You are currently viewing نواب ناظم علی خاں ہجرؔ شاہجہاں پوری

نواب ناظم علی خاں ہجرؔ شاہجہاں پوری

صدف فاطمہ

ریسرچ اسکالر ؛جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی

 

نواب ناظم علی خاں ہجرؔ شاہجہاں پوری

سوانحی حالات:

کسی زبان میں شعر کہنے والے قدیم اور جدید شعرا کی تعداد کا صحیح اندازہ لگا پانا تقریباًناممکن ہوتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر عہد میں جتنے لوگ شعر کہہ رہے ہوتے ہیں ، ان  میں صرف ایک سے دو فی صد شاعر ایسے ہوتے ہیں جن کو خاطر خواہ شہرت نصیب ہوتی ہے۔ یہ معاملہ صرف اردو شعرا کا ہی نہیں بلکہ میرے علم کی حد تک ہندی ، مراٹھی ، گجراتی یا ہندوستان کی مختلف زبانوں میں شعر کہنے والے شعرا کا بھی ہے یا غیر ملکی اور مغربی زبانوں کا بھی۔ سید سلیمان ندوی نے اپنی مشہور کتاب حیات شبلی کے مقدمے میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہندوستان کے مختلف چھوٹے بڑے علاقے جن میں بدایوں ، بریلی، جون پور، الہ آباد، شاہجہاں پور،خیرآباد اور بلگرام وغیرہ شامل ہیں وہ ایک زمانے میں علم و ادب کا گہوارہ ہوا کرتے تھے۔ میرا بھی یہ قیاس ہے کہ شائد ہی ہندوستان کا کوئی ایسا حصہ ہوجہاں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں علم و ادب کے چھوٹے چھوٹے مراکز نہ پائے جاتے ہوں  ۔ ایسے علمی مراکز میں شمالی ہند میں دہلی اوریوپی اورجنوب  میں دکن کے علمی مراکز کو اردو کی پرداخت کے حوالے  سے  خاص اہمیت  حاصل ہے۔ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے لہذا میں تمامی علاقوں سے قطع نظر صرف شاہجہاں پور کی بات کروں تو یہاں  اردو ، فارسی اور عربی زبان  و ادب کی نابغہ روز گار شخصیات نے جنم لیا ۔ جن میں بعض ناموں کو عالمی شہرت عطا ہوئی۔ خواہ وہ قدیم ہو ں یا جدید۔ مثلاً دل شاہجہاں پوری ، عابد مینائی، علامہ اختر تلہری، پیارے میاں رشید، مشیر جھنجھانوی، رشید حسن خاں، شبنم رومانی اور مرحوم قمر رئیس وغیرہ ۔ یہ نام حالاں کہ شاہجہاں پور کے حوالے سے علم و ادب کی دنیا میں خاصے شناسا ہیں ، مگر شعرا، ادبا اور علما کا سلسلہ صرف انہیں تک محدود نہیں ہے، یہ توان میں سے صرف چند ایک بہ لحاظِ شہرت نمایاں ہیں ۔ان کے علاوہ بے شمار شخصیات ایسی ہیں جو اپنے علمی و ادبی قد کے لحاظ سے نابغہ کا درجہ رکھتی ہیں ۔ انہیں میں ایک نام جناب نواب ناظم علی خاں ہجر شاہجہاں پوری کا ہے۔

ناظم علی خاں متخلص بہ ہجر ضلع شاہجہاں پور کے رہنے والے تھے۔ان کے حالات زندگی کا بیشتر حصہ پردہ خفا میں ہے، تحقیق و جستجو سے جو باتیں معلوم ہوسکیں وہ یہ ہیں کہ ان کی ولادت 1298ھ بمطابق 1880 میں بمقام پنساری باغ ، ضلع شاہجہاں پور میں ہوئی ۔ ان کے آباو اجداد مغلیہ عہد میں سر زمین شاہجہاں پور میں آکر آباد ہوئے تھے۔ ان کے جد اعلیٰ نواب بہادر خاں صاحب چغتہ اور نواب دریا خاں صاحب بانیان  شاہجہاں پور میں سے تھے۔ ناظم علی خاں نواب دریا کی دسویں پشت میں تھے۔ ان کے والد کا نام نواب خادم علی خاں تھا اور  ان کے بڑے بھائی نواب کاظم علی خاں تھے جو اپنے عہد کی مشہور و معروف شخصیات میں شمار کیے جاتے تھے۔ نواب کاظم علی خاں ہجر کو شعر و شاعری کا  ذوق ورثے میں ملا تھا ۔ ان کے والد اور بڑے بھائی شعر کہنے میں مشاق تھے۔ ہجر کے والد داغ دہلوی کے قریبی دوستوں میں سے تھے ، یہ ہی وجہ ہے کہ ہجر نے جب 19 برس کی عمر میں اپنی شاعری کی ابتدا کی تو پہلی غزل نواب احسان علی خاں احسان کو دکھائی ان کی  اصلاح سے مطمین نہ ہوئے تو والد کے دوست مشہور شاعر داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کر لی۔ یہ بھی عجیب واقعہ ہے کہ نواب ہجر نے اپنی پہلی غزل امیر مینائی کی زمین میں کہی، لیکن داغ کی شاگردی میں آنے کے بعد ان پر دہلوی رنگ غالب آ گیا۔ ناظم علی خاں  بچپن سے ہی بہت ذہین اور موزوں طبعیت واقع ہوئے تھے ،ساتھ ہی انہیں تحریر اور تقریر پر بھی قدرت حاصل تھی ۔ اپنی ابتدائی عمر میں انہوں نے اردو کا ایک رسالہ بھی”زبان اردو”کے نام سے  جاری کیا تھا ۔ جس کا پہلا شمارہ 1910عیسوی میں نکلا تھا ۔ مگر بقول نوح ناروی:

“اردو زبان کی خدمت کے خیال  سے تم نے کئی سال تک  ایک رسالہ بھی” زبان اردو “نکالا ، مشاہیر شعرا  سے غزلیں منگوائیں ، نثر لکھنے والوں سے تقاضے کیے۔ چوں کہ زمانے کی ہوا نا موافق تھی یہ گلدستہ بھی اور رسالوں کی طرح مرجھا کر خشک ہو گیا، لیکن جتنے نمبر نکلے اچھے نکلے۔(1)”

کاظم علی خاں ہجر نے عربی ، فارسی اور اردو زبان کی تعلیم اپنے گھر پہ ہی حاصل کی تھی ،لہذا ان کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ کبھی استوار نہیں ہوا۔ اِس کے باوجود اپنی طباعی اور لگن سے انہوں نے علم وادب کے میدان میں خاصہ درک حاصل کر لیا تھا اور شاعری میں بھی کمال حاصل کیا ۔ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف نوح ناروی نے کلام ہجر کے مقدمے میں کھل کر کیا ہے ۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ ان کی چند غزلیں قیام حیدر آباد کے دوران بغر ض اصلاح دیکھنے کا اتفاق ہو ا جن میں زیادہ تر کلام پر اصلاح دینے کی ضرورت محسوس  نہ ہوئی۔ نواب ہجر اپنے عہد کے مشاعروں میں  بھی خاصے مشہور تھےاور نوح کے ساتھ انہوں  نےسنڈیلہ ، بدایوں  اور مارہراہ کے مشاعروں میں بھی شرکت کی تھی ۔

ہجر کی شاعری کے حوالے سے اپنے عہد میں اتنی شہرت تھی کہ ان کے شاگردوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی ۔ محترم مبارک شمیم اپنی کتاب سخنوران شاہجہاں پور میں رقم طراز ہیں کہ

“شاہجہاں پور اور بیرون شاہجہاں پور  میں آپ کے کثیر شاگرد تھے۔ خود نہایت پر گو شاعر تھے ، ہندوستان کے دیگر شہروں  کے بڑے بڑے مشاعروں میں مدعو کیے جاتے تھے ۔ اہل ذوق آپ کا ادب و احترام کرتے تھے  اور کلام  دلچسپی  سے پڑھتے  اور سنتے  تھے۔(2)”

ان کے مشہور شاگردوں میں جناب منشی صدیق احمد صاحب اسعدؔ اور جناب عابد مینائی شاہجہاں پوری کا شمار ہوتا ہے ، جن کے شاگردوں کی تعداد اب بھی ملک اور بیرون میں ملک موجود ہے۔ ناظم علی خاں ہجر اپنی شہرت و مقبولیت کے ابتدائی مرحلے میں ہی تھے کہ نہایت کم عمری میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ 1914عیسوی میں بمقام بمبئی ان کا انتقال ہوا جب ان کی عمر صرف 34 برس تھی ۔ ان کا کوئی بیٹا نہ تھا صرف تین لڑکیا ں تھی ۔ لہذا دیوان شاعری ان کے انتقال کے چند برس بعد ان کے شاگرد اسعد نے جمع و تربیت دے کر ان کے بڑے بھائی کاظم علی خان کی معاونت سے شائع کر وایا۔ ہجر نے اپنے انتقال سے چند روز پہلے ایک شعر کہا تھا جسے ان کی رحلت کے بعد بہت مقبولیت نصیب ہوئی ۔ وہ شعر مندرجہ ذیل ہے:

اے ہجر وقت ٹل نہیں سکتا ہے موت کا

لیکن یہ دیکھنا ہے کہ مٹی کہاں کی ہے

شاعری:

عام طور پر غزلیہ شاعری کے متعلق یہ بات تصور کی جاتی ہے کہ یہ صنف سخن  اردو کی دیگر اصناف شاعری کے مقابلے میں سلیس اور سہل پسند ہے۔ ہر وہ شخص جو شعر کہنے کی ابتدا کرتا ہے وہ غزل کو ہی مشق سخن کے طور پر منتخب کرتا ہے، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اصناف شاعری میں غزل کی مقبولیت اور اس کے استعمال پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ اس کی سطحیت کا احساس پیدا ہونے لگا ہے۔ مگر اس امر میں کتنی حقیقت ہے اس پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ دراصل غزل جسے ہم اردو شاعری کی آسان ترین صنف سمجھتے ہیں اس کی سنگلاخی کا معائنہ کرنا ہو تو اردو کلاسکل شاعری پر نظر کرنا چاہئے۔ میر ، غالب ، مومن ، داغ اور امیر مینائی یہ نام تو بہر حال غزل کے معماروں میں شمار ہوتے ہیں مگر ان کے شاگرد اور شاگرد کے شاگردوں کی ایک بڑی جماعت ایسی ہے جن کے یہاں غزل کی سخت مزاجی کا احساس پوشیدہ ہے۔ پرانی غزل میں فنی کمالات کا جتنا چلن پایا جاتا ہے اس نے غزل کے دامن کو پتھریلا تو بنایا ہی ہے ساتھ ہی اس میدان فن کو ایسی آب عطا کی ہے کہ یہ ہر کس و ناکس کے دام میں نہیں آتی۔تلمیح ، استعارہ، تشبیہ، مجاز مرسل، رعایت لفظی، صنائع، بدائع، بحور و اوزان اور اوہام و ایہام یہ تمام لوازمات صرف برائے نام ہی نہیں ہیں بلکہ ان سے غزل کی بنیاد میں  بوقلمونی پیدا ہوئی ہے۔ ان اوصاف نے غزل کو ایک مشکل صنف بنایا ہے اور اظہار کے فنی اسلوب سے آراستہ کیا ہے۔ پھر اس پر دبستانی طرز سخن مستزاد ہے کہ کوئی دلی کی زبان استعمار کر رہا ہے تو کوئی ، لکھنو کی کوئی رام پور کی تو کوئی پٹنہ اور اورنگ آباد کی اور اِن تمام باتوں کے درمیان غزل کے حوالے سے اپنی منفرد شناخت قائم کرنا نہایت مشکل امر ہے۔ جس کو بحسن و خوبی جناب ناظم علی خاں ہجر شاہجہاں پوری نے نبھایا ہے۔

یہ بات غور طلب ہے کہ ناظم علی خاں ہجر اردو غزل کے ایسے فنی عہد میں غزل کے میدان سے وابستہ تھے جہاں اِس میدان کی رونق کو دو بالا کرنے والے شعرا کی ایک بڑی جماعت موجود تھی۔ داغ دہلوی ، امیر مینائی ان دوبڑے اساتذہ سے کسی حد تک ان کی وابستگی اس امر کی غماز ہے کہ انہوں نے دہلی اور اودھ ان دونوں کے درمیان رہ کر اپنے غزلیہ مزاج کو تشکیل دیا ہے، لہذا  ان کے فن کو پرکھنے اور جاننے کے لیے ہمیں کسی ایک دبستان سے منسلک ہوئے بغیر آفاقی طور پر ان کی غزل کا جائزہ لینا چاہیے۔

ان کی غزل کی یہ خاصیت ہے کہ انہوں نے نہایت آسان زبان میں روایتی جذبات عشق کو اپنی فنی چابکدستی سے بلا تکلف اور رواں طرز اسلوب میں بیان کیا ہے۔ جس  بیانیے میں ایسی گھلاوٹ ہے کہ عشق کا وہ عامیانہ جذبہ بھی جس میں محبوب سے  ہجرو وصال کی گفتگو کی جاتی  ہے اس میں شاعرانہ حسن پیدا ہو گیا ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست ، انتخاب تشبیہ و استعارات میں ہجر اتنے محتاط رویہ کا ثبوت دیتے ہیں کہ ان کے استعمال سے لہجے کا بانکپن متاثر نہیں ہو پا تا۔ ان کا زیادہ تر دھیان اپنے شوخی الفاظ و معنی پر ہوتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنا حرف مدعا  بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور سننے والے کی قلبی کیفیت میں تغیر پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً ان کے دو ،چار اشعار ملاحظہ کیجیے، کہتے ہیں:

زبانی ان  کو یہ پیغام اے باد صبا دینا

کسی دن خواب ہی میں چاند سی صورت دکھا دینا

پڑا ہے غش میں کتنی دیر سے کوئی سر محفل

زرا تکلیف کرنا اپنے دامن کو ہوا دینا

وہ اک تم ہو  وفا پر بھی جفا جوئی، ستمگاری

وہ اک ہم ہیں جفا پر بھی دعا کرنا دعا دینا

ادھر یہ ہے کہ میں کہتا ہوں میری آرزو سن لو

ادھر یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں سن لیں گے ، سنا دینا

ہجر زندگی  کے معصوم اور لطیف جذبات کو اپنی غزل میں پرونے کے فن سے بخوبی واقف تھے۔ لہذا جب ان کے اشعار کا مطالعہ کرو تو محسوس ہوتا ہے کہ غالباً وہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے اشعار پڑھ رہے ہیں ۔ ایک خاص کیفیت میں مبتلا ہو کر خود اپنے بیان کردہ الفاظ کو دوسرے کے جذبات تصور کرتے ہوئے اپنی بات کہہ رہے ہیں۔یہ امر ان کے فنی میلان کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ وہ  شاعرانہ طرز  تخاطب میں عامیانہ طرز اظہار کو مخصوص الفاظ میں بیان کر کے ان کو عمومیت سے  جدا کر دیتے ہیں۔ یوں بھی اگر ہم ان کے فکری میلان کی بات کر یں تو اِس سے وہ روایتی شاعرانہ تخیلات وابستہ نظر آئیں گے جو انیسویں صدی کے نصف آخر میں اردو شاعری کا موضوع بنے ہوئے تھے، مگر یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ اسی روایتی تصور کو ہر صاحب اسلوب شاعر اپنے طور پر صیقل کرتا تھا ۔ لہذا اس ضمن میں روایتی فکر کو نئی بوقلمونی عطا کرنے کا کام ہجر نے بحسن و خوبی کیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی انفرادیت کو ہم ان کے الفاظ اور ان کے افکار دونوں جگہ تلاش کر سکتے ہیں ۔ شاعری کو وہ اتنی سنجیدگی سے غیر سنجیدہ اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں کہ فنی انشراح(شگفتگی )ان کے اشعار کے بین السطور سے مترشح ہوتا ہے۔مثلاً یہ اشعار ملاحظہ کیجیے کہ

دے کے دل ان کو ہوئی ہے اب یہ مشکل اور بھی

روٹھے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔کہ  لیں گے ہم کوئی دل اور بھی

تم نے رکھا تھا تسلی کے لیے سینے پہ ہاتھ

بڑھ گئی لیکن مری بے تابی دل اور بھی

ایک بات یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ جس لہجے اور طرز بیان کو ہم عام طور پر روایتی کہتے ہیں ، اس میں عیب کا ایسا کون سا پہلو ہوتا ہے جس کی بنا پر اسے عموماً معیوب تصور کیا جاتا ہے؟میری ذاتی رائے میں ایسی تمام شاعری جو روایت کے ایک خاص دھارے سے متعلق ہو اور جس میں اساتذہ کے شاعرانہ اسالیب کی توسیع موجود ہو اور خواہ وہ کسی بھی سطح پہ ہو ، اسے فنی نقطہ نگاہ سے ہی دیکھنا چاہیے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم جسے روایت  کہتے ہیں اس میں کئی نسلوں کے تجربات کا جزو شامل ہوتا ہے  اور روایت کے ایک معنی قصے کے بھی ہیں ، لہذا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں کئی نسلوں کے قصوں  کا عرق پایا جاتا ہے ۔ اسے توڑنا اور اس سے کلیتاً اپنا دامن بچا لینا کسی طور ممکن نہیں اور شائد یہ کوئی لائق تحسین امر بھی نہیں ۔ روایت میں اضافہ کرنا غالباً لائق تحسین ہے خواہ وہ فکری سطح پہ ہو یا لفظی سطح پہ اور یہ ہی فعل ہمیں نواب ناظم علی خاں ہجر کی شاعری میں کار فرما نظر آتا ہے کہ انہوں نے روایت شکنی کو اپنا معیار نہیں بنایا ہے بلکہ اس کی جدید توسیع کو اپنی خصوصیت بنانے کا کام کیا ہے۔

ان کی شاعری کو اگر ہم پڑھیں تو ہمیں محسوس  ہوتا ہے کہ وہ متضاد الفاظ اور معنی کو استعمال کر نا مستحسن سمجھتے ہیں  اور اسی تضاد لفظی و معنوی سے اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے تضاد بیانی پر غور کرو تو لگتا ہے کہ وہ اپنی کیفیت کے اظہار کی فکر میں مبتلا بھی ہیں اور اس سے بے نیاز بھی ، یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ باتیں کہہ دیتے ہیں پھر انہیں کی تردید کر کے انہیں بے اثر بنانے میں کوشاں ہو جاتے ہیں ۔ مگر اس سے باتیں بے اثر ہونے کے بجائے مزید بااثر ہو جاتی ہیں ۔ ان کی شاعری پڑھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے داغ  کی قربت کو بہتر سمجھا ہے،اسی لیے محبوب سے ان کو نوع  بہ نوع گلے ہیں ۔ مجاز کا رنگ ان کے تقریباً کلام پر غالب ہے، وہ تصوف کی روایت کے قریب بھی نظر نہیں آتے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے شعوری طور پر فاصلہ بنایا ہے۔ اگر ان کے کلام میں مجاز کے ساتھ حقیقت کاتھوڑا بہت رنگ ہوتا یا فلسفیانہ اظہار کی جھلکیاں پائی جاتیں تو مضامین کی علویت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔

بہر کیف ان کی شاعری اگر ایسی نہیں کہ اسے اپنے عہد کی سب سے نمایا ں شاعری کہاجائے تو ایسی بھی نہیں کہ بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ ہجر کی سب سے بڑی خاصیت ان کے شاعرانہ فکری رجحان کی جستجو ہے اور ان کی سلیس زبان جس کا استعمال وہ انیسوی صدی کے آخر میں کر کے اپنے لہجے کو منوانے کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔

حواشی:

1۔ص:3، کلام ہجر، مرتبہ : نوح ناروی، مطبع : ندارد، ریختہ ڈاٹ آرگ۔

2۔ص:160، سخنوران شاہجہاں پور، مرتبہ: مبارک شمیم :تخلیق کار پبلیکیشنز، دریا گنج، نئی دہلی۔

***

Leave a Reply