ڈاکٹر محمد یاسین گنائی
پلوامہ ، کشمیر
سدھا جین انجمؔ
(اردو کی پہلی جین شاعرہ)
صدیاں گزرنے کے بعد کسی حد تک یہ طے ہوچکا ہے کہ اُردو کسی کی مذہبی زبان نہیں ہے اور نہ ہی کسی علاقائی زبان کا نام ہے۔البتہ دیگر مذاہب کے مقابلے میں مسلمانوں نے اس زبان کو اپنے خونِ جگر سے سینچ کر ایک تناور درخت بنانے اور عالمی شہرت یافتہ زبانوں میں اعلیٰ مقام دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔اسی طرح نئی اور پرانی ادبی بستیوں نے بھی اہم رول رہا ہے۔اردو ایک سیکولر زبان ہے اور اس کے سیکولر رنگ میں مختلف مذاہب نے کم یازیادہ خدمات انجام دی ہیں۔دوسری طرف ہندوستان ایک کثیر مذہبی ،کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی ملک ہے اوریہی اس زبان کی جنم بھومی ہے، تو ایسا ممکن نہ تھا کہ ہندو ، سکھ،عیسائی،بدھ اورجین لوگ اس کی تعمیر وترقی میںاپنا ہاتھ نہیںبٹاتے ۔غیر مسلم مشاہیر کا نام لینا اگرچہ ضروری ہے لیکن طوالت کے سبب اپنے اصل موضوع کی طر ف آتے ہیں۔اردو شعروادب کے فروغ میں ہندوں، سکھوں اور عیسائیوں کے کردار پر کافی تحقیقی کام ہوچکا ہے لیکن جین مت کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ گیان چند جین جیسا محقق وناقد اردو زبان میں ایک مینارکی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے بعد میری نظر اردو کی پہلی جین شاعرہ:سدھا جین انجمؔ پر پڑتی ہے۔ان دوکے علاوہ بھی خواتین وحضرات ہوسکتے ہیں،جن کوکھوج نکالنے اور ان کے ادبی کارناموں کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔
سدھا جین انجمؔ کا جنم جنوری ۱۹۵۵ء میں لدھیانہ پنجاب میں ہوا تھا۔ ان کا تعلیمی سفر لدھیانہ میں ہی مکمل ہواتھا۔ ان کی شادی ۱۹۷۳ء میں جموں کے پرجن کمارجین سے ہوئی تھی اور شادی کے بعد ہی ان کے دل میں غزل گوئی کا شوق پیدا ہواتھا۔جن دنوں ان کے شوہر خطہ پیرپنچال میںقیام پذیر تھے تویہ ایام انجمؔ کی شاعری کیلئے زرخیز ثابت ہوئے۔ اس سلسلے میں نومبر۱۹۸۹ء میں ریڈیو کشمیر جموں میں کل ہند مشاعرے میں شرکت کی تھی۔انجم ؔ نے شاعری کی شروعات ایک نظم’’بیت گیا یہ سال‘‘ سے کی تھی۔جو بارہ ماسہ کی شکل میں لکھی گئی ہے۔ یوںوہ ریاست کی پہلی شاعرہ ہے،جو خود ہی اپنی شاعری کیلئے دھنیں تیار کرکے گاتی ہیں۔وہ ریاست اور عالمی سطح کی بھی پہلی جین اردوشاعرہ ہونے کا اعزاز رکھتی ہے ۔ان کے ایک گیت سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
کچھ دیر کی اس تنہائی نے جذبات کی اک انگڑائی نے
پل بھر میں بدل دیا مجھ کو آنکھوں کی سحر نوائی نے
کل تک جو پریشان رہتے تھے غم کے دھارے میں بہتے تھے
شاعری میں ان کے استاد عرش صہبائی تھے۔اورانجمؔ کا زدوگوہونا اس لئے ممکن ہے کیونکہ ان کے استاد عرش صبائی خود ایک زود گوشاعرتھے۔ وہ اپنی زود گوئی کے بارے میں لکھتی ہیں:
’’اب حالات تیزی سے بدل رہے تھے اور میری طبیعت گانے کے علاوہ شعر گوئی کی طرف زیادہ راغب ہونے لگی تھی۔بعض اوقات دن میں چارغزلیں بھی ہوجاتیں۔اور کئی بار ایسا بھی ہوا کہ میں نے ایک دن میں آٹھ غزلیں کہہ لیں۔یہ سلسلہ اس دن سے آج تک اُسی طرح جاری ہے۔وہی جذبات کی شدت اور وہی روانی، مجھے خود بھی معلوم نہیں کہ میں کیا لکھتی رہتی ہوں کیونکہ لکھ رہی ہوں بس۔اب اتنا جانتی ہوں کہ لکھنا مجھے اچھا لگتا ہے‘‘۔ ۱؎
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ انجم ؔایک زودگو شاعرہ ہے۔ ہندی ،اردو،پنجابی اور انگریزی زبانوں میںان کی لگ بھگ تیس کتابیں ‘جن میں اردو کے آٹھ شعری مجموعے بھی شامل ہیں،منظر عام پر آچکے ہیں۔ اردوکے شعری مجموعے میں‘‘ قطرہ قطرہ(۱۹۹۱)، حروفِ درد(۱۹۹۹) ،
لمس بہار( ۲۰۰۰) ،دردِ فراق(۲۰۰۲)،شبِ گذشتہ(۲۰۰۶)،قدم قدم سراب(۲۰۰۹)،شاعر،دیوانگی اور زندگی(۲۰۲۰)اورتیسری آنکھ(۲۰۲۱)شامل ہیں۔ان شعری مجموعوں میں۹۹ فیصد غزلیں شامل ہیں اورگنتی کی چند نظمیں،گیت اور نغمے نظر آتے ہیں۔ ہیرانند سوزؔ ان کے شعری مزاج ومنہاج کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں:
’’سدھا انجمؔ کی شاعری میں سادگی کے ساتھ ساتھ پُرکاری بھی ہے۔اس کے لہجے میں جہاں دھیماپن اور مٹھاس ہے وہاں اُداسیوں کے سائے بھی نظر آتے ہیں۔اس نے غزل کو غزل ہی رہنے دیا ہے۔فلسفے اور منطق سے جوڑنے کی بجائے اس نے اپنے اشعار میں سادگی اور دلکشی کو ملحوظ خاطر رکھا ہے‘‘۔ ۲؎
انجمؔ کی شعری کائنات جن خاص چیزوں سے سروکار رکھتی ہے ان میں عصرِ حاضر کے ظلم وستم کی ترجمانی،فرسودہ نظام سے نالاں ہونا،غمِ روز گاروغم دوران اور تنہائی ویاس کی عکاسی،ماضی کی یادیں،حال کا غم اور مستقبل کی فکر،عشق کے کوہ کاف پر ایک بے بس معشوقہ کی آہ وزاری وغیرہ شامل ہیں۔ان کی شاعری میں موجودہ حالات کے خلاف احتجاج بھی نظر آتا ہے۔وہ بے خوف ہوکر موجودہ سیاسی نظام کے خلاف آواز بلند کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ہے۔ چند عشقیہ وسیاسی نوعیت کے اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
دل میرا اُس کے دل کا پیغام لے رہا ہے
ایسا لگا وہ میرا ہی نام لے رہا ہے
آجانا تم خیالوں میں تاکہ میں سو سکوں
تنہا نہیں گزرتی کبھی اتنی لمبی رات
کتنے حادثے ہم پر بیتے اب یہ ہم کو یاد نہیں
انھیں حادثوں کو ہی ہم جیون کی کہانی کہتے ہیں
رنج وغم بھی حادثہ ہیں ہر خوشی بھی حادثہ
سچ اگر کہیے تو ہے یہ زندگی حادثہ
ان کی شاعری میں نغمگی ، ترنم ،فنی پختگی اورنئے پن کا احساس ملتا ہے۔ان کے یہاں فراق اور وصل،آشوبِ زمانہ واشوب ِروزگار بھی ہے اورزندگی کا سکون بھی ہے۔وہ سادگی پسند ہیں اور یہ سادگی ان کی شاعری میں بدرجہ اُتم نظر آتی ہے۔اگرچہ ان کے خیالات،جذبات اوراحساسات سادہ ہیں لیکن پیچیدہ خیالات اورتجسس سے بھرے جذبات و احساسات بھی پائے جاتے ہیں۔ان کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں:
’’سدھا کی شاعری غزل کی شاعری ہے۔اور اس شاعری پر داغؔ اسکول کی غزل گوئی کا خاصا اثر نظر آتا ہے۔لیکن داغؔ اسکول کی غزل اکثر وبیشتر رندی اور ہوسناکی کے دامن میں جاکر پناہ لیتی ہے۔اس کے برعکس سدھا انجمؔ کی شاعری اس عجب سے یکسر خالی ہے۔سدھا انجمؔ کا تخیل ایک ہندوستانی عورت کا تخیل ہے اور پاکیزگی کااحساس اس تخیل کی معراج ہے‘‘۔ ۳؎
آزادؔصاحب نے داغؔ اسکول کے اثرات کاانجمؔ کی شاعری پر پڑنے کا ذکرکیا ہے اور اس اسکول کا رند وساقی،جام وسبو کے ساتھ تعلق ہونا بھی بیان کیا ہے۔لیکن ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ جموں وکشمیر کی شاعرات میں شہزادی کلثوم کے بعد انجمؔ دوسری شاعری ہے جن کے کلام میں ساقی،جام،سبو،شراب،صراحی وغیرہ کا خوب ذکر ملتا ہے۔اور یہ خالص رندی شاعری ہی ہے کیونکہ جین مت میں شراب طہور کا تصور نہیں ملتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
ساقی محفل! یہاں سرشار ہر اک رند ہے
تیری محفل میں مرا ہی جام بھرم سکتا نہیں
بزم میں ہر کوئی تشنہ لب یہاں
کتنی بے معنی تری ساقی گری
جام ہاتھ سے کہیں چھوٹا
تو نے توڑا یا خود ٹوٹا
ساقی ترے خلوص میں شاید تھی کچھ کمی
پھر کس لئے تھی پی کے طبیعت بجھی بجھی
انجمؔ کی غزلیات میں دو اہم چیزوں کا مشاہدہ ضرور ملتا ہے۔انہوں نے مقطع سے پہلے آنے والے شعر میں بھی تخلص کا استعمال کیا ہے اور کچھ اشعار میں مصرعوں کو دو حصوّں میں تقسیم کیا ہے ۔ایک طرف عشق مجازی سے باہر نکلنا ان کیلئے مشکل نظر آتا ہے، لیکن دوسری طرف جین ہونے کے باوجود اشعار میں عشق حقیقی کی جھلک نظر آتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جین مت میں خدا کا تصور ہی نہیں ہے اور یہ خدا کو حاضر وناظر ہی نہیں مانتے ہیں، تو اس قسم کے اشعار کہاں سے نکلتے ہیں۔ اردو شاعرات کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہی نظر آتی ہیں اور موضوعات کے لحاظ سے بھی شاعرات ایک محدود دائرے کے اندر ہی لکھنا پسند کرتی ہیں۔چند عالمی شہرت یافتہ شاعرات کو چھوڑ کر متعدد کا زورقلم آپ بیتی سے تانیثیت تک اور عشق مجازی سے گھریلو مسائل تک ہی چلتا ہے۔ جہاں تک انجمؔ کی بات ہے تووہ جدید ذہن رکھتی ہے لیکن موضوعات میں وہ رنگارنگی نہیں ملتی ہے جوشہزادی کلثوم،شبنم عشائی،نسرین نقاش اورروبینہ میر کے یہاں نظر آتی ہے۔انجم ؔنے اپنی بساط کے مطابق اپنے محبوب کا سراپا مختلف اشعار میں کھینچا ہے ۔انہوں نے محبوب کے رخسار،آنکھوں،زبان،زلفوں،جلوئوں،باتوں،
چال ڈھال وغیرہ کا سراپا نہایت احتیاط سے کھینچتے ہوئے لکھا ہے۔
زرد ہو رخسار چاہیے خوں فشاں ہو اب نظر
وقتِ رخصت تو نہ آیا پھر یہ شکوہ کس لئے
زلفوں کی مہک پھیلی جاتی ہے بہ سرسو
رُکتے ہوئے ان قدموں کی آواز سنی ہے
اُن آنکھوں میں کتنا ملال آگیا
اب سنانا ہمیں دل کا حال آگیا
ماں کی کوک سے قبر کے دہانے تک، بچپن سے بڑھاپے تک اورگھرسے دفتر اورمیکے سے سسرال تک ایک عورت مردوں کے مقابلے میں کہاں کہاں کم تر درجے کی شکار ہوتی ہے ،اس بات کا ذکر انجمؔ کے کلام میں ایک جذباتی انداز میں ملتاہے۔گھریلوتشدد،دفاتر کی کارستانی،سماج میں بہو بیٹی میں امتیاز،والدین کی آنکھوں میں بیٹے اور بیٹی کیلئے پیار میں فرق ہونا اور اسی قسم کے دیگر اہم مسائل کو کھل کر بیان کیا ہے۔ ان کے کلام میںنسائی اور تانیثی مسائل کی جلوگری خوب ملتی ہے۔قراۃ العین حیدر کے الفاظ میں عورت ہمیشہ سے ہی بے وقوف رہی ہے اور اسکی بے وقوفی میں مزید اضافہ تب ہوتا ہے جب ایک عورت ظلم سہتے سہتے ستی ساوتری،وفا کی پتلی،پیار کی دیوی،ممتا کا پیکر جیسے القاب سے بہکائی جاتی ہے اور وہ اپنے اوپر ہورہے ظلم وستم کو پھول سمجھ کر برداشت کرتی ہے۔یہی صورت حال انجم ؔ کے کلام میں بھی نظر آتی ہے۔ملاحظہ فرمائیں چند اشعار ؎
کیا کہوں کتنے ستم توڑے ہیں اس نے مجھ پر
د ل کو پھر اس کی وہ ساری ہنسی یاد آئی
مجھ کو روتے ہوئے وہ دیکھ کے ہنستا ہے مگر
خود بھی روئے گا کسی روز رُلانے والا
کیا جلائے گی ہم کو چنگاری
آگ سے کھیلنے کی عادت ہے
چپ کیوں نہ رہوں کچھ ڈر سا ہے
ڈھانچہ یہ پُرانا بدل ڈالو
انجمؔ کے کلام میں تانیثیت کے حوالے سے وہ شدت اوروہ غم وغصہ نظر نہیں آتا ہے جو مغرب کی خواتین کے لہجہ میں ملتا ہے۔انہوں نے دبی دبی آواز میں ہی تمام مظلوم خواتین کا درد بیان کیا ہے،ان کی ذاتی زندگی اتنی خوشحال ہے کہ آج بھی ایک آزاد پنچھی کی طرح وقت کا زیادہ حصّہ شعروشاعری اورشوٹنگ ورکارڈنگ میں گزرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تانیثی شعور کچھ رسمی سا محسوس ہوتا ہے اور اس میں ذاتی غم کے بجائے اجتماعی مشاہدات کا زیادہ ہاتھ نظر آتا ہے۔ ترسیم لعل شرما انجمؔ کی شعری کائنات کا نچوڑ یوں پیش کیا ہے:
’’ان کے گیتوں میںدرد کا احساس،حالات سے سمجھوتا،اُمیدیں ،نظام سے بغاوت،فلسفہ اور حوصلہ سب کچھ ملتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ان کی نظموں میں اپنی حسرتوں اور خواہشوں کو مار کر خود کو زندہ رکھنے کی تمنا ہے۔۔۔انجمؔ جی کی تحریرمیں ہمیشہ نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔ان کے خیالات میں خوبصورتی بھی ہے اور زندگی کے مسائل سے دوچار ہونے کا حوصلہ بھی۔ان کی شاعری میں خیالات کی پاکیزگی اور جذبات کی بے بہاروانی بھی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ وہ ہر وقت اسی رنگ میں ڈوبی رہتی ہیں‘‘۔ ۴؎
ہندی زبان میں لکھنے کی وجہ سے کچھ ہندی الفاظ ان کی اردو شاعری میں در آئے ہیں۔لیکن یہ بدہی نہیں لگتے بلکہ شیر وشکر ہوکر اردو کے اپنے الفاظ محسوس ہوتے ہیں۔ان میں شعر کہنے کابے پناہ جذبہ موجود ہے۔شعرگوئی کے تمام تر وسائل کو برروئے کار لانے کے بعد ان کی شاعری سادہ،سلیس اور آسان زبان میںملتی ہیں۔گیان چند جین کے بعد سدھا جین انجمؔ جین مت سے تعلق رکھنے والی دوسرے بڑی اردو قلمکار مانی جاسکتی ہیں۔ انجمؔ کی شاعری میں غزل اورنظم کے حوالے سے درجنوں اشعار ایسے ملتے ہیں،جن میں مذہبی رنگ ملتا ہے۔یہ رنگ ایک طرف دینِ اسلام اوردوسری طرف ہندومت سے ملتا ہے۔اگرچہ جیت مت میں خدا کا تصور نہیں ملتا ہے تو کیسے انجمؔ خدا کے ہونے پر یقین کرتی ہے۔جین مذہب کے پیروکار۲۴راہبوں کومانتے ہیں لیکن روح،مادہ اورکائنات کے بارے میں ان کا نظریہ ہے کہ ان چیزوں کو کسی نے تخلیق نہیں کیا ہے بلکہ پہلے ہی موجود تھے اور دنیا کو چلانے والا کوئی نہیں ہے۔جین مت کے عقائد کے بارے ڈاکٹر وشنو جین کا خیال نقل کرتے ہیں:
’’جین مت کی بنیاد اس یقین پر پڑی کہ ہر ذی روح کو یہ صلاحیت حاصل ہے کہ وہ خدائی تک پہنچے اور اس طرح اس میں کسی کا بھی بُت بناکر عبادت کرنے سے پرہیز کیاگیا۔اس مذہب میں اللہ کو دنیا بنانے والا،چلانے والا نہیں مانا گیا۔یہ مانا گیا کہ دنیا قدرت کے اصولوں پر ٹکی ہوئی ہے اور انسان جو تکلیف یا آرام پاتا ہے،یہ اس کے لئے ہوئے کاموں کا تفصیلی اعمال نامہ ہے‘‘۔ ۵؎
انجمؔ جین مت کی پیروکار ہے اور ان کے کلام میں خدااور بھگوان کا تصورملتا ہے یا نہیں،اس کو ثابت کرنے کیلئے دلیل کے بجائے انہیں کے چند اشعار نظموں اور غزلوں سے نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں:
دے ضبط مجھے میرے مولیٰ نہ زُبان کھلے میرے مولیٰ
یہ پردہ رہے،یہ شرم رہے نہ بھرم کھلے میرے مولیٰ
میری رُوح میں گہرے اُتر گئی یہ خاموشی میرے مولیٰ
یہ خاموشی،یہ خاموشی،یہ خاموشی میرے مولیٰ ۶؎
مثنوی کی ہیت میںان کی نظم’’دونوں میں توہی ہے‘‘میں بھی تصورِخدا ملتا ہے۔یوں ظاہر ہوتا ہے کہ انجمؔ جین ہونے کے باوجود مذہب کے لحاظ سے اعتدال پسند ہے اور ان کے دل کے کسی نہ کسی کونے میں خدا کی موجودگی کا احساس ضرور ہے۔ان کی غزلوں سے خداکی عظمت وبزرگی اور وحدانیت وجلوہ گری کا نمونہ پیش کرتے ہیں ؎
اگرچہ حشر کے دن ہوں گے لوگ خالی ہاتھ
مرے لیے یہ بہت ہے کہ ہوگا اُس کاساتھ
جو کچھ تیرے بس میں نہیں ہے
وہ قدرت پہ چھوڑ لے پھر سے
ہیں نام کئی اُس مالک کے
جو کرتا ہے سب کی رکھوالی
لاج رکھ لی مری اتنی ہے گزارش تجھ سے
تیرے سجدے میں گری ہوں مرے داتا سن لے
انجمؔ ریاست کی ایک ایسی شاعرہ ہے جو محبت،امن وامان،شانتی اور پیار کا عالمگیر پیغام دنیا تک پہنچانا چاہتی ہے۔ ان کی شاعری کا مقصد اس ضمن میں بھی نظر آتا ہے کہ وہ سماجی حقائق سے پردہ چاک کرکے ان حقائق سے اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے اپنی نظموں اور غزلوں میں سوامی مہاویر جین،بھگوان رام جی،مہاریشی بالمیکی،کرشن جی،ہنومان اور دیگراوتاروں کا ذکربڑے ادب واحترام سے کیا ہے۔بدلتے معاشرے کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے ؎
مجھے بتائے ذرا کوئی یہ ماجرا ہے کیا
بکھررہا ہے جو پل پل وہ معاشرہ ہے کیا
مرد اور خواتین شاعرات کے موضوعات کے حوالے سے بڑی بحث چھڑی ہوئی ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کے موضوعات محدود ہوتے ہیں،جبکہ مردوں کے مقابلے میں خواتین جذبات واحساسات زیادہ گھائل کرنے والے ہوتے ہیں اور یہی بحث فن عروض یا فعلن فعولن کے معاملے میں بھی ملتی ہے کہ شاعرات پیدائشی طور پرعروض کی ماہر ہوتی ہیں اور ان کے کلام میں عروضی غلطیان بہت کم ہوتی ہے۔اب یہ بحث ومباحثہ کس حد تک صحیح ہے لیکن ایک طالب علم کی حیثیت سے جتنا سمجھ پایا ہوں تو موضوعات اورعروض دونوں میں شاعرات بہت پیچھے نظر آتی ہیں لیکن جذبات واحساسات میں شاعرات کو پیدائشی کمال حال ہوتا ہے۔بہرحال صبا بلگرامی(جبل پور)انجمؔ کو ترقی پسند شاعرہ قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’محترمہ سدھا جین انجمؔ دورِ حاضر کی ترقی پسند شاعرہ ہیں۔شدّت کے ساتھ شعر کہنا،ہوسکتا ہے اُن کا محبوب عمل ہو۔
لیکن یہ عمل قدرت کی دین ہے،فن کو فن کی طرح سمجھتے ہوئے فن کی عبادت کرنا،فن کی عبادت کے ساتھ ساتھ انجمؔ صاحبہ کے پاس ایسا لگتا ہے،وقت ہے،ماحول سازگار ہے اور موسم کی ڈھیر ساری عنایتیں مہرباں ہے۔ان کے گیتوں میں رومانیت کے ساتھ ساتھ دردکے احساسات بھی ہے ،اور سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے آج کے دور کے میوزک کو اپنا کر نہ صرف اپنے قارئین بلکہ اس دور کے سنگیت پریمیوں کی تعداد میں بھرپور اضافہ کیا ہے۔اسی سے شاعرہ کا ترقی پسند ہونا لگتا ہے‘‘۔ ۷؎
انجمؔ کی حیثیت ایک غزل گوشاعرہ کے ساتھ ایک گیت کاراور ایک نظم گو شاعرہ کی بھی ہے۔ان کے آخری دوشعری مجموعوں’’تیسری آنکھ‘‘ میں نو اور’’شاعری،دیوانگی اور زندگی‘‘ میں دس نظمیں شامل ہیں۔ اہم نظموں میں’’تیسری آنکھ،تیرے کیوں آنسو نکل پڑے،بس اتنا تجھے سمجھانا ہے،خاموشی،کچھ تو بتا،دونوں میں تو ہی ہے،عشق کا کاروبار،اپنا عکس ہے پایا،اُسے ڈھونڈ تُو،تیکھی چُبھن،سچ تھا کھڑا قطارمیں،مجھے پتھر پگھلانا ہے،اپنی کہانی جوڑدے،مٹی ہی ہے ترا دیش،کچھ میں کہوں؟،سپنے نوں پورا کر،موسم شاعرانہ اور دل ہے دیوانہ اور کچھ بلاعنوان نظمیں شامل ہیں۔انہوں نے عصرحاضر کی دیگر شاعرات کے مقابلے میں زیادہ پابند نظمیںموزوں کی ہیں۔ شعری مجموعہ’’تیسری آنکھ‘‘کا عنوان مجموعے کے ابتدا میں شامل نظم سے گیاہے،جس کا ٹیپ کا مصرعہ’’کھل جائے گی،کھولوں گی جب اپنی تیسری آنکھ‘‘ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
کسی کے رحم وکرم پہ ہرگز زندہ نہیں ہوں
شیرکا دل ہے،شیر کی طرح ہی جیتی ہوں
چھتری اپنی خود بن جائوں جب تیز ہو غم کی دھار
لکچھ کو پانے کی اُمنگ کی جیون کا ہے سمار
کیونکہ اتنا پتہ ہے مجھ کو،کیونکہ اس کا یقین ہے مجھ کو
کھل جائے گی،کھولوں گی جب اپنی تیسری آنکھ
اس نظم میں ان کا تانیثی شعور کھل کر سامنے آیا ہے اور یہی کہنا چاہتی ہے کہ جب جب عورت نے اپنے دماغ یعنی تیسری آنکھ کا صحیح استعمال کیا ہے،تب تب مردوں کو پیچھے چھوڑا ہے اور ان کے حواس درست کیے ہیں۔آگے چل کر نظم’’تیرے کیوں آنسو نکل پڑے‘‘میں شاعرہ زندگی سے مخاطب ہوکرکہتی ہے کہ میری زندگی کاپھیکا رنگ،بیکار زندگی،عقل کی دوستی،ہمدردی،حادثات،توہینِ عشق،فقیرانہ حال اوردیگر چیزوں کو دیکھ کر تیرے آنسو کیوں نکل پڑے ہیں۔نظم’’بس اتنا تجھے سمجھانا ہے‘‘میں بھی تانیثی شعور ملتا ہے۔ ’’سچ تھا کھڑا قطار میں‘‘ایک تجرباتی
نظم ہے جس میں سچ اور جھوٹ کا موازنہ پیش کیا ہے۔ ’’مجھے پتھر کو پگھلانا ہے‘‘میں وہ ظالم اور سنگ دل محبوب کو پگھلانے کی بات کررہی ہے ۔ نظم’’اپنی کہانی جوڑ دے‘‘میں کچھ کرگزرنے اور تمام رکاوٹوں کو دور کرنے اور توڑنے کا ذکرکیا ہے۔یہاں بھی تانیثی شعور دبی دبی آواز میں ملتا ہے۔چند اشعار ؎
راستے سارے کھل گئے ہیں روشن صبحیں بھی ہیں
سوچ کی پُوٹلی باندھ کر پائوں اُٹھا،قدم بڑھا
پار کر دہلیزکو، پھاند کر دیوار کو گلیوں کو گلیاروں کو ،جان کی پرواہ نہ کر
سرپھری ہوا کو موڑ دے اتہاس کے پنے پراپنی کہانی جوڑدے۸؎
’’مٹی ہی ہے ترادیش‘‘ میں زندگی کی حقیقت بیان کی ہے اور انسانی وجود کو مٹی کا پیوند قراردیا ہے۔اس نظم میں مذہبی تصور اور خداکی عظمت نظر آتی ہے۔’’سپنے نوں پورا کر‘‘میں عام وخاص لوگوں کا حوصلہ بڑھایا ہے۔انجمؔ کو اب تک درجنوں انعامات واکرامات سے نوازا جاچکا ہے۔ یوں اس مختصر سے مضمون کی بدولت ہم اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ سدھا جین انجمؔ ایک ہردل عزیز شاعرہ ہے۔ان کی شاعری میں نہ صرف پنجاب ،جموں وکشمیر اورخطہ پیر پنچال کی تہذیب وتمدن کی جلوہ گری نظر آتی ہیں بلکہ اردو ،ہندی اور پنجابی الفاظ کا مشترکہ روپ بھی نظر آتا ہے۔انہوں نے عشقیہ شاعری کے تما م رموز واسرار کی ترجمانی کے ساتھ سیاسی وسماجی مسائل کو بھی بیان کیا ہے۔ ان کاآزادنہ مزاج اورپرسکون ماحول ان کی شاعری میں واضح نظرآتا ہے اوراگر ایسا نہیں ہوتا تو ان کی شاعری میں غم انگیز عشق،تڑپانے والی محبت اورظالم محبوب کا خوب ذکر ملتا ہے۔مجموعی طور پر ان کو ریاست کی دس بہترین شاعرہ میں شمار کیا جاسکتا ہے اور وہ نہ صرف ریاست بلکہ اردو کی بھی پہلی جین شاعرہ ہے۔
حوالہ جات:
(۱)سدھا جین انجم:اپنے کلام کے آئینہ میں،عرش صہبائی،سیمانے پرکاش ،دریا گنج ،نئی دہلی،۱۹۹۸ء،ص:۱۵)
(۲)حرفِ درد، سدھا جین انجمؔ،ادارہ فکرِ جدید،نئی دہلی،۱۹۹۹ء،ص:۸)
(۳)قطرہ قطرہ،سدھا جین انجم،طباعت: خواجہ پریس جامع مسجد،دہلی،۱۹۹۱،ص:۶)
(۴)قدم قدم سراب،سدھا جین انجمؔ،اردو بُک سوسائٹی،نئی دہلی،۲۰۱۱ء،ص:ایک ادبی سفر)
(۵)جین دھرم،مرتبہ: ڈاکٹر وشنو جین،خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ،۱۹۹۴ء،ص:۸)
(۶)تیسری آنکھ،سدھا جین انجم،آزاد بُک ویژن،جموں،۲۰۲۱ء،ص:۲۹)
(۷)تیسری آنکھ،سدھا جین انجمؔ،آزاد بُک ویژن،جموں،۲۰۲۱ء،ص:فلیپ سے)
(۸)شاعری،دیوانگی اور زندگی،سدیا جین انجم ،آزاد بُک ویژن،جموں،۲۰۲۰ء،ص:۳۳)