افشانہ نذیر،ڈاکڑ مشتاق احمد گنائی
ریسرچ اسکالر:اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی،کشمیر یونیورسٹی، حضرت بل
سید نذیر نیازی:ایک تعارف
.سید نذیر نیازی مارچ ۱۹۰۰ء کو گورداس پور (سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ابتدائی تعلیم مکتبوں میں حاصل کی جاتی تھی اور عموماً وہاںقرآن، فارسی اور منطق کی تعلیم دی جاتی تھی۔سید نذیر نیازی کوخوش قسمتی سے یہ تعلیم گھر میں ہی اپنے تایا سے حاصل ہوئی ۔اسکے بعد مڈل اسکول دینا نگر میں داخلہ لیا ،یہاں انکے والد بہ سلسلہ ملازمت تھے ۔پھر قادیان کے تعلیم الااسلام ہائی اسکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۱۹ء میں نیازی صاحب نے مرے کالج سیالکوٹ سے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا ۔یہ زمانہ چنانچہ نہایت کشیدگی کا زمانہ تھا ۔اس دور میں کئی تحریکات نے جنم لیا،جس میں تحریک ترک ِموالات بڑے زوروپر تھی ۔یہی وہ دورتھاجب نذیرنیازی کو علامہ سے تعلقات قائم ہوئے۔تحریک ترکِ موالات میں ہندو ومسلم اتحاد عمل میں آیا۔ جس میں ان اہم پہلوئوںپرزور دیا گیا کہ مقدمات سرکاری عدالتوںکے بجائے ثالثی عدالتوں میں پیش کئے جائیںاور تعلیمی ادارے سرکاری امداد لینا بند کردیں اور انگریزی مال کا بائیکاٹ کیا جائے ۔اس تحریک میں نوجوانوں نے جوش وخروش سے حصّہ لیا یہاں غرض اس بات سے ہے کہ سیدنذیرنیازی جو اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے، اس تحریک کی پاداش میں اس کا تعلق کالج سے منقطع ہوگیااور وہ تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ،کیونکہ وہ بھی اس تحریک کے ساتھ منسلک تھے۔
چونکہ اس دور میں علی گڈھ مسلم یونیورسٹی علم کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا ۔جہاں طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے داخلہ لیتے تھے۔ تو نذیر نیازی بھی علی گڈھ تعلیم حاصل کرنے کے لئے روانہ ہوگئے، مگر تحریک ترک ِموالات کی لہر وہاں بھی پہنچ گئی اورآخر مختلف اکابرین کی جدوجہد سے علی گڈھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا اور مولانا محمد علی جوہر شیخ الجامعہ مقرر ہوئے ۔اسطرح سید نذیر نیازی نے بھی حصول تعلیم کے لئے داخلہ لیا اور تعلیم کو پا یۂ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہوگئے ۔ اسلامیہ کالج سے نوجوان کے طالب علمی کے زمانے کا ایک قصّہ ہے ۔جو کہ اُنکے ناموں کے ساتھ منسلک ہے۔ چونکہ یہ نوجوان تحریک خلافت سے بے حد متاثر تھے، تو اسلامیہ کالج کے چند طلبہ جن میں سید نذیر نیازی بھی شامل تھے۔انہوں نے تحریک جرنیلوں کے نام سے نسبت قائم کی، کسی نے اپنے نام کے ساتھ انور ،کسی نے کمال اور اس طرح سید نذیر احمد نیازی ،نذیر نیازی کہلائے ۔
اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے عبداﷲشاہ ہاشمی یوں بیان کرتے ہیں:۔
’’اسلامیہ کالج کے نوجوان ـ، تحریک خلافت سے اس قدر متاثر تھے کہ اُنھوں نے ترک جرنیلوں کے ناموں کو اپنے نام کا حصّہ بنا لیا۔ کسی نے انور کسی نے کمال۔ سید نذیر نیازی بھی فاتح قسطنطنیہ نیازی بک کی نسبت سے نذیر نیازی کہلائے۔ بہرحال کالج سے اخراج کے بعد وہ لاہور چھوڑکر علی گڈھ میں جاداخل ہوئے۔ مگر تحریک ترک موالات سے تعلق کی وجہ سے اُنھیں یہاں بھی کالج چھوڑنا پڑا۔‘‘
۱؎ سید نذیر نیازی نے اپنی مزید تعلیم پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی جہاں سے انہوں نے ۱۹۶۵ء میں فارسی میں ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی۔
پروفیسر سید نذیر نیازی ایک ایسے گھرانے کے چشم و چراغ تھے ،جو مال وزر اور دولتِ دنیا کے حوالے سے نہ سہی اپنے علم وفضل اور’’ـان اکرمکم عنداﷲاتقکم‘‘ کے حوالے سے تکریم کا ضرور مستحق ہے ۔اس گھرانے کے تقریباًـــــسبھی افراد کوا ﷲتعالیٰ نے تقویٰ اور دینداری کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا ۔جہاں تک علم وفضل کا تعلق ہے تو نیازی صاحب کاگھرانا روشنی کا ایک مینار تھا۔یہ روشنی کا مینار دوسرے گھروں کو بھی علم کی روشنی سے منور کرتا تھا ۔یہ مینار اْن کے آباو اجدادسے چلی آرہی تھی۔علامہ اقبال نے اس گھرانے کے لئے اپنے قلبی عقیدت کا اظہار اس طرح کیا ہے ؎
مجھے اقبال اْس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جواْس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں ۲؎
اس سلسلے میں عبداﷲ شاہ ہاشمی اس طرح رقمطراز ہیں:۔
’’اقبال نے سادات کے جس گھرانے سے فیض پایا نیازی صاحب اسی علمی ودینی خاندان کے چشم وچراغ تھے‘‘۔ ۳؎
کسی بھی ادیب کی شخصیت کو اس وقت تک پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں جب تک کہ ہم اس کے گرد وپیش کی دنیا کو دھیان میں نہ رکھیں ،خاص طور پر وہ تہذیبی اور سماجی حالات جن میں کسی شخص کی زندگی کے ابتدائی ایام گزرے۔وہ حوادث ِزمانہ جنہو ں نے تخلیق کار کی پرورش میں اہم حصّہ لیا۔ شخصیت کی تشکیل میں وراثت میںملنے والے عضویاتی اور نفسیاتی امکانات،ماحول کے ساز گار عوامل کے ساتھ مل کر حصّہ لیتے ہیں۔ بچپن کا ماحولؤِ، وہ لوگ جن میں بچپن گزرا ہو ، تاحیات فرد کی شخصیت پر اپنے اثرات مرتب کرتے رہتے ہیں۔
جہاں تک سید نذیر نیازی کا تعلق ہے تو جیسا کہ اُوپر بیان ہوچکاہے کہ وہ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ن کے دادا سید میر محمد شاہ عربی وفارسی کے اچھے خاصے عالم و فاضل تھے ۔آپ ایک پابند مذہب، تابع شریعت انسان تھے۔ قرآن وحدیث پر مکمل اور گہری نظر رکھتے تھے۔ سید نذیر نیازی کے والد سید عبد الغنی جو میر محمد شاہ کے چھوٹے صاحبزادے تھے، بھی دیندار اور صاحب قرآن تھے۔اس سلسلے میں نیازی صاحب یوں رقمطراز ہیں۔
’’ــ وہ حافظ قرآن تھے اور معمولاً آخر شب ہی میں بیدار ہوجاتے۔پھر نوافل اور فجر کے بعد تلاوت سے فارغ ہوکر سوجاتے ۔‘‘۴؎
آپ کے والدصاحب بھی عربی وفارسی سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ابتدائی تعلیم مشن اسکاچ اسکول میں حاصل کرکے محکمہ ڈاک میں ملازم ہوگئے ۔دہلی میں ملازمت کا بڑاحصّہ گذارا۔دینانگر ضلع گورداسپور میں کچھ عرصہ پوسٹ ماسٹرکی حیثیت سے کام کیا۔۱۹۳۰ء میں دہلی میں وفات پائی۔
سید صاحب دہلی میں تھے، تو سرسید احمد خان اور اقبال جیسی معروف شخصیات سے اچھے خاصے روابط تھے ۔اسکے علاوہ ان شخصیات کے ساتھ خط وکتابت بھی ہوا کرتی تھی۔چند خطوط یہاں نقل کیے جاتے ہیں:۔
مخدومی مکرمی سید عبدا لغنی صاحب
آپ کا عنایت نامہ علی گڈھ سے ہوکر الہ آباد میرے پاس پہنچا۔آپ کی صحت اور تندرستی سے نہایت خوشی ہوئی۔انشاء ا ﷲ دسمبر میں آپ سے ملاقات ہوگی۔چندہ کانفرس آپ کا مرسلہ پہنچا ۔مسدس منشی احمد علی صاحب شوق علی گڈھ سے آپ کے نام روانہ ہوگیا ہوگا۔
فقط خاکسار سید احمد از الہ آباد ۱۴ نومبر ۱۸۹۶ء ۔۵
نیازی صاحب کے والد مسلمانوںکی مختلف تحریکوں میں بڑے جو ش وخروش کے ساتھ پیش پیش رہے۔ آپ ایک انجمن نصرت الاسلام کے ساتھ منسلک تھے ۔یہ انجمن دینانگر میں بعض غیور مسلمانوں نے آریہ سماجی تحریک کی روک تھام کے لئے قائم کر رکھی تھی اور اس انجمن کے سالانہ جلسوںمیں بڑے بڑے مشہوروعظیم اکابرین شرکت فرماتے تھے، جن میں علامہ اقبال جیسی بین الااقوامی شخصیت بھی شامل تھے۔ اس سلسلے میں جب نیازی صاحب کے والد ۲۰ جولائی ۱۹۱۲ء میں اقبال کو ایک مکتوب ارسال کرتے ہیں تو اسکے جواب نامہ میں علامہ یوں فرماتے ہیں:
’’انجمن کی طرف سے مجھے کوئی خط نہیں ملا ،آپ کا فرمان سر آنکھوں پر، مگر افسوس ہے کہ حاضری سے معذور ہوں۔جولائی کے آخر میں مجھے اور ضروری کام ہے، اس کے علاوہ میں نے پبلک لائف بہ وجوہات تقریباً ترک کردی ۔
والسلام
آپ کا خادم محمد اقبال ازلاہور۔۶
ان خطوط سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اقبال کے دل میں نیازی صاحب کے والد کے لئے کس قدر عقیدت کے جذبات موجود تھے۔چونکہ اقبال خود ایک دینی جذبہ رکھتے تھے تو اسی لحاظ سے انکے دل میں سید عبدالغنی جیسے خدادوست شخصیت کے لئے عقیدت کے جذبات تھے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عبدالغنی سید میر حسن کے چھوٹے بھائی تھے اس لحاظ سے بھی اقبال کے دل میں یہ جذبات پل رہے تھے۔نیازی صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’ایک روز والدِماجدِ قبلہ بھی ساتھ تھے ۔حضرت ِعلامہ کی خدمت سے ملاقات ہوئیـ برسوںگذر چکے تھے۔وہ کمرے میں داخل ہوئے تو ـ حضرت علامہ سمجھے کوئی صاحب ملنے آئے ہیں لیکن والد ماجد کے اسلام علیکم اور کیسا مزاج ہے کے جواب میں الحمدﷲخیریت ہے ،کہہ کر ذرا سر اُٹھایاتو اُنھیں پہچان کر یکبار گی اُٹھ کھڑئے ہوئے اور چچّا جان ہیں، کہتے ہوئے بڑے تپاک سے ہاتھ ملایا‘خیریت ِمزاج پوچھی اور اپنے پاس بٹھاکر دیر تک باتیں کرتے رہے ۔ حضرت ِعلامہ بُہت متاثر ہوئے ‘ والدِ ماجد کوتسلّی اور آنّعزیز کی صحّت کے لئے دُ عا کرتے رہے‘‘ ۔ ۷؎ ـَ
علامہ اقبال بار بار اپنے کلام میں نیازی صاحب کے خاندان کو خراج تحسین پیش کرتے رہے۔بانگ درا کی ایک نظم بعنوان التجائے مسافر میں یہ شعر درج ہے ؎
وہ شمعِ بارگہ خاندانِ مرتضوی
رہے گا مثل حرم جس کا آستان مجھ کو ۸؎
سید نذیر نیازی کے گھرانے سے ایک عظیم شخصیت شمس العلماء سید میر حسن اس خاندان کی ایک غیر معمولی شخصیت تھی۔ سید میر حسن کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔دنیا میں بہت کم ایسی شخصیت گذری ہیں ۔جنہوں نے علم کو فرض سمجھ کر حاصل کیا اور اپنے علم سے دوسروں کو مستفید ومستفیض کرکے رسول اﷲ کے اس فرمان مبارک کی تعمیل کی ہے:
اطلبو العلمہ ولو کانَ بِالعین (ترجمہ: تم علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین بھی جانا پڑے)
میر حسن اُن خوش نصیب انسانوں میں سے ایک ہیںجو زندگی بھر تحصیل علم کرتے رہے۔مولوی میر حسن کون تھے ؟کیا تھے؟جن کے متعلق ترجمان حقیقت نے فرمایا:
’’میں ان کی زندہ تصنیف ہوں‘‘۔۹؎
دنیا ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اس لئے کہ اقبال کے نزدیک میر حسن ایسی شخصیت تھی کہ ؎
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروّت نے نکتہ داں مجھ کو ۱۰؎
علامہ اس گھرانے سے فیضیاب ہونے کااعتراف بار بار کرتے ہیں ۔ مولوی عبدالحق اسکی وضاحت ان الفاظ میں یوں کرتے ہیں:۔
’’ دوسرافکری اور تعمیری ماحول انہیں خاندان مرتضوی کی بارگاہ کے آستانہ علم ودانش سے ملاجو اقبال کے لئے مثل حرم ہے۔ جس کے نفس سے اقبال کی آرزو کی کلیاں کھلی ہیں ،جس کی مروت نے اقبال کو نکتہ داں اور نکتہ سنج بنادیا‘‘۔ ۱۱؎
علامہ اقبال جیسی بین ا لاقوامی شخصیت سید میر حسن کے شاگردوں میںسے شامل تھی۔ جو شہرت کے بام عروج پر پہنچے اور جو برصغیر کے بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ان کی تعلیم و تربیت میں سید میر حسن کا بہت بنیادی ہاتھ رہا ہے۔اس سلسلے میں نیازی صاحب رقمطراز ہیں۔
’’میر حسن کے ہاتھوں اقبال کی تربیت جس نہج پر ہوئی اس سے ان کی زندگی کا رخ ہمیشہ کے لئے متعین ہوگیا۔ نہ میر حسن کے بعد ان کی شخصیت میںکوئی آیا، نہ کسی نے ان کے دل ودما غ کا رنگ بدلہ نہ اس راستے سے جو میر حسن کی بدولت بنیادی طور پر متعین ہوگیا تھا۔کسی دوسرے راستے کی تلاش کا سوال پیدا ہوا۔‘‘ ۱۲؎
اس طرح سے سید نذیر نیازی کے خاندان سے کئی نامور اور تابناک شخصیات اُبھری ہیں۔جن میں سید محمد عبدﷲ جو میر حسن کے پوتے تھے ۔جو سیشن جج کی حیثیت سے ۱۹۴۷ء میں سبکدوش ہوئے ۔ انہیں حکومت نے ’’خان بہادر‘‘کے خطاب سے نوازا تھا۔ علامہ اقبال کے ساتھ عبداﷲ صاحب کے گہرے مراسم تھے۔دونوں کے درمیان علمی وادبی گفتگوئیں ہوا کرتی تھی ۔اقبال کے ساتھ آپ کے گہرے تعلقات رہے ہیں۔اسی طرح ڈاکڑ سلطان محمدد حسین بھی اسی خاندان کے چشم چراغ تھے۔ آپ ایک عالم وفاضل اور محققین میں شامل تھے ۔ مشہور مشترق گارسیںدتاسی کے خطبات کے حواشی آپ کی روز وشب کی محنت اور علمی انہما ک کا بین ثبوت ہیں۔انہوں نے سید میرحسن کی سیرت و کردار پر بھی ایک اہم تصنیف قلمبند کی ہے۔
اس طرح یہ بات ہمارے سامنے عیاں ہوتی ہے کہ نیازی صاحب کی شخصیت کی نشونما ایک ایسے گھرانے میں ہوئی ہے جو علم وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ یعنی نیازی صاحب کو اپنے گریلو ماحول میں وہ تمام عوامل میسر تھے ،جو ایک ادیب ومحقق کی شخصیت کو تعمیر کرنے کے لیے مو ثر ثابت ہو تے ہیں۔ چنانچہ انسان جس حلقے میں رہتا ہے، اُٹھتا ہے، بیٹھتا ہے،آخرکار اسی میںضم ہوجاتا ہے۔مثل مشہور ہے’’ صحبت کا اثر ‘‘ اور صحبت کا اثر بڑی چیز ہے یوں بھی اثر آفرینی اور اثر پذیری انسانی طبیعت کا خاصا ہے۔
یوں کہیے جس طرح فن کے صحیح استعمال میں شخصیت کا عمل دخل لازم ہے۔ با لکل اسی طرح شخصیت پر عہد اور ماحول کے مخصوص کوائف کا منعکس ہونا خارج از امکان نہیں ہوتاہے۔آدمی کے وجود کو اگر باریک بینی سے ایک ہی نظر میں محاکمہ کیا جائے، تو متعلقہ نظریاتی دنیا کے حوالے سے اس میں رہنے بسنے والی شخصیت کی اصلیت بڑی حد تک سامنے آجاتی ہے۔
اصل میں ایک انسان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل اور اس کی صلا حیتوں کو بروئے کار لانے میں ایک استاد کا بھی نہایت اہم رول رہتا ہے۔استاد کی صحیح رہنمائی اور سرپرستی کی بدولت ایک فر د اپنی استعداد کو بروئے کار لاتا اور ترقی کے مراحل بتدریج طے کرسکتا ہے۔سید نذیر نیازی کی شخصیت پر نظرڈالیں تو وہ علم وادب کے میدان میںتابناک نظر آتے ہیں اور انکی شخصیت علمی صلاحیتوں میں نمایاں نظر آتی ہے۔اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کی انہوں نے جامعہ ملیہ میں بعض نامور استاتذہ سے کسب فیض حاصل کیا ہے ۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے چچا سید میر حسن سے حاصل کی بعد میں انہوںنے اسلم جیراجپوری سے باقی تعلیم حاصل کی چنانچہ اسلم جیراج پوری ایک نامور اور ممتاز دانشور تھے ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۵ء تک وہ جامعہ ملیہ میں تعلیمی خدمات انجام دیتے رہے اور وہاں کے شعبۂ اسلامیات کے صدر بھی رہے ہیں ۔وہ پاکستانی تحریک میں بھی ساتھ ساتھ رہے ،جس پر انہیںGold Medal of Pakistanسے نوازا گیا۔اس کے علاوہ انہوں نے مولانا محمدسورتی،مولانا حمید الدین فراہی جیسے عالموں سے بھی علم حاصل کیا۔سید نذیر نیازی کوکئی برس تک مولانا محمدعلی جوہر ،ڈاکڑ ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب جیسے ذی علم اصحاب کی رفاقت میسر رہی۔پروفیسر مسعود حسین خان کے ساتھ بھی نیازی صاحب کے قریبی تعلقات رہے ہیں۔چنانچہ جب ۱۹۳۲ء میںسید نذیرنیازی کشمیر کے سفر کے لئے روانہ ہوئے تو ڈاکڑ ذاکر حسین نے پروفیسر مسعود حسین خان کو نیازی صاحب کے ساتھ کردیا اور اس طرح انہیں ڈاکڑ صاحب کو دیکھنے اور جاننے کا بہت اچھا موقع ملا ۔اس واقعہ کی تصدیق ڈاکڑ ریحانہ سلطان یوں کرتی ہے:
’’علامہ اقبال کے ہم وطن اور عقیدت مند نذیر نیازی،جامعہ ملیہ کے اُستاد تھے۔۱۹۳۲ء میں جب وہ کشمیر جا رہے تھے، تو ڈاکڑ صاحب نے مسعود حسین خان کو بطور تبدیل آب ہوا ان کے ساتھ کردیا۔‘‘۱۵؎ ؎
محمد سہیل بخاری بھی اس بات کی وضاحت کرتے ہیںکہ:۔
’’ڈاکڑذاکر حسین بانی جامعہ ملیہ سے آپ کے بڑے گہرے تعلقات تھے۔ ‘‘ ۱۳؎
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ ایک شخص کی شخصیت کا چراغ شعوری وغیر شعوری طور پر اپنے گردوپیش اپنے ماحول اور نسلی واجتماعی لاشعور ہی سے منور ہوتا ہے ۔نیازی صاحب کی شخصیت پرگھریلو ماحول کا کافی اثر رہا ہے ۔چونکہ انہوں نے اُس گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں برسوں تک دین کی خدمات دی جا تی رہی ۔اس لحاظ سے سید نذیرنیازی کو بچپن سے ہی قرآن مجید کی تعلیم سے سرفراز کیا گیا اورانہیں قرآن پاک سے دلی رغبت تھی ۔کثرت سے تلاوت کرتے تھے۔ابتداء ہی سے عربی صرف ونحوکی تعلیم سے بھی سرفراز ہوئے تھے ۔تو اس لحاظ سے عربی زبان پر بھی خاصی قدرت حاصل تھی ۔چنانچہ جن لوگوں کا عرب ممالک سے تجارتی تعلقات ہوتے تھے تو اس سلسلے میں وہ نیازی صاحب کی رہنمائی سے فیض اُٹھاتے ۔جب بھی اِن لوگوں کو عربی میں کاروباری خط ملتے تو نیازی صاحب نہ صرف خطوط پڑھ کر سناتے بلکہ ان کا جواب بھی عربی میں تحریر کر دیتے ۔ جرمن زبان میں بھی انہیںکافی مہارت تھی اس ضمن میںاس بات کا ذکر یہاںضروری ہے کی علامہ اقبال جو نیازی کے قریبی دوست رہے ہے اور کئی برس تک اقبال کی صحبت میں رہے ہیں ۔جس کا ذکر آئندہ اوراق میںتفصیلا ً ہوگا۔یہاں میرا مقصد اس امرکی طرف اشارہ کرناہے کہ شاید اقبال کی صحبت میں ہی نیازی صاحب کو جرمن زبان سیکھنے کا موقع ملا ہوگا۔اسکے علاوہ پنجابی زبان میں بھی مہارت تھی کیونکہ گھر میں اکثر اسی زبان میں بات چیت ہوا کرتی تھی ۔
سید نذیر نیازی کی شخصیت کی نشونما میں انکے احباب کا بھی اہم حصّہ رہا ہے۔چونکہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ جس قسم کا انسان ہوگا ،اسی قسم کی اس کوسوسائٹی ہوگی ،اسی قسم کا اسکا دائرہ احباب ہوگا ،علمی و ادبی شخصیت کے دوست واحباب علم والوں کے شائقین ہی ہونگے۔سیاست سے تعلق رکھنے والے شخص کے دوست سیاست داں ہوں گے اورتاجر کے دوست کاروباری ذہن رکھنے والے ہوں گے۔چنانچہ نیازی صاحب کئی خصوصیات کے حامل تھے وہ مذہب پسندتھے ۔اسوئہ حسنہ کے پیکر تھے۔ علم وادب اوڑھنا بچھونا تھا۔عوام کی فلاح وبہبود کا جذ بہ ان میں کار فرما تھا۔جب اُنکے کے حلقہ احباب پر نظر ڈالتے ہیں۔ تو وہاں عالموں کی کہکشاں نظر آتی ہے ۔جن میں چودھری محمد حسین، سلامت اﷲشاہ،ڈاکڑ عابد حسین،سید امجدالطاف وغیرہ جیسے نامور لوگ شامل تھے۔سید نذیر نیازی اپنا بیشتروقت اپنے دوستوں کی صحبت میں گزارتے ،انکی سوسائٹی میں زیادہ تر عالم ،فاضل ،شاعراور فلسفہ داں تھے وہ حسن پرست تھے اور اپنے ماحول کی تحسین چاہتے تھے وہ ہر چیز میں حسن کے متلاشی تھے۔اسکے علاوہ انکے احباب میں علامہ اقبال جیسی عالمگیر شخصیت بھی شامل تھی۔
سیدنذ یر نیازی کی شخصیت پر علامہ اقبال کے گہرے اثرات رہے ہیں۔انہیں اقبال جیسی عالمگیر شخصیت کا موقع اس وقت ملا جب وہ محض دس برس کی عمر کے تھے ۔اسکے بعد باقاعدہ تعلقات کا آغاز۱۹۱۸ء میں ہوا۔وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ان تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا۔اقبال کے ساتھ نیازی صاحب کے تعلقات گہرے ہوگئے۔ دیرے دیرے اقبال نیازی پر اعتماد کرنے لگے ۔اقبال کے معتقدین اور رفقا ء میں چودھری محمد حسین کے بعد نذیر نیازی ہی کو اقبال کا سب سے زیادہ قرب حاصل رہا۔
سید نذیر نیازی بیس سال تک اقبال کی خدمت میں حاضری دیتے رہے اور اس طرح انہیں اقبال کے افکار وخیالات کو قریب سے خوشہ چینی کرنے کا موقع ملا ہے۔ سید نذیر نیازی اقبال کی ذہنی ضرورت بن گئے تھے بلکہ افکار اقبال نیازی صاحب کی طبیعت کا جزو ثانی بن گئے تھے ۔ان کی نگارشات میں فکر اقبال کی جھلک نہایت واضح طور پرنظر آتی ہے۔
سید نذیر نیازی نے اقبال کی شخصیت پر کئی کتابیں قلمبند کئیے۔ انہوں نے اقبالیات کے فروغ میں جوحصّہ ادا کیاہے اور اقبال شناسی کا جس طرح ثبوت دیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔اُنہوں نے اقبال شناسی میں اپنی شناخت بنانے کے لئے کئی وقیع کتابیں تدوین کیں۔اس سلسلے میں ’’اقبال کا مطالعہ اور دوسرے مضامین ‘‘ (۱۹۴۱ء ) ان کی پہلی تصنیف ہے۔ جس میں فکر اقبال کے اہم پہلؤںکو اجاگر کیاگیا ہے۔ اسکے علاوہ اقبالیات پر انکی ایک معرکۃالآراتصنیف ’’دانائے راز‘‘ (۱۹۷۹ء)کے عنوان سے منظر عام پرآ چکی ہے۔یہ اقبال کے سوانحی ادب میں اہم اور بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اقبالیات کے حوالے سے نیازی صاحب کئی تصانیف بھی مرتب کر چکے ہیں۔جن میں ’’مکتوبات اقبال‘‘ (۱۹۵۷ء)اور ’’اقبال کے حضور میں‘‘ (۱۹۷۱ء)اُن کی دوکتابیں ہیں۔ ’’مکتوبات اقبال‘‘ (۱۹۵۷ء)ان خطوط پر مشتمل ہے جو علامہ اقبال نے نیازی صاحب کے نام تحریر کیے۔ان مکاتیب سے مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے باہمی تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے۔اقبال کے مکتوب ا لیہم میں نیازی صاحب کو کا فی اہمیت حامل ہے ۔کیونکہ انکے نام مکاتیب کی تعدادسب سے زیادہ ہے۔ سید نذیر نیازی اقبال کے جیمس بوسل ٌکہلائے جاتے تھے۔کیونکہ انہوں نے علامہ کے مجموعہ خطبات The Reconstruction of religious thought in islam کا اردو ترجمہ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘کے نام سے ۱۹۵۸ء میں کیا ۔جو بزم اقبال لاہور کے ذریعئے منظر عام آیا۔ اقبالیات کے سلسلے میں یہ ترجمہ ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ ان تصانیف کے علاوہ بھی نیازی صاحب اقبال کی شخصیت پر کئی کتابیں لکھ چکے ہے ۔جو اقبالیاتی ادب میں اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
نیازی صاحب نے اپنی ملازمت کی شروعات جامعہ ملیہ سے ہی کی چونکہ اسلامی تاریخ ان کا خاص مضمون تھا ۔اسلئے یہاں وہ منطق اور اسلامی تاریخ کے استاد، صدر شعبہ تاریخ اور ممبر اکیڈمک کونسل اور اعزازی لا ئبریرین رہے۔نیازی صاحب ایک سیماب پا اور منفرد انسان تھے اسلئے اپنی ذہانت کی وجہ سے جامعہ میں اہم مقام حاصل تھا۔
سید نذیر نیازی کا تصوف سے بھی خاصا لگاو تھا ۔انکی یہ دلی خواہش تھی کہ وہ یورپ جاکر مزید تعلیم حاصل کرے ۔انکا خیال تھا کہ انگلستان یا جرمنی میں’’اسلامی تصوف کا مطالعہ‘‘ کے موضوع پر تحقیق کریں ۔چونکہ نذیر نیازی کو علامہ اقبال سے گہری عقیدت تھی دونوں کے درمیان تعلقات نہایت قریبی تھے تو نیازی صاحب ہرمعاملے میں علامہ اقبال سے مشورہ کیا کرتے تھے ، اس سلسلے میں جب نیازی صاحب اقبال کے حضور اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیںتووہ یوں فرماتے ہیں:۔
’’ تصوف لکھنے پڑھنے کی چیز نہیں کرنے کی چیز ہے ۔کتابوں کے مطالعے اور تاریخی تحقیقات سے کیا ہوتا ہے۔ کسی کو کوئی حقیقی فائدہ نہیں پہنچتا۔نہ کتابوں کے مصنف کو،نہ اس کے پڑھنے والوں کو۔اس کے علاوہ مجھے اُمید نہیں کہ بمبئی کے تاجر ایسے مضمون پڑھنے والے کسی کوولایت بھیجیں۔وُہ عملی لوگ ہیں ایسے مضمون اُن کو اپیل نہیں کرتے۔ضرُورت بھی اسی امر کی مقتضی ہے۔بہتر ہو کہ آپ کسی اچھے ہُنر کی تلاش میں ولایت جائیںـــ۔‘‘ ۱۴؎
اسکے بعد نامعلوم اسباب کی بنا پر وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ نہ جا سکے اور ۱۹۳۵ء تک جامعہ ملیہ سے وابستہ رہے ۔مگربعدازاں جامعہ سے بد دل ہو کر ملازمت ترک کردی اور لاہور چلے گئے جامعہ ملیہ سے ان کی بددلی کے بارے میںنسیم اختر کے مقالہ میں درج سید محمد امجد علی الطاف کا بیان یوں درج ہے:ـ۔
’’جامعہ ملیہ کا مزاج کانگریسی تھا۔ مگر نیازی صاحب شدت کے ساتھ دو قومی نظریہ کے قائل تھے۔ ارباب جامعہ کے ساتھ اکثر ان کا اختلاف رہتا تھا۔ یہ اختلاف اس وقت انتہا کو پہنچ گیا۔ جب واردھا تعلیمی سکیم پیش کی گئی۔ نیازی صاحب مستعفیٰ ہوگئے۔ان کے رفقاء نے ا نہیں جامعہ سے وابستہ رہنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن نیازی صاحب نہ مانے۔ان کا زیادہ تر اختلاف ڈاکڑ ذاکر حسین سے تھا اور نیازی صاحب اصولوں پر مفاہمت سے قاصر تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ جامعہ کے لئے ڈاکڑ ذاکر حسین کی افادیت میری نسبت زیادہ ہے۔ اس لئے میرا جامعہ کو چھوڑ دینا ہی مناسب ہے۔ یہ نیازی صاحب کا ایثار تھا جو انہوں نے جامعہ کے مفاد کے لئے کیا۔ قربانی کی ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ‘‘۱۵؎
اس سلسلے میں خود نذیر نیازی یوں بیان کرتے ہیں :۔
’’میں واقعی جامعہ سے بددل ہورہا تھا،اس لئے کہ جامعہ کی تعلیمی اور سیاسی روش سے میرا اختلاف روز بروز بڑھ رہا تھا۔اختلاف کی وجہ جامعہ کا اسلامی قومیت کی بجائے وطنی قومیت کی طرف رُجحا ن تھا۔ جس سے ظاہر ہے اسلامی نظام تعلیم ،علیٰ ہذٰا اسلامی اصول حیات پر نوجوانوں کے دل ودماغ کو وہ تصور جوبانیِ جامعہ مولانا محمد علی کے ذہن میں تھا لحظہ بہ لحظہ نظر انداز ہورہا تھا۔‘‘ ۱۶؎
چونکہ نذیر نیازی نے ملک کے بعض معروف رسائل وجرائد میںکارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔ انہوں نے اسلامی تصورات پر بھی کئی مضامین قلمبند کیے ہیں۔ ملازمت ترک کرنے کے بعدسید نذیر نیازی نے کہیںجم کر ملازمت نہیں کی ،پھر علامہ کے مشورہ سے ایک علمی ادبی پرچہ ’طلوع اسلام،، جاری کیا۔اس سلسلے میں نیازی صاحب یوں رقمطراز ہے:۔
’’طلوع اسلام کا معاملہ یوں ہے کہ ۱۶ اپریل کو جب میں نے بہ وجوہ جامعہ سے علحٰیدگی کا فیصلہ کیا تو وہ پُرانہ خیال کہ ایک ملی اسلامی مجلے کی اشاعت ازحد ضروری ہے ،ازسر نو تازہ ہوگیا۔ قیام علی گڈھ ۲۵۔۱۹۲۰ میں ایک ماہنامے کا تصّور میرے ذہن میں ہوگیااور قرآن پاک کی اس آیت کے ماتحت’’ وعلی ا ﷲ قصد السبیل ومنھا جائرو لو شا ء لھدٰ کم اجمعین‘‘میرا جی چاہتا تھا کہ الرشاد اور الھلال کی طرح ایک پرچہ السّبیل یا قصد السّبیل کے نام سے جاری کیا جائے۔۔۔ایک روز ۱اپریل ۱۹۳۵ء جاوید منزل میں پھر یہی گفتگو ہو رہی تھی اور راقم الحُروُف کے علاوہ راجہ حسن اختر،چودھری محمد حسین اور سید سلامتُ اﷲ مرحوم بھی اس میں شریک تھے۔ کئی نام تجویز ہوئے ۔بلا ٓخر حضرتِ علامہ اقبال کی نظم’’ طلوع اسلام‘‘کے پیش نظر قرار پایا کہ رسالے کا نام’’ طلوع اسلام ‘‘رکھا جائے۔ بشرطیکہ حضر ت علامہ اسے منظور فرمائیں۔ حضرت علامہ نے بکمال مہربانی اس کی اجازت دی ۔ ‘‘ ۱۷؎
سید نذیر نیازی اس رسالہ کی پہلی اشاعت کو علامہ اقبال کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کرتے ہوئے طلوع اسلام میں یوں اپنے جذبات کا مظاہرہ کرتے ہے:۔
’’ اس غیر معمولی شفقت اور ہمت افزائی کے لئے جس سے مجھے طلوع اسلام کی اشاعت کا حوصلہ ہوا ۔میں اپنی اس نا چیزکوشش کو حضرت علامہ ڈاکڑ سر محمد اقبال کی خدمت بابرکت میں پیش کرتا ہوں ۔اس اُمید میں کہ حضرت ممدوح ازراہ نوازش اسے شرف قبولیت بخشیں گے۔‘‘ ؎
ہمی شرم وارم کہ پائے ملخ را
سوئے بارگاہ سلیمان رفتم
ہمی تر سم ازریش خندِریاحیں
کہ غارِ مغیلان بہ بستاں فرستم ۱۸؎
طلوع اسلام کے تین پرچے دہلی اور تین لاہور سے نکلے۔اس رسالہ میں نیازی صاحب نے اقبال کی بعض تحریروں کے اقتباسات پیش کئے ،اس میں ایک مضمون بعنوان ’’اقبال اور ختم نبوت‘‘ بھی شائع کیا تھا۔جس میں نبوت کے دو اجزا پر بحث کی تھی۔ یعنی نبوت روحانیت کے ایک خاص مقام کی حیثیت سے اور نبوت ایک ادارے کی حیثیت سے جو نئی اخلاقی فضا تخلیق کرکے انسانوں میں سیاسی اور معاشرتی تغیر کا سبب ہے۔
انہوں نے ایک مکتبہ بھی قائم کیاتھا۔جہاں سے’’ ضرب کلیم‘‘او ر ’’مثنوی پس چہ پایدکرد‘‘کے پہلے ایڈشن شائع ہوئے ۔مگر یہ مکتبہ بعد میںنا مساعد حالات کا شکار ہوگیااورپھر رسالہ بھی جاری نہ رکھ سکھے۔ اسکے بعد غلام احمد پرویز نے ان سے اجازت لے کر یہ رسالہ اپنے طور پر اپنی پالیسی کے تحت ’’طلوع اسلام‘‘دوبارہ جاری کیا،مگر اس کا نیازی صاحب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ نیازی صاحب ایک جگہ لکھتے ہے کہ :۔
’’ طلوع اسلام ‘‘کا نام حضرت علامہ کی نظم طلوع اسلام کے عنوان پر تجویز کیا گیا۔ اس کا پہلا پر چہ اکتوبر ۱۹۳۵ ئمیں دہلی سے شائع ہوااور اس کے بعد دو اور ۱۹۳۶ء میں۔ وہ بھی دہلی ہی سے ۔باقی تین پرچے لاہور سے شائع ہوئے۔ مگر کئی مہینوں کے وقفے کے بعد لہٰذا ناچار اسے ہمیشہ کے لئے بند کر دینا پڑا جس کا حضرت علامہ کو بھی افسوس تھا‘‘۔ ۱۹
سید نذیر نیازی کا شمار اردو ادب کے ممتاز اہل قلم صحافی محققین ،ترجمعہ کار ،تاریخ نویس،فلسفہ دان، محققین میں ہوتا ہے۔اسکے علاوہ تاریخ منطق الہیات اور سیاسی و تمدنی مسائل پر بھی گہری نظر رکھتے تھے ۔انکی تحقیقی وتنقیدی کتب علم و ادبی میدان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ نیازی صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔یوں دیکھا جائے تو نیازی صاحب ایک جامع الحیثیات شخصیت ہیں اور ہر حیثیت میں کامیاب وکامران نظر آتے ہیں۔تحقیق کے میدان میں ہو توایسے کہ ان کی کتب تحقیقی سند کا درجہ ر کھتی ہیں ،منتظم و مدیر ہو تو ایسے کہ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا ہرشخص لوہا منواتا رہا ،موضوع علمی ہو یاادبی ،نثری ہو کہ شعری ان کا اشہبِ قلم ہر میدان میں خوب صورتی و خوش قدمی سے رواں نظر آتا ہے۔ان کی کتابِ زندگی کو کھول کر دیکھا جائے تو ہر منزل ہر موڈ پیہم رواں ہر دم جواں نظر آتے ہیں۔ نیازی صاحب کی جولاں گاہ کافی وسیع ہے۔کبھی وہ اردو ادب کی اصلاح کے لئے شاندار تجاویز کے ساتھ کمر بستہ نظر آتے ہیں،کھبی وسیع اور دقیق تحقیقی موضوع کے لئے مواد کی تلاش وترتیب میں منہمک، تو کھبی کسی ادبی شہ پارے کی جانچ پرکھ میں مصروف ،غرض نیازی صاحب نے علمی وادبی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئے۔اس ضمن میں سید عبداﷲ یوں رقمطراز ہے:۔
’’نیازی صاحب بنیادی طور پر تاریخ اور فلسفہ سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن انہوں نے مختلف النوع علمی کارنامے سر انجام دئیے ۔طبعاً وہ محنتی اور علمی لگن سے کام کرنے والے آد می تھے ،چنانچہ ان کی تصانیف ،تحقیق کے کڑے معیار پر پوری اُترتی ہیں۔اُنھوں نے متعدد سائنسی،تاریخی اور فلسفیانہ کتابوں کے ترجمے کیے،نیازی صاحب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا کہ پورے عہدکی علمی تاریخ ، ایک بالغ نظر ادیب کی تحریروں میں سمٹ آئی ہے۔ ان کی تصانیف، مرتبات اور تراجم وغیرہ سے ان کی بہترین علمی و تصنیفی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے‘‘۔۲۰؎
نیازی کاخاص موضوع ِبحث زیادہ تر دینیات رہا،اسلام کے مختلف سیاسی و سماجی پہلوئوں پر بحث کی ہے اور اسلامی فلسفہ ،تصوف وغیرہ بڑی اچھی طرح جانتے تھے۔ چونکہ یہ تمام علم انہیں ورثے میں ملے ہیں۔سید نذیر نیازی کی ہمشیرہ امتیاز فاطمہ کا کہنا ہے کہ:۔
ِِ’’ سید میر حسن کے بعد جو ہستی ہمارے خاندان میں علمی کاموں کے لئے وقف ہوئی اور اس نے شہرت پائی وہ سید نذیر نیازی ہیں۔ سب خاندان والے کہتے تھے کہ وہ اپنے تایا میر حسن پر گئے ہیں ۔قلم ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہتا تھا اور وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے‘‘۲۱؎
الٰہیات سیاسی اور تمدنی مسائل پر ان کی بہت گہری نظر تھی ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اُردو کے کئی معروف رسائل وجرائد میںبھی تحریری کارنا مے انجام دئیے۔انہوں نے جامعہ پنجاب کے تحقیقی ادارے ’’اردو دائرہ ٔمعارف اسلامیہ‘ ‘ میں بطور ایڈیڑ کام کیا اور دائرہ معارف اُردو کے لئے انگریزی کے بعض مقالات کااُردو تر جمہ بھی کیاجن مقالات کا تعلق فلسفہ سے تھا اور یہ کام انہوں نے امجد الطاف کے زیر نگرانی سر انجام دیا۔اس سلسلے میں سید امجد الطاف یوں رقمطراز ہے:۔
’’ان کا مطالعہ وسیع تھا اور حا فظہ قوی تھا۔ جس زمانے میں ہم تر جمہ پر کام کررہے تھے۔ ایک جگہ ایک یونانی اصطلاح کا صحیح مفہوم متعین کرنے کا مسئلہ در پیش آیاتھا۔ میں نے اس کا ایک انگریزی متبادل لفظ لکھ دیا تھا، مگر نیازی صاحب کو اطمینان نہ تھا۔ اس وقت ہم انکے گھر بیٹھے تھے۔نیازی صاحب اُ ٹھ کر اندر چلے گئے اور کوئی پندرہ منٹ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک گرد آلود کتاب تھی۔ ان کے ہاتھوںِچہرے اور کپڑوں پر دھول تھی ۔ اُنہوں نے اپنی کتاب سے یونانی انگریزی لغت تلاش کی تھی اور اس سے رجوع کے بعد ہم نے صحیح متبادل کا یقین کیا۔ اس روز مجھے اندازہ ہوا کہ نیازی صاحب یونانی سے بھی واقف تھے۔‘‘ ۲۲؎
سید نذیر نیازی ابتدائی دور میں شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ جس کاعلم محض انکے دوستوں کو تھااو ر اکثر دوستوں کی محفل میں ہی اپنا کلام سناتے۔انکا کلام انکے قریبی احباب سید امجد الطاف اور کلیم اختر کے پاس محفوظ ہے ۔اسکی تصدیق میں سید عبداﷲ ہاشمی یوں فرما تے ہیں:۔
’’یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ نیازی صاحب شاعری بھی کرتے تھے ۔وہ اپنا کلام صرف بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے‘‘۲۳؎ نذیر نیازی کی شخصیت کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو وہ بڑے غیور طبع کے انسان تھے۔ آپ اکثرو بیشتر علامہ اقبال کے ساتھ مختلف سیاسی اورسماجی تحریکوں میں شرکت کرتے رہے۔نیازی صاحب کو بر صغیر میں مسلمانوں کی سیاسی ،تہذیبی اور تعلیمی تحریکوں سے گہری دلچسپی رہی ہے اور آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کی بہتری اور ترقی کے لئے یہاں کی سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں میں عملی اور قلمی حصّہ بھی لیا۔ بیسوی صدی کے ربع اول میں مسلمانانِ بر صغیر نے بڑی بڑی تحریکیں چلائیں۔ جن کا تعلق برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد تھا۔ تحریک خلافت ،جس سے ہندوستان کے مسلمانوں کو جذباتی وابستگی تھی اور اس کے اثرات کے بعد ان میں نا اُمیدی چھا چکی تھی اسکے بعد ۱۹۳۸ء میں ہندستان کے مختلف شہروں اور طبقوں کے حساس مسلمانوں نے احیائے اسلام کے لئے سوچ بچار شروع کردیا۔۔علامہ اقبال کے مداحین بھی ایک جمعیت بنانے کے متعلق غور وفکر کر رہے تھے۔اس سلسلے میں حضرت علامہ سے مفصل گفتگو ہو چکی تھی اور سب احباب کا خیال تھا کہ اس جمعیت کی قیادت علامہ کے سپرد ہو۔ آخر کار جمعیت شبان المسلمین کے نام سے انجمن قائم کی گئی اس کا نصب العین ہندوستان میں مسلمانوں کا عروج اور اقبال تھا۔ اور یہ ۲۱ اگست ۹۳۵اء میں قائم ہوئی۔ سید نذیر نیازی اس انجمن میں بہت سرگرم عمل رہے اس انجمن کے ساتھ انہوں نے کافی دلچسپی دکھائی ۔اس سلسلے میں محمد صدیق یوں رقمطراز ہیں:۔ ’’ اس جلسہ میں سید نذیر نیازی۔۔۔۔ نے شرکت کی ۔۔۔یہ اجلاس بہت کامیاب رہا ۔غیر معمولی رونق اور نذیر نیازی کی گفتگو نے بہت پرُ لطف بنایا ۔‘‘۲۴؎
اسی طرح تحریک ِپاکستان کی جو لہر ۱۹۴۶ء میں اُٹھی جس میں بڑے بڑے دینی علماء نے حصّہ لیا۔سید نذیر نیازی نے بھی اس تحریک میں بھر پور شرکت کی انہوں نے پاکستان کے لئے عملی و قلمی جنگ لڑی۔تحریک پاکستان کے دوران، دہلی کے ’’روزنامہ منشور‘‘ میں کئی مضامین تحریر کیں اوراسی دوران پنجاب مسلم لیگ کے شعبۂ نشر واشاعت میں انچارج کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیئے۔ اس میں انہوں نے خاصا کام انجام دیا۔اس دوران مختلف مواقع پر شائع ہونے والے اشتہارات اور پوسڑ انہیں کے لکھے ہوئے ملتے تھے۔ انہیں تحریک پاکستان gold medal سے بھی نوازہ گیا۔چونکہ لوگوں نے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے کام کیا مگر نیازی صاحب کی فطرت میں خودداری اور وضع داری اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری تھی کہ انہوں نے کسی ذاتی فائدے کے لئے کام نہیں کیا۔اگرچہ وہ پوری عمر کوئی مسلسل ملازمت اختیار نہ کر پائے جس کی وجہ سے انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ نیازی صاحب کی شخصیت کا ایک اہم وصف راست بازی رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ سچائی کے راہ راست پر زندگی گذاری ہے۔ ان کی شخصیت میں ایمان کی پختگی بھر پور پائی جاتی تھی ۔وہ راست بات کہنے سے کبھی نہیں چونکتے تھے۔ چونکہ نیازی صاحب ایک عرصہ تک جامعہ ملیہ سے وابستہ رہے تو نسیم کوثر کے مقالہ میں یہ واقع درج ہے کہ مولانا حنیف ندوی ایک دفعہ پوچھتے ہے کہ نیازی صاحب جامعہ ملیہ میں اتنے اعلیٰ پایۂ کے اساتذہ تھے پھر کیا وجہ ہے کہ علی گڈھ کی طرح وہاں کوئی بڑا آدمی پیدا نہ ہو سکا۔ اس کے جواب میں نیازی صاحب یوں فرماتے ہے:۔ ’’مولانا جس تعلیمی ادارے میں ایمان پر دلی اعتقاد نہ ہووہاں اچھے لوگ پیدا نہیں ہوسکتے۔ جامعہ کی بنیاد بھی قومیت پر تھی پھر وہاں سے علی گڈھ جیسے جوہر قابل کیسے بر آمد ہوتے۔‘‘۲۵ سید نذیر نیازی کی شخصیت میں محبت ،شگفتگی اور ہمدردی کے جذبات بے تحاشا پائے جاتے تھے جو دوسرں کے دل مو لیتی تھے اور نا آسودہ کے لئے سکون وقرار کا باعث بنتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ انکا حلقۂ احباب کافی دراز تھا۔ انکی شخصیت کا تقاضا تھا کہ ہر شخص کے لئے بے لوث ہو کر کام کرتے خواہ دفتر کا کام ہو یا پھر کوئی اور کام وہ پیش پیش رہتے۔ ہر ایک کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے ۔ حاجت روائی کرنا اور دوسروں کے کام آنا نیازی صاحب کے مزاج کا خاصہ تھا،ان کے سامنے ہر ایک کی اپنی اہمیت تھی ہر ایک کے لئے انکے دل میں عزت کے جذبات پائے جاتے تھے، چاہے چپراسی ہو یا کلرک سب انکی نظر میں برابر تھے ۔انہوں نے کبھی اپنی بڑائی کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ کوئی انکی نظر میں ادنیٰ تھا۔سید نذیر نیازی ایک جگہ لکھتے ہے کہ:۔ ’’مسلمان تو جہاں کہیں بھی ہیں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور وہ جب کبھی ایک دوسرے سے ملیںگے دوستی اور محبت ہی کے جذبات لے کر ملیں گے۔اسلام سے بڑھ کردوستی اور محبت کا پیغامبر کون ہے۔‘‘ ۲۱ اسی طرح شیخ عطا محمد کہتے ہیں کہ:۔ ’’ نذیر نیازی کا خلوص و محبت آج تک میں نے کسی میں نہیں دیکھا، میرے والد کے انتقال پر مجھے تعزیتی خط لکھا ،تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ کے دیباچہ میں بھی میرا ذکر لیا۔‘‘ ۲۷؎ سید نذیر نیازی کا کردار اخلاقی لحاظ سے بھی نہایت عظیم واعلیٰ رہا ہے۔ نہایت فراخ دل انسان تھے ۔جب بھی کسی سے کوئی کام کرواتے تو ہمیشہ اسکے فائدے کا ہی سوچتے کھبی انہیں نقصان ہونے نہیں دیتے تھے۔پیسوں کے معاملے میں بھی کوئی حساب کتاب نہیں رکھتے تھے۔ نہایت وسیع قلب انسان تھے۔ اگرچہ نیازی صاحب کی زندگی کے اکثر ایام تنگدستی میں گذرے ہیں،چونکہ والد کی وفات کے بعد گھر کی تمام ذمہ داریاں ان کے سر آپڑی مگر یہ تمام زمہ داریاں انہوںنے خوشی خوشی بغیر ماتھے پر کوئی شکن لائے بڑی عمدگی سے نبھائے۔ بھائیوں کی تعلیم وتربیت ،شادی جیسے تمام فرائض سر انجام دئیے۔ ۱۹۳۳ء میں وہ خود ازدواجی بندھنوں میں بند گئے، مالی حالات پست ہونے کے باوجود بھی انہوں نے ہمیشہ خودداری کا مظاہرہ کیا۔ہمیشہ چلتے پھرتے کام کرتے نظر آتے تھے کبھی بیٹھتے نہیں تھے، بلکہ اپنی ذمہ د اریوں کو نبھانے میں ہر وقت کوشاں رہتے۔بیٹے کی حیثیت سے بھی صالح اولاد ثابت ہوئے :۔ ’’سید نذیر نیازی نے ضعیف والدہ کی اتنی خدمت کی کہ دیکھنے والے کہتے تھے کہ خدا ہر کسی کو ان کے جیسا بیٹا نصیب کرئے۔عزیز رشتہ دار ،دوست احباب ہر کسی کی مشکل میں نیازی صاحب سب سے آگے رہتے تھے۔ خاندان والے انہیں’’ایک انار سو بیمار‘‘ والی ضرب المثل سے یاد کرتے تھے۔‘‘۲۸؎ سید نذیر نیازی کی معاشی حالات کافی قلیل تھے۔تاہم ان حالات میں بھی انہوں نے خود داری اور وضع داری سے کام لیا ۔ ان پیچیدہ حالات میں بھی انہوں نے کسی سے مدد کی طلب نہیں کی۔ آ خری ایام میں اگر چہ نیازی صاحب کو اکادمی ادبیات پاکستان سے پانچ سو ماہوار وظیفہ مقرر کیا گیا۔ تاہم نیازی صاحب اپنی خودداری کے سبب اسے کئی مہینوں تک قبول نہ کر سکے پھر کچھ احباب کے اصرار پر یہ وظیفہ قبول کیا تھا۔ نیازی کی شخصیت میں مہمان نوازی کے جذبات کافی حد تک پائے جاتے تھے۔ ان کے گھر آئے مہمان کبھی بھی خالی واپس نہیں لوٹتے بلکہ نیازی صاحب انہیں بڑی فراخدلی سے خوش آمدید کرتے اور ان کو کھلانے پلانے میں کبھی تاخیر نہ کرتے ،اگرچہ سادہ اور معمولی انداز میں پیش کیا کرتے،مگر ان میں نیازی صاحب کی شفقت اور پیار ومحبت کی چاشنی پائی جاتی تھی۔ نیازی صاحب ایک سادہ مزاج رکھتے تھے کھانے پینے کے معاملے میں بھی سادگی برتتے تھے جوکچھ میسر ہوتا بڑی خوشی سے کھالیتے ۔ اگر گھر میں کبھی کچھ اچھا پکتا تھا تو خود کھانے کے باوجود اپنے احباب کو کھلانے میں دلی مسرت محسوس کرتے : ’’انکی ہمشیرہ امتیاز فاطمہ کے بقول انہیں پلاو، آ لو،گوشت ،ماش وچنے کی ملی جلی دال ،شامی کباب اور نمکین کشمیری چائے پسندتھی،لیکن یہ کھانے وہ خود کھانے کے باوجود دوستوں کو کھلا کر زیادہ خوش ہوتے تھے وہ بے حد مہمان نواز تھے مالی مشکلات کے باوجود بھی دل کھول کر مہمان نوازی کرتے اور اکثر احباب کو مدعو کرتے تھے اور اس وجہ سے اکثر زیر بار رہتے۔‘‘ ۲۹؎ سید نذیر نیازی کی زندگی میں اگر چہ غم کے بادل ہمیشہ چھائے رہے، مگر اُن کے چہرے پہ ہنسی ہمیشہ چھلکتی رہی وہ جس محفل میں بیٹھتے وہ محفل زعفران زار کرتے۔ انکی شخصیت کاروشن پہلو یہ رہا کے کہ وہ غم کو اپنے چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔دیکھا گیا ہے کہ علمی وادبی شخصیات عموماً سنجیدہ طبع ہوتی ہیں۔ مگر جب نیازی صاحب کی سیرت وکردار پر نظر ڈالتے ہیں، تو انکی فطرت میں ظرافت کی چاشنی بہت حد تک پائی جاتی ہے۔نیازی صاحب جہاں بھی تشریف لے جاتے لطائف کی محفل برپا کردیتے انکے ہونٹوں پر لطائف وظرائف کی چاشنی تقریباً ہمیشہ چھلکتی تھی ۔اس وصف کی وجہ سے ہر ایک انکی آمد کا منتظر رہتا اور انکے بے تکلف لطیفوں سے لطف اندوز ہوتے۔وہ ہر جگہ مزائقہ خیز کلمات ادا کرتے تھے ان کی ایک خاص محفل بھی ہواکرتی تھی ۔جہاں نیازی صاحب کا حلقۂ احباب محفل کو چار چاند لگاتے ۔نسیم کوثر اس سلسلے میں یوں رقمطراز ہیں:۔ ’’ان کے دوست کلیم اختر صاحب نے بتایا کہ یوں تو وہ ہر جگہ اپنے لطائف کی چاشنی بکھیرتے رہتے تھے۔لیکن ان کی ایک خاص محفل بھی ہوا کرتی تھی ، جو اس کام کے لئے مخصوص تھی اس محفل میں این۔اے رضوی، ڈائر یکڑ جنرل انٹلجنس (جو سیالکوٹ کے رہنے والے تھے)تیسری اہم رکن اے۔ڈی اظہر تھے(جو مرکزی بورڈ کے چیرمین تھے) تیسرے سید نذیر نیازی اور چوتھے کلیم اختر تھے۔لطیفوںکی یہ محفل مرکزی اردو بورڈ کے دفتر میں منعقد ہوتی تھی۔اس محفل کا دستور تھا کہ تمام لطائف ایک رجسڑ میں درج کئے جاتے شرط تھی کہ لطیفہ نیا ہو اور پہلے نہ سُنایا گیا ہو۔کلیم اختر کہتے ہیںچونکہ یہ تینوں اصحاب گہرے دوست ہونے کے ساتھ لطیفہ گو بھی تھے۔اس لئے محفل میں یہ اکھٹے ہوجاتے اسے زعفران زارکردیتے۔‘‘۳۰؎ یعنی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نذیر نیازی نے غم وپریشانیوں کو اپنی روزمرہ زندگی پر حاوی ہونے نہیں دیا بلکہ اس روشن طبع کو مرورایام اور عمر گذارنے کے ساتھ ساتھ ظرافت کی چاشنی سے ُدوبالا کرتے گئے۔ سید نذیر نیازی چونکہ ایک عالم، فاضل اورادیب رہے ہے،جنہوںنے اپنی زندگی علم وادب کے لئے وقف کردی ،کئی تصانیف ان کے قلم کی مرہون ومنت ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ تحریر کیا ہے ۔چونکہ جب تحریر کی بات آتی ہے تو ہمارا ذہن کتابت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور جب ہم نیازی صاحب کی بات کرتے ہے تو وہ ایک اچھے خوش نویس شمارکئے جاتے تھے ۔جنکی لکھاوٹ نہایت صاف ،ستھری اور دلکش ہواکرتی تھی انکی تحریر میں ظاہری حسن بھی پایا جاتا تھا۔ جو نہایت واضح اور نکھری ہوئی ہوتی تھی۔ جسکی بنا پر انکی تحریر صاف اور واضح طور پر پڑھی جاتی تھی :۔ ’’نیازی صاحب جس زمانہ میں علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے۔ بعض اوقات علامہ کے حسب ِہدایت ان کی طرف سے خطوط کے جواب لکھتے ۔اس طرح کے جو خطوط ہوئے ہیں ، ان سے نیازی صاحب کے پاکیزہ اورخوش خط ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔البتہ عمر کے ساتھ ساتھ انکی خوش خطی میں تغیر آتا گیا۔غالباً ہاتھوںمیں لرزش آنے کے سبب آخر عمر میں وہ اتنے خوب صورت اور نکھرے ہوئے انداز میں نہ لکھ سکتے تھے۔آخری زمانے کی تحریر کو جلدی سے پڑھنا مشکل ہے۔‘‘۳۱؎ چونکہ آخری عمر میں جب علامہ اقبال کی صحت کا فی متاثر ہو چکی تھی ۔انکے جسم میں اس قدر توانائی موجود نہ تھی کہ وہ کچھ تحریرکر تے تو اس سلسلے میں علامہ کے چند احباب اس امر کے لئے وقف ہوگئے تاکہ وہ ان خطوط کا جواب لکھتے جو علامہ کو اکثر انکے عزیز دوست ارسال کرتے ۔ نیازی صاحب جو ایک خوش نویس تھے ،بھی اس سلسلے میں اقبال کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ ڈاکڑ محمد عبداﷲ چغتائی اس لحاظ سے یو ںرقمطراز ہیں:۔ ’’۱۹۳۵ء میں علامہ اپنی ذاتی کوٹھی ’’جاوید منزل‘‘میںاُٹھ آئے تھے۔ اس وقت تک آپ کی صحت کافی متاثر ہوچکی تھی اکثر اوقات خط بھی خود نہیں لکھ سکتے تھے۔چنانچہ معمول یہ ہوگیا تھا کہ جو دوست حاضر ہوتا ،علامہ اس کوخطوط کا جواب املا کروادیتے۔اس سلسلے میں میاں محمد شفیع (م۔ش) سید نذیر نیازی اور بعض دوسرے احباب بطورخاص اس کام پر مامور تھے۔‘‘۳۲؎ یہ وہ دور تھا جب سید نذیر نیازی اکثر وبیشتراقبال کی صحبت میں وقت گذارتے ۔اقبال مختلف علمی مسائل پر نذیر نیازی سے مشورہ لیتے تھے ۔چونکہ صحت کی خرابی کی وجہ سے انکی بینائی بھی کمزور ہوگئی تو اقبال اپنے تازہ اشعار بھی نیازی سے ہی لکھواتے۔ یہاں اصل میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ نیازی صاحب کی خوش خطی کاثبوت اُن اشعار میں بھی اوراُن خطوط میں بھی نمایاں ہوگئی جو انہوں نے اقبال کے کہنے پر اُنکے دوستوں کے لئے تحریر کیئے تھے۔ مختصراً سید نذیر نیازی جنہیں علم وادب ورثہ میں ملا تھاانہوں نے نہ صرف اسکی حفاظت کی بلکہ اپنی پوری زندگی علم وادب کی خدمت میں صرف کی۔ ان کی علمی ،تعلیمی ،تدریسی اور ادبی خدمات کا تنوع توسیعی صورت حال کا حامل ہے۔ان کا ادبی سفر نصف صدی پر محیط ہے۔ زمانہ طالب علمی سے لے کر کے زندگی کے آخری ایام تک علم وادب سے انکا رشتہ ہمیشہ استوار رہا ہے۔نیازی صاحب نے زندگی کے لمحات یوں ہی نہیں گذارے ہیں بلکہ بیشتر لمحات کو مرحوم نے نہایت مفید،بامعنی،کار آمد ،وقیع اور زندگی کی تب وتاب سے بارونق بنانے کی کوشش کی ہے اور انکا سرمایہ حیات صرف ان کا اثاثہ نہیں بلکہ علم وادب کی خدمت کا لیکھا جوکھا ہے ۔جس سے اردو زبان کے نشیب و افراز کا اندازہ ہوتا ہے ۔ نیازی صاحب نے ادب کے میدان میں نہ تو خود کو کسی خاص موضوع تک محدود رکھا نہ کسی خاص نظریہ کو سمجھنے کی کوشش کی ۔انہوں نے ایک وسیع نقط نظر کے تحت ادب کو ایک ابدی سچائی،آفاقی حقیقت کی شکل میںدیکھنے ،سمجھنے اور پرکھنے کی سعی کی ہے۔ ان کی تعلیم ،تدریسی مشاغل اور دیگر مصروفیات کے بارے میں نشان دہی کرنے کے بعد اور ان امور کو بیک وقت دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کیسی بھر پور زندگی گذاری ہے اور اپنی شخصیت وعلمی خدمات کے کیسے نقوش یادگار چھوڈے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کافی طویل ہیں اور انہیں کئی اعزازی عہدوں سے بھی نوازا گیا ہے:۔
اعذازی عہدے ٭مدیر معاون جامعہ دھلی ۱۹۲۷۔۱۹۳۵
٭مدیر طلوع اسلام ،دھلی،لاہور ۱۹۳۵۔۱۹۳۶
٭کارکن شعبۂ نشرواشاعت پنجاب مسلم لیگ ۱۹۴۶۔۱۹۴۷
٭ممبر بزم اقبال ،لاہور ۱۹۴۸ تا وفات
٭مرکزیہ مجلس اقبال، لاہور ۱۹۴۸
٭ڈئریکڑ ریسرچ ،محکمہ اسلامی تعمیر نو حکومت پنجاب ۱۹۴۸۔۱۹۴۹
٭مدیر معاون ا،ردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور ۱۹۶۳۔۱۹۶۷
٭ممبر مجلس ترقی ادب ۱۹۷۱۔۱۹۷۴
٭ممبر ایگزیکٹو اسلامی کمیٹی لاہور
تدریسی مشاغل:۔
٭استاد جامعہ ،دھلی ۱۹۲۲۔۱۹۳۵
٭لیکچرر ،سول سروس اکیڈیمی لاہور ۱۹۴۸۔۱۹۶۸
٭لیکچرر ،انجینرنگ یونیورسٹی لاہور ۱۹۶۴
٭لیکچرر، فئنانس سروس اکیڈیمی لاہور ۱۹۶۵۔۱۹۶۸
تصانیف:۔
٭اقبال کا مطالعہ اور دوسرے مضامین
٭دانائے راز
٭اقبال کے حضور
٭اقبال اور قرآن
مرتبات:۔
٭ادبیات ملیہ
٭مکتوبات اقبال
٭بہار داغ (انتخاب کلام داغ)
٭لغات طبعی (حکیم اجمل خان کا عربی رسالہ طبی زبان کے ارتقاء میں)مع حواشی
٭تاریخ افاغنہ تراجم:۔
٭عربوں کاتمدن
٭مقدمہ تاریخ سائنس
٭تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ
٭سیاسیات ارسطو
٭غیب وشہود ۔۔۔۔۔۔۔۔
٭متفرق تحقیقی و تنقیدی مقالات
٭شاعری
حواشی وحوالہ جات
۱۔ سید عبداﷲ شاہ ہاشمی،اقبالیاتِ سید نذیر نیازی،اقبال اکادمی پاکستان،۱۹۹۲ء ص۵
۲۔ باقیات اقبالسید عبداﷲ شاہ ہاشمی،اقبالیاتِ سید نذیر نیازی،اقبال اکادمی پاکستان،۱۹۹۲ء ص
۳۔ سید نذیر نیازی،مکتوبات اقبال،اقبال اکادمی پاکستان ۔لاہور،ستمبر ۱۹۵۷ء ص۔۷۱
۴۔ ڈاکڑ سید سلطان محمود حسین،شرکت پرینٹگ پریس،لاہور،۲۰۰۷ء ص۔۲۳
۵۔ ڈاکڑ سید سلطان محمود حسین،شرکت پرینٹگ پریس،لاہور،۲۰۰۷ء،ص۔۲۴
۶۔ سید نذیر نیازی،مکتوبات اقبال،اقبال اکادمی پاکستان ۔لاہور،ستمبر ۱۹۵۷ء ص۔۷۱ ۷
۰۔ کلیات اقبال، بانگ درا،التجائے مسافر، ۸۔ بحوالہ:ڈاکڑ سید سلطان محمود حسین،شرکت پرینٹگ پریس،لاہور،۲۰۰۷ء،ص۔۱۱
۹ ۔ کلیات اقبال، بانگ درا،التجائے مسافر،
۱۰۔ شیخ عطاء اﷲ ، اقبال نامہ(حصہّ دوم) ص۲۵۷
۱۱۔ سید نذیر نیازی،دانائے راز،قاری پبلکیشنز دہلی۔۶،ص۳۲
۱۲۔ ڈاکڑ ریحانہ سلطانہ ، پروفیسر مسعود حسین خان کی ادبی خدمات،اکتوبر ۱۹۹۵ء ص۹
۱۳۔ محمد سہیل عمر ،میر حسن حیات وافکار ،ص۴۵۔۴۴
۱۴۔ سید نذیر نیازی،مکتوبات اقبال،اقبال اکادمی پاکستان ۔لاہور،ستمبر ۱۹۵۷ء ص۔۱۱
۱۵۔ بحوالہ :مقالہ نسیم کوثر(غیر مطبوعہ)ص۲۰۔۱۹
۱۶۔ سید نذیر نیازی،مکتوبات اقبال،اقبال اکادمی پاکستان ۔لاہور،ستمبر ۱۹۵۷ء ص ۱۲۲۔۱۲۱
۱۷۔ سید نذیر نیازی،مکتوبات اقبال،اقبال اکادمی پاکستان ۔لاہور،ستمبر ۱۹۵۷ء،ص ۲۸۲
۱۸۔ مقدمہ رسالہ’’طلوع اسلام ‘‘ارادت کیش ،سید نذیر نیازی،
۱۹۔ سید نذیر نیازی،مکتوبات اقبال،اقبال اکادمی پاکستان ۔لاہور،ستمبر ۱۹۵۷،ص۳۵۲
۲۰۔ سید عبداﷲ شاہ ہاشمی،اقبالیاتِ سید نذیر نیازی،اقبال اکادمی پاکستان،۱۹۹۲ء ص۷۔۶
۲۱۔ بحوالہ : مقالہ ،نسیم کوثر(غیر مطبوعہ)،ص۵۱
۲۲۔ بحوالہ : مقالہ ،نسیم کوثر(غیر مطبوعہ)،ص۲۷
۲۳۔ سید عبداﷲ شاہ ہاشمی،اقبالیاتِ سید نذیر نیازی،اقبال اکادمی پاکستان،۱۹۹۲،ص۔۸
۲۴۔ علامہ اقبال اور انکے احباب،ص ۔۸۶
۲۵۔ بحوالہ : مقالہ ،نسیم کوثر(غیر مطبوعہ)ص۔
۲۶۔ سید نذیر نیازی،مکتوبات اقبال،اقبال اکادمی پاکستان۔لاہور،ستمبر ۱۹۵۷،ص۔۳۳۲
۲۷۔ بحوالہ : مقالہ ،نسیم کوثر(غیر مطبوعہ)ص۔۲۱
۲۸۔ بحوالہ : مقالہ ،نسیم کوثر(غیر مطبوعہ)،ص۔ ۲۱
۲۹۔ بحوالہ : مقالہ ،نسیم کوثر(غیر مطبوعہ)،ص۔۴۹
۳۰۔ بحوالہ : مقالہ ،نسیم کوثر(غیر مطبوعہ)،ص۔۳۵
۳۱۔ بحوالہ : مقالہ ،نسیم کوثر(غیر مطبوعہ)،ص۔۲۱ ۳۲۔ احمد ندیم قاسمی ،اقبال کی صحبت میں،مجلس ترقی ادب)۱۹۷۷ء ص۔ ۲۳