سلیم سرور
شاخِ بُرِیدہ
خدایا کبھی قسمت پھر جائے کوئی ایک آدھ ملازم مل جائے یا پھر یہ کام ہی ختم ہوجائیں۔منظورالحسن ابھی سبزی،دودھ اور نمک لے کر واپس پہنچا ہی تھا کہ بیگم نے دوسرے کمرے سے نمودار ہوتے ہی کہہ سنایا ‘‘ہم سے چُوک ہوگئی تھوڑا دہی بھی لانا تھا’’۔منظور الحسن حکم سنتے ہی کسی حیل وحجت اور آلکسی کا تاثر چہرے پرلائے بغیر پاؤں سر پر رکھ کر الٹے قدموں بھاگ دوڑا۔بازار میں پہنچ کر دیکھا کہ جن باتوں کا شوروغوغا کچھ دنوں سے سنتے آرہے تھے شاید آج وہ باتیں عملی صورت میں سامنے آنے جارہی تھیں۔بوڑی گنگا کے مشرقی کنارے واقع ڈھاکہ شہر میں اونچی عمارت جو شیرِ بنگلہ نگر کی شان ہے ،نہ جانے کیوں آج اس قدر بھیڑ میں گری ہوئی ہے۔سینٹ جوزف ہائر سیکنڈری سکول والی گلی میں مڑتے ہوئے دیکھا کہ کچھ لوگ سیڑھی کی تلاش میں اِدھر اُدھر ٹکریں مارتے پھر رہے ہیں۔سکول والی گلی کی نکڑ پر پہنچ کر دیکھا کہ کچھ نوجوان سیڑھی لا کراونچی عمارت کی داہنی دیوار کے ساتھ لگادیتے ہیں،سیڑھی لگانے والوں کی بغل میں موجود ایک عمر رسیدہ شخص نے کہا‘‘سیڑھی کے تمام زینے اچھے طریقے سے دیکھ بھال لینا کیونکہ یہ سیڑھی مجھے وہی لگ رہی ہے جس نے پہلے دھوکہ دیا تھا’’۔پچیس،چھبیس سالہ نوجوان نے تڑپ کر کہا سیڑھی نے نہیں بلکہ آنکھوں نے دھوکہ دیا ہوگا۔عمررسیدہ بزرگ نے کمر کا رخ سیڑھی کی طرف کرتے ہوئے کہا‘‘آنکھیں تو سب کی تھیں مگر جو لوگ سیڑھی لگا کر پہلے پہل دیوار کے اس پارپہنچ گئے تھے وہ آج تک واپس نہیں آئے۔وہ ایسے لوگ تھے جنھوں نے راستہ صاف کرنے کی بجائے کچھ لوگوں کو سیڑھی کے زینوں پر ہی بٹھا دیا تھا تاکہ اُدھر والے واپس نہ آسکیں اور نیچے سے اوپر آنے کی کوئی جسارت نہ کرسکے۔ان سب نوجوانوں کے چہروں سے ٹپکتے ہوئے خون کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں تھا کہ یہ لوگ ماضی میں برسنے والے قہر کا بدلہ لینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑیں گے۔اس بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ لوگوں کا طوفان ہے یا لوگ کسی طوفان میں گھرے ہوئے ہیں۔شیر ِ بنگلہ نگر کی گلیاں کسی تجارتی منڈی کی سی افراتفری کا سماں پیش کر رہی تھیں۔منظور الحسن نے کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لیے پارلیمنٹ کے احاطے کے پچھواڑے کی جانب سے مڑ کربازار سے مطلوبہ اشیا خرید کر گھر جانے کا فیصلہ کیا۔بڑے بڑے ڈگ بھرتے ہوئے دودھ دہی کی ایک دکان میں داخل ہوا تو اس کے چہرے پر عجب سرشاری کے تاثرات دیکھ کر سترہ دسمبر کی صبح میری آنکھوں کے سامنے سے گھوم گئی۔اس سے پہلے کہ دکان دار سے منظور الحسن مکالمہ کرتا،نوجوانوں نے تھانہ نور محمد گلی میں داخل ہوتے ہی یہ نعرے لگانا شروع کردیے ‘‘اس کے مستعفی ہونے تک بند رہیں گے یہ دھندے’’۔دکان دار نے یہ آوازیں سنیں تو بغیروزن کیے دہی شاپر میں ڈال کر منظور الحسن کے حوالے کیا اور خود دکان کو تالا لگا کر پتلی گلی سے فرار ہوگیا۔
منظور الحسن کی بیگم اور بیٹی کٹچن میں مصروف ہونے کی بجائے ٹی وی لاؤنج کی زینت بنی بیٹھیں تھی۔منظور الحسن ان کو دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ ان کا یوں انتہائی سنجیدگی سے بےوقت ٹی وی کو وقت دیناتحیر سے خالی نہیں۔اُس کی آواز سنتے ہی بیٹا کمرے سے نکل کر ٹی وی لاؤنج میں آن سجا۔‘‘بابادیکھ لیا تماشا،میں نے اس دن ہی کہا تھا کہ مجھے تو آپ خاموش کروا رہے ہیں مگر یہ آواز دبے گی نہیں’’۔بیٹا تم بچوں والا ذہن رکھتے ہو،ایسا کرنے سے سرکاری املاک اورملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اس دوران جن نوجوان طلبا کی جانیں جائیں گے ان کا کیا ہوگا؟۔‘‘بابا انقلاب کے لیے جانیں دینا ہی پڑتی ہیں،انقلاب کے پودے کی آبیاری خون سے ہی ہوتی ہے’’۔بیٹا میں اسے انقلاب نہیں بلکہ خانہ جنگی کا نام دوں گا کیونکہ اس شوروغوغا نے دشمن کو زیر نہیں کیا اور کسی نئے نظریے کو متعارف بھی نہیں کروایا ،تو پھر یہ انقلاب کیسے ہوا؟‘‘بابا آپ حقیقت کو ماننے اورسمجھنے کے لیے تیارہی نہیں اس لیے آپ کے سامنے کوئی بھی دلیل کارگر ثابت نہیں ہوسکتی حالانکہ پچھلے ہی مہینے آپ دیکھ چکے ہیں کہ میرٹ پر ہونے کے باوجود بھی میرےنام کا کال لیٹر نکلنے کی بجائے کسی اپنے کو نوازدیا گیا۔یہ توایک گھر کی خبر ہے جو میرے ذریعے آپ تک پہنچی ہے ۔نہ جانے اس طرح کی کتنی مایوس کن خبریں ہمارے کانوں سے دور اور کتنی افسردہ تصویریں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ہم نے سکول کی پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی کی آخری کلاس تک خواب ہی بنے ہیں اور یہ ظالم اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں ہی کو دے والی ضرب المثل کے مصداق مخصوص دائرے سے باہر نکل ہی نہیں پاتے۔بابا اب کی بار اس قدیمی بت کو پاش پاش کرکے ہی دم لیں گے’’۔منظور الحسن کی اگلی دلیل ابھی منہ میں ہی تھی توممتاز غصے میں اٹھا اور کھڑاک سے دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔منظور نےبیگم کو کہا‘‘ تمھیں ٹی وی کے ذریعے باہر کے حالات کا اندازہ ہوچکا ہے سو ممتاز کو روکنا چاہیے تھا’’۔‘‘آج کوئی بھی ماں اپنے ممتاز کو نہیں روکے گی’’۔منظور کو خود پر حیرت ہورہی تھی اور تاؤ آرہا تھا کہ اگر اس نے اُس وقت بھائی نذیر کی بات مانی ہوتی تو اُس پرامن خطے میں سکون کی زندگی گزار رہا ہوتا اور اس کے بیوی بچے بھی امن کی بھاشا سیکھ چکے ہوتے۔
منظورالحسن نے بیٹی کو پکارا، بیٹی! مجھے اپنے چچا جان کو فون تو ملا کردو میں اُن سے بات کرنا چاہتا ہوں،کل شام سے ممتاز کی کوئی خبر نہیں اور میرا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔بیٹی بولی ‘‘ابو آپ کو پتہ ہے آپ سرکاری ملازم ہیں یوں سرکاری معاملات پر چچا جان سے بات کرنا مناسب نہیں اور دوسری بات پہلے بھی آپ کی کال ریکارڈ ہونے کی وجہ کئی بار آپ کو کورٹ کے چکر کاٹنے پڑے ۔خیر میں کال ملادیتی ہوں مگر ملکی حالات پر کوئی بات نہ کرنا۔ابو ابھی چچا جان نے کال کاٹ دی ہےمیں رات کودوبارہ فون لگا دوں گی آپ بات کرلینا’’۔منظور الحسن نے باطنی کرب کو دور کرنےکے لیے ٹی وی لاؤنج میں ایک دو چکر لگائے اور پھر صدر دروازے سے ہوتا ہوا باہر نکل گیا۔منظور الحسن شیرِ بنگلہ نگر کی سڑکوں پر پچاس برس سے زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد بھی ایک ایسے مجرم کی طرح چل رہا تھا جس کوپہچان لیے جانے پر گولی کا حکم ہو۔منظور الحسن کی چال کو دیکھ کر اس بات کااندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی خبر لینے کے لیے جاتے ہوئےخود کو غیر محفوظ محسوس کررہا ہے ۔منظورالحسن سڑک کے دونوں اطراف اشیا کوگھورتے ہوئے چلتاجارہا ہے۔ایسے لگ رہا تھا کہ سڑک کے کنارے کھڑےدرختوں سے بھی ممتاز کا پوچھ رہاہے۔تین گھنٹے تک اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد منظور الحسن گھر لوٹتا ہے۔بیگم اور بیٹی کے اصرار کے باوجود بھی کھانا کھانے سے انکار کردیتا ہے۔منظورالحسن کی بیگم کو یہ حرکت بہت ناگوار گزرتی ہے اور وہ غضب ناک ہوتے ہوئے‘‘پچاس برس پہلے تم نے خود انقلاب میں کس طرح حصہ لیا تھا اُس وقت کو بھول گئے ہو؟ یاد کرووہ دن جب ہم ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے ۔بی ایس سی کے دوسرے سال ہمارامعاشقہ شروع ہوا تھا اور تم میرا ہاتھ پکڑ کر بوڑھی گنگا کے کنارے لے جاتےتھے۔گنگاگواہ ہےتم نے کہا تھا کہ شاید تمہارا حسن اور ساتھ میرا منتظر تھا اسی لیے میں نے بھائی ،والدہ اور خود حاصل کردہ پاکستان کی محبت کو قربان کردیا ہے۔میرےحسن کو تم زلیخا سے برتر قرار دیاتھا اور میرے ہونٹوں کی رنگینی کا ہر پھول کو مقروض ٹھہرایا تھا۔گنگا کے پانی میں لٹکے ہوئے میرے پاؤں کو چاندی کا منبع قراردیا تھا۔میں نے کہا تھا میں حسین نہیں ہوں مگر وفادار ہوں اور تم حسین ہو مگر وفادار نہیں ہو۔تم نے اپنی وفاداری کی دلیل کیا دی تھی؟۔بوڑی عورت کا واقعہ بھی تمھیں یاد ہوگا:وہ تھی تو بنگالن مگر محبت پاکستان سے کرتی تھی اور تم نے اس کا سامان اٹھا کر اپنے سامان کے ساتھ گاڑی میں لوڈ کیا اور اسے ہرطرح کے تعاون کا یقین دلایا۔اس کا بیٹا جو ساتھ آنے پر رضا مند نہیں ہوا تھا تو تم نے بڑھیا کو کہا تھا تم مجھے اپنا بیٹا مان کر ساتھ چلو،وہاں پر اپنا دیس اور اپنے شیخ صاحب کی حکمرانی ہوگی اور آج اگر ممتاز اندرونی انقلاب کے لیے گیا ہے تو تمہیں ناگوار گزر رہا ہے’’۔بیگم کی بات سنتے ہی منظور الحسن کا رنگ متغیر ہوگیا اور حالت مزید غیر ہوگئی۔بیگم اٹھ کرکٹچن کی طرف چلی گئی۔
منظور الحسن کی بیٹی فون کے ساتھ نمودار ہوئی‘‘بابا چچا جان کی کال ہے’’۔منظورالحسن نےدعا سلام سے بےنیاز ہوکر آؤ دیکھا نہ تاؤ اور دھاڑیں مار کر روتے ہوئے لمحہ بھر میں ممتاز کا گھر سے غائب ہونے کا قضیہ سناڈالا۔نذیر کی نہ تھمتی ہوئی ہچکی کو سن کر منظور الحسن بولا‘‘ویر تم سوچو مجھ پر کل سے کیا بیت رہی ہوگی؟’’۔نذیر نے حوصلہ باندھتے ہوئے ‘‘بھائی ! بیٹی کے اصرار پر میں فیملی کو لے کر بلوچستان سیر کے لیےآیا ہوں اور یہاں بلوچی اور پنجابی کا مسئلہ آگ پکڑا ہوا ہے۔کل سے ایک پنجابی آفیسر کے ایما پر ایک ہوٹل میں چھپے ہوئے ہیں ۔باہر نکلنے کو دل ہی نہیں چاہ رہا:بیٹی ،نواسےنواسیاں اور پوتے پوتیاں یوں سہمے ہوئے ہیں جیسے کسی نے ان کے سینے پر گرز مار مار کر ان کی سانسوں کو اندر ہی دبا دیا ہے۔کسی بچے نے رات سے کچھ نہیں کھایا پیا۔بیگم کا اصرار ہے ہم آج ہی واپسی کے لیے نکلیں مگر یہاں سے باہر نکلنا ناگہانی آفت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔اگر یہاں سے نہ نکلے تو شاید بچے دم توڑ جائیں کیونکہ ان کی گھبراہٹ ناقابلِ بیان حد تک بڑھی ہوئی ہے’’۔منظورالحسن کی گھگھی بیٹھ گئی،بیگم اور بیٹی پانی کے گلاس اٹھا کر منظور الحسن کے منہ پر چھینٹے مارنے لگیں جیسے اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کی جارہی ہو مگر منظور الحسن نے صاف آواز میں جواب دیا ‘‘میرے حواس بجا ہیں مگر روح شاید دم توڑنے کے قریب ہے۔یہ کیسی آفت ہے جس نے مغرب اور مشرق کےخوابوں کو یک بارگی میں تلپٹ کردیا ہے!منظور الحسن کی بیگم بولی‘‘یہ وہی قرض ہے جو تم برسوں سے جعلی نوٹوں کے ساتھ ادا کر رہے ہو اور اب تمھارا بیٹا حقیقت میں اصل نوٹوں کے ساتھ قرض چکانے گیا ہے تاکہ باپ کے سینے کا ہی نہیں بلکہ دھرتی کا بھی بوجھ ہلکا ہوجائے’’۔منظور الحسن نے بیگم کوکھاجانے والی نظروں سےدیکھا اور سامنے سے ہٹ جانے کوکہا۔بیگم کے اندر صداقت اور وفاداری کسی مندر کے سنکھ کی طرح بج رہی تھی سو وہ کڑک دار آواز میں بولیں‘‘آم کے پیڑ سے املی نہیں نکلے گی،تم نے بڑھیا سے اُس کا بیٹا جدا کیا تھا اب اپنی باری مغموم اور نڈھال ہوئےپڑے ہو’’۔منظور الحسن بیگم کو صلواتیں سناکر بیٹی سے موبائل لےکر باہر نکل گیا۔
منظورالحسن نے اپنے بھائی نذیر کا نمبر ملالیا۔‘‘بھائی دراصل گھر میں کھل کراس موضوع پر بات نہیں کرسکتا تھاکیونکہ رضیہ مجھ پر شک کرتی ہے ۔وہ سمجھتی ہے کہ میرے دل میں پاکستان کی محبت دوبارہ سے جاگ اٹھی ہے ’’۔نذیر نے جواب دیا ‘‘اب اس مٹی سے وفا اپنی ہڈیوں میں بسا لو کیونکہ وفا زندہ رہتی ہے اور انسان مرجاتا ہے’’۔‘‘بھائی جس مقصد کے لیے میں یہاں آیا تھا وہ بھی پورا نہیں ہوا،مستقبل میں پورا ہوتا ہوا نظر بھی نہیں آرہا’’۔منظور الحسن کال کاٹ کرمتجسس اور متشکک طبیعت لے کر اپنے بیٹے کی تلاش میں پارلیمنٹ کی بلڈنگ کی طرف چل پڑا۔پارلیمنٹ کی بلڈنگ کے خاص ہستی سےخالی ہوجانے کے باوجود بھی نوجوانوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔اس بھیڑ کو دیکھ کرمنظورالحسن کی آشا جاگی کہ ممتاز بھی اِدھر ہی ہوگا۔منظورالحسن نے ممتاز کے دو،تین ہم سبق دیکھے تو منظورا کا پارا چڑھ گیا‘‘اوئے !حرامیو،تم لوگوں نے میرے بیٹے کو اپنے جیسا بنا لیا ہے اب اسے گھر کی فکر ہے نہ اپنے والدین کی ورنہ وہ ایسا تھا کہ امی کی اجازت کے بغیر گھر سے نہیں نکلنا تھا۔ممتاز کی طبیعت میں اتنا خناس تم لونڈوں نے بھر دیا ہے کہ اب وہ صرف انقلابی زندگی کو ہی زندگی سمجھتا ہے۔ممتازاپنی امی کوکہہ رہا تھا کہ غلامی کی زندگی میں کفر اورلادینیت سیلاب کے پانی کی طرح در آتے ہیں اور ایسی ریاستوں میں عوام کو پسِ پشت ڈال کر خواص کے مقبولِ نظر فیصلے کیا جاتے ہیں۔میں نے اپنے بیٹے کو بھی یہی سمجھایا اور تم لوگ بھی سن لو کہ ریاستی اُمور میں مداخلت کرنا عقلمندی نہیں بلکہ حماقت کا ثبوت ہے۔اس لیے میں کہتا ہوں تم لوگ اس کام سے بعض آجاؤ ورنہ میں بیٹے سمیت آپ سب کے خلاف کورٹ میں جاؤں گا۔جمگھٹے میں سے تین چار نوجوان اچھل کر منظور الحسن کے ارد گرد دائرہ بنا کردیش دروئی کے نعرے لگانے لگے،بتا بڈھے‘‘کس کی نمائندگی کرتا ہے اور کتنے پیسے لیے ہیں اس کام کے لیے؟’’۔دوسرا بولا‘‘اوئے بالی! یہ بڈھا ہمارا ہے ہی نہیں اس کی شکل دیکھو ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ملتی ہے؟’’۔دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان منظور الحسن کو گھسیٹ کر بھیڑ سے دور لے آئے۔تھوڑا زدو کوب کرنے کے بعد موبائل چھین کردیکھنے لگے‘‘اوئے بالی اس کے نمبر پر پاکستان سے کالیں آئی ہوئی ہیں’’۔منظور الحسن کی عمر کا لحاظ کیے بغیر اس کی خوب درگت بنائی۔دو، تین کریانے کی دکان والے بھاگ کر آئے‘‘اوئے ظالمو! اقتدار لینے سے پہلے ہی درندے بن گئے ہو!یہ برسوں سے ادھر ہی رہتا ہے اس کا پوری چائپتر دیکھ لو’’۔منظورالحسن لہولہان،پھٹے ہوئے کپڑے اور جوتوں سے محروم گھر پہنچا توبیٹی نے چلانا شروع کردیا اور بیگم تحمل سے بولی‘‘محبِ وطن لوگوں کی راہ میں آؤ گے تو ایسا ہی حال ہوگا ،چالیس برس سے میں سمجھا رہی ہوں کہ اپنے الفاظ سے زیادہ اعمال سے ثابت کرو کہ تم اب ماضی کا حصہ نہیں رہے اور حال میں مستقبل کے لیے جی رہے ہو’’۔منظورالحسن ذرا سانس بحال کرکے بولا‘‘مجھے پہلے دن سے ہی شک رہا ہے کہ تم میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی میری نہیں ہو جس طرح میں ماضی کے ساتھ رہ کر بھی ماضی کا نہیں بناتھا’’۔بیگم بھی شاید اپنے سارے اوزار تیز کرکے بیٹھی ہوئی تھی اور سارے اسی موقع پر استعمال کرلینا چاہتی تھی،خفگی کم کرتے ہوئے بولی‘‘اب تم سب کچھ جان ہی چکے ہوسو خمیازہ بھگتنے سے بہترہے ازالہ کرو’’۔منظور الحسن بھی کوئی وار اپنے تن پر سہنا نہیں چاہتا تھا سو بےباک ہوکر بولا‘‘میں سزا وجزا کے دور سے بہت دُور نکل آیا ہوں اب جہاں پہنچ آیا ہوں یہاں صرف فیصلے ہوتے ہیں۔بیگم،بیٹی اور منظور الحسن تینوں الگ الگ سمتوں میں موجود کمروں کی طرف روانہ ہوگئے۔
منظور الحسن کی بیٹی روتی چیختی ہوئی کمرے سے نکل کر صحن میں آئی تو اس کی آواز سے اس کی والدہ اور ابو بھی بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے آموجود ہوئے۔منظور الحسن کے بولنے سے پہلے بیگم بولی‘‘شکرہے تیرا مالک میرے بیٹے کو ایک بڑے انقلاب میں شہادت عطافرمائی’’۔منظورالحسن تڑپ کر بولا ‘‘تیرا منہ کالا میرے بیٹے کو مروانے پر تلی ہوئی تھی آخر مروادیا!’’۔بیٹی گلا صاف کرنے کی ناکام کوشش کے بعد مبہم سی آواز میں بولی ‘‘ابو چچا جان کا فون’’۔منظور الحسن نے لپک کر فون بیٹی کے ہاتھ سے لیا‘‘بھائی خیر تو ہے پلیز بولیں نا،بھائی خیر تو پلیز بولیں نا،آپ کو ممتاز کی کوئی خبر تو نہیں مل گئی؟بھائی نذیر پلیز رونا بند کریں کچھ تو بولیں،بھائی پلیز کچھ بولیں ورنہ میرا کلیجہ پھٹ جائے گا’’۔فون کا لاؤڈ سپیکر آن تھا بیٹی اور باپ دونوں چلا چلا کر نذیر سے کچھ پوچھ رہے تھے مگر دوسری طرف سے ہچکیوں کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ایک منٹ بعد ایک باریک سی آواز نمودار ہوئی‘‘مامو ںمیں آپ کا بھانجا اشتیاق ہوں’’۔منظورالحسن دیوانہ وار بولا‘‘جی بھانجے میں قربان جاؤں،بتاؤ نا کیا بات ہے؟جلدی کچھ بول میرا کلیجہ پھٹ رہا ہے’’۔کوئی تو ایسی بات تھی جس نے پوری فیملی کوہلکان کیا ہوا تھا ۔اشتیاق نے ہمت کرکے کچھ بولنے کی کوشش کی‘‘ماموں ماموں میں۔۔۔ میں میں۔۔۔’’جب منظور الحسن کے پلے کچھ نہ پڑا تو وہ قریب قریب چِلا کربولا‘‘اوئے کچھ تو بول ؟ بھائی سے بات کروا’’۔اب کی باراشتیاق نے پورا واقعہ سنانے کے لیے ہمت جوڑ لی تھی‘‘ماموں جی ، نذیر ماموں لوگ صبح جب کوئٹہ سے نکلے تو ایک گاڑی ان کا پیچھا کر رہی تھی اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھی۔ماموں لوگوں کو اس بات کا علم کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں داخل ہوکر ہوا جب وہ بار بار گاڑی کو آگے لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ماموں نے قریب ترین علاقے ڈیرہ غازی خان کی پولیس کو بھی کال کی مگر کوہ سلیمان کے اس ویرانے میں پولیس یا کسی اور کے پہنچنے سے پہلے ان لوگوں نے ماموں کی گاڑی پر دھاوا بول دیا اور پیچھے سے آنے والی مہران کارمیں موجود پانچ افراد بھی ان کی درندگی کی نظر ہوگئے’’۔منظورالحسن نے چیخ کر پوچھا پولیس اور تم لوگ کہاں مرگئے تھے؟۔اشتیاق کے ہاتھ سے ایک پولیس والے نے فون لے کر منظورالحسن سے بات کی‘‘جناب !آپ اپنا تعارف کروائیں ؟’’۔منظورالحسن کے تعارف کے بعد پولیس والے نے کہا‘‘نذیر صاحب کی کال ہمیں موصول ہوئی تھی مگر ہمیں ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو تک پہنچتے پہنچتے ایک گھنٹہ لگ گیا مگر تب تک یہ حادثہ رونما ہوچکا تھا’’۔اشتیاق نے پولیس والے سے فون واپس لے کر منظورالحسن سےبات شروع کردی‘‘ماموں نے ہمیں حالات کی پیچیدگی کے متعلق تھوڑی دیر پہلے ہی آگاہ کیا تھا ۔میں ،رومان اور شکیل پولیس والی گاڑی کو ساتھ لے دفاع کے لیے ملتان سے نکل کر مظفر گڑھ پہنچے تھے کہ پولیس نے کال کرکے حادثے کی خبر دے دی’’۔منظورالحسن نے اشتیاق کو یقین دلایا کہ تم خود کو تنہا مت سمجھو میں بہت جلد تمہارے پاس آرہا ہوں اور پھر وہاں پہنچ کر اُن شرپسندوں کےخلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔
منظور الحسن کو پہلے بھی کئی بار سرزنش کی جاچکی تھی کہ سرکاری امور کو یوں دوسرے ملک نجی طورپرشئیر کرنا قانوناً جرم ہے مگر اب کی بارصورت حال غیر یقینی اور حالات کےمتزلزل ہونے کی وجہ سے اس کی کال ریکارڈ اور ٹریک کرلی گئی تھی۔منظورالحسن کے کال ڈراپ کرنے کے چند لمحوں بعد ہی کھڑاک کھڑاک سے دروازہ بجنے لگا۔دراوزہ کھلتےہی کچھ نوجوان چہرے پر ماسک پہنے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور منظورالحسن کی فیملی کو کمروں میں بند کرکے اس کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔چہرے پر پھینکے گئے تیزاب نے شناخت کوایک حد تک معدوم کردیا تھا۔