طلعت جہاں
(کلکتہ)
ساحر اور اشتراکیت
ساحر لدھیانوی کا شمار ترقی پسند کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ا ن کی پیدائش ۱۹۲۱ء میں لدھیانہ کے ایک جاگیر دار گھرانہ میں ہوئی۔ اصل نام عبدالحیٔ تھا جو خود ان کے والد ابوالفضل نے رکھا تھا۔ ساحر خاموش طبیعت کے مالک تھے اس کی و جہ شاید یہ تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کئی ساری صعوبتوں کا سامنا کیا تھا۔ ماں کا دکھ، باپ کی نفرت اور زمانے کے غم کا انہوں نے قریب سے مشاہدہ کیا تھا لیکن اپنے ان جذبات کا برملا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ’’ تلخیاں‘‘(۱۹۴۴ء) منظر عام پر آیا تب ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ باپ کے پیار سے محروم رہنے والا شخص اب لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے لگا تھا اور یہ کم عمر لڑکا عبدالحیٔ سے ساحرؔ لدھیانوی کے نام سے مشہور ہوگیا۔
ساحر کی شاعری میں رومانی جذبات، جذبات میں صداقت، انگریزوں اور سامراجیوں کے خلاف بلند آواز، انقلابی سوچ اور باغیانہ خیالات کی بھر پورعکاسی ملتی ہیں۔ شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ اور ’’آؤ کہ کوئی خوب بنیں‘‘ میں بیشتر ایسی نظمیں ہیں جورومانی جذبات واحساسات کی لے میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ’’تلخیاں‘‘ میں شامل رومانی نظمیں۔ ’’ردعمل‘‘ ، ’’ایک منظر‘‘، ’’ایک واقعہ‘‘، ’’معذوری‘‘، ’’سرزمین یاس‘‘، ’’شکست‘‘،’’کبھی کبھی‘‘، ’’ہراس‘‘ ، ’’فرار‘‘ ، ’’اسی دوراہے پر‘‘، ’’ایک تصویر رنگ‘‘ ، ’’میں نہیں تو کہا‘‘ ، ’’متاع غیر‘‘ ، ’’تیری آواز‘‘ ، ’’خوب صورت موڑ‘‘ اور ’’میرے عہد کے حسینوں‘‘ جب کہ ’’آؤ کہ کوئی خواب بنیں‘‘ میں ’’ایک ملاقات‘‘، ’’ہم عصر‘‘ ، ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘‘ وغیرہ رومانی نظمیں شامل ہیں۔
ساحر کی رومانی نظموں کے مطالعہ کے بعد یہ کہنا بجا ہوگا کہ انہیں بھی گوشت پوست انسان سے عشق ہوا بلکہ کئی بار ہوا لیکن ہر بار ان کا عشق ناکام ہوا۔ لہٰذا رات کی تنہائی میں وہ کبھی محبوب کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔
روز کی طرح آج بھی تارے صبح کی گرد میں نہ کھو جائیں
آ ترے غم میں جاگتی آنکھیں کم سے کم ایک رات سوجائیں (انتظار)
اور اس اتنظار کے لمحہ میں شاعر اپنے تخیل میں محبوب کی دستک کو یوں محسوس کرتا ہے۔
تو بہت دور کسی انجمن ناز میں تھی
پھر بھی محسوس کیا میں نے کہ تو آئی ہے
اور نغموں میں چھپا کر مرے کھوئے ہوئے خواب
مری روٹھی ہوئی نیندوں کو منا لائی ہے (تیری آواز)
ساحر نے اپنی شاعری میں محبوب کے تئیں اپنے خیالات، جذبات، احساسات اور افکار کا مکمل اظہار کیا ہے۔ ان کی شاعری میں حقیقت اور رومان کا امتزاج نظر آ تا ہے۔ نظم’’ معذوری‘‘ اور ’’شکست‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے۔ اپنے عنوان کی طرح اس نظم میں زندگی کا کرب پیوست ہے جہاں شاعر کی زندگی میں خوشیوں کی آمد ہے لیکن حالات کے پیش نظر وہ ان خوشیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے۔ ساحر کہتے ہیں:
روح افزا ہیں جنون عشق کے نغمے مگر
اب میں ان گائے ہوئے گیتوں کو گاسکتا نہیں
دل تمہاری شدتِ احساس واقف تو ہے
اپنے احساسات سے دامن چھڑا سکتا نہیں (معذوری)
ایک یخ بستہ اد اسی ہے دل وجاں پہ محیط
اب مری روح میں باقی ہے نہ امید نہ جوش
رہ گیا دب کے گراں بار سلاسل کے تلے
میری درماندہ جوانی کی امنگوں کا خروش (شکست)
بلاشبہ یہ اندازِ شاعری فیض احمد فیضؔ کا ہے جہاں فیض اپنے محبوب سے تعلق قطع کرنے کی بات کرتے ہیں۔
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجیے
اور بھی دکھ ہے زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
(مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ)
ساحر بھی فیض کے ا س طرز بیاں سے استفادہ کرتے نظر آرہے ہیں۔
ساحر کمیونسٹ نظریہ کے حامی تھے وہ لوگوں میں یکسانیت اور یکجہتی کے خواہاں تھے لیکن مال وزر کی غیر مساوی تقسیم اور سرمایہ دار اور غریب طبقہ کے درمیان واضح فرق سے وہ مطلق ناراض نظر آتے ہیں۔ کھیتوں میں دن بھر دھوپ کی تپش میں مزدوروں اور کسانوں کا کام کرنا لیکن اس کا تمام فائدہ صرف جاگیردار اور زمیندار طبقہ کو ہونااور خود ان مزدوروںاور کسانوں کے گھر میں فاقہ کشی کا ہونا، یہاں تک کہ قرض تلے دب کر اپنے گھر کی عزت کا سودا کرنے پر مجبور ہوجانا ساحر کو حد درجہ پریشان کرتا ہے اور ساحر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا ہم سب کا خدا ایک ہی ہے اور اگر ایک ہی ہے تو پھر ایک طبقہ محلوں میں مخمل کے مسند پر آرام فرما کیوں ہے اور ایک طبقہ مٹی میں لت پت پسینے میں شرابور محنت ومزدوری کرنے کے باوجود اس کے عوض ان کا وہ حق نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہیں۔ ان کی یہ گہری سوچ کرب مین تبدیل ہوکر ان کی شاعری میں الفاظ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
نوع انساں میں یہ سرمایہ ومحنت کا تضاد
امن وتہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد
ہر طرف آتش وآہن کا یہ سیلابِ عظیم
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم
لہلہاتے کھیتوں یہ جوانی کا سماں
اور دہقاں کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں
(مجھے سوچنے دے)
فصلیں کاٹ کے محنت کش غلے کے ڈھیر لگائیں گے
جاگیروں کے مالک آکر سب پونجی لے جائیں گے
بوڑھے دہقانوں کے گھر بنئے کی قرقی آئے گی
اور قرضے کے سود میں کوئی گوری بیچی جائے گی
(کل اور آج۔۲)
ساحر نے اپنی شاعری کے ذریعہ عام عوام کو بیدار کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ ان کا دور انتشار کا دور تھا، لوگوں کا حوصلہ پست ہورہا تھا، لوگ ناامیدی کے دریا میں غرق ہورہے تھے ایسے میں ساحر نے ان کی راہ میں مشعل جلانے کی کوشش کی، خواب دیکھنے کی دعوت دی اور ان خوابوںکو پورا کرنے کی بھی ان میں خواہش پیدا کی۔ ’’بلاوا‘‘، ’’ایک شام‘‘ ، ’’آؤ کہ کوئی خواب بنیں‘‘ وغیرہ جیسی نظموں میں انہوں نے عوام کو جہد وعمل کی راہ میں گامزن کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
آؤ کہ کوئی خواب بنیں، کل کے واسطے
ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی جان ودل کو کچھ ایسے کہ جان ودل
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
(آؤ کہ کوئی خواب بنیں)
دیکھو دور افق کی ضو سے جھانک رہا ہے سرخ سویرا
جاگو اے مزدور کسانوں! اٹھو اے مظلوم انسانو! (بلاوا)
ساحر لدھیانوی کی ابتدائی دور کی شاعری میں بھر پور رومانی انداز ہے لیکن بعد کے دور کی شاعری میں وہ اشتراکی نظریات کے مبلغ نظر آتے ہیں جس سے لوگوں کا ماننا ہے کہ انہیں اپنے محبوب سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ جنگ وجدل اور خون ریزی کی باتوں سے ہی انہیں رغبت تھی جب کہ حالات نے انہیں اس طرح کے موضوعات اپنانے پر مجبور کردیا تھا۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنی نظم ’’میرے گیت‘‘ میں کیا ہے۔
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں مفلسوں کو، بے کسوں کو، بے سہاروں کو
تو دل تابِ نشاطِ بزم عشرت لانہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا (میرے گیت)
ساحر کو انسانیت کا درد ہے گرچہ محبوب کا تصورشب کی تاریکی میں اضطراب کی سی کیفیت پیدا کردیتی ہے لیکن جب وہ روتے بلکتے معصوموں اور خون میں لت پت جوان نعشوں کو دیکھتے ہیں تو ان کی بے چینی ایک نیا رخ اختیارکر لیتی ہے۔ نظم ’’اے شریف انسانوں‘‘ میں جہاں انہوں نے جنگ سے ہونے والی ہولناک تباہیوں کا ذکر کرتے ہوئے جنگ سے گریز کرنے کی تلقین کی ہے وہی نظم ’’مگر ظلم کے خلاف‘‘ میں انہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر زور دیا ہے۔یہاں تک کہ اگر ظلم کو روکنے کے لیے جنگ بھی کرنی پڑے تو قبول ہے کیوں کہ ظلم برداشت کرنا خود ایک ظلم کرنے کے مترادف ہے۔
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
(ظلم کے خلاف)
شاعر اور ادیب بڑا حساس ہوتا ہے۔ زمانے کے حالات کا وہ باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے۔ ان حالات کو اور سماج کے مسائل کو اپنے انداز میں قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ساحر کو قطعی منظور نہیں تھا کہ ایک عام طبقہ یاسیت اور ناامیدی کے صحرا میں کھو جائے۔ لہٰذا انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ لوگوں کی سوچ کو بدلنے کی بھر پور کوشش کی۔ وہ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ کے خلاف کھل کر بغاوت کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی اس بغاوت پرآمادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ’’ایک شام‘‘، ’’میرے گیت تمہارے ہیں‘‘، ’’آواز ِ آدم‘‘، ’’گریز‘‘، ’’چکلے‘‘، ’’مگر ظلم کے خلاف‘‘، ’’لشکر کشی‘‘ ، ’’تاج محل‘‘، ’’احساس کامران‘‘، ’’خون پھر خون ہے‘‘، ’’طلوع اشتراکیت‘‘ وغیرہ جیسی نظموں میں زبردست انقلابی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہاں آخر الذکر نظم کی چند سطریں پیش کی جارہی ہیں جس کے ہر لفظ سے بغاوت اور انقلاب کی صدا آرہی ہے۔
روندی کچلی آوازوں کے شور سے دھرتی گونج اٹھی ہے
دنیا کے انیائے نگر میں حق کی پہلی گونج اٹھی ہے
جمع ہوئے چوراہوں پر آکر بھوکے اور گدا گر
ایک لپکتی آندھی بن کر ایک بھبکتا شعلہ ہوکر (طلوعِ اشتراکیت)
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تلخیاں‘‘ کی مقبول ترین نظم ’’تاج محل‘‘ ہے جس میں انہوں نے تاج محل کو نئے زاوئیے سے دیکھا ہے اور لوگوں کی بھی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ اس نظم میں انہوں نے لوگوں کی طرح عام روش پر چلتے ہوئے تاج محل کی خوبصورتی کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ ان مزدوروں کے حق میں آواز اٹھائی جنہیں عمارت کی تعمیر کے بعد اپنے ہاتھ قلم کروانے پڑے اور اس طرح تاج محل کے متعلق ایک الگ نظریہ پیش کرکے انہوں نے قاری کے دل میں اپنی جگہ مستحکم کر لی اور اس طرح ساحر ان تمام لوگوں کی آواز بن گئے جن کا تعلق غریب طبقہ سے تھا ۔ یہاں نظم کا سب سے مشہور حصہ پیش کیا جارہا ہے۔
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے
نظم ’’گریز‘‘ میں ساحر نے وطن کی خاطر اپنے جذبہ عشق کو قربان کردیا اور نظم ’’میرے گیت تمہارے ہیں‘‘ میں وہ ایثار وقربانی کا جذبہ بے باکی اور جرات مندانہ انداز میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جہاں وہ خود کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے مزدوروں اور کسانوں کے حق میں کھل کر بغاوت کرتے نظر آتے ہیں۔
مجھے اس کا رنج نہیں لوگ مجھے فنکار نہ مانیں
فکر وفن کے تاجر میرے شعروں کو اشعار نہ مانیں
میرا فن، امیدیں، آج سے تم کو ارپن ہیں!
آج سے میرے گیت تمہارے دکھ او ر سکھ کا در پن ہیں
(میرے گیت تمہارے ہیں)
نظم ’’آوازِ آدم‘‘ اور ’’خون پھر خون ہے‘‘ میں شاعر یہ اعلان کرتا ہے کہ اب جس قدر بھی ان پر مظالم ڈھائے جائیں اب وہ ان سے خوفزدہ نہیں ہونے والے۔ ان میں اب اس قدر حوصلہ آگیا ہے کہ ان کے جوش اور ولولے کے سامنے خود ظلم کرنے والے کی بھی قوت شکست کھاجائے گی۔ نظم آواز آدم میں بھی وہی شعری انداز ہے جو فیضؔ کا ہے۔ مثال دیکھیں:
مکافات عمل، تاریخ انساں کی روایت ہے
کروگے کب تلک ناوک فراہم ، ہم بھی دیکھیں گے
کہاں تک ہے تمہارے ظلم میں دم ہم بھی دیکھیں گے (آوازِ آدم)
فیض کا شعر دیکھیں ؎
منظور یہ تلخی، یہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیںگے
ساحر کی شاعری میں طنز کا چبھتا ہوا نشتر ہے۔ انہوں نے عورت کی عظمت کے متعلق بہت کچھ کہا ہے۔ ہمارے سماج میں بیشتر ایسے مرد ہیںجنہوں نے عورت پر صرف جنسی لذت کی خاطر نگاہ رکھی ایسے لوگوں سے جب ساحر سوال کرتے ہیں تو ان کی قلم کی تلخی اور بھی بڑھ گئی ہے۔
یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟ـ
چکلے)
نظم ’’صبح نو روز‘‘ میں نئے سال کی آمد ہے ہر طرف خوشیاں منائی جارہی ہے ہر طرف تحفے تحائف دئیے جارہے ہیں لیکن غریب کسان کی بیٹی چند روپئے کی خاطر اپنی عزت کو تار تار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ نظم ’’ لب پرپابندی تو ہے‘‘ ، ’’جشن غالب‘‘، ’’گاندھی ہو یا غالب‘‘ جیسی نظموں میں بھی انہوں نے طنزیہ اسلوب اختیار کیا ہے۔
ساحر کی شاعری پر بات ہو اور ان کی سب سے طویل نظم ’’پرچھائیاں‘‘ کو نظر آنداز کردیا جائے ممکن نہیں۔ عالمی جنگ کے دوران لکھی گئی یہ نظم اپنے دامن میں ماضی، حال اور مستقبل کو سمیٹ کر ہے۔ اس نظم کے متعلق خود ساحر صاحب فرماتے ہیں:
’’پرچھائیاں میری پہلی طویل نظم ہے اس وقت ساری دنیا میں امن اور تہذیب کے تحفظ کے لیے جو تحریک چل رہی ہے یہ نظم اس کا ایک حصہ ہے۔‘‘
اس نظم میں روانی ہے، بہاؤ ہے، پڑھنے کے دوران ذہن ودل پوری طرح نظم میں منتقل ہوجاتا ہے، جنگ کی تباہ کاری میں دو پیار کرنے والے جس طرح جدا ہوتے ہیں اس کا الم پڑھنے کے دوران بخوبی محسوس ہوتا ہے۔بیان اس طرح ہے کہ واقعی تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں۔ نظم کے مطالعہ کے بعد بلا تامل یہ کہا جاسکتا ہے کہ ساحر کی یہ نظم اردو کی بہترین نظموں میں سے ایک ہے۔ بقول علی سردار جعفری:
دنیا کی نصف سے زائد آبادی نے امن عالم کے محضر پر اپنی مہر ثبت کی ہے۔ ساحر لدھیانوی نے یہ خوبصورت نظم لکھ کر اپنے دستخط کیے ہیں۔‘‘
(رسالہ ادب ساز، خاص نمبر بیاد ساحر لدھیانوی، مدیر نصرت ظہیر، ص:۲۴۱)
ساحر کی شاعری کے موضوعات اگر چہ محدود ہیں لیکن اپنے گرد وپیش کے تمام چھوٹے بڑے واقعات کو انہوں نے شاعری میں برتا ہے نظم ’’فرار‘‘ میں اپنی ماضی پر افسردہ نظر آتے ہیں تو نظم ’’لدھیانہ گورنمنٹ کالج‘‘ اور ’’اے نئی نسل‘‘ میں اپنے کالج کے دنوں کو یاد کرتے اور کالج سے جڑے تلخ اور شیریں یادوں کوسمیٹتے نظر آتے ہیں۔ ساحر کم سے کم الفاظ میں بھی بڑی سے بڑی بات کہہ دینے پر قادر تھے۔ نظم ’’گلشن گلشن پھول‘‘ اور ’’لشکر کشی‘‘ جیسی مختصر نظموں میں بھی جہان معنی پوشیدہ ہے۔ ساحر نے فلمی گیتوں میں بھی شاعری کی معراج کو قائم رکھا، ان گیتوں کو بھی رفعت وبلندی بخشی، فلمی گیت کاروں کو وہ اہمیت دلائی جس کے وہ مستحق تھے، لیکن اردو ادب میں ساحر کو وہ اہمیت اور مقام نہ مل پایا جس کے وہ حق دار تھے۔ خواجہ احمد عباس ساحر اور ان کی شاعرانہ خصو صیات پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ساحر کا فنِ شعر پر عبور، اس کا اندازِ تحریر، اس کا لفظوں کا انتخاب، تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال کا سلیقہ اتنا مکمل اور جامع ہے، جو دوسرے جدید شعراء کی دسترس سے باہر ہے، بزرگ شعراء بھی اسے حقیقی شاعر تسلیم کرتے ہیں اور اس کے شعر تنقید کے معیار پر پورے اتر تے ہیں‘‘
(ساحر اور اس کی شاعری ، ص:۵۱)
میرے خیال میں ساحر لدھیا نوی کی عظمت کا اندازہ اس سے بخوبی ہو سکتا ہے ۔
***