ڈاکٹرامتیاز عبدالقادر
سینٹرفار ریسرچ اینڈپالیسی اسٹڈیز ،بارہمولہ،کشمیر
سرسیّد کاتصورفطرت
سرسید احمد خان ؔکے فکر کی اساس یہ ہے کہ وہ اسلام کو دینِ فطرت اورمطابق عقل مانتے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ قرآن خداکاقول ہے اورفطرت خدا کافعل۔خدا کے قول و فعل میں تضاد ہوہی نہیں سکتا۔ قبل ازیں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۷۰۳ء تا ۱۷۶۲ء) نے اپنی مشہور تصنیف ’حجتہ اللہ البالغہ‘میںاسلام کودین فطرت قراردیا تھا ۔ شاہ ولی اللہ سے بھی بہت پہلے جب یونانی فلسفے نے اسلام پر یورش کی تھی توعلماء کے ایک گروہ نے ،جوکہ بعدازاں معتزلہ کے نام سے مشہور ہوا،اسلام کوعقل کی کسوٹی پرکھرا ثابت کرکے اس یورش کامقابلہ کیا۔ارنسٹ رینان (Ernest Renan{1823-1892}) نے جب یہ دعویٰ کیاکہ اسلام کی تعلیمات جدیدسائنس وعلوم کے مخالف ہیں تو سیّد جمال الدین افغانی (1838-1897) نے اس سے نہایت فاضلانہ مباحثہ کیا اوراپنے تبحّرُ علمی کاسکہ یورپی مستشرقین پربٹھادیا ۔اور رینانؔ نے ان مضامین کو بہت سراہا۔یہی کام انیسویں صدی میں سرسیدؔ نے ہندوستان میںانجام دیا ۔ انہوںنے بھی مستشرقین کے اعتراضات اورحملوں کواپنے علم اورمحنت سے رد کیا، بقول حالیؔ :
’’اس نے جب دیکھاکہ انگریزی تعلیم سے کسی طرح مسلمانوں کومفرنہیں تواپنی عمرکاایک تہائی حصّہ اسلام کوانگریزی تعلیم کے مضر نتائج سے بچانے میں صرف کیا ‘‘۔(حیات جاوید ،ج۲۔ص ۱۳۴)
بلاشبہ سرسیدؔ نیک نیت تھے اور وہ دین اسلام کو چوطرفہ حملوں سے حفاظت کرناچاہتے تھے۔ مگر اسلام کو مطابق فطرت ومطابق عقل ثابت کرنے کی دُھن میںوہ حد سے تجاوزکرگئے ۔مثلاً شیطان اورفرشتوں کوتمثیل قراردینا،جنت وجہنم کواستعارہ ،جزاوسزا ان کے نزدیک روحانی کیفیتوں کانام ہے۔حضرت عیسی ؑ کا اللہ کے اذن سے مُردوں کازندہ کرنا،آسمان سے منّ وسلو ٰ ی اترنا ، فرعون کادریائے نیل میں غرق ہونااورموسی ؑ کابچ کرنکلنا علاوہ ازیں حضرت موسی ؑ کاکلیم ہونا اوراُن کے عصا کااژدھابن جاتا…. یہ وہ باتیں تھیںجنھیں سرسیدؔ ان کے ظاھری معنی میںقبول نہیںکرتے بلکہ ان سے وہ معنیٰ اخذ کرتے ہیں جوقرینِ عقل ہوںحالانکہ عقل کی اپنے کچھ حدودہیں۔وہ بھول گئے کہ عقل کے نظریات ہرلحظہ متغیر ہیں۔محسن الملکؔ نے ایک دفعہ سرسیدؔ مرحوم سے کہاتھا کہ اگرفلسفہ یاسائنس کل کسی نظریے کورد کرکے کوئی دوسرا نظریہ پیش کردے توکیاآپ نئے سرے سے تفسیر لکھیں گے۔
ڈاکٹر ظفرحسن نے اپنے تحقیقی مقالے’’سرسیدؔ اورحالیؔ کاتصور فطرت ـ‘‘میںیہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرسیدؔ کی تہذیبی اوراصلاحی کاوشوں کاسارا نقص ان کے تصور فطرت میں مضمر تھا اوروہ بھی بالخصوص اس سبب سے کہ وہ مغرب کے اُس تصور فطرت کے گرویدہ تھے جو گزشتہ تین چارصدیوں میںانسانی زندگی اورکائنات کی تشریح وتعبیر کاسب سے بڑا وسیلہ سمجھ لیاگیا تھا،لکھتے ہیں:
’’سرسیدؔ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے مغربی افکار کومسلمانوں سے قبول کروانے کی خاطر مہم چلائی اورایک منظم تحریک کی بنیادڈالی ….. سرسید ؔ کی تمام خیال آرائیوں کی بنیاد دولفظوں پرتھی، ایک تو،فطرت ،اوردوسرے ،عقل فطرت کوانہوں نے خصوصیت کے ساتھ ہرچیز کامعیار بنایا تھا۔ اتنی بات یہیں عرض کرتے چلیں کہ انسانی تاریخ کی تمام دینی روایتوں اورتہذیبوں میںفطرت کے معنی ایک ہی رہے ہیں اوریہ وہ معنی ہیں جوسرسیدؔ کی نیچر سے مطابقت نہیں رکھتے ۔صرف یورپ ہی ایک جگہ ہے جہاںفطرت کے ایک دوسرے معنی پہنائے گئے ہیں اوریورپ میںبھی اس سلسلے کاآغاز بہت دیرمیں یعنی سولہویں صدی میںہوا اوریہ رجحان اپنے عروج کوانیسویں صدی میںپہنچا‘‘۔(سرسیدؔ اورحالی ؔ کاتصورفطرت ۔ص ۱۱۶)
حالانکہ ابولکلام قاسمیؔ فاضل معترض کی اس بات پراعتراض کرتے ہیں۔ اُن کامانناہے کہ جہاں تک سرسیدؔ کے تہذیبی شعور کاسوا ل ہے تواسے صرف تصورفطرت کازائید ہ قراردینادرست نہیں۔ تصور فطرت کی مغربی روایت میںسرسیدؔ نہ تو ڈیکارٹؔ (متوفیّٰ ۱۶۵۰ء) کوقبول کرتے ہیں، نہ ہابسؔ (۱۶۷۹ء) کواورنہ نیوٹنؔ اوراس کے بعد کے دوسرے مادیت پرست سائنس دانوں کو ۔سرسید ؔ اگرکسی ایک فطرت پرست کو اپنے تصور تہذیب ومعاشرت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کسی حد تک مثالی نمونہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تووہ جان لاک ؔ (Locke) ہے، جواپنے عہد کے مفکروں اورسائنس دانوںسے الگ اورمختلف بھی ہے اور مادّے کو ماورائیت سے ہم آہنگ کرنے کاتاثر دینے کے باعث سرسیدؔ کے مذہب پسندذہن کے ایک سہارے کاکام بھی دے سکتاہے۔
ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے اس نیچریت اورمادّیت کواستحکام بخشنے اورمدلل ومنظّم علمی نظریہ کی حیثیت دینے میں سب سے بڑھ کر حصّہ لیا۔اس کی کتاب ’’اصل الانواع‘‘ (Origin of Species) سرسیدؔ کے انگلینڈ جانے سے دس سال قبل۱۸۵۹ میں شائع ہوچکی تھی اوراس کتاب نے سرسیدؔ کے فکروخیال میں انقلاب بپاکردیا۔ ڈارونؔ نے ایک ایسے طریق استدلال سے جوانیسویں صدی کے سائنٹفک دماغوں کے نزدیک استدلال کااکمل ترین طریقہ تھا، اس نظر یہ پرمہر تصدیق ثبت کردی کہ کائنات کاکاروبار خداکے پیغمبر بغیرچل سکتاہے ۔ آثارومظاہر فطرت کے لئے خود فطرت کے قوانین کے سوا کسی اورعلّت کی حاجت نہیں ،زندگی گے ادنیٰ مراتب سے لے کراعلیٰ مراتب تک موجودات کاارتقاء ایک ایسی فطرت کے تدریجی عمل کانتیجہ ہے جوعقل وحکمت کے جوہرسے عاری ہے ۔انسان اوردوسری انواعِ حیوانی کوپیدا کرنے والا کوئی صانع حکیم نہیںہے بلکہ ایک جاندار مشین جوکبھی کیڑے کی شکل میںرینگا کرتی تھی، تنازع بقاء صلح اورانتخاب طبیعی کے نتیجہ کے طورپر ذی شعور اورناطق انسان کی شکل میں نمودارہوگئی ۔
یہی وہ فلسفہ اورسائنس ہے جس نے مغربی تہذیب کوپیداکیا۔ اس میںنہ کسی علیم وقدیر کاتصور ہے اور نہ نبوّت اوروحی والہام کی ہدایت کاکوئی وزن، سرسیدؔ نے انسان کی تخلیق سے متعلق ڈارونؔ کے نظریۂ ارتقا ء کوقبول توکیا لیکن اپنے اصول’’ورک آف گاڈ‘‘(Work of God) اور ’’ورڈ آف گارڈ ‘‘(Word of God) پراٹل رہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہم اس بات کوبھی نہ مذہباً اور علماً ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کی مختلف قومیں،ایک ہی آدم کی نسل سے ہیں…..اس زمانے میں کہاجاتا ہے کہ ابتدا میں ہرایک نوع حیوان کے پیدا کرنے کے لئے نیچر نے ایک ہی شئی جاندارپیدا کی اوراس کی جسمانی اورذہنی حالت نے ایک ترقی یافتہ حالت پیداکی، رفتہ رفتہ وہ اعلیٰ درجے پر پہنچ گئی۔ مثلاً حیوانات میںسے جس نوع میںبندرکوداخل کیا وہ ترقی،وران،وتان اورابیشیکوس بندروں تک ترقی کر گئی اورپھروہ ترقی کرتے کرتے انسان کی حالت میں پہنچ گئی…..اگرہم اس مسٔلے کوبھی مان لیں توہمارے اصول مذہبی میںجوہم قرآن مجیدسے پاتے ہیں کچھ نقصان نہیں آتا،کیونکہ قرآن مجیدمیںوہ حیوان مخاطب ہے جوانسان کی صورت میں آیاتھا گوکہ وہ کسی طرح پرآیاہو۔
انسان ابتدا میں نہایت ادنیٰ حالت میں تھا مگر ترقی کامادہ جوخدانے اس قسم کے حیوان یااس قسم کے بندر یاآدم کودیاتھا اس میںموجود تھا۔پھر رفتہ رفتہ …..ترقی ہوتی گئی، یہاں تک کہ وہ اس درجہ ترقی پرپہنچا ہے جس پروہ آج ہے اورمعلوم نہیںکہ ابھی کس حد تک ترقی کرنی باقی ہے۔اس پر قیاس ہوسکتاہے کہ آدم ؑ سے کس قدر طویل زمانہ گزرنے کے بعدحضرت نوح ؑ کوکشتی بنانے کافن آیاہوگا‘‘۔(مقالات سرسیدؔ جلد ۴۔ص ۴۷۔۴۱)
پاکستانی محقق بشیراحمدڈار کے بمطابق سرسیدؔ نے انیسویں صدی کے نیچری سائنسدانوں کے اصول کی طرف تنقیدی رویہ اپنائے بغیر اس کوقبول کرلیاتھا اوریقینا سرسیدؔ کے اسی رویے نے سیدجمال الدین افغانی ؒ کوانھیں نیچری اور دہریہ کہنے پرآمادہ کیاتھا۔ مزیدبراں سرسیدؔ کایہ رویہّ حقیقی نہیں تھابلکہ ظاہری تھا جس کامقصد ان تعلیم یافتہ نوجوانوںکے درمیان اسلام کوفطری ثابت کرنا جواس فلسفے کے دام میں پھنسے ہوئے تھے۔آگے چل کروہ کہتے ہیں کہ فلسفیانہ طورپرسرسیدؔ ایک عقل پرست (Rationalist) نہیں تھے ،اسی لیے وہ جس عقل (Reason) کی بات کرتے تھے وہ تجریدی (Abstract) اور غیر بدیہی (Discursive) نہیں تھی بلکہ وہ تجربی تھی ۔ اسی بنیاد پربشیر احمدڈار سرسیدؔ کی عقلیت کوعمومی فہم (Common Sense) کی عقلیت کی اصطلاح دیتے ہیں۔ڈاکٹرسیدعبدالباری ؔ رقمطراز ہیں:
’’سرسید یورپ میں عقلیت ونیچر کاوردکرنے والے فلسفیوں کی حقیقت کونہ سمجھ سکے کہ یورپ میں خداپرستی اورنیچریت ۱۷ویں صدی میں ضرور ساتھ ساتھ چل رہی تھی اورکیپلرؔ ،گلیلیوؔ اور نیوٹن وغیرہ خدا کے منکر نہ تھے مگر بہرحال وہ خداسے قطع نظران قوتوں کوتلاش کررہے تھے جواس دنیا کے نظام کوچلارہی ہیں‘‘۔( بیسویں صدی کے اردوادب کاجائزہ ….ص ۷۹)
اٹھارویں صدی میں بقول مولانا سیدابولاعلیٰ مودودیؒ یہ حقیقت نمایاں ہوگئی کہ جوطریق فکرخدا کونظرانداز کرکے نظام کائنات کی جستجو کرے گا وہ مادیت ، بے دینی اورالحادتک پہنچے بغیر نہیںرہ سکے گا۔ چنانچہ پریسٹلے ؔ ،والٹئیرؔ ،روسوؔ نے یاتواعلانیہ خداکاانکارکیا یااگرتسلیم کیا توایسے وجودکی طرح جوکائنات بنانے کے بعدگوشہ نشین ہوگیاہے۔پھر انیسویںصدی کے آتے آتے خداپرستی اورنیچریت کے درمیان مصالحت کی کوششیں بھی ترک کردی گئیں۔ اورمادیت اپنے کمال کوپہنچ گئی۔فلسفہ میںتجربیت اورافادیت پرستی کامکمل دوردورہ ہوا۔ اسپینسرؔ نے نظام کائنات کے خودبخود پیداہونے کانظریہ پیش کیااوریہ خیال پختہ ہوتاگیا کہ جوکچھ روئے زمین پرہے خودبہ خود وجودمیں آگیاہے۔ڈارونؔ کے نظریہ نے نیچریت ومادیت کومدلل ومنظم علمی نظریہ بنانے کی کوشش کی ۔ اوراس پرایمان تھاکہ حیوان وانسان سب مشین ہیں جوطبعی قوانین (Laws of Nature) کے تحت چل رہی ہیں۔ انیسویںصدی میں سرسیدؔ مغرب کے جس فلسفے اورسائنس سے واقف ہوکراس کے معتقدہوئے ،وہ یہی تھا ۔چنانچہ اس کانتیجہ یہ سامنے آیا کہ تشکیک کے امراض میں اس عہدکے نوجوان بُری طرح مبتلا ہونے لگے اورمغربی تہذیب انہیں اسلام سے منحرف کرنے لگی، مزیدبراں اسلام میںبنیادی ردوبدل پرانہیں آمادہ کرنے لگی۔
سرسیدؔ سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی کہ عقل ونیچرکی میزان پراس طرح مذہب کوتولنا شروع کیا کہ وہ باتیں جوعقائد کاجُز ہیں اورجن کامابعدالطبعی دنیاسے تعلق ہے ،ان کے لئے سوالیہ نشان بن گئیں۔ مولانا قاسم نانوتویؔ (بانی ومہتمم دارالعلوم ،دیوبند) جوکہ سرسیدؔ کی دیگرخدمات کوبے حد قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے ،سرسیدؔ کومشورہ دیتے ہیں کہ قرآن کی آیات میںجوچیزیں ان کوخلاف واقعہ نظرآتی ہیں،وہ خودان کے نقص عقل کی علامت ہیں،جسے وہ دورکریں۔ سرسیدؔ کویہ احساس نہ تھا کہ وحی وکتاب اللہ کی طفلانہ اندازسے تاویل وتوجیہہ سے اسلام کے مستحکم فکری نظام کووہ نقصان پہنچارہے تھے۔ اگروہ معتزلہ سے شاہ ولی اللہ تک اسلامی مفکرین کی حدودمیںاسلام اورعقل ونیچر میںمطابقت کی کوشش کرتے توشایدانہیں نیچری ہونے کاطعنہ نہ دیا جاتا ۔ سرسیدؔ نے اپنے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعہ سبھی غیر عقلی اورغیرافادی رسوم کوترک کرنے کامشورہ دیا اورسبھی مروجہ رسموں کی عقلی چھان بین کی ،یہ سچ بات ہے کہ اُس دورمیں ہندوستان کے مسلمان رسمِ بد میںپھنس کررہ گئے تھے اورتوہم پرستی بھی عروج پرتھی لیکن سرسیدؔ نے جاہلانہ رسوم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے کچھ پختہ عقائد کوبھی نشانہ بناناشروع کیا ،بقول حسن عسکریؔ :
’’انہوں نے بقا کے راستے کوپہچانا ،ہمیں ان کی عظمت تسلیم، مگر بقاکے یہ معنی نہیں کہ نئے خیالات میں اپنے آپ کواس طرح بدلیںکہ اپنی اجتماعی شخصیت باقی نہ رہے ۔اصلی بقا تووہی ہے کہ قوم کی تخلیقی صلاحیتیں بھی نہ مریں اورانفرادی شخصیت بھی برقرار رہے۔ حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں ان لوگوں سے ایسی غلطیاں سرزدہوئیں جس کاخمیازہ اب تک بھگتنا پڑرہاہے‘‘۔(انسان اورآدمی ۔ص ۱۲۴)
عقیل احمد صدیقی کے الفاظ میںعقلی تجربیت پسندی کے وسیلے سے حاصل علم کی صداقت ہمیشہ ناپائدار ہوتی ہے۔ سرسیدؔ اس تفہیم میںناکام رہے کہ کلچرل مظاہر اصلاً نشانات ہیں جن کی پُشت پرتصورات کاایک نظام ہوتاہے جن کی مدد سے کسی سماج میں موجود وضعی پیچیدگیوں کاتجربہ ویقین ممکن ہوتاہے۔ بہت سے ثقافتی مظاہر غیرعقلی ہونے کے باوجود اس لئے کارآمد ہیںکہ ان کی حیثیت تصورات کی ہے اوریہ کسی قسم کی شناخت کاوسیلہ ہوتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ پروفسیر ابوالکلام قاسمیؔ کے الفاظ میںسرسیدؔ کے تہذیبی تصورات کے جائزے کے وقت ان کے زمانے کی غیرمعمولی صورت حال ،مسلمانوں کی اجتماعی ہزیمت اوربے یقینی کے احساس جیسے تناظر کونظرانداز نہیں کرناچاہیے اور انہوں نے یورپ کی عقلیت پرستی اور فطرت پرستی کی حمایت میںیقینا اس حدتک جانے سے گریز کیاجس نے مغرب کے انکار اورالحاد کی حدتک پہنچادیاتھا ۔سرسید ؔ نے اسلام کے سلسلے میں قائدانہ کے بجائے معذرت خواہانہ اندازاختیار کیااوردشمنانِ اسلام کے اعتراضات پراسلام کی واضح موقف میں لچک پیدا کرتے گئے۔ غرض سرسیدؔ مرحو م کی رہنمائی میں تعقل اورفطرت پسندی کی طرف خاص میلان ہوا۔توہمات اور تصنع کی دنیاسے نجات حاصل کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ سرسیدؔ کے رفقا میںمحسن الملک ریفارمیشن کے بڑے مویّد تھے لیکن وہ اس حدتک جانے کوتیار نہ تھے جہاںتک سرسید ؔجاناچاہتے تھے ۔سرسیدؔنے انگریزوں کے ساتھ کھاناشروع کیاتوانہوں نے اسے ناپسند کیا اورجب سرسید ؔ نے ’’تبئین الکلام‘‘ لکھی تو محسن الملک ؔ نے اس کتاب میں موجود بہت سے خیالات سے اختلاف کیا۔سرسیدؔ نے نرمی سے ان کوجواب دیا کہ ’’اب تنقید کازمانہ نہیں،عقل ودانش سے کام لینے کاوقت ہے‘‘۔
اکبر الہ آبادیؔ نے بھی سرسیدؔ اورعلی گڑھ کے بعض پہلوؤں کومذہب کی بیخ کنی سے تعبیردیاہے ؎
نظر ان کی رہی کالج کے بس علمی فوائد پر
گر ا لیں چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر
قابلیت توبہت بڑھ گئی ماشاء اللہ
مگرافسوس یہی ہے کہ مسلمان نہ رہے
انیسویں صدی میں بہت سے روشن خیال یہ تصور کرتے رہے کہ مغرب کے مادّہ پرست تہذیب میںمشرقی روایات کی کچھ پیوندکاری سے کام چل سکتاہے اور اس سانچے میںڈھل کرجواینگلو محمڈن اوراینگلو انڈین برآمدہوں گے ،وہ مستقبل کوتابناک بناسکیں گے اورقدامت وجدیدیت کاایک دلکش امتزاج بن کرسامنے آئیں گے۔ حالانکہ مشرقی ومغربی روایات کامرکب تیارکرنے کی یہ کوشش اکثرمضحکہ خیزثابت ہوئیں۔ اس لئے کہ دونوں عناصر بقول مولانا مودودیؒ ’’نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہے بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کودومختلف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں‘‘۔
انیسویں صدی میں مغرب اپنے فلسفیوں اورسائنس دانوںکے سانچے میں ڈھل چکاتھا اور اس نے خدا کوایک بے کار وجود بناکرگرجا گھروں میںمقید کردیاتھا۔ باقی دنیا کاسارا نظام مادّی فلسفوں کی روشنی میںخودبخود چل رہاتھا جیسے کہ ساری مشین فِٹ کردینے کے بعد گھڑی خودبخود چلتی رہتی ہے۔ مشرق اپنے اعتقادات واخلاقیات کودینوی معاملات سے کاٹ کرالگ کرنے پرتیار نہ تھے ۔اس میں دورائے نہیں کہ سرسیدؔ علی گڑھ تحریک کوایک وسیع وہمہ گیر تحریک بناناچاہتے تھے اور ا س تحریک نے چند قدآور شخصیتیں بھی پیداکیں، توہم پرستی اورغیرعقلی طرزفکر سے نجات دلائی لیکن مغرب کی بے اعتدالیوں اور ظنّ وتخمین کوقبول کرنے کے سبب ہندوستان گیر نہ بن سکی اوراندرونی تضاد اور بیرونی مزاحمت کااسے مسلسل سامناکرناپڑا۔ سرسیدؔ کے بہت سے رفقا مشرقی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ اسلئے وہ طرز فکر اورطرزمعاشرت کے سلسلے میں اتنی دورنہ جاسکے جوسرسیدؔ کی منزل تھی۔ سرسیدؔ نے ’تبئیں الکلام‘ اور ’تفسیر احمدی‘ میں جوطرز فکراپنایااُس نے ہندوستان میں’فتنۂ انکارحدیث کادروازہ کھول دیا۔ رسول اکرم ﷺ کے اقوال ،افعال اورہدایات کوامت میں بعدازقرآن اسلامی تہذیب ،قانون ،تمدن،معاشرت ،معیشت ،ادب،سیاست اور کردار سازی میںمعیار ومیزان کی حیثیت ہے،صرف قرآن مقدس پرانحصار کادعویٰ بہت سی ایسی جدّت طرازیوں کادروازہ کھول دیتاہے جودین کے نظام فکروعمل کو درہم برہم کردیتا ہے۔انیسویں صدی کے نصف آخر کے علماء نے مغرب کی مادّہ پرستی کے سلسلے میںجو رویہّ اختیارکیا اورعلی گڑھ تحریک کی جومخالفت کی وہ بے محل نہ تھی،لیکن سرسیدؔ پرمفادپرستی یا ذاتی مصلحت کی پاسداری کاالزام بیجا تھا،
ڈاکٹر سیدالباری مرحوم لکھتے ہیں:
’’دراصل سرسیدؔ پورے خلوصـ کے ساتھ انگریزی تعلیم اور عقلیت وفطرت پسندی کی حمایت کررہے تھے۔جن لوگوں نے علمی انداز سے سرسیدؔ سے اختلاف کیاان کی باتوں پرلوگوں نے توجہ دی ،لیکن جومحض تمسخر اوراستہزا سے کام لے رہے تھے ان کی باتوں کوکسی نے توجہ نہ دی۔ اسی ماحول میں بہت سے ایسے لوگ بھی منظرعام پرآئے جنہوں نے مغرب کی اخلاق وروحانیت کے معاملہ میں درماندگی کوسامنے رکھتے ہوئے صرف مادّی وسائل میں اس کی تسخیر فطرت اورایجاد وانکشاف سے فائدہ اُٹھانے کی حدتک اس کی طرف تعاون کاہاتھ بڑھانا مناسب قراردیا‘‘۔ ( بیسویںصدی کے اردوادب کاجائزہ ۔ص ۸۵)
سرسیدؔ کے اصلاحی غوروفکر کااصلی محورمذہب نہ تھا ۔ مذہبی بحث ان کی مجبوری تھی کیونکہ مذہب اس عہدکی زندگی پرحاوی تھا،اس لئے انہیںمذہبی مسائل سے دلچسپی تھی ۔وہ جانتے تھے کہ کسی قوم کی تہذیب اورترقی کاتعلق اس کے مذہب سے بھی ہوتاہے اوراپنے عہد کے حالات کے پیش نظر ان کاخیال تھاکہ جس قدر اس قوم کے مذہب میںعیوب پائے جائیںگے ،اسی قدر اس کی تہذیب میںنقص اورترقی میںجمودہوگا ۔ مسلمانوں کوتہذیب یافتہ کرنے کے جذبے نے سرسیدؔ کومذہبی اصلاح کی طرف متوجہ کیا۔ کیونکہ ان کاخیال تھا کہ اسلام کی حالت کااندازہ مسلمانوں کے حالات سے لگایاجاسکتاہے۔ لیکن یہی انہوں نے ٹھوکر کھائی ، پروفسیر اسلوب احمدانصاریؔ اپنے ایک تحقیقی مقالے ’’سرسیدؔکانظریہ عقل وفطرت ‘‘میں فرماتے ہیں:
’’سرسیدؔ نے خدا کوواجب الوجود،علت العلل،ازلی اورابدی ،قادرمطلق ،علیم اور خبیروبصیر توتسلیم کیا ہے لیکن خداکی ہستیٔ روح کی ماہیت اور حیات بعدالممات کے لزوم کے بارے میںان کااستدلال مضبوط نہیں ہے۔ وہ صرف ان مسلمات کوجوخارجی تجربے اورحواسیِ علم کی دسترس میںآسکیں یاان سے اخذ کیے جاسکیں، اپنے ایمان وایقان کے لئے کافی سمجھتے ہیں اورباقی ہرنوع کے تجربے اورنظریے کوغلط اورجادۂ صداقت سے منحرف تصورکرتے ہیں۔ یہی محدودیت ان کاکمزورترین پہلو ہے‘‘۔ (فکر ونظر(اکتوبر ۱۹۹۲ء)ص ۱۷
٭٭٭