ڈاکٹر روحی سلطان
گیسٹ لیکچرر
شعبہٴ اردو کشمیر یونیورسٹی ، سری نگر
سب رس اور کربل کتھا شاہکار کا مقام کیوں رکھتی ہے
اردونثرکے تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس کے ابتدائی نقوش مختصر اور مربوط جملوں اور فقروں کی شکل میں مختلف صوفیائے کرام کے ملفوظات میں جلوہ گر ہوتے ہیں ۔ملفوظات کے ان مجموعوں میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی،بابا فرید گنج شکر ،شیخ حمیدالدین ناگوری ،شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلی،خواجہ بندہ نواز گیسودراز اور شاہ قطب عالم وغیرہ صوفیائے کرام کے اردو فقرے نقل کئے گئے ہیں یہی ملفوظات اردو نثر کے پہلے پائدان متعین کئے گئے ہیں۔جن سے پھر مستقبل کے نثری اصناف کو مستحکم کیا گیا ہے۔لیکن اردو ادب کی پہلی نثری تصنیف اور اس کے مصنف کے تعین مختلف محققوں نے سید جہانگیر اشرف سمنانی ،شیخ عین الدین گنج العلم ،خواجہ سید محمد حسینی بندہ نواز گیسودرازاور شاہ میراں جی شمس العشاق کے نام قلم بند کئے ہیں ۔مگر ان بزرگانِ دین سے منصوب رسائل یا تو نایاب ہیں یا بعد میں کسی دوسرے مصنف کی تصنیف ثابت ہوئی۔لیکن محققوں کی رائے کے مطابق اردو کے اہم شہ پاروں میں جس کتاب کو اردو کا اولین نمونہ قبول کیا گیا ہے وہ ہے ملا وجہی کی لکھی ہوئی تصنیف ’’سب رس‘‘ ہے۔سب رس ملا وجہی کا ایک شاہ کار اور اردو نثر ی ادب کا اولین نمونہ قبول کیا گیا ہے۔اس تصنیف سے پہلے کی ساری اردو نثری تصانیف مذہبی اور صوفیانہ موضوعات کی تھیںلیکن سب رس ان ابتدائی تصانیف میں وہ واحد تصنیف ہے جو خالص ادبی غیر مذہبی نثر کا مکمل نمونہ ہے۔
وجہی نے سب رس ۱۶۳۵ء میں عبداللہ قطب شاہ کی فرمائش پر تحریر کی لیکن اس میں بیا ن کی ہوئی داستان وجہی کی تخلیق نہیں بلکہ محمد یحیٰ ابنِ سبیک متاحی نیشاپوری کی مثنوی ’’دستور عشاق‘‘کے فارسی نثری خلاصے (قصۂ حسن و دل)سے ماخوذ ہے۔متاحی نے خود اس موضوع کو ایک سنسکرت ناٹک ’’پربود چندر ودے‘‘سے لیا تھا جس کا مصنف کرشن مشر مگدھ تھاجو بہار میں رہتا تھا ۔متاحی نے موضوع کو اس ناٹک سے ماخوذ کر کے اس میں کئی تبدیلیاں کر کے اپنی مثنوی کو تحریر کیا جب کہ وجہی کی اپنی داستان کے واقعات متاحی ؔکی مثنوی سے لے کر اس میں حزف و اضافہ کر کے سب رس کی شکل دی،سب رس کو اس کے مخصوص اسلوب کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔اس کی مقفیٰ و مسجع عبارتیں پر تکلف نثر پر آہنگ اور مترنم فقرے ،تشبیہات و استعارات سے عبارت کے حسن میں اضافے کی کوشش اور اس کی رمزیت و تمثیلی پیشکش نے اسے اردو نثر کا ایک قابلِ فخر کارنامہ بنا کر پیش کیا ۔ڑاکٹر جاوید وششٹ نے اپنے ایک مضمون سے وجہی کے طرزِ تحریر کا نمونہ پیش کیا ہے:
’’القصہ قضا رایوں ہوا جس وقت کہ نظر رخسار کے گلزار نظاراکرتا تھا ۔دل پارہ پارہ کرتا تھا ،خدا کیا کرے گاکراستخارہ کرتا تھا۔غمزأنرگس زار میں ،اس عشویاںکے گلزار میں مست پھرتا تھا،ولے شعور دھرتا تھا ،سب ٹھار نظر کرتا تھا۔نظر کوںنظر سوں دیکھیا،غمزانین بچھانیا، کوئی بیگانہ ہے۔کر جانیا، ہڑبڑا ٹھیاں اپنا لہوآپی گٹھیا۔ہورلھوااس پر اچایا،کہ توکون ہے کیوں اس باغ میں آیا۔غمزا مست،غصے ہوں ہمدست۔نظر کوں مارنے خاطر نظر کی انکھیاں باندیا۔تن پرکے کپڑے اُتاریا۔منگتا تھاکہ مارے ولے نیں ماریا کچھ دل میں بچاریا نہن پن میں نظر ہور۔غمزے کی ماں نے کچھ فکر کی تھیدونوں کوں دولعل دی،بازوکوں باندنے مہر و محبت سوں ناندے۔دنیا کوں کیاپتیاناہے۔کہ ایک وقت ہے زمانہ ہے۔کچھ ہوئے یو ایکس کوں ایک پچھانیا،جانیاکہ یو تواپنا بھائی ہے۔اپس میں ہوراس میں کیاجدائی ہے۔بھوت رویا،گلے لگایا،بھوت عذرخواہی کیاـــــــــ‘‘۔
(سب رس کا قصہ حسن ودل ص ۷۶ ۔۷۵ جاوید وششٹ)
ظاہری اور باطنی حسن کا مناسب اور موزون امتزج ادب پارے کی عظمت و رفعت کا ضامن ہوتااس لئے محض قافیہ بندی اور مقفیٰ و مسجع عبارتوں کی ظاہری چمک دمک اور مضوعی آرائش کسی نثر پارے کو ادبی آسمان کی بلندیوں تک نہیں پہنچا سکتی بلکہ موضوعی معنویت اور تہہ داری اور اس کا آفاقی پہلو اسے عظمت ورفعت بخشتی ہے۔سب رس اس اعتبار سے قدیم ادب کا ایک لازوال تحفہ ہے۔اس میں اکثر جملے ہم قافیہ ہیں جن کی عبارت میں اس قدر روانی ہے کہ کہیں کہالت یا بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا ۔اس کی مقفیٰ صورت ایک خاص حسن اور ادبی چاشنی پیدا کرتی ہے۔’’سب رس‘‘ کی ایک اور صفت اس کے انشا ئیہ نما بیانات ہیں ۔وجہی نے اس داستان کے درمیان عشق ،عقل ،دل اور حسن جیسے موضوعات پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔اس کی یہ تقریریں اردو میں انشائیے کے اورلین نقوش کی حیثیت بھی رکھتے ہیں ۔’’سب رس‘‘کی وجہ سے ہی وجہی نے اردو نثر کو فارسی نثر کی سطح پر لانے کی کوشش بھی کی ہے ۔اس کی بدولت اردو نثر ایک نئے ادبی اسلوب سے آشنا ہوئی ۔وجہی کا یہ کارنامہ اردو نثر کے ارتقاء میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
وجہی نے ’’سب رس ‘‘ میں بہت سی جگہوں پر معاشرے کی مختلف عورتوں کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ ملاوجہی کے دور کا معاشرہ محض مردوں کا معاشرہ نہیں تھا۔ بلکہ اس میں عورتیں بھی اہم رول ادا کرتی تھیں ۔جہاں تک بادشاہوں کی تعریف و توصیف کا سوال ہے تو ملا وجہی کا دور خالص شخصی حکومتوں کا دور تھا اس لئے انکے دربار سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بادشاہوں کی تعریف کرنا ایک یقینی بات تھی ۔وجہی نے انشا پردازی کے جوہر دکھاتے ہوئے ’’سب رس‘‘ میں اُس دور کے رہن سہن ،معاشرہ ،رسم و رواج اور عادات و اطوار کی تصویر کشی بھی کی گئی ہے۔سب رس کابغور مطالعہ کرنے سے یہ بات مکمل طورسے واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں اپنے دور کی چلتی پھرتی زندگی کی جھلک نظر آتی ہے۔وجہی نے فرضی باتوں پر توجہ کے بجائے اُسی دنیا کی باتیں کی ہیں جس دنیا میں وہ رہتے تھے ۔بادشا ہ بھی ایک انسان ہی ہوتا ہے۔ ہر انسان کی اپنی اپنی سطح کی مجبوریاں ہوتی ہیں ،الگ الگ فرائض ہوتے ہیں اور ان فرائض کو نبھانا بھی ضروری ہوتا ہے ۔انہی سب باتوں کو ملحوظِ نظررکھتے ہوئے وجہی نے اپنی داستان سب رس میں قلمبند کیا ہے ۔
’’سب رس‘‘ اردو اسلوب کی ترقی کی ایک اہم منزل ہے۔اس سے پہلے اردو زبان محض اظہار و مطالب کا کام کرتی تھی وجہی نے ہی ادبی چاشنی پیدا کی ۔وجہی کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ فارسی اسلوب کو اس طرح اردو نثر میں ڈھال لیتا ہے کہ ادبی نثر نہ صرف نئے اسلوب سے آشنا ہو جاتی ہے بلکہ یہ اسلوب آئندہ دور کے نثر نگاروں کے لئے بھی ایک معیار بن جاتا ہے ۔
زبان و بیان کی تبدیلی کے اعتبار سے ’’سب رس ‘‘ اردو نثر کی تاریخ میں ایک واضح اور اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔سب رس کی زبان آج سے تین سو سال پہلے کی زبان ہے اور وہ بھی دکن کی ۔ایسے بہت سے لفظ اور محاورات بھی اس میں آئے ہیں جو کہ اب ترک کئے گئے ہیں اور خود بھی اہلِ دکن نہیں بولتے ۔عربی اور فارسی الفا ظ کے ساتھ ساتھ وجہی نے ہندی الفاظ بھی کثرت سے استعمال کئے ہیں ۔بعض محاورات تو وجہی نے آج سے تین سو سال پہلے بالکل اسی طرح استعمال کیے ہیں جس طرح وہ آج استعمال کرتے ہیں ۔مثلاً شان نہ گمان ،خالہ کا گھر، کہاں گنگا تیلی کہاں گنگا بھوج وغیرہ وغیرہ ۔
’’سب رس ‘‘کی طرز بول چال سے قریب تو ہے لیکن اردو زبان و ادب میں اس کی بول چال اور تحریر میں میں نسبتاً فرق ہے۔سب رس کی لسانی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ عربی فارسی الفاظ کو بالعموم ’’ہ‘‘ کو ’’الف ‘‘ سے بدل دیا گیا ہے جیسے بندا(بندہ )تازا (تازہ ) ذخیرا (ذخیرہ) مزا (مزہ) قطرا(قطرہ) ۔
۲۔ عربی ’’ہ ‘‘ اور ’’ع‘‘کو بھی الف بنا دیا گیا ہے ۔جیسے جما(جمع) نفا (نفع) منا (منع)وغیرہکئی الفاظ میں ہائے مخفی کا غیر ضروری اضافہ بھی کر دیا گیا ہے ۔جیسے آنچہ (آنچ ) پانچ(پانچ) یونچ (یوں ہی ) ووچہ ( وہی ) ہیچہ (احمق ) اور رچہ (مزہ) وغیرہ ۔
۳۔ دکنی زبان میں ہائے اور دو چشمی میں کوئی امتیاز نہیں رکھا گیا ہے چناچہ بعض اوقات ایک ہی لفظ دو طرح لکھا ہوا ملتاہے۔مثلاً بھار ،بہار (باہر )، بہوت، بھوت (بہت)، لہوا، لھوا(لوہا)، کدھیں، کدیں (کبھی)وغیرہ ۔ ان سب باتوں کو ذہن میں رکھ کر’’سب رس ‘‘ کے مطالعے میں آسانی ہوتی ہے ۔
۵۔ ـ’’ی ‘‘اور ’’ے ‘‘ کے استعمال میں بھی کوئی زیادہ فرق نہیں ۔اس بے ضابطگی کی بنا پر بعض اوقات ’’سب رس‘‘ کے الفاظ کی جنس کا پتہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔جیسے’’اناں ‘‘بھیمعشوقیت’’کے‘‘،کی کمالیت کا مقام ہے اس کے(کی ) مشغولیت میں خلل بھاوے گا،انالحق اس (کے،کی )ہستی کا اُبال تھا۔جو لگن بشریت اس میں لگن اناالحق کہنے (کے ،کی ) مُشاقی ہے۔
۶۔ بعض الفاظ ٹکڑے ٹکڑے کر کے لکھے گئے ہیں ۔جیسے دس آوے (دساوے)،بے نظیر آئے۔اُٹھ تے(اُٹھتے) وغیرہ۔
۷۔ ’’سب رس کے بہت سے الفاظ اردو زبان کی ہائے لٹکن ’’،‘‘ غائب ہے۔جیسے کیں (کہیں ) ،نیں ( نہیں )،کان (کہاں )،جاں (جہاں ) ،واں (وہاں ) ،تاں (تہاں ) موں (منہ)،جاگا(جگہ)وغیرہ ۔
۸۔ بعض الفاظ کی کئی شکلیں ہیں ۔جیسے ’’ایک‘‘اور ’’ائیک‘‘،’’ناؤں ‘‘ اور نانوں وغیرہ
اس طرح کی بہت ساری اور خصوصیات ہیں ’’سب رس ‘‘ کی جن کی بنا پر ملا وجہی کی اس تصنیف نے سنگِ میل قائم کی ہے۔
اردو ادب کا دوسرا شہہ پارہ ’’کربل کتھا‘‘ ہے جو فضل علی فضلی کی تصنیف ہے۔فضلی نے یہ تصنیف ۳۳۔۱۷۳۲ء میں لکھی ہے اور ۴۷۔۱۷۴۶ء میں اس پر نظر ثانی کی۔اس تصنیف کا دوسری نام ’’دہ مجلس ‘‘ بھی ہے جس کا پہلا نایاب نسخہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ٹیوبن گن یونیورسٹی کے کتب خانے سے دریافت ہوا ۔جس کے بارے میںخواجہ احمد فاروقی کربل کتھا کے مقدمے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں :
’’کربل کتھا یا دہ مجلس کا یہ نادر اور نایاب نسخہ مجھے ذخیرہ اسپرنگر سے دستیاب ہو ا ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے دوران برلن سے ٹیوبن گن یونیورسٹی کے کتب خانے میں منتقل ہو گیا تھا ۔جہاں تک میرا علم ہے اس کا کوئی اور نسخہ دنیا میں موجود نہیں ۔مخطوطات فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی قلمی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دہ مجلس کا ایک نسخہ اس کالج کے کتب خانے کی زینت تھا۔لیکن اب نا پید ہے۔ایک نسخہ مولوی کریم صاحب طبقاالشعرا کے پاس تھامگر اس کا بھی پتا نہیں ‘‘۔
(کربل کتھا۔مرتبہ خواجہ احمد فاروقی )
جہاں سب رس کو جنوبی ہندوستان میں پہلی باقاعدہ نثری تصنیف کی حیثیت حاصل ہے وہیں کربل کتھا کو شمالی ہندوستان کی پہلی باقاعدہ اردو مربوط نثری تصنیف کا شرف حاصل ہے۔
کربل کتھا فضلی کی اہم تصنیف ہے۔یہ ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی تصنیف روضتہ الشہدا کا آزاد اردو ترجمہ ہے۔اس کی تالیف کا سبب یہ ہے کہ شرف علی خاں کے گھر محرم میںمجالیسِ عزا منعقد ہوتی تھیں جن میں ملا حسین واعظ کاشفی کی روضتہ الشہدا پڑھی جاتی تھی لیکن یہ فارسی زبان میں ہونے کی وجہ سے اپنے معنی اور مطالب واضح کرنے میں پوری نہیں اترتی تھی چناچہ عورتوں کی فرمائش پر فضلی نے اسے آسان اردو میں منتقل کیا۔عورتوں کو اس کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔اس کے پر سوز فقروں پر انہیں رونا نہیں آتا تھا ان خواتین کا اصرار تھا کہ کوئی صاحب ِ شعور روضتہ الشہدا کا ترجمہ عام فہم زبان میں کرے تاکہ اس کتاب کے بیانات ان کی سمجھ میں آئیں اور انہیں سن کر انہیں رونا آئے ۔خواتین کی فرمائش پر فضلی نے اس
کام کا بیڑا اٹھایااور روضتہ الشہدا کا ترجمہ کیا جس کا نام کربل کتھا رکھا ۔جس کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں :
’’باعث تصنیف اس نسخہ مسودہ کا کہ ہر حرف اس کا ایک گلدستہ بوستان ولایت کا ہے ۔موسوم بہ ’’کربل کتھا‘‘ اس سبب ہوا کہ بندہ پر تقصیر حسب الارشاد اوس قلبہ گاہ کے خلص’’روضتہ الشہدا‘‘ کا سو ناتھا لیکن معنی اس کے نساء عورت کی سمجھ میں نہ آتے تھے اور فقرات پر سوزوگداز اس کتاب مذکورہ کے صد صیف و صد ہزار افسو س جو ہم کم نصیب عبارت فارسی نہیں سمجھتے اور رونے کے ثو اب اسے بے نصیب رہتے ہیں ۔ایسا کوئی صاحب ِ شعور ہوے کہ کسی طرح من و عن ہمیں سمجھاوے اور ہم سے جیسے بے سمجھو ں کو سمجھا کر رلاوے مجھ احقر کی خاطر میں گزا کہ اگر ترجمہ اس کتاب کا برنگینی عبارت حسن استعارات ہندی قریب الفہم عامۂ مومنین و مومنات کیجئے تو بموجب اس کلام با نظام کے بڑا ثواب یا صواب لیجیے‘‘۔
اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ کربل کتھا کی تصنیف خالص مذہبی ضرورت کے تحت ظہور میں آئی تھی ۔ادب کی ترقی اور نثر کی ترویج اس کا اصل مدعا نہ تھا پھر بھی اس نثری نمونے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ادبی نثر کے ابتدائی نقوش فضلی کی کربل کتھا میں بھی ملتے ہیں ۔فضلی نے جس مقصد کے لئے یہ کتاب تالیف کی ہے ایک تو یہ کتاب اس مقصد کے لئے کھر ا اترتی ہے اور اہلِ مجلس کو متاثر کر کے انہیں رلانے کی فضا قائم کرتی ہے اور دوسرا اردو نثر ی ادب کو شمالی ہند میں ارتقائی سفر پر گامزن کر دیا ۔فضلی نے اس کتاب میں لفظوں کا وہ ناتا جوڑا ہے کہ ماتمی مجلس کے علاوہ اردو ادب کی ہر مجلس کی خواہش پوری ہو گی جو روضتہ الشہدسے نہ ہو پائی تھی اس کے جملوں کی رنگینی جذبات کو ابھارنے اور ماحول کو سوگوار بنانے میں کوئی کمی باقی نہ رکھتے تھے۔واقعات ایسے پر سوز انداز میں بیان ہوتے تھے کہ مذہبی جوش بڑھ کر جذباتی ہلچل مچا کر پتھر دل بھی پگلنے لگے تھے اور انسان کے جذبات اور احساسات کو اہلِ مجلس میں اپنے مقصد تک پذیرائی حاصل ہوتی تھی ۔فضلی نے اس کتاب میں سادہ لفظوں اور روزمرہ محاوروں سے کام لے کر عبارت میں بے ساختگی اور بے تکلفی پیدا کی ہے اور دوسری طرف آس پڑوس کے فارسی جملوں کو بھی استعمال کرتے ہیں جس سے عبارت میں توازن اور اعتدال پیدا ہوتا ہے ۔اردو اور فارسی کے ملے جلے توازن سے عبارت میں ایک منفر توازن پیدا ہوا ہے جو اس کتاب کی مقبولیت کی وجہ بنی اور یہی خصوصیات اس کتاب کو اردو نثر کی تاریخ میں ایک اہم مقام فراہم کرتی ہے۔
فضلی کے سامنے اگرچہ اس وقت کسی بھی قسم کی کوئی اردو نثر ی کتاب بہ نمونہ موجود نہ تھا لیکن اس نے پہلے تخلیقی کاوشوں کی بدولت اس کتاب کو صاف سادہ اور سلجھا ہو ا اسلوب عطا کر کے اردو نثری ادب کو زینت بخشی ۔اس کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ فضلی نے روضتہ الشہدا کا لفظی ترجمہ نہیں کیا بلکہ اپنی محنت اور کاوشوں سے اس میں اضافے بھی کئے
اور ترمیمات بھی جس کی وجہ سے کربل کتھا translationنہیں بلکہ تخلیق کردہ تصنیف معلوم ہوتی ہے ۔ڈاکٹر گوپی چند نارگ اور خلیق انجم لکھتے ہیں :
’’ادبی نقطہ نظر سے اس کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں ۔لیکن اردو نثر کی ابتدا اور اردو زبان کے ارتقا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب نعمت عظمی کا درجہ رکھتی ہے کربل کتھا میں اکثر مقام پر نثر رواں اور سلیس ہے غالب اس لئے فضلی نے واعظ کاشفی کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے لیکن جہاں کہیں وہ اصل متن کے پابند ہوئے ہیں عبارت میں سلاست اور روانی نہیں رہتی بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ لفظی ترجمہ کیا گیا ہے۔‘‘
کربل کتھا کا موضوع اگرچہ واقعاتِ کربلا ہے لیکن اس کی کہانی میں پیش کیا گیا سارا ماحول ہندوستانی ہے۔واقعات میں ہندوستانی رہن سہن ،رسم و رواج ،لباس ،زیورات اور ہندوستانی تہذیب کا رنگ نمایاں ہے۔اپنی ان ساری خوبیوں اور خصوصیات کی بنا پر کربل کتھا اردو نثر کے ارتقا میں اہمیت کی حامل ہے۔
کربل کتھا کی لسانی اہمیت :۔۱۔اردو اپنی اصل ساخت میں ایک ہند آر یائی زبان ہے ۔اس بنا پر ’’کربل کتھا ‘‘ میں سنسکرت الفاظ مشتقات یا ان کی ارتقائی شکلوں یا پھر ہندی لفظوں کی موجودگی ایک قدرتی بات ہے ۔فضلی نے پنجابی زبان کے الفاط اور لہجہ بھی استعمال کیا ہے۔نمونے کے طور پر چند امثال ملاحظہ ہیں ــ:۔
نال،چنگا ،سوانی،چوئے ،کلھ،بھوئین ،ایانی کاھلاوغیرہ۔
اسی بنا پر ڈاکٹر مختارالدین احمدجس نے ’’کربل کتھا ‘‘ کو از سر نو دریافت کیا ہے ان کے مطابق فضلی ’’پنجابی زبان سے ماہرانہ واقفیت‘‘اور اس کے محاورے اور لہجے پر ان کی حاکمانہ دسترس کے ثبوت فراہم کر کے فضلی کی تصنیف کا رشتہ پنجابی کے حلقہ ٔ نفوز واثر سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس سے یہ نتیجہ بھی اخذکیا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کی ارتقائی منزلوں پر پنجابی زبان کا عنصر موجود تھا ۔
۲۔فضلی کی تصنیف ’’کربل کتھا‘‘ فارسی کتاب کا ترجمہ ہے تو اس لئے فارسی کی بیشتر ترکیبیں اور الفاظ کثرت سے استعمال کیے گئے ہیں لیکن بعض جگہ فارسی اور ہندی زبان کے لفظوں کو ملا کر ترکیبیں بنائی گئیں ہیں ۔
۳۔فضلی کی تصنیف کو تالیف کرنے کے زمانے میں اردو زبان لکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا ۔اس لئے الفاظ کے ہجوں اور املا کا معیار بھی قائم نہ ہوا تھا اس لئے کچھ الفا ظ ایک جگہ ایک طریقے سے تو دوسر ی جگہ دوسرے طریقے سے۔ جیسے وہ،وو۔ونہیں ،وونہیں ۔معاً کو معن لکھا ہے۔کچھ الفاظ کو جوڑ کر اور کچھ کوٹکڑے ٹکڑے کر کے لکھنے کی صورت کی مثالیں پیش ہیں :۔
بیٹھ تی،پہن تی ،چاٹ تی ۔
۴۔لہجہ بھی مختلف تھا جیسے کہ بضد کو بجد ۔اسی طرح سے جو الفاظ آج کے زمانے میں ’س‘ سے لکھے جاتے ہیں کربل کتھا میں ’س‘ کے بجائے ’ث ‘ استعمال کیا گیا ہے
۵۔عربی زبان چونکہ پہلے سے ہی مروج ہونے کے سبب ترقی کی منزلیں طے کر چکی تھی اس لئے اس زبان کے الفاظ کی جمع الجمع بنانے کا مسٔلہ سو سال بعد تک ویسے ہی قائم رہا مثلاًابراران ،علاوں ،بلغاوں اور اصحابوں وغیرہ
۶۔تذکیرو تانیث کا مسٔلہ بھی غیر متعین ہے
اردو کی قدیم داستانوں میں بعض داستانیں ایسی ہیں جو اپنی لسانی،تخلیقی،موضوعاتی خوبیوں اور مخصوص اسلوب کی بنا پر اہم شاہکار تصور کی جاتی ہے ان میں سب رس اور کربل کتھا خاص طور سے شامل ہیں ۔جن کی عظمت آج بھی اتنی اہم ہے جتنی اس کے اپنے زمانے جس میں وہ لکھی گئی تھیں۔ان داستانوں کوزمانے اور زمانے کے ساتھ بدلتی ہوئی زندگی اور ادب کی قدریں بھی کم نہ کر سکی۔