غلام حسن وانی ،بڈگام کشمیر
ریسرچ اسکالر یونی ور سٹی آف دہلی
راحت اندوری ؔکی شاعری میں حب الوطنی اور امن دوستی کا پیغام
شاعر اور ادیب امن و انسانیت کے پر چارک اور روشن دماغ ہوتے ہیں۔اس لئے ان کے اُپر ایک قسم کی یہ بڑی زمہ داری ہوتی ہے جس سے وہ کوسوں دور بھاگ نہیں سکتے۔ مسلک و مذہب کے نام پر جوانسان نے انسان کا بہت خون بہایاہے اگر سب مذاہب یہی کا م کرنے لگے تو امن پسند اور انسان دوست لوگ مذہب سے بے ذار ہوجانے لگتے ہیں ۔اردو شاعری میں امن دوستی کا پیغام ہمیںہر دور میں دیکھنے کو ملتا ہے جن شعرا نے اس میں پہل کی ان میر ؔ،غالب، ؔ اقبال، ؔچکبست ؔ،فیضؔ وغیرہ کا نام نام خوب لیا جاتا ہے اس طرح سے اردو ادب نے بہت سے شعرا اس زبان کو دیئے ہیں۔ اکیسوی صدی میںہمارے سامنے ہندوسان کا ایک معتبر نا م جس نے اردو شاعری کے ذریعے ایک ملک میں ہی نہیں بلکہ یورپ، ابودابی،قطر ،سعودی عرب ،وغیرہ جیسے ممالک میں مشاعروں کے ذریعے اپنی شاعری میں امن ودوستی اور حب الوطنی کا پیغام سناکر ادبی دنیا میں نام کمایا ہے ،جب یہ شخص اسٹیج پر کھڑا ہوتا ہے تو پورے ہال میں شوروگل سننے کو ملتا ہے یہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک چھوٹے سے شہر اندور کا رہنے ولا راحت اندوریؔ ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہند دوستان تھوڑی ہے
راحت اندوری 1ؔجنوری 1950 ء کو اندور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام رفعت ﷲ قریشی تھا۔راحت اندوریؔ کا اصلی نام ؔؔؔؔ’’کامل‘‘ تھا اور دیوداس سے اندور آئے۔ابتدئی تعلیم دیوداس سے حاصل کی اور بعد میں مدیعہ پردیش کے مشہور شہر اندور کی طرف اپنی باقی تعلیمی زندگی میں سرگرم رہے راحت اندوریؔ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے اور نوتن اسکول اندور سے ابتدائی تعلیم کا دوسرا مرحلہ مکمل کرکے اسلامیہ کالج اندور سے گریجویشن کی ڈگری کی۔ بھوپال یونیورسٹی سے ایم۔اے۔ کی ڈگری حاصل کر کے ڈاکٹریٹ کر کے مقامی کالج میں معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔’’مدہیہ پردیش‘‘ کے مشہور ،شہر اندور میںراحت اندورؔی نے تعلیم حاصل کی اور اسی شہر میں مشاہروں کو اپنی پہچان بنا کر راحت اندوری ؔنے ادبی دنیا میں اپنا قدم رکھا۔اندور یعنی( بھوپال)کے اسی شہر خموشاں کی سر زمین نے اردو ادب کو بہت سارے شعرا دیے ہیں ۔ لیکن اندری نام کی راحت،راحت اندوریؔ سے پہلے کسی کو پہلے نصیب نہ ہوسکی۔عالمی شہرت یافتہ اُردو شاعر راحت اندوری گزشتہ منگل کی شام کو اندور کے ایک مقامی ہسپتال میں دم توڈ کر اپنے کروڈوں چاہنے والوں کو خیر آباد کہہ کر چلے گئے اور آخر کار 11اگست 2020 انتقال کر گئے ۔ دو گز ہی سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمین دار کردیا
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑدوںگا اسے
شہرِاندور نے اس در خشاںستارے کو چمکانے میں بہت مدد کی اور راحت سے راحت اندوری ؔبن گئے۔اندور سے لے کر ہندوستان کے دوسرے شہروں میں راحت اندوریؔ نے اردو ادب کی شاعری میں ہر جگہ جلوئے دکھائے جن کی شکلیں آ ج بھی لوگوں کے دلوں میں بستے نظرآرہی ہے ۔راحت اندوری ؔکا ماننا ہے کہ ہر کام جزبے اور نیت خلوص سے ہی ہوتی ہے اس لئے ان کا یہ شعر مقبول عام ہو چکا ہے شعر ملاحظہ کیجئے گھرسے یہ سوچ کہ نکلا ہوںکہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھاوے کہ کدھر جا نا ہے
ایک ہی ندی کے ہیںیہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
راحت اندوری ؔکا یہ شعر اپنے آپ میں ایک معنویت رکھتا ہے جس سے کسی کو بھی تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوگی ۔انسان جب گھر سے کسی منزل کی طرف روانہ ہو تا ہے۔ تو وہ اپنی ہنر یعنی ہندی میں کلا کو آزما کرایک دن اپنے منزل و مقصود پر ضرور پہنچتا ہے۔چوں کہ راحت اندوریؔ نے یہ سفر بڑی آسانی سے حاصل کیا۔یوں تو ہندوستان میں سیاسی و قومی بیداری کا آغاز بہت پہلے ہو چکا ہے لیکن اس بیداری کو حرکت دینے میںادب کا بھی ایک اہم رول رہا ہے۔ ہندوسان کی مختلف زبانوں میں سیاسی احتجاج،یا پھر بغاوت کے بہت سارے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔راحت اندوری نے اپنی شاعری بھر پور احتجاج کیا اور مخالفین قوم و ملت کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان کا نام ڈر نہیں بلکہ سلامتی اور امن کا خواہاں ہے ان کی یہ غزل آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے شعر ملاحظہ کیجئے
اگر خلاف ہے ہونے دو جان تھوڑی ہے یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھو ڑی ہے لگے گی آگ تو آیں گے کہیں گھر اس ذد میں یہاں پر صرف ہمارا ہی مکان تھوڑی ہے
جو آج صاحب مسند ہے کل نہیں ہوں گے کرائے دار ہے ، ذاتی مکان ، تھوڑی ہے سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہند دوستان تھوڑی ہے
غرض راحت اندوریؔنے ایک تخلیق کار،شاعر ،ادیب ہونے کا اظہار اورپنے طور طریقے سے اپنی بات کو رکھنے کی بھر پور کوشش کی ہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو ادب میں راحت اندوریؔ نے بھی اپنی حصہ داری کا ثبوت دیا ہے دراصل ادیب اپنی ذاتی زندگی میں خواہ کیسا ہی ہو مگر جب وہ فن کی بات کرتا ہے تو سچائی اور حقیقت سے انحراف نہیں کرسکتا۔انسانیت کی ناقدری،ناانصافی،رنگ ونسل کی جہاں بات ہو وہاں ایک ادیب کیسے خاموش رہ سکتا ؟ حب ا لوطنی،سماجی مسائل، جنگ و امن ایسے بہت سے موضوعات ہیں جن سے کسی نہ کسی سطح سپر ہمارا تعلق ضرور رہتا ہے ۔دور حاظر میں راحت اندوریؔ جیسے شاعرکو اپنے وطن اور مٹی سے بے پناہ محبت رکھنے والے شعرا میں وہ صف اولمیں ہے اسی لئے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں شعر ملاحظہ ہو
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں
انسان اور انسانیت کے خلاف جب بھی ظالم ظلم وستم ہوگا ۔تب ایک ادیب کا یہ فر ض بنتا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف اپنی آ واز بلند کریں۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ادبیوں نے ہمیشہ جبراستبداد اوراستحصالی قوتوںکے خلاف دنیا بھر میں اپنا تاریخی رول ادا کیا ہے سارترکا کہنا ہے کہ؛ ’’ ادیب کا قلم اس کا ہتھیار ہے بلکہ فرانسیسی ادیبوں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا بلکہ وہ بحثیت ادیب عملی جدوجہد کی ذمہ داری سےاپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتے تھے آزادی کا حصول ان کا حق تھا جس کے لئے انہیں ہر محاذ پر لڑنا تھا لیکن ایسی جدوجہدایک معاشرے میں ہی ممکن ہیں جہاں آزادی کی کوئی نہ کوئی شکل پہلے سے موجود ہو۔یا پھر استحصالی قویتں اپنی بالا دستی کے نتیجے میں محکوم طبقوں کو تنگ آمد بجنگ آمد کی سطح پر لے جایئں،،
؛بحوالہ مرتب رشید امجد مزاحمتی ادب اردو ص۴
ہمارے یہاں بہت سارے لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ادبی تخلیق بذات خود ایک احتجاجی عمل ہے سچائی یہ ہے کہ ہر عہد کا ادیب اپنے زمانے کا عکاس ہوتا ہے اور وہ زمانے کی نبض کو پڑ ھ کر تخلیق کرتا ہے اس طرح سے اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا تو اچھا ادب ظہور میں آتاہے احتجاجی ادب کی تخلیق ہر ملک کے مخصوص سماجی وسیاسی ماحول کی صورت کا تابع ہو تا ہے ۔یعنی اس میں جنگ وجدل،قتل وغیرت،مزاحمت کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے چوں کہ ادب میں کشمکش اور احتجاج کی کیفت لازمی ہے اور ہر ادیب کے اندر احتجاج کی خوب موجود گی ہوتی ہے جب ہم رزمیہ شاعری کو پڑ تے ہیں تو وہاں معاشرے کے تضا دات ،انسان کی محکومی اور بے قراری دیکھنے کو ملتی ہے تو اس کاردعمل ان کی تحریروں میں کم یا زیادہ ضرور ظاہر ہوتا ہےó حالاں کہ ادیب اور ادب زندگی سے گریز کر ہی نہیں سکتاکیونکہ وہ احتجاج سے ہمیشہ سے متاثر ہوتا ہے آج کل انسان نے اتنی ترقی کی کہ وہ کسی بھی چیز سے لڑ سکتا ہے اس لئے کہ سائینس نے ترقی کے دور میں کافی کچھ حاصل کیا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ تبائی مچائی جائے جس کا کوئی حل نہ ہو۔
مدتوں بعد یوں تبدیل ہوا ہے موسم جیسے چھٹکارا ملا ہو کسی بیماری سے
راحت اندوری ؔ نے نوجوانی میں ہی شعر کہنے شروع کردیا انہوں نے ملک اور ملک سے باہر لاتعدد مشاعروں میںشرکت کی اور بے حد مقبول ہوئے اب تک ان کی شاعری جو کتاب صورت میںشایع ہوچکی ہیں ان میں ’دھوپ دھوپ‘ ’ میرے بعد ‘ ’ پانچواں درویش ‘ ’رات بدل گئی ‘ ’ناراص ‘ ’موجود ‘ وغیرہ شامل ہیں۔راحت اندوری بحثیت شاعر ہی نہیں بلکہ ہندوستانی سینما کے ایک مقبول ترین گیت کار بھی تھے۔ جن فلموں کے گیت راحت اندوریؔ نے لکھے ان میں آشیاں ، سر، جنم، خودار، ایم۔بی۔بی۔ایس،مشن کشمیر ،فریب ،وغیرہ جیسے مشہور فلموں کینغمے لکھ ڈالے۔ وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہے۔ تفہیم ادب کا کوئی بھی عکس ہو اسی کے خدوخال ،دل ونگاہ کو مسخر کر لیتے ہیں راحت اندوریؔ علم و ادب کا ایک نام ہی نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک دبستان کی طرح ہے جسے ہم’’ مشاعروں کی دبستان ‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔راحت اندوریؔ کا کہنا ہے کہ ادب کا کام صداقت کی نما یش کرنا جس کی جھلک اس شعر میں دکھائی دے رہی ہے شعر ملاحظہ کیجئے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہماری منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
سب کی پگڑی کو ہواوں میں اُچھالا جائے
سوچتا ہوں کہ کوئی اخبار نکالا جائے
راحت اندوریؔ بنیادی طور پر ایک رومانی شاعر تھے رومان کی راہ سے نکل کر راحت اندوری ؔ نے اپنی شاعری میں مختلف موضوعات کو جگہ دی تقریباہر شے کواپنے موضوعات میں سمیٹنے کی کوشش کی۔راحت اندوری ؔ بحثیت انسان حد درجہ سادہ طبعیت کے تھے۔ انسان دوستی ان کے دل میں کوٹ ،کوٹ کر بھری پڑی ہے۔ انہو ں نے اپنی شاعری میں محبت اور خلوص کو زیادہ فوقیت دی تاکہ انسانیت زندہ رہے ۔جگر کا مراد آبادی ؔکاشعر ان پر صدق آتاہے شعر ملاحظہ کیجئے
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جگر مراد آبادی ؔکا یہ شعر راحت اندوریؔ نے کہی مشاعروں میں لوگوں کوسنایا ہے۔اس بات سے ہمیں مصوف کے بارے میںیہ پتہ چلتا ہے کہ وہ خود بھی محبت اور خلوص کو ہی ترجی دیتے رہے۔ راحت اندوریؔ نے اردو اورہندی شاعری میںامن ودوستی کی ایک مثال قایم ہی نہیںکی بلکہ’ محبت وخلوص ،اوربامروت انسان بھی تھے ۔راحت اندوریؔبے غرض اورقلب کشادہ شخصیت کا مالک ہیںانہوں نے اپنی عمر کا حصہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں ’’محفل مشاعروں ‘‘میں گزرا ی۔ان کی ابتدائی شاعری میں پہلے سب سے زیادہ اثر رومانویت کا تھا ۔لیکن آگے چل کر راحت اندوریؔ نے روایتی طور پر رومانیت کے ساتھ ساتھ دوسرے موضوعات کو بھی ترجی دی۔خاص کر معاملہ بندی،شوخی،ظرافت اور ہندی لفظوں کی تکرار،معشوق کا سراپا ،انہوں نے دنیاوی حسن وعشق کے واقعات کو بیان کرنے پر ہی اکتفا نہیں بلکہ حقایق کو بھی ملحوظ نظر رکھااور اپنے پُر اثر انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی۔
راحت اندوری ؔ کی شاعری کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کی پوری شاعری میں شباب کی سرمستی اور ساقی وپیمانہ کی فسوں کاری کا ذکر تمام موضوعات پر سبقت لے جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ شراب اور ساقی ومیخانہ سے کوسوں دور تھے تاہم ان کی شاعری انہی موضوعات سے عبارت معلوم ہوتی ہے اور جس شاعر کے کلام میں جو بات باربار قاری کو پڑھنے کو ملتی ہے وہ اسی سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور اسی کی بات کرنے کے لئے مجبور بھی ہوتا ہے
افواہ تھی کہ میری طعبیت خراب ہے لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کردیا
بس اک شراب کی بوتل دبوچ رکھی ہے
تجھے بُھلانے کی ترکیب سوچ رکھی ہے
راحت اندوریؔ کا مز احیہ پن لوگوں نے بہت ہی خوب پسند کیااور خوب مشاعروںمیں قہقہے لگائے۔ راحت اندوریؔنے لوگوں کو خوب ہنسایا اور مزحیہ انداز اپنایا مشاعروں میں انہوں نے اپنے کمال فن کا اعتراف کروالیا ہے شاعری میں ان کا اسلوب انتہائی دلکش ہونے کے علاوہ معنوی حسن کاری کاآئینہ دار بھی ہے ۔انہوں نے اپنی میں جدید الفاظ کو استعمال کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔اس کے علاوہ نے خالص ہندی لفظوں کو بھی موقع و محل کی مناسبت سے بڑی عمدگی اور بھر پور شائستگی کے ساتھ برتا ہے گویا انہوں نے اردو شاعری کے دامن کو ہندی گل بوٹوں سے مزین کرنے کی سعی مشکور کی ہے جس کی وجہ سے الفاظ کے پس منظر نمیں ایک انوکھی تبدیلی کا احساس ہو نے لگتا ہے اور یہ وصف خاص انہیں آج جدید سے ممتاز کرنے کے لئے کافی ہے۔ ہندوستان سے زیادہ غیر ملکی ممالک میںراحت انداریؔاپنی بے باک شاعری اور انداز بیان سے کروڈوں دلوں پر راج کرتا تھا۔اردو شاعری کو نیا وقار بخشنے والے یہ مرد مجاہد جب اپنے خیالات ومشاہدات کو شاعری کا جامعہ پہناکر سامعین کے گوشے گزار کرتا تھا تو ہر طرف سے واہ واہ کی آواز بلند ہوکر مشاعرے کو چارچاند لگادیتی ہیں ۔اردو زبان کا طبقہ ہی نہیں بلکہ وہ لوگ جو اردو ادب سے نا آشنا تھے ان میں اگر کسی شاعر نے اردو کو بے مقبول بنایا تو وہ راحت اندوری ہی تھے۔ اور یہ ایسا کلام ہے جیسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے۔ انہوں نے اردو کو مقبول کرنے کا کام سر انجام دیا تو ہی تھا ساتھ ہی میں انہوں نے تعصب ،نفرت، اور فرقہ پرستی کے خلاف جو بلند آواز کی وہ ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہے سماج میں بڑھتی ہوئی اس وبا سے راحت اندوریؔ بے حد پریشان تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ان منفی عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے نظر آتے ہیں اپنے مادر وطن ہندوستان سے وہ بے پناہ محبت کرتے تھے اسی محبت کو انہوں نے اپنے ایک شعر میں پرویاشعر ملاحظہ ہو
میں جب مر جاوں تو کچھ نیا کرنا
میری پیشانی پر ہندوستان لکھ دینا
انہیں اس بات کا احساس تھا کہ گزشتہ چند برسوں سے ایک مخصوص ذہن رکھنے والے حکمراں ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کو نہ صرف بربریت اور ظلم وستم اور تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں بلکہ انہیں غدار وطن پرست نہ ہو نے کا الزام لگا کر انہیں ملک د شمن بھی قرار دیتے ہیں
وہ کہ رہا ہے کہ کچھ دنوں میں مٹا کے رکھ دو گا نسل تیری
ہے اُس کی عادت ڈرارہا،ہے میری فطرت ڈرا نہیں ہوں
راحت اندوری کی شاعری حبیب جالب کی شاعری سے کم نہیں ہے جس طرح انہوں نے ستا میں بیٹھے ہوئے حکومتوںسے سوال کئے ،اور سچائی کو سامنے لاکر جھوٹ کو بے نقاب کردیا ۔اسی طرح راحت اندوری ؔکی شاعری میں ہمیں وہ ایک قسم کی خوداری کو دیکھنے کو ملتی ہے ان کے ماننا ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات درجہ اس لئے دیا گیا ہے کیوں کہ اس کے پاس سوچنے اور سمجھنے کی فکر دی ہے اس لئے وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ شعر ملاحظہ کیجئے
اونچے اونچے درباروں سے کیا لینا ننگے بھوکے بے چاروں سے کیا لینا
اپنا مالک ،اپنا خالق، افضل ہے، آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا
بادشاہوںسے پھیکے ہوئے سکے نہیں لیتے
ہم نے خیرات بھی مانگی ہے تو خوداری سے
جا کے یہ کہ دو کوئی شعلوں سے چنگاری سے
پھول، اس بار کھلے ہیں، بڑی تیاری سے
مدتوں بعدیوں تبدیل ہوا ہے موسم
جیسے چھٹکا را ملا ہو کسی بیماری سے
راحت اندوری ؔ نے اپنی شاعری میں عوامی جزبات اور رجحانات کا جس طرح سے خیال رکھا óوہ ان کے ہر شعر سے ظاہر ہوتا ہے انہوں نے وہ شاعری بھی کی جو کسی چھوٹے قصبے یا دیہات کے عام دلوں کو گرماتی ہے یہی نہیں بلکہ راحت اندوری ؔنے تقسیم ہند اور تقسیم ہند سے پیدا شدہ صورت حال کو محسوس کیا حالاں کہ تقسیم کے وقت ان کی عمر اتنی نہیں تھی تاہم بڑے ہو کر انہوں نے بھی یہ محسوس کیا کہ تقسیم ہند کی وجہ سے مسلمان سیاسی طور پر کمزور ہوچکے ہیں اس لئے وہ یہ کہتے ہیں شعر ملاحظہ ہو
اب کے جو فیصلہ ہوگا، وہ یہیں ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیںہوگی
خاموشی اوڑھ کے سوئی ہیں مسجد یں ساری
کسی کی موت کا علان بھی نہیںہوتا
غلام حسن وانی ،بڈگام کشمیر
rabyajaan4@gmail.com
9149727505
***