محمد عمر مونس
ایم فل سکالر، شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد
سیمیں کرن کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ
Abstract
Seemen Kiran is an important and emerging name in contemporary Urdu fiction. Her three Short stories collections and one novel have been published and have received praise from academic and literary circles. She started her literary life at a young age. Before marriage, she used to write short poems and stories, but she started her literary life formally after marriage. He believes in the philosophy of literature for life. Kiran has tried to give political and social consciousness to her society.Key Words: Seemen Kiran, Short story, Urdu, Fiction
سیمیں کرن معاصر اردو فکشن کا ایک اہم اور ابھرتا ہوا نام ہے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے اور ایک ناول شائع ہو کر علمی و ادبی حلقوں سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ”شجر ممنوعہ کے تین پتے”کے نام سے ۲۰۱۵ ٫ میں شائع ہوا۔ دوسراافسانوی مجموعہ” بات کہی نہیں گئی” ۲۰۱۷ ٫میں اور تیسرا افسانوی مجموعہ”مربعوں کی دائرہ کہانی”کے عنوان سے شائع ہوا ۔
سیمیں کرن کا اصل نام “سمیرا کرن ” ہے۔ سیمیں کرن ان کا قلمی نام ہے جو کہ ۱۶ مارچ ۱۹۷۲ ٫ کو خیبر پختونخواہ میں تربیلا کے مقام پر پیدا ہوئیں۔ان کے والدعبدالحمید عالی ہے جو تربیلا میں سینئر ریسرچ آفیسر تھے،اس لیے تربیلا میں ہی سکونت پذیر تھےلیکن ان کا آبائی شہر فیصل آباد ہے۔سیمیں کے والد کو مختلف زبانوں جیسے جرمن ، فارسی اور عربی پر عبور حاصل تھا۔ان کی والدہ ایک باہمت اور پڑھی لکھی خاتون تھیں جن کا نام فرحت ناہید تھاایک باہمت اور پڑھی لکھی خاتون تھیں ۔سیمیں کرن کی تربیت میں ان کے والدین کی شخصیت کے گہرے اثرات ملتے ہیں۔
سیمیں کرن نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز نو عمری میں ہی کر دیا تھا ۔شادی سے پہلے وہ چھوٹی چھوٹی نظمیں اور کہانیاں لکھتی تھیں لیکن اپنی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز شادی کے بعد کیا ۔ اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے اور ایک ناول’’شب ہے تو بکھر جائے گی‘‘ منظر عام پر آ چکا ہے اس کے علاوہ ایک علم و ادبی ویب سائٹ ’’ہم سب ‘‘ کے لیے ’’کرن کالم ‘‘ کے عنوان سے کا لم بھی لکھتی ہیں ۔
سیمیں کرن اپنے افسانوں کے موضوعات اپنے گردو پیش سے لیتی ہیں۔ مذہب ،سیاست،تانیثیت، مہنگائی، مشرقی المیہ اور سماجی ناانصافیاں ان کے افسانوں کے نمایاں موضوعات ہیں۔ دور حاضر کے نامور ادباء بھی سیمیں کرن کے معترف ہیں ۔ مستنصر حسین تارڑ ،سیمیں کرن کو خراج تحسین اس طرح پیش کرتے ہیں:
” ادب پر اپنی موجودگی ٖثابت کر رہی ہیں پاکستان اور ہندوستان میں چھپنے والے ادبی پرچوں میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کرن کا کوئی نہ کوئی عمدہ افسانہ شامل نہ ہو ان کا مجموعہ” بات کہی نہیں گئی ” ان کی بے پایاں تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے ۔عالم ذوقی ان کے معترف ہیں تو انہیں کسی اور توصیف کی حاجت نہیں میں خود بھی انہیں نمایاں ترین افسانہ نگاروں میں شمار کرتا ہوں”(۱)
اگر سیمیں کرن کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ ادب برائے زندگی کے نظریے کی قائل ہیں۔ کرن نے اپنے معاشرے کو سیاسی اور معاشرتی شعور دینے کی کوشش کی ہے۔ عورتوں کے مسائل ، بے روزگاری ، غربت، سیاسی حالات اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف مزاحمت ان کے افسانوں کا موضوع ہے۔
ہمارا معاشرہ مرد نواز معاشرہ ہے ۔ اس میں عورت کو اس کے بیشتر بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے اور بیٹے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار اور بیٹی کی پیدائش پر سبکی چھا جاتی ہے۔بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر بھی خاصی توجہ نہیں دی جاتی ۔ بیٹی کو محض ایک پرائی روح سمجھا جاتا ہے کہ جس نے شادی کر کے دوسرے گھر کی ہو جانا ہے اور بیٹے کو اپنا وارث اور جانشین تصور کیا جاتا ہے۔ سیمیں کرن نے اپنے افسانے ” ماہرہ کے نام خط ” میں اس حقیقت کو آشکار کیا ہے اور ہمارے معاشرے کے اس دوہرے معیار پر سخت تنقید کی ہے:
” مر مر کے بی اے کیا ہے میں نے ۔ وہ بھی اس لیے کہ کچھ منا سب رشتہ مل سکے۔ وہ سفید پوش طبقہ جو بیٹیاں نہیں پیدا کرتا صرف بیویاں پیدا کرتا ہے ۔ہاں کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہمیں پیدا ہونے کے بعد صرف ایک بات کی تربیت دی جاتی ہے ۔ہمیں تراشا خراشا جاتا ہے ایک انجانے سسرال میں جانے کے لیے ایک مرد جو ہمارا حاکم ہوتا ہے کہ ہمیں جیسے چاہے ٹوٹ کر بنائے اس لیے لچک کو ہماری فطرت ثانیہ بنا دیا جاتا ہے “۔(۲)
سیمیں کرن نے ایسے معاشرتی مسائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جن کا حل انسانی معاشرے میں ناگزیر ہے کہ اگر عورت اولاد سے محروم ہو تو معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا ۔ اس پر طنز اور فقرے کسے جاتے ہیں ۔ اسی طرح کا ایک افسانہ ” ادھوری عورت ” ہے۔ جس میں شگفتہ نامی کردار ہے۔ شگفتہ اولاد نرینہ سے محروم ہے اور نفسیاتی طور پر احساس محرومی کا شکار ہو چکی ہے۔ معاشرہ اس پر طنز کے تیر برساتا ہے حالانکہ اس میں شگفتہ کا کوئی قصور نہیں ۔اولاد اللہ تعالی کی نعمت ہے ۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ عورت جو اولاد سے محروم ہوتی ہے اسے معاشرے میں جائز مقام نہیں دیا جاتا جس وجہ سے عورت دباو کا شکار ہو کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے۔، افسانے کا اقتباس ملاحظہ کیجیے:
” اس کی اپنی تکلیف اور اذیت تو تھی ہی مگر جیسے طنز کے تیر و بھالے دنیا والے اس کے سینے میں اتارتے وہ اس کے ادھورے پن کو بڑھا دیتے ” ۔(۳)
اس افسانے میں ایک اور حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ عورت اور مرد کے رشتے کی مضبوطی ایک وجہ اولاد بھی ہوتی ہے ۔بے اولادی کی وجہ سے شگفتہ اپنے خاوند کے لیے توجہ کا مرکز نہ رہی لیکن جیسے ہی کچھ سالوں بعد شگفتہ امید سے ہوئی تو اسکا خاوند اس پر اپنی جان نچھاور کرنے لگا:
” اس نے جو ایک عرصے سے شگفتہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا وہ پھر سے اس کا خیال کرنے لگا تھا۔اسی طرح اس کی ناز برداریاں کرنے لگا ” ۔ (۴)
ہمارے معاشرے میں عورت کو کم فہم اور ناقص العقل تصور کیا جاتا ہے ۔ سیمیں کرن نے اپنے افسانے ” مولوی کی ڈاک “میں اس تصور کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔” مولوی کی ڈاک ” میں ایک مولوی صاحب کا کردار ہے جو اپنے مریدین کو خطوط کے جوابات دیتے ہیں جو کہ ان کے مریدین اپنے مسائل کے حل کے لیے انہیں بھیجتے ہیں ۔ مولوی صاحب ایک مرد کو عورت سے متعلق لکھتے ہیں کہ عورت ناقص العقل ہے تو جواب میں اس مرد کی بیوی جس کا نام زینب ہے مولوی صاحب کو لکھتی ہیں:
” کیا عورت مرد سے زیادہ صلاحیت ،عقل و فہم اور تعلیم سے آراستہ ہو، دینی فہم میں بھی اس سے زیادہ ہو، کیا وہ تب بھی ناقص العقل ہے؟ اگر وہ بہرحال ناقص العقل ہے تو تاریخ میں بے شمار خواتین بشمول عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس وہ مرد حضرات بھی دینی فہم پانے کے لیے آتے تھے ۔ کیوں آتے تھے بالفرض یہ مان لیا جائے کہ عورت ناقص العقل ہے تو کیا دنیا میں کوئی ایسی ناقص مشین ہے جس میں عمدہ ان پٹ ڈالا جائے اور عمدہ پروڈکشن حاصل کر لی جائے تو پھر مرد کی اپنی عقلی حیثیت مشکوک نہ ہو جائے گی “۔(۵)
اصل میں زینب کا کردار سیمی کرن صاحبہ نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے تخلیق کیا ہے جو زینب کے روپ میں عورت کے ناقص العقل ہونے سے متعلق سوالات اٹھاتی ہیں۔
سیمیں کرن نے اپنے افسانے میں عورت کے بارے میں معاشرے کے دوہرے معیار پر روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے افسانہ ” یہ تیری مزدور بندیاں ” میں نہ صرف عورت کے مسائل کو اجاگر کیا ہے بلکہ سوسائٹی کے منافقانہ اور غلط رویوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے ارد گرد بہت ساری عورتیں خیرات ڈھونڈتی پھرتی ہیں اور بہت ساری غربت کی وجہ سے جمعداری کی ڈیوٹی پر معمور ہیں ۔ اس پر کسی مرد کو کوئی اعتراض نہیں لیکن سفینہ کی طرح تعلیم یافتہ عورت اگر گھر سے جانے کے لیے نکلے تو وہی مرد جس کو چھیداں جمعدارنی پر اعتراض نہیں وہ سفینہ پر اعتراض اٹھاتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ عورت مضبوط ہو جائے اور مرد کے سامنے کھڑی ہو سکے ۔ افسانے میں وہ آصف کا دوست جو سفینہ کی جاب کرنے پر اعتراض اٹھاتا ہے اور جمعدارنی کو چھٹی نہ کرنے اور اس کو روز کام پہ آنے پر زور دیتا ہے۔ جسے سن کر سفینہ نے یوں جواب دیا:
” چلیں بھائی آپ نے یہ تو مانا کہ اس کا کام بہت اہم اور ضروری ہے ۔ویسے یہ بھی ورکنگ وومن ہے اور یہ کام والی ماسی چھیدا بھی ورکنگ وومن ہے وہ جو آپ کے کھیتوں میں کام کرتی ہے ۔یہ سب ورکنگ وومن لیکن کیونکہ یہ پڑھی لکھی نہیں اس لئے معاشرے کو ، اسلام کو، ان سے کوئی خطرہ نہیں”۔(۶)
سیمیں کرن نے اپنے افسانوں میں دوستی و محبت اور شادی میں فرق کو واضح کرنے کی سعی کی ہے کہ دوستی کے تقاضے الگ ہوتے ہیں اور شادی شدہ زندگی کے تقاضے الگ ہوتے ہیں۔ افسانہ ” اختر اور ستارہ” میں دو محبت کرنے والے جوڑے کی کہانی ہے جو آپس میں شادی کر لیتے ہیں۔ شادی کے بعد اختر ستارہ کو طلاق دے دیتا ہے ۔اس افسانے سے ہمیں یہ سبق واضح ہوتا ہے کہ محبت کی شادی اکثر ناکام ہوتی ہے سیمیں کرن نے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ محبت کی شادی اکثر ناکام کیوں ہوتی ہے وہ بتاتی ہیں کہ شادی سے پہلے محبوب آپ کا دوست ہوتا ہے اور دوستی میں سب کچھ چلتا ہے روٹھنا، منانا، ضد کرنا وغیرہ جب کہ شادی کے بعد مرد صرف آپ کا شوہر بن جاتا ہے ۔ محبوبہ دوست اور بیوی میں فرق ہے ۔دوست سے راز کی باتیں کی جا سکتی ہیں جبکہ شوہر سے بہت کچھ پوشیدہ بھی رکھنا پڑتا ہے:
” شوہر، شوہر ہوتا ہے دوست نہیں ،سکھی نہیں، اس سے بہت سی باتیں اور بھید چھپانے پڑتے ہیں، پردہ رکھنا پڑتا ہے”۔(۷)
ان کے افسانے ” اور حسن بھی ہار گیا ” میں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو ڈیٹ تو ہر مہنگے ہوٹل میں جاتے تھے اور لڑکا اپنی محبت کا والہانہ اظہار کرتا تھا اور شادی کے بعد یہ شدید محبت مانند پڑ گئی۔ شادی کے ایک عرصہ بعد جب عورت حاملہ ہوچکی تھی تو وہ دونوں کسی ہوٹل میں دکھائی دیتے ہیں ۔ لڑکے کے تیور بدلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیمیں کرن اس واقعے کو یوں تحریر کرتی ہیں:
” وہ لڑکا اب کسی کرخت سے حاکم کی مانند ا کڑا بیٹھا تھا چہرے کے تاثرات میں عجیب سی سنجیدگی و بے نیازی آگئی تھی” (۸)
افسانہ نگار نے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورت چاہے جتنی بھی اطاعت گزار اور وفادار کیوں نہ ہو لیکن وہ نازک مزاج ہوتی ہے اور اپنے خاوند کی تھوڑی سی بے رخی سے بہت دکھ پہنچا تی ہے۔افسانہ ” بھیڑیا جاتی ” کا مرکزی کردار فواد عالم ہے جس کے والدین یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے۔ وہ صدمے کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے اس کا رویہ بھی بدل چکا ہے۔ فواد عالم کی بیوی فواد عالم کی بے رخی سے پریشان ہو کر پوچھتی ہے کہ کیا کیا ماجرا ہے کہیں دوسری شادی تو نہیں کر لی :
” یہ اتنی اکتاہٹ ، بیزاری ، بے خوابی، تھکاوٹ، دل شکن لہجہ، یہ ساری علامتیں تو عشق کی ہیں کہیں کسی سے آنکھ تو نہیں لڑ گئی کہ بیوی بری لگنے لگی ہے”۔(۹)
اس افسانے میں افسانہ نگار نے ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو کو اپنے حالات سے پریشان نہیں ہونا چاہیے اپنے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
سیمیں کرن نے سماجی مسائل کو اپنے افسانوں میں موضوع بحث بنایا۔غربت ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ سیمیں کرن نے غریب لوگوں کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی مشکلات کو اجاگر کیا ہے ۔ انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ غریب آدمی کن حالات سے گزر تا ہے اور اسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غریب کس طرح اپنے حالات سے مجبور ہوکر اپنی خواہشات کا گلا گھونٹتا ہے ۔ سیمیں کرن کا افسانہ ” شناختی کارڈ ” میں غربت کے مسائل سے آگاہ کیا ہے کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کس طرح اپنوں کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اس افسانے میں مرکزی کردار الطاف خان پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بیوی سےجو کہ سخت بیمار تھی ،سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اور اپنی بیٹی کے جہیز کیلئے انتہائی پریشان ہے:
” بیوی کئی سال پہلے مر گئی تھی۔۔۔۔۔۔ بیماری کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے تھک گئی مگر علاج نہ ہونے کے باعث موت نے اس کو جلدی اپنے پر لطف دامن میں پناہ دی”۔(۱۰)
پاکستان میں مہنگائی ہر دور کا المیہ رہا ہے خواہ وہ مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوریت کا ۔مہنگائی سے ہر طبقہ خواہ وہ امیر ہو یا غریب، متاثر ہوتا ہے۔سیمیں کرن اپنے افسانوں میں مہنگائی کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اورحکمران طبقے کو خوب کوستی ہیں جنہیں غریب کے اس کے مسائل کی چنداں فکر نہیں۔ افسانہ ” اور حسن بھی ہار گیا” میں سیمی کرن نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے حسن اور جوانی کا ذکر کیا ہے اور انہوں نے اس مہنگائی کا رشتہ اپنے حسن و جمال کے ساتھ بھی جوڑنے کی کوشش کی ہے وہ کہتی ہیں کہ کیونکہ پچھلے زمانے میں مہنگائی نہیں تھی تو ان کے حسن کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا تھا اور وہ اپنی عمر سے دس سال چھوٹی دکھائی دیتی تھیں لیکن اب مہنگائی کے زور نے ان کا حسن بھی چھین لیا اور وہ اتنی خوبصورت دکھائی نہیں دیتی جتنی وہ تھی:
” یہ مہنگائی کا منہ توڑ جن جس نے اپنے جادوئی ہاتھ سے میرے شفاف بدن پر دراڑیں اور چہرے پر جھریاں ڈال دی ہیں۔ اس نے چند سال میں مجھے صدیوں کی مسافت طے کروا دی ہے میں جو اپنی عمر سے سال چھوٹی دکھتی تھی مگر اب یوں لگنے لگا ہے کہ کئی سو سال پیچھے چلی گئی ہوں” (۱۱)
مہنگائی کے ساتھ ساتھ سیمی کر ن نےاس سماج کے ایک اور بڑے مسئلے دہشت گردی پر بھی قلم اٹھایا ہے انہوں نے خود کش حملوں اور دھماکوں سے ہونے والی تباہی کو بھی بیان کیا ہے ۔ انہوں نے اس صورتحال کو یوں بیان کیا ہے:
” تو مائیرہ بی بی آج کا غریب اور متوسط طبقہ جو آٹے ، بجلی، گیس اور پٹرول بم سے مرنے کے بعد جو بچ کھچ جاتا ہے وہ خود کش دھماکوں میں ختم ہو جاتا ہے تو وہ اس سیاست میں کیا دلچسپی لے”۔(۱۲)
سیمیں کرن سیاست سے بھی گہرا لگاؤ رکھتی ہیں اور نظریاتی سیاست کی حامی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ہمارے ملک میں طاقت کا عروج ہے ۔سیاستدان طاقت کے بل بوتے آتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد اپنے کئے وعدوں سے پھر جاتے ہیں ۔ عوام کو سبز باغ دکھا کر اقتدار حاصل کرلیا جاتا ہے پھر عوام کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے ۔ سیمیں کرن ” مائرہ کے نام خط ” میں اس صورتحال کی بھرپور انداز میں عکاسی کرتی ہیں:
” مائرہ جب ہمارے ووٹ کو ہماری رائے کو صرف طاقت میں آنے کا ذریعہ بنالیا جائے اور پھر وعدے یہ کہہ کر ہوا میں اڑا دیئے جائیں کہ یہ حدیث نہیں تو اعتبار کہاں سے آئے گا “۔ (۱۳)
منافقت ، جہالت اور ہوس پرستی ان پڑھ لوگوں کا ہی المیہ نہیں بلکہ یہ تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے۔سیمیں کرن نے اس اہم موضوع پر بھی روشنی ڈالی ہے انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح غلط راستہ اختیار کر کے لوگ اپنی ہوس کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض لوگ معاشرے کی نظروں میں بظاہر اچھے دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا کردار کھوکھلا ہوتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ایسے کرداروں کی بھر مار ہے۔افسانہ’’ یہ کون لوگ ہیں‘‘ میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہمیں اقلیتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہمیں ہمارا مذہب سکھاتا ہے ۔ افسانہ ” بی جان ” کے ذریعے افسانہ نگار نے یہ درس دیا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ مثبت رویہ کس طرح رکھا جا سکتا ہے ۔لوگ جنت کی تلاش میں غیروں کے آلہ کار بن گئے ہیں اور اپنوں کا خون بہا رہے ہیں۔ افسانہ نگار پیغام دینا چاہتی ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہو سکتے کیونکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا :
” اور خدایا یہ کون لوگ ہیں ؟ اپنے ہیں؟ بیگانے ہیں؟ کیا کر رہے ہیں۔ جاوید ہذیانی انداز میں چیخنے لگا۔”،نہیں، نہیں یہ اپنے نہیں ہو سکتے یہ تو خون چوسنے والی جونکیں ہیں انہیں صرف خون چاہیے ۔ان کی کوئی دنیا ، کوئی مذہب نہیں، نفرت کا کوئی مذہب ہوتا ہے؟ یہ نہیں جانتے کہ ان کی داڑھیاں اور لبادے سب خون آلود ہو چکے ہیں یہ جنتوں کی تلاش میں نکلے تھے اور غیروں کا آلہ کار بن گئے۔”۔(۱۴)
افسانہ” کلموہی کہیں کی ” میں سیمیں کرن نے فخرالزمان کے کردار کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ امید کا دیا ہمیشہ روشن رکھنا چاہیے۔ فخر کا باپ دکاندار ہے اور فخر سے تعلیم چھوڑ کر دکان چلانے کو کہتا ہے۔ غربت کی وجہ سے فخرالزمان ریگولر تعلیم تو چھوڑ دیتا ہے لیکن پرائیویٹ طور پر اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی اپنے والد سے بالکل نہیں بنتی۔ فخر غربت کے باوجود ایم بی اے کر لیتا ہے اور اسے ایک پرائیویٹ کمپنی میں اچھی جاب مل جاتی ہے۔ مصنفہ نے ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغام دیا ہے کہ حالات جتنے بھی برے ہوں اپنی تعلیم کو کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اب فخر کو گاڑی اور گھر بھی مل جاتا ہے تو نہ صرف اپنے والدین کی والدین کی نظر میں اس کی قدر ہو جاتی ہے بلکہ پورا معاشرہ اسے افسر کہہ کر پکارتا ہے اب ہر کوئی فخر زمان کی عزت کرتا ہے۔
سیمیں کرن نے اپنی کہانیوں معاشرے کی بد عنوانیوں ، لوگوں کو دوہرے معیارات ،اور خواتین کے حقوق کے لیے نہ صرف آواز اٹھائی ہے بلکہ مرد کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ عورت بھی شخصی آزادی کی اتنی ہی حق دار ہے جتنا کہ مرد۔سیمیں کرن کی افکار اصلاحی ہیں اور انہوں نے معاشرے کے مسائل پر نہ صرف روشنی ڈالی ہے بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھاتی بھی دکھائی دیتی ہیں۔
سیمیں کرن کے افسانے” کمبل ” حرف ایک منظر” آخری تصویر آخری فیصلہ”، “سات گھروں کی دلہن” یہ ایسے افسانے ہیں جن کے پلاٹ پر بہت محنت کی گئی ہے اور ان کے پلاٹ کو رواں دواں انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ سیمیں کرن کے اکثر افسانے وسط سے شروع ہوتے ہیں ۔سیمیں کرن نے بغیر پلاٹ کے افسانے بھی لکھے ہیں لیکن ایسے افسانے ان کے ہاں بہت کم ملتے ہیں افسانہ ” ماہرہ کے نام خط” میں پلاٹ سرے سے موجود ہی نہیں اس افسانے کو خط کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ان کے افسانے ایک مضبوط اور منظم پلاٹ کے ذریعے تشکیل دیے گئے ہیں جن میں ان کی فنکارانہ صلاحیت جھلکتی ہے۔وہ کہانی کے بیان کے لیے مکالمہ کی تکنیک کا بھرپوراستعمال کرتی ہیں۔ ان کے افسانے فکری اور فنی ہر دولحاظ سے قابل ذکر اور پختہ ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ کومل شہزادی ، عہد حاضر کی فکشن نگار سیمیں کرن ایک مطالعہ، ایکسپریس اخبار، لاہور، ص۷ ، بمورخہ ۵ دسمبر ٫۲۰۲۰
۲۔ سیمیں کرن ، بات کہی نہیں گئی،فیصل آباد، مثال پبلیشرز، ٫۲۰۱۷ ص۱۵۲
۳۔ سیمیں کرن،شجر ممنوعہ کے تین پتے،فیصل آباد، زر نگار فاونڈیشن، ٫۲۰۱۵ ص۲۶
۴۔ ایضاُ ،ص ۲۷
۵۔ ایضاُ ،ص:۸۰
۶۔ سیمیں کرن،بات کہی نہیں گئی، ص:۸۲
۷۔ سیمیں کرن،شجر ممنوعہ کے تین پتے، ص۸۲
۸۔ سیمیں کرن ، بات کہی نہیں گئی،ص۹۳
۹۔ سیمیں کرن،شجر ممنوعہ کے تین پتے، ص۲۶
۱۰۔ سیمیں کرن ، بات کہی نہیں گئی،ص ۴۲
۱۱۔ سیمیں کرن،شجر ممنوعہ کے تین پتے، ص۱۹
۱۲۔ ایضاُ ،ص۲۲
۱۳۔ سیمیں کرن ، بات کہی نہیں گئی،ص:۴۴
۱۴۔ ایضاً،ص۷۰
***