You are currently viewing راجندر سنگھ بیدی کے افسانوی مجموعہ اپنے دکھ مجھے دے دو

راجندر سنگھ بیدی کے افسانوی مجموعہ اپنے دکھ مجھے دے دو

رحاب مصطفى محمد عبد اللطيف

اردوٹیچر اسسٹنٹ

عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ، مصر

 

راجندر سنگھ بیدی کے افسانوی مجموعہ اپنے دکھ مجھے دے دو

 میں مہابہارت اور رامائن کے کردار

راجندر سنگھ بیدی اردوادب کے عظیم افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں- ان کا نام اردوادب کے عالم میں محتاج  تعارف نہیں ہیں-  پریم چند، منٹوجيسا راجندر سنگھ بیدی کے نام بھی بڑی اہمیت کے  حامل ہیں- انھوں نے تقریبا نصف صدی تک اردو ادب کی خدمت انجام دی۔    افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ بیدی ناول نگار، ڈرامہ نگار اور فلم ساز بھی تھے۔

 یہ مقالہ دو ابواب پر مشتمل ہے-   باب اول:راجندر سنگھ بیدی کے حالاتِ زندگی – باب دوم:مجموعہ افسانے اپنے دکھ مجھے دے دو میں مہابہارت  اوررامائن کے کردار-

باب اول: راجندر سنگھ بیدی کے حالاتِ زندگی:

خاندان:

۱۹۴۷ء    سے قبل غیر منقسم پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکے کے ایک گاؤں ڈلےکی میں سردار کنپت سنگھ کا ایک متوسط کھتری گھرانہ آباد تھا۔  جو بڑا روشن خیال، وسیع النظر، خوشحال اور معمولی سی کاشتکاری کے ساتھ تجارت کا  پیشہ بھی کرتا تھا۔  اس گھرانے میں علم  وادب  کااعلی معیار تو نہیں لیکن اکثر اس گھر کے رکن خاندان اردو  اور فارسی کی اچھی استعداد  رکھتے تھے۔ جن کی  مادری زبان پنجابی تھی۔  افرادِ خانہ  میں تقریبا سبھی کو علم سے لگاؤ تھا۔  اوراچھے  ذوق کے  مالک تھے۔ اسى لئے گنپت سنگھ نے اپنے بیٹے بابا  ہیرا سنگھ (والد راجندر سنگھ) بیدی کو خاص تعلیم دلائی۔  ہیرا سنگھ صوفیانہ کلام کے دلدادہ تھے۔ اور اسلامی کلچر سے متاثر، امن وآشتی  اور انسان دوستی کے علمبردار تھے۔ گنپت سنگھ اپنے آپ کو بیدی کہلاتے یعنی”وید کو جاننے والے “راجندر سنگھ بیدی  اپنا  سلسلہء نسب

گرو نانک دیو جی سے ملاتے ہیں۱ ۔     

ہیرا سنگھ ایک شریف النفس انسان، جو صوفیانہ کلام کے ماہر  اچھے مقرر اور  اہل قلم تھے۔ آپ نے اپنی سوانح حیات بعنوان زندگی کے سفر لکھی جو ضائع ہو گئی۔ یہ ڈاکخانے میں ملازم تھے  اور اپنی  ملازمت کے سلسلے میں مختلف مقامات پر  اپنے  فرائض منصبی نہایت خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے۔ آپ جن دنوں مجھٹیا ضلع امرتسر میں تعینات تھے۔ ، پنڈت دلارم کی بیٹی سیوا دیوی نام کی ایک خاتون سے محبت ہو گئی۔  اور آخر کار  دونوں نے آپس میں شادی کرنے  کا  فیصلہ کر لیا۔ لیکن ان دنوں ذات پات کے بندھن اور سماجی ومذہبی پابندیاں بڑی سخت ہوا کرتی تھیں2۔

شادی سے پہلے ہیرا سنگھ کا تبادلہ لاہور ہو چکا تھا۔ کچھ دنوں بعد ہیرا سنگھ اپنی محبوبہ سیوا دیوی سے ملنے مجھیٹا گئے۔ ملاقات کے بعد دونوں کے جذبہء عشق نے زور  مارا  اور آپس میں یہ طے  پایا کہ راہ فرار اختیار کی جائے۔ کیونکہ یہاں خاندان والے  یہ شادی نہیں ہو نے دیں گے۔ لہذا  سیوا دیوی اپنے والدین کی اجازت کے بغیر سب سے نظریں بچا کر،  اپنے عاشق صادق بابا  ہیرا سنگھ کے ساتھ فرار ہو کر  لاہور  آئیں۔  جہاں ایک آریہ سماج مندر  میں  ہندو  رسم  ورواج کے مطابق  دونوں کی شادی  ہو گئی۳۔

ہیرا سنگھ کھتری سکھ تھے۔ گھر کا  رہن سہن سکھوانہ تھا۔ ان کی محبوب بیوی سیوا دیوی برہمن زادی تھیں۔ لیکن یہ ایک دوسرے کے جذبات واعتقاد کا  احترام کرتے تھے۔ اس طرح  دو عقیدوں کے باہمی امتزج  اور  ذہنوں کی وسعت نظری کے سبب سکھوانہ رہن سہن میں کسی طرح کی سختی نہیں تھی۔ بلکہ گھر کے ماحول میں خوشگوار تبدیلی آ گئی تھی۔ یعنی سکھوانہ رہن سہن میں ہندوانہ کلچر کی جھلکیاں عیاں تھیں۔ گھر میں جپ جی کے ساتھ گیتا  کا  پاٹھ بھی ہونے لگا۔ گروپرو کے ساتھ جنم  اشٹمی منائی جانے لگی۔ اور عید میلوں میں بھی شرکت کی جاتی تھی۔ ان  دونوں کے مزاجوں میں شدت پسندی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی پاسداری، لحاظ اور مروت تھی۔ اسی لئے گھر میں امن  وآشتی  اور  پرسکون  ماحول تھا۴۔

ولادت:

پنجاب کے مشہور ادبی وتاریخی شہر  لاہور میں  ایک بچہ یکم ستمبر ۱۹۱۵ء کی صبح میں پیدا ہوا۔ والدین نے اس کا نام راجندر سنگھ بیدی رکھا۔ لیکن گھریلو طور پر پیارے سے “نندی” کے لقب سے پکارتے رہے۔ بیدی نے طالب علمی کے زمانے میں محسن لاہوری کے نام سے لکھنا شروع کیا۔  راجندر سنگھ بیدی جب پیدا ہوئے۔ تو  ان کے والد ہیرا سنگھ لاہور کے ایک علاقے صدر بازار کے ڈاک خانے میں پوسٹ ماسٹر کے عہدے پر تعینات تھے اور بنت نگر، لاہور کے ایک محلے شیام گلی میں رہائش پذیر تھے۔  بیدی کی والدہ سیوا دیوی،  پنجابی کے علاوہ اردو، ہندی اور معمولی انگریزی جانتی تھیں۔ ادب سے دلچسپی اور لگاؤ تھا۔ مذہبی کتابوں کی دلدادہ یہ روزانہ  گیتا کا  پاٹھ کیا کرتیں۔ دیوی  دیوتاوں اور  ولیوں بزرگوں کے اکثر  قصے  یاد تھے۵۔

تعليم:

بیدی نے اپنے  ماں کی گود میں اردو، ہندی، پنجابی زبانیں سیکھیں اور  ماں کے ذریعہ ہی ایسے مذہبی کہانی قصے سنے  جو  مہاتم  اور گیتا کے ہر ادھیائے کے بعد ہوتے ہیں۔ وہ ایسے قصوں کو گھر کے دوسرے بچوں اور بھائی بہن کے ساتھ بڑی عقیدت اور شردھا کے ساتھ سنا کرتے تھے۔ اس طرح بیدی اپنی ابتدائی عمر میں ہی رامائن ومہابہارت کی کہانیوں اور ان کے کرداروں سے واقف ہو چلے تھے۔           گیتا کی نصیحت آمیز باتوں کو غور سے سنا تو کرتے ابھی یہ فلسفیانہ   باتیں ان کی سمجھ میں نہ آتیں۔  اس طرح ابتدائی اسکول میں داخل ہونے تک بیدی کا ذہن مذہبی قصوں کی طرف مائل ہو گیا اور دل ودماغ میں ہندو مائیتھا لوجی کے نقش ثبت ہو چکے تھے۔  “ان    کہانیوں نے ان کے ذہن  پر ایک گہرا  اثر چھوڑ ديا –  اور اس بات كى عكاسى  اپنی تخلیقات میں ہوئی”۔ والدین کی خواہش تھی کہ ان کا  بیٹا بڑا  ہو کر کلکڑ بنے۔  اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے،  انھوں نے بیدی کو جولائی ۱۹۲۰ء میں لاہور چھاونی صدر بازار کے ایک پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا۔  جہاں انھوں نے درجہ  پانچ  تک تعلیم حاصل کی بعد ۱۹۳۱ء میں میٹرک پاس کیا۔  لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر تعلیم جاری نہ رکھ سکے۶۔

شادى اور معاش:

۱۹۳۴ء میں ۱۹ سال کی عمر میں ان کی شادی ستونت کور عرف سوماونی سے ہوئی۔ ۱۹۳۳ء سے ان کی ملازمت کا  آغاز  ہوا، پہلے  وہ لاہور پوسٹ آفس میں کلرک کی حیثیت سے بحال ہوئے۔ دس سال تک ڈاکخانے کی ملازمت کے بعد وہ مستعفی ہو گئے اور دہلی میں مرکزی حکومت پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہو گئے، لیکن یہ سلسلہ چھ ماہ سے زیادہ نہ چل سکا اس کے بعد وہ لاہور پہنچے  اور آل  انڈیا ریڈیو  لاہور سے بحیثیت آرٹسٹ وابستہ ہوئے۔ تقسیم ہند کے سانحہ بعد ان کی منتقلی دہلی میں ہو گئی۔  ۱۹۴۸  میں وہ  ادیبوں کے ایک وفد کے ساتھ کشمیر گئے۔ شیخ عبد اللہ نے انہیں جموں کشمیر ریڈیو اسٹیشن کا  ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔  ان ہی کی کوششوں سے سرینگر ریڈیو اسٹیشن کی  بنیاد رکھی گئی۔ کشمیر میں بیدی کا قیام صرف ایک سال تک رہا، بخشی غلام محمد سے اختلاف کے سبب ۱۹۴۹ء میں انہوں نے کشمیر کو خیر باد کہا  اور براہ  دہلی بمبئ وارد ہوئے۔ اس کے بعد  ان  کا  مستقل قیام بمبئ میں ہی رہا۔  بمبئ ہی  ان  کی آخری  پناہ گاہ بھی ثابت ہوئی، بیدی انتقال ۱۱ نومبر ۱۹۸۴ء ہوا۷۔

ادبى زندگی:

بیدی نے  اپنی  ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۳۲ء کیا۔ شروع میں وہ محسن لاہوری کے فرضی نام سے لکھتے رہے- بعد  ازاں  اپنے  اصل نام سے لکھنے لگے۔ ان کا  پہلا  رومانوی  افسانہ “مہارانی کا تحفہ” ادبی دنیا،  لاہور میں شائع ہوا۔ ۱۹۳۳ء کے بعد ان کی کہانیوں میں ایک نیا رنگ وآہنگ پیدا ہوا- وہ  رومانیت سے سنجیدہ حقیقت نگاری کی طرف مائل ہوئے۔ بیدی کا  پہلا  افسانوی مجموعہ “دانہ ودام” مکتبہ اردو  لاہور سے شائع ہوا۔  ان کے دیگر  افسانوی مجموعے “گرہن” ۱۹۴۱ء، “کوکھ جلی” ۱۹۴۹ء،  اپنے دکھ مجھے دے دو ۱۹۶۵ء،  ہاتھ ہمارے قلم ہوئے ۱۹۴۷ء  اور “مکتی بودھ” ۱۹۸۲ء ہیں- انہوں نے ایک کامیاب ناولٹ بھی لکھا  جس کا عنوان “ایک چادر میلی سی” ہے ، یہ ناولٹ مکتبہ جامعہ دہلی سے ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی ایک بابی ڈرامے بھی لکھے جو “سات کھیل” ۱۹۲۶ء  اور “بے جان چیزیں” ۱۹۴۳ء کے  نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ بیدی نے مختلف فلموں کے لئے مکالمے  اور منظر نامے بھی لکھے، خود فلمیں بنائیں، “دستک” اور “پھاگن”، ان کی دو مشہور فلمیں ہیں۸۔

باب دوم: مجموعہ افسانے اپنے دکھ مجھے دے دو میں مہابہارت اور رامائن کے کردار:

بيدى نے اپنے افسانوں میں زندگی کی تلخ  حقیقت، معاشرے  میں ہونے والے ظلم وستم، نا  انصافی، متوسط اور نچلے طبقات کے حالات پیش کیا- اس کے ساتھ ساتھ  مذہبی اساطیر اور ان کے  کرداروں کا بیان کیا- بیدی کے اکثر  افسانے اساطیری عناصر سے بھرے۔  اور  خاص طور سے مجموعے  افسانے “اپنے دکھ مجھے دے دو” کے کئی افسانوں بھی اساطیری عناصر کثرت سے ملتے ہیں-

رامائن کے کردار:

رام/  سيتا/  راون:

بیدی بنیادی طور پر مجموعے افسانے “اپنے دکھ مجھے دے دو” میں راون کی طرف سے سیتا كے لُبھانے کے خیال سے متاثر ہوئے۔ راون نے سیتا کو اغوا کر لیا تھا- اس كے لُبھانے کی کوشش کی۔ کبھی شدت سے اور کبھی بھی نرمی سے، لیکن سیتا نے اپنی عفت اور عزت کی حفاظت کی۔   افسانہ “لاجونتی”  کا  پس منظر تقسیم کے فسادات ہے۔ اور ان مغویہ عورتوں جو  ان کی بد قسمتی سے وحشی مردوں کے قبضے میں گر گئی۔ اور اس بات میں ان معصوم خواتین کا کوئی قصور نہیں۔ اور گوپی چند نارنگ نے اپنے مقالے “بیدی کے فن کی استعارتی اور اساطیری جڑیں” میں اس بات پر زور دیا۔ : ” “لاجونتی” میں معنوی فضا کی توسیع کے لیے “رامائن کی کتھا”، “سیتا کے اغوا”  اور “دھوبی کی حکایت” سے مدد لی گئی ہے۹“۔ افسانے سے اقتباس: “میں راجا  رام  چندر نہیں جو  اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے  پر بھی سیتا  کو  بسا لے  گا  اور  رام چندر جی نے مہا ستونتی سیتا کو  گھر سے نکال دیا۱۰۔۔۔۔”۔ پھر بھی سندرلال نے  اتنی کوششوں کی تا کہ معاشره        ان عورتوں کو قبول کرے، لیکن انھوں نے خود  اپنی  لاجونتی کو قبول نہیں کر سکا  جو  دیر تک  اجنبی مرد کے  پاس  رہ گئی۔

“ببل” کے افسانے میں آج  کا  راون  درباری  لال نے محبت کے نام سے سیتا  کو  دھوکہ دینے کی کوشش کی، لیکن آج  کا  سیتا نے اعتراض نہیں کیا، وہ  اتنی عزت دار  اور  پاکیزہ نہیں ہوئی: افسانے سے اقتباس: “جہاں کہوں گا،  میرے ساتھ چلو گی؟”۔ سیتا نے اثبات میں سر ہلا دیا۱۱“۔ “ٹرمینس سے پرے ” کے افسانے میں بھی موہن جام  رامائن کا  راون تھا،  بلکہ  اچلا گدگری  رامائن کی عفت دار سیتا نہیں تھی۔ جس نے اپنے شوہر آج کے کمزور اور بے غیرت رام کے جانے کا  غلط  فائدہ  اٹھایا۔ افسانے سے اقتباس: “”کیا بات کر رہی ہو؟” موہن نے  اچی کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔۔۔ “وہ تو بھگوان رام ہیں تمھارے لیے”۔ “بھگوان رام ہوتے تو سیتا کو ساتھ نہ لے جاتے؟”۔موہن نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔” اب سیتا  کانفرنس میں تھوڑے جا سکتی ہے؟”۱۲“۔ اور” دیوالہ” کے افسانے میں بھی شیتل داس  راون تھا،  بلکہ روپا  سیتا نہیں تھی۔   افسانے سے اقتباس: “دیول نگری میں دو چار  ہی  بانکے تھے جن میں سے ایک وہ بھی تھا۔  ہر کھیل تماشے میں آگے،  راس لیلا   کا   بندوبست   اُس کے سپرد۔  وہ مہابھارت کا کنس تھا تو رامائن کا راون۱3!” ۔

بیدی نے “اپنے دکھ مجھے دے دو” کے افسانے میں سیتا کے جنم كے اسطورہ كو  نمایاں کیا۔  اور  افسانے  میں بھی  اندو کسی گھڑے میں سے نکلی۔  اپنے شوہر کی مدد کرنے  کے لیے جب مدن کے والد کا  انتقال ہوا، جیسا کہ پرانے  زمانے میں سیتا کسی گھڑے میں سے نکلی جبکہ متھلا  کا بادشاہ راجا  جنک اپنے کھیت ہل چلارہا تھا ۔ اور بن باس کے  دوران سیتا نے  رام  کا  ساتھ دیا  جب  رام کے  والد نے سوتیلی  ماں کی چاہیتی کی  بنا  پر اسے سلطنت سے دور کرنے  کا  حکم  دیا۔  افسانے  سے اقتباس:

  “جب مدن گھر پر پہنچا تو وہ کانپ رہا تھا۔ دھرتی ماں نے تھوڑی دیر کے لیے جو طاقت اپنے بیٹے کو  دی تھی، رات کے گھر  آنے  پر  پھر سے ہوس میں ڈھل گئی… اسے کوئی سہارا چاہیے تھا۔ کسی ایسے جذبے کا سہارا  جو موت سے بھی بڑا ہو۔ اس وقت دھرتی ماں کی بیٹی، جنک دُلاری اندو نے کسی گھڑے میں سے پیدا  ہو کر اس رام کو  اپنی بانہوں میں لے لیا … اس رات اگر  اندو  اپنا  آپا،  یوں مدن پر نہ  وار  دیتی،  تو اتنا  بڑا  دُکھ مدن کو لے  ڈوبتا۱4۔”۔

مہا بھارت کے کردار:

کرشن جی:

کرشن جی بچپن سے بڑے چالاک، شرارت تھے۔ اپنے شرارتوں کی حکایات بھیلتی تھی۔ گاؤں کے بچے  ان کے ساتھی تھے۔  وہ مکھن چراتے تھے۔ مٹکیاں پھوڑتے تھے۔ گوبیوں کو  چھیڑتے تھے۔ کرشن بانسُری بجاتے تھے۔  ان کی زندگی بچپن سے مہم جوئیوں سے بھری ہوئی تھی- بچہ ہونے کے باوجود، وہ بہت طاقتور تھے، ان کے پاس ایسی  ما فوق  الفطرت  طاقت تھى۔ انھوں نے بہت سے راکششوں کو شکست دی اور اپنے خود  اور  اپنے  گاؤں کے لوگوں کی جان بچالی۱5۔

بیدی نے افسانے “ببل”  مین  بچہ کرشن جی کی شخصیت کو ظاہر کیا۔ جنھوں  نے راکششوں  پر  قبضہ کر لیا۔ اور  اپنے خود  اور  اپنے  گاؤں کے لوگوں کو  بچا  لیا۔ افسانے میں چھوٹا  بچہ ببل آج  کا  کرشن جی ہے۔ جس نے اپنی  ما فوق  الفطرت طاقت سے سیتا کو بچا لیا۔  اور  راکشش  درباری لال کےگندے ہاتھوں سے چھین لیا۔     افسانے  سے اقتباس:

” سیتا اندر ہی اندر کانپ رہی تھی، درباری کچھ خجل سا نظر آنے لگا تھا –

” یہ ہوٹل کوئی اتنا  اچھا  نہیں ” وہ  یونہی سی کوئی بات کرنے کے لئے بولا –

” ٹھیک ہے ” سیتا بے پروائی سے بولی –

پھر  درباری نے ناک سکوڑ کر  ادھر ادھر سونگھنا  اور کہنے لگا… ” کوئی  بُو سی  آ رہی ہے “… اور پھر  اس نے پسینے کے قطرے اپنے ماتھے پر سے پونچھ ڈالے  اور بولا – ” تم اب اسے چھوڑو بھی “-

سیتا نے ببل کو بٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ تکلا ہو گیا –

درباری نے ایک ایش ٹرے ببل کے پاس لا رکھی  اور ببل اسے کھلونا سمجھ کر لپکا – وہ بیٹھ گیا  اور کھیلنے لگا… وہ کیا کرتا؟

پھر آگے بڑھ کر درباری نے ایک  اناڑی، بے ڈھنگے بھونڈے  انداز میں سیتا  کا  ہاتھ پکڑ لیا –

” بھگوان کے لیے… ”  سیتا بولی، اور اس نے ببل کی طرف اشارہ کیا –

لیکن درباری کی آنکھوں پر  جیسے کوئی چرپی چھائی ہوئی تھی –  اسے کچھ نہ دکھائی دے رہا تھا – صرف  ایک ہی احساس تھا کہ وہ ہے  اورایک تروتازہ  اور شاداب لڑکی – وہ تیزی سے سانس لے رہا تھا – اس نے جب اپنے بازو سیتا کے گرد ڈالے تو وہ گوشت پوست کے نہیں، لکڑی کے معلوم ہو رہے تھے اور سیتا کے نرم اور گداز جسم میں کھبے جا رہے تھے – سیتا نے کوئی مزاحمت نہ کی –  درباری کی بانہوں میں کانپتی ہوئی وہ ہر لحظہ بے دم ہوتی جا رہی تھی…  آج  وہ  خود بھی بے سہارا  ہو جانا  چاہتی تھی…

ببل نے ڈر کر  دونوں کی طرف دیکھا –

سیتا کو ابھی تک روتے دیکھ کر درباری کہہ رہا تھا… ” وہی مطلب ہوانا – تم مجھ سے پیار نہیں کرتیں ” –

” میں تم سے پیار نہیں کرتی ؟… میں تم سے… “

ببل نے ایش ٹرے کی راکھ منہ پر مل لی تھی  اور  اب رونے لگا تھا-

” چپ بے ” درباری نے نفرت اور غصہ کے ساتھ کہا.

سیتا  چونکی، وہ باہر بھاگ جانا چاہتی تھی، لیکن… اس کے ہاتھ  بازو  جواب دے چکے تھے…

درباری کی ڈانت کے بعد ببل نے  ڈر کر چلانا شروع کر دیا – درباری ایک دم آگ بگولا  ہو کر لپکا جیسے اس کا  گلا  گھونٹ دے گا – مرد  اور عورت کے بیچ  اس بے آہنگ  آواز کو  ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا – ببل کے پاس پہنچتے ہی اس نے زور سے ایک تھپڑ ببل کو  مار دیا – ببل لڑھک کر دور جا گرا –

” شرم نہیں آتی ؟ ” کہیں سے مصری کی آواز آئی –

درباری نے پلٹ کر دیکھا… مصری نہیں سیتا تھی جو کسی انجانی طاقت کے آ جانے سے نیم برہنہ حالت میں اٹھ کر ببل کے پاس چلی آئی تھی  اور  اسے اٹھ کر  اپنی چھاتی سے لگا لیا تھا – ببل سیتا کی چھاتیوں میں سر دیے رو رہا تھا، سسکیاں لے رہا تھا – پھر اس نے  اپنا  منہ اٹھایا  اور  بندھی ہوئی گھگھی کے باوجود درباری کی طرف اشارہ کرنے لگا – جیسے کہہ رہا ہو… اس نے مجھے مارا !

درباری کو محسوس ہوا جیسے اتنے صاف ستھرے کپڑوں میں بھی وہ گندا ہے، وہ سیتا سے  اتنا  شرمندہ نہ تھا، جتنا  ببل سے… لیکن، اپنے آپ کو حق بجانب سمجھنے کی اس کے پاس ابھی بہت سی دلیلیں تھیں.

جبھی درباری نے اپنا  سر جیسےکسی دلدل میں سے اٹھایا  اور ببل کی طرف دیکھنے  لگا  وہ سیتا کی طرف دیکھ بھی نہ سکتا تھا – کیوں کہ وہ ننگی تھی اور ببل سے اپنے ننگے پن کو چھپا رہی تھی اور درباری کو دیکھ رہی تھی جیسے  وہ  دنیا  کا  سفلہ ترین  انسان تھا  جو  اس کمینہ حد تک اتر آیا تھا… پھر اس کی  نگاہیں خالی تھیں، وہ کچھ بھی نہیں سمجھ رہی تھی !۱۶“.

ایک اور جگہ میں بیدی نے  بانسُری بجانے  والا کرشن جی کی شخصیت کو  نمایاں کیا۔کرشن جمنا  ندی کے کنارے  پر  پورے  چاند کی راتوں کو  اپنی بانسُری بجاتے ہوئے  گاؤں کی گوپیوں کو بلاتے تھے۔  وہ اپنی  لاج  بچاتی ہوئی چِھپ کر آتیں، ان کے چاروں  اور گھرا  بناتیں    اور ان کی بانسُری کی  دُھن  پر  ناچتے ہوئے  اپنے  کو  پوری طرح  کھو  دیتيں۔ جب  ایسا  ہوتا  تو  ہر گوپی کو لگتا کہ کرشن صرف اسی کے ساتھ ناچ رہے ہیں۔ کبھی کبھی گوپیاں فخر کرتیں کہ کرشن  انہیں کے ہیں۔ جب  ایسا  ہوتا، کرشن چھپ ہو کر  اُن لڑکیوں کو  جدائی کی تکلیف کا تجربہ کراتے۔ کرشن تبھی لوٹے  جب  یہ خواہش  گوپیوں کے من سے دور ہو جاتی۱7۔

بیدی نے  “ببل” کے افسانے میں بهى بچہ کرشن جی کی شخصیت كو  بلایا۔ جیسا کہ بچہ کرشن جی گوپیاں کی طرف  مائل ہوئے، یوں ہی افسانے  میں ببل آج كا بچہ كرشن جى  مردوں سے زیادہ عورتوں کی طرف مائل ہوا۔ ایک بار مصری ببل کی ماں نے تصور کیا کہ وہ  ان گوپیوں میں سے ہے  اور کرشن جی کے ساتھ ناچ رہی ہے۔  افسانے  سے  اقتباس:

” آپ کے پاس تو پھر بھی چلا آتا ہے بابو جی ۔ ورنہ یہ ہل کٹ… کسی مرد کے پاس نہیں جاتا ۔”

” کیوں، کیوں؟ ” درباری نے حیران ہو کر پوچھا ۔

“مالم نہیں ” مصری کہنے لگی اور پھر پیار سے ببل کی طرف دیکھتی ہوئی بولی “… ہاں عورتوں کے پاس چلا جاتا ہے ۔ “

درباری جی کھول کے ہنسا… ” بدمعاش ہے نا… ابھی سے عورتوں کی چاٹ لگی ہے ۔ بڑا ہو کر کیا کرے گا؟ “

مصری خوب شرمائی اور خوب ہی اترائی اسے یوں لگا جیسے وہ اپنی گود میں ان گنت گوپیوں والے کنھیا کو کھلا رہی ہے اور مصری کے تصور میں جو گوپیاں تھیں، وہ خود بھی ان میں سے ایک تھی جیسے ببل مصری کا من تھا اور مصری کی اپنی برتیاں اس کے ارد گرد ناچ رہی تھیں… ببل ابھی ایک گوپی کے ساتھ تھا پھر  انیک کے ساتھ! ۱8“۔

“دیوالہ” کے افسانے میں بھی بیدی نے کرشن جی کی شخصیت کو ظاہر کیا۔ جیسا کہ کرشن جی گوپیوں بلانے کے لیے بانسُری بجاتے تھے  اور فوراً وہ  چپکے سے آتی تھیں۔ اپنی عزت خاک میں ملاتی تھیں اور کرشن جی کے  ارد گرد گھومتى تھیں۔  ان کی بانسُری کی دُھن   پر  ناچتی تھیں، یوں ہی افسانے میں شیتل داس کے ایک اشارے سے روپا  اس کے ہمراہ  شِو کے مندر کی طرف گئی، جہاں مسافروں کے آرام خانے تھے۔ اپنی عزت کے بارے  میں نہیں سوچی یا  اپنے خاندان کی بدنامی۔  بالکل جیسا کہ اسطورہ میں گوپیوں نے کیا، گویا  کہ شیتل داس کے اشارے  اور سیٹیاں  کرشن جی  کی بانسُری کی  دُھن تھے- افسانے  سے  اقتباس:

“جب بھی رادھا بازار سے گزرتی،  ناکے پہ مجھے مل جاتا، اشارے کرتا، سیٹیاں بجاتا۔ لیکن میں پاس سے گزر جاتی، بُرے بُرے منھ بناتی، گالیاں دیتی۔ لیکن آج، پتہ نہیں مجھے کیا ہوا۔ میں بھیڑ میں چلی گئی۔ صرف اس کے انگلی اُٹھانے پہ … اور پھر ہم دونوں بھیڑ سے نکل گئے اور شِومندر میں چلے گئے، جہاں مسافروں کے لیے کوٹھڑیاں بنی ہیں۔ میں کانپتی جارہی تھی۔ آخر میں نے سوچا بھی کہ بھاگ کھڑی ہوؤں۔ مگر مجھے کچھ کرتے نہ بنی… اس کے بعد میں اندھی ہوگئی! ۱۹“۔

دروپدی:

بیدی نے “اپنے دکھ مجھے دے دو” کے افسانے میں مہابہارت کے کردار  دروپدی کو نمایاں کیا، جو عفت  اور  پاکیزگی کی ایک مثال سمجھی جاتی ہے۔ بیدی نے میاں  بیوی کے درمیان تعلقات کی طبیعت پر  روشنی  ڈال دی۔   اندو  مثالی عورت تھی جو غیر شعوری طور  پر  ہی سہی فطری عورت کو مار کیا؛  اس لیے مدن کی نگاہیں اور  اس کے ہاتھوں  دوشاسن کے تھے۔ جسم کا  چیر  ہرن کرنے  والے  دوشاسن جو تھک  ہار کر گر جاتے تھے اورعورت کو آسمانوں سے کرشن جی کی طرف سے تھان کے تھان گزوں کے گز  کپڑا  اس کے ننگاپن کو ڈھانپنے کے لیے ملتا آیا ہے20۔ افسانے  سے  اقتباس:

“مدن کے لیے اندو روح ہی روح تھی، اندو کے جسم بھی تھا  لیکن وہ  ہمیشہ کسی نہ کسی وجہ سے مدن کی نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ ایک پردہ تھا ۔ خواب کے تاروں سے بُنا  ہوا، آہوں کے دھوئیں سے رنگین، قہقہوں کی زرتاری سے چکا  چوند، جو  ہر وقت اندو کو  ڈھانپے رہتا تھا۔ مدن کی نگاہیں اور اس کے ہاتھوں کے دو شاسن صدیوں سے اس دروپدی کا چیر ہَرن کرتے آئے تھے، جو کہ عرف عام میں بیوی کہلاتی ہے، لیکن ہمیشہ اسے آسمانوں سے تھانوں کے تھان، گزوں کے گز  کپڑا ننگا پن  ڈھانپنے کے لیے ملتا آیا تھا۔ دوشاسن تھک ہار کے یہاں وہاں گرے پڑے تھے، لیکن دروپدی وہیں کھڑی تھی۔ عزّت اور پاکیزگی کی سفید ساری میں ملبوس وہ دیوی لگ رہی تھی اور21…” ۔

غرض یہ ہے کہ بیدی مہا بھارت  اور رامائن کے کردار متاثر ہوئے۔  اوربڑی مہارت سے اپنے دکھ مجھے دے دو کے مجموعے افسانے میں انہیں ظاہر کیا۔  انھوں نے مہا بھارت  اور رامائن میں کچھ تبدلیاں کی تاکہ اپنے  زمانے کے مسائل پیش کر سکیں-

حوالہ جات:

۱ ڈاکٹر زاہدہ بی، راجندر سنگھ بیدی کی تخلیقات میں نسوانی کرداروں کا تجزیاتی مطالعہ، دوسرا ایڈیشن ۲۰۱۴ء،  وانگمیہ بکس ، ص13۔

2 ايضًا ، ص 14۔

3  ايضًا ، ص14۔

۴ ايضًا ، ص14، 15۔

۵ ايضًا، ص  15،۱۶۔

۶ ايضًا،  ص ۱۷، ۱۸۔

۷ پروفیسر وہاب اشرافی، راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری”اپنے دکھ مجھے دے دو” کی روشنی میں، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی ، ۲۰۰۱ء، ص  ۲۹۔

۸ ايضًا، ص    ۲۹، ۳۰ ۔

9 زيتون بانو،تاج حسين:جريده دوسرى كتاب،راجندر سنگھ  بيدى فن اور شخصيت، پبلک ارٹ پریس پشاور،مکتبہ ارژنگ، ۱۹۸۴ء، ص۲۵۳۔

10 راجندر سنگھ بیدی، اپنے دکھ مجھے دے دو، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلى، نومبر، 1988ء،  ص  ۱۲۔

۱۱ ايضًا ، ص 62۔

 ۱۲ ايضًا، ص  ۱۶۲۔

۱3 ايضًا، ص214۔

۱4 ايضًا، ص۱۴۰، ۱۴۱۔

۱5 گوپی چند نارنگ،پرانوں کی کہانیاں،نیشنل بک بڑسٹ، انڈیا،نئی دلی، 1976ء،  ص  ۵۵، ۵۶۔

۱۶ راجندر سنگھ بیدی، اپنے دکھ مجھے دے دو، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلى، نومبر، 1988ء،  ص  81:79۔

17 देवदत्त पट्टनायक, भरतीय पौराणिक कथाएँ, अनवाद निलाभ, देवदत्त पट्टनायक, राजपाल एण्ड सन्ज़, दिल्ली, 2015, p. 164 – 165.

۱8 راجندر سنگھ بیدی، اپنے دکھ مجھے دے دو، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلى، نومبر، 1988ء،  ص 50۔

۱9 ايضًا، ص 209،210۔

20 وارث علوی، راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی، 2006، ص429۔

21 راجندر سنگھ بیدی، اپنے دکھ مجھے دے دو، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلى، نومبر، 1988ء،  ص  127۔

***

برقی ڈاک: rehabmostafa45@gmail.com

Leave a Reply