You are currently viewing دیوانِ نوری میں ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کا استعمال

دیوانِ نوری میں ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کا استعمال

ڈاکٹر محمد احمد نعیمی

اسسٹنٹ پروفیسر ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز

 جامعہ ہمدر د(ہمدرد یونیورسٹی) ، نئی دہلی

دیوانِ نوری میں ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کا استعمال

مختصر تعارف

شہزادۂ اعلیٰ حضرت، امام اہلِ سنت الشاہ مولانا احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ والرضوان، علامہ مولانا مصطفی رضا خاںنوریؔ قدس سرّہٗ دنیائے اسلام بالخصوص حلقۂ اہلِ سنت و الجماعت میں ممتاز عالمِ دین، معتبر فقیہ، مفتیٔ اعظمِ ہند اور عظیم روحانی مرشد کامل کے طور پر متعارف ہیں۔ آپ کی سیرت و سوانح کا تحقیقی مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ قرآن و حدیث، شریعت و تصوف، شرعی نکات، روحانی اسرار و رموز، علوم عقلیہ ونقلیہ، علوم افتا و شریعت، اصولِ حدیث، اصولِ تفسیر، فقہ و اصول فقہ، علم وراثت و علم الفرائض، علم الکلام اور علم العقائد، علم بلاغت اور علم المعانی، منطق و فلسفہ، عربی ادب، علم صرف، علمِ نحو، علم تہذیب و ثقافت، علم تاریخ و تمدن، علم العروض، فارسی، عربی، اردو، ہندی اور شعر و سخن جیسے بہت سے علوم پر اچھی دسترس رکھتے تھے اور تزکیۂ نفس، زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت، مراقبۂ وظائف، خرقۂ وخلافت، اجازت و بیعت، مثالی کردار و سیرت، خرقِ عادت کرامات و تصرفات، وہبی فضل و کمال، تبحر علمی، فتویٰ نویسی، فقہی بصیرت، احتیاطِ شریعت، ردِّ بدعات و منکرات، علمِ حدیث میں رسوخ و مہارت، فتاوٰیٔ شریعت کی نزاکت و حکمت، تبلیغ عقیدئہ ختم نبوت، پیکرِ عشقِ رسالت، اصلاحِ قوم و ملت، حق گوئی و بے باکی، تنظیمی وتحریکی منصوبہ بندی، غربا پروری، رفاہِ عامہ، انسانی خیرسگالی اور جذبۂ تعلیمی جیسی بہت سی گوناگوں صفات اور امتیازی خصوصیات سے متصف تھے۔

علامہ مولانا مصطفی رضا خاں نوری المعروف مفتیٔ اعظم ہند دیگر ستودہ صفات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم محقق و مصنف بھی تھے اور قابلِ اعتماد فقیہ اور مستند مفتی بھی۔ آپ کی تحریر کردہ تصنیفات و تالیفات قدرے قلیل ہیں لیکن جو ہیں وہ شاہکار و بے مثال ہیں۔ جن سے آپ کے علم و فضل، ذہانت وفطانت، علمی گہرائی وگیرائی، دور اندیشی، فکری جولانی اور زرف نگاہی کا بخوبی انداز ہ ہوتا ہے۔

آپ کی تصنیفات  و تالیفات اور حواشی کی مجموعی تعداد تقریباً ۳۸ ہے۔ جن میں سے چند اس طرح ہیں:

(۱)       القسوۃ علیٰ ادّواء الحمر الکفرہ                     (۲)       القول العجیب فی جواز التثویب

(۳)       النکۃ علی مراء کلکتہ                                (۴)       مقتل اکذب واجہل

(۵)       حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرۃ             (۶)       مقتل کذب و کید

(۷)       وقعات السنان فی خلق المسماۃ بسط البنان        (۸)       الموت الاحمر

(۹)       طرق الہدیٰ والارشاد الی احکام الامارۃ والجہاد

(۱۰)     فتاویٰ مصطفویہ، مجموعہ فتاویٰ مفتیٔ اعظم ہند

(۱۱)     ادخال السنان الی حنک الحلقیٰ بسط البنان

(۱۲)     سامان بخشش عرف گلستان نعت نوری                (۱۳)     طرد الشیطان (عمدۃ البیان)

(۱۴)     صلیم الدیان لتقطیع حبالۃ الشیطان

(۱۵)     وقایۃ اہل السنۃ عن مکر دیوبند والفتنۃ            (۱۶)     الہیٰ ضرب بہ اہل الحرب

(۱۷)     مسائلِ سماع                                            (۱۸)     سیف القہار علیٰ عبید الکفار

(۱۹)     مسلک مراد آباد پر معترضانہ ریمارک           (۲۰)     فصل الخلافۃ

(۲۱)     کانگریسیوں کا رد                                     (۲۲)     نہاء السنان

(۲۳)     الرحم الدیانی علی رأس الوسواس الشیطانی

(۲۴)     تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ               (۲۵)     شفآء العیٔ فی جواب سوال ممبئی

(۲۶)     الطاری الداری لہفوات عبدالباری      (۲۷)     الملفوظات (چار حصے)

(۲۸)     نفی العار عن معائب المولوی عبدالغفار وغیرہ۔

علاوہ ازیں آپ نے امام اہلسنت مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات و تعلیمات کی ترتیب و تدوین بھی فرمائی ہے۔ اور حاشیہ تفسیر احمدی، حاشیہ فتاویٰ عزیزی، حاشیہ فتاویٰ رضویہ کتاب النکاح اور حاشیہ ’’کشفِ ضلال دیوبند‘‘ (حواشی و تکمیلات الاستمداد) بھی قلم بند فرمایا ہے۔

مذکورہ بالا اکثر تصنیفات و تالیفات انتہائی مختصر صفحات پر مشتمل ہیں لیکن اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے بہت ہی جامع بلکہ ایک کوزے میں دریا سمیٹنے کے مترادف ہیں۔(مصباحی، محمد شکیل، جہانِ مفتیٔ اعظم، لاہور، اشتیاق اے مشتاق پرنٹر، ۲۰۰۷ء، ص ۷۵۷ تا ۷۷۴)

مختصر یہ کہ آپ کی ذات گرامی متنوع، کثیرالجہات، جامع الصفات اور بہت سی گوناگوں امتیازی خصوصیات کی حامل نظر آتی ہے۔

ہندی اور ہندوستانی زبان

آج ہم جس زبان سے بنام ہندی متعارف ہیں وہ اَپ بھرنش زبان (مسخ شدہ یا بگڑی ہوئی) سے تخلیق شدہ ہے، جس کی پیدائش ایک ہزار عیسوی کے قریب ہوئی لیکن ادبی تخلیق کا عمل اس میں گیارہ سو پچاس یا تیرہویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔

اپ بھرنش زبان کی خاص طور سے دو قسمیں ہیں (۱) پچھمی ہندی (۲) پوربی ہندی۔  اول الذکر شورسینی اَپ بھرنش سے ارتقاء پذیر ہوئی۔ اس میں قنوجی، بانگڑو، بندیلی، کھڑی بولی اور برج بھاشا یہ پانچ بولیاں ہیں۔ جن میں کھڑی بولی اور برج بھاشا خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں بھی اول کا ادب دوسری کے قدیم ادب سے کافی ترقی یافتہ ہے۔ یہی کھڑی بولی اپنی ادبی شکل میں ’’ہندی‘‘ نام سے مشہور ہوئی اور یہی ہندوستان کی سرکاری زبان ہے۔ اس کا عربی و فارسی لفظوں سے مزین دوسرا روپ اردو ہے جو اردو شعر و ادب کے حوالہ سے کافی خوشحال ہے۔ کھڑی بولی یا ہندی کے لیے دیوناگری رسم الخط استعمال ہوتا ہے اور الفاظ کی سطح پر زیادہ تر سنسکرت کے لفظوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اردو عربی کے ترمیم شدہ رسم الخط یا فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور الفاظ کی صورت میں اس پر عربی و فارسی کے الفاظ کااثر غالب ہوتا ہے۔

پوربی ہندی نے اردھ ماگدھی اپ بھرنش سے عروج پایا ہے، اس میں اودھی، بگھیلی اور چھتیس گڑھی تین بولیاں ہیں۔ قدیم ادب کے نقطۂ نظر سے اودھی مالدار زبان ہے جس کو تلسی اور جائسی جیسے اعلیٰ درجے کے کوی (شاعر) حاصل ہوئے ہیں۔

(۱-تیواری، ڈاکٹر بھولا ناتھ، بھاشا وگیان کوش، وارانسی، گیان منڈل لمیٹڈ، ۲۰۲۰ سموت، ص ۷۲۷ تا ۷۴۱/ ۲- تیواری، ڈاکٹر بھولا ناتھ، بھاشا وگیان، الٰہ آباد، کتاب محل، ۱۹۵۱ء، ص ۱۹۴-۱۹۵)

ہندوستانی زبانوں کے ماہرین و محققین نے ہندی کی چار اقسام یا چار شکلیں بیان کی ہیں :

(۱)       خالص و اعلیٰ ہندی: یہ ہندی کی معیاری شکل ہے، جس کا رسم الخط دیوناگری ہے۔ اس میں سنسکرت کے بہت سے الفاظ موجود ہیں، جنھوں نے فارسی، عربی اور انگریزی وغیرہ کے بہت سے الفاظ کی جگہ حاصل کرلی ہے اور یہ کھڑی بولی پر منحصر ہے۔

(۲)       دکھنی: یہ اردو اور ہندی کی وہ شکل ہے جو حیدرآباد اور اس کے اطراف واکناف میں بولی جاتی ہے۔ اس میں فارسی اور عربی کے الفاظ بمقابل اردو کم ہوتے ہیں۔

(۳)        ریختہ: یہ اردو کا وہ روپ اور وہ قسم ہے جو شاعری میں استعمال ہوتا ہے۔

(۴)       اردو: یہ ہندی کا وہ روپ ہے جو عربی و فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے اس میں سنسکرت کے الفاظ قلیل ہوتے ہیں اور عربی و فارسی کے کثیر۔ اس کا بھی کھڑی بولی پر مدار ہے اور کھڑی بولی کی ان دونوں اقسام، یعنی اردو اور ہندی کو ہندوستانی زبان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اردو اور ہندی کو اگر ہم عربی، فارسی اور ترکی وغیرہ کے الفاظ کے استعمال کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اس تعلق سے بھی دونوں زبانوں میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ نیز ان دونوں کا اگر ہم اصول و قواعد کی نگاہ سے جائزہ لیں تو اس اعتبار سے بھی دونوں میں جو فرق ہے وہ درحقیقت نہایت معمولی ہے۔ ہر ایک زبان تین عناصر سے مرکب ہوتی ہے اسم، فعل اور حرف۔ اردو اور ہندی میں جس قدر افعال و حروف ہیں وہ تمام ترایک ہیں۔ نزاع صرف اسماء کا ہے۔ اگر عربی اور فارسی اسما زیادہ ہیں تو وہ اردو ہے اور سنسکرت بھاشا کے اسما کی کثرت ہے تو وہ ہندی ہے۔(تیواری، ڈاکٹر بھولاناتھ، شبدوں کا جیون، نئی دہلی، راج کمل پرکاشن، ۱۹۷۷ء، ص ۵۴)

خیال رہے کہ بھارت ورش یا ہندوستان میں بولی جانے والی زبان کے معنیٰ و مفہوم میں لفظ ’’ہندی‘‘ کے اطلاق کی تاریخ انتہائی جدید یا آخری ترقی پذیر صورت ہے کیونکہ اس سے قبل اس کے لیے ’’ہندُوِی، ہندوئی اور ہندَوِی‘‘ الفاظ کا استعمال رائج تھا۔ چنانچہ ماہرِ لسانیات ڈاکٹر بھولاناتھ تیواری ہندی اور ہندوستانی زبان کا تحقیقی و تاریخی جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’ان کا استعمال ہندوی، ہندوئی اور ہندَوِی ان تین صورتوں میں اکثر ملتا ہے۔ ہندوئی سب سے قدیم، ہندُوِی اس کی ارتقائی شکل اور ہندَوی انتہائی ترقی پذیر صورت ہے۔ ہندُوی نام کا قدیم تذکرہ مشہور ہندوستانی فارسی شاعر محمداوفی (م ۱۲۲۸ء) کے یہاں مختلف مقامات پر ملتا ہے۔ ایک مقام پر وہ کہتے ہیں:

’’یکے با تاجی و یکے با پارسی و یکے با ہندُوِی‘‘

اسی طرح شیخ اشرف (م ۱۵۰۳ء) ’’نوسرہار‘‘ میں لکھتے ہیں:

یک یک بول نہ موزوں آن

تقریر ہندوِی سب بکھان

(بھاشا وگیان کوش، ص ۷۲۷)

طوطیٔ ہند حضرت امیر خسرو کے یہاں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

ترک ہندوستانیم من ہندُوِی گویم جواب

شکر مصری ندارم کزعرب گویم سخن

چومن طوطیٔ ہندیم راست پرسی

زمن ہندُوِی پرس تا نغز گویم

(میں ہندوستانی ترک ہوں، ہندُوِی میں جواب دیتا ہوں۔)

(پروفیسر حسین احمد، اکیسویں صدی کا ہندوستانی معاشرہ اور تصوف کی معنویت، پٹنہ، مکتبہ ارزانی، ۲۰۱۹ء، ص ۱۹۹)

۱۶؍ویں صدی کے معروف ہندی صوفی شاعر ملک محمد جائسی اپنے مجموعۂ کلام ’’پدماوت‘‘ میں اس کا اس طرح ذکر کرتے ہیں:

ترکی، عربی، ہندَوِی بھاشا جیتی آہیں

جیہہ منہ مارگ پریم کا سبے سراہیں تاہیں

(رام چندر شکلا، جائسی گرنتھاولی، پدماوت، کاشی، ناگری پرچارنی سبھا، ۲۰۱۷ء، بکرمی، ص ۳۰۱)

مایہ ناز دانشور حاتم (نصف آخر اٹھارہویں صدی) نے دیوان زادہ کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ:

’’زبان ہر دیار تا بہندَوی کہ آں رابھا کا گویند‘‘ (بھاشا وگیان کوش، ص ۷۳۳)

’’خالقِ باری‘‘ حضرت امیر خسرو اور بقول بعض ان کے بعد کے کسی مصنف کی تصنیف ہے۔ ’’ہندی اور ہندَوی‘‘ لفظوں کی تاریخ کے نقطۂ نظر سے اس کی بہت اہمیت ہے۔ اس میں ہندی لفظ کا استعمال صرف پانچ بار اور ہندَوی کا استعمال تیس بار ہوا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ زمانۂ قدیم میں اس وقت تک لفظ ہندَوی کا کثرت سے استعمال ہوتا تھا اور لفظ ہندی کا انتہائی قلیل۔

ہندی اور ہندَوِی سے متعلق بعض تحریروں سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ ہندَوی کا استعمال شاید ہندوؤں کی بولی کے لیے تھا۔ اس کے برخلاف شروع میں ہندی نام مسلمانوں کے ذریعے مستعمل اسی زبان کے لیے تھا۔ دونوںمیں قواعدکا کوئی فرق نہ تھا، لیکن الفاظ کے مرکبات اورمجموعات کا کچھ فرق تھا۔ یعنی صرف ان الفاظ کے لیے ہندوی کا استعمال ہے جو زیادہ تر ہندوؤں کی زبان میں رائج ہیں اور ہندی کا اطلاق ان الفاظ کے لیے کیا گیا جو مسلمانوں کی زبان میں کثرت سے چلتے ہیں۔ ہندَوی کو ہندوؤں کی ہندی (جس کو ہندو لوگ بھاکا یا بھاشا کہتے تھے) یا ایسی ہندی جس میں عربی و فارسی الفاظ بمقابل دوسری زبانوں کے کم رہتے تھے کا عہد انیسویں صدی کے وسط تک مانا جاتا رہا ہے۔

ڈاکٹر بھولاناتھ تیواری نے گارساں داتاسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

’’گارساں داتاسی نے اپنی تاریخ میں ’’ایندوستانی‘‘ (ہندوستانی) کا استعمال اردو کے لیے اور ایندُوئی (ہندَوی) کا استعمال ہندی کے لیے کیا ہے اس سے بھی وہی بات ظاہر ہوتی ہے اور نتیجتاً کہا جاسکتا ہے کہ ابتدائی طور پر دہلی کے آس پاس کی بولی دہلوی یا اس پر منحصر ادبی زبانوں کے لیے اِس ہندَوی نام کا استعمال ہوتا رہا ہے اور اس صورت میں ’’ہندَوی‘‘ ہندو اور مسلمان دونوں کی زبان رہی ہے۔ اور اس کے تحت ہندی، ہندوستانی، دکھنی، ریختہ اور اردو وغیرہ سبھی زبانیں شامل رہی ہیں۔‘‘ (بھاشا وگیان کوش، ص۷۲۸)

زبان کے لیے ہندی لفظ کے استعمال کی تاریخ فارس اور عرب سے شروع ہوتی ہے۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے کچھ پہلے سے ہی ایران میں ’’زبانِ ہندی‘‘ کا اطلاق ہندوستانی زبانوں کے لیے ہوتا رہا ہے۔

ہندوستان میں بھی زبان کے معنی میں ہندی لفظ کا استعمال ابتدا میں مسلمانوںکے ذریعے ہی کیا گیا ہے۔ مغربی ممالک سے ہندوستان آنے والے لوگ اور مسلمان اس ملک کے لیے ’’ہند‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہی تھے، لہٰذا جب وہ یہاں آئے تو یہاں کی زبان کو ’’ہندی زبان‘‘ کہنے لگے۔ ان کا مخصوص تعلق چونکہ وسط ملک سے تھا، اس لیے رفتہ رفتہ اس وسط ملکی بولی کے لیے انھوں نے ’’زبانِ ہندی یا ہندی‘‘ نام کا استعمال کیا۔ (بھاشا وگیان کوش، ص ۷۳۱)

مذکورہ بالا حوالہ جات سے جہاں دوسری معلومات فراہم ہوتی ہیں، وہاں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ ہندوی اور ہندی زبان غالباً ایک تھی۔ چنانچہ مخزن الغرائب میں ہے:

’’در زبانِ ہندی کہ مراد اردو است‘‘

۱۸؍ویں صدی کے قریب مراد شاہ نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے:

جھنجھوڑا فارسی کے استخواں کو

کیا پر مغز تب ہندی زباں کو

فصاحت فارسی سے جب نکالی

لطافت شیر میں ہندی کے ڈالی

اسی طرح گل کرائسٹ بھی ابتدا میں ہندی لفظ کا استعمال اردو کے معنی میں ہی کرتے ہیں۔ امید یہ ہے کہ ۱۸۰۰ء کے آس پاس ہندی لفظ کا استعمال اردو اور ریختہ کے لیے ہورہا تھا۔ تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ جدید معنیٰ میں ہندی لفظ کے وسیع استعمال کا سہرا حقیقت میں انگریزوں کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ ۱۸۰۰ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں آیا، وہاں گل کرائسٹ ہندی یا ہندوستانی کے استاذ مقرر ہوئے۔ اگر اس وقت گل کرائسٹ نے وسط ملک کی حقیقی نمائندہ، ترجمان زبان کو، جو نہ تو زیادہ عربی و فارسی کی طرف جھکی ہوئی تھی اور نہ سنسکرت کی طرف، اپنایا ہوتا تو آج ہندی اور اردو نام کی دو زبانیں نہ ہوتیںاور ہندی زبان اور اس کے ادب کا کچھ اور ہی نقشہ ہوتا۔

جدید معنیٰ میں ہندی کا صاف طور سے تحریری استعمال کبھی سب سے پہلے کیپٹن ٹیلر نے کیا۔ ۱۸۱۲ء میں فورٹ ولیم کالج کی سالانہ روداد میں وہ کہتے ہیں:

’’میں صرف ہندوستانی یا ریختہ کا ذکر کررہا ہوں، جو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ میں ہندی کاذکر نہیں کررہا ہوں جس کا اپنا رسم الخط ہے، جس میں عربی، فارسی الفاظ کا استعمال نہیں ہوتا اور مسلمانوں کے حملہ کرنے سے قبل جو بھارت ورش کے تمام شمالی و مغربی علاقہ کی زبان تھی۔‘‘ (بھاشا وگیان کوش، ص ۷۳۵)(Imperial Records, Vol. 4, P. 267/268)

علاقائی زبان

قومی زبان کے علاوہ اپنے اپنے علاقوں میں جو زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں وہ علاقائی زبان کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ جیسے بھوجپوری، اودھی، بنگلہ، پنجابی، گجراتی اور مراٹھی وغیرہ۔ یہ اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی و ترجمانی کرتی ہیں۔ جب کہ قومی زبان کو ملک کے تمام حصوں اور علاقوں میں استعمال کیا جاتا اور سمجھا جاتا ہے۔ قومی زبان کو اس معنیٰ کر بھی بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ یہ علاقائی زبانوں کے تعاون اور اشتراک سے ملک کے تمام حصوں میں آباد لوگوں میں اتحاد اور اتفاق کا ماحول قائم کرتی ہے اور پورے ملک میں لوگوں کے مابین میل جول ، باہمی اتحاد، پیار اور محبت بڑھانے کا وسیلہ بن جاتی ہے اور اس طرح یہ ایک ملک کے مختلف زبان بولنے والے باشندوں کو ایک قوم کی شکل میں متحد کردیتی ہے۔ بلکہ انسانی ذہن کے سوچنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

کسی ملک کی علاقائی زبانوںکا اس ملک کی قومی زبان سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔کیونکہ ایک زبان کے الفاظ دوسری زبان میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور پھر علاقائی زبانوں کے الفاظ، محاورے اور ضرب الامثال قومی زبان میں شامل و جذب ہوکر اس کی وسعت و ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح قومی زبان کے الفاظ، محاورے اور ضرب الامثال علاقائی زبانوں میں شامل ہوکر انھیں وسعت اور فروغ بخشتے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو انسب ہوگا کہ علاقائی زبانیں اور قومی زبان ایک دوسرے کو تقویت فراہم کرتی ہیں۔

انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی مختلف زبانیں ایک دوسرے سے اثر قبول کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے الفاظ کا ان میں تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی مختلف زبانوں نے ایک دوسرے کو متاثر کیا ہے جیسے کہ ہندی کے بعض الفاظ اردو میں اور اردو کے بعض الفاظ ہندی میں بے تکلفی سے استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہندی اور اردومیں بہت سے الفاظ مشترک ہیں۔ ہندی چونکہ قومی زبان ہے اور اردو بھی اس کا ایک روپ ہے اس لیے ساری علاقائی زبانوں پر ان کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح الفاظ کے تبادلے سے ہر زبان کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا ہے۔ اور زبان کی تازگی، جاذبیت اور قوت بھی اسی صورت میں برقرار رہتی ہے جب اس میں نئے الفاظ اور نت نئے خیالات داخل ہوتے رہتے ہیں۔

مختصر یہ کہ ہندوی ہو یا ہندی، اردو ہو یا ہندوستانی یا علاقائی زبان سب کا اٹوٹ رشتہ ہندوستان سے ہے جواس وطن عزیز کی خوشبو سے عطر آگیں، گنگا جمنی سنسکرتی کی علامت اور صوفی سنتوں کے شیریں خیالات اور حسین تعلیمات کا نتیجہ ہیں جو مختلف علاقوں کے باشندوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے، ایک دوسرے کا دل موہنے، بپتا سننے، دکھ سکھ بانٹنے اور باہمی خیالات کا تبادلہ کرنے کے لیے ایک اہم ذریعے کی صورت میں جلوہ گر ہوئیں۔ جن کے ابتدائی نقوش خسرو کی کہہ مکرنیوں، دوہوں اور پہیلیوں میں نظر آتے ہیں، گرونانک کی وانی میں جن کا عکس ملتا ہے اور ملک محمد جائسی کی پدماوت، چاند بردئی کی پرتھوی راج راسو، بہاری کی ست سئی اور میرا کے پدوں میں جن کی خوشبو کا احساس ہوتا ہے۔ نیز جن کو خسرو نے ہندوی، مصحفی وغیرہ نے ہندی اور مہاتما گاندھی وغیرہ نے ہندوستانی کہا ہے اور آج ہم جن کو اردو کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر محمد آصف حسین لکھتے ہیں:

’’جیسے جیسے ان محبت کے پیغامبروں یعنی صوفیوں کا حلقہ بڑھتا گیا، ان کے عقیدت مندوں کا سلسلہ طویل ہوتا گیا اور ویسے ویسے ان کے رابطے کے وسیلے کے طور پر ایک ایسی زبان وجود میں آئی جو نہ عربی تھی، نہ فارسی، نہ پشتو تھی نہ سندھی بلکہ وہ ان تمام زبانوں کے الفاظ کا ایک مجموعہ تھی جو سنسکرت، پالی،اپ بھرنش، کھڑی بولی، قنوجی اور بھارت کی دیگر علاقائی زبانوں اور بولیوں کے میل جول سے تیار ہوئی تھی۔ جب ان الفاظ کو فارسی رسم الخط میں لکھا گیا تو اس مجموعہ یا مرکب کو اردو کہا جانے لگا اور دیوناگری رسم الخط میں لکھا گیا تو اس کو ہندی بولا جانے لگا۔ جو ہمارے وطن عزیز ہندوستان کی انفرادی شان یعنی کثرت میں وحدت اور انیکتا میں ایکتا کی واضح دلیل ہے۔ اس تعلق سے منصور عثمانی نے کیا ہی عمدہ بات کہی ہے:

ہندو رانی دیش کی، اردو جس کا تاج

خسرو جی کی شاعری ان دونوں کی لاج

(ڈاکٹر محمد آصف حسین، مرادآباد کے غیر مسلم شعراء، دہلی، ایم کے آفسیٹ پرنٹرس، ۲۰۱۵ء، ص ۱۴)

نعت و منقبت وغیرہ میں ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کااستعمال

زبان فکر اور خیال کو دوسروں پر ظاہر کرنے کا اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ انسان اپنی بات کو اشاروں کے ذریعے بھی دوسروں تک پہنچاسکتا ہے مگر اس طرح اظہارِ خیال ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا کہ تبادلۂ خیال اور اپنی فکر کی ترجمانی کے لیے زبان اشد ضروری ہے۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ مذہب اور علم کو بھی اپنی تبلیغ و ترسیل اور ترقی کے لیے زبانوں کی لازمی طور پر ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ زبانوںکا کسی خاص دین، خاص مذہب، یا خاص دھرم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی زبانیں کسی دین یا مذہب کی اجارہ داری یا متابعت قبول کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عہد اور ہر ملک میں بہت سے صوفیا علما، ادبا اور شعرا نے بلا لحاظ مذہب و ملت دنیا کی مختلف زبانوں میں اپنی نگارشات اور ادبی تخلیقات سے کتب و رسائل کو زینت بخشی ہے۔ اگر ہم اپنے وطنِ عزیز ہندوستان کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں بھی ہزاروں اہلِ علم وفن اور دانشورانِ شعر و سخن نے بلا امتیاز مذہب و ملت فارسی، اردو، ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں میں اپنی علمی صلاحیتوں اور ادبی مہارتوں کے گلدستے سجائے ہیں اور یہ تاثر دیا ہے کہ زبانیں زندہ اقوام کی شناخت و پہچان اور ملک و وطن کی علامت و شان ہوتی  ہیں۔

اہلِ علم و دانش اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ جب بھی کوئی زبان یا کوئی قوم کسی دوسری زبان یا دوسری قوم سے قربت اختیار کرتی ہے  تو ایک دوسرے کے باہمی اثرات سے ضرور متاثر ہوتی ہے۔ ہندی، اردو اور ہندوستانی زبانیں چونکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کا عظیم نتیجہ ہیں اس لیے یہ اپنے روزِ اول سے ہی ایک دوسرے کے بہت قریب رہی ہیں اور اس کا یہ اثر ہوا کہ ہندی زبان کے الفاظ، بھجنوں کے اسالیب و رموز، تشبیہات و استعارات اور دلی جذبات و کیفیات کی جلوہ گری نعوت و مناقب میں بھی ہونے لگی اور اس طرح صنفِ نعت و منقبت کی ہیئت اس جہت سے بھی وسعت سے ہمکنار ہوئی۔ اور پھر ہندی گیت، چھند، دوہے، راگ اور بھجن وغیرہ کے روپ میں بھی دانشورانِ شعر و سخن بارگاہِ رسالت مآب ﷺ اور دیگر اکابرینِ اسلام کے حضور منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنے لگے۔ بالخصوص صوفیاء کرام نے اس مشترکہ زبان اور اسلوب کو اپنی تعلیمات کے افہام وتفہیم اور نبیٔ اکرم ﷺ سے قلبی عقیدت و محبت کے اظہار کے لیے خوب خوب فروغ بخشا اور تعلیماتِ نبوی ﷺ کی تبلیغ و اشاعت کے لیے عوامی زبان کا کثرت سے استعمال کیا۔

آئیے اب ان عظیم شخصیات کی طرف چلتے ہیں جو اردو، ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کے مابین ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر ایک طرف اردو ادب کی تاریخ ان کے ذکرِ جمیل کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتی ہے تو دوسری طرف ہندی اور ہندوستانی ادب میں بھی ان کی خدمات سے روگردانی نہیں کی جاسکتی ہے۔ مثلاً حضرت امیر خسرو کا کلام ملاحظہ فرمائیں:

رینی چڑھی رسول کی سورنگ مولیٰ کے ہاتھ

جس کے کپرے رنگ دئے سودھن دھن وا کے بھاگ

خسرو باجی پریم کی میں کھیلوں پی کے سنگ

جیت گئی تو پیا مورے ہاری پی کے سنگ

خسرو دریا پریم کا، الٹی باکی دھار

جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا سو پار

گوری سووے سیج پر، مکھ پر ڈارے کیس

چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چہودیس

خسرو مولیٰ کے روٹھتے، پیر کے سرنے جائے

کہے خسرو پیر کے روٹھتے، مولیٰ نہیں ہوت سہائے

شیخ شرف الدین المعروف حضرت بو علی شاہ قلندر پانی پتی بھی ہندی زبان میں اچھی دسترس رکھتے تھے۔ عربی،فارسی اور علاقائی زبان کے علاوہ ہندی ادب پر بھی آپ کو عبور حاصل تھا۔ آپ کے کئی دہرے آج بھی زبان زدِ خلائق ہیں۔ مثلاً:

گھونگھٹ کھول بدن حسین مکھ دیکھن دے موہے

ناتر نعرہ ماروں جو سب جگ دیکھے تو ہے

پنڈت ریکھا باج کر پوتھی پانی پور

سگرے انچھر میٹ کر من میں سائیں لوڑ

پوتھی بھی تھوتھی پنڈت بھیا نہ کوئے

اکو انچھر پریم کا بڈھے سو پنڈت ہوئے

اسی طرح ایک بار ایک مفتی امام صاحب کو ’’لا صلوٰۃ الا بحضور القلب‘‘ کی نصیحت فرماتے ہوئے کہا:

آنکھیں گھاٹی گورووہاوے

ایہہ نماز شرفا نہیں بھاوے

(شیخ محمد عطا نظامی و شیخ حبیب اللہ مظہر نظامی ، مفتاح الغیب شرح دیوان بو علی قندر، سیالکوٹ، دارالکتب نظامیہ قلندریہ، ۱۹۳۳ء، ص ۲۱-۴۲)

شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۶۳ء/۱۳۷۰ء) طبقۂ صوفیا میں اپنا ایک منفرد و نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ ہندی بھاشا اور پوربی زبان کے بھی کہنہ مشق شاعر تھے۔ مثلاً ان کا حسب ذیل کلام ملاحظہ فرمائیں:

کالا ہنس نہ ملا بسے سمندر تیر

پنکھ پسارے یکہ ہرے نرمل کرے سریر

در د  ر ہے  نہ  پیر

(پنجاب میں اردو، ص ۱۴۶)

شرف حرف مائل کہیں درد کچھ نہ بسائے

گرد چھوئیں دربار کی سو درد دور ہوجائے

(ڈاکٹر مولوی عبدالحق، اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاء کرام کا کام، علی گڑھ، انجمن ترقی اردو ہند، ص ۱۷-۱۸)

حضرت گیسو دراز بندہ نواز صاحبِ علم و فضل اور صاحبِ تصانیف کثیرہ بزرگ ہیں۔ اکثر طلبہ اور مریدوں کو حدیث، تصوف اور سلوک کا درس دیا کرتے تھے اور کبھی کبھی کلام و فقہ کی بھی تعلیم دیا کرتے تھے اور جو لوگ فارسی وغیرہ سے ناواقف تھے ان کی افہام و تفہیم کے لیے ہندی زبان میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔

آپ کی ادبی تخلیقات میں ہندی اور علاقائی دونوں زبانوں کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ مثلاً:

او معشوق بے مثال نورِ نبی نہ پایا

اور نورِ نبی رسول کا میرے جیو میں بھایا

ابلیس اپیں دیکھاونے کیسی آرسی لایا

کرو سکلا دل گیان کا انعام دے خوش دھیان کا

چارا کھلا ایمان کا رکھ باندھ اپنے دارتوں

شہباز حسینی کھوئے کر ہر دو جہاں دل دھویکر

اللہ آپے یک ہوئے کرتب پاوے گا دیدارتوں

(اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاء کرام کا کام، ص ۲۱-۲۲)

شیخ عبدالقدوس گنگوہی (۱۴۵۵ء/۱۵۳۸ء) سلسلۂ صابریہ کے مشہور بزرگ اور صاحبِ تصانیف کثیرہ ہیں۔ آپ ہندی کے شاعر تھے اور ’’الکھ داس‘‘ تخلص فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی تصنیف ’’رشد نامہ‘‘ میں تصوف اور وحدت کے وجود کے نکات بیان کرتے ہوئے جگہ جگہ ہندی دوہرے بھی ذکر فرمائے ہیں۔ جیسے:

یہ جگ نا ہیں باج پی بوجھ برہم گیان

سو پانی سو بلبلا سوئی سرور جان

ایکی اوہو ایکی ماں ایکی سرور ایکی ہانس

گر مکھ بوجھ برہم گیان تیں ترلوک ایک کے جان

دھن کارن پی  آپ سنوارا

بن دھن سکھی کنست کنہارا

شہ کھیلے دھن ما نہیں ایواں

باس پھول مہنن اچھے جیواں

کیوں نہ کھیلوں تجھ سنگ میتا

مجھ کارن تیں ایتا کیتا

الکھ داس آکھے سن ہوئی

سوئی پاک ار تہ پہن ہوئی

(اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاء کرام کا کام، ص ۲۸-۲۹،پنجاب میں اردو، ص ۱۶۱)

مذکورہ بالا صوفیاء کرام و علماء کے علاوہ حضرت قطب عالم و حضرت شاہ عالم ، حضرت سید محمد جون پوری، شیخ بہاؤالدین باجن، شاہ محمد غو ث گوالیاری، سید شاہ ہاشم حسنی العلوی اور شاہ میراجی اور شاہ برہان الدین جانم جیسے بہت سے حضرات نے ہندی اور علاقائی زبان میں بھی بکثرت طبع آزمائی کی ہے۔ (پروفیسر محمود خاں شیرانی، پنجاب میں اردو، لاہور، انجمن ترقی اردو)

مرادآباد کے مشہور و معروف روحانی درویش، صوفی بزرگ حضرت شاہ بلاقی علیہ الرحمۃ والرضوان کہ جن کا آستانہ آج بھی گنگا جمنی تہذیب اور قومی یکجہتی کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، اس صاحبِ دل فقیر نے بھی فارسی اور اردو کے ساتھ خالص ہندوستانی رنگ و آہنگ میں اپنے روحانی خیالات اور قلبی واردات کی دوہوں کی شکل میں ترجمانی کی ہے۔ شاہ بلاقی فرماتے ہیں:

مرنے سے سب جگ ڈرے پنچھی اور سب جیو

بولا سن نہجو بہیو مرے ملت ہیں پیو

بولا بھولا کیا پھرے من کو کیے اداس

سائیں من میں یوں بسیں جیوں پھولن میں باس

بولا بھولا کیا پھرے اب بھی تو ٹک چیت

بن جوتے بن باہ دئیے، بیج نہ ببوت کھیت

سارن برہن موہ ملی کرتے اپنا کاج

اوہ اکہٹ ہوں یوں سنے لیو پی آج پیاج

(مرادآباد کے غیر مسلم شاعر، ص ۲۱-۲۲)

صوفی سنتوں کا کام دراصل خدمتِ خلق اور انسانی بھائی چارہ اور ہندو مسلم اتحاد تھا۔ ان کا سندیش تھا کہ تمام مسلم اور غیر مسلم اقوام کو ایک قوم کی حیثیت سے معاشرتی و سماجی زندگی بسر کرنی چاہیے اور انسانیت، محبت اور باہمی ہمدردی کا ایک دوسرے کے تئیں جذبہ رکھنا چاہیے۔ نیز لسانی و تہذیبی یگانگت، سنجیدہ زبان، شائستگیٔ بیان اور آپسی میل جول کی متحد ہوکر کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہی صوفیا کی تعلیم کا اصل نصب العین ہے اور یہی انسانیت و روحانیت کا لب لباب ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے ہندی اور ہندوستانی الفاظ کو شعری جامہ پہناتے ہوئے کیا ہی خوب فلسفیانہ تعلیم دی ہے:

دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ

دامانِ آسماں سے اس کا کلس ملادیں

ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے

سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلادیں

شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریم میں ہے

(اکیسویں صدی کا ہندوستانی معاشرہ، ص ۱۴۵)

اس تعلق سے محسن کاکوروی کا نام بھی بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے۔ اس لیے کہ انھوںنے اپنے مشہو رنعتیہ قصیدے مدیح خیرالمرسلین میں نہ صرف یہ کہ ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبان کا برملا استعمال کیا ہے بلکہ ہندو دھرم اور ہندوستانی تہذیب کی بہت سی اصطلاحات کو بھی انتہائی اچھوتے انداز میں نظم کیا ہے۔ مثلاً ان کے قصیدے کے مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں:

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

خبر اڑتی ہوئی آئی ہے مہابن میں ابھی

کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل

اب کے میلا تھا ہنڈولے بھی گرداب بلا

نہ بچا کوئی محافہ، نہ کوئی رتھ نہ بہل

ڈوبنے جاتے ہیں گنگا میں بنارس والے

نوجوانوں کا سنیچر ہے  یہ بڑھوا منگل

دو بالا کیے دیتے ہیں ہوا کے جھونکے

بیڑے بھادوں کے نکلتے ہیں بھرے گنگا جل

جوگیا بھیس کیے چرغ لگائے ہے بھبھوت

یا کہ بیراگی ہے پربت پہ بچھائے کمبل

راکھیاں لے کے سلونوں کی برہمن نکلیں

تار بارش کا تو ٹوٹے کوئی ساعت کوئی پل

خوب چھایا ہے سرِ گوکل و متھرا بادل

رنگ میں آج کنھیا کے ہے ڈوبا بادل

ہوا مبعوث فقط اس کے مٹانے کے لیے

سیفِ مسلول خدا نورِ نبیٔ مرسل

مہرِ توحید کی ضو اوجِ شرف کامہ نو

شمعِ ایجاد کو لو بزمِ رسالت کا کنول

یہ قصیدہ اپنی نوعیت کا منفرد قصیدہ ہے کہ جس میں ہندوستانی ماحول و تہذیب کا منظر ہندی الفاظ میں بہت ہی بے تکلفی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

مختصر یہ کہ اردو، ہندی، اور ہندوستانی ادب میں ایسے دانشورانِ شعر و سخن کی ایک طویل فہرست ہے کہ جنھوں نے اردو نعتوں اور منقبتوں میں ہندی الفاظ و اصطلاحات، تلازمات و مناسبات اور استعارات و تشبیہات کابڑے حسین پیرائے میں ذکر کیا ہے۔ اگرچہ اردو اور ہندی کی بحروں میں کئی حیثیت سے نمایاں فرق ہے لیکن اس کے باوجود ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کے اثرات اور عکوس واضح طور پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان حضرات نے ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کے الفاظ اور اصطلاحات کو اتنے بہترین سلیقے سے استعمال کیا ہے اور ہندوستانی تہذیب اور ماحول کی اتنی حسین عکاسی کی ہے کہ کلام کا حسن مزید دو بالا اور انتہائی جاذب و دلکش ہوگیا ہے۔ آپ خود ہی ملاحظہ فرما کر فیصلہ فرمائیں:

بابا چھیٹو داس بارگاہِ رسول میں اپنی عقیدت کا خراج پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

نام محمد آس بڑی ہے اب تیرے نام کی ٹیک پڑی ہے

جہاں جھرنا و ندی گہری اوگاہ اتھاہ میں آن پھنسی ہے

کھیون ہار بنا پتوار کہاں سے کہوں گہنوں کی سری ہے

نام محمد آس بڑی ہے اب تیرے نام کی ٹیک پڑی ہے

چار ہو تو پار اتارو تمرے نگیچ نہ یہ بات بڑی ہے

چھیٹو داس کی عرضی یہی اب پار کرو مری ناؤ اڑی ہے

(دھرمیندر ناتھ آزاد، پروفیسر، ہمارے رسول، نئی دہلی، سفارت جمہوری ایران، ۲۰۱۱ء، ص ۵۹۲)

دھرما، مراؤ اپنے دلی جذبات کا یوں اظہار کرتے ہیں:

نین پسارے دیکھا سب جگ

تمہیں ہو دوسر نہیں اور

پیا اِک با دیکھو نینن کی اور

کب دیہو درشن پیا محمد موہے

یہ ہی نس دن گور

پیا اِک بار دیکھو نینن کی اور

جاکو پیا چاہے تاہی سہاگن

دھرما کا ہو کیر نہور

پیا اک بار دیکھو نینن کی اور

(ماہنامہ خاتون، رسول نمبر، کراچی، پاکستان، ۱۳۸۳ھ، مدیر شفیق بریلوی)

سنت کبیر داس بنارسی محمد ﷺ کی عظمت وانفرادیت کو شعری قالب میں ڈھالتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایسی مہان ہستی ہے کہ کائنات کی ہر شئے میں اس کے جلوے نظر آتے ہیں۔

عدد نکالو ہر چیز سے کرلو چو گن وائے

دو ملا کے پچگن کرلو بیس کا بھاگ جائے

باقی بچے کے نوگن کرلو دو اس میں اور ملائے

کہت کبیر سنو بھئی سادھو نامِ محمد آئے

(ہمارے رسول ، ص ۵۹۳)

ودیانند پرشادبھی پیغمبر اسلام ﷺ کے حد درجہ گرویدہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ہندی الفاظ اور ہندی تلازمات و مناسبات سے بھرپور لطف اٹھاتے ہوئے اس دھرتی پر ان کے آگمن اور وراجمان ہونے کے منظر کی بڑی حسین تصویر کھینچی ہے۔ میلاد النبی ﷺ سے متعلق ہندی میں یہ ایک طویل نعتیہ نظم ہے۔ بطورِ خاص چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

سینت، آمنہ کے من میں جا، کھوج رہی ہے ممتا پیار

ماں بنتے ہی پھوٹ پڑیگی، جس کی سرن سدھامیہ دھار

تبھی ہوا مسکاتا بالک، ملا آمنہ کو نسب سنبل

شبھ پانچ سو اکہترسن، سوموار دن، ربیع الاول

ایش کرپا کے ہی کارن تو، جنت مانو ملا گود میں

آلنگن کر چوم اٹھایا، کملا نن کھل اٹھا مود میں

شوہر عبداللہ کے مرنے کے نہ رہے کوئی سنتاپ

ہردِے کوش بھرگیا ہرش سے آنندوں سے اپنے آپ

ہر سکھ شانتی پرمود ہرش کا کیندر وندو کیول وہ بالک

اس نے جان لیا ہے من میں، پربھو ہیں اس کے رکھشک پالک

(ہمارے رسول، ص ۵۹۴)

نعوت و مناقب یا اسلامی تعلیمات و شعائر سے مرصع منظوم کلام میں فارسی، عربی اور اردو کے الفاظ کے ساتھ ہندی الفاظ اور ہندی اصطلاحات کا منفر دانداز میں استعمال صرف ہندو سنت اور ہندو کویوں کے یہاں ہی نہیںملتابلکہ ایسے مسلم صوفیا اور شعرا کی بھی ایک بڑی تعداد ہے کہ جن کے کلام میں ہندوستان میں رائج و مستعمل مختلف زبانوں کا حسین سنگم نظر آتا ہے۔ مثلاً عبدالعزیز خالد کا حسب ذیل کلام ملاحظہ فرمائیں:

میں شبدوں کی پیاسی، میں چرنوں کی داسی

تری جستجو مجھ کو صبح و مسا ہے

میں جوگن بروگن، میں کملی کمینی

تو سرتاج میرا، مرا دیوتا ہے

تو دیپک میں کاجل تو درپن میں سیسہ

میں کالک تو پربھات کی لالما ہے

(ہمارے رسول، ص ۱۴۶)

شمار کرنے چلیں، اس کی خوبیوں کا اگر

تو ساتھ چھوڑ دیں تھک تھک کے نیل سنکھ پدم

ہے جوت جس کی فسوں خیر چاندنی کی طرح

شریر جس کا پوتر اور آتما ہے پرم

اسی کو کہتے ہیں مانے جگت جگاون ہار

اسی کے نور سے تت چھن میں دور رات کا تم

مہا پرش جسے آکار الکھ پرکاش کا کہیں

پسینہ جس کا ہے سونا، سگندھ دہ ستم

(ہمارے رسول، ص ۱۴۷)

اسی طرح ممتاز جہاں گنگوہی (م ۱۹۲۷ء) کے یہ نعتیہ اشعار دیکھیں:

کوئی ایسی سکھی چاتر نہ ملی موہے پی کے دوارے بٹھا دیتی

میں تو راہِ مدینہ بھی دیکھی نہیں موری بہیاں پکڑ کے بتادیتی

وا کے دوارے پہ جاتی ہیں سکھیاں سبھی، موری ارج کسی نے نہ اتنی کہی

کبھی اپنی جوگنیا کو بلواؤ تو وہ بھی روجے پہ جان گنوادیتی

اللّٰہم صل علی محمد یا رب صل علیہ وسلم

(کنور اندر سہائے سکسینہ علم بدایونی، بزم طرب، حصہ اول، ص ۵۷)

اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی شاہ واجد پریشان ہیں۔ انھوں نے بھی بزبانِ ہندی اور علاقائی بڑے ہی عاجزانہ انداز میں بارگاہِ رسول میں منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:

سدھ لے موری موہے سرتاجا

سدھ کل راجن کے راجا

سدھ لے موری جبریل کے سائیں

ہے بتین کے راج گسائیں

اے صدیق کے راج دلارے

عمر عثماں کے پالن ہارے

سدھ لے بی بی خدیجہ کے بالم

صلی اللہ علیہ و سلم

(ہمارے رسول، ص ۱۴۶)

دیوانِ نوری میں ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کا استعمال

سامانِ بخشش مفتیٔ اعظم ہند علامہ مولانا مصطفی رضا خاں نوری علیہ الرحمۃ والرضوان کا نعتیہ دیوان ہے۔ جو حمد باری تعالیٰ، نعوت، مناقب، غزلیات اور رباعیات پر مشتمل کلام کا حسین گلدستہ ہے۔ اس کے اکثر حمدیہ، نعتیہ، منقبتیہ اور غزلیہ کلام کی ردیف، قافیہ اور زمین انتہائی سادہ اور سہل ہے۔ مکمل دیوان توحید رب العالمین، فضائل و محامد سید المرسلین، قرآن و حدیث، تفسیر، فقہ اور سیرتِ رسول اکرم ﷺ کی بوقلمونی سے سرشار نظر آتا ہے۔

علامہ نوری کو شاعری ورثہ میں ملی تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں آپ کے والد بزرگوار امام احمد رضا قدس سرہٗ کا عکس کافی حد تک جلوہ گر ہے۔ امام احمد رضا کا نعتیہ کلام عشقِ رسول کا منھ بولتا شاہکار ہے اور عشقِ رسول کا یہی رنگ و ڈھنگ دیوانِ نوری سے مترشح ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دیوانِ رضا اور دیوانِ نوری کے حسب ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا

دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں

جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا

جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں

یاد میں جس کی نہیں ہوش تن و جاں ہم کو

پھر دکھا دے وہ رخ اے مہرِ فروزاں ہم کو

(حدائق بخشش، دیوانِ رضا)

چارہ گر ہے دل تو گھائل عشق کی تلوار کا

کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہم زنگار کا

دل ہے کس کا جان کس کی سب کے مالک ہیں وہی

دونوں عالم پر ہے قبضہ احمد مختار کا

ہائے اس دل کی لگی کو میں بجھاؤں کیوں کر

فرطِ غم نے مجھے آنسو بھی گرانے نہ دیا

اب کہاں جائیگا نقشہ ترا میرے دل سے

تہ میں رکھا ہے اسے دل سے گمانے نہ دیا

(سامانِ بخشش، دیوانِ نوری)

قرآن و سنت کے مطابق خشیتِ الٰہی، حبِ رسول یا عشقِ رسول ایک مومنِ صادق کے لیے جزولاینفک کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بندئہ مومن کو معراجِ ایمانی اسی وقت حاصل ہوتی ہے، جب اس کا سینہ عشقِ مصطفی ﷺ کا مخزن و مسکن ہوتا ہے اور یہی وہ نعمتِ عظمیٰ ہے کہ جس کے باعث کلام میں روحانی طہارت و لطافت اور قلوب کو منور و مجلّٰی کرنے والی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور ایک عاشقِ صادق اور صاحبِ قلب و نظر شخصیت سے روشناس کراتی ہے۔ سامانِ بخشش کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا یہ مجموعۂ کلام درحقیقت اس خوفِ الٰہی اور عشقِ رسول کا منظوم اظہار ہے کہ جو آپ کے دل میں موجیں ماررہا تھا۔مثلاً یہ اشعار دیکھیں:

یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروروں

ترے نام پر سب کو وارا کروں میں

ترا ذکر لب پر خدا دل کے اندر

یونہی زندگانی گزارا کروں میں

خدا ایک پر ہو تو اک پر محمد

اگر قلب اپنا دو پارہ کروں میں

دیوانِ نوری کی ایک ممتاز خوبی یہ ہے کہ حمد ہو یا نعت، منقبت ہو یا رباعی ہر ایک میں رنگ تغزل، نغمگی و شیرینی اور فصاحت و بلاغت کا ایسا تنوع موجود ہے کہ جو سامعین کو مسحور و مسرور کردیتا ہے۔ شعر و سخن سے ذرا سی بھی واقفیت رکھنے والے قارئین مندرجہ ذیل اشعار سے اس کیفیت کا بحسن و خوبی احساس کرسکتے ہیں:

کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں میں

ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں

مئے محبتِ محبوب سے یہ ہیں سرسبز

بھری ہوئی ہے شرابِ طہور آنکھوں میں

یہ اشتیاق تری دید کا ہے جانِ جہاں

دم آگیا ہے دم احتضار آنکھوں میں

یہ حالِ زار ہے فرقت میں تیرے مضطر کا

کہ اشک آتے ہیں بے اختیار آنکھوں میں

قریب ہے رگِ گردن سے پر جدا ہے وہ

نہ یار دل میں مکیں ہے نہ یار آنکھوں میں

کسی بھی شاعر کی شعر گوئی، پروازِ تخیل اور اس کی فکری کاوش کے معیار کا جائزہ لینے کے لیے شعری تلازمات ومناسبات اور ادبی اصطلاحات کے ساتھ اس بات کو ملحوظ رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ اس کے گردوپیش اور اطراف و اکناف میں پائے جانے والے ماحول اور زبان کا بھی جائزہ لیا جائے کہ جس میں اس کی جولانیٔ طبع پروان چڑھی اور اپنے افکار و خیالات کے موتی بکھیرتی رہی۔ کیونکہ ماحول اور زبان کا شاعر کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ شاعر جب اپنے گردوپیش کے ماحول اور زبانوں سے متاثر ہوتا ہے تو اس کے کلام میں سوز و شگفتگی، جدت و برجستگی اور ندرت و جاذبیت جنم لیتی ہیں۔ اس پس منظر میں جب ہم حضرت نوی بریلوی کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ موصوف اپنے گردوپیش اور اطراف و اکناف کے احوال کے ساتھ ساتھ ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں پر بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ آپ کے دیوان ’’سامانِ بخشش‘‘ کا مطالعہ بارہا یہ باور کراتا ہے کہ آپ کافی حد تک علاقائی اور مقامی بولیوں سے واقف و آگاہ تھے۔ اور ایک شاعر و ادیب کے لیے یہ ضروری بھی ہے کہ وہ اپنے مضافات اور قرب و جوار میں بولے جانے والے الفاظ، کلمات اور محاورات پر گہری نظر رکھے اور ان کو اپنی نگارشات، تصنیفات اور اشعار میں حتی الامکان استعمال کرے۔

مختصر یہ کہ آپ کے کلام میں ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کے الفاظ اور کلمات کا بھی برمحل استعمال ہوا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے آپ کے مکمل دیوان کا تحقیقی جائزہ لینا کافی دقت طلب اور طوالت کا موجب ہے اس لیے چیدہ چیدہ اشعار کا مختصر تحقیقی و لسانی جائزہ لینے کی یہاں ہم جسارت کررہے ہیں۔ اسی سے آپ کے دوسرے کلام کے ادبی و لسانی معیار کا بحسن و خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت نوری فرماتے ہیں:

ذکر سے چوک کر ہوتا ہے وہ نڈھال

ذکر ہی تیرا ہے اس کی وجہ نمو

اللہ، اللہ، اللہ، اللہ،

ایک ہی ہے وہ بے شک ایک

بندہ اس کا ہر بد و نیک

کافر دل میں اس سے اٹیک

اپنے دل کی ہے یہی ٹیک

لا الہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ

سوتا پیتا کھاتا نہیں

اس کا رشتہ ناتا نہیں

اس کے پتا اور ماتا نہیں

اس کے جورو جاتا نہیں

لا الٰہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ

جب سجدے کا حکم ہوا

سب نے کیا اس نے نہ کیا

اور متکبر نے یہ بکا

یہ مٹی میں انگارا

لا الٰہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ

جب حضرت کا جی نہ لگا

تنہائی سے گھبرا اٹھا

اور ظلموں کی تھی بھرمار

ایک کو اک کرتا ناچار

لا الٰہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ

مذکورہ بالا اشعار میں چوک، نڈھال، اٹیک، ٹیک، سوتا، کھاتا، پیتا، ناتا، پتا، ماتا، جورو جاتا، بکا، مٹی، انگارا، جی، گھبرا اٹھا، پھلا، پھولا اور بھرمار ہندی الفاظ ہیں۔ علاقائی زبان یا ہندوستانی زبان کی صورت میں بھی عوام و خواص بکثرت ان الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے معانی و مفاہیم بھی تقریباً سبھی کو معلوم ہیں اس لیے ان کے لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

عرش اعظم پر پھریرا ہے شہِ ابرار کا

بجتا ہے کونین میں ڈنکا مرے سرکار کا

دو جہاں میں بٹتا ہے باڑہ اسی سرکار کا

جاری ہے آٹھوں پہر لنگر سخی دربار کا

کاٹ کر یہ خود سر میں گھس کے بھیجا چاٹ لے

کاٹ ایسا ہے تمہاری کاٹھ کی تلوار کا

اس کنارے ہم کھڑے ہیں پاٹ ایسا دھار یہ

المدد اے ناخدا ہے قصہ اپنے پار کا

رب سلّم کی دعا سے پار بیڑا کیجیے

راہ ہے تلوار پر نیچے ہے دریا نار کا

چوکڑی بھولا براق باد پا یہ دیکھ کر

ہے قدم دوشِ صبا پر اس سبک رفتار کا

وا اسی برتے پہ تھا یہ تتّا پانی واہ واہ

پیاس کیا بجھتی دہن بھی تر نہیں ہر خار کا

پاؤں میں چبھتے تھے پہلے اب تو دل میں چبھتے ہیں

یاد آتا ہے مجھے رہ رہ کے چبھنا خار کا

ان اشعار میں پھریرا (جھنڈا، پتا کا ،ہ -۴۲۱)، بجتا ہے، ڈنکا (ایک قسم کا نگاڑا، ہ-۲۲۷)، باڑا (خیرات ، ہ-۱۶۷)، آٹھوں پہر (دن رات، ہ-۵۲)، گھسنا، بھیجا چاٹنا، کاٹھ (لکڑی، ہ-۱۰۴)، پاٹ (چوڑائی، پھیلاؤ، ہ-۳۷۶)، دھار (پانی کا بہاؤ، ہ-۳۰۳)، پار (چھور، انتہا،ہ-۳۷۶)، بیڑا (ناؤ، لٹھے، بانس وغیرہ ایک ساتھ باندھ کر بنایا ہوا ڈھانچہ جس پر بیٹھ کر ندی پار کرتے ہیں، مصیبت سے بچانا، ہ-۵۷۵)، چوکڑی بھولنا (عقل کام میں نہ آنا، سب ترکیب و تدبیر بھول جانا، ہ-۲۴۱)، تتّا پانی (گرم جلتا ہوا،ہ-۳۰۵)، پیاس بجھنا اور چبھنا ہندی الفاظ ہیں۔

خیال رہے کہ مشکل ہندی الفاظ کے معانی کو ہم نے قوسین کے درمیان بیان کیا ہے اور حوالہ جات کے لیے ’’بھارگو آدرش ہندی شبد کوش‘‘ کی ترجمانی کے لیے ہ اور ’’فیروز اللغات‘‘ کی رہنمائی کے لیے ف کا استعمال بطور اشارہ کیا ہے۔

دل ذکر شریف ان کا ہر صبح و مسا کرنا

دن رات جپا کرنا ہر آن رٹا کرنا

سنسار بھکاری ہے جگ داتا دیاکرنا

منگتا کی دوا کرنا منگتا کا بھلا کرنا

سوکھی ہے مری کھیتی پڑجائے بھرن تیری

اے ابرِ کرم اتنا تو بہر خدا کرنا

اُف کیسی قیامت ہے یہ روزِ قیامت بھی

سورج ہے وہیں قائم بھولا ہے ڈھلا کرنا

پیش کردہ اشعار میں جپا کرنا، رٹا کرنا، سنسار، بھکاری، جگ، داتا، منگتا، بھلا کرنا، سوکھی، کھیتی، بھرن (زورشور کی بارش جو دم بھر میں جل تھل کردے، ف ۲۳۵)، بھولا اور ڈھلا کرنا ہندی یا ہندوستانی زبان کے الفاظ ہیں۔

دیس سے ان کی جو الفت ہے تو دل نے میرے

اس لیے دیس کا جنگلہ بھی تو گانے نہ دیا

دیس کی دھن ہے وہی راگ الاپا اس نے

نفس نے ہائے خیال اس کا مٹانے نہ دیا

میرے اعمال سیہ نے کیا جینا دو بھر

زہر کھاتا ترے ارشاد نے کھانے نہ دیا

شربتِ دید نے اور آگ لگادی دل میں

تپشِ دل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دیا

اب کہاں جائے گا نقشہ ترا میرے دل سے

تہ میں رکھا ہے اسے دل نے گمانے نہ دیا

سامانِ بخشش کے مذکورہ اشعار میں دیس، جنگلہ، (ایک راگنی، ف-۴۷۵) گانے نہ دیا، دھن، راگ الاپا (سرکھینچا، اپنی ہی کہے جانا، ف-۱۱۱)، مٹانے نہ دیا اور گمانے نہ دیا ہندی کلمات ہیں جن کو نوری صاحب نے انتہائی حسین پیرائے میں نظم کیا ہے۔

چوندھ جائے گی تری آنکھ بھی مہرِ محشر

ان کے ذرے کو جو دیکھے گا پریشاں ہوگا

بھیڑیوں کا ہے یہ جنگل نہیں کوئی راعی

بھولی بھیڑوں کا شہا کون نگہباں ہوگا

یہی اندھیر اگر اور بھی کچھ روز رہا

تو مسلماں کا نشاں بھی نہ نمایاں ہوگا

دیوانِ نوری کے مندرجہ ذیل اشعار میں چوندھ جائے گی، بھیڑیوں کا ہے یہ جنگل، بھولی بھیڑوں اور اندھیر ہندی زبان کے کلمات ہیں جن کی پیوند کاری سے اشعار کا حسن مزید دوبالا ہوگیا ہے۔

کیسے کاٹوں رتیاں صابر

تارے گنت ہوں سیّاں صابر

مورے کرجوا ہوک اٹھت ہے

مو کو لگالے چھتیاں صابر

چیری کو اپنے چرنوں لگالے

میں پروں تورے پیّاں صابر

ڈولے نیا موری بھنور میں

بلما پکڑلے بیّاں صابر

چھتیاں لاگن کیسے کہوں میں

تم ہو اونچے اٹریا صابر

تورے دوار سیس نواؤں

تیری لے لوں بلیّاں صابر

سپنے میں ہی درشن دکھلا دو

مو کو مورے گسیّاں صابر

تن من دھن سب تو پہ وارے

نوری مورے سیّاں صابر

مندرجہ بالا اشعار میں ہندی اور علاقائی زبان کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ نوری صاحب نے دونوں زبانوں کے الفاظ کو اتنے سلیقے سے استعمال کیا ہے کہ معنویت کے ساتھ ساتھ جاذبیت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ مثلاً تارے، مورے، ہوک (دل کا درد، ہ-۸۳۸) توری، چرن، تورے، چیری (باندی، کنیز، ف-۵۵۸)، ڈولے، نیّا، بھنور (پانی کا چکر، ہ-۲۳۹)، بلما، دوار، سیس (سر، ماتھا، ہ-۷۹۲)، نوانا (جھکانا، پوجا کرنا، ہ-۴۱۳)، سپنا، درشن، دھن، وارنا (نچھاور کرنا، قربان کرنا، ہ-۷۰۶)، ہندی الفاظ ہیں اور رات سے رتیاں، گننا سے گنت ، کرجوا، اٹھنا سے اٹھت، موکو، چھاتی سے چھتیاں، صورت سے صورتیا، پیاری، بات سے بتیاں، پڑوں سے پروں، پاؤں سے پیّاں، بانہہ سے بیّاں، لگنا سے لاگن، اٹاری سے اٹریا (چھت کے اوپر کامکان، ف -۶۵)، دوار سے دوارے، بلالینا سے بلیّاں (صدقے جانا، ف۲۱۱)، دکھلا دو، گوسائیں سے گوسنیاں (آقا، مالک، ہ-۲۰۵)، من اور سائیں سے سنیاں (آقا، محبوب، ہ-۷۷۸) وہ الفاظ ہیں جو ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں میں بکثرت رائج ہیں۔

رب کے پیارے راج دلارے

ہم ہیں تمہارے تم ہو ہمارے

دھوویں گنہ کہ دھبے کالے

ابرِ کرم کے برسیں جھالے

ڈگمگ ڈگمگ نیّا ہالے

جیرا کانپے توئی سنبھالے

بگڑی ناؤ کون سنبھالے

ہائے بھنور سے کون نکالے

راج پرجا آپ کے دوارے

سب ہیں بیٹھے جھولی پسارے

داتا پیارے دولت والے

قوت والے ہمت والے

کھیون ہارے کھیون ہارے

بیّاں پکڑلے مورے پیارے

ہم ہیں بیٹھے تمرے دوارے

اپنی اپنی جھولی پسارے

بھینی بھینی نکہت والے

اچھی اچھی سیرت والے

کوئی نہیں ہے ایسا آقا

پردہ ڈھانپے جو تنگوں کا

سامانِ بخشش میں بعنوان ’’تم پر لاکھوں سلام اور اعلیٰ سے اعلیٰ رفعت‘‘ کلام کے تحت پیش کردہ مذکورہ بالااشعار ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبان کا حسین گلدستہ ہیں۔ ’’پیارے، راج دلارے، دھبہ، جھالے (ایسی بارش جو ایک جگہ برسے مگر اس کے قریب کے دوسرے مقامات پر نہ برسے، ف-۴۹۰)، ڈگمگ ڈگمگ، ناؤ، بھنور، راجا، پرجا، داتا، کھیون ہارے (پار لگانے والا، ہ-۱۸۲)، اور بھینی بھینی (میٹھی میٹھی ، ہ-۵۹۲) ہندی زبان کے الفاظ ہیں اور دھوویں، دھبے کالے، برسیں، نیّا ہلے سے ہالے، جی کانپے سے جیرا کانپے، توئی سنبھالے، بگڑی ناؤ، ہائے بھنور، آپ کے دوارے، جھولی پسارے، داتا پیارے، بیّاں پکڑلے، مورے، پیارے، تمرے داورے اور ڈھانپے جو تنگوں‘‘ کا علاقائی اور ہندوستانی زبان کے لفظوں کا حسین شاہکار ہیں۔

بانٹا تو نے نور کا باڑا ﷺ

نوری مورت نور کا پتلا ﷺ

غم کی کالی گھٹائیں چھائیں

رنج و الم کی بلائیں چھائیں

سر پر بادل کالے کالے

دودِ عصیاں کے ہیں چھالے

میں ہوں تنہا بن ہے سونا

دم گھٹتا ہے میرے مولیٰ ﷺ

ان اشعار میں ’’بانٹا، باڑا (خیرات، ف-۱۶۷)، مورت، پتلا، گھٹائیں چھائیں، بلائیں چھائیں، کالے کالے، چھالے (آبلہ، پھپھولہ، ف-۵۴۹)، اور دم گھٹتا ہے ہندی الفاظ ہیں، لیکن علاقائی زبان میں بھی بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔

ترے صدقے جاؤں مری لاج رکھ لے

ترے ہاتھ ہے لاج یا غوثِ اعظم

ارے مورے سیاں پڑوں تورے پیاں

پکڑ موری بیاں پیا غوثِ اعظم

کھلا میرے دل کی کلی غوثِ اعظم

مٹا قلب کی بے کلی غوثِ اعظم

مخالف ہوں گو سو پدم غوثِ اعظم

ہمیں کچھ نہیں اس کا غم غوثِ اعظم

گھٹا حوصلہ غم کی کالی گھٹا کا

بڑھی ہے گھٹا دم بدم غوثِ اعظم

کوئی دم کے مہماں ہیں آجاؤ اس دم

کہ سینے میں اٹکا ہے دم غوثِ اعظم

غوثِ اعظم کی شان میں لکھی گئی اس منقبت میں ’’مری لاج رکھ لے، ترے ہاتھ ہے لاج، ارے، مورے سیاں، پڑوں، تورے پیاں، موری بیاں، پیا، کلی، بے کلی، سوپدم (علم ہندسہ میں سو نیل کاایک پدم ہوتا ہے۔ ف-۲۸۳)، گھٹا، کالی گھٹا، بڑھی ہے گھٹا اور سینے میں اٹکا ہے‘‘ وہ الفاظ ہیں جو ہندی اور علاقائی دونوں زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

دہر یہ الجھا ہوا ہے دہر کے پھندوں میں یوں

سارا الجھا سامنے ہے اور سرا ملتا نہیں

جل رہے ہیں پھنک رہے ہیں عاشقانِ سوختہ

دھوپ ہے اور سایۂ زلفِ رسا ملتا نہیں

فرشتے آج جو دھومیں مچانے آئے ہیں

انہیں کے آنے کی شادی رچانے آئے ہیں

فلک کے حور و ملک گیت گانے آئے ہیں

 کہ دو جہاں میں یہ ڈنکے بجانے آئے ہیں

یہ بھولے بچھڑوں کو رستے پہ لانے آئے ہیں

یہ بھولے بھٹکوں کو ہادی بنانے آئے ہیں

فقیر آپ کے در کے ہیںہم کہاں جائیں

تمہارے کوچے میں دھونی رمانے آئے ہیں

الجھا ہوا، پھندوں میں، سارا الجھا سامنے، سرا ملتا نہیں، پھنک (گرنا، بکھرنا ، ف-۳۱۸)، دھوپ، دھومیں مچانے،شادی رچانے، گیت گانے، ڈنکے بجانے، بھولے بچھڑوں، بھولے بھٹکوں اور دھونی رمانے (آگ کا الاؤ جلا کر سادھوؤں کی طرح بیٹھ جانا، ف-۶۶۹)، جیسے کلمات ہندی اور علاقائی زبان کی فہرست میں شامل ہیں۔

تری کفشِ پایوں سنوارا کروں میں

کہ پلکوں سے اس کو بہارا کروں میں

جو ہو قلب سونا تو یہ ہے سہاگا

تری یاد سے دل نکھارا کروں میں

یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروروں

ترے نام پر سب کو وارا کروں میں

تری رحمتیں عام ہیں پھر بھی پیارے

یہ صدماتِ فرقت سہارا کروں میں

ترے در کے ہوتے کہاں جاؤں پیارے

کہاں اپنا دامن پسارا کروں میں

دیوانِ نوری کی یہ مشہور نعت ہے۔ اس میں بہارنا (جھاڑو دینا، صاف کرنا، ف-۲۲۶)، سونا، سہاگا (ایک کھار جو سونا چاندی گلانے اور دوا کے کام آتا ہے)، نکھارا، کروروں، وارا (صدقہ، نذر، ف-۱۴۰۱)، پیارے، سہارا (برداشت، ف-۸۲۳)، پسارا اور ان کے علاوہ سدھارا، پکارا، کنارا اور اتارا وہ الفاظ ہیں جو ہندی، ہندوستانی اور علاقائی لغات کے زمرے میں آتے ہیں۔

ڈیوڑھی کا اپنی کتّا بنالو

قدموں سے اپنے مجھ کو لگالو

ڈولت ہے نیا موری بھنور میں

مولی تراؤ ایکے نجر میں

موری کبھریا مورے پیا لو

موکو بچالو پیا مو کو بچالو

پیارے جلالو مجھے پیارے جلالو

ہاں ہاں نبھا لو مرے مولیٰ نبھالو

’’شاہ والا مجھے طیبہ بلالو‘‘ سامانِ بخشش کی بہت ہی عمدہ نعت پاک ہے۔ عشقِ رسالت مآب ﷺ کے ساتھ اس میں مختلف زبانوں کا حسین سنگم نظر آتا ہے۔ مثلاً ڈیوڑھی (مکان میںداخل ہونے کا کمرہ، ف-۶۸۸)، کتا، ڈولت ہے نیا، موری، بھنور، تراؤ، ایکے، نجر، موری، کھبریا، مورے، پیالو، موکو بچالو، پیاموکو، پیارے، جلالو اور نبھالو جیسے ہندی، ہندوستانی اور علاقائی الفاظ جس کا منھ بولتا شاہکار ہیں۔

جو سب سے پچھلا ہو پھر اس کا پچھلا ہو نہیں سکتا

کہ وہ پچھلا نہیں اگلا ہوا اس سے ورا تم ہو

گرفتارِ بلا حاضر ہوئے ہیں ٹوٹے دل لے کر

کر ہر بے کل کی کل ٹوٹے دلوںکا آسرا تم ہو

ہم نے یوں شمعِ رسالت سے لگائی ہے لو

سب کی جھولی میں انہیں کا تو دیا ہوتا ہے

ایسی سرکار ہے بھرپور جہاں سے لینے

روز ایک میلہ نیا در پہ لگا ہوتا ہے

جگمگا ڈالیں گلیاں جدہر آئے وہ

جب چلے وہ تو کوچے بسا کر چلے

کوڑیوں کوڑھیوں کے لیے کوڑھ دور

اچھا چنگا وہ خاصہ بھلا کر چلے

جن کو اپنا نہیں غم ہمارے لیے

دوڑے جھپٹے وہ پاؤں اٹھا کر چلے

دم میں پہنچے وہ حکمِ رہائی دیا

ان کو دوزخ سے پھیرا پھرا کر چلے

دیوانِ نوری کی مختلف نعوت سے ماخوذ ان اشعار میں پچھلا، اگلا، ٹوٹے دل، بے کل، کل (آرام، قرار، ف-۱۰۱۹)، لو، جھولی، بھرپور، میلہ، جگمگا، گلی، کوڑی، کوڑھی، کوڑھ، اچھا، چنگا، بھلا، دوڑے، جھپٹے، پھیرا اور پھرا کر ایسے الفاظ ہیں جو ہندی اور علاقائی زبانوں کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں۔

فوجِ غم کی برابر چڑھائی ہے

دافعِ غم تمہاری دہائی ہے

عمر کھیلوں میں ہم نے گنوائی ہے

عمر بھر کی یہی تو کمائی ہے

تم سے ہر دم امید بھلائی ہے

میٹ دیجئے جو ہم میں برائی ہے

میرا بیڑا کنارے لگے پیارے

نوح کی ناؤ کس نے ترائی ہے

میرے دل کی لگی بھی بجھا دیجیے

نارِ نمرود کس نے بجھائی ہے

مر رہا ہوں تم آجاؤ جی اٹھوں

شربتِ دید میری دوائی ہے

زندگی میں نے پائی مر مر کے

میں نے جی جی کے موت پائی ہے

موت کا اب نہیں ذرا کھٹکا

ندگی شبھ گھڑی سے پائی ہے

معصیت زہر ہے مگر اوندھے

تو نے سمجھا اسے مٹھائی ہے

چین کی نیند آج سویا ہوں

موت آرام کی سلائی ہے

سامانِ بخشش کی ایک ہی ردیف اور قافیہ کی دو نعتوں سے پیش کیے گئے ان اشعار میں چڑھائی (حملہ، دھاوا، ف-۵۲۷)، دہائی (فریاد، التجا، ف-۶۵۸)، کھیل، گنوائی، کمائی، بھلائی، میٹ دیجیے، برائی، بیڑا، کنارے، پیارے، ناؤ، ترائی، دل کی لگی، بجھا دیجیے، بجھائی، جی اٹھوں، دوائی، مر مر کے، جی جی کے، موت پائی، کھٹکا، شبھ گھڑی، اوندھے (بیوقوف، ف-۱۴۱)، مٹھائی، چین، نیند اور سلائی وہ الفاظ ہیں جو ہندی اور علاقائی دونوں زبانوں میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ ان نعتوں کے یہ کلمات بھی اسی قبیل سے ہیں۔ مثلاً: دکھائی، پھرائی، پرائی، بڑھائی، دھونی رمائی، پائی، لگائی، سنگھائی، جلائی، اٹھائی، پھنسنا، پلائی اور گھیرا وغیرہ۔

جہاں ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ

جہاں شاہ و گدا سب کا ٹھیا ہے

عطا فرماتے ہو بے مانگے سب کچھ

یہ منگتا تم سے تم کو مانگتا ہے

جلا ایمان سے ہوتی ہے دل پر

وہ اندھا شیشہ ہے جو بے جلا ہے

لہابی کیا ہے اک چکنا گھڑا ہے

سبھی نے اک نیا مذہب گھڑا ہے

اسے ساون کے اندھے کا ہرا ہے

بنا ہے وہ جہنم کا گڑھا ہے

یہاں سے بھیک پاتے ہیں سلاطیں

اسی در سے انہیں ٹکڑا ملا ہے

مذکورہ بالا اشعار میں بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ، ٹھیا، منگتا، مانگتا، اندھا شیشہ، چکنا گھڑا، گڑھا بمعنی بنایا، ساون کے اندھے کا ہرا (محاورہ، یعنی ہر شخص اپنی حالت کے مطابق سب کی حالت خیال کرتا ہے)، گڑھا، (گڈھا)، بھیک اور ٹکڑا ہندی اور علاقائی زبانوں کے الفاظ ہیں۔ علاوہ ازیں داتا، پل چکا، دکھ درد، ٹھہرا، لت، بھولا، جنا، گناؤں، گنوں، کیا کیا بکا، گمادے، چہیتا، خدا بھاتی، ہتھیلی، دولہا، گھنگر، کالی بلا، الٹ کر، دل گلے، بھڑکتا، بھاگتا، ہانپے، کانپے، کراہے، پھنسا، سہا، لکھوکھا، ٹھنڈے، پھل، پھول، دھرا، نہ کھٹکیں اور ڈھارس جیسے ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کے الفاظ کی جلوہ گری کہیں کہیں پورے دیوانِ نوری میں نظر آتی ہے۔

مختصر یہ کہ نوری صاحب کی شاعری ادبی و شعری تنوع اور مختلف زبانوں کی بوقلمونی سے مرصع و مسجع ہے۔ اردو، عربی، فارسی الفاظ کے ساتھ ہندی، ہندوستانی اور علاقائی زبانوں کا استعمال نہایت برجستگی اور سلیقے سے کیا گیا ہے۔

Email: maneemi@jamiahamdard.ac.in

Mobile: 9013008786/ 8447869250

***

Leave a Reply