہوتا ۔

بہر حال ، اسلم جمشید پوری ، زمین ،زندگی اور زمانہ سے جُڑے رہنے والے ایک  انتہائی فعال،نِڈر،اور اختراع پسند فکشن نگار اور فکشن کے نقاد ہیں اس لئے ان کا یہ ناول دھنورا بھی اردو ناول کے تاریخی تسلسل میں ایک نیا موڑ ،ایک تکنیکی اجتہاد کا حکم رکھتا ہے   ۔اس ناول کا مرکز اور محور چونکہ ’دھنورا گائوں ہے اس لئے پورے ناول میں اس قدیم پسماندہ گائوں میں  ہندوستان کی اصللا صیل ’سانجھی تہذیب اور رسوم و رواج کی خوشبو بھی پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہے ‘ ۔ کھیتی باڑی، شادی بیاہ جیون مرن ، تعلیم و تربیت ، وید حکیم  مَردوں کے خصائص اور معصوم دیہاتی عورتوں کے ریتی رواج وغیرہ کو اسلم جمشید پوری نے دھنورا میں جس طرح  فطری لسانی اصالت، اِملا ،تلفظ اور لب و لہجے کے ساتھ پیش کیا ہے وہ کولاژ ناول کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔ اس کا اندازہ اس ناول میں برتی گئی زبان، مخصوص تکنیکی اور اصطلاحی الفاظ، محاورات، ضرب الامثال وغیرہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ اس سے اردو نثر کی ارضی مقامی لفظیات  کے سرمائے میں اضافہ بھی ہوا ہے اور  ایک مخصوص ،تاریخی اعتبار سے اہم لیکن گُمنام علاقہ’دھنورا‘ کے ماحول ،معاشرہ اور روزمرہ کی سانجھی زندگی کے ثقافتی اور اخلاقی قدروں کے ادراک میں بھی مدد ملی ہے ۔اس اعتبار سے اسلم جمشید پوری کے اس ناول کو کولاژ تکنیک پر لکھا گیا اردو کا ایک کامیاب ’دیسی ناول (NATIVE NOVEL ) بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔

Leave a Reply