عطاء الرحمٰن
یونیورسٹی آف دہلی
شادعظیم آبادی کی شاعری
میرنہیں رہے۔غاالب بھی داغ مفارقت دےگئے۔اردو عزل کی دنیاسنسان پڑی ہوئی ہے۔ میروغالب نےغزل کے جس پودے کواپنے خون جگرسےسینچاتھااس پرمردنی چھائی ہوئی ہے۔ پرسان حال تودوراس پرتیشہ چلایاجارہا ہے۔اردوشاعری کومغربی نکتئہ نظرسےدیکھاجارہاہے۔ سرسیداوران کےرفقاءکی نگاہ میں اردوشاعری ناقص اورفکارہ ہے۔
کیونکہ جوادب مقصدیت سےخالی ہواس کی کوئی اہمیت اورافادیت نہیں۔ اردوشاعری میں بھی باالخصوص غزل ملامت کانشانہ ہے۔ حالی غزل اورقصیدہ کےسینہ سپرہیں۔ مولانامحمدحسین آزادلاہورمیں ایک مشاعرےکی داغ بیل ڈال چکےہیں۔ جہاں مختلف موضوعات پرنظمیں کہی جاتی ہیں۔ ان سب نتیجہ یہ نکلاکہ نظم کی کھیتی لہلہانےلگی اورغزل حاشیہ پرچلی گئ۔ لوگوں کایہ خیال تھاکہ غزل اب اپنی آخری سانسین گن رہی ہے۔اوریہ آخری شب کاچراغ ہے۔جوبجھناہی چاہتاہے۔
مایوسی کی ایسی ہی ایک سخت گھڑی میں شادعظیم آبادی امید کی کرن بن کرآئے۔ غزل نےان کی نداسنی نیند سےجاگی اوراٹھ کھڑی ہوئی۔ لوگوں کی قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں۔ یہ شاد کاہی کارنامہ ہےکہ اردوغزل ترقی کےنئےنئےمدارج طےکررہی ہے۔وہ قدیم اورجدید اردوغزل کےبیچ ایک خوبصورت کڑی ہیں۔ غالب نےاردوغزل کوحسن وعشق کےپامال راہوں سےہٹاکراسےمختلف موضوعات سےآشناکرایااورفکر کی ایک نئی راہ آنےوالےشاعروں کےلیےچھوڑی۔
لیکن عام غزل گوابھی تک پرانی راہوں کےہی ہمسفرتھےاس لیےان کی غزلوں میں دل ودماغ کومسخرکرلینےکی قوت نہیں تھی۔شادعظیم آبادی ایک نئےلب ولہجہ کےساتھ غزل کی دنیامیں قدم رکھتےہیں۔انہوں نےفرسودہ مضامین کوہاتھ لگانےسےگریزکیا۔پامال راہوں پرچلنےسےاجتناب کیا۔
وہ ایک ذہین دماغ رکھتےتھےاورایک احساس دل ان کےسینےمیں دھڑکتارہتاتھا۔ یہی وجہ ہےکہ ہم ان کی شاعری میں زندگی کےمختلف تجربات کوجلوہ گرپاتےہیں۔اس طرح سےشاد کی غزل موضوع اوراسلوب دونوں کےاعتبارسےمختلف تھی۔
شاد کی ایک بڑی خوبی یہ ہےکہ انہون نےکبھی بھی فحش اورعریاں مضامین کواپنےاشعارمیں جگہ نہیں دی۔ حالانکہ یہ وہ وقت تھاجب رکیک اورعریاں مضامین کوباندھنےکاعام چلن تھا۔ مثال کےطورپر۔۔۔۔
حوروں کاانتظارکرےکون حشرتک
مٹی کی بھی ملےتورواہےشباب میں
ذراشام ہوئےتوہم رنگ لائیں
اندھیرےمیں لوٹیں گےجوبن کسی کا
انہوں نےغزل کوپاکیزگی کی راہ دکھائی۔ ہرخیال کوسنجیدگی،وقاراورمتانت کےساتھ پیش کیا۔ جہاں دوسرےشعراءمحبوب کےاعضاءوجوارع کابیان عامیانہ اورشوقیانہ اندازسےکرتےہیں اوربوسہ بازی کی حدسےگزرکرزور وزبردستی پراترآتےہیں۔وہاں وہ ان سب سےدامن بچاکرگزرجاتےہیں۔غالب جیساعظیم المرتبہ شاعربھی اس وباسےنہیں بچ سکا۔ان کاایک شعرہے۔
غنچہ نا شگفتہ تودورسےمت دکھاکہ یوں
بوسہ پوچھتاہوں میں منہ سےمجھےبتاکہ یوں
ان سب سےالگ ہٹ کرشادکی غزلوں کامطالعہ کیجئےتوجذبات کی مدھم آنچ سےآپ بچ نہیں پائیں گے۔ایک منفرداندازبیاں،ایک دلفریب طرزاظہارآپ کی محسوسات کوزبان دینےکےلیےتیارہے۔
بوسئہ سنگ آستاں مل نہ سک ہزارحیف
آگےقدم نہ بڑھ سکاہمت سرفرازکا
وہ زلفیں بےمحابہ آئینےسےجھک کہ کہتی ہیں
کہاں دیکھاابھی اوآنکھ والےپیچ وخم میرا
محبت میں شاد دل کے تڑپنے کوتسکین کاسامان سمجھتےہیں۔
خموشی میں محبت اوربھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اےدل تڑپنے سےذرا تسکین ہوتی ہے
اردو شاعری میں ایک فرسودہ اورپامال موضوع رہاہے۔اس موضوع کوکامیابی کےساتھ برتنےمین سب سےپہلانام ریاض کا آتاہے۔مگروہ بھی بقول عطاکاکوی اعتدال کی راہ سےبھٹک جاتےہیں۔ داغ کابھی وہی حال ہےان کاایک شعرہے۔
انکار مئےکشی نےمجھےکیامزہ دیا
سینےپہ اس نےچڑھ کہ خم مئےپلادیا
مگرشاد کےمیخانےکاحال مختلف ہے۔آداب مجلس اورساقی کااحترام ملحوظ خاطرہے۔اپنےوقارکابھی خیال رکھتےہیں۔چند اشعاردیکھئے۔
بچاکےہاتھ الگ سےالگ سبولیتے ہیں
یہ کیامجال کہ ساقی کاہاتھ چھولیتے
طلب کرتےنہیں ساقی سےگوافرادہےمئےکی
زبان روکےہوئےہیں رنگ محفل دیکھنےوالے
لےکےخودپیرمغاں ہاتھ میں مینا آیا
میکشوشرم کہ اس پربھی نہ پینا آیا
بادہ خواروں کواگرشراب ملنےمیں تھوڑی دیرہوتو ان پرکیاگزرتی ہےاس کااندازہ ہم اورآپ سب کوہے۔لیکن ساقی ایسی حالت کی نہایت دلکش تصویرکشی کرتےہیں۔
کہاں سےلاؤں صبرحضرت ایوب اےساقی
خم آئےگا،صراحی آئےگی،تب جام آئےگا
اس طرح سےدیکھتےہیں کہ شاداس پامال موضوع کوبہت خوبصورتی اورہنرمندی کےساتھ باندھے ہیں۔ جہاں دوسرےشعراء کےپاؤں ڈگمگاجاتےہیں وہیں وہ ان دشوارگزارواديوں سےآسانی سےگزرجاتےہیں۔ ان کےاشعارزندگی کی حقیقتوں کوآشکاراکرتےہیں۔انہوں نےزندگی کوجن ذہنوں سےدیکھااسےغزل کےذریعہ لوگوں تک پہنچادیا۔اس مقصد میں وہ کامیاب ہوئےہیں۔
درحقیقت شاعری شاعرکےجذبات کاعکاس ہوتی ہےاوراگرشاعراپنےفن کےذریعہ لوگوں کےدل ودماغ پروہی اثرقائم کرنےمیں کامیاب ہوجاتاہے۔ جواس نےمحسوس کیاہےتو اسےکامیاب فنکار کہاجاتاہے۔
تمناؤں میں الجھایاگیاہوں
کھلونےدےکہ بہلایاگیاہوں
لحدمیں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سےاٹھوایاگیاہوں
یہ بزم مئےہےیاں کوتاہ دستی میں ہےمحرومی
جوبڑھ کرخوداٹھالےہاتھ میں مینا اسی کا ہے
شاد کی شاعری کاایک خاص وصف یہ ہےکہ وہ دبستان دہلی کی سادگی پرجان چھڑکتےہیں۔ان کےیہاں تصنع اوربناوٹ نام کو نہیں لیکن ان کےاشعاردبستان لکھنئو کی رنگینی اوررعنائی سےاچھوتےنہیں ہیں۔ اس طرح سےان کی شاعری دونوں دبستان کاامتزاج ہے۔زبان وبیان کےان دومختلف دھاروں کوایک جگہ جمع کرنا آسان کام نہیں تھا۔ ایک پختہ ذہن اورپختہ کارفنکارہی اس کارنامےکوانجام دےسکتاتھا۔مثال کےطورپرچنداشعاردرج ہیں۔ :
عطاکرےجیسےتومئےوہ اٹھ کےلےساقی
ادب شناس کولازم ہے احترام تیرا
ڈھونڈوگےہمیں ملکوں ملکوں کہ نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیرہےجس کی حسرت وغم اےہم نفسووہ خواب ہیں ہم
مرغان چمن کوپھولوں نےاےشاد یہ کہلابھیجاہے
آجاؤجوتم کوآناہو،ایسےمیں،شاداب ہیں ہم
یہاں دل پربنی ہےتجھ سےغم خوارکیاالجھوں
یہ کون آرام ہے،مرجاؤں تب آرام آئے گا
دیکھاکئےوہ مست نگاہوں سےباربار
جب تک شراب آئے کئی دورہوگئے
کون ظالم باغباں تھااے چمن
جائےگل کانٹےجوتجھ میں بوگیا
دیکھاآپ نےان کےکلام میں کتنی سلاست اورروانی ہے۔ نہایت شیریں ومنتخب الفاظ استعمال کرتے ہیں۔لطف یہ ہےکہ روزمرہ وعام فہم الفاظ مین ادقّ سےادق مضامین نہایت کامیابی کےساتھ نظم کرجاتےہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیدسلیمان ندوی رقم طرازہیں۔” شاد کواس دورکا میرکہا جائےتوبالکل بجاہے” انہوں نے پرانی ترکیبوں اورہندی کےالفاظ جواردومیں پوری طرح گھل مل گئےہیں،اسےترک نہیں کیاہے۔ ہندی فضا کا رکھ رکھاؤاس مستزاد میں دیکھیں۔
کالی کالی وہ گھٹائيں وہ پپیہوں کی پکار
اب کےساون بھی ہمارایونہی رونےمین کٹا
دھیمی دھیمی وہ پھوار
کیاکہیں چپ رہنے کےسوا
یہ کہا جاتا ہےکہ شادکی غزلوں میں میرکااثر،غالب کی بلندخیالی،اقبال کی رفعت اورگہرائی نہیں ملتی لیکن ان کی متانت اورسنجیدہ بیانی غزل گوئی میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ انہوں نے اردوشاعری کوایک نئی راہ دکھائی۔
روایتی طرزشاعری اوراندازفکرسےانحراف کیااوروسیع النظری اوربلند خیالی سےاردوشاعری خصوصاغزل کےدامن کووسیع کیا۔ یہاں تک کہ پروفیسرکلیم الدین احمد کہ بیٹھے۔” اردو غزل کی ثلیث میر،غالب، اورشاد ہیں۔
***