You are currently viewing ست رنگی گلاب

ست رنگی گلاب

سلیم سرور

ست رنگی گلاب

گاڑی کے پاور ہارن سے وہ ایک دو بار لڑکھڑائی اور پھر دائیں  جانب فٹ پاتھ سے کوئی ڈیڑھ فٹ نیچے کی طرف جاگری۔پیچھے پیچھے چلنے والے ادھیڑ عمر شخص نے لڑکی کی بیساکھی سنبھالی اور لڑکی کو ایک بازو سے پکڑ کرپھر بیساکھی کے ساتھ جوڑدیا۔’’ابو کتابوں والا شاپر  آپ کے پاس ہے؟‘‘۔

’’جی بیٹا وہ میرے پاس محفوظ ہے،بس آپ خود کو سنبھالیں’’۔‘‘ابو خود بہ خود گرنے سے گرچہ چوٹ لگتی ہے مگر سنبھلنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی‘‘۔

’’بیٹا !تمھیں اس جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت تو نہیں مگر تم ہماری مانتی کہاں ہو‘‘۔ابو اٹھارہ سال سےصرف آپ کی ہی ہر بات مانتی آرہی ہوں’’۔بس سٹاپ  سے چار میٹر پیچھے سے ہی دوڑ لگاکرلڑکی کا باپ الوداعی کلمات کہتے ہوئے دفتر کی بس میں سوار ہوگیا۔

         لڑکی  پیدائشی معذور نہیں لگتی تھی شاید کسی چوٹ کی وجہ سے ایک ٹانگ پر پلستر لگوابیٹھی تھی۔چہرے  مہرے سے کسی جامعہ کی طالبہ لگ رہی تھی۔لڑکی کی دلیری دیکھ کر میں بھی متجسس ہوگیا۔میرے کان میں پڑنے والے پہلے جملے نے  ہی مجھے اس کتاب کے میسر ابواب کی ورق گردانی کرنے پر ابھارا۔تنے سے شاخیں بھاری ہوجائیں تو ان کا زمین پر آگرنا طے ہوتا ہے۔میں بھی کسی حادثے کے انتظار میں رمکنے لگا۔

         فٹ  پاتھ سے مغرب کی  طرف لڑکی کے داہنے ہاتھ پر چھے ،سات میٹر کے فاصلے پرپراگندہ حال بزرگ شیشم کے درخت کے نیچے  نیم خفتگی کے  عالم میں لیٹے ہوئے تھے۔نورین  نیچے کی طرف مڑ کر اس بزرگ کے پاس جاکھڑی ہوئی،بزرگ نے ذرا سی آنکھیں کھولیں تو نورین نے اپنا لنچ بکس کھولتے ہوئے ٹوش بزرگ کی طرف بڑھا دیے۔بزرگ نے نیم وا آنکھوں سے ایک بار آسمان کی طرف دیکھا اور دوسری بار زمین پر موجود آسمانی عکس کودیکھا۔‘‘بیٹا! کائنات چل رہی ہے صرف آپ جیسے پاک باطن لوگوں کی وجہ سے’’۔ ‘‘بابا جی کائنات رک بھی سکتی ہے؟’’۔بیٹا! کائنات رک تو نہیں سکتی جب تک اس کا چکر پورا نہیں ہوجاتا مگر چکر کے ختم ہونے سے پہلے بہت سے لوگوں کے خدشات  شروع ہوچکے ہیں’’۔

‘‘بابا جی! خدشات کیسے؟’’۔

‘‘بیٹا! اب آپ کو وہ کام کرنا چاہیے جس کے لیے آپ گھر سے نکلی ہوئی ہیں’’۔‘‘میں گھر سے صرف  اس لیے نکلی تھی کہ خود کو جان سکوں اور خودسے متعلقہ اور ملحقہ اشکالات کوپہچان سکوں’’۔بابا جی نے بچی کے ہاتھ سے ٹوش لے کر  کھانا شروع کردیا،بچی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیشم کے گرد بنی ہوئی اینٹوں کی برجی کا سہارا لے کر بیٹھ گئی۔ٹوش کا پہلا نوالہ لیتے ہوئے باباجی بولے:‘‘بیٹا! آپ کے خیالات موجود ہ جہاں کے لوگوں کی خواتین کے بالکل برعکس ہیں’’۔‘‘میں کچھ سمجھی نہیں’’۔دوسرا نوالہ لیتے ہوئے‘‘بیٹا! اس مادی دور کی ہر خاتون مفادات  کی کشتی میں سوار ہوکر مرد کو ملاح بناتی ہےاور مرداپنے مہرے سنوارکر خاتون  کے دامن سے جڑا ہواہے ۔آپ کی سوچ جان کر مجھے بھی حیرانی ہوئی کہ آپ خود کوجاننا چاہتی ہیں’’۔‘‘کیا میں خود کو نہیں جان سکتی؟’’۔بابا جی نے لمبا سا قہقہ لگایا اور چاروں اور گردن گماکرتیسرا نوالہ لیتے ہوئے:‘‘بیٹا! تم جان سکتی ہو،یہ کوئی مشکل کام نہیں اور یہ کوئی ایسا عجوبہ بھی نہیں جوسر نہ ہوسکے مگر مجھے حیرانی اس بات پر ہوئی کہ مرد کے لیے خود کو خود سے ٹٹولنا اس لیے آسان ہے کہ وہ خود سےخدا کا متلاشی ہوتا ہے اور عورت کے لیے مشکل اس لیے ہے کہ وہ خود سے خود کی متلاشی ہوتی ہے’’۔‘‘بابا جی  ، میں آپ کی بات سمجھی نہیں کیونکہ خدا کی تلاش تو ہرانسان کو ہوتی ہے پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ عورت کو صرف خود کی تلاش ہوتی ہے’’۔

         باباجی اٹھ کر کھڑے ہوگئے،مشرق سے نمودار ہونے والے سنہرے آتشی پارے کی طرف دیکھ کر مبہم سی مسکراہٹ چہرے پر ظاہر کی جس کا تاثر گال اور بکھرے ہوئے ہونٹ دے رہے تھے۔‘‘بیٹا!آپ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتی کیونکہ یہ وہ باتیں   ہیں جن کے لیے  خود کووقف کرنا پڑتا ہے’’۔‘‘بابا جی آپ کی باتیں جتنی اہم ہیں اتنی ہی مشکل ہیں جو ہر مبتدی کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں’’۔‘‘اس بات کا مجھے بھی ادراک ہے،جو آپ کہہ رہی ہیں وہ آپ کا دل نہیں  بلکہ دماغ کہہ رہا ہے۔یہ بات میں نے اپنی گفتگوکے پہلے جملے میں ہی کہہ دی تھی،کسی بھی  خاتون کے چہرے کا غازہ،ہونٹوں کی لعلین،بالوں کی بناوٹ اور لباس کی سجاوٹ کبھی بھی اپنی ذات کو خوش کرنے یاخودکودکھانے کےلیے نہیں ہوتی بلکہ آئینہ بھی دوسروں کی نظر سے دیکھتی ہے’’۔‘‘باباجی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ: خواتین اپنی ذات کو نہیں  سمجھ سکتیں؟’’۔‘‘میرا مطلب کم از کم یہ نہیں تھا کیونکہ یہ مخلوق اتنی ناسمجھ نہیں کہ اسے کچھ سمجھ نہ آسکے بس ضرورت اتنی سی ہے کہ جمع اور نفی کے کچھ اصولوں میں توازن پیدا کرلے۔بابا جی نے نیم دراز ہوکر چوتھا نوالہ لیا۔بیٹا وہ دیکھو‘‘سفید شلوار ،سرخ قمیص اورسیاہ ڈوپٹے والی لڑکی مسلم ماڈل کالج کی  ہے اور وہ نوجوان خاکی رنگ کی شرٹ اور کالی پتلون میں ملبوس کسی دوسرے ادارے سے تعلق رکھتا ہے اوریہاں سے روزانہ دونوں اپنی اپنی بسوں پر سوار ہوکرمختلف مقامات پر جانے کے باوجود بھی یکساں مقام پر دن گزارتے ہیں۔اس  کی کوئی بھی ٹھوس وجہ نہیں بس تھوڑا ساوقت ساتھ گزرا اور خود سپردگی تک بات آن پہنچی’’۔لڑکی کی حیرانی دیدنی تھی جب وہ  اگلی چند ساعتوں میں کئی بار ایک ساتھ اٹھی اور بیٹھی۔

         یہ کتنا چھوٹا سا  آئینہ تھا جس میں ایک ساتھ کئی متحرک چہرے نمودار ہوئے اور غائب ہوگئے۔یہ کتنا آسان فارمولا ہے کہ ایک ہی تصویر پر کتنے چہرے محمول کیے جاسکتے ہیں۔‘‘باباجی! جب میں آپ کے پاس پہنچی تھی تب آپ نیم خفتگی کی حالت میں تھے جو ان سب باتوں کے لیے غیر موزوں اور آپ کا علم اور شغل بھی شاید ایسےنہیں کہ جن کے بل بوتے پر آپ کے قیاس کو کسی حقیقت کاایک زاویہ سمجھ کرقبول کیاجائے’’۔‘‘بیٹا آپ کا قصور نہیں بلکہ اس ماحول کا قصور ہے کہ جہاں انسان خوراک کے ذائقوں کو ریستوران کےنام کے ساتھ ،علم کوکاغذ کی ڈگریوں کے ساتھ،شغل ،اشغال کو ایک ظاہری ملاقات کے ساتھ،اخلاص کو الفاظ سے اوروفاداری کو میل ملاپ سے منسلک کیے بیٹھا ہےایسی ہی وجوہات کی بناپر آپ کو تو ان باتوں کے اصلی روپ اور حقیقی زاویے کا اندازہ لگانے میں بھی قدرے دشواری کا سامنا ہورہا ہے۔نورین نے پشت بابا جی کی طرف کرتے ہوئے نظریں جھکا لیں،چندساعتیں  مٹی پر پاؤں رگڑنے کے بعدنیچے بیٹھ گئی۔‘‘ریحان آپ کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی،میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ میں  کلاس مس کروں یا پھر گھر والوں کے سامنے جھوٹ بولوں اس لیے ایسا سوچنا بھی مت۔میرے الفاظ کسی ایسی ٹیم کی مشق تھے جو اگلے راؤنڈ میں جانے کی ہر امید کھوچکی ہو اور اپنے بچے ہوئے  میچ شیڈول کی خانہ پری کے لیے کھیل رہی ہو۔نہ جانے کب یہ راؤنڈ مکمل ہوا ،الفاظ میرے واپس ہوم لینڈ پہنچے اور دل اگلے راؤنڈ میں جاپہنچا’’۔

         بابا جی  پانچواں نوالہ لیتے ہوئے:‘‘بیٹا !عورت پر شکست کا خوف ہر وقت طاری رہتا ہے۔فتح وشکست صرف میدانوں میں ہی نہیں بلکہ دل ودماغ میں بھی برابرجاری رہتی ہے۔زبان کی ٹیم جب ہار کر دماغ کے پویلین میں واپس پہنچتی ہے تو دل اپنی ٹیم کومیدان میں اتارتا ہے اور اس ٹاکرے میں دل کی ٹیم کے حریف حدود و قیود ہوتے ہیں ’’۔بابا جی گھاگ اور جہاندیدہ تھے  انہوں نے زندگی میں کئی بار پہاڑوں کی چوٹیوں سے پگھلتی برف دیکھی تھی وہ جانتے تھے کہ جب برف چوٹی سے پھسل کرنیچے کی طرف آتی ہے تو  پانی بن جاتی ہے ۔ تووہ پانی واپس لوٹنے کی بجائے آگے کی طرف ہی جاتا ہے۔پانی جن جگہوں سے گزرتا جاتا ہے وہاں پر  راستے بنانے کے ساتھ ساتھ نشان بھی چھوڑتا چلا جاتا ہے۔یہ نشان دیکھنے والی آنکھ اور اپنے درمیان مخفی رشتہ تشکیل دیتے ہیں جن کے معنی بھی ان کی اپنی لغات میں محفوظ اورفہم تک مقید ہوتے ہیں۔مبہم اشاروں پر مبنی اس ملاقات کی فہم کا دائرہ شاید نورین کے اندرونی آربٹ سے باہر نہیں جاپارہا تھا اس لیے اس نے چھوٹا ساخاموشی کاوقفہ لیا۔بابا جی‘‘شکست کا خوف تو جانوروں پر بھی برابر جاری رہتا ہے  تو آپ نے مردوں اور جانوروں کو چھوڑ کرصرف عورتوں کا ہی کیوں ذکر کیا؟’’۔‘‘بیٹا !جانوروں اورمردوں کو بھی شکست کا خوف ہوتا ہے مگر اُن کی شکست  موت سے متصل ہوتی ہے جب کہ عورت کی شکست انا سے جڑی ہوتی ہے،یہی انا بعض اوقات خارج سے داخل کی طرف کسی  لالچ کے ساتھ واردہوتی ہے اور کبھی کبھار داخل سے خارج کی طرف جذبات کے ساتھ مل کرحملہ آورہوتی ہے جو زیادہ خطرناک ہوتی ہے’’۔‘‘بابا جی !داخل اور خارج کی اصطلاحات کو سمجھ نہیں سکی’’۔‘‘بیٹا ان باتوں کا تعلق جذبات کی رشوت لینے اوردینے سے ہے،یہ باتیں تشریح اور وقت طلب ہیں سو اب آپ جائیں  پھر کسی ملاقات میں اس عقد ہ ماینحل کو وا کریں گے’’۔

         میرے داہنے ہاتھ پر کوئی تین سو میٹر کے فاصلے پر ٹیکنیکل کالج کا صدر دروازہ بند کرکے سکیوڑٹی گارڈ اپنی پوسٹ میں پہنچ کرنشست پر براجمان ہوچکا تھا۔سڑک پر گاڑیوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد اور سٹاپ پر موجود بھیڑ کامفقود ہوجانا اس بات کا عندیہ تھا کہ دفاتر جم چکے ہیں اورخواتین وحضرات اپنے اپنے اشغال میں مصروف ہوچکے ہیں۔میں دو چار قدم کھسکنے کے بعد بزرگ کے  بائیں جانب اینٹوں اور بجری سے بنی ہوئی برجی پر جاموجود ہوا،ایک نظر بزرگ پر اور دوسری نظر ان کے ارد گرد گھمانے پر معلوم ہوا کہ کچھ خاص باتیں خاص لوگوں کی نظروں سے مدتوں اوجھل رہتی ہیں اور عام سے لوگ ان باتوں کو پل بھر میں سرکرکے جانبِ ابد روانہ ہوجاتے ہیں۔بابا جی نے چھٹا نوالہ لیتے ہوئے‘‘لڑکی معصوم تھی مگر مردانہ سماج اور اس کی اپنی انا نے اسے رشوت دینے پر مجبورکردیا تھا’’۔بابا جی  کون سی لڑکی اور کیسی رشوت؟ میں کچھ سمجھا نہیں!۔‘‘بیٹا!تم سب سن کر بھی بھولے بنے ہوئے ہو یہی اس سماج کا المیہ ہے،جو کسی بھی حقیقت کو سننے،سہنے اور عیاں کرنے کا متحمل نہیں ہوپارہا اور تباہی کی طرف جارہاہے’’۔

         بابا جی! آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں اس کا ساتھی ہوں مگر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘او جناب! آپ بھی  سادھو  انسان لگتے ہیں،دو مخالف جنس ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوسکتےمگر مجبوری،ضروری اور مزدوری کے اوقات میں زبانی طور پرضرور ساتھ ہوسکتے ہیں’’۔بابا جی حقیقت کو بجھارت میں ڈھالنے کی بجائے حقیقت کی پلیٹ میں سجاکرمجھے دے دیں تاکہ میرے ذہن میں سماسکے۔‘‘وہ بیچاری لا ینحل مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے اور آپ سب لوگ تماشادیکھنے والے ہیں،آج اُس کی دنیا کا آخری دن ہوسکتا ہے۔مجھے اس کی باتوں سے لگا کہ وہ ململ کی چادر ہے اورسماج بیری کا درخت ہے،جب اس درخت سے نیچے اترے گی تو اس کے چیتھڑے اڑجائیں گے۔اس رشوت کے بعد بھی اس کی روح مطمئن تھی مگر جسم کا ایک پرزہ دماغ ہے جو آواز اس کی روح سے بھی آواز کشید کرلے گا’’۔بابا جی آپ کا مطلب ہے اُس نے جو رشوت دی ہے اس کی پاداش میں اُسے جان بھی دینا پڑ رہی ہے۔‘‘نہیں آپ میری بات کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ آپ کا تعلق رشوت لینے والے قبیل سے ہے’’۔بابا جی آپ بالکل بےتکی بات کررہےہیں میں لعنت بھیجتا ہوں کسی رشوت پر،میرے پاس بہت کچھ ہے اور سب میں نے حلال طریقےسے کمایا ہے۔‘‘ہاہاہا اصل نکتہ آپ نے خود نےواضح کردیا،ابھی تک تو آپ کا قبیل ایک حقیقت کا اعتراف کرنے  پرتیار نہیں لیکن تھوڑی دیر تک ایسا طوفان اٹھے گا کہ اس قبیل کے سب لوگوں کے چہرے مسخ ہوجائیں گے اور رشوت کے نشان ان کے لفظوں سے، سولی سےمردوں کی طرح گر رہے ہوں گے’’۔

         بابا جی! راشی کے لیے تو آسان ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے اس دھندے سےباہر نکل جائے،تو اس کےلیے خود کو علیحدہ کرنا اتنا مشکل کیوں ہورہا ہے؟‘‘بابا جی نے ٹوش کا ساتواں اورآخری نوالہ لیتے ہوئےبیٹا!ہر صید کودیکھ کریوں لگتا ہےکہ وہ دام کے ساتھ ساتھ صیاد کو بھی ساتھ لے اڑے گا مگراس کے لیے اس پنجہ استبداد سے نجات پانا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پرجکڑلیےجاتےہیں ،ذہن اوردل کاربط مفقود ہوچکا ہوتاہے’’۔طلبہ کا ایک طوفان  ٹڈی دل کی طرح سامنے والی کالج کی بلڈنگ پر ٹوٹ پڑا تھا جس کے کھڑکیوں کے شیشے اور دروازوں کی سیج سب ایک نظر میں محو ہوچکے تھے۔زیادہ ترطالب علم ایک ہی طرح کی یونیفارم میں تھے متعلقہ شخص باآسانی ان کی تشخیص کرسکتا تھا مگر ہمارے لیے وہ فقط طالب علم تھے۔اسی اثنا میں گرمیوں کی بارش کےبعد روشن بلب کے گردجمع ہونے والے پروانوں کی طرح کثیر تعداد میں پولیس کی نفری کسی نامعلوم مقام سے وارد ہوچکی تھی۔تیز رفتار طالب علم نے  روڈ کراس کرتے ہوئی آواز لگائی‘‘ڈنڈے لےآو ،اس۔۔۔کو نہیں چھوڑیں گے،ظالم نے معصوم کی جان لے لی’’۔باباجی  ! اٹھیں اٹھیں بھاگتے ہیں یہاں روڈ کنارے بیٹھنا مناسب نہیں ۔’’اوئے بزدل تم  تو اس سے بھی بزدل ہوجس کی بزدلی سے بھی بہادری جھانک رہی تھی‘‘۔

Leave a Reply