You are currently viewing سماج و تہذیب کا آئینہ ۔لاچی

سماج و تہذیب کا آئینہ ۔لاچی

ڈاکٹر نیلو فر فردوس

عالیہ یونیورسٹی ، کولکاتا

سماج و تہذیب کا آئینہ ۔ ’لاچی‘

       کرشن چندر نے اپنی نثری تخلیقات کے ذریعہ اردوادب میں حقیقت اوررومان کی بنیاد ڈالی ’شکست‘ ان کا پہلا اور’آدھا راستہ‘آخری ناول ہے۔کرشن چندر نے اپنے ناولوں کے ذریعہ بے شمار کرداروں اور ان کی زندگیوںکو پیش کیاہے،انھیں عورت کی انفرادیت اوراہمیت کا بھر پور احساس تھا۔عورت کو بھی اپنی انفرادیت و حیثیت کا احساس ہو،اس کے لیے انھوںنے پر زورانداز میں نسوانی کرداروں کو تخلیق کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار خواہ وہ کسی بھی طرززندگی یا طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ زندگی کی حرارتوں اوربنیادی نسوانی جذبات سے آراستہ ہیں۔ان کے نسوانی کردار صرف خوبیوں کا مجسمہ نہ ہو کر خوبیوں اور خامیوں سے متصف انسان ہیں،وہ صرف ایثار کی دیوی ہی نہیں ہیںبلکہ ضرورت پڑنے پر بے رحم چنڈالنی بھی ہیں۔غرض کہ اردو ناول نگاری میں نذیر احمد اور پریم چند نے کردار نگاری کو جس مقام تک پہنچایا تھا اسے آگے بڑھانے اورآئندہ آنے والوں کو راستہ دکھانے کے فرائض کو کرشن چندر نے نہایت ذمہ داری اورخوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا۔کرشن چندر کے نسوانی کرداروں میں ایک اہم اور لافانی کردار’ لاچی‘   [ایک عورت ہزار دیوانے ]کا ہے۔لا چی حقیقت اور رومان کا خوبصورت امتزاج ہے جو اپنے دور کے سماج اوراس کی تہذیب و قدروں کی بہترین نمائندگی کرتی ہے۔

         کرشن چندر اپنے کرداروں کی ذہنی ،جذباتی ،طبقاتی،تہذیبی،معاشی،معاشرتی اورسیاسی فضا پر بھرپور توجہ دیتے ہیں۔ہر کردار زندگی اورسماج سے بے حد قریب ہے خواہ وہ مرد ہوںیا عورت ،یہ کردار زندگی کی سنگین حقیقتوں سے بڑے حوصلہ اوردل جمعی سے مقابلہ کرتے ہیں ۔عورتوں کے لیے کرشن چندر کے ذہن و دل میں نرم وبلند گوشہ پنہاں ہے ،وہ عورتوں کا خود بھی احترام کیا کرتے تھے اور دوسروں سے بھی یہی توقع کیا  کرتے تھے  خواہ وہ عورتیں کسی بھی طبقے یا قوم سے تعلق رکھتی ہوں ۔وہ عورتوں کے مساوعی حق کے پرزور حمایتی تھے ایسے سماج کا تصور کیا کرتے تھے جہاں مردوں کے برابر عورتوں کو معاشی،سیاسی اور سماجی درجہ حاصل ہو۔اس ضمن میں ان کے ناولوں کے دو اقتباس ملاحظہ ہوں:

         ’’عورتیں اب بھی شہزادیاں ہیں۔وہ بھی پریوں کی طرح خوبصورت ہیں،ہاں ان کے تلنے کا پیمانہ بدل گیاہے کوئی عورت پانچ روپئے میں تل جاتی ہے ۔کوئی پانچ ہزارپر۔یہی مردوں کا ہے۔ صرف پیمانے الگ الگ ہیں۔پریوں کی تہذیب کا پیمانہ پھول ہیں آدمیوں کی تہذیب کا پیمانہ روپیہ ہے۔‘‘۱

         ’’اب ہر عورت ایک مختلف عورت ہے۔معقول بھی نامعقول بھی۔بھدی بھی نازک بھی۔بے گناہ بھی گناہ گاربھی۔ماں بھی معشوق بھی معصوم بھی مجرم بھیـ۔‘‘۲

         نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک نسوانی کردار’لاچی‘ جسے کرشن چندر نے بڑی چابک دستی سے اپنے ناول’ایک عورت ہزار دیوانے‘میں پیش کیا ہے دراصل کرشن چندر  نے لاچی کے ذریعہ معاشرتی،معاشی،سیاسی،اورسماجی حالات و مسائل کی نہ صرف عکاسی کی ہے بلکہ ان پر شدت سے وار بھی  کیا ہے۔خود کرشن چندر کی زبانی ’لاچی‘ کے کردار کی عظمت پیش نظر ہے ملاحظہ کیجئے:

         ’’اس ناول کا مرکزی کردار ایک حسین خانہ بدوش لڑکی لاچی ہے جس کا قبیلہ آج اس بیسویں صدی میں بھی ہزاروں برس پرانی زندگی کی ڈگر پرچل رہا ہے۔بمبئی کے مضافاتی اسٹیشنوں کے ارد گرد اکثر ایسے خانہ بدوش قبیلے آ تے جاتے رہتے ہیں اوراپنی عجیب اور دلچسپ زندگی سے کچھ دنوں کے لئے فضا کو رنگین بنا جاتے ہیں۔یہ ناول ایک ایسے خانہ بدوش قبیلے اوراس قبیلے کی ایک بہادر لڑکی کی داستان ہے جو ہر قدم پر زندگی کی عظمت کا ثبوت پیش کرتی ہے۔‘‘۳

         لاچی ایک بہادر اورخوددار لڑکی ہے جو زندگی کی ہر مصیبت کا سامنا بڑی ہمت سے کرتی ہے۔ بے حس سماج کے سامنے وہ لاچاری کا مظاہرہ آ خری وقت تک نہیں کرتی ہے بلکہ بڑی خودداری سے ایسے فیصلے زندگی میں سماج اور سماج والوںکے خلاف لیتی ہے کہ اس کے آ س پاس کے لوگ نہ صرف چونکتے ہیں بلکہ کہیں کہیں باغی روپ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔اس سماج  میں عورت ہونا جہاں بے چارگی کاسبب ہے وہیںاگر عورت خانہ بدوش ہو تو دوہرا ظلم ۔ایسے حالات میںعورتیں وقت اور حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہیں لیکن لاچی اس طبیعت کی نہیں۔وہ خانہ بدوش عورتوں کی طرح زندگی سے سمجھوتا نہیں کرنا چاہتی ہے۔خانہ بدوشوں کی طرح وہ اپنا گھر کندھوں پرلے کر نہیں چلنا چاہتی تھی وہ زندگی میں استحکام چاہتی تھی۔ وہ قبیلے کی دیگر عورتوں کی طرح زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی اور نہ ہی  اس نے ان کی روش زندگی کو کبھی قبول کیا تھا۔وہ ان عورتوں کی طرح جسم فروشی میںیقین نہیںرکھتی تھی البتہ اسے اپنی عزت و آبرو جان سے بھی زیادہ عزیز تھی ایک آہ کے ساتھ،ایک عجیب بے قراری کے ساتھ،انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس کے دل کی گہرائیوںسے یہ الفاظ نکلتے ہیں۔’’مجھے خیمہ نہیں چاہئے مجھے ایک گھر چاہئے!‘‘ وہ خیمے کے رواج کے مطابق مختلف مردوں کے ساتھ نہیں بلکہ ایک شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا خیال اپنے دل میں رکھتی ہے۔ اس نے اپنی طرف بڑھنے والے ہاتھوں کو طمانچوں اور تھپڑوں سے روک دیا۔یہی نہیں اس نے ایسے لوگوں کاقتل بھی کرنے سے گریز نہیں کیا۔اس پر مقدمہ بھی چلا جس کے سبب قبیلے کی دیگر عورتوں نے بھی غلط کام کرنے سے انکار کر دیا ۔کرشن چندر نے لاچی کے حوالے سے سماج کی بہترین عکاسی کی ہے جس سے اس وقت کا سماج اورسماج کا ان عورتوں کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہے،اس پر روشنی پڑتی ہے جو کم و بیش آج بھی سماج  کے کچھ حصوں میں پیر جمائے ہوئے ہے۔کرشن چندر کے خیالات ملاحظہ کیجئے:

         ’’مردوں کا سماج ہو یا مردوں کا قبیلہ ہو وہ عورت کے بہت سے گناہوں کی پردہ پوشی کر دیتے ہیں۔لیکن وہ ہر گز ہر گز یہ گوارا نہیں کرتے کہ کوئی عورت ان سے باغی ہو کر اپنی حرمت کی حفاظت  کے لئے لاچی کی طرح زندگی کی بازی لگا دے کیوں کہ اس کا اثر دوسری عورتوں پر بہت براپڑتاہے۔‘‘۴

         کرشن چندر نے لاچی کے حوالے سے سماج پر طنز کا گہرانشتر چلایاہے جس سے سماج کی حقیقت بے نقاب ہوتی ۔ لاچی مضبوط، بے باک، بے خوف،حوصلہ مند اور خود دار لڑکی ہے۔ وہ اسٹیشن یارڈ کے مغربی جانب خانہ بدوشوں کے قبیلے کے ایک خیمہ میں اپنی ماں اور چاچا مامن کے ساتھ زندگی سے جد و جہد کرتی ہے۔ چار سال کی عمر میں اس کا باپ رگّی اسے اوراس کی ماں کو جوئے میں ہار جاتا ہے۔ مامن جوئے کی اس جیت سے بے حد خوش تھا کیونکہ خانہ بدوشوں میں عورتیں مرد سے زیادہ کما لیتی ہیں۔ لاچی کی ماں نے ایک شخص سے لاچی کی غیر موجودگی میں ساڑھے تین سو روپیوں میں اس کا سودا کر دیا تھا۔  لاچی کا باغی ذہن و دل اس سودے کو قبول نہیں کرتا ۔ لاچی اس شخص (دماور) کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتی ہے۔ لاچی کی ماں سودے کے پیسے لوٹا نے سے منع کر دیتی ہے۔ایسے میںلاچی خود اس شخص سے وعدہ کرتی ہے کہ تین مہینہ بعد بہار جشن کے موقع تک وہ اس کے پیسے لوٹا دے گی اور اگر نہ لوٹا سکی تو خو د اس کے پاس چلی جائے گی۔ان پیسوںکو حاصل کرنے کے لیے اسے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سماجی رکاوٹیں تو در پیش ہوتی ہی ہیں ساتھ ہی ہر مرد اس کی عصمت و آبرو کا دشمن ہوتاہے وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔’آخر کیوں اس دنیا میں کوئی ایک لڑکی کی عزت کے لیے بغیر اسے ساڑھے تین سو روپیے دینے کے لئے تیار نہیں ہے؟‘غرض کہ پورا سماج لاچی کا مخالف ہو جاتاہے ۔کیونکہ اس نے بقول کرشن چندراپنے  علاقے کی غیرت کو چیلنج کیا تھا۔لاچی ظاہراً شوخ اورچنچل مزاج کی ہے لیکن باطن میں وہ سنجیدہ اورسمجھدار لڑکی ہے۔قرض کی ادائیگی کے لیے وہ کوئلہ اور مرغ چراچرا کر بیچتی ہے جس کے عوض میں اسے سزا بھی جھیلنی پڑتی ہے۔لاچی کے قبیلے کی روشی نام کی ایک عورت اس سے کہتی ہے کہ وہ کیوں روپیوں کے لیے اتنا پریشان ہو رہی ہے بلکہ اسے اپنی عزت کا سودا کر لینا چاہیے۔روشی نے اسے یہاں تک کہا کہ وہ اسے گاہک دلائے گی۔لاچی کواپنی عزت و آبرو جان سے بھی زیادہ عزیز ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے روشی کوصاف طور پر منع کر دیا۔غریب طبقے کے کچھ ایسے لوگ جو لاچی کے حالات سے واقف تھے اورعورت کی عزت و آبرو کی قدر کرتے تھے ساتھ ہی اس کے مفہوم سے بھی واقف تھے۔ان لوگوں نے لاچی کو روپے دیے اور اس سے کہا کہ’’ہم غریب لوگ ہیں ہمارے جیتے جی تری کوئی عجت نہ لے گا لے جا اپنے سردا ر کو یہ روپیہ واپس کر دے۔‘‘ایک غریب اورلاچار عورت کی مدد آخر غریبوں نے ہی کی۔ کیوں نہیں کسی سفید پوش نے لاچی کی مدد کی؟یہ سوال پیچیدہ ضرور ہے لیکن جواب اتنا بھی مشکل نہیں۔خود کرشن چندر سماج کی ناہموار یوں اورا س کے نظریوں سے بے زار نظر آتے ہیں اورطنز یہ جملے اور اقتباس لکھنے پر مجبور ہیں لکھتے ہیں:

         ’’ہر سماج اپنے گناہ چھپانے کیلئے کسی با ہر والے کو قربانی کا بکرا بناتاہے۔ذات سے باہر یا سوسائٹی سے باہر یا ملک سے باہر یا قوم سے باہر یا عقیدہ سے باہر۔اس بکرے کی ضرورت ہر سو سائٹی میںیکساں ہے اور اس بکرے کے بغیر کوئی سوسائٹی یا سماج چاہے وہ پسماندہ سے پسماندہ ہو یا ترقی یافتہ ہو چل نہیں سکتا۔خاص خاص بحرانی کیفیتوں میںاس بکرے کی ضرورت ہمیشہ پیش آ تی ہے۔اس بکرے کی جان لے کرا س کا لہو پی کر ہر سماج ایک طرح سے گویا اپنی تجدید حیات کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔‘‘۵

         لاچی غریب طبقہ کی مدد سے پیسے تو جمع کرلیتی ہے لیکن اس کی بد بختی اب بھی اس کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جشن بہار کے دن جمع شدہ رقم چوری ہو جاتی ہے اب وعدہ کے مطابق اسے خود کو دماور کے حوالے کرنا تھا۔لاچی نے اپنے مصمم ارادے کے تحت اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے دماروکا قتل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں اسے قید ہو جاتی ہے۔اس طرح اس نے اپنے سماج اورقبیلے کے قاعدہ اورقانون کو توڑتے ہوئے اپنے قبیلے کی عورتوں کو بے مثال سبق دیا۔جس کی وجہ سے قبیلے کی عورتوں میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوا۔نو جوان عورتوں نے برے دھندے  سے انکار کر دیا ۔ان کے شوہر خفاتھے ،قبیلے کا سردار خفا تھا،قبیلے کی بوڑھی عورتیں خفا تھیں۔لیکن لاچی کی دلیرانہ مدافعت نے صدیوں کی زنجیر یں توڑ ڈالی تھیں اوروہ طوفان جو ہر عورت کے سینے میں لہریں لیتاہے،سینہ توڑ کر باہر آ گیاتھا،۔غم و غصہ نوجوان خانہ بدوش عورتوں کے چہروں پررقص کرنے لگا،وہ محنت مزدوری کر سکتی تھیں لیکن اپنی عزت بیچنے پر تیار نہ تھیں۔خانہ بدوش عورتوں کی زندگی میں انقلاب آ چکا تھا۔اگر لاچی اپنے حالات سے سمجھوتا کر کے اپنی عزت کا سودا کرلیتی تودیگر عورتوںمیں بغاوت کا یہ جذبہ پیدانہ ہوتا ۔لاچی کی یہی ہمت و استقلال اسے کرشن چندر کے نسوانی کرادروں میں منفرد درجہ دلواتی ہے۔لاچی بے باک، نڈر، حوصلہ مند ہونے کے ساتھ ظاہری خوبصورتی کا بھی مجسمہ ہے اس کے گرد و پیش کے لوگ اکثر اس کے حسن کے شیدا ہو جاتے تھے قسمت کی ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ جیل میں دوران قید اسے چیچک نکل آ نے سے اس کی خوبصورتی بد صورتی میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔وہی سماج جو اس کا شیدا تھا اس سے گھن کھانے لگتا ہے۔ اسے پہچاننے سے انکار کردیتاہے۔لاچی کے ذہن و دل کے لیے وہ لمحہ زیادہ زخم پہچانے والا ہے کہ جب اس کا ’گل‘ اسے دغادے جاتاہے۔اس بے بسی کے عالم میں بھی وہ صبر و ہمت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتی اپنی خودداری اورانا کا ثبوت دیتے ہوئے گل کے بھیجے ہوئے منی آرڈر کو لوٹا دیتی ہے۔ اور بھیک مانگ کر اپنا گزر بسر کرتی ہے۔لاچی کا کردار کامیاب اورجاندار کردار ہے۔یہ ایک ایسا باغی کردار ہے جو اپنی زندگی کو توطوفان کے حوالے کرتی ہی ہے ساتھ ہی دوسری عورتوںکی زندگی میں بھی تلاطم بپاکر دیتی ہے۔حیات افتخار کرشن چندر کے نسوانی کردار کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :

         ’’اردوناولوں میں پہلے پہل ایک عورت کے کردار کو باغیانہ روپ میں پیش کرنے کاسہرا کرشن چندر کے سر ہے انھوں نے اپنے پہلے ناول’شکست‘ میں چندرا کا کردار پیش کیا ہے جو وہ اپنے وقت میں اردوناولوں میں بالکل نئی چیز تھی اورجرأت مندانہ اقدام تھا۔اسی کردار کا نکھرا ہوا اورترقی یافتہ روپ ان کے ناول’ایک عورت ہزار دیوانے‘میں ملتاہے۔‘‘۶

                       بلا شبہ لاچی کے روپ میں اردو ادب میں ایک نئی عورت جنم لیتی ہے جورونے ،سسکنے اور بلکنے کے علاوہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے ۔ نچلے طبقے سے وابستگی اور تعلیم کے فقدان کے باوجود لاچی کااحتجاج و استقلال دوسری عورتوں کے لیے ایک سبق ہے۔نچلے طبقے میں آنے والی اس بیداری کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر سید عقیل رضوی بجا فرماتے ہیں،کیوں کہ پریم چند دھنیا جیسے لافانی کردارسے ہمارا تعارف ناول گئودان کے توسط سے کرا چکے تھے  ملاحظہ کیجیے :

         ’’نچلہ طبقہ اپنے حقوق کے لئے لڑتا بھی ہے اوراپنے حقوق سے باخبر

            بھی رہنے کی فکر کرتاہے۔ترقی پسندوں نے یہ فن کچھ تو عالمی ادب سے

   سیکھا مگر زیادہ تر ان پر پریم چند کے اثرات ہیں۔۷

                وجوہات جو بھی ہوں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ لاچی ایک غیر معمولی ،حالات کی شکار لیکن حالات سے مقابلہ اور زندگی سے جد و جہد کرنے والی ایک پرعزم اور پر استقلال عورت ہے۔

حواشی

۱۔شکست،کرشن چندر،صفحہ۵۲

۲۔آدھا راستہ،کرشن چندر،صفحہ۶۹

۳۔پیش لفظ،ایک عورت ہزار دیوانے،کرشن چندر،صفحہ۱۰۔۹

۴۔ایک عورت ہزار دیوانے،کرشن چندر،صفحہ۱۳۲

۵۔ایک عورت ہزار دیوانے،کرشن چندر،صفحہ۱۳۵

۶۔کرشن چندر کے ناولوں میں ترقی پسندی،حیات افتخار،صفحہ۱۳۰

۷۔جدید ناول کا فن۔اردو ناول کے تناظر میں،پروفیسرسید عقیل رضوی،صفحہ۱۶۶

Dr.Nilofer Firdaus

 Assistant Professor,

 Dept.Of Urdu,

 Aliah University,

 Kolkata-West Bengal. India

 Mob# 9794722271

 Email.niloferfirdaus8@gmail.com

٭٭٭

Leave a Reply