محمد یوسف
ریسرچ اسکالر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد( پاکستان)
سماجی وظائفیت کا نظریہ اور خدیجہ مستور کا ناول آنگن
سماجی وظائفیت بنیادی طور پر انسانی معاشرے کی ساخت اور سماجی اداروں کے مخصوص وظائف یاافعال کی تشریح عضویاتی بنیادوں پر کرتی ہے۔معاشرتی ساخت میں اس کے سماجی ادارےخاندان،مذہب،تعلیم،سیاست اور معیشت حصہ لیتے ہیں۔اسی ساختیاتی ڈھانچے کی بنیاد پر ان معاشرتی اداروں کے وظائف یا افعال متعین ہوتے ہیں۔معاشرے کا ہر جزو افعال کی بنیاد پر دیگر اداروں سے اپنا باہمی ربط قائم کرتا ہے۔ سماجی فعالیت یا معاشرتی وظائفیت میں ساخت اور وظائف کے لیے نامیات کا تصور پیش کیا جاتا ہے۔معاشرے کو مزندہ جسم تصور کرتے ہوئے اس کے سماجی اداروں کے وظائف بیان کیے جاتے ہیں۔فعالیت میں فرد اپنے افعال یا وظائف کی بنیاد پر سماج میں زندہ رہتا ہے۔فرد کے افعال پر معاشرتی اقدار اور داخلی محرکات برابر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔فرد اور سماج کا باہمی تعلق سماجی عمل کو متعین کرتا ہے۔وظائفیت میں فرد کے افعال کی ساخت اور وظائف بھی نامیاتی یا عضویاتی بنیادوں پر پرکھے جاتے ہیں۔فعالیت میں اقداری،محرکاتی اور تصادمی عناصر مل کر فرد کے سماجی عمل کی ساخت پذیری کرتے ہیں۔یہ عناصر ایک کل (جسم)کے طور پر شمار ہوتے ہیں جہاں ان کا انفرادی فعل خاص ہونے کے باوجود کل سے جدا نہیں ہوتی ۔وظائفیت میں سماجی عمل کے اجزاء انسانی جسم کی مانند باہم مل کر کل کو مکمل کرتے ہیں۔سماجی فعالیت فرد کے معاشرتی عمل کو عضو تصور کرتے ہوئے بنیادی عناصر کے اثرات کو قابل مطالعہ بناتی ہے۔ وظائفیت کے لیے انگریزی میں (Functionalism )کی اصطلاح مستعمل ہےجو عمرانیات کے تین بڑے تناظرات میں کلیدی مقام کی حامل ہے۔وظائفیت کے مطابق معاشرہ آپس میں جڑنے والے حصوں کا ایک نظام ہے جو تکمیل کی خاطر توازن اور سماجی استحکام کی حالت کو برقرار رکھنے کے لیے ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتا ہے۔یہ ایک نظریہ ہے جو سماج کو ایک پیچیدہ نظام کے طور پر دیکھتا ہے جس کے حصے یکجہتی اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔وظائفیت کے ضمن میں ریما بھاٹیا اپنی کتاب( SOCIOLOGY ) میں لکھتے ہیں۔
The structural functionalism is a framework for building theory that sees society as a complex system whose parts work together to promote solidarity and stability. As its name suggests, this approach points to social structure any relatively stable pattern of social behavior.1
“ساختیاتی وظائفیت نظریہ سازی کی خاکہ کاری ہے جو معاشرے کو ایک پیچیدہ نظام کے طور پر دیکھتا ہے جس کے حصے یک جہتی اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے مل جل کر کام کرتے ہیں۔جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے یہ نقطہ نظر سماجی ڈھانچے،سماجی استحکام کو سماجی رویے کے طور پر سامنے لاتا ہے۔”
وظائفیت کا نظریہ حیاتیاتی علوم اور سماجی حرکیات میں مماثلت کا قائل ہے۔فعالیتی مفکرین انسانی جسم کے اجزاء کی جڑت اور وظائف کی بنیاد پر معاشرتی اداروں کے افعال کو قابل تفہیم بناتے ہیں۔انسانی معاشرہ فعالیتی فکر میں زندہ جسم کی طرح بڑھوتری کے عمل سے گزرتا ہے جہاں افراد معاشرہ کے سماجی عمل کی تحریک انسانی ضروریات سے عبارت ہے۔فرد سماجی عمل کو ضروریات زیست کی انجام دہی کے لیے ممکن بناتا ہے۔فرد اور معاشرے کا باہمی تعلق سماجی حرکیات کو وجود مہیا کرتا ہے جہاں معاشرتی اداروں کے وظائف افراد کے معاشرتی عمل سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔انسانی معاشرے کو نامیاتی مشابہتوں کی بنیاد پر پرکھنے کی روایت قدیم یونانی عہد سے شروع ہوتی ہے جس کی نظریہ سازی کا رجحان جدید عمرانی فکر میں ممکن ہوا۔
وظائفیت کو بنیاد فراہم کرنے میں جدید فعالیتی مفکر آگسٹ کومٹےAuguste Comte))نے بنیادی کردار ادا کیا۔وہ اپنے معاصرین کی مبہم نطریہ سازی کے برعکس سائنسی انداز فکر کا اولین ترجمان تھا۔کومٹے حیاتیاتی ساخت اور اصولوں کی طرز پر سماجی مسائل و معاشرتی حرکیات کی تفہیم کا حامی تھا۔اس کا بنیادی تصور سکونیات اور حرکیات سماجی وظائفیت میں ساخت اور وظائف کا باہمی ربط ہے۔وہ سکونیات(Statics) سے مراد مخصوص ساخت لیتا ہے جس پر تمام معاشرہ قائم ہے۔یہ ساخت سماجی ادروں میں ربط اور تعلق کا ذریعہ ہے جس کی بنیاد پر مختلف اعضاءOrgans) میں تنظیم پائی جاتی ہے۔سماجی ادارے اپنی خاص سماجی ترتیب میں اپنے وظائف(Functions) سر انجام دیتے ہیں۔ان اعضاء کی ہم آہنگی سماجی حرکیات کو برقرار رکھتی ہے۔کومٹے حرکیات( Dynamics) میں سماجی اداروں کے ان مخصوص وظائف کو شمار کرتا ہےجو معاشرہ اپنی بقاء کے لیے انجام دیتا ہے۔آگسٹ کومٹے کا نظریہ تین مرحلوں کا قانون(Law of three stages)انسانی ذہین کی ترقی کا تاریخی بیان ہے جس کو اس نے الہیاتی(Theology)،ما بعد الطبیعیاتی(Metaphysics) اور ثبوتیت(Positivism) کی ساخت میں پیش کیا۔ان تینوں مرحلوں کے مابین ساخت اور ربط کا گہرا رشتہ قائم ہے جہاں عضویاتی انداز کی بدولت ہر مرحلہ اپنی انفرادی پہچان کے ساتھ ساتھ کل سے منسلک ہو کر ایک نطام کی تشکیل پذیری اور وظائفی اہمیت حاصل کرتا ہے۔اگسٹ کومٹے انسانی معاشرے کی منفرد ساختیاتی ترتیب کا قائل تھا۔اس کا خیال تھا کہ انسانی سماج کی نوعیت انسانی اعضاء کے مماثل ہے ۔انسانی جسم کے اعضاء اور معاشرتی اداروں کا وظائفی ڈھانچہ یکسانیت کی بدولت قابل تشریح ہے۔
آگسٹ کومٹے کے بعد سماجی وظائفیت کی نظریہ سازی میں ہربرٹ اسپنسر(Herbert Spencer)(1820-1903)کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔اسے علم حیاتیات سے خصوصی دل چسپی تھی۔چارلس ڈارون(Darwin) سے قبل نظریہ ارتقاء کے بنیادی خدوخال اسی نے تراشے جس پر ڈارون کا نطریہ پروان چڑھا۔اس نے صحیح معنوں میں سماجی حرکیات کی تشریح کے لیے انسانی سماج کو عضویاتی بنیادوں پر پرکھنے کی شعوری کوشش کی۔وہ انسانی سماج کو نامیات کے طور ہی شمار کرتا تھا۔اسپنسر نے معاشرے کا موازنہ انسانی جسم سے کیا۔جس طرح انسانی جسم کے ساختی حصے کھوپڑی،پٹھے اور مختلف اندرونی اعضاء ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہیں تاکہ پورے جاندار کو زندہ رہنے میں مدد ملے،اسی طرح سماجی ڈھانچے معاشرے کو بچانے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔
فعالیتی مفکرین میں اگسٹ کومٹے اور اسپنسر کی فکر معاشرے کو نامیاتی بنیادوں پر سمجھنے کے گرد گھومتی رہی لیکن ایمائیل ڈرخائم(1917-1858)نے معاشرے کے اجزاء کی نشان دہی کی اور اداروں کے علم کو سماجی فعالیت کا نام دیا۔وہ پہلا قابل ذکر مفکر تھا جس نے سماجی ساخت اور وظائف کے ساتھ ساتھ افراد معاشرہ پران تشکیلی عناصر کے اثرات کا مطالعہ کیا جو سماجی ڈھانچے کو مرتب کرتے ہیں۔اس نے سماجی حرکیات کی تشریح میں افراد کو لازمی عنصر کے طور پر متعارف کراتے ہوئے کبیریت اور تکثریت کی راہ ہموار کی۔وہ سماجی حرکیات میں تقسیم کار(Division of labour) اور معاشرتی حقائق (Social Facts) کاپر یقین رکھتا تھا۔ڈرخائم نے انسانی اعضاء کی مانند معاشرتی اعضاء میں خاندان، مذہب، سیاست،معاش اور تعلیم کو روشناس کرایا۔
ڈرخائم اجتماعی ضمیر،اخلاقی اقدار اور معاشرتی لہروں جیسے عناصر کی سماجی عمل میں بھرپور شمولیت کا حامی تھا اس نے فرد کو یکسر مسترد کردیا۔فرد کی اہمیت کے برعکس ڈرخائم معمولات و اقدار کی قوت سے زیادہ متاثر ہوا جس کی تنقید پر میکس ویبر(1864-1920) نے اپنے نظریات کی عمارت کھڑی کی۔سماجی فعالیت میں ویبر کی فکر بطور خاص سماج سے فرد کی طرف رجحان سازی کا سنگ میل ہے۔فرد کی سماجی حیثیت اور سماجی عمل میں اس کا کردار ویبر کی فکریات کا نمایاں پہلو ہے۔اس کی بدولت نہ صرف تکثیریت کا منہاج مقرر ہوا بل کہ سماجی عمل(Social Action) کی نئی معنویت متعین ہوئی۔ویبر کے عہد تک عمرانیات میں حیاتیات کے ساتھ ساتھ نفسیات کے ادخال کا رجحان بھی بتدریج اپنی شمولیت کا اظہار کر چکا تھا۔فرد کے سماجی عمل پر نفسیاتی عوامل کی گرہ کشائی نئے معنی کا ذریعہ بن رہی تھی۔ویبر فعالیت میں سماجی عمل کے معنی سمجھنے پر مصر تھا۔اس کے نزدیک سماجی عمل اسی وقت اہمیت اختیار کرتا ہے جب فاعل اس کے ساتھ موضوعی مفہوم منسلک کرتا ہے۔وہ فرد کے سماجی عمل سے آگہی کے تناظر میں فرد کی حاکمیت اور بالادستی کا اظہار کرتا ہے۔ویبر کے مطابق عمل ایسے رویوں سے عبارت ہے جہاں ایک یا زائد افراد کے رویوں کا توضیحی شعور موجود ہو۔سماجی عمل کے ضمن میں میکس ویبر مثالی نوعیت کے مخصوص طریقہ کار کا پابند معلوم ہوتا ہے۔سماجی عمل کی وقوع پزیری میں انسانی محرکات کی نشاندہی ویبر کا خاص موضوع رہا۔میکس ویبر کی فعالیتی فکر کا عمیق مطالعہ اگسٹ کومٹے کی اثباتیت،اسپنسر کی عضویاتی مشابہت،ڈرخائم کا سماجی حقائق اور سماجی ادروں کی کھوج میں پوشیدہ فرد کا سماجی عمل نئی فکر کا استعارا ہے۔ویبر فعالیت میں تصادمی حرکیات کی شمولیت میں گہری دل چسپی رکھتا تھا۔وہ بیوروکریسی کے کردار کا زبر دست حامی تھا لیکن اس کی گہری فعالیتی حرکت سماج میں طبقات کے وجود کی نشاندہی کر رہی تھی۔وہ اپنی بدلتی فکر کے ساتھ فرد کی سماجی اہمیت کا قائل تو رہا مگر بیوروکریسی کی شمولیت میں محدود پن کا حامی بن گیا۔فعالیت میں اب تک کے مباحث سماج اور فرد یا کبیریت(Macro)اور اصغریت(Micro) کی موشگافیوں میں الجھے رہے۔ٹیلکوٹ پارسنز(1902-1979) نے فرد اور سماج کے اشتراک سے وظائفیت میں نئی نظریہ سازی کو سامنے لایا۔اس نے AGILماڈل کی بنیاد پر وظائفیت کا عالمگیر تصور ابھارا۔رابٹ مارٹن کی بدوظائفیت نے وظائفیت کو جدید خطوط پر استوار کیا۔
سماجی وظائفیت میں معاشرے کے بڑے اداروں خاندان، مذہب، تعلیم، سیاست اور معاش کے وظائفی پہلوؤں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔فرد کا سماجی عمل انہی اداروں کے باہمی ربط سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔خدیجہ مستور کا ناول آنگن اپنے دیگر فنی و فکری خصائص کے ساتھ سماجی و ظائفیت کے عناصر سے مزین ہے۔اس ناول میں خدیجہ مستور کی وظائفی فکر پوری طرح نکھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ان کے کردار سماجی اداروں کے وظائف میں زندگی بسر کرتے محسوس ہوتے ہیں۔
خدیجہ مستور نے ناول میں ایک پورے خاندان کی معاشرتی زندگی کے گرد کہانی کو بنا ہے ۔اس خاندان کے معاشرتی وظائف ہی سے کہانی کا سلسلہ چلتا ہے۔ دادا اور دادی کے معاشرتی رویے، سماجی اقدار اور خاندانی جڑت کہانی کا نمایاں پہلو ہے جہاں تمام خاندان انسانی جسم کی مانند اپنے اعضاء سے تکمیل کا سامان مہیا کرتا ہے۔دادا اور دادی کی اولاد میں تین بیٹے بڑے چچا، ظفر اور مظہر کے علاوہ دو بیٹیوں سلمہ اور نجمہ کا ذکر موجود ہے۔بڑے چچا کی اولاد میں جمیل، شکیل اور بیٹی ساجدہ، ظفر کی بیٹی چھمی ، مظہر کی بیٹیوں میں تہمینہ ، عالیہ اور سلمہ کا بیٹا صفدر شامل ہے۔اس کے علاوہ بڑی چچی، اماں، ماموں،ممانی، کریمن بوا اور دادا کی داشتاؤں کا ذکر بھی موجود ہے۔تمام خاندان کی باہمی جڑت ہی کہانی کے واقعات کا بنیادی محرک ہے۔خدیجہ مستور خاندانی جڑت کے لیے پہلے تمام خاندان کی توڑ پھوڑ کرتی ہیں جہاں نفرتوں اور دوریوں کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔سلمہ پھوپھی ایک مزارع کے ساتھ بھاگ کر خاندانی وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہیں لیکن صفدر کی پیدائش سے ایک نئی جڑت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔تہمینہ اور صفدر کے درمیان پیار محبت کا سلسلہ اگر نئی امید اور اشتراک کا استعارا ہے تو تہمینہ کے لیے جمیل کا رشتہ بھی خاندانی وظائفیت کا اظہار ہے۔جمیل بھیا اور چھمی کی محبت کے ساتھ ساتھ جمیل اور عالیہ کے مراسم بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ صفدر اور تہمینہ کی محبت کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔
“آپا بلیوں جیسی چال سے آئیں اور جب اپنے بستر میں لیٹنے لگیں تو صفدر بھائی نے انہیں لپٹا لیا۔ پھر
ان کے چہرے پر جھکے رہے۔ اس نے مارے حیرت کے سانس تک روک لی تھی۔سلمہ پھوپھی
کی کہانی اسے یاد آ رہی تھی۔ اس وقت اس ے کتنے عجیب سے احساست ہو رہے تھے۔صبح
جب آپا اسے اسکول جانے کے لیے تیار کر رہی تھیں تو اس نے دھیرے سے پوچھا تھا آپا رات
تم کہاں چلی گئی تھیں۔ایں! مارے خوف کے آپا کے ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے۔”(2)
یہ خاندانی جڑت ہجرت کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔جب نئے وطن میں عالیہ ایک دن شکیل کو پولیس سے بھاگتے ہوئے پاتی ہے تو اپنے گھر میں نہ صرف پناہ دیتی ہے بل کہ وہ صفدر کے ساتھ شادی کے لیے بھی تیار ہو جاتی ہے۔جب عالیہ کو چھمی کی بابت معلوم ہوتا ہے کہ اس کی شادی جمیل بھیا سے ہو جاتی ہے تو وہ ایک ان جانی سے خوشی محسوس کرتی ہے۔نجمہ پھوپھی کی شادی کے بعد جب وہ ناکام ہوتی ہے تو اپنے ہی خاندان میں پناہ لیتی ہے۔جب مظہر چچا کا ایک انگریز افسر سے جھگڑا ہوا اور ان کو قید ہو گی تو بڑے چچا ہی نہ ان کے خاندان کواپنے گھر میں پناہ دی۔ان کو جمیل بھیا اور بڑی چچی نے غیر معمولی محبت اور تحفظ دیا۔بڑے چچا کی گرفتاری اور مظہر چچا کی موت پر گھر سوگوار رہا۔بڑے چچا اور جمیل بھیا کی نفرتوں کا تمام خاندان کو افسوس تھا۔شکیل اور چھمی کے اخراجات کے لیے عالیہ ہر ممکن تعاون کرتی رہی۔سماجی وظائفیت میں خاندان کو انسانی جڑت بنیادی محرک تصور کیا جاتا ہے۔
خاندان کے وظائفی پہلوکے ساتھ ساتھ مذہب کے فعالیتی کردار کو بھی خدیجہ مستور نے عمدگی سے برتا ہے۔سماجی وظائفیت میں مذہب انسانوں کو جوڑنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔اس میں انسان روحانی سکون کے ساتھ ساتھ باہمی کشش کے طور پر ایک کھچاؤ محسوس کرتا ہے۔ناول میں مذہبی ہم آہنگی کا اظہار رمضان المبارک کے دوران سامنے آتا ہے۔تمام خاندان ا فطاری و سحری کے دوران ایک گوند کی مانند جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔کریمن بوا کےگرد پھیلی انسانی منڈلی ایک سماجی اور روحانی کشش کا اظہار ہے۔اس کے علاوہ سحر و افطار میں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ اور ہم دردری بھی دیدنی ہے۔عید کی تیاری ، ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات ، تعاون، ہمدردی اور مدد کے جذبات کا اظہار مذہبی جڑت کا مظاہرہ ہے۔اس کا ایک نمونہ یوں سامنے آتا ہے۔
“تخت پر دسترخوان بچھا کر افطاری کا سامان چنا جا چکا تھا۔بڑی چچی تلے ہوئے چنوں پر لیموں نچوڑ رہی تھیں۔
کریمن بوا کو شاید روزہ لگ رہا تھا، اس لیے نڈھال سی بیٹھی تھیں۔بڑے چچا برآمدے میں بچھے ہوئے پلنگ
پر بیٹھے تھے۔جیب سے نکلی ہوئی گھڑی سینے پر لٹک رہی تھی اور ان کے پاس بیٹھا ہوا شکیل بار بار جھک کر
گھڑی دیکھ رہا تھا۔۔باہر بیٹھک میں بڑے چچا کے کئی مہمان براجمان تھے اور اسرار میاں بیٹھک کے دروازے
سےکئی بار سر نکال کر جھانک چکے تھے۔اماں تخت پر ایک کونے میں اس طرح بیٹھی چھالیہ کاٹ رہی تھیں جیسے
افطاری پر پہرہ دے رہی ہیں۔قریب کی مسجد میں گولا چھوٹا اور پھر نقارہ بجنے کی تیز آواز آنے لگی تو اماں نے
پلیٹوں میں رکھا ہوا سب کا حصہ بانٹنا شروع کر دیا۔”(3)
سماجی وظائفیت میں تعلیم کاوظائفی کردار بھی اقدار و روایات کی اگلی نسل میں منتقلی کےعلاوہ سماجی اشتراک کو ممکن بناتا ہے۔ خدیجہ مستور نے ناول کے واقعات میں تعلیم کے وظائف کو کمال ہنر مندی سے برتا ہے۔ وہ انسانی معاشرے میں تعلیم کو خاص اہمیت دینے پر مصر ہیں۔ان کے کردار تمام مصائب و الام اور ناکافی سہولیات کے ساتھ ساتھ تعلیم سے وابستہ رہتے ہیں۔صفدر اپنی قابل ترس زندگی کے باوجود علی گڑھ میں پڑھنے کے لیے چلا جاتا ہے جب کہ نجمہ پھوپھی کی ایم اے انگریزی اور لیکچرار کی ملازمت کے ساتھ عالیہ اور جمیل کی تعلیم ،چھمی اور شکیل کو پڑھا نے کی ساری کاوش ایک سماجی جڑت کا اظہار ہے۔رسمی تعلیم کے علاوہ غیر رسمی تعلیم کے طور پر چچا کی لائبریری اور عالیہ کا استفادہ بھی تعلیم کے وظائفی کردار کو بیان کرتا ہے۔نجمہ پھوپھی کا طنز بظاہر کافی گہرا محسوس ہوتا ہے البتہ اس کی تہہ میں خاندانی ترقی کا خواب پوشیدہ ہے۔تعلیم نے ناول کو تمام کرداروں کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔نجمہ پھوپھی کا انداز خدیجہ مسرور نے یوں سامنے لایا ہے۔
“اور تم عالیہ ،کہو کچھ پڑھ رہی ہو کہ نہیں؟ جی ایف اے کا امتحان دینے والی ہوں۔عالیہ نے دھیرے سے
جواب دیا۔خوب! خوب !نجمہ پھوپھی کے چہرے پر سخت ناگواری کے اثار تھے اور تم جمیل میاں کیا کر
رہے ہو؟بس بی۔اے کر کے بیٹھ رہا ہوں۔جمیل نھیا نے جواب دیا۔واہ صرف بی ۔اے سے کیا ہوتا
ہے،آدمی جاہل ہی رہ جاتا ہے،تھوڑی تعلیم خطر ناک ہوتی ہے۔کرنا ہے تو ایم اے بی ٹی کرو۔اب مجھے
دیکھو جس کالج میں جاؤں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہوں،مگر ایم اے بھی کرو تو انگلش میں،اردو ایم اے تو
ہر جاہل کر سکتا ہے۔ ” (4)
خاندان، مذہب اور تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی وظائفیت میں معاش کو بھی کلیدی مقام حاصل ہے۔خاندان کا بنیادی کام تمام افراد کو تحفظ،اقدار و روایات کی پختگی، خاندانی رسومات، شادی اور دیگر ضروریات کی فراہمی ہوتا ہے۔ خاندان کے ساتھ مذہب تمام افراد کو ایک روحانی تسکین، عبادات و معمولات اور تہواروں کی تربیت کے ساتھ ساتھ معاشرتی جڑت مہیا کرنا ہوتا ہے۔مذہب کے ساتھ ساتھ تعلیم افراد معاشرے میں ایک شعوری تعلق،ذہنی بالیدگی، سماجی کا بالغ نظری سے مشاہدہ کرنا، ضروری سماجی قبولیت کے لیے علوم وفنون اور اقدار و روایات کے انتقال میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ان تمام وظائفی عناصر میں حصول پیداوار اور تقسیم و صرف دولت کو معیشت کے عناصر سنبھالتے ہیں۔ خدیجہ مستور نے ناول آنگن میں سماج کے کچھ پیشوں کا ذکر بھی کیا ہے جو افراد کو معاشی استحکام مہیا کرتے ہیں۔دادا کی ذریعہ روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ ان کی اپنی زمین داری ہے جس پر کام کرنے والے ایک مزارع ہی سے صفدر کی ماں شادی کر لیتی ہے۔اس کے علاوہ بڑے چچا دکان داری سے اپنے کنبے کا پیٹ پالتے ہیں۔جمیل بھیا عام طور پر چھوٹی موٹی ملازمتوں سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ ان کے والد کی کمائی کا بڑا حصہ سیاسی کاموں پر خرچ ہو جاتا ہے۔نجمہ پھوپھی ایک کالج میں لیکچرار ہیں جب کہ ان کا خاوند بڑا بزنس مین ہے۔مظہر چچا ایک دفتر میں ملازم ہیں جہاں ان کا ایک افسر سے جھگڑا ہے۔عالیہ ایک محنتی لڑکی ہے جو اپنی تعلیم مکمل کر کے ایک اسکول میں ملازمت اختیار کر لیتی ہے۔ناول کے یہ تمام کردار اپنے روزگار کی بدولت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔چھمی کا خاومد بھی اپنے ذاتی کاروبار سے وابستہ ہے۔خدیجہ مستور نے اپنے کرداروں میں معاش کے ساتھ ساتھ طبقاتی تقسیم کو بھی اجاگر کیا ہے۔ایک نمونہ پیش خدمت ہے۔
“برقع ہاتھ پر ڈالے جب وہ زینہ طے کرنے لگی تو آگے آگے نجمہ پھوپھی بہت اونچی ایڑیوں کی سینڈل
پر جھومتی اتر رہی تھیں۔استانی جی تانگہ آ گیا ہے۔نجمہ پھوپھی نے گردن گھوما کر کہا۔ان کے ہونٹوں
پر کیسی مضحکہ خیز مسکراہٹ تھی۔ہم دونوں ایک ہی کام کرتے ہیں مگر آپ لیکچرار کہی جاتی ہیں اور
میں استانی یہ فرق اگر نہ بھی مٹے تو کیا قیامت آ جائے گی نجمہ پھوپھی، عالیہ نے تلخی سے جواب دیا۔واہ
یہ فرق مٹ بھی کیسے سکتا ہے کیا تم نے انگلش میں ایم اے کیا ہے؟” (5)
ناول میں تقسیم کے بعد بھی عالیہ اپنا روزگار جاری رکھتی ہے۔اس کے علاوہ اس کے ماموں اور ممانی کے علاوہ صفدر بھائی کے امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کا ذکر بھی ہے۔پورے ناول میں اپنے روزگار کے سلسلے میں جمیل بھیا اور عالیہ کافی سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔وہ اپنی آمدنی سے دیگر لوگوں کا سہارا بھی بنتے محسوس ہوتے ہیں۔نجمہ پھوپھی اور عالیہ کے ماں اس سلسلے میں کافی متکبر واقع ہوئے ہیں۔
معاشرتی وظائفیت میں معاشرتی اداروں کو اپنے اپنے وظائف کی بدولت خاص مقام حاصل ہے۔سیاست کو ایک اہم معاشرتی ادارہ تصور کیا جاتا ہے جس کے اپنے خاص وظائف ہیں۔سیاست میں ریاست اور حکومت کو فعال رکھنے والے ادارے شامل ہیں۔ناول میں تقسیم ہند کی پوری داستان موجود ہے جہاں خاندانوں میں پائے جانے والے سیاسی اختلافات اور ان کے اثرات کا ذکر موجود ہے۔تقسیم کی بدولت انسانی معاش کی متنوع صورتوں کو خدیجہ مستور نے سامنے لایا ہے۔سماجی وظائفیت میں سیاست کے وجود کو ریما بھاٹیا نے یوں بیان کیا ہے۔
“تمام معاشروں میں حکومت اداروں کو منظم رکھنے کے لیے طاقت کا ستعمال کرتی ہے۔اس کے مدد سے ریاستی
اور انفرادی اختلافات کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ریاستی قوانین کی بدولت تمام افراد ایک تحفط اور جڑت محسوس
کرتے ہیں۔ ” (6 )
جمیل بھیا اور بڑے چچا کے مابین سیاسی نوعیت کا اختلاف ہے۔بڑے چچا سچے کانگریسی اور جمیل بھیا مسلم لیگی ہیں۔ان کے درمیان شدید اختلافات کے باوجود ایک خاندانی جڑت موجود ہے۔بڑے چچا کے برعکس مظہر میاں انگریزوں سے شدید اختلافات رکھتے ہیں۔ان کی بیوی اپنی بھاوج کی وجہ سے انگریز نواز ہے۔چھمی اور بڑے چچا کے مابین بھی شدید اختلاف ہے۔چھمی اکثر اوقات اپنے گھر میں کانگریسی جلسوں کا مذاق اڑاتی ہے۔اس کے گیت اور نعرے اکثر چچا کو بے چین کرتے ہیں۔بڑے چچا کی گرفتاری اور رہائی کا ذکر ناول میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔جمیل بھیا اکثر مسلم لیگ کے سیاسی جلسوں میں شرکت کرتے ہیں اور ر ضا کار کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ان بارے مین ناول نگار لکھتی ہیں۔
“تھوڑے دنوں میں عالیہ کو گھر کے حالات معلوم ہوگئے۔بڑے چچا نے جاگیر بیچنے کے بعد
کپڑے کی دو بڑی بڑی دکانیں کھول لی تھیں جن کی نگرانی کسی زمانے میں وہ خود کرتے تھے۔
انہوں نے یہ خوبصورت سا گھر بڑے چاؤ سے بنوایا تھا۔گھر میں مثالی خوشحالی تھی مگر جب وہ
بڑی سرگرمی سے سیاست میں حصہ لینے لگے تو دکانیں اسرار میاں کی نگرانی میں لشم پشم چلنے
لگیں۔وہ بھی ان کی آمدنی چندوں اور سیاسی ورکروں پر خرچ ہو جاتی۔بڑے چچا کئی بار جیل
جا چکے تھے، انہیں قید تنہائی اور بیڑیاں پہننے کی سزا مل چکی تھی۔” (7)
خدیجہ مستور کے ناول آنگن میں ایک انسانی جسم کا تصور موجود ہے۔ایک خاندان کے تمام لوگ آپس میں رشتوں کی کسک اور کشش کےاسیر ہیں۔پورے ناول میں خاندان،مذہب، تعلیم،سیاست اور معاش کے وظائفی تعلق کو کمال ہنر مندی سے اجاگر کیا ہے۔ایک ہی خاندان کی پوری زندگی میں تمام معاشرتی اداروں کے مخصوص وظائف متعین کر دیے گے ہیں۔ایک لڑی کی مانند تما م سماجی ادارے لوگوں کو جڑت مہیا کرتے ہیں۔پورے معاشرے کی فعالیتی حرکیات کو ایک خاندان میں سمو دیا گیا ہے جہاں انسانی احتیاج و ضروریات نے انسانی زندگی کو تعاون اور اشتراک مہیا کر دیا ہے۔پورے ناول میں ایک غیر معمولی اتحاد اور یگانگت کا گمان گزرتا ہے۔اس طرح کا تخلیقی اظہار ان کو ایک انفرادیت عطا کرتا ہے۔وہ وظائفی فکر سے آگہی رکھنے والی تخلیق کار کے روپ میں ابھرتی ہیں۔ ان کی اس تخلیقی فکر اور بنت کاری پر ڈاکٹر احمد سہیل کا تجزیہ درست معلوم ہوتا ہے جہاں وہ وظائفی فکر کے بارے میں لکھتے ہیں۔
“ادب کی ہر صنف کو بطور نامیہ تصور کرتے ہوئے اس کی تشریح و تفہیم ایک مخصوص
سراپے کے طور پر کرتے ہوئے ادب کی تنقید میں نامیاتی ساختیات کا تصور ابھرا جو
فطری Naturalistic اور ترتیب وارSystemicنامیاتی ساختیے میں تقسیم ہو کر
مزید حرکی اور سکونی نوعیات میں تقسیم ہو جاتا ہے۔” (8)
ناول میں خدیجہ مستور کا نامیاتی تخلیقی انداز ان کی فکر کے نئے گوشے سامنے لاتا ہے جہاں ان کا فکرو فن سماجی وظائفیت کو نئی پہچان مہیا کرتا ہے۔
حوالہ جات۔
1۔ریما بھا ٹیا۔Sociology۔مرانڈا ہاؤس۔دہلی۔ص17
2۔خدیجہ مستور۔آنگن۔سنگ میل پبلی کیشنز۔لاہور،2012 ص 29
3 ۔ایضا ص 131۔
4۔ ایضا ص 138۔
5۔ایضا ص 270۔
6۔ریما بھاٹیا۔Sociology.۔ ص 524۔
7۔خدیجہ مستور۔آنگن۔ ص 84
8۔احمد سہیل ،ڈاکٹر۔ساختیات۔تاریخ نظریہ اور تنقید۔بک ٹاک ،لاہور۔ص 349۔