You are currently viewing ساحر لدھیانوی: باکمال شخص  وسحرانگیزشاعر

ساحر لدھیانوی: باکمال شخص  وسحرانگیزشاعر

  الطاف احمد

  ریسرچ اسکالر  شعبہ اردو یونیورسٹی آف کشمیر

ساحر لدھیانوی: باکمال شخص  وسحرانگیزشاعر

 

کل کوئی  مجھ  کو  یاد  کرے  کیوں  کوئی   مجھ   کو   یاد  کرے

مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے ۔

 پہلی جنگ عظیم اور انقلاب روس کے بعد اردو شاعری میں فکروفلسفے کا عنصر بھی ابھرا اور معاشی و معاشرتی اور سیاسی موضوعات بھی نمایاں ہوئے ۔ اس عہد کی  دوسری نمایاں تحریک قومی و وطنی شاعری کی تھی جس نے  1936ء تک آتے آتے انقلابی شکل اختیار کر لی اور عظمت انسان’ اور اجتماعی آرزو کے احساس کو مہمیز کیا تو دوسری طرف جدید فکری قوتوں کی بدولت طبقاتی روابط اورسماجی تعلقات کا شعور گہرا ہوا ۔ یہ ترقی پسند تحریک کا اثرتھا کہ  اقتصادی بدحالی’ سماجی نا انصافی’ اور سیاسی غلامی کے پیش نظر زندگی اور ادب کے تعلقات اور ادب کے زریعہ زندگی کے مسائل سے متعلق ناصرف غور و فکر کی راہیں ہموار ہوئیں بلکہ انقلاب آفریں نغمات کے ذریعہ قوم کی بیداری کا کام بھی کیا اور ان شعرا میں چند ہی شعرا ایسے تھے جنہیں ادبی حلقوں میں بھی عوامی سطح پر شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ساحر لدھیانوی ان میں سے ایک تھے۔

ساحر لدھيانوى  8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ کریم پوره کی سرخ سینڈ سٹول  حویلی میں چوہدری فضل   محمد گوجر زیلدار کے گھر پیدا ہوئے۔ شاید یہ سرخ حویلی میں پیدائش کا ہی ان  کی شاعر پر اثر تھا کہ ان کی شاعری پر  ہمیشہ ترقی پسندی کی چھاپ رہی۔

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

ان کی ساحرانہ شاعری حیران کر دینے والی تھی۔ وہ برصغیر کے ترقی پسند شعرا کی صف میں کم عمر بھی تھے اور نمایاں بھی۔ جذبات کی شدت ان کی شاعری کی پہچان ہے۔ لیکن جذبات میں آکر وہ تحت الٹانے اور عمارات کو گرانے کی بات نہیں کرتے وہ تو اندر کی دنیاں میں گم ہوکر باہر کی دنیا کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ساحر نے اپنی توانائی فکر کو غم عشق کے احساس کے ساتھ حیات و معاشرت کے بنیادی مسائل یعنی نسلِ انسانی کےکرب’ طبقاتی تضاد’ غلامی و آزادی کے سوالات اور عورتوں کے اس دو جہتی استحصال سے وابستہ کیا ۔ ساحر دراصل انسانیت کا علمبردار شاعر ہے۔ وہ مقام ‘اشرف المخلوقات’ سے آشنا ہے۔ اس کی شاعری کا ایک اہم مضمون بقائے انسانی اور تصور اَمن سے متعلق ہے جو نفرت کو محبت میں اور ناآسودگی کو جزبِہ عمل میں تبدیل کرتا ہے۔ یہی تبدیلی طبقاتی قدروں کی وسیع ترآگہی کے ساتھ اس دور  کی شاعری میں نمایاں ہوتی ہے۔

جسے  لہو  کے سوا  کوئی  رنگ  راس  نہ  آئے

ہمیں حیات کے اس پیرہن سے نفرت ہے

حق و انصاف کو ساحر کے مسلک میں وہی اہمیت حاصل ہے جو جنگ پر اَمن کو غلامی پر آزادی کو اور جبر و استبداد پر  ایثار و رحم کو – ساحر کے یہاں اشتراک و مساوات کا نظریہ  اسی روایتی بیداد گری کا نتیجہ ہے اور یہ احتجاجی  رویہ بن کر ابھرا ہے ۔

 ساحر اَوائل عمرہی سے جن مجروح احساسات کے ساتھ زندگی گزارتے رہے انہوں نے ان کی شخصیت اور شاعری دونوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ ساحر نے  اپنی زندگی میں حوصلہ شکن تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے ہمیشہ ایک روشن مستقبل کے خواب دیکھے اپنے لیے بھی اور پوری ‘بنی نوع’ انسان کے لیے بھی۔  ساحر اپنے  زمیندار باپ کا اکلوتا بیٹا تھا جو والد کی گیارہویں بیوی  کے بطن سے پیدا ہوا ۔ والدین کے درمیان کڑی رنجش اور کشمکش دیکھی والدین کے مابین کشیدگی اس حد  تک بڑھ گئی کہ  نوبت عدالت تک جا پہنچی  ۔ بقول ناز صدیقی:

“جب عدالت میں ساحر سے پوچھا گیا کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا وہ اپنی ماں کے پاس ہی رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔”

 ساحر جس  عظیم مرتبے پر پہنچے اس کے حصول کے لیے  ابتدا ہی سے بڑی مشکلات سے گزرنا پڑا۔ ساحر کے اندر بدنما ماحول کے خلاف بغاوت کا جذبہ موجود تھا اس کے مشاہدے کی غماز گھٹاؤ نے ماحول کے تجزیے کی بہترین مثال اس کی نظم “چکلے” ہے اس نظم کا ایک ایک  مصرعہ  طنز کا  زہریلا اور تیز  نشتر ہے ۔مثلا  نظم “چکلے “سے یہ اشعار:

یہ پُرپیچ گلیاں یہ بے خواب بازار

یہ گمنام راہی یہ سِکوں کی جھنکار

یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ ہیں

مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی

یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی

پیمبر کی اُمت، زلیخا کی بیٹی

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ ہیں

یہ بے نام  اذیت جو انہیں اپنے ماضی سے ملی تھی ساحر کا زندگی بھر پیچھا کرتی رہی ان کا ماضی ان کے حال پر متواتر حاوی رہا اور تاریک سایہ ڈالتا رہا اور وہ کبھی اس سے نجات نہ پاسکے۔ ان کے دل و دماغ پر اذیت ناک ماضی  کی اس مضبوط گرفت نے ان کی نفسیات پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ۔

ع۔    یہ لہکتے ہوئے پودے یہ دمکتے ہوئے کھیت

پہلے اجداد کی جاگیر تھے اب میرے ہیں

 ملک کی تقسیم نے ساحر کے خاندان کو بھی تقسیم در تقسیم کر دیا ۔ساحر لدھیانہ سے لاہور چلے گئے جہاں انہوں نے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لیا۔ اس زمانے کا لاہور اگرچہ کوئی بڑا صنعتی شہر نہ  تھا لیکن علمی و ادبی اور سیاسی  و تہذیبی سرگرمیوں کے لحاظ سے ملک کا اہم ترین مرکز تھا ۔ لدھیانہ میں ساحر کو کا مریڈ’مدن لال’ دویدی’ حفیظ جالندھری ‘  ہرکرشن لال آرٹسٹ’ عجائب چترکار ‘ حمید اختر’ احمد ریاض جیسے مخلص دوستوں کی رفاقت حاصل تھی اور پھر لاہور میں کرشن چندر’ گوپال متل’دیوندر ستیارتھی’ شورش کاشمیری’ اندر کمار گجرال  (سابق وزیر اعظم ہند  )  مہندر ناتھ’ رام پرکاش اشک’ پریم دھون’حفیظ ہوشیارپوری اور پنڈت ہری چند اختر جیسے مشاہیر اور نوجوان ادبا و شعرا کی معیت نصیب ہوئی۔  علاوہ اَزیں ساحر کا تعلق حفیظ جالندھری’ احسان دانش’ عابد علی عابد’ محمد دین تاثیر اور صوفی تبسم سے بھی رہا ۔

  ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کی طلبا تنظیم کے آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن سے بھی ساحر کے  روابط استوار ہوئے۔ اس طرح گویا انہیں اپنے خیالات و جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ مل گیا جو سامراجی استعماریت کے ساتھ ساتھ خود ان کے ماحول کے پیدا کردہ تھے ۔ ساحر نے نہ صرف  جذباتی تقریروں سے کسانوں اور مزدوروں کو انگریزی حکومت کے خلاف آمادہ  پیکار ہونے کا حوصلہ بخشا بلکہ اپنی انقلابی نظموں کے ذریعے عوام کے دلوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کا کام کیا۔ اس طرح وہ بہت جلد بحیثیت سیاسی کارکن گردونواح میں مقبول ہوگئے ۔ ساحر کی کئی نظمیں ضبط بھی ہوئیں اتنی کم عمری میں بحیثیت شاعر اتنی زیادہ مقبولیت بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے لیکن شاعری بہرحال ‘سن و سال’ کی محتاج نہیں ہوتی اور ساحر  بلاشبہ ان چند خوش نصیب لوگوں اور کامیاب شاعروں میں ہیں جن کی شاعری ان کی کم سنی کے باوجود قبول عام کی سَند حاصل کرسکی۔

ساحرنے 1945ء میں حیدرآباد میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پانچویں کل ہند کانفرنس میں لاہور سے بحیثیت مقالہ نگار شرکت کی جس کا موضوع “اردو کی جدید انقلابی  شاعری ” تھا۔ اس سے ساحر ترقی پسندوں کے صف اول کے زمرے میں شامل ہوئے اور یہیں سے ساحرکی رسائی فلمی دنیا تک شہرت  زد خاص عام ہوگئی  پھر ساحر بمبئی چلے گئے۔ ان سے پہلے مہاکوی مدھوک اور سنتوش جیسے نغمہ نگار ہوا کرتے تھے ان لوگوں کے گیت باکس آفس پر کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ ان کے گیتوں میں شاعری کے سوا سب کچھ ہوا کرتا تھا۔ ان کے گیت “میوزک ڈائریکٹروں” کے مرہون منت تھے۔ ساحر ‘اسٹوڈیو’ جاتا تو ‘پروڈیوسر’ ڈائریکٹر احتراماً کرسیوں سے اُٹھ کھڑے ہوتے۔ جب فلم کے گیتوں کی بات چلتی سب یہی کہتے کہ ساحر صاحب آپ برصغیر  ہندو پاک کے عالی مرتبہ شاعر ہیں اور ہم آپ کا اور آپ کی شاعری کا احترام کرتے ہیں بلکہ ہم آپ کے دیرینہ مداح ہیں ۔ ساحر فلمی دنیا کے عظیم ترین اور کامیاب نغمہ نگار ہیں جن کا مقام ومرتبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلند ہوتا جا رہا ہے جو ایک بڑے ادیب کی شناخت بھی ہے۔

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی

مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا  کچھ نہ ملا

جب وہ ‘فلم رائٹرس ایسوسیشن’ کے صدر منتخب ہوئے تو ساحر نے فلمی دنیا کے شاعروں   کے لیے ایک بڑا  کام انجام دیا ۔ وہ یہ کہ  ساحر سے پہلے ریڈیو سے فلمی گانے نشر ہوتے تھے لیکن اناؤنسر’ گلوکار’ و موسیقار’ کا نام نشر کرتا تھا پر ‘نغمہ نگار’ کا نہیں لہذا سامین کو پتا نہیں چلتا تھا کہ آخر خالق نغمہ کون ہے؟ ساحر فلمی دنیا کا وہ شاعر ہے جس نے ‘آل انڈیا ریڈیو’ کے منتظمین سے منوایا کہ موسیقاروں’ گلوکاروں کے نام کے ساتھ نغمہ نگار’ کا نام بھی نشر ہوا کرے اور ان کی یہ بات تسلیم کرلی گئی اور ساتھ ہی فلمی ‘پوسٹروں’ پر بھی ساحر تخلیق کاروں کا نام  درج کروانے میں کامیاب ہوئے ۔ ساحر بمبئی میں رہے تو گلی کوچوں’  کا لجوں’ یونیورسٹیوں میں ساحر ‘ ساحر کی گونج ہونے لگی۔

چھو  لینے دو نازک ہونٹوں کو کچھ اور نہیں ہے جام ہے یہ

قدرت نے ہم کو بخشا ہے وہ سب سے حَسیں انعام ہے یہ

ساحرنے نظمیں بھی کہیں اور غزلیں بھی اورمرثیہ بھی۔  فلمی سطح پر ان اضاف کے علاوه گیت’ بھجن’ حمد’ قصیدے  اور  دوہے بھی۔ ان تمام اضاف میں طبع آزمائی کے باوصف انھوں نے ہیئتی سطح پر کسی طور اجتہاد نہیں کیا بلکہ مروجہ ہیتئوں میں ہی اپنے افکار و نظریات پیش کیے مزید براں ان کی فلمی شاعری کا اپنا ایک مقام  ہے ۔ ساحر کی شاعری جذبے کے خلوص اور احساس کی شدت کے ساتھ ساتھ مضمون آفرینی’ تخیل کی بوقلمونی’ موضوعات کے تنوع اور سادگی و سلاست سے آراستہ ہے اور نہ صرف لب  ولہجہ کے اعتبار سے ہی منفرد ہے بلکہ  انداز بیاں کے لحاظ سے بھی روایتی شاعری سے یکسر مختلف ہے ۔  ساحر کی شاعری ہندوستانی ثقافت کا ایک موروثی انگ ہے وہ اقبالؒ اور فیض کی شعری روایات کے درمیان ایک کڑی کی طرح آویزاں ہیں۔ ان کی شاعری مرصع  سازی ہے جس میں الفاظ نگینوں کی طرح جڑے ہوئے نظر آتے ہیں وہ الفاظ کا انتخاب نہایت موزونیت کے ساتھ کرتے ہیں ساحر کی لفظیات میں عام طور پر فارسی اور ہندی الفاظ کا متوازن امتزاج ملتا ہے۔ ساحر نے نظم اور غزل کے  علیحدہ علیحدہ   علائم استعمال کیے ہیں ۔

                   میں نے جو گِیت تِرے پیار کی خاطر لکھے

                   آج  ان گیتوں کو بازار میں لے آیا   ہوں

                       آج  چاندی  کے  ترازُو  میں  تُلے  گی  ہر  چیز

                     میرے افکار، مِری شاعری، میرا احساس

 ان کی  فلمی شاعری فلمی مزاج پر کھری اُترتی ہے فلمی شاعری پر ساحر کے اثرات  واضح ہیں۔

ساحر کے  اشعار پرتکلف صنعتوں تشبیہوں اور استعاروں سے عاری ہیں زبان انتہائی سہل ہے ۔ یہ ساحر کی  شخصیت کا باطنی  طلسم ہے جس نے اسے عمر بھر تنہا رکھا ۔ ساحر میر  کی  طرح قنوطی نہیں تھا وہ تو اَمن عالم کا بہت بڑا شارح اور ترجمان تھا۔

اس لیے اے شریف انسانو

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے ۔ (  کلیات ساحر)

اس نے فاحشہ عورتوں کو تقدس کا جہیز دینا چاہا۔ اس نے ظلم کے خلاف ایک تیز اور دل دوز چیخ بلند کی ایسی لامتناہی اور مترنم چیخ جس کی بازگشت اَزل   سے  اَبد تک مسلسل ہے ۔ نظم “چکلے”سے دیکھیے یہ شعر :

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اُسے بازار دیا

جب جی    چاہا    مَسلا    کُچلا    جَب   جی     چاہا    دھتکار دیا

یہ شاعری ہی نہیں احتجاج بھی ہے اور ساحر  احتجاج کا شاعر ہے اس کی شاعری کے ہزار پہلو ہیں ۔ اُسے اپنے عمل پر یقین تھا ۔ بلا کا یقین ۔ وہ کہتے ہیں:

                    مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے

                  کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

 ساحر بڑے  خوددار شخص تھے۔ ایک دن کسی فلم ساز نے ساحر اور ‘لتا’ منگیشکر کی موجودگی میں ساحر سے  کہا  ساحر صاحب اگر ‘لتا’ کی آواز نہ ہو تو آپ کے گیت بھی بے جان ہیں ۔ ساحر  چوں کہ ایک خوددار اور ادبی شاعر تھا اسے تاؤ آگیا اس نے فلم ساز اور لتا’کے سامنے حلف اٹھا یا  کہ “جب تک میں ثابت  نہ کر دوں گا کہ اچھی ادبی شاعری لتا’ کی آواز کی محتاج نہیں ہے ۔   لتامنگیشکر میرا ایک بھی گیت نہیں گائے گی” ۔ اس کے بعد کسی بھی فلم کے معاہدے سے قبل یہ بات ضرور ہوتی کے میرا کوئی گیت “لتا”نہیں گائے گی۔

 ساحر کی شاعرانہ مقبولیت روز افزوں تھی ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت  کی کشش بھی بڑھتی گئی۔ ساحر کے مداحوں میں بے شمار لڑکیاں بھی تھیں ساحر  کے بہت سے معاشقے ہوئے پر بدقسمتی سے ہر معاشقہ ناکام ہوا۔ ان کے معاشقوں کےمتعلق بہت ساری روایات ہیں۔ پنجابی زبان کی معروف شاعرہ ‘امریتا پریتم ‘اپنی خودنوشت “رسیدی ٹکٹ” میں اپنے اور ساحر کے عشق کا برملا اظہار کرتی ہیں ساحر کا رویہ جو بھی رہا ہو پر ‘امریتا’ نے انہیں جی جان سے چاہا تھا لکھتی  ہیں:

“بیس اکیس بَرس کی تھی جب اپنے خوابوں کے شہزادے کا چہرا اس دَھرتی پر دیکھا پھر جیسے ہر روز مجھے آگ کے دریا سے گزرنا پڑتا۔۔۔۔”

ایک دوسری جگہ رقم طراز ہیں:

“جس چہرے کی روشنی میں سب سے پہلے دل کی تہوں میں دردجاگتے دیکھا  وہ اس مَذہب کا تھا جس مَذہب کے ماننے والوں کےلیے  گھر میں بَرتن بھی الگ رکھے جاتے ہیں ۔یہی وہ چہرا تھا جس نے میرے اندر انسانیت کو جگایا ۔۔۔۔۔۔”

لتا منگیشکر’ اور سدھا ملہوترا’ کے نام بھی ساحر سے  منسوب رہ چکے ہیں  ‘لتا ‘کے نام نظم بھی لکھی شعر ملاحظہ کیجیے:

                  یوں اچانک تیری آواز کہیں سے آئی

                 جیسے پربت کا جگرچیر کے جھرنا پھوٹے

ندا فاضلی کو ایک انٹرویو  کے دوران سوال کے جواب میں ساحر نے کہا تھا  کہ نہ صرف ان کی شاعری ان کی اپنی زندگی کا عکس اور ان کی اپنی شخصیت کا اظہار ہے۔ بلکہ وہ ‘سچا ادب’ اسی کو کہتے ہیں  جس کا  منبع  لکھنے والے کے ذاتی تجربات و مشاہدات کے سِوا کہیں اور نہ ہو ۔ان  کے اپنے الفاط میں:

” اچھی  شاعری بھلے ہی کسی مخصوص نظریے پر پوری نہ اُترتی ہو لیکن اس سے اس کی عظمت پر کوئی اثر نہیں  پڑتا لیکن  ادیب کو اپنی شخصیت کے ساتھ سچا رہنا چاہیے جو کچھ بھی کہا جائے اس میں ضمیر کی شرکت ضروری ہے ۔” ساحر کے دیوان کے سرورق پر جو شعر رقم ہے ملاحظہ کیجیے:

             دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

               جو    کچھ مجھے دیا ہے وہ  لوٹا رہا ہوں میں

کسی انسان کی شخصیت کی تعمیر وتشکیل اور ذہنی ارتقامیں کم و بیش وراثت اور ماحول دونوں اثر انداز تو ہوتے ہیں لیکن کسی کا حصہ زیادہ ہوتا ہے اور کسی کا کم ۔ابتدائی نشوونما اور مناسب نگہداشت کا نتیجہ امکانات کو بروئے کَار لا کر ایک متُوازن رُخ عَطا کرتا ہے۔ عبدالحئی کو ساحر لدھیانوی بننے میں جن مراحل سے گذرنا پڑا اور جن مشکلوں  کا  سامنا کرنا پڑا وہ ان کی تمام  شخصیت کا محور و مرکز فراہم کر گیا ۔ان کی زندگی ایک خود ساختہ انسان کی مثالی  حکایت ہے جس نے نا مساعد حالات سے ہار نہیں مانی اور خود کو اس طرح منوا کر چھوڑا کہ آج ان کا نام عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

 ساحرکی شاعری کے کمال ا عجاز کو ‘ خواجہ احمد عباس’ کچھ یوں بیان کرتے ہیں “ساحر نے جتنے تجربات شاعری میں کیے وہ دوسروں نے کم ہی کیے ہوں گے ۔انہوں نے سیاسی شاعری کی’ رومانی شاعری’کی نفسیاتی شاعری کی جس میں کسانوں اور مزدوروں کی بغاوت کا اعلان ہے ۔ ایسی بھی شاعری کی ہے جو تخلیقی طور سے پیغمبری کی سرحدوں کو چھو گئی ہے اور ایسی شاعری بھی کی ہے جس میں رنگینی اور شوخی جھلکتی ہے۔”

معروف ادبی شخصیت ‘حمیداختر’ ساحر کے بچپن کے دوست تھے وہ ساحرکے متعلق رقم طراز  ہیں “ساحر میرا بچپن کا دوست تھا اس کی زندگی میں بَڑے بَڑے انقلاب آئے لیکن فن کی حد  تک وہ کبھی لمحے کے لیے بھی  اپنےمسلک سے اِدھر اُدھر نہیں  ہوا۔ تین چار برس کی عمر میں اسے والدہ کے ہمراہ گھر سے نکال دیا گیا ۔”

                          جھوٹ تو قاتل ٹھہرا اس کا کیا

                             سچ نے بھی انسان کا خون بہایا  ہے

اشعار کے بارے میں انکا نظریہ  سمجھنے کی ضرورت ہے وہ ایک ایک شعر کے فنی لوازمات اور جمالیاتی پہلو کے قائل ہیں۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ اُن کا مُخاطب پَڑھا لِکھا اَمیر طبقہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ مزدوروں اور کسانوں سے بھی مخاطب ہیں  ۔ وہ اپنی بات سادہ مزاجی اور سادہ لفظی سے کہنے  کے قائل ہیں جسں سے وہ طبقہ بھی مستفیض ہوسکے جنہیں  علم’ آرٹ اور ادب کے سرچشموں سے بہت دور رکھا ہے ۔ان کے بقول:

” اس کے لیے ادیب و فن کار کو اپنی روایتی بلندی سے نیچے اترنا پڑے گا لیکن سماج کے لیے یہ ضروری ہے “۔ مثلا

        اے رہبر ملک و قوم ذرا

         آنکھیں تو اٹھا  نظریں توملا

          کچھ ہم بھی سنیں ہم کوبھی بتا

          یہ کس کا لہو ہے کون مرا –

علامہ اقبالؒ کی طرح وہ بھی جابرو ظالم طاقتوں سے بہت نالاں تھے۔

                        تم   ہی  تجو یز  صلح  لاتے ہو

                       تم ہی سامنے جنگ بانٹے ہو

 ساحر آج بھی اپنے پیغام کی صورت میں زندہ ہیں کیا ہم ان کے اشعار بھول گئے:

                  جسم کی موت کوئی موت نہیں

  جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مٹ جاتے

ساحر  کے کلام میں تاثیر کی اس قوت کے علاوہ حقیقتوں کا انتقادی طرز اظہار بھی ہے جو دانشوروں سے خراج لیتا ہے ۔فیض’ مجاز’ مخدوم ‘نیز ساحر لدھیانوی ایسے شاعر تھے جنہیں ‘عوامی’ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ساحر کی شاعری کا ایک اہم پہلو اثرات اور رَدوقبول کا بھی ہے ۔ جس طور علامہ اقبالؒ کے فن کی کوئی ایک جہت متعین کرنا دشوار ہے اسی طور ساحر بھی کثیر الجہات ہیں۔ بیک وقت نظم نگا’ر غزل گو’ نغمہ نگار اور بھی بہت کچھ۔

 پیدائش کے دن سے موت کی زد میں ہیں           اس مقتل میں کون ہمیں لے آیا ہے

ساحر  کا عہد سماجی و سیاسی لحاظ سے برطانوی نو آبادیاتی نظام کے معاشی و معاشرتی  اور تہذیبی تسلط اور ہندوستان کے سماجی و تہذیبی اقدار اور سیاسی و اقتصادی بحران و انتشار کا زمانہ تھا جس کے منفی اثرات عوامی زندگی اور طبقاتی روابط  پر بہت شدید تھے ۔ ساحر کی شاعری میں انسانی رشتوں کی اہمیت بہت حد  تک ہے ساحر کا سارا کلام ان کے نظریات و خیالات کا ترجمان ہے۔

 ساحر ہمارے درمیان نہیں رہے ان کا جسمانی وجود موت کی اندھیری گھپاؤں کی نظر ہوگیا۔  لیکن  جب تک سینوں میں معصوم جذبات دل بن کر دھڑکتے  رہیں گے زندگی کی تب و تاب سے لبریز ان کی شاعری ہمارا ساتھ دے  گی۔

ساحر اردو ادب کے کامیاب ترین شاعر ہیں جس کا مقام و مرتبہ آج بھی بلند و بالا ہے ۔آج بھی ساحر کی سحر گری جاری ہے وہ لفظوں کے زندہ  جاوید لکھاری ہیں اور یہ لفظ بھی انہیں مرنے  نہیں دیں گے ان کی کئی  شاہکار نظمیں اور نغمے ہیں جو قدم قدم پر انسان کی ضرورت محسوس ہوتے ہیں ۔ جیسے جنگ کے موضوع پر نظم “پرچھائیاں “امن عالم  کے موضوع پر کما ل کی نظم ہے ۔ “امن اور انقلاب کا سنگم”  میں لکھتے ہیں۔

          جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

        جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

         آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

    شمع جلتی رہے تو بہتر ہے ۔(کلیات ساحر)

 امریتا پریتم کہتی ہیں:

” ساحر کی  نظموں کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گی کیوں کہ ساحر کی شاعری کا مقام لوگوں کی روح اور تاریخ کی رگوں کا حِصہ بن چکا ہے ۔ مجھ پر ساحر کا قرض تھا۔ اس دن سے جب اس نے اپنے مجموعہ کلام پر دیباچہ لکھنے کو کہا اور مجھ سے لکھا نہیں گیا۔۔۔۔۔”

ساحر  سماجی برائیوں کو ختم کرنے کا جو عزم لے کر چلے تھے اس پر آخیر دم تک قائم رہے ۔ ان کی شاعری کا مرکز عوام تھی اور عوام کی خوش حالی امن عالم کی بحالی اور سماجی انصاف کے لیے عمر بھرسرگرداں رہے۔ یہی تجربات و حوادث ساحر کی  شعری و ادبی شخصیت کی تکمیل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

لوگ بچھڑ جاتے ہیں مگر زندگی کی شاہراہوں پر اپنی جدوجہد کے ایسے تابندہ نقوش  اور ایسے ایسے سنِگ میل چُھوڑ جاتے ہیں جن سے ان کی داستانِ زندگی مرتب کی جاسکتی ہے ۔ان کے افعال وکردار کے ماضی وحال اور ان کی  زندگی کے مختلف ادوار کو پَرکھا اور جانچا جاسکتا ہے۔ ان کے کارناموں اور  دلچسپیوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ زندگی بے ثبات میں مشہور ومعروف  ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جنہوں نے ان کو ایک مستقل حیات بخش دی ۔ان کی یاد’ ان کا ذکر اَبدی ہو گیا۔ وہ اس جہاں سے رخصت ہو گئے۔ مگر ان کی تحریریں  ان کی زبان بن گئیں ۔ جن کے واسطے سے وہ آنے والی نسلوں سے ہمیشہ ہم کلام رہیں گے۔ لوگ یہ بے صوت آواز میں سنتے رہیں گے ان کے الفاظ کی صدا  ‘فضائے دہر’  میں گونجتی رہے گی اور ان آوازوں سے ،ان صداؤں کے حسن سے، جذبے کی صداقت سے زندگی کے ان گنت گوشوں میں رہنمائی حاصل کرتےرہیں گے۔

افسوس ! ساحر لدھیانوی 25 اکتوبر ٫1980 کو صرف 59 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اور ہر دم کے لیے خاموش ہو گئے۔لیکن سچائی اور فن کار کبھی نہیں مرتا ۔ وہ ہر وقت ہر جگہ زندہ رہتا ہے ۔ ساحر لدھیانوی – اپنے گیتوں نظموں اور غزلوں کی جھنکاروں سے ہمارے درمیان آج بھی  موجود ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

   ساگر سے ابھری لہر ہوں میں ساگر میں پھر کھو جاؤں گا

   مٹی کی روح کا سپنا ہوں مٹی میں پھر سوجاؤں گا

****

Leave a Reply