You are currently viewing سائبر میڈیا اور اردو

سائبر میڈیا اور اردو

مظہرحسنین

نئی دہلی

سائبر میڈیا اور اردو

         انٹر نیٹ کی آمد نے جس قدر تبدیلیاں پیدا کی ہیں،اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر بہت واضح رونما ہوئے ہیں ۔پہلے کمپیوٹر کی آمد،پھر انٹر نیٹ کی دستک ،ای میل اور ویب صفحات پرمبنی ٹکنالوجی کی چکا چوندھ،انگلیوں کے رقص سے اسکرین پر ابھرتے نقوش، ماؤس کی کلکاریوں سے نمودار ہوتے ورچوئل دنیا کے سحر انگیز مناظر ،سائنسی ترقی کے سبب کم ہوتے فاصلے،خیالی دنیا کی دلفریبی ،کشش او ر رنگینی،سوشل میڈیا کی فعالیت و طاقت،انسانوں کے گرد اطلاعاتی جال اور افواہوں کا جنجال وغیرہ وہ عوامل ہیں جن کا تعلق اطلاعاتی ٹکنالوجی سے ہے۔یہ ٹکنالوجی ہر روز نئے روپ ،رنگ سے ہم آہنگ ہو رہی ہے ۔

         انٹر نیٹ ،سائبر اسپیس اور انفارمیشن ہائی وے (  & Information Highway  Space  Cyber) یہ تمام نام ہم معنی ہیں ۔ سائبر اسپیس ( CyberSpace) کو سب سے پہلے ولیم گبسن نے1984ء میں اپنے ناول نیو رو مینسر ( Neoro mensor)  میںاستعمال کیا ۔

          کمپیوٹر ، موبائل اور انٹر نیٹ ٹکنالوجی نے انسانی زندگی میں تلاطم مچارکھا ہے ۔بہت سارے لوگ اس سے ہم اہنگی کے لیے بے تاب ہیں۔جبکہ بعض اس جادوئی دنیا سے خوفزدہ ہیں،اور اپنی لاعلمی کی بنیاد پر اس کے قریب جانے سے کترا رہے ہیں ۔جبکہ حقیقت ہے کہ اس کی اسراریت کو فاش کرنے کے لیے اس کی ہم نشینی اختیار کرنی پڑے گی ۔

         آج ہر سمت سوشل میڈیا کاشور ہے ،ہر فرد کسی نہ کسی شکل میں اپنے آپ کواس سے منسلک کرنے کو نہ صرف بیتاب بلکہ مجبوربھی ہے ۔ٹکنالوجی کے زیر اثر زمانے نے ایسی کروٹ لی ہے کہ ہر سوسوشل میڈیا کی ہی جلوہ نمائیاں ہیں ۔زبان و ادب ،علوم و فنون ،درسی وسائل سے لے کرسیر و تفریح ،سیاحت یہاں تک کہ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر نہ بول رہا ہو،سوشل میڈ یا پر پرستاران علوم وادب کا نہ تھمنے والا کارواں رواں دواں ہے ۔سوشل میڈیا سے مراد انٹرنیٹ بلاگز، سماجی روابط کی ویب سائٹیں ہیں جن کے ذریعے خبریں اور معلوماتی مواد کو فروغ دیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ روایتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دیگر کاروباری افراد معلومات کو عوام تک پہنچانے کے لیے بڑی تعداد میں سوشل میڈیا سائٹس جیسے یوٹیوب ،فیس بک ، ٹوئٹر، انسٹا گرام ، واٹس ایپ ،مائی اسپیس، ڈگ اور دیگرذر ائع سے مربوط ہیں۔ سوشل میڈیا  پرنٹ او ر الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ موثر ہے اور دنیا میں تیزی سے مقبول ہواہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عوام کااس سے منسلک ہونا ہے۔ اس منفردمیڈیا میں خبروں اور معلومات کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ معلومات کا ذخیرہ آپ تک خود بخود بذریعہ ای میل الرٹ اور انٹرنیٹ بلاگز اور سبسکر ائب الرٹ کے ذ ریعہ پہنچ جاتا ہے، آپ کو صرف کسی بھی بلاگ یا سائٹ میں اندراج یا یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک چھوٹی سے چھوٹی خبر کو مقبول کرنے کے لئے کسی بھی سوشل سائٹس میں صرف ایک پوسٹ شیئر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے پھر یہ خود بخود ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد تک پہنچ جاتی ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی نے انسان کو اتنا ترقی یافتہ بنا دیا ہے کہ انسان اپنا وقت ضائع کئے بغیر کہیں بھی بیٹھے بیٹھے پوری دنیا سے سوشل میڈیا کے ذریعے میل جول رکھ سکتا ہے۔لیکن اس کا منفی پہلو اس وقت زیادہ مضبوط نظر آتا ہے ۔جب لوگ سوشل میڈیا ذرائع پر اپنا قیمتی وقت غیر ضروری طور پر صرف کرتے ہیں ۔گھنٹوں اس پر آوارگی میں مصروف رہتے ہیں۔چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا کارآمد اور سود مند استعمال کیا جائے تو اس کے اثرات اور فوائد خود بخود واضح ہوتے چلے جائیں گے ۔

          سوشل میڈیا ویب سائٹوں ( فیس بک ، یو ٹیوب ،ٹوئٹر،لنکڈ ان،گوگل پلس، بلاگراور ورڈ پریس جیسے دیگر پلیٹ فارم ) پر اردو والوں کی تعداد کم نہیں ہے بلکہ اردو والوں کے بہت سے گروپس فعال ہیں ۔اسی طرح ٹوئٹر پر اردو پوئٹری ، اردو پوئٹری ایس ایم ایس ،بیسٹ اردو پوئٹری ،صوفی نامہ ، لکھنؤ اردو شاعری اور ریختہ گروپس موجود ہیں ۔

         فیس بک ،یوٹیوب واٹس ایپ اور انسٹا گرام سمیت تمام اہم سوشل میڈیاذرائع پر نہ صرف اردو کی شمع روشن ہے بلکہ اس کی لو تیز تر ہوتی جا رہی ہے اور عشاق اردو بزم شعر وادب کو رونق عطا کررہے ہیں ۔چنانچہ اگر صرف فیس بک پر اردو شعر و ادب کا جائزہ لیا جائے تو سینکڑوں گروپس فعال ہیں ،دنیا کے مختلف خطوں سے شعرا و ادبا باہم ہمکلام ہیں ،صرف اردو شاعری کے عنوان سے کئی سو گروپس اپنی موجودگی درج کرا رہے ہیں ۔اسی کی مانند اردو ادب کے گرو پس بھی سرگرم ہیں ۔صرف لفظ اردو سرچ کرنے پر بہت سے اردو اداروں ،درس گاہوں ،اخبارات و میگزین ، اکادمیاں ، اردو بازار ،اردو ویکی پیڈیا ،جہان اردو ،ز بان اردو ،اردو ادب ،غزل ، شاعری ،اردو افسانہ ،اردوکمیونٹی انڈیا ،اردو فکشن ،اردو ناول ،عالمی فیڈریشن برائے ارد و ،اردو لکھاریوں کی عالمی فہرست،بزم ادب اور بزم اردو جیسے سینکڑوں گروپس موجود ہیں ۔

         سوشل میڈیا کے باعث اردوشعر وادب کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ اردو بلاگز کی تعداد انگریزی بلاگز کے مقا بلے میںبہت کم ہے۔ مگر ان میں وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سے اردو کا فروغ ہو رہا ہے۔   ٹکنالوجی کی پیش رفت کے ساتھ ساتھ اردو بلاگنگ سے وابستہ توقعات بھی بدل گئی ہیں۔ شروع میں کسی اردو بلاگ کا آغاز ہونا اور فعال رہنا ہی غنیمت جانا جاتا تھا۔لیکن اب اردو بلاگرس سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ بھی اپنے بلاگ پر فکر انگیز اور معلوماتی تحریر پیش کریں گے۔ اس اعتبار سے مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے اور کئی اچھے ادبی اور معلوماتی اردو بلاگز لکھے جانے لگے ہیں۔

          واٹس ایپ پر اردو شعرو ادب کا جائزہ لینے پر گوگلنگ میں ہمیں کئی انکشافات ہوتے ہیں ۔اردو شعر وادب کے ہزاروں گروپس واٹس ایپ پر موجود ہیں ، جن میں کئی بہت کار آمد بھی ہیں ۔مشہور شعراء میر تقی میر ،مرزا غالب ، میر انیس ، علامہ اقبال اورجوش وغیرہ کے نام سے گرو پس چلائے جا رہے ہیں ۔ادب اور شاعری کے تعلق سے ہزاروں گرو پس ہیں ۔واٹس ایپ گروپ کے لنک شیئر کرنے والی ویب سائٹ کے مطا بق کئی ہزارکی تعدادمیں اردو کے گروپ میں لوگ آپس میں ہمکلام و شراکت دار ہیں ،جو شعر و ادب پر مبنی متن ،آڈیوز اور ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں ۔بہت سے گروپس میں اردو کی کتابیں پی ڈی ایف فارمیٹ میںموجود ہیں ۔ جہاں سے ضرورتمند فیض یاب ہو رہے ہیں ۔

          سوشل میڈیا کا سب سے اہم اور فعال ترین ذریعہ یوٹیوب ہے۔ جہاں شعر و ادب اور درس تدریس کا سمندر رواں ہے ۔ اس پر شعر و ادب کے حوالے سے مواد کچھ کم نہیں ہے۔ نثری اور منظوم ادب کا بہت بڑا ذخیرہ اس پرموجود ہے ۔ مشاعرے کے ہی کئی درجن چینلس اس پر موجود ہیں ۔شعر و شاعر ی کے چینلوں میں انداز بیاں ،بزم ریختہ شاعری ،علامہ اقبال ،اردو پوئٹری کلیکشن ، جشن ریختہ ،اردو پلس ،مشاعرہ ،آدھی بات ،ریختہ ، جشن ادب ،فیض اسٹوڈیو ،وقت میڈیا اور سٹی لائیو وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ان کے علاوہ اردو ادب ،اردو سیکھیں ،ٹیچ اردو ،لرن اردو زبان ، بکس ہب ،الف اردواور اردو لیکچرس جیسے اردو کے یوٹیوب چینل نہ صرف چلائے جا رہے ہیں بلکہ بے حد مقبول ہیں ۔جس کا اندازہ ان کے ویوز سے ہوتا ہے ۔

         ٹکنالوجی کے رموز اسرار کو سمجھنے کے لئے کورونا وبا بہت معاون ثابت ہوئی ہے ۔جب انسان گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے اس نے راستے نکالے،اورگھروں سے دفتر ی کام(Work from home)، آن لائن میٹنگ،آن لائن تعلیم ، آن لائن کلاسیز اور لائیو کلاسیز کا تصور پروان چڑھا ،اور جس کی گزشتہ دو سال کی دوستی میں انسان اپنی بہت سی سرگرمیوںمیںمصروف رہا۔وبا نے جب اس کو گھر میں قید کر دیا تواس نے اپنے لیے راستے نکالنے شروع کر دیئے ۔ادبی محفلوں نے چند دنوں کے وقفے کے بعد آن لائن ذرائع کا رُخ کرنا شروع کردیا ۔شعر و شاعری اور سخنوری کی محفلیں آن لائن سجنے لگیں ۔شعرا اپنی تخلیقات واٹس ایپ گروپ ، فیس بک صفحات، انسٹا گرام اورٹوئٹرجیسے دیگر فراہم ذرائع پر پوسٹ کرنے میں دلچسپی لینے لگے ۔یوٹیوب پر شعر خوانی کی ویڈیوز ڈالنے کی خواہش بیدار ہونی شروع ہوئی ۔گرچہ یہ سلسلہ پہلے سے جاری تھا ،لیکن کورونا وبا نے اس میں مزیدروانی پیدا کر دی ۔وبا کے دو سالہ ایام کے اعداد و شمار سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ اس  دوران یوٹیوب استعمال کرنے والوں کی تعدادمیں قدرے اضافہ ہوا ۔اسی زمانے میں تعلیمی سر گرمیوں کے معطل ہونے پرٹکنالوجی کے ذریعہ ان عوامل کو جاری رکھا گیا ۔ و یبناراور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ اردوو الوںنے بھی راستے نکالے۔سمینار کے متبادل کے طورپر ویبنار کا چلن عام ہوا۔ تنظیموں ،اداروں سے لے کر مختلف یونیورسٹیوں نے ویبنار کا جو سلسلہ شروع کیا اس میں تیزی آتی گئی ۔ان اداروں کے اشتہارات، دعوتی کارڈاور پر وگرام کے اعلانات سوشل میڈیا مثلاً فیس بک واٹس ایپ کی گلیوں اور شاہراہوں سے ہو تے ہوئے لوگوں تک پہنچنے لگے ۔ وہ تبدیلی جسے ہم آئے روز سوشل میڈیاپر دیکھتے ہیں اسی تغیر کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ ٹکنالو جی کی تیزرفتار تبدیلی سے آج کی آن لائن دنیا جسے ہم ابھی دیکھ رہے ہیں اگلے چند برسوں میں یکسر مختلف ہو جائے گی۔

         کورو نا و باکے دورمیںورک فرام ہوم (Work from home)،آن لائن کلاسیز،ڈیجیٹل کلاسیز،لائیو کلاسیز ،گوگل میٹ، زوم(Zoom)،گوگل کلاس روم کے سہارے تعلیمی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی۔پہلے جو انسان علمی پیاس بجھانے کے لئے کتابوں اور لائبریریوں کی ہم نشینی اختیار کرتاتھا۔اب کمپیوٹر کلچر سے متاثر ہوکر انگلیوں کے رقص اورماؤس کی کلکاریوں سے معلوماتی سمندر کامسا فر ہوجاتا ہے۔اس اطلاعاتی ٹکنالوجی کی کرم فرمائیوں کے نتیجے میں ویبنار ، ویب کانفرنسنگ اور ویب کاسٹنگ جیسی اصطلاحات کے فیوض بھی نمایاں اور ظاہر ہیں ۔ اس میدان میں اردو کے بہت سے اد ارے وگروپس فعال ہیں ۔ورلڈ اردو ایسوسی ایشن بھی اس سمت میں مسلسل سرگرم رہا ہے اور استاد محترم  پروفیسر خواجہ اکرام صاحب کی سر پرستی میںمختلف نوعیت کی ادبی سرگرمیاں فیس بک اور یوٹیو ب کے ذریعہ نہ صرف لوگوں تک پہنچیں ،بلکہ دنیا کے الگ الگ خطوں سے لوگ اس میں شریک ہوئے ، اپنے خیالات و افکاراور کاوشوںسے ادب کی ترویج و ترقی میں اپنا کردا ر ادا کرتے رہے۔دنیا بھر سے اس طرح کی کوششوںسے فروغ اردو کے امکانات کافی روشن ہیں۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ۱کیسویں صدی کی آخری نصف صدی تک سماجی ، تعلیمی ، تہذ یبی سطح پر ہنگامہ خیز انقلاب کی دستک ہے جہاں انسان کے طرز فکر ، طرز زندگی میں ایک نیا موڑ آنے والا ہے جو سائنس و ٹکنالوجی کے زیر اثر ہو گا ۔ اس طرح اردو کو بھی ان حالات سے نبرد آزماہونے کے لئے تیار رہنے کی ضرورت ہو گی ۔

         بہر کیف ایجادات و اختراعات کا عمل فطری ہے اور زندگی کی علامت بھی ۔زمانہ گزرتا رہے گا ، نئے تقاضے درپیش ہوں گے ،انسان کی مجبوری بھی یہی ہوگی کہ خود کو در پیش جدیدتقاضوں کے مطابق لاکھڑا کرے ۔اس لئے زبان و ادب کی ترقی کے لئے اس کے عصری تقاضوں پر کان دھرنا بھی لازم ہے۔

***

Leave a Reply