سیدہ فوزیہ فاطمہ سید زین العابدین
(ریسرچ اسکالر)
نگراں: کیرتی مالنی وٹھل راؤ جاؤلے
ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد
سراج الدین خان آرزو بحیثیت شاعر و نقاد
انگریزی ناقدین ادب نے اپنے یہاں اٹھارہویں صدی عیسوی کو Our Indespensible Eighteenth Century کہا ہے۔ علاوہ دوسری خوبیوں کے اس صدی کو وہاں متفقہ طور پر نثر کی صدی مانا گیا ہے۔ سراج الدین علی خان آرزو اسی صدی کے ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ملک میں انگریزی ادب اپنے پھیلاؤ مقبولیت اور نثری کتابوں کی وجہ سے Our Indespensible Eighteenth Century کا فقرہ ہندوستان کے لیے بھی فارسی ادب کے حوالے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آپ ذرا صدی کے شاعروں اور ادیبوں پر نظر ڈالیے۔ نعمت خان عالی وفات بھی فارسی ادب کے حوالے سے ۱۷۱۱ء محمد افضل سرخوش وفات ۱۷۱۴ء بیغم بیراگی وفات ۱۷۱۹ء مرزا عبد القادر بیدل وفات ۱۷۲۱ء سعد اللہ گلشن وفات ۱۷۲۷ء برکت اللہ عشقی وفات ۱۷۲۹ء رائج سیالکوٹی وفات ۱۷۲۷ء ، شاہ فقیر اللہ آفرین وفات ۱۷۴۱ء آصف جاہ نظام الملک وفات ۱۷۴۸ء آنند رام مخلص ۱۷۵۰ء سراج الدین علی خاں آرزو وفات ۱۷۵۵ء ، والہ داغستانی وفات ۱۷۵۶ء، شیخ علی حزیں وفات ۱۷۶۶ء، واقف رامپوری وفات ۱۷۶۸ء، مرزا مظہر جان جاناں وفات ۱۷۸۱ء، خواجہ میر درد وفات ۱۷۸۵ء، غلام علی آزاد بلگرامی وفات ۱۷۸۵ء، وغیرہ وغیرہ۔
اس فہرست میں نثر نگاروں کے مقابلہ پر شاعروں کے نام زیادہ ہیں کیوں کہ یہ مضمون خان آرزو کی شاعری اوران کی تنقیدی صلاحیت سے متعلق ہے۔ نثر نگاروں کی فہرست مع تعداد کہیں بڑھ جاتی۔ فارسی شاعروں کے تذکرے جتنے اس زمانے میں لکھے گئے، غالباً کسی اور صدی میں نہیں لکھے گئے۔ اسی طرح فرہنگ، تواریخ اور دوسرے علوم و فنون پر بھی وافر تعداد میں کتابیں لکھی گئیں۔ ایک خاص بات اس صدی کی یہ ہے کہ ادبی تنقید کے اثرات جابجا نظر آتے ہیں۔ شعروں کی تعریف تو پہلے بھی کی جاتی تھی لیکن ان کی پرکھ اور معائب و محاسن کا تجزیہ نہیں ملتا تھا۔ خان آرزو کی نگارشات میں اسی ادبی ارتقاء کے آثار نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے وقت کے سربرآوردہ عالم اور ادیب تھے، ان کی ہمہ جہت ادبی خدمات کا احاطہ طویل سے طویل مقالے میں بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ راقم نے اس مقالے میں صرف ان کی شاعری اور شعری تنقید پر کسی قدر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ اس محاکمہ میں بعض ایسی باتوں کی نشاندہی کی جائے جن کی طرف کم توجہ دی گئی ہے۔ اگرچہ انہیں باتوں سے خان آرزو کا اجتہاد اور امتیاز ابھرکر سامنے آتا ہے۔
سراج الدین علی خان آرزو کے علمی و ادبی کارنامے کا اثر ان کے زمانے پر ایسا تھا کہ میر حسن دہلوی جیسے مشہور و معروف مصنف تذکرہ شعرائے اردو ان کے بارے میں حسب ذیل بیان دیتے ہیں:
’’امیر خسرو کے بعد سراج الدین علی خان آرزو جیسا جامع صاحب کمال شخص ہندوستان میں پیدا نہیں ہوا۔‘‘
(میر حسن دہلوی، تذکرہ شعرائے اردو، علی گڑھ ۱۹۲۲، ص ۴۲)
ہمارے تذکرہ نگاروں کا بیان ہمیشہ مبالغہ آمیز ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ جب ہم دوسرے مصنفوں کے یہاں از آدم تا این دم کے زمانی فاصلے پر غور کرتے ہیں تو میر حسن کا بیان جو آدم کے بجائے امیر خسرو سے وقت کو محدود کررہا ہے، زیادہ مبالغہ آمیز نہیں معلوم ہوتا اور اس مبالغہ میں کچھ حقیقت کا عنصر بھی موجود تھا کیوں کہ خان آرزو کم از کم اپنے عہد کے نہایت ممتاز عالم اور زبان دان تھے۔ وہ بیک وقت استاد ، شاعر، مستند محقق اور صاحب نظر نقاد تھے۔ ان کی منظوم اور نامنظوم تصنیفات کی تعداد ہر حال میں چالیس سے کم نہ تھی۔ ان میں سات دیوان، چھ مثنویاں اور تنقید و تشریح و فرہنگ کی کتابیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ ان کا تذکرہ مجموع النفالیس خاصا مشہور و مقبول ہوا ہے۔ انہوں نے جو شرحیں لکھی ہیں ان میں گلستان سعدی کی شرح بعنوان خیاباں، مولانا نظامی گنجوی کی سکندر نامہ کی شرح اور شرح قصائد عرفی نہایت اہم ہیں جن سے خان اُردو کی فارسی زبان سے حیرت انگیز واقفیت کا پتہ چلتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کی ناقدانہ صلاحیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ کیوں کہ انہوں نے جابجا اشعار پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ان کے معائب و محاسن پر بھی نظر ڈالی ہے۔ انہیں فرہنگ نویسی میں بھی کمال حاصل تھا۔ نوادر الفاظ، سراج اللغات اور چراغ ہدایت وغیرہ کے مطالعہ سے آرزو کی قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ غرضیکہ فارسی ادب کے مختلف اصناف موضوعات پر ان کی قدرت و مہارت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم میر حسن دہلوی کے بیان کو یکسر مسترد نہیں کرسکتے۔
خان آرزو کی شاعری سات دواوین پر مشتمل ہے۔ ان میں پہلا دیوان چودہ برس کی عمر سے چالیس برس تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسرا دیوان چالیس برس سے آخر عمر تک کا ہے۔ ان دونوں میں غزلیں، قصائد، مثنویاں، ترکیب بند اور ترجیح بند شامل ہیں۔ ان دودواوی کے علاوہ خان آرزو نے مختلف شاعروں کے دواوین کے جواب میں بھی دیوان ترتیب دیئے تھے۔ جن کی تعداد پانچ تک پہنچتی ہے۔ معلوم نہیں کیوں خان آرزو جیسے عالم اور استاد وقت نے دوسرے شاعروں کے جواب میں دیوان کے دیوان لکھ ڈالے، پھر ان جوابی دواوین کا مقصد بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا وہ دیوان سے دیوان کو ٹکراکر شاعری میں کشتی لڑانا چاہتے تھے یا اُن پر اپنی برتری ثابت کرنا مقصود تھا۔ ا ن میں کمال خجندی اور بابا فغانی جیسے بڑے شاعر بھی تھے۔ ان سے برتری کا کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ ہوسکتا ہے ان سے اپنا دیوان جواباً منسوب کرکے وہ اظہارِ عقیدت کررہے ہوں لیکن اظہارِ عقیدت کے لیے اتنی محنت اور عرق ریزی کرنا اور طویل وقت بھی صرف کرنا کہاں تک قابل فہم ہے جبکہ اظہارِ عقیدت صرف ایک غزل نذرفغانی یا نذر کمال خجندی کرکے یا اپنا پورا دیوان ہی ان کے نام معنون کرکے کیا جاسکتا تھا۔ علامہ اقبال نے تو کمال خجندی کی نظم کا چربہ اتارکر اور اسے اپنے زمانے کے مسائل سے وابستہ کرکے بڑی ذہانت کا ثبوت دیا ۔ یہ نظم ’’قست نامہ‘‘ سرمایہ داروں ، مزدور کے نام سے ان کے فارسی کلام میں شامل ہے۔ بہرحال ان جوابی دیوانوں کے لکھنے سے خان آرزو کے ادبی ذوق اور پسندیدگی کا پتہ چلتا ہے۔ شیخائی اور اطہر شیرازی سے تو میں زیادہ واقف نہیں ہوں ۔ ممکن ہے یہ بزرگوار اچھے شاعر رہے ہوں۔ لیکن سلیم شہرانی کی انتخاب پر میں خان آرزو کی تعریف ضرور کروں گی۔ سلیم شہرانی اگرچہ بابا فغانی یا کمال خجندی کی طرح مشہور شاعر تو نہیں ہوئے لیکن ان کے اعلیٰ درجے کے شاعر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ مندرجہ ذیل شعر سے ان کے زورِ قلم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بصورت تو بنی کمتر آفریدہ خدا
تراکشیدہ و دست از قلم کشیدہ خدا
سراج الدین علی خاں آرزو کی شاعری کے بارے میں ہم بہت زیادہ خوش خیال نہیں ہوپائے۔ تذکرہ نگاروں اوران کے دوسرے شناساؤں نے ان کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہو ہم اس کی تکذیب یا تردید نہیں کرتے۔ ہر زمانے کا اپنا ایک مذاق سخن ہوا کرتا ہے جسے روح عصر کہتے ہیں۔ چنانچہ اٹھاروہیں صدی میں جو ابہام تمثیل نگاری اور خیابانی کا انداز تھا، اسی میں خان آرزو نے مشق سخن کی ہے اور اسی توان کے زمانے میں مستحسن سمجھا جاتا تھا۔ عرفی ثنائی، فیض نظیری، غالب آملی اور کلیم حمدانی وغیرہ ایسے باکمال شاعر تھے کہ انھیں فارسی شاعری کے کڑے سے کڑے انتخاب میں جگہ مل جائے گی۔ لیکن ایرانیوں نے نہ جانے کیوں صائب اصفہانی ہی کو درخود اعتنا سمجھا جبکہ صائب نے خود ان لوگوں کی برتری کا اعتراف کیا ہے۔
صائب چہ خیال است شوی ہمچو نظری عرفی بنظیر نرسانید سخن
لیکن حق بات یہ ہے کہ ایرانی تعصبات یکسر غلط بھی نہ تھے اور نہ ان کی بعض ناپسندیدگیوں کو تعصب کا نام دیا جاسکتا ہے۔ خراب شاعری ہر جگہ خراب مانی جائے گی ۔ اس میں ایرانی تورانی اور ہندوستانی کی تفریق کرنا غلط ہے۔ خان آرزو نے شاید نوے فیصدی ایسی شاعری کی ہے جس میں سبک ہندی کے معائب تو موجود ہیں، محاسن کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔ ان کے چند اشعار مثال میں درج کیے جاتے ہیں جنھیں میں نے بہترین نمونہ سمجھ کر اپنے مضمون میں شامل کیاہے۔
گرائے لیلیٰ گریباں چاک زد مجنوں مکن عیش
بعرض لاغر یہا از خودت آگاہ می سازد
اے لیلیٰ اگر مجنوں نے اپنا گریباں چاک کرلیا تو اسے عیب مت سمجھ
وہ تو بیچارہ اپنے بدک کی لاغری ناتوانی کو تجھے دکھلانا چاہتا ہے
اس شعرمیں ایک گھسی ہوئی پرانی تلمیح کے ذریعے صنعت سخن تعلیل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی غزل کا دوسرا شعر دیکھئے۔
دہد وا ماند گیہا طوبی ایام ہجران را
زرفتن راہرو عمر سفر کوتاہ سازو
خان آرزو کہتے ہیں کہ پڑارہ جانے سے جدائی کا زمانہ بڑھ جاتا ہے اور چلتے رہنے سے مسافرت کا وقت کم ہوجاتا ہے۔ یہ شعر صائب کی تمثیل نگاری کے تتبع میں کہاگیا ہے۔ یہ شعر پہلے والے شعر سے بہتر ہے۔
زخیر جاری چشم ترم غافل بناید شد
براہ کعبۂ مقصود شوقم چاہ می سازد
میری چشم تر کے آنسوئے خیر جاری ہیں۔ ان سے بے خبر نہ رہنا۔ یہ علمائے دین کے بقول صدقۂ جاریہ کی طرح ہیں کیوں کہ ان آنسوؤں سے کعبہ مقصود کے راستے میں کنواں بن گیا ہے جن سے عوام الناس کو فیض ملتا رہے گا۔
اس غزل کا چوتھا شعر ہے۔
ولم بازیچۂ طعلیست در این خاکدان گوئی
کہ گاہی مکیند اور خراب و گاہ می سازد
یہ شعر ہر اعتبار سے اچھا ہے کیوں کہ اس میں پرانے عاشقانہ مضامین کو مصنوعی انداز اور پامال صنعتوں کے ساتھ نہیں پیش کیاگیا ہے۔ بلکہ انسان کی حقیقی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس دنیا میں میرا دل بچے کا کھلونا بن گیا ہے۔ کبھی وہ اسے بگاڑ دیتی ہے اور کبھی بنادیتی ہے۔
مذہب کے نام پر کاروبار کرنے والے لوگوں اور تنگ نظر ملاؤں سے خان آرزو کو انقباض رہتا تھا۔ اس سلسلے میں ان کے شعر خاصے دلچسپ ہیں۔
شیخ ممنونت شوم گردا جام صہبامی خوری
رد مکن امروز چیزی راکہ فردامی خوری
شیخ صاحب بڑی عنایت ہوگی اگر آپ شراب کا ایک جام نوش فرمائیں۔ یہ شغل کل جنت میں جب آپ کو کرنا ہے تو آج اس پرہیز آپ کیوں کررہے ہیں۔
خان آرزو بڑے روشن خیال اور برل قسم کے آدمی تھے۔ ان کے زیادہ تر احباب ہندو تھے جن میں ٹیک چند بہار، بندرابن داس، خوشگوار آنند رام مخلص جیسے رؤساء اور منصب دار شامل تھے۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔
بود ترانۂ رندانہ آرزد اینجا
بزم مانہ نشۂ است نقش ملائی
یہ قابل لحاظ ہے کہ آرزو سے کہیں بہتر شاعر ان کو اپنا استاد مانتے تھے اوران سے اپنے شعروں پر اصلاح لیتے تھے۔ آنندرام مخلص جو تیموری سلطنت کے بڑے عہدہ دار اور رئیس تھے اور خان آرزو کے سرپرست بھی تھے، اپنے شعروں پر ان سے اصلاح لیتے تھے۔
آرزو کے زمانے میں فارسی کے بہت اچھے شاعر موجود تھے جنہیں مولانا شبلی نے اپنی مشہور تصنیف شعر العجم میں نظرانداز کیا ہے۔ ایرانی رعب میں آکر انہوں نے بیدل جیسے عظیم شاعر کو اپنی مندرجہ بالا کتاب سے خارج کردیا تو پھر دوسرے شاعروں کا کیا ذکر۔ شیخ علی حزین، والہ داغستانی اور واقف لاہوری جیسے شاعروں کا کلام ہندوستان کی اعلیٰ درجہ کی شاعری میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان لوگوں کے بہت سے اشعار زبان زد خلائق ہوچکے ہیں۔ شاعروں کی اس کہکشاں میں خان آرزو ایک دھندلے ستارے کی طرح نظر آتے ہیں۔ تاہم انہیں جو شہرت و عزت حاصل ہوئی وہ ان میں سے کم لوگوں کو نصیب ہوئی۔ اس کی ایک کھلی ہوئی وجہ تو یہی ہے کہ ان کی نثری تصانیف کا درجہ بہت بلند ہے جس میں فرہنگ نویسی ، تذکرہ نگاری اور شرحیں ملتی ہیں۔ اس لیے مجموعی حیثیت سے وہ اپنے زمانے کے زبردست عالم اور زبان دان مانے جاتے تھے لیکن اس حقیقت کو کیا کیجیے کہ عالم اسی مرتبہ کا شاعر نہیں ہوپاتا بلکہ اکثر علم کی سنجیدگی ، توازن اور تحقیق، شاعری کو نقصان بھی پہنچادیتی ہے۔ ویسے یوں بھی خان آرزو شاعرانہ مزاج نہیں رکھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے جذبہ اور جوش کے بجائے سوچ سوچ کر شاعری کی ہے۔ نثر میں ان کا قلم پورا جوہر دکھاتاتھا۔ انہوں نے عظیم ایرانی شعراء کی شرحیں جس ژوف نگاری سے لکھی ہیں اس سے اہل ایران بھی مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ ہوئے ہیں اور آج ان شرحوں کی قیمت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کیوں کہ بعد زمانی کی وجہ سے موجودہ ایرانی بھی کلاسیکی شاعری کے ایک سربرآوردہ شاعرشیخ علی حزیں کے دبدبہ میں نہیں آئے۔ شیخ شاعر ہی نہیں تھے بلکہ اپنے وقت کے بڑے عالم، فاضل بھی تھے۔ اہل زبان تھے اور ہندوستانی ادیبوں کی کافی سپورٹ انھیں حاصل تھی۔ خان آرزو اور شیخ علی حزیں کا ادبی معرکہ خاصی شہرت رکھتا ہے۔ اس کی ابتداء اس وقت ہوئی جب حزین نے ہندوستان کے عظیم شاعر بیدل کے لیے تمسخرانہ انداز میں یہ کہا کہ ان کے شعر اگر اصفہان میں پڑھے جائیں تو انھیں کوئی نہ سمجھے گا۔
حزیں کا بیدل پر حملہ جان لیوا تھا۔ خارج آہنگ ہونے کے باوجود بیدل کے پرستاروں کی تعداد ہندوستان میں بہت تھی اور وہ انہیں اپنے وطن کی آبرو سمجھتے تھے۔ ان کی شاعری پر اتنا سخت اعتراض بیدل دوستوں کے لیے معمولی توہین نہ تھی ۔ چونکہ اس اعتراض میں کچھ حقیقت بھی تھی، اس لیے ہندوستانی ادیب چپ رہے بلکہ ان میں کچھ نے حیں کی ہی ہمنوائی کی۔وہ لوگ خود بھی لکیر کے فقیر تھے اور شعری زبان میں توڑ پھوڑ کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔ شیخ نے جب اس روس پر بیدل کی گرفت کی تو مخالفین بیدل کو اور تقویت ملی۔ عربی اور فارسی کے مشہور شاعر اور تذکرہ نگار مولانا آزاد بلگرامی (وفات ۱۷۸۵ء)لکھتے ہیں:
’’مرزا زبان فارسی چیزہای غریب اختراع نمودہ کراہل محاورہ قبول نہ دارند۔ بلی قرآن کہ کلام خالق السند است۔ سررشۂ موافقت زبان درست دارد۔ اگر اختراعی خلاف زبان داشت فصحای عرب قبول نمی کردند۔ غیر فارسی اگر تقلید زبان خاری کندبی موافق اصل چگوند مقبول اہل محاورہ تواند شد۔‘‘ (آزاد بلگرامی ، خزانۂ عامرہ،ص ۱۵۳)
اسی طرح فارسی کے عالم شعراء امام بخش صہبائی (وفات ۱۸۵۷ء) نے بھی حزیں اور آزاد کی رائے سے اتفاق کیا تھا۔ صہبائی، حزیں اور آزاد کی رائے کسی حدتک درست تھی۔ لیکن اس پر کسی نے توجہ نہ دی اور خود حزیں بھی اس نازک سوال کو نہ سمجھ سکے۔ آج ہم سمجھ چکے ہیں کہ بیدل فارسی میں اسی حدتک ناقابل فہم تھے جس حدتک غالب اُردو زبان میں تھے۔ غالب ہی کے مخالفین کی طرح بیدل کے ہمعصروں نے ان کی فارسی شاعری پر اعتراضات کیے اور اسے خارج آہنگ قرار دے دیا۔
خان آرزو کی علمیت اور ادبی مہارت کا اندازہ اس موقع پر ہوتا ہے کہ روایتی شاعری ہوتے ہوئے انہوں نے روایت شکنی کی ہمت افزائی کی اور اس پر اعتراض کو صحیح نہیں سمجھا اور اس طرح حیرت انگیز تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا۔ یہ ایسا نازک وقت تھا جب ہوا بیدل کے خلاف ہوگئی تھی۔ اور مشرب گوسفندان رکھنے والے ادیب ان کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے، لیکن خان آرزو نے ان لوگوں کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور نہ صرف بیدل کی پر زور مدافعت کی بلکہ حزیں کی شاعری پر کاری ضرب لگائی۔ یگانہ چنگیزی نے ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ شعر کہا ہوگا۔
زمانہ لاکھ گم ہوجائے آپ اپنے اندھیرے میں
کوئی صاحب نظر اپنی طرف سے بدگماں کیوں ہو
’’چون مرزا از قدرت تصرفات نمایاں درفارسی نمودہ مردم ولایت وکاسہ لیسان اینہا کہ درہند اندور کلام این بزرگوار سخنہادار ندوفقیر در صحت تصرف صاحب قدرتانِ ہند ہیچ سخن ندارد۔‘‘ (ص ۱۵۳۰)
فارسی تذکرہ نگاروں کے مبالغہ آمیز بیانات اور فرسودہ خیالی کے پس منظر میں خان آرزو کی یہ عہد آفرین عبادت بھی ابھی تک اپنی شناخت اور قدروقیمت سے محروم رہی ہے۔
خان آرزو کا شیخ علی حزیں اوران کے معاونین کے لیے مردم ولایت اور ان کے ہندوستانی پیالے چاٹنے والوں کے الفاظ کااستعمال اور صاحب قدرت کا زبان کو توڑکر نئے افکار اور گہرے مشاہدات کے ابلاغ کو جائز قرار دینا ہمارے ادب کی تاریخ میں ایک ایسا موڑ ہے جہاں روایت سے بغاوت کے آثار صاف نظر آتے ہیں۔ خان آرزو کے بدلے ہوئے انداز نظر اوران کی بے لاگ تنقید سے فضا بدل گئی اور بہت سے ادیبوں نے حزین کے متعصبانہ رویے کی مذمت کی یہاں تک کہ حزین کے دوست اور ہم وطن والہ داغستانی نے بھی حزیں کا ساتھ چھوڑدیا اور خان آرزو کے بیان کا خیرمقدم کیا۔ دالہ داغستانی لکھتے ہیں:
’’عموماً اہل این دیار را ازباد شاہ امراء وغیرہ ہجوہاں رکیک کہ شایان شان شنخ بنود۔ ہر چندادرا از ین ادائی زشت منع کردم فائدہ نہ بخشید و تال حال درکار است۔ لابدپاس نمک بادشاہ حق صحبت امراء و آشنایان بیگناہ گریبان گیر شدہ ترک آشنائی و ملاقات آن بزرگوار نمودہ این دیدہ رانادیدہ انگاشتم۔ آفرین بخلق کریم و کرم عمیم این بزرگان کہ باکمال قدرت در دصدرِ انتقام برنیامدہ بیشتر از بیشتر دررعایت احوالش خودرا معاف نمی دار نداین معنی زیاہد موجب خجلت عقلائی ایرانی کہ درین دیار بہ بلائی غریب گرفتار اندمی شود۔‘‘ (ص۴۳۶)
’’اپنے اس بیان کے ثبوت میں دالہ داغستانی نے تفصیل سے سراج الدین علی خان آرزو کے اعتراضات درج کیے ہیں جو انہوں نے حزیں کی شاعری پر کیے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ خان آرزو کے اعتراضات سے والہ داغستانی کو اتفاق تھا ورنہ انہیں وہ قابل اعتنا نہ سمجھتے اوران کا اقتباس اپنی کتاب میں نہ دیتے۔ والہ داغستانی جیسے ایرانی شاعر اور ادیب کے اس بیان سے بہت ہندوستانی ادیبوں کا احساس کمتری ختم ہوا اور شیخ علی حزیں کے حلقے کے بہت سے ادیب بھی خاں آرزو کی طرف آگئے اور حزیں کی شاعری پر کڑی تنقید کی۔‘‘ (محمد عظیم ثابت، صفحہ نمبر ۴۴)
حزیں کے پانچوں شعر منتخب کرکے یہ ثابت کیا کہ انہوں نے دوسرے شاعروں کے یہاں سے مضامین اٹھاکر اپنے شعروں میں ڈھالے ہیں۔ لیکن سب سے کاری ضرب حزیں پر خان آرزو ہی نے لگائی ۔ افسوس ہے کہ اہل ولایت کے کالسہ سیوں کے ہجوم نے خاں آرزو کی آواز کو عرصے تک دبائے رکھا تاکہ آنکہ مرزا غالب نے خاں آرزو کی آواز میں آواز ملائی اور ہندوستانی شاعروں کی تضحیک کرنے والوں کو ہلکارا۔ غالب نے خود لفظوں کے توڑ مروڑ سے اُردو شاعری میں روشن دان بنائے تھے۔ اور انجان علاقوں کی روشنی اور گرمی اپنی اُردو شاعری میں لے آئے تھے لیکن فارسی میں ان کا اندازہ بالکل دوسرا تھا۔وہ ایرانی اساتذہ کے پیچھے پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے اور اس سے انحراف کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ پوری مثنوی بادِ مخالف اس کی گواہ ہے جس میں صاف صاف انہوں نے لکھا ہے:
دامن ازکف کنم چگونہ رہا
طالب و عرفی و نظیری را
خاصہ روح و روان معنی را
آن ظہوری جہان معنی را
آن کہ از سرفرازی قلمش
آسماں ساست پرچم علمش
طرزِ اندیشہ آفریدۂ اوست
درتن لفظ جاں دمیدۂ اوست
لیکن اس احتیاط اور زبان اور محاورہ میں ایرانی تقلید کے باوجود وہ ہندوستانی شاعروں کی توہین کو برداشت نہیںکرتے تھے بالخصوص اگرکسی ایرانی کی طرف سے ہو، اس کی وجہ یہ تھی کہ اٹھارہویں صدی میں خاص طور سے فارسی شاعروں کی تعداد تو بڑھ گئی لیکن ان کی قدرومنزلت خاصی گھٹ گئی تھی۔ یہاں تک کہ غالب کے زمانے میں انہیں بالکل شیڈول کاسٹ کا درجہ دے دیا تھا۔ یہ تھی وہ غلامانہ ذہنیت جس کے خلاف خان آرزو نے برہم ہوکر حزیں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا اور اسی ذہنیت کے خلاف مرزا غالب کا بھی شدید ردعمل ایک غزل میں نظر آتا ہے جس کے اقتباس پر یہ مقالہ ختم کیا جارہا ہے۔
ایکہ راندی سخن از نکتہ سرایانِ عجم
چہ بما منت بسیار نہی ازکم شان
ہندرا خوش نفسا نند سخنور کہ بود
بااد در خلوت شاں مشک فشاں ازدم شاں
موممن نیر و صہبائی و علوی و انجگاہ آنگاہ
حسرت و اشرف و آزردہ بوداعلم عیاں
غالب سوختہ جان گرچہ نیرزد شمار
ہست دربزم سخن ہمنفس و ہمدم شاں