محمودہ قریشی
(ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی -)
“سر سید کا پیغام قوم کے نوجوانوں کے نام “۔
سر زمین ہندوستان مہا پرشوں ,مزہبی پیشواؤں ,صوفیاء اکرام اور مصلحین سے خالی نہیں جنھوں نے معاشرے میں اخلاقی قدروں اور محبت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ انسانی ہمدردی کو ہی اپنا فرض قرار دیا ہے ۔ایسے ہی مصلحین کے سلسلے کی ایک کڑی سر سید احمد خاں تھے ۔جنھوں نے اپنی پوری زندگی تمام ہندوستانیوں کی بھلائی و ترقی کے لئے وقف کر دی ۔سر سید احمد خاں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کو جدید علوم و سائنس کی تعلیم کے لئے کہا ۔وہ جدید ہندوستان کے معمار اور علی گڑھ تحریک کے بانی مسلمانوں کے نشاۃ ثانیہ تصور کیے جاتے ہیں ۔اپنی 81 سالہ زندگی میں انھوں نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے وہ ہماری تاریخ کا ایک زریں باب ہے ۔جیسا کہ حکیم احمد الدین لکھتے ہیں ۔
“جواد الدولہ ,عارف جنگ آنریبل ,ڈاکٹر سر سید احمد خاں صاحب بہادر ,کے ۔سی ۔ایس ۔آئی ,ایل ایل ڈی ,لائف سکریٹری مدرستہ العلوم مسلمانان علی گڑھ و رئیس دہلی ,ایک خاص اعلیٰ دماغ کے تھے ان کی ذات میں ہزاروں خوبیاں خدا نے کوٹ کوٹ کر بھری تھیں ۔”
سر سید 1857 کے سانحہ کے بعد مسلمانوں کی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھے تھے اور اپنی ساری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر قوم کی فلاح و بہود پر اپنی توجہ کو مرکوز کر دینا چاہتے تھے ۔ اس کے لئے انھوں نے کئی اقدام اٹھائے جس میں تعلیم کو اولیت کا درجہ حاصل ہے ۔وہ ہر دم خصوصاً مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی سدھار اور ترقی کے لئے کوشاں نظر آتے تھے ۔سر سید مسلمانوں کے سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے اپنی توجہ زیادہ تر ان ہی پر مزکور رکھتے ہیں ۔چونکہ اس وقت مسلمان سب سے نیچی سطح پر پہنچ گئے تھے ۔مسمانوں کے مطابق انگریزی تعلیم ان کو عیسائی بنا دے گی ۔لیکن سر سید نے اپنی دور رس نگاہوں سے یہ بھاپ لیا تھا کہ اگر مسلمان انگریزی تعلیم حاصل نہیں کرے گے تو ان کی حالت میں سدھار نہیں کیا جا سکتا ۔چونکہ انھوں نے انگریزی حکمرانوں کی پھوٹ ڈالوں اور حکومت کرو کی پالیسی کی آہٹ بھی محسوس کر لی تھی- اسی مقصد کے تحت وہ مسلمانوں کی تہزیبی ,تعلیمی ,تمدنی و مزہبی اصلاح کرنا چاہتے تھے ۔جس کی پیش نظر بہت سی تجاویز پیش کی ,منصوبے بنائے اور عملی اقدام اٹھائے ۔
اسی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے انھوں نے سفر انگلستان کیا تاکہ وہ وہاں کے تعلیمی اور سماجی ترقی دیکھ کر سیکھیں اور لوگوں کو انگلستان کی صنعتی ترقی بتائیں انگلش قوم کی ترقی دیکھ کر وہ متاثر ہوئے اور چاہتے تھے کہ اہل ہندوستان بھی اس کی پیروی کریں انھوں نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی جا کر وہاں کے نظام تعلیم کو دیکھا تاکہ وہ ہندوستان پہنچ کر اپنے ملک کی ضرورت کے لحاظ سے یہاں بھی ویسا ہی نظام تعلیم رائج کریں۔اور وہ جب بھی مسلمانوں میں سماجی اصلاح کی بات کرتے تھے، ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں میں مغربی علوم کے فروغ کی بات کرتے تھے ۔انھوں نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ ,اور تہزیب الاخلاق کے ذریعے مسلمانوں میں سوشل ریفارم اور اسکی اہمیت کا پیغام بھی دیا ہے ۔
وہ آنے والے آج کے سماجی مسائل سے بخوبی واقف تھے چونکہ آج کے دور میں سائنس اور ٹکنالوجی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ۔شاید اسی لئے وہ اپنے دوستوں سے قرض لے کر اپنی جائداد کو گروی رکھ کر یہاں تک کہ اپنا ذاتی کتب خانہ بھی فروخت کرکے انگلینڈ کے لئے روانہ ہوئے اور انگلینڈ میں تمام چیزوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے ذہن میں مسلم معاشرے کے لئے ایک خاکہ تیار کر ہندوستان واپس آئے – 1875 میں انھوں نے ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا یہی مدرسہ 1877 میں محمڈن اینگلواور ینٹل کالج میں تبدیل ہوا اور ترقی کے منازل طے کرکے 1920 میں علی گڑھ مسلم یونورسٹی ہو گیا ۔ یعنی سر سید نے علم کی جو شمع مدرستہ العلوم کے روپ میں روشن کی تھی وہ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں دنیا بھر میں روشنی پھیلا رہی ہے ۔دور حاضر کے تناظر میں سر سید کے مشن کے بنیادی عناصر پر گہرائی کے ساتھ غور فکر کی ضرورت ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ سر سید کے مشن کو تقویت دی جائے کیوں کہ ہندوستان کو عظیم مملک کی صف میں شامل کرانے کا یہی واحد ذریعہ تھا اور ہے ۔آج ہم سر سید کے مشن کو کتنا کامیاب رکھے ہوئے اس پر کتنی سنجیدگی سے گامزن ہیں ۔بقول علی احمد فاطمی “سر سید جب زندہ تھے تب بھی ہم تھے “۔
اور آج جب سر سید ہمارے درمیاں نہیں ہیں تب بھی ہم ہیں ۔”جس کا احساس خود سر سید کو تھا جس کا ذکر اپنے ایک خط میں مسلمانان ہند کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
“افسوس کہ مسلمان ہندوستان کے ڈوبے جاتے ہیں اور کوئی ان کا نکالنے والا نہیں ہائے افسوس ! امرت تھوکتے ہیں اور زہر اگلتے ہیں ۔ہائے افسوس !ہاتھ پکڑنے والے کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں اور مگر کے منھ میں ہاتھ دیتے ہیں ۔اے بھائی مہدی ! فکر کرو اور یقین جان لو کہ مسلمانوں کے ہونٹوں تک پانی آ گیا ہے ,اب ڈوبنے میں بہت ہی کم فاصلہ باقی ہے ۔اگر تم یہاں آتے تو دیکھتے کہ تربیت کس طرح ہوتی ہے ۔اور تعلیم اولاد کا کیا قاعدہ ہے علم کیوں کر آتا ہے اور کس طرح کوئی قوم عزت حاصل کرتی ہے ان شاء اللہ تعلیٰ میں یہاں سے واپس آ کر سب کچھ کہوں گا اور کروں گا مگر مجھ کافر مردود ,گردن مروڑی مرغی کھانے والے ,کفر کی کتابیں چھاپنے والے کی کون سنے گا ۔”
اس مختصر سی تحریر سے سر سید کے جنون کیفیت ,اور ان پر مغربی نظام تعلیم ,کے اثرات کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے- ساتھ ہی اس وقت مسلم طبقے کی جو ذہنی کیفیت تھی ان کے غصہ سے صاف عیاں ہوتی ہے ۔
سر سید اعلیٰ عہدے پر فائز تھے ایک پر سکون زندگی گزار رہے تھے -اور وہ اپنی زندگی گزار کر چلے جاتے پھر کیوں انھوں نے مسلمانوں کے ایسے مزہبی پھڑوں کو چھیڑا اور ساتھ ہی ساتھ اس میں نشتر جراحی کا کام بھی شروع کیا ۔علوم سائنس کی کڑوی دوائیاں بھی پلائ؟ ان کا مقصد صرف ایک تھا قوم کوجہالت کے گڈے سے نکال کر ان میں جدید علم کی شمع روشن کرنا ہے بقول حالی ” زندہ قومے ہی ملک کا روشن مستقبل بناتی ہیں “اسی لئے سر سید اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۔
“موجودہ کالجوں میں مزہبی تعلیم نہیں ہے اور ہم کو اپنے نو جوان بچوں کو دینی و دنیاوی دونوں تعلیمیں دینی ہیں- اور اس کے ساتھ تربیت ۔پس اس کا سامان قوم پر جمع کرنا واجب ہے ۔” (خطبات سر سید جلد 2 ص 277)
ہمارا آج کا نظام تعلیم کچھ بہتر نہیں آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنی یونورسٹیوں ,کالجوں ,مدرسوں میں سر سید کی تعلیم کو عام کرنا ہے- اور اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ ہم کہاں تک اس میں کامیاب ہیں ۔جدید علوم کا جو بیج سر سید نے بویا تھا جس میں نئے نئے پھل آنے کے امکانات تھے ,ایسے لزیذ میوے جن کو کانٹنے کے لئے ہمارے ہاتھ کیوں نہیں پہنچ پا رہے ہیں ۔؟ حقیقت میں وہ بیج تو ڈالے گئے ہیں ,اور اب وہ پھل دار درخت بھی ہو گئے ہیں ۔یعنی ہماری یونیورسٹیاں ہیں ,کالجز ہیں ,اور مدرسے بھی پھر کیوں ان درختوں سے فائدہ نہ اٹھائے ان لزیذ میؤوں کے ذائقہ سے محروم رہیں – ؟سوال نظام تعلیم سے ہے ,نوجوانوں سے ہے ,اور ان پر عمل پیرا مسلمانوں سے ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں سر سید کے مشن کو قائم رکھنا ہے ۔آج سائنس اور ٹکنالولجی کے دور میں سائنسی مغربی علوم کے حصول پر زور دینا ہے اور سائنٹفک طریقہ پر عمل کر قوم کی فلاح و بہود کے مشن کا علم اٹھاتے ہوئے سر سید کے مشن کو کامیاب بنانا ہے ۔جس کا اظہار وہ اپنی ایک تقریر میں کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
“اے میرے عزیزو! میری یہ آرزو ہے کہ میں اپنی قوم کے بچوں کو آسمان کے تاروں سے اونچا اور سورج کی طرح چمکتا ہوا دیکھوں ۔ان کی روشنی اس نیلے نیلے گنبد کے اندر ایسی پھیلے کہ سورج ,چاند اور ستارے سب اس کے آگے ماند ہو جائیں …..
میرے تمام بچے طالب علم جو کالجوں میں پڑھتے ہیں اور جن کے لیے میری آرزو ہے کہ وہ یورپ کے سائنس اور لٹریچر میں کامل ہوں اور تمام دنیا میں اعلیٰ شمار کیے جائیں ان دو الفاظ لا الہٰ الا اللّہ محمد رسول اللّہ کو نہ بھولیں ۔”
یعنی سر سید صرف یہ نہیں چاہتے تھے کہ صرف مسلمان جدید علوم کی تعلیم حاصل کرکے مغربی تہزیب کے قصیدہ خواں بن جائے بلکہ وہ ہمیشہ تعلیم کو تہزیب اور مزہب سے جوڑ کر راہِ ہموار کرنے کے حق میں تھے۔ وہ مزہب اور علم دین سے پیوست رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔وہ ایک موقع پر علی گڑھ طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۔
“اگر تم اپنے دین پر قائم نہ رہے اور سب کچھ ہو گئے اور آسمان کے تارے ہو کر چمکے تو کیا ہوا ,تم ہم میں سے نہ رہے ,میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ایک ہاتھ میں قران ہو ,دوسرے میں علوم جدید اور سر پر لا الہٰ الا اللّہ کا تاج ہو “۔
دراصل سر سید نے مزہب اور سائنس میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی وہ مزہب اور سائنس سے رشتہ اس طرح ہم اہنگ کرنا چاہتے ہیں جس کی آج کے سماج کو بے حد ضرورت ہے ۔آج ہمارے پاس سائنس تو ہے لیکن ہم مزہب کو بھول گئے ہیں -جدید تعلیم اور یورپ کے روشنی علم و ہنر میں مزہب کا دامن ہم سے چھوٹ گیا ہے ۔اس لئے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں حصول تعلیم کا مقصد مزہب سے جوڑ کر ہمیں راہِ روشن کرنی ہیں ۔سر سید نے جس طرح ہم میں تعلیم کا ذوق پیدا کرنے کے لئے قائدانہ رول ادا کیا آج کے وقت میں ان نظریات کو پھیلانے کی از حد ضرورت ہے عہد حاضر میں سر سید کی معنویت کو قائم کیا جا سکتا ہے ۔ اگر ہم ان اقدام اور ایسے عملوں کو اپنے مسائل کے حل کا ذریعہ بنائیں جن کے ذریعہ ان خادمان قوم نے اپنے وقت کے مسائل کا حل تلاش کیا تھا ۔اس وقت اس کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے جب مسائل اور حالات ویسے ہی ہوں جیسے حالات اس خادمان قوم کے وقت تھے ۔موجودہ حالات کا اگر ہم مشاہدہ کریں تو بہت سے امور میں ہمیں یکسانیت نظر آتی ہے سر سید نے جو خواب دیکھا اس کی مکمل تعبیر اب ہمارے سامنے ہے ۔سر سید کا طریقہ کہ انھوں نے اپنی قوم کے سماجی ,سیاسی اور دیگر شعبوں کو بہتر بنانے کے لئے اپنی تمام توجہ حصول تعلیم کی طرف مبزول کر دی اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے علمی و عملی طور پر اپنی انتھک کوشش صرف کر دیں ۔نور الحسن نقوی کے الفاظ میں ۔
“سر سید نے بے عملوں کو جد و جہد پر آمادہ کیا ,گوشہ نشینوں کو کھلی فضا میں سانس لینا سکھایا ,ماضی کے پر ستاروں کو حال کی جانب متوجہ ہونے کی تلقین کی ,مشرق کے پجاریوں کو مغرب کی خوبیوں سے روشناس کیا ,تقلید پرستوں کو اجتہاد کی اہمیت سے واقف کرایا ,دنیا کو بے حقیقت سمجھنے والوں کو دنیا میں نیکی کمانے اور آخرت کے لیے توشہ جمع کرنے کا راستہ دکھایا ,غرض انھوں نے سوتوں کا جگایا ,مردہ دلوں میں جان ڈالی اور ہندوستانی مسلمانوں کو زندہ قوموں کی طرح زندگی گزارنے اور سر بلند کر جینے کا سلیقہ سکھایا ۔”یہی سلیقہ آج ہمیں پیدا کرنا ہے چونکہ سر سید کی ہی تعلیمات سے ہمارے مستقبل کی راہِ روشن ہو سکتی ہیں ۔بہر حال معاشرے میںمزہبی آہنگی اور انسانی اخوت و محبت کے رشتوں کو زیادہ مضبوط کرنے کے ضمن میں بھی سر سید کے عملی اصول ماضی کی طرح حال میں بھی موثر اور کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔
حواشی ۔
1_ماہ نمہ تہذیب الا خلاق اکتوبر 2018 سر سید نمبر ( شبلی روڈ علی گڑھ مسلم یونورسٹی علی گڑھ یو۔پی ۔)۔
2_جہات سر سید از شمس بدایونی
3_مقالات سر سید مرتبہ محمد اسماعیل پانی پتی ۔
4_انتخاب مضامین سر سید مرتبہ آل احمد سرور ۔
5_سر سید اور ان کے کارنامے از پروفیسر نور الحسن نقوی ۔