غلام مصطفی
ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
زبان اور اس کی خصوصیات
زبان کیا ہے ،زبان کی کیا خصوصیات ہیں اور کس طرح ایک زبان ادب کی تخلیق کرتی ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جوابات دینے کے لیے ایک استاد،شاعر ،ادیب ،نقاد اور محقق سے پہلے اپنے آپ کو ادب کا ایک معمولی طالب علم بننا بہت ضروری ہے ۔اس دنیا میں بے شمار اشیا ہیں جن پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا ،ان میں ایک ’’زبان ‘‘ بھی ہے ۔اس زبان کی اہمیت وہی جانتا ہے جس کے پاس زبان نہیں ہے ۔ایک ہوتا ہے کمیونی کیشن اور دوسری ہوتی ہے زبان ،کمیو نی کیشن زبان نہین ہے ،کمیونیکیٹ کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے ،جیسے ایک چراغ روشنی کمیونیکیٹ کرتا ہے مگر ہم اس کو زبان نہیں کہتے ۔قدرت نے انسان کی پیدائش کے بعد اسے سب سے پہلے زبان عطا کی (خلق الانسان علمہ البیان)۔کچھ دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے لفظ کی تخلیق ہوئی مثلاََ اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق سے قبل فرشتوں سے جو کلام کیا وہ بھی ایک زبان سے کیا۔اگر کمیونی کیشن کو ایک وسیع اصطلاح مان لیا جائے تو زبان اس کا سب سے بڑا حصہ ہو گی۔اس حوالے سے پروفیسر گیان چند جین لکھتے ہیں :
’’انسان کو حیوان ناطق کہا گیا ہے ۔گویا انسان کی جانوروں پر سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ زبان (بھاشا) کا استعمال کرتا ہے ،اس کے ذریعے اپنے جذبات و خیالات اپنے ساتھیوں تک پہنچا سکتا ہے ۔۔۔جس طرح انسان انسانی زبان میں بات چیت کرتے ہیں اسی طرح حیوان بھی اپنی اپنی آوازوں میں کسی زبان کا ستعمال کرتے ہوں گے‘‘ ۱
زبان کا ماخذ عربی زبان میں (لسان ) ہے ،اسی سے لسانیات وجود میں آیا ۔لیکن لسانیات اور زبان میں فرق یہ ہے کہ لسانیات میں زبان کا مطالعہ سائنسی طریقے سے ہوتا ہے جس کو تجربات و مشاہدات سے ثابت کیا جاتا ہے ۔اس کو ہم ذہنی مطالعہ بھی کہ سکتے ہیں کیوں کہ جب ایک انسان آپ سے مخاطب ہوتا ہے تووہ حقیقت میں آپ سے نہیں بلکہ آپ کے ذہن سے مخاطب ہوتا ہے ۔ ایک انسان اسی زبان کی وجہ سے وجہ سے حیوان پر فضیلت رکھتا ہے ۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس طرح انسان انسانی زبان میں بات چیت کرتے ہیں اسی طرح حیوان بھی اپنی اپنی آوازوں میں بات کرتے ہوئے ضرور کسی زبان کا استعمال کرتے ہوں گے ،کیوں کہ قدیم لوک کہانیوں ا ور داستانوں میں ایسے اشخاص کا ذکر ملتا ہے جو کہ حیوانوں کی زبان سمجھتے تھے،مگر یہ محض قیاس و تخیل ہے ۔اگر حیوانوں کی زبان کی بات کی جائے تو وہ بہت محدود ہے ،اس کے برعکس انسانوں کی زبان لا محدود ہے ۔ حیوانوں کی ترسیل بالعموم چار مقاصد تک ہی محدود رہتی ہے (۱) جفتی کی ترغیب (۲) بچوں کی پرورش (۳) غذا یا علاقہ حاصل کرنے میں تعاون (۴) گروہ کے اندر یا باہر کے غنیموں سے لڑائی ۔یہاں اگر انسانوں کی بات کی جائے تو اس کے ترسیل لا محدود ہے ۔انسان ترسیل کے ذریعے جس طرح نطق کا استعمال کرتا ہے اسی طرح اشاروں سے بھی ترسیل کا کام انجام دیتا ہے ،جیسے کہ سر کے اشارے سے ہاں یا نا کا جواب دینا وغیرہ۔اس بنا پر زبان کے کم سے کم دو مفہوم ہو سکتے ہیں (۱) شعوری آوازیں (۲) اشاروں کی زبان ۔
شعوری آوازیں وہ ہوتی ہیں جن کے ذریعے انسان اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتا ہے ۔اشاروں کی زبان کو بھی مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے
٭ بصری: اشاروں میں بڑی تعداد بصری ہے ،جن کو آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے ، مثلاََ ہاتھ یا سر کی جنبش سے کسی بھی طرح کا اشارہ کرنا ۔
٭سمعی: جس کو کان کے ذریعے سنا جاتا ہو،مثلاََ وقت کے تعین کے لیے گھڑیاں بجانا ،چٹکیاں بجانا وغیرہ ۔
٭لمسی: کسی کو چھو کر کوئی بات بتانا ،جیسے کمر تھپتھپانا ،ہاتھ دبانا،وغیرہ ۔
زبان کی ایک تعریف یہ ہے :
’’ زبان بالقصد،من مانی،ققبل تجزیہ،صوتی علامات کا وہ نظام ہے ، جس کے ذریعے
سے ایک انسانی گروہ کے افراد اپنے خیالات و جذبات کی ترسیل با ہمی کرتے ہیں۔‘‘
“language is a system of voluntarily produceed arbitrary,analysble,vocal symbols trough which a community communicates its thoughts and feelings.” 2
اس تعریف سے زبان کی ساری خصوصیات سامنے آجاتی ہیں جیسے کہ زبان ایک نظام ہے ،بلکہ نظاموں کا مجموعہ ہے اور زبان کا پہلا نظام صوتییاتی ہے ۔زبان خیال کے ساتھ ساتھ جذبے کی بھی ترسیل کرتی ہے ۔جہاں تک زبان کے استعمال کی بات ہے تو زبان کا استعمال دو طریقوں سے ہوتا ہے :
(۱) نفسیاتی استعمال زبان
(۲) میکانکی استعمال زبان
نفسیاتی استعمال زبان میں ان تصورات کی بات ہوتی ہے جو کہ اصوات کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں اور ان کا مطالعہ صوتیاتی اعتبار سے کیا جاتا ہے۔اگر میکانکی استعمال زبان کی بات کریں تو اس میں استعمال زبان کے تین مرحلے ہیں : بات کرنے والے کے منہ سے آواز کا نکلنا ،پھر اس آواز کا ہوا کی لہروں پر سفر کرنا اور آخر میں سامع کے کانوں کا اس آواز کی گرفت کرنا ۔
زبان کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے سید محی الدین قادری اپنی کتاب ’’ہندوستانی لسانیات ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’پس زبان کی واضح تعریف ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے کہ زبان انسانی خیالات اور احساسات کی پیدا کی ہوئی ان تمام عضوی اور جسمانی حرکتوں اور اشاروں کا نام ہے جن میں زیادہ تر قوت گویائی شامل ہے اور جن کو ایک دوسرا انسان سمجھ سکتا ہے اور جس وقت چاہے اپنے ارادے سے دہرا سکتا ہے ۔‘‘ ۳
زبان کی خصوصیات:
زبان کی بیان کی ہوئی مختصر تعریف کے بعد یہ ضروری ہے کہ اس کی چند خصوصیات کا مطالعہ کیا جائے کیوں کہ کسی بھی چیز کی خصوصیات کو ہی پیش نظر رکھ کر اس کی سماجی و ادبی اہمیت کو دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔
’’زبان مورثی نہیں ہے‘‘
زبان کے حوالے سے یہ خصوصیت اپنی جگہ اہم ہے کہ زبان بنیادی طور پر مورثی نہیں ہوتی یعنی کہ بولنے والے کو کسی بھی زبان کی صلاحیت اس کے آباو اجداد یا والدین کی طرف سے منتقل نہیں ہوتی بلکہ زبان ماحول کی دین ہوتی ہے وراثت کی دین نہیں ہوتی ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی مادری زبان اپنے والدین سے ہی سیکھتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ زبان وراثتی ہے ۔اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ مثال اہم ہے کہ اگر کسی بھی نو مولود بچے کو ہم اپنے سماج یا ملک سے باہر کسی اجنبی ملک یا ایسی جگہ بھیج دیں جہاں ہماری مادری زبان بالکل نہیں بولی جاتی تو وہ ہمارا بچہ وہیں دوسری زبان کو بولنا شروع کر دے گا اور اپنی مادری زبان کو کبھی بھی نہیں بول پائے گا ۔اسی طرح اگر ایک نو زائدہ بچے کو ہم جنگل میں جانوروں کے پاس چھوڑ آئیں تو وہ وہاں پر بھی جا کر صرف ان جنگلی جانوروں کی طرح ہی غوں غوں کرتا ہوا واپس آئے گا اور کوئی زبان نہیں سیکھ پائے گا ۔اسی لیے یہ کہنا اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ زبان مورثی نہیں ہے ۔
’’زبان اکتسابی ہے ‘‘
اکتساب علم سے اس خصوصیت کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک انسان محنت کر کے بڑے بڑے قابل شخص کو ہرا سکتا ہے اسی طرح اگر ایک انسان کسی ایسے سماج میں جائے جہاں اس کو اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کو سیکھنے کا موقع ملے تو وہ محنت کر کے زبان کو سیکھ سکتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد وہ بالکل اس زبان کو اسی طرح بولنا شروع کر دے گا جس طرح وہاں کے لوگ اس زبان کو بولتے ہوں گے مثلاََ ہندوستان سے کتنے جوان روزی روٹی کے سلسلے میں عرب اور یورپی ممالک کا سفر کرتے ہیں اور وہاں جا کر وہ ان لوگوں کی زبان کو بولنا شروع کر دیتے ہیں ۔تو معلوم ہوا کہ زبان ایک اکتسابی عمل ہے جہاں محنت اور کوشش اہم ہے ۔
’’ زبان ایک نقل ہے‘‘
زبان کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ اس کے اکتسابی عمل میں نقل کا بہت اہم رول ہوتا ہے ہم دو بات کرنے والے افراد کو دیکھ دیکھ کر کے بھی زبان سیکھ جاتے ہیں ۔عموماََ اگر ایک بچے کی بات کریں تو ایک بچہ اپنے گھرانے میں والدین کو دیکھتے دیکھتے ہی بہت ساری باتیں سیکھ لیتا ہے اور جس ماحول میں ان کے والدین کی پرورش ہوئی ہوتی ہے اسی ماحول کو اپنی زبان میں اپنانا شروع کر دیتا ہے ۔
زبان کے استعمال کے حوالے سے بھی اس کی بہت ساری خصوصیات ہیں جن میں سے چند کو پیش کیا جانا ضروری ہے :
’’زبان ایک سماجی ضرورت ہے‘‘
زبان کا سماج سے بہت ہی قریب کا رشتہ ہے اور اس کا استعمال سماج میں ہی ہوتا ہے۔اس کی مثال اس بات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر ایک انسان اپنے لسانی گروہ سے ہٹ جائے یا ایگ ہو جائے تو وہ بعض اوقات اپنی مادری زبان کی مہارت کو بھی کھو دیتا ہے ۔
’’زبان ایک عادت ہے‘‘
عادت اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ ہم اپنی مادری زبان کو اپنی شخصیت کے لیے عادتاََ اپنا لیتے ہیں اور پھر پوری زندگی اس کو ایک عادت کے طور پر استعمال بھی کرتے ہیں ۔اس عادت میں ہم زبان کے تلفظ کو بھی اپنی شخصیت کے مطابق ڈھالنا شروع کرتے ہیں ۔
’’زبان ایک تغیر پذیر شئے ہے‘‘
زبان میں بدلاو تو ہوتا ہے مگر یہ بدلاو اس میں ماحول کی دین ہوتا ہے ۔دریا کی طرح اس میں ٹھراو نظر نہیں آتا اور اس تغیر کی رفتار کبھی کبھی سست ہوتی ہے ۔
’’زبان نا مکمل ہے‘‘
زبان کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ وہ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی ۔ماہریں نے یہاں تک بھی کہا ہے کہ ایک زبان کی تکمیل اس کی موت ہے
’’اختیاریت‘‘
زبان کی ایک خصوصیت اختیاریت ہے ۔اختیاری ہونا اس میں لہجہ کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور الفاظ کی وجہ سے بھی یعنی کہ وہ اپنے الفاظ کو دوسری زبانوں سے اختیار کرتی ہے ۔اس کا یہ لین دین اختیاری ہوتا ہے
’’ثنویت‘‘
ثنویت یا “Duality”زبان کی وہ خصوصیت ہے جس میں اس کے استعمال کا طریقۂ کاردہرہ ہوتا ہے ۔اس کو Double Articulation بھی کہا جا سکتا ہے جو کہ زبان کی ایک اہم خصوصیت ہے ۔
’’تخلیقیت ‘‘ “Creativity”
زبان کی ایک خصوصیت تخلیقیت بھی ہے ۔در اصل جب بھی زبان کی بات ہوتی ہے تو وہ اصولوں پر ہوتی ہے اور اصولوں کی بات کریں تو یہ محدود اصولوں کا لا محدود استعمال ہے ۔اصول چوں کہ محدود ہوتے ہیں اور ہم ایک ہی جملے سے کئی جملے بنا سکتے ہیں ،مثال کے طور پر ’’ میں نے کتاب پڑھی‘‘ اس جملے سے ہم کئی دوسرے جملے خلق کر سکتے ہیں جیسے کہ کیا میں کتاب پڑھتا ہوں ،میں اس کتاب کو کیوں پڑھتا ہوں وغیرہ وغیرہ ۔یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اصل میں جب بھی ہم زبان سیکھتے ہیں تو اصولوں کو دریافت کرتے ہیں جو در اصل اس زبان کے پیچھے بیان ہوتے ہیں ۔کبھی کبھی ہم ان اصولوں کو بغیر کسی محنت اور لگن کے ہی سیکھ لیتے ہیں ،مثال کے طور پر بچپن میں جب بھی ہم اپنی مادری زبان کو سیکھتے ہیں تو ہم کو پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم زبان کے ان اصولوں کو کس طرح حاصل کر لیتے ہیں ۔اسی کلیے کے تحت جب ہم شعوری طور پر کسی نئی زبان کو سیکھنا چاہتے ہیں تو انہی اصولوں کی مدد سے جملے کی ساخت کا تعین کرتے ہیں جو ہماری ماردی زبان کو سیکھتے وقت استعمال کیے تھے ۔اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زبان میں الفاظ ہی اہم نہیں ہوتے بلکہ اس زبان کے پیچھے وضع کیے ہوئے اصول ہی اہم ہوتے ہیں جو حالات کے مطابق ہی ان الفاظ کو پیش کرتے ہیں ۔زبان میں کون سا لفظ کہاں استعمال ہوتا ہے اور کس طریقے سے استعمال ہوتا ہے یہی زبان کی تخلیقیت میں نمایاں رول ادا کرتا ہے اور یہی ہماری زبان کی تخلیقیت ہے۔جسے ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ Finate rules کا Infinate use یعنی کہ محدود اصولوں کا لا محدود استعمال ہے۔
Displacement (اخراجیت)
زبان میں ایک لفظ کا دوسری جگہ استعمال ہونا ہی اخراجیت کہلاتا ہے ۔چوں کہ زبان میں نہ ہی وقت کی کوئی قید ہے اور نہ ہی جگہ کی،زبان وقت اور جگہ دونوں سے ما ورا ہے ۔مثال کے طور پر ہم ایک جگہ بیٹھ کر ہزاروں سال پرانی باتیں کر سکتے ہیں جن واقعات کو ہم نے دیکھا ہی نہیں ہوتا ہے۔اسی طرح ہم زبان کے ذریعے ماضی ،حال، مستقبل کی بات کرتے ہیں ،ہم فکشن کی بات کرتے ہیں ،شاعری میں ہم عنقا کی بات کرتے ہیں جو کہ موجود ہی نہیں ہے اور فارسی پرندہ ہے ۔اسی طرح ہم لوگوں نے جنات اور فرشتوں کو نہیں دیکھا مگر ہم ان کی بھی بات کرتے ہیں ،ان تمام باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زبان کے لیے وقت کی کوئی قید و بند نہیں ہے ۔
اسی طرح اگر جگہ کی بات کریں تو وہ بھی اسی زبان کی ایک خصوصیت ہے کہ ہم ایک جگہ بیٹھ کر دنیا کے دیگر ممالک کی سیاسی ،سماجی اور ملی مباحث کرتے ہیں ،اخبارات کے ذریعے ہم دیگر ممالک میں پیدا شدہ حالات کی بات کرتے ہیں ۔
زبان میں ایک لفظ کبھی کبھی اپنی اصل جگہ سے تبدیل ہو کر دوسری جگہ اختیار کر لیتا ہے اسی کو Shifter بھی کہتے ہیں ،مثال کے طور پر جب دو آدمی آپس میں کلام کر رہے ہوتے ہیں تو ایک شخص دوسرے کو’’ آپ‘‘ کہتا ہے اور خود کو’’ میں ‘‘ مگر وہی بات جب دوسرا شخص کہتا ہے تو وہ بھی خود کو ’’میں ‘‘ اور دوسرے کو ’’آپ‘‘ کہتا ہے ،تو اس طرح الفاظ کی یہ تبدیلی بھی Shift ہو کر ایک دوسرے الفاظ کی جگہ لے لیتی ہے اسی کو اخراجیت کہتے ہیں اور یہ تمام زبان کی خصوصیات ہیں ۔
’’ زبان ایک Cultural Transmission ہے‘‘
زبان کی ایک بہت ہی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ماحو ل کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔چوں کہ زبان اگر چہ ہماری فطرت میں داخل ہے،مگر ہم کون سی زبان بولیں اس کے لیے ہمیں ماحول کی ضرورت ہوتی ہے ،اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ زبان ہمیں ماحول سے ملتی ہے کیوں کہ ایک انسان کی زبان ہی سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا ماحول کیسا ہے ۔Cultural Transmission کی اگر بات کریں تو زبان ہی کے ذریعے ایک کلچر دوسرے کلچر تک اپنی زبان اور تہذیب کو پہنچا پاتا ہے جہاں ایک ماحول کی تہذیب و تمدن دوسرے ماحول تک رسائی حاصل کرتی ہے ۔اسی طرح اگر ایک بچے کو اس کی ابتدائی زندگی ہی میں کسی دوسرے کلچر یا ملک میں بھیج دیا جائے تو وہ بچہ وہاں جا کر اسی کلچر اور زبان کو اپنی مادری زبان سمجھ کر سیکھنا شروع کر دے گا ۔
المختصر زبان ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے خیالات کو دوسروں تک پہچاتے ہیں اور یہ زبان ہی ہماری شخصیت کی پہچان کرانے میں بہتر راہنمائی کرتی ہے جس سے مختلف خصوصیات کا علم ہوتا ہے ۔اسی زبان کی یہ بھی خاصیت ہے کہ اس میں سچ اور جھوٹ بھی بولا جاتا ہے اور ہم اپنے خیالات کو سامع تک پہچاتے ہیں ۔
٭٭٭
حواشی:
(۱) پروفیسر گیان چند جین ’’عام لسانیات‘‘ ترقی اوردو پیورو نئی دہلی ۱۹۸۵ م ص: ۴۲۔
(۲) پروفیسر گیان چند جین ’’عام لسانیات‘‘ ترقی اوردو پیورو نئی دہلی ۱۹۸۵ م ص: ۴۶۔
(۳) سید محی الدین قادری ’’ ہندوستانی لسانیات ‘‘ شمس الاسلام پریس حیدرآباد دکن ۱۹۲۳ م ص: ۲۷۔
***